غزوہ بدر اور اثرات صحبت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

مصباح کبیر

غزوہ بدر، ایک طرف تو معرکہ حق و باطل کے نام سے جانا جاتا ہے۔ جو نہ صرف نظام باطلہ کے خلاف ایک کھلی جنگ تھا بلکہ جس کا مقصد نظامِ باطلہ کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا تھا اور دوسری طرف یہ گلستانِ محبت کے جانثاروں، جمال محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پر ستاروں کی پر رشک ایمانی اداؤں کا تذکرہ بھی ہے۔ جن کے نام پر تاریح آج بھی احترامًا نگاہیں جھکا لیتی ہے، زمین جن کے پاؤں کو بوسہ دے کر نسبتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خیرات کی طلبگار نظر آتی ہے، آسمان جن کی استقامت پر نثار ہو جاتا ہے اور مسافرانِ عشق و مستی جن کے چراغ عشق مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے آج بھی اپنی منزل کا تعین کرتے ہیں۔ انہوں نے میدان بدر میں ایک نئی تاریخ رقم کی۔ جس کے بارے میں کہا جاتا ہے افرادی قوت کہ لحاظ سے دنیا کی فیصلہ کن جنگوں میں یہ سب سے چھوٹی جنگ ہے مگر اس کے نتائج دنیا کی عظیم ترین جنگوں سے زیادہ مؤثر اور تاقیامت رہنے والے ہیں۔

اس میں ایک طرف تو کفار و مشرکین اپنی بھرپور جنگی تیاری کے ساتھ جذبہ کفر و عناد میں مست اور غرور و تکبر کے نشے میں دھت تھے کہ مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے مٹا دیں گے، تو دوسری طرف عشاقانِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دینِ مصطفوی کی سربلندی کے لئے جذبہ ایمانی اور عشق و ادب مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سرشار اپنے سے سہ گنا زیادہ فوج کے مقابلے میں میدان بدر میں موجود تھے۔ جنہوں نے اپنے محبوب آقا و مولا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ اپنے جذبہ جان نثاری کا کچھ یوں اظہار کیا :

’’یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جس طرف اﷲ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا ہے، تشریف لے چلیں ہم آپ کے ساتھ ہیں بخدا، ہم آپ کو وہ جواب نہیں دیں گے جو بنی اسرائیل نے موسیٰ علیہ السلام کو دیا تھا۔ کہ آپ اور آپ کا رب جائیں اور ان سے جنگ کریں۔ ہم تو یہاں بیٹھے ہیں بلکہ ہم یہ کہیں گے کہ آپ اور آپ کا رب تشریف لے چلیں اور جنگ کریں اور ہم آپ کے ساتھ مل کر جنگ کریں گے اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے۔ اگر آپ ہمیں ’’برک الغماد‘‘ تک بھی لے چلیں تو ہم آپ کے ساتھ ہیں اور آپ کی معیت میں دشمن کے کے ساتھ جنگ کرتے جائیں گے یہاں تک کہ آپ وہاں پہنچ جائیں۔‘‘ (تفسیر ابن کثیر، 2 : 288)

مزید براں حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ اپنے آقا و مولیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اپنی وفاداری کا اظہار کرتے ہوئے یوں عرض گزار ہوئے۔

’’یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جس طرف ارادہ ہو لے چلیں۔ اس ذات کی قسم! جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے۔ اگر آپ ہمیں سمندر میں گرنے کا حکم دیں تو ہم بے خطر اس میں کود پڑیں گے اور ہم میں سے ایک شخص بھی پیچھے نہیں رہے گا۔‘‘ (السیرت النبویۃ لابن ہشام، 1 : 615)

اور قربان جائیں نبی محتشم، رسول معظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر جنہوں نے اپنے جانثاران اور پیکرانِ عشق و مستی کی ایمان افروز گفتگو سماعت فرمانے کے بعد تبسم فرمایا اور بشارت دی کہ

