روزے اور اجتماعی اعتکاف کے تنظیمی فوائد

ڈاکٹر نعیم انور نعمانی

انسان کی زندگی کا مقصد رب کی عبادت و معرفت اور رضا و قربت ہے۔ اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے باری تعالی نے قرآن حکیم میں ارشاد فرمایا۔

وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ.

(الذاريات، 56 : 51)

’’اور میں نے جنّات اور انسانوں کو صرف اسی لیے پیدا کیا کہ وہ میری بندگی اختیار کریں‘‘۔

اسلامی تعلیمات کے تناظر میں انسان، اللہ کا بندہ ہے اس کا خالق اس کا مالک اور اس کا حاکم صرف خداوند عالم ہے۔ انسان زمین پر اس کا نائب ہے اور اسے کچھ اختیارات، کچھ ذمہ داریاں اور کچھ خدمتیں سپرد کی گئی ہیں، ان تمام چیزوں کو فرض شناسی اور فرمانبرداری کے ساتھ بطریق احسن ادا کرنا ہے تاکہ وہ اپنے مالک کے حضور سرخرو ہونا کہ وہ سست، کام چور، فرض ناشناس اور باغی و نافرمان ہو۔

اسلامی تصور عبادت یہ ہے آپ کی ساری زندگی اللہ کی بندگی میں صرف ہو آپ خود کو دائمی اور ہمہ وقتی بندہ و ملازم سمجھیں اور آپ کی زندگی کا ایک لمحہ بھی عبادت اور مشن سے خالی نہ ہو۔ آپ کے شب و روز اللہ اور اس کے رسول کی رضا میں گزریں، گھر کے فرائض سے لے کر باہر کے فرائض تک ہر ایک کی ادائیگی آپ کی پہچان ہو، درحقیقت اسلام ساری زندگی کو عبادت میں تبدیل کرنا چاہتا ہے، عبادت کا یہ عمل بغیر تربیت کے نہیں ہو سکتا، اس لئے ضروری ہے کہ ذہن کی تربیت کی جائے، کردار مضبوط بنایا جائے، عادات و خصائل کو ایک سانچے میں ڈھالا جائے، انفرادی اور اجتماعی کردار کی تشکیل کی جائے، عبادات کی تربیت ہی انسان کو رب کی قربت تک لے کر آتی ہے۔

1۔ مقصد اور مشن کی یادہانی

روزہ اسلامی عبادات میں ایک ایسی عبادت ہے، جس پر اللہ کی بارگاہ سے بے پناہ اجر و ثواب کی نوید سنائی گئی ہے، اس لئے کہ اس عبادت میں ایسے کئی لمحات آتے ہیں جب بندے اور رب کے درمیان کوئی انسانی واسطہ نہیں ہوتا۔ پیاس کی شدت اور بھوک کی حاجت کے باوجود محض رب کے لئے انسان روزے کو نہیں توڑتا اور رب کی عطا کردہ توفیق کے تحت اس پر استقامت کا مظاہرہ کرتا ہے۔ ایسے ہی لوگوں کے لئے قرآن میں فرمایاگیا۔

إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَائِكَةُ.

(السجده، 30 : 41)

’’بے شک جِن لوگوں نے کہا ہمارا رب اﷲ ہے، پھر وہ (اِس پر مضبوطی سے) قائم ہوگئے، تو اُن پر فرشتے اترتے ہیں‘‘۔

گویا روزہ انسان کو اللہ کی بندگی اس طرح یاد لاتا ہے کہ انسان اپنے مقصد حیات پر قائم بھی رہتا ہے اور ہر لمحہ اسے اپنے پیش نظر بھی رکھتا ہے۔ آج ہماری زندگی کا وہ عمل جو ہمیں مسلسل عبادت پر گامزن رکھتا ہے وہ اللہ کے دین کی اشاعت اور احیائے اسلام کے مشن کی خدمت ہے اس عمل کو اپنی زبان میں تحریکی زندگی سے تعبیر کرتے ہیں گویا تحریکی زندگی مسلسل اللہ کی بندگی اور عبادت کی ادائیگی کا نام ہے۔

