پاکستان کی نوجوان نسل کا سوال؟

سلسلہ بیداریِ شعور
(قسط دوم)

صاحبزادہ مسکین فیض الرحمان درانی مرکزی امیر تحریک منہاج القرآن انٹرنیشنل

شومئی قسمت سے آج کی پاکستانی نوجوان نسل پاکستان بننے سے پہلے برصغیر پاک و ہند میں انگریز سامراج اور ہندو ساہو کار کی ان ہولناک سازشوں سے کچھ زیادہ آگاہ نہیں ہے جو انہوں نے مسلمانوں کے خلاف روا رکھیں۔ 1947ء سے پہلے مسلمانوں کو در پیش معاشی، اقتصادی، معاشرتی اور تباہ کن سیاسی حالات اتنے ہولناک اور بھیانک تھے۔ کہ جن کی وجہ سے ہند میں مسلمانوں کے لیے جینا دو بھر ہو گیا تھا۔ معمولی معمولی و اقعات کو بہانہ بنا کر مسلمانوں پر وُہ ظلم و ستم کیا جاتا تھا کہ جن کو یاد کر کے آج بھی روح کانپنے لگتی ہے۔ اسلام دشمن طاقتوں کے ہاتھوں ہندوستان میں بسنے والے مسلمانوں کا لرزہ خیز قتل عام، بے بس ماؤں کے سامنے بے گناہ اور معصوم بچوں کا ذبح کرنا، با عصمت خواتین کی ہندو غنڈوں کے ہاتھوں کھلے عام عصمت دری، بستیوں کی بستیاں جلا کر راکھ کا ڈھیر کر دینا اور سینکڑوں ہزاروں ایسے روح فرسا درندگی کے واقعات کہ جن کو دیکھ کر وحشی درندے بھی پناہ مانگیں، روز کا معمول بن گیا تھا۔ مسلمانوں کے لیے ہندو کے ظالمانہ تسلط سے آزاد ایک الگ خطہ زمین حاصل کرنا نا گزیر ہو گیا تھا۔ یہ مسلمانوں کی زندگی اور موت کا سوال تھا۔ پاکستان جن حالات کی وجہ سے بنا اور جس طرح بنا، اس کا صحیح ادراک صرف وہی لوگ کر سکتے ہیں۔ جو اس وقت ہندوستان میں موجود ان بھیانک حالات کی چکی میں پس رہے تھے۔ ٹی وی، ٹاک شوز میں بیوٹی پارلروں سے ہو کر جانے والے اور ڈرائنگ روموں میں بیٹھ کر آج کے چاکلیٹی سیاستدان اس جبر و ستم اور ظلم و جور کا تصور تک نہیں کر سکتے جو ہندوستان میں ہندؤں کے درمیان رہنے والے مسلمانوں نے سہے۔ 1960ء کے بعد ایک سازشی منصوبے کے تحت ملک عزیز پاکستان میں طلباء و طالبات کے نصاب تعلیم سے تحریک پاکستان، قراد داد مقاصد، نظریہ پاکستان، دو قومی نظریہ، اکابرین ملت کی جدو جہد کی لازوال داستانیں اور مسلمانانِ ہند کی قربانیوں کی وُہ کہانیاں حذف کر دی گئی ہیں۔ کہ جن کے پڑھنے اور سمجھنے سے نوجوانانِ ملت کو پاکستان بننے کے حقیقی محرکات، وجوہات اور نظریہ پاکستان کی حقیقی روح کے برعکس آج کی مکروہ سیاست کرنے والے جاگیرداروں کی خاندانی اصلیت اور پاکستان بننے کے بعد موروثی سیاستدانوں کے قومی جرائم کی حقیقت سے نوجوان نسل کو آگاہی ہو سکتی تھی۔ ’’چھپاؤ چھپاؤ نظریہ پاکستان کو چھپاؤ کہیں اس سے نوجوانوں میں بغاوت نہ پھیل جائے‘‘۔ یہ نظریہ پاکستان کے مخالف ٹولے کا وہ سیاسی حربہ اور گھناؤنی چال ہے کہ جو وہ اپنی ریاکاری، منافقت اور دسیسہ کاری کو چھپانے کے لیے سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں استعمال کر رہی ہے۔ آج جس سیاسی پارٹی کو دیکھیں، اُس نے بھاری رقم کے عوض ایسے چالاک، شاطر اور حقائق کو لفظوں کے ہیر پھیر میں الجھانے کے ماہر اہل زبان مناظروں(debators) کو میڈیا اور ٹی وی چینلز پر بات چیت, ٹاک شوز اور مذاکروں کے لیے ملازم(میڈیا مینجرز) رکھا ہے۔ وُہ اپنی لفّاظی سے عوام کو دھوکا دینے اور حقیقت حال سے بے خبر رکھنے کا فریضہ انجام دے رہے ہیں۔ دولت مند اور سرمایہ کار سیاسی جماعتوں کے مالک یہ مورثی سیاستدان خودتو عوام کے سامنے آنے اور ملکی حالات پر بات کرنے کے اہل ہوتے ہیں اور نہ ان کی ملکی حالات سے دلچسپی ہوتی ہے۔ حکمران ٹولے کی مقتدر شخصیات زیادہ تر بیرون ملک دوروں پررہتے ہیں۔ جہاں وُہ اپنے تجارتی مفادات، اور سیاسی مستقبل کی حفاظت کے لیے اپنے غیر ملکی آقاؤں کی اشیرباد حاصل کرنے میں مصروف ہوتے ہیں۔ مادیت کی ترغیب اور مال و زر کی تحریص، لالچ اور ہوا و ہَوس کے ذریعے نظریہ پاکستان کا مخالف حکمران اور سرمایہ دار ٹولہ قوم کی نوجوان نسل کو غیر اسلامی اقدار، مرد و زن کے آزادانہ اختلاط، شیشہ کیفیوں میں منشیات کے کھلے استعمال، پاپ میوزک، موسیقی کی دھنوں پر دیوانہ وار ناچ گانے اور مخلوط رقص و سرود جیسی قبیح اورمکروہ حرکات میں مشغول رکھ کر ان کو نظریہ پاکستان اور دین اسلام سے دورلے جانے کی سر توڑ کوششوں میں مصروف ہے اور بڑی حد تک اس میں کامیاب دکھائی دے رہا ہے۔ لیکن بحمداللہ تعالیٰ پاکستان کی موجودہ نئی جوان نسل میں اللہ تعالیٰ نے ایسے صاحب فکر و عزم نوجوان بھی پیدا کئے ہیں کہ جوان کی مکروہ فرعونی چالوں کواچھی طرح جاننے اور سمجھنے کی اہلیت رکھتے ہیں، وہ ان کی سازشوں، ہتھکنڈوں اور موجودہ انسانیت کش انتخابی نظام کی تباہ کاریوں سے بھی بخوبی واقف ہیںکہ جن کے ذریعے ملک عزیز میں سرمایہ داروں، جاگیرداروں، وڈیروں اور سیاسی لٹیروں کے مفادات کی حفاظت کرنے والی حکومت قائم کی جاتی ہے اور عوام کی بجائے سرمایہ دار غنڈوں کو تحفظ دیا جاتا ہے۔ مکرو فریب پر مبنی موجودہ سیاست اور نظام انتخابات کے ہوتے ہوئے ملک و قوم کی ترقی کسی حال میں بھی ممکن نہیں ہے، نوجوان نسل کو اس حقیقت کا بھی مکمل ادراک ہے کہ اس مکروہ نظام کے تحت غریب روز بروز غریب تر اور مالدار مالدار تر ہوتا چلا جارہاہے، مہنگائی اور بے روز گاری عوام کا مقدر بن چکی ہے، جاگیرداروں اور مالداروں پر مہنگائی، غربت، لاچاری اور بھوک کا کوئی اثر ہوتا ہے اور نہ وُہ اُسے محسوس کرتے ہیں۔ ملک عزیز میں رائج نظام حکومت کی وجہ سے اہل پاکستان بھوک اور جہالت کا مسلسل شکار ہیں، وہ ہمہ وقت خوف وغم کی اندوہ ناک کیفیت میں مبتلا ہیں۔ وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم، لاقانونیت، سماجی عدم استحکام، اخلاقی زوال، انسانی حقوق کی پامالی، دشمنوں کے اشارے پر پاکستان میں موجودبے پناہ معدنی وسائل اورتیل کے ذخائر کے بروئے کار لانے پر اربابِ اختیار کی مجرمانہ چشم پوشی‘ دانستہ آ بی ذخائر نہ بنانے کا ناقابلِ معافی قومی جرم، موجودہ ملک شمن سیاسی روّیے، غیر جمہوری اندازِ فکر اور غیر مستحکم معاشی اور اقتصادی حالات موجودہ انتخابی، سیاسی اور حکومتی نظام کا شاخسانہ ہے۔ دوسری بڑی وجہ اس مکروہ سیاسی نظام میں عدم احتساب ہے۔ عوام کے سروں پر مسلط ہونے والی ہر نئی حکومت پچھلی حکومت کے کرپٹ افراد، نوکر شاہی اور نااہل حکمرانوں سے ان کی بڑی سے بڑی بد عنوانی، کرپشن، نا اہلی اور غفلت پر احتساب کی جرات نہیں کرتی ہے، کیونکہ اس نے بھی وہی کچھ کرنا ہوتا ہے، جو اس کے پیشرو کر چکے ہوتے ہیں۔ بد عنوانی، نااہلی اور قوم کو تباہ کرنے کی سازشوں میں حزب اقتدار یا حزب اختلاف سب ایک جیسے بن جاتے ہیں، ان سب کرپٹ سیاسی عناصر کی تاریخ دیکھ لیں، یہ سب ایک مالک اور ایک مائی باپ کے غلام اور بندے ہوتے ہیں اوران ہی کے اشارے پر کام کرنے والے، سیاست کے حمام میں سب ایک جیسے ننگے ہوتے ہیں لیکن پاکستانی قوم کو امید ہے کہ اب وُہ وقت زیادہ دور نہیں کہ پاکستان کے مستقبل کے بارے میں آج کی فکر مند نوجوان نسل بہت جلد اس موجودہ سیاسی نظام کی چیرہ دستیوں کے خلاف فکری بغاوت کر کے نظریہ پاکستان کی بنیاد پر ملک عزیز میں ایک عظیم سیاسی تبدیلی لانے والے ہیں۔ بحمد اللہ تعالیٰ ہماری آج کی پاکستانی نوجوان نسل واضح فکر و نظر کی مالک ہے، وہ پاکستان کے حالات پر آج جس قدر فکر مند نظر آتی ہے اور اپنے بڑوں سے ملکی حالات کے بارے میں جس قسم کے فکری اور نظریاتی سوالات کا جواب مانگ رہی ہے، اس سے امید کی وہ کرن روشن نظرآ رہی ہے کہ ملت اسلامیہ کے یہ با ہمت اور بہادر سپوت برصغیر ہندو پاک میںاپنے اسلاف کی قربانیوں، غلبہ دین حق کے لیے علماء اوراولیاء کرام کی مبلغانہ کاوشوں، 1857 ء میں اسلامی انقلاب کی ابتداء (rennaisance)، حرّیت فکر، انگریز سامراج کے خلاف بغاوت، تحریک خلافت، تحریک پاکستان، قرار داد مقاصد اور نظریہ پاکستان کی تفصیلات سے پوری طرح آگاہ ہو کر اپنے جوان لہو کی حرارت اور قوت فکر و نظر سے اپنے پیارے وطن کی دینی، فکری، نظریاتی اور سرحداتی حفاظت کا فریضہ ادا کریں گے اور ملک میں رائج سیاسی اور مکرو فریب سے آلودہ موجودہ انتخابی نظام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں گے۔

