منہاج القرآن ویمن لیگ کے تنظیمات کیمپ سے محترم صاحبزادہ حسین محی الدین قادری کا خطاب

نازیہ عبدالستار

منہاج القرآن ویمن لیگ کے زیر اہتمام مرکزی سیکرٹریٹ میں تنظیمات کیمپ منعقد ہوا جس میں ملک بھر سے 130 تنظیمی عہدیداران نے شرکت کی اس موقع پر پہلے روز کی نشست میں محترم صاحبزادہ حسین محی الدین قادری نے تفصیلی خطاب فرمایا جس کا خلاصہ نذر قارئین کیاجا رہا ہے۔ (منجانب! ماہنامہ دختران اسلام)

بسم الله الرحمن الرحيم

مُّحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّهِ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ.

(الفتح، 48 : 29)

’’محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اﷲ کے رسول ہیں، اور جو لوگ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی معیت اور سنگت میں ہیں (وہ) کافروں پر بہت سخت اور زور آور ہیں‘‘۔ (ترجمہ عرفان القرآن)

یہ آیت کریمہ کا ایک حصہ ہے اس کے شروع میں تین الفاظ ہیں بلکہ تین درجے ہیں۔ محمد، رسول، اللہ۔ یوں تو تینوں الفاظ ایک ہی ذات کی طرف اشارہ کرتے ہیں جو حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات ہے۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب ذات ایک ہے تو اس کو یوں تقسیم کر کے بیان کرنے کا فائدہ کیا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم درحقیقت ذات کا نام اور رسول اللہ منصب کا نام ہے۔ ذات کے ساتھ تعلق رکھنے کے لوازمات اور ہوں گے اور منصب کے ساتھ تعلق استوار رکھنا ہے تو اس کے لوازمات اور ہوں گے، ذات کی اطاعت نہیں بلکہ محبت کی جا سکتی ہے، جبکہ اطاعت اسلام کے اندر صرف منصب کی ہوتی ہے۔ آقاعلیہ السلام کی حیات مبارکہ کم و بیش 63 برس ہوئی۔ یوں تو نبی جب پیدا ہوتا ہے تو رسالت ساتھ لاتا ہے۔ حضور علیہ السلام کی بعثت کی عمر مبارک 40 برس ہوئی جب آقا علیہ السلام نے اعلان نبوت فرمایا۔ یہاں غور طلب نکتہ یہ ہے کہ پہلے چالیس سال آقا علیہ السلام کے کس حیثیت سے گزرے؟ اس منصب اور بعثت کے اعلان کے بعد 23 سال درحقیقت رسالت کے تھے۔ حکمت یہ تھی کہ اللہ رب العزت نے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات کو رکھا کیونکہ ذات سے محبت کی جاتی ہے، اطاعت منصب کی ہوتی ہے۔ اطاعت اس وقت تک اپنے کمال اور معراج کو نہیں پہنچ سکتی جب تک اس ذات کے ساتھ محبت اپنے عروج کو نہ پہنچے۔ بغیر محبت کے اطاعت مشکل ہو جاتی ہے اور زیادہ عرصہ نہیں چل سکتی۔ اگر محبت صحیح معنی و مفہوم کے ساتھ کرنا مقصود ہو تو پھر وہ ذات کو سمجھ اور پرکھ کر کی جاتی ہے۔ ہر صحابی اور ہر امتی کا آقاعلیہ السلام کے ساتھ وہ تعلق استوار کروانا تھا اور وہ معراج عطا کرنی تھی جس کے لئے اللہ رب العزت نے آقا علیہ السلام سے محبت کئے جانے کے لئے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو چالیس برس عطا کئے۔ اللہ رب العزت کا مقصود یہ تھا کہ میرے مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بچپن، ان کا چلنا پھرنا، اٹھنا بیٹھنا، ان کا کلام، ان کی ہر ہر ادا تمہارے سامنے ہے۔