2۔ فرض شناسی

روزہ ایک مکمل تربیتی پروگرام ہے جس کے تحت انسان سینکڑوں گھنٹے خود کو ایک مضبوط ڈسپلن کا پابند بناتا ہے۔ انسان بڑی باقاعدگی سے روزے کے لئے سحری کے وقت بیدار ہوتاہے۔ سحری کی برکات سے لطف اندوز ہوتا ہے سارا دن کھانے پینے کی مادی اور نفسانی خواہشات سے رکتا ہے تاوقتیکہ غروب آفتاب کا وقت آجاتا ہے۔ اب اللہ کے حکم کے مطابق روزہ افطار کرتا ہے اور پھر نماز مغرب کی ادائیگی میں مشغول ہو جاتا ہے بعدازاں نماز عشاء اور نماز تراویح کے لئے تیار ہو جاتا ہے۔ دن بھر کی تھکاوٹ کے باوجود رات کو صلوۃ التراویح میں قیام کر کے اور اللہ کا کلام سن کر اپنے مولا کی رضا و خوشنودی حاصل کرتاہے۔ فرض شناسی کی یہ تربیت انسان کو زندگی کے تمام معاملات میں احساس ذمہ داری کی کیفیات اور جذبات دیتی ہیں یہی عمل انسان کو دوسروں کی نظروں میں عزت عطا کرتا ہے۔ یقینا ایک تحریکی شخص جب اس عمل سے گزرتا ہے تو وہ اپنے اندر فرض شناسی کے جذبات اور تصورات کو مملو پاتا ہے، اور یہی تصورات جب عملی زندگی میں حقیقت کا روپ دھارتے ہیں تو پھر انسان کی پہچان یہ اس طرح بنتے ہیں کہ دوسرے انسان اس پر فخر کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

3۔ احساس بندگی اور دینی ذمہ داری

روزہ اور اعتکاف سے بندے کو جہاں اللہ کی بندگی کا شعور اور احساس ملتا ہے وہاں یہ تصور بھی اسے میسر آتا ہے کہ اسے اپنی ساری حیات اللہ کے قرب اور معرفت کے حصول کے لئے بسر کرنی ہے اس بنا پر وہ روزے اور اعتکاف کے دوران حاصل ہونے والی کیفیات کو اپنی ساری زندگی پر محیط کرتا ہے اور یہی چیز اس کے کردار وگفتار کو تبدیل کر کے رکھ دیتی ہے اور اس مقصد کے لئے وہ دین کی راہوں پر چلتا ہے اور دین کی خدمت کو اپنی زندگی کا شعار بنا لیتا ہے اسی دوران اسے صحیح دینی تربیت میسر آ جائے تو وہ اپنے کردار میں پختہ ہو جاتا ہے۔

4۔ اطاعت کی تربیت

تنظیمی زندگی میں اطاعت کو بڑی اہمیت حاصل ہے، اطاعت کے جذبات و تصورات ہی کسی تنظیم کو صحیح معنوں میں تنظیم بناتے ہیں۔ جہاں جتنی اطاعت ہو گی وہاں اتنے ہی زیادہ تنظیمی نتائج میسر آئیں گے۔ اسلام کی جملہ عبادات اور تعلیمات اطاعت کی اہمیت سے معمور ہیں۔ روزہ اس اطاعت کو مزید جلا بخشتا ہے۔ جب بندہ اطاعت الہی کی خاطر اپنی بنیادی خواہشات کو محض اللہ کی خاطر چھوڑ دیتا ہے تو گویا روزہ یہ تربیت دیتا ہے کہ انسان کو اپنے مولا کے لئے زندگی میں خواہشات کو ترک کرنا پڑے تو اس سے بھی دریغ نہ کرے۔ تنظیمی و تحریکی زندگی اللہ کی راہ میں بہت سی خواہشات پر رب کی رضا کو ترجیح دینے کا نام ہے۔

5۔ تعمیر سیرت

ایک تنظیمی شخص کے لئے ضروری ہے کہ وہ اعلی سیرت وکردار کا مالک ہو۔ دوسرے لوگ اس کے اخلاق وکردار سے روشنی لیں۔ عمدہ سیرت کی بنیاد تقویٰ ہے اور اس کا ماڈل سیرۃ الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔ وہ سیرت قابل فخر ہے جس میں حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت کے آثار دکھائی دیتے ہیں۔ روزہ انسان کی سیرت کو تقویٰ کی بنیادیں فراہم کرتا ہے انسان کو برائی سے دور کرتا ہے اور نیکی کے قریب کرتا ہے۔ اللہ کی رضا کا طالب بناتا ہے اس کی نافرمانی اور معصیت سے بچاتا ہے، عبادت کی رغبت دلاتا ہے اور شیطنت کی راہوں سے محفوظ کرتا ہے۔ اللہ کی ذات پر اس کے یقین کو پختہ کرتا ہے اور اپنے اعمال پر اس کے سامنے جوابدہی کا احساس دلاتا ہے۔ مادیت سے دور اور روحانیت کے قریب کرتا ہے۔ موسم کی سختیوں اور تکلیفوں کے باوجود اللہ کی رضا کا طالب بناتا ہے۔ مولا کی خاطر بھوک اور پیاس دیتا ہے لیکن اس کے باوجود انسان راہ حق پر ثابت قدم رہتا ہے۔ روزے سے حاصل ہونے والی یہی ثابت قدمی و استقامت ایک تحریکی و تنظیمی شخص کی پہچان ہوتی ہے۔

6۔ ضبط نفس

اپنی خواہشات اور آرام کو قربان کرنا، ایثار و قربانی کی دنیا میں پہلی منزل ہے۔ وہ افراد جو اس عمل سے گزرتے ہیں وہی دنیا میں کارہائے نمایاں سرانجام دیتے ہیں، رو زہ خواہشات کو وقتی طور پر اعلیٰ مقصد کے لئے چھوڑنے کی ہمیں تربیت دیتاہے۔ یقینا نفس کو پیاس، بھوک، صبح کا اٹھنا، دن بھر پیاسا بھوکا رہنا، رات کو پھر عبادت میں مشغول ہو جانا اور اس کے ساتھ ساتھ زندگی کی تمام ذمہ داریوں کو ادا کرنا بھی ایک تکلیف دہ امر ضرور ہے مگر رو زہ دار ان سب قربانیوں سے گزرتا ہے۔ یہی عمل روزے دار کو دین کا مجاہد، دین کی خاطر تکلیف اٹھانے والا اور دین کے لئے کچھ کر گزرنے والا بناتا ہے۔ تنظیمی لوگوں کا یہی کردار تحریکوں کا سرمایہ ہوتاہے۔

7۔ اعتکاف اور اجتماعیت

رمضان المبارک میں اعتکاف کی عبادت میں بھی بڑے راز مضمر ہیں۔ اعتکاف انفرادی ہو یا اجتماعی لوگوں کی زندگیوں میں ایک ایسی تبدیلی لاتا ہے جس کے اثرات دیرپا ہوتے ہیں۔ اسلام نے ہمیشہ اجتماعیت و مشاورت پر زور دیا ہے- یقینا اس عمل سے حاصل ہونے والے فوائد بڑے عظیم الشان اور ہمہ گیر ہوتے ہیں اس وجہ سے نماز کی ادائیگی باجماعت زیادہ فضیلت کی حامل ہے۔ روزہ خود بھی اہل ایمان کا ایک اجتماعی عمل ہے۔ عید کی نماز ایک اجتماعی عمل ہے۔ زکوۃ کی ادائیگی ایک اجتماعی عمل ہے۔ حج کی ادائیگی ایک عالمگیر اجتماعی عمل ہے۔ اجتماعیت کی فضا میں دعوت و تربیت اور دین کے فہم و بصیرت کے بہتر مواقع میسر آتے ہیں۔ سارا ماحول نیکی کے لئے سازگار ہوتا ہے۔ ماحول کی روحانی برکات انسان کے کردار کو تبدیل کر کے رکھ دیتی ہیں۔ اجتماعیت کی کیفیات انفرادی شخصیات کو اپنے رنگ میں رنگ لیتی ہیں۔ اجتماعی ماحول میں نہ بدلنے والے بھی بدل جاتے ہیں۔ رمضان نیکیوں کا موسم بہار اس لئے ہے کہ ہر شخص حتی المقدور روزے کے ساتھ ساتھ نیک عمل کرنے کی کوشش بھی کرتا ہے، عبادات اور اعمال کی آبیاری کرتاہے۔ انسان کے خیال وعمل کو اجتماعیت کے سانچے میں ڈھل کر سنوارتا ہے یوں تمام معتکفین کے درمیان باہمی یگانگت، رفاقت، یک جہتی کے جذبات پروان چڑھتے ہیں، امارت و غربت کے احساسات ختم ہوتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ سب کے درمیان محبت و مودت اور ہمدردی و خیر خواہی کے جذبات پنپتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔

8۔ اجتماعی اعتکاف سے تنظیمی فوائد کیسے سمیٹیں؟

اعتکاف اللہ رب العزت کی طرف سے اہل ایمان کے لئے ایک بہت بڑی نعمت ہے، اور بالخصوص تنظیمی لوگوں کے لئے ایک زبردست دعوت اور تربیت گاہ ہے۔ اس میں شریک ہونے والے افراد کو تحریکی رفاقت میں ڈھالا جائے۔ اعتکاف کے اختتام پر کوئی شخص رفاقت کی سعادت کے بغیر نہ جائے۔ تنظیمی و دعوتی ذمہ داریوں کے لئے افراد کو تیار کیا جائے اور ان کا وقتی چناؤ کر کے ہر سطح کی عمومی مشاورت میں ان کو شریک کر لیا جائے بعد ازاں تنظیمی ذمہ داریاں اہلیت کی بنیاد پر دی جائیں۔ ہر شعبے سے متعلق افراد کی درجہ بندی کی جائے تاکہ عملی زندگی میں تحریک کو فوائد میسر آئیں۔ مرکز کے علاوہ ہر شہر میں ایک اجتماعی اعتکاف کااہتمام مقامی تنظیم کے ذریعے کیا جائے۔ مرکز کے نصاب کے مطابق معتکفین کی تربیت کی جائے تمام تنظیمات رجوع الی القرآن مہم کے تحت معتکفین کو اپنے اپنے علاقوں میں ’’عرفان القرآن‘‘ ہدیہ دیں یا خریداری کے لئے ترغیب دیں، ہر مسجد میں مقامی تنظیمات ایک عدد عرفان القرآن گفٹ دیں۔ ہر امام و خطیب کو تنظیمات ’’عرفان القرآن‘‘ اور’’ المنہاج السوی‘‘ بطور تحفہ دیں، تمام منہاجینز کو دعوتی سرگرمیوں میں شامل کیا جائے اور ہر علاقے میں علماء کونسل اور منہاجینز معتکفین کی تربیت کے لئے مقامی مساجد کی کمیٹیوں کے ذریعے دروس عرفان القرآن، دروس حدیث، دروس فقہ کا اہتمام کریں اور تنظیمات افطار پارٹیوں کا اہتمام کریں۔ یہ عمل یقینا تحریک میں افرادی قوت میں اضافے کے ساتھ ساتھ اس کے تعارف کو عوامی سطح پر پہنچانے کا باعث بنے گا۔