موجودہ سیاسی، معاشی اور سازشی معاشرتی نظام نوجوانوں کی جسمانی، ذہنی، فکری، روحانی اور اخلاقی قوتوں کو تیزی سے ناکارہ بنا رہا ہے۔ اس مقصد کے لیے بین الاقوامی ابلیسی اور دجالی قوتیں ملک عزیز پاکستان میںان خاص فرعونی سیاسی ہتھکنڈوں کا بیدریغ استعمال کر رہی ہیں۔ جو زمانہ قدیم سے وُہ نیکی کی قوتوں کے خلاف استعمال کرتی چلی آئی ہیں۔ ابلیس؛ تخلیق آدم کے وقت سے انسان کا دشمن ہے۔ وہ شرف انسانی سے متعلق انسان کی ہر نیک خصلت کومٹانا چاہتا ہے وہ انسانی علم، عقل، فہم، شعور، وجدان اور ان تمام اخلاق حسنہ کے خلاف سر گرم عمل ہے کہ جو انسان کو دوسری مخلوقات پر فوقیت عطا کرنے کا سبب ہوتی ہیں، وہ جہالت، بیوقوفی، بے شعوری اور رذائل اخلاق کی افزائش کرتا ہے۔ شیطان غیر محسوس طور پرہر جہت سے انسان پر حملہ آور ہوتا ہے اوراس کو بے بس کر دیتا ہے۔ روئے زمین پر انسان کو ورغلانے اور گمراہ کرنے کے لیے شیطان کے خاندان کے لوگ اور اس کے چیلے چانٹے ہر قسم کے کیل کانٹے سے لیس ہو کر انسان پر حملہ آور ہوتے ہیں۔ اللہ کے مخلص بندے، اس پر یقین رکھنے والے، نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع کرنے والے اور اسلامی نظریاتِ زندگی پر عمل کرنے والے لوگ ان کے جھانسے میں آنے سے بچ جاتے ہیں۔ اللہ تعالےٰ ان کی حفاظت فرماتا ہے۔ اور وہ منزل کی طرف کامیابی سے اپنا سفر طے کرتے ہیں۔ ابلیس کے پیروکار، دجالی فرقے اور فرعون صفت حکمران اللہ تعالےٰ کے بندوں کو طرح طرح کی تحریصات اور ترغیبات سے ورغلاتے ہیں، ان سے جھوٹے وعدے کرتے ہیں اور دلفریب باتوں سے لبھاتے ہیں۔ بے دین اور گمراہ لوگ ان کے کہنے میں آ جاتے ہیں اور ان کے رنگ میں رنگ کر ان کا ساتھ دینے لگتے ہیں، وُہ دیندارلوگوں پر عرصہ زندگی تنگ کر لیتے ہیں، کمزور عقیدے کے لوگ ان کے ہاتھوں شکست کھا جاتے ہیں اور ان کی مرضی کے مطابق زندگی گزارتے ہیں لیکن صاحبانِ ہزیمت ایمانی قوت سے ان کا مقابلہ کرتے ہیں، فرعونی اور طاغوتی طاقتوں کا سب سے بڑا حملہ قوم کی نوجوان نسل پر ہوتا ہے۔ طاغوت کے لیے کسی قوم کی ہلاکت کی موثر ترین صورت یہ ہوتی ہے کہ وہ اس کو اس کے نظریۂ حیات یعنی منزل شوق سے دور پھینک دے اور فکرِ صحیح سے محروم کر دے۔ یہ نوجوان نسل کی بد ترین ہلاکت ہوتی ہے۔ آندھیوں، طوفانوں، قیامت خیز زلزلوں اور ہولناک سیلابوں سے زیادہ تباہ کن اور خوفناک تباہی نوجوان نسل کے اخلاقی اور روحانی اقدر کو تباہ کرنے سے ظہور میں آتی ہے، فرعونی قوتیں منافقانہ چالوں، چکنی چپڑی باتوں، مستقبل کے سنہرے خواب اور گمرا ہ کن لادینی نظریات کی ترویج و اشاعت سے نوجوان