ان سے صرف میرے کہنے پر محبت نہ کرنا، بلکہ انہیں دیکھ، پرکھ اور ر پہچان کر محبت کرنا پھر سچی محبت ہو گی، پھر تم سچے عاشق کہلاؤ گے۔ اس لئے آقا علیہ السلام کی ذات پر بعثت سے پہلے چالیس برس گزروائے تاکہ جھوک کے آس پاس رہنے والے صحابہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اچھی طرح دیکھ لیں تاکہ محبت کرنے میں کوئی کمی نہ رہ جائے۔ اگر محبت سچی ہو تو اطاعت مشکل نہیں رہتی۔ اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے ہم پانچ وقت کی نماز پڑھتے ہیں، کوئی نیا نیا عاشق ہو جائے تو اسے نماز پنجگانہ کی پابندی کرنا مشکل لگتا ہے۔ فجر سے پہلے تہجد کے وقت اٹھنا اور بھی مشکل لگتا ہے۔ اس لئے وہ اطاعت جو کر رہا ہے وہ اپنے خدا سے محبت کے بغیر کر رہا ہے لیکن جب محبت ہو جاتی ہے تو پھر اس خدا کی بارگاہ میں حاضر ہونے کے لئے تڑپتا رہتا ہے کہ کیسے کوئی نماز کا وقت ہو اپنے محبوب کی بارگاہ میں کھڑا ہو جائے۔ اگر محبت ہو تو اطاعت محسوس ہی نہیں ہوتی وہ عادت سی لگتی ہے۔ اس لئے اللہ رب العزت نے آقاعلیہ السلام کی حیات کے 63 برس میں سے 40 برس صرف محبت کروانے پر لگائے تاکہ ایک بار محبت اپنے کمال کو پہنچ جائے پھر منصب کے لئے 23 برس بھی کافی ہوں گے۔ کیونکہ جو عاشق ہوتا ہے پھر وہ ایک ایک ادا اور ایک ایک جملہ پر غور کرتا ہے۔ چاہے چار دن کے لئے چار جملے ادا ہو جائیں وہی زندگی کا حاصل بن جاتے ہیں۔ کسی ذات سے محبت کرنے کے لئے کوئی قید نہیں، وہ کسی وقت کوئی بھی کر سکتا ہے، اطاعت کے لئے قید ہے، منصب کی اطاعت واجب ہے لیکن اس ذات سے محبت نہ ہو تو پھر درختوں پر پھل نہیں لگا کرتے۔ اگر محبت ہو لیکن منصب نہ ہو تو محبت کا ثواب تو مل جاتا ہے لیکن تبدیلی اپنا عنوان نہیں رکھتی۔ اس کی مثال ایسے ہی ہے اسلامی ملک کا حکمران کسی منصب پر فائز ہو، اگر کوئی حکمران ظالم ہو، فاسق و فاجر، ظلم و ستم ڈھانے والا، حق تلفی کرنے والا ہو، اس سے قوم محبت نہیں کرتی بلکہ مجبوری کی اطاعت چلتی رہتی ہے۔ اس سے قوم سنورتی نہیں ہے، اگر وہ ذات اس منصب پر فائز ہو جائے جس سے محبت کی جاتی ہے، قوم اس کے لئے اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنے سے بھی نہیں کتراتی اس کو انقلاب کہتے ہیں۔ آقا علیہ السلام کی ذات مبارکہ کے اندر دو اہم Stages تھیں۔ پہلے ذات سے محبت کروائی جب محبت اپنے کمال کو پہنچی تو پھر اطاعت کروائی۔ اطاعت کی شرح اس آیت کریمہ کے اگلے حصے میں کر دی ہے۔

والذين معه اشداء علی الکفار.

(الفتح، 48، 29)

وہ لوگ محبت کرنے کے بعد رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کرتے ہیں جو محبوب کے اردگرد رہنے والے ہیں۔ ان کے منصب کی سچی اطاعت کرنے والے ہیں وہ اشد علی الکفار ہیں۔ اس سے مراد ہے کہ وہ اپنے دین کے لئے غیرت مند ہیں۔ ان کی غیرت اتنی زیادہ ہے کہ وہ اس پر جان لٹانے کے لئے تیارہیں۔ رحماء بينهم. آپس میں ان کے اخلاق بہت اچھے ہیں، ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں۔ ایک دوسرے کے لئے بہت نرم ہیں، باہر والوں کے لئے سخت ہیں۔ ان کی پہچان ہے جو اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سچی محبت کرنے کے بعد اس کی اتباع کرتے ہیں۔ جو محبت کئے بغیرا تباع کرے وہ اس کی طرف تکتے بھی نہیں ہیں۔ یہ پہچان ان لوگوں کی ہے جنہوں نے حبیب مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پہلے سچی محبت کی پھر اس کے منصب رسالت کی اتباع کی یہی چیز انبیاء کرام کی سنت بن جاتی ہے ہر زمانے میں مجددین کی زندگی میں۔ ہر قائد اپنے کارکنوں کے حلقے میں ایسی حیثیت سے رہتا ہے اور تبلیغ کرتا ہے۔ اسی نہج پر قیادت بھی زندگی گزرتی ہے۔ آقا علیہ السلام کی جتنی عمر مبارکہ تھی۔ اس کا بیشتر حصہ پہلے محبت کروائی پھر منصب کی اطاعت کروائی۔ اگر یہ ہی چیز ہم اپنی قیادت کی زندگی میں دیکھیں اپنے مشن اور تحریک کی زندگی میں دیکھیں تو سچی قیادت ہے۔ آپ یہاں ورکشاپ اٹینڈ کرنے آئے ہیں۔ واپس وہاں جا کر کئی اور لوگوں کو تیار کرنا ہے۔ لہذا ان چیزوں کو بہتر انداز میں ذہن نشین کر لینے کی ضرورت ہے کہ مشن کی زندگی میں پہلے اپنے شیخ سے محبت کرنا ضروری ہے۔ محبت کے بغیر ذات کوئی معانی نہیں رکھتی۔ یہاں ان کی اطاعت محبت کے بغیر کی جا سکتی ہے جو ایک بارگاہ سے appointed ہیں، اس کی مثال ایسے ہے، آقا علیہ السلام کے وصال مبارک کے بعد خلفاء راشدین appoint ہوئے، انہیں ذمہ داریاں ملیں، احترام و محبت ان کا بھی لازم ہے۔

اب محبت کا معاملہ سارا اہل بیت میں چلا گیا، اہل بیت جتنی ہستیاں ہیں، چاہے ظاہری طور پر انہیں منصب پر بٹھایاگیا یا نہیں محبت کا تسلسل جاری رہا۔ دوسری طرف جنہیں منصب پر فائز کیاگیا۔ ان کی اطاعت واجب ہے۔ یہاں پر محبت اور منصب کی تقسیم ہو جاتی ہے، وہاں بھی محبت کو اولیت حاصل ہے۔ ہم لوگوں نے صرف مسلکی تقسیم کے باعث ان عقائد کو ڈرتے ہوئے الگ الگ کر دیا ہے کچھ چیزوں کو اولیت دے دی ہے، دوسری چیزوں کو بعد میں کر دیا ہے، دراصل اہل سنت کا سچا عقیدہ بھی یہی ہے آقا علیہ السلام کے بعد سب سے پہلے اہل بیت اطہار کی محبت دلوں میں ہو پھر خلفاء راشدین کے منصب کی اطاعت ہے۔ آپ میں سے بہت سے لوگ تحریک میں شامل ہوئے۔ شیخ الاسلام کے خطاب سنے ہوں گے، ان کے علم و فکر سے متاثر ہوئے ہوں گے۔ ان کے اقدامات سے متاثر ہوئے، کوئی بھی وجہ بنی ہو۔ آپ نے ان کی شخصیت کو پرکھا ہو گا۔ پھر ایک عمرگزارنے کے بعد پہلے اس قیادت کے ساتھ وابستگی اور محبت نے آپ کو تحریک کا حصہ بنایا ہو گا جب تک آپ کو محبت نہ تھی آپ پر منصب کی اطاعت لازم ہی نہ تھی لیکن جب محبت ہوگئی تو تحریک کے قائد کی اطاعت آپ پر لازم ہو گئی۔ اگر قائد کی فکر کو سمجھنا ہے تو ہمیشہ ذہن کو clear رکھیں۔ Confusion انسان کو ایسی جگہ پر پر لا کر کھڑا کرتی ہے جہاں سے ہر طرف راستہ نکلتا ہے، اسے خبر نہیں ہوتی کہ اسے جانا کدھر ہے، اس لئے Confusion سے اجتناب کریں۔ سب سے پہلے قائد کی ذات ہے، اس ذات سے والہانہ محبت ہے، اس کے بعد تحریک کی فکر اور تحریک کا منصب ہے، آج اہل سنت کیوں وہابیت کو برا بھلا کہتے ہیں، اس لئے کہ وہ اس ذات کو جس نے ہمیں اللہ سے روشناس کروایا۔ اس کی محبت کو پس پشت ڈالتے ہیں، خود دین کے زیادہ ٹھیکیدار بنتے ہیں، جس طرح کسی وہابیت کی اسلام میں اجازت نہیں اسی طرح اس تحریک میں کسی وہابیت کی اجازت نہیں ہے۔ اگر کوئی قیادت سے محبت کئے بغیر تحریک کا زیادہ ٹھیکیدار بنے۔ سمجھ لیں کہ وہ غلط ہے۔ اولیت قیادت کی محبت ہے اور محبت کی کوئی حد نہیں ہے۔ دوسری بات وَالَّذِيْنَ مَعَه میں ہے جو اس کے ساتھ ہیں۔ جب قیادت میں دوئی نہیں ہوتی۔ یہاں پر بھی صیعہ ہ کا استعمال ہوا ہے جو اس کے ساتھ ہیں۔ ذہن کو ہمیشہ صاف رکھنا چاہئے۔ جس طرح خدا ایک ہے۔ رسول ایک ہے۔ باپ ایک ہے، اسی طرح مرشد و قائد بھی ایک ہوتا ہے۔ جس طرح باپ دو نہیں، اسی طرح مرشد و قائد بھی دو نہیں ہو سکتے۔ محبت اولیت رکھتی ہے، منصب و شریعت کی اطاعت بعد میں ہے۔ یہ پیغام ہمیں آقاعلیہ السلام کی حیات مبارکہ سے ملا ہے۔ جینا مرنا اسی کے لئے ہے۔ اس کے بعد اس کی اتباع و اطاعت آ جاتی ہے۔ اگلے حصے میں اشداء علی الکفار رحماء بينهم ہے۔ مشنری زندگی میں قائد اور سنگت کا کیا معاملہ ہے۔ اشداء علی الکفار کی شرح مشن میں یہ ہے کہ مشن کے لئے غیرت مندبن جاؤ۔ کوئی بے حیائی دیکھو، اگر دل میں ہو کہ وہ غلط ہے۔ اگر اس کو چھپا جاؤ تو سمجھ لو کہ چور ہو۔ اس کا احساس ہو تو اس کا اظہار کرو۔ جہاں اظہار کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کا حل تلاش کرو۔ اگر مشن پر کسی منصب پر فائز ہو، کسی غلط کام پر پردہ مت ڈالو، قائد کی محبت میں توحید کے ماننے والے ہو، اس میں دوئی کہیں پاؤ، اور معاملات کسی اور نہج پر جا رہے ہیں، اس کے لئے غیرت مند ہو جاؤ جس طرح توحید کے بغیر دین نہیں ہے اسی طرح محبت کے بغیر مشن نہیں رہتا۔ مشن کے لئے غیرت مندی کی بات یہ ہے کہ کوئی مشن پر مشن کی قیادت پر، اس کی فکر پر انگلی اٹھائے اس کے لئے غیرت مند ہو جائیں۔ ان پر شدید ہو جائیں، اشد علی الکفار ان پر سخت ہو جائیں۔ اتنی غیرت مند کہ جب تک مشن کے لئے محبت اور غیرت دل میں پیدا نہیں ہو گی، اس وقت تک اخلاص اپنے کمال کو نہیں پہنچے گا۔ اخلاص اپنے کمال کو اسی وقت پہنچتا ہے جب اشدا علی الکفار ہو جائیں۔ اور آپس میں نرم دل ہو جائیں۔ اگر قائد سے سچی محبت ہے۔ اور اس کے منصب کی اطاعت ہے تو یہ سب کچھ کرنا ہو گا۔ اگر نہیں کرتے تو ہم اس محبت کے دعوے میں کمزور ہیں۔ اگر ہم اتباع کے دعوے میں سچے ہیں تو پھر ہمیں مشن کے لئے غیرت مند، سخت اور شدید ہونا چاہئے۔ آپس میں نرم دل اخلاص میں اچھا، ایک دوسرے کو آگے کرنے والا۔ جس کی جس صلاحیت کو دیکھے اس کی حوصلہ افزائی کرے۔ اگر آپ کے اندر کوئی کمزوری ہے اور آپ کو کسی عہدے پر بیٹھا دیاگیاہے تو آپ بجائے کہ شرما جائیں کہ میں اپنی اس کمزوری کا اظہار کر دوں گا تو میرا مذاق اڑایا جائے گا، یہ نہ سوچیں بلکہ ایمانداری سے اس کمزوری کا ان لوگوں سے اظہار کر دیں جنہوں نے آپ کو ذمہ داری دی ہے۔ یہ ذمہ داری درحقیقت آپ کے پاس امانت ہے۔ اگر آپ اس کمزوری کے چھپانے کی وجہ سے اس ذمہ داری پر رہتے ہیں۔ تو یہ درحقیقت آپ کے نامہ اعمال میں خیانت لکھی جائے گی۔ ہم انسان کیا ہیں؟ اللہ کے رسول حضرت موسیٰ علیہ السلام کو نبوت کا فریضہ سونپا گیا۔ اللہ رب العزت نے جب انہیں شریعت عطا فرمائی تو فرمایا لوگوں کو بتاؤ ویسے تو اللہ کا رسول ہر کمی سے پاک ہے لیکن اللہ کا رسول اپنی اس کمی اظہار کرتے ہوئے نہیں شرماتا۔ اگر موسیٰ علیہ السلام اللہ رب العزت کی بارگاہ میں عرض کرتے ہیں۔ مولا میں بولنے میں اتنا Fluent نہیں ہوں، میرے ساتھ میرے بھائی ہارون کو کھڑا کر دیں۔ اب حضرت موسیٰ علیہ السلام کو معاذ اللہ یہ سوچ آئی تھی کہ میری شہرت کم ہو جائے گی، میری نبوت میں کوئی کمی آ جائے گی۔ اب بھی جو مرتبہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا ہے حضرت ہارون علیہ السلام کا نہیں ہے۔ لیکن کمی کا انہوں نے اظہار کیا تو اللہ تعالیٰ نے حضرت ہارون علیہ السلام کو نبوت عطا کر دی، یہ امانت کی بات ہے۔ اگر آپ مشن کے ساتھ وابستہ ہیں تو پھر نیکی، تقو یٰ، عبادت واخلاق ان تمام چیزوں کو اپنی زندگی کا حصہ بنالیں کیونکہ یہ لازم ہو جاتی ہیں جو لوگ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جھوک کے آس پاس رہتے تھے۔ وہ اللہ رب العزت کا فضل اور اس کی رضا تلاش کرتے رہتے تھے۔ اس طرح آپ نے اپنی قیادت کی جھوک کے آسے پاسے رہنا ہو تو اس مشن میں کام کا سلیقہ یہ ہے کہ دل میں میل نہ آئے کہ میں نے اس مشن کے لئے اتنا کچھ کر دیا لیکن میری پہچان نہیں۔ اگر ہم یہاں پر اللہ کا فضل تلاش کرنے کے بعد اپنی ذاتی شہرت اپنے عہدے، پہچان اور نام کے لئے مشن میں کام کرتے ہیں تو نہ قائد سے محبت ہے نہ قائد کے منصب کی اطاعت ہے۔ کیونکہ ہم اس اجر کے متلاشی تو اس دنیا میں ہو گئے۔ شیخ الاسلام مدظلہ نے اس کو کئی بار ارشاد فرمایا کہ وہ بنی اسرائیل کا ایک عابد و زاہد شخص ستر اسی سال اللہ کی عبادت کرتا رہا۔ اسے اللہ رب العزت کی بارگاہ سے پیغام ملا کہ تیری اسی سال کی عبادت رد کر دی گئی۔

اگر دنیا کے لئے کرتا تو اس کا بھرم تو وہیں ٹوٹ جانا چاہئے تھا لیکن وہ جوش میں آ گیا کہ میں اپنے خدا کے شمار میں تو آ گیا ہوں وہ اس کے فضل اور اس کی رضا کا طالب تھا، دنیاوی نام و نمود کا نہیں، اس چیز کو ہمیشہ ذہن میں رکھا کریں۔ اللہ کے دین کے لئے کام کرنا ہے۔ جہاں دل میں وسوسہ آنے لگے۔ کہ میرا نام اور میری پہچان ایسا خیال آئے تو سمجھ لیں کہ اخلاص کم ہوتا جا رہا ہے۔ یہ ایسی آگ ہے جو نظر نہیں آتی لیکن جلا کر سب کچھ راکھ کر دیتی ہے۔ اس پر ہمیشہ محافظ رہیں کہ ہر عمل ہمیشہ خالص اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خاطر کریں، اس کے بعد کارکنان کی زندگی میں Following کیسے ہوتی ہے، اس سے محبت کا بھی خاص انداز ہو ا کرتا ہے۔ ہجرت کے وقت تقریبا 400 لوگ مسلمان ہو چکے تھے۔ آقا علیہ السلام نے کسی ایک سے مشاورت نہیں فرمائی۔ رات کے ایک پہر میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کو امانتیں سونپ دیں، سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو فرمایا ساتھ چلو، قیادت کے ساتھ تعلق یہ ہے کہ اتنا بڑا decision مشاورت کے بغیر اس بڑی قیادت نے کر دیا۔ اس پر سوال نہیں، جبکہ ہم کمزور ایمان کے لوگ ہیں۔ کتنی بھی کمزوریاں ہوں، ایک بار شور ضرور ڈالنا ہے، ہم سے پوچھا نہیں گیا۔ کارکنان کا شیخ کے ساتھ تعلق تو یہ ہونا چاہئے کہ وہ مشاورت کرے اس کی منشاء نہ کرے اس کی منشاء، ہمارا تعلق اس کے ساتھ کمزور نہیں پڑنا چاہئے، کیونکہ جھوک ہماری نہیں ہے، جھوک اسی کی ہے، ہم تو جھوک کے آس پاس رہنے والے ہیں، ہمیں تو اللہ کا شکر ادا کرنا چاہئے۔ اس نے ہمیں توفیق دی کہ ہم اس جھوک کے آس پاس رہیں۔ قرآن مجید میں حکم ہے :

لاَ تَتَّخِذُواْ الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاءَ

(المائده، 5 : 51)

’’یہود اور نصاریٰ کو دوست مت بناؤ یہ (سب تمہارے خلاف) آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں‘‘۔

یہودیوں اور نصرانیوں کو دوست مت بناؤ، لیکن آقا علیہ السلام نے یہودیوں اور نصرانیوں سے بھی معاہدہ فرماتے ہیں۔ کسی ایک صحابی کی مجال نہیں کہ پوچھے حضور قرآن میں تو یہ ہے کہ آپ یہودیوں اور نصرانیوں کو دوست نہ بناؤ اور آپ معاہدہ فرما رہے ہیں۔

جو اللہ کا پیغام لایا ہے، خود اللہ کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے کیا اسے خبر نہیں ہے؟ اسی قیادت سے ہم سوال کریں جو خود اس کی فکر دے رہا ہے، اس کو خبر نہیں ہے کہ وہ کیا کر رہا ہے، ان چیزوں میں clarity رکھنی چاہئے، قائد کی فکر کے ساتھ محبت کا تعلق رکھنا چاہئے، سوال جواب کا نہیں، ہاں سوال جواب ہوتے ہیں فیض پانے کے لئے، سوال جواب ذہن بھر کر نہیں ہوتے بلکہ سوال و جواب ذہن خالی رکھ کر کئے جاتے ہیں تاکہ کچھ حاصل کیا جائے، تنقید نہ کی جائے۔ اسی طرح صلح حدیبیہ کے موقع پر صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم 400 جانور ساتھ لائے تھے کیونکہ ارادہ تھا حج کیا جائے اس کے بعد جانوروں کی قربانی دی جائے لیکن معاملہ الٹ ہو گیا، حج پر نہ جایا جا سکا۔ اس وقت سیدہ ام سلمی رضی اللہ عنہا نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کی کہ انہیں حکم نہ فرمائیں بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے سامنے احرام کھول دیں’اور جانور ذبح کر دیں، بس یہ آپ کو دیکھیں گے اور اسی طرح عمل کر دیں گے۔ آقاعلیہ السلام نے ان کے سامنے ایسا ہی کیا تو سب نے آقا علیہ السلام کو دیکھ کر احرام کھول دیئے اور قربانی کی، یہ اتباع ہے منصب کی، منصب کی اتباع کرنے والے کی پہچان یہ ہے کہ سوال زیادہ اٹھائے گا، تنقید زیادہ کرے گا۔ وہ قیادت جس کی فکر ہمارے ذہن میں پروان چڑھ رہی ہے، اس کی ذات کے ساتھ محبت وادب کا الگ تعلق رکھناچاہئے کہ کسی قسم کی گنجائش باقی نہ رہے۔ لہذا باقی منصب کی اطاعت لازم ہے۔ تجاویز بھی دے سکتے ہیں، کیونکہ آپ سب ذمہ دار ہیں۔ آقا علیہ السلام ایک دن مسجد نبوی میں داخل ہونے لگے، اس وقت مسجد نبوی کا کچا فرش تھا، جوتے نہیں اتارا کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے نعلین مبارک اتار دیئے، پیچھے سینکڑوں صحابہ نے بھی بغیر پوچھے اپنے جوتے اتار دیئے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا آپ لوگوں نے کیوں اپنے جوتے اتار دیئے، انہوں نے کہا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہم نے آپ کو دیکھا اور اپنے جوتے اتار دیئے، فرمایا کہ میرے پاس تو جبرائیل علیہ السلام آئے انہیں رب العزت نے بھیجا تھا۔ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ کے جوتے کو کہیں کیچڑ لگا ہے، اس لئے مسجد میں نہ جائیں۔ میں نے تو اس لئے اتار دیئے، یہاں دو باتیں سامنے آئیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا عمل کیا تھا کہ وہ اتباع میں عمل دیکھتے تھے ، اور کر گزرتے تھے۔ خدا عرش پر بیٹھے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جوتوں کو دیکھتا ہے کہ محبوب کی کسی چیز پر میل تونہیں لگ گئی۔ یہ چند بنیادی چیزیں ہیں جو میں نے چاہا کہ عرض کر دوں۔