’’تمہیں خوشخبری ہو کہ اﷲ تعالیٰ نے مجھے دوگروہوں میں سے ایک گروہ پر غلبہ دینے کا وعدہ فرمایا ہے۔ واﷲ میں ان لوگوں کی قتل گاہیں دیکھ رہا ہوں۔‘‘ (السیرۃ النبویۃ لابن ہشام، 1 : 615)

اور پھر چشمانِ فلک نے دیکھا کہ کس طرح شمع مصطفوی کے پروانوں نے جرات و ہمت کے ساتھ اپنے سے تین گنا دشمن کا مقابلہ بہادری و جوانمردی سے کیا۔ اور ایسا کیوں نہ ہوتا کہ اس قافلہ کی قیادت خود سالارِ اعظم، محبوب خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرما رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انپے رب کے حضور سجدہ ریز ہوئے۔ چشمانِ مبارک آنسوؤں سے تر تھیں اور نازک لبوں پر دعائیں یوں مچل رہی تھیں،

’’اے اﷲ! تو اپنا وعدہ (نصرت) پورا فرما۔ اے اﷲ! اگر اہل اسلام کا یہ گروہ ہلاک ہوگیا تو زمین پر تیری عبادت کرنے والا کوئی نہ ہوگا۔‘‘ (الطبری، 2 : 280)

اور پھر مالکِ ارض و سما نے اپنے لاڈلے، والضحیٰ مکھڑے والے، واللیل زلفوں والے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فتح و کامیابی اور فرشتوں کے ذریعے مدد کی خوشخبری سنائی اور مدد و نصرت الٰہی کے ذریعے مسلمانوں کو وہ عظیم فتح نصیب ہوئی۔ جس کی حکمتوں اور برکتوں سے مسلمان قیامت تک مستفیض ہوتے رہیں گے۔ اور اس میں کوئی شک نہیں کہ تمام اسلامیانِ عالم کی ترقی کا راستہ اسی غزوہ سے ہو کر جاتا ہے۔

یہ معرکہ اپنی نوعیت کا منفرد اور کثیر الجہات معرکہ ہے۔ جس سے ہر سطح کے لوگ انفرادی و اجتماعی سطح پر مستفیض ہو سکتے ہیں۔ اگر انسان کی انفرادی زندگی کو اس غزوہ بدر کی روشنی میں دیکھا جائے اور اسے بہتر بنانے کی کوشش کی جائے تو فکری، روحانی، اخلاقی ترقی کی نئی راہیں ملیں گی۔ کیونکہ حق و باطل کے درمیان کچھ اسی طرح کی جنگ ہر وقت انسان کے باطن میں، اس کے قلب میں نظر آتی ہے۔

جس میں نفس اپنی شہوانی خواہشات، باطل اور طاغوتی قوتوں اور شیطانی حیلہ بازیوں کی بھر پور تیاریوں کے ساتھ روح کے خلاف صف آراء نظر آتا ہے اور اس کے مد مقابل روح کمزور و ناتواں اور لاغر حالت میں جس کا ہتھیار کبھی ذکرِ الٰہی اور محبوب کی یاد تھا، جس کا زیور تقوی و طہارت تھا وہ آج کے اس مادیت پسند دور میں اس سے محروم ہو کر لاغر حالت میں اپنے سے کئی گنا طاقتور دشمن کا مقابلہ کرتی نظر آتی ہے۔ نتیجتاً دورِ جدید کا انسان اپنی تمام تر مادی اور سائنسی ترقی کے باوجود امن و عافیت کی تلاش میں در در کی ٹھوکریں کھا رہا ہے لیکن اسے کہیں جائے پناہ نہیں مل رہی۔

اب غزوہ بدر کی روشنی میں دیکھنا یہ ہے کہ میدانِ بدر میں اصحاب بدر جو بظاہر کمزور و ناتواں اور مٹھی بھر نظر آرہے تھے کس طرح انہوں نے اپنے سے بڑی فوج کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ انہیں شکستِ فاش دی۔ ایسی کون سی طاقت و قوت تھی جو ان کے پایہ استقلال میں تزلزل نہ لا سکی اور ان کو ثابت قدمی اور جوانمردی سے لڑنے پر تیار رکھا۔ جب اس کا راز تلاش کرتے ہیں تو یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ یہ صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین کا اپنے محبوب آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات سے والہانہ عشق و محبت تھا جو انہیں صحبتِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ملا تھا۔ گویا نسبت و صحبت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں اس قدر طاقتور بنا دیا کہ کوئی رکاوٹ بھی ان کے قدموں کی زنجیر نہ بن سکی۔ ان کا مقصدِ عظیم اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رضا اور دین کی سر بلندی و سرفرازی تھا، انہیں اپنی زندگیوں کی پرواہ نہ تھی گویا اپنی زبانِ حال سے یوں کہہ رہے ہوں۔

میری زندگی کا مقصد تیرے دیں کی سرفرازی
میں اسی لئے مسلماں میں اسی لئے نمازی

اور پھر یہ کہ کسی اعلیٰ و ارفع مقصد کے حصول کے لئے جب سر دھڑ کی بازی لگائی جائے تو زندگی بھی ایسی موت کو رشک بھری نگاہوں سے دیکھتی ہے۔

گویا دورِ جدید کے انسان کی روح کی بالیدگی اور حفاظت صرف اسی صورت میں ممکن ہو سکتی ہے جب اسے کسی نیک و صالح شخص کی نسبت و صحبت کے ساتھ منسلک کیا جائے۔ کیونکہ نفس و شیطان کے دجل و فریب کی نشاندہی، نفسانی و اخلاقی بیماریوں کا علاج، کسی نسبت کے ساتھ جڑنے سے ہوگا جس کے ذریعے قلوب و نفوس کی مردہ کھیتیوں کو آباد کیا جا سکے اور روح کے مریضوں کو شفا مل سکے۔ اور نفس جو اپنی تمام تر توانائیوں اور شیطانی حملوں کے ذریعے طاقتور ہو چکا ہے۔ اس کو کمزور کیا جا سکے اور اس کی اصلاح کی جا سکے۔ اس کے لئے آج کے دور میں اولیاء کی اہل اﷲ کی صحبت کی ضرورت ہے۔ جس کی پہچان اﷲ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں کرا دی ہے۔

وَاصْبِرْ نَفْسَكَ مَعَ الَّذِينَ يَدْعُونَ رَبَّهُم بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِيِّ يُرِيدُونَ وَجْهَهُ وَلاَ تَعْدُ عَيْنَاكَ عَنْهُمْ تُرِيدُ زِينَةَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا.

(الکهف، 18 : 28)

’’(اے میرے بندے!) تو اپنے آپ کو ان لوگوں کی سنگت میں جمائے رکھا کر جو صبح و شام اپنے رب کو یاد کرتے ہیں اس کی رضا کے طلب گار رہتے ہیں (اس کی دید کے متمنی اور اس کا مکھڑا تکنے کے آرزو مند ہیں) تیری (محبت اور توجہ کی) نگاہیں ان سے نہ ہٹیں۔ ‘‘

گویا اہل اﷲ کی معیت دورِ جدید کے انسان کے قلبی و ذہنی سکون کا مداوا اور مکینِ گنبدِ خضری سے ٹوٹے ہوئے تعلق کو جوڑنے کا ذریعہ ہے۔ دیارِ عشق کا مسافر بننے کے لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ عشقِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شمعیں سینوں میں فروزاں کی جائیں اور آج بھی کسی ایسے ہی انقلابی لیڈر کی محبت اور معیت اختیار کی جائے جو خود کشتہ عشق مصطفی ہو چکا ہے اور اپنی صحبت و تربیت سے ہمیں جذبۂ جہاد سے سرشار فضائے بدر پیدا کر دے۔ بقول اقبال

فضائے بدر پیدا کر کہ فرشتے تیری نصرت کو
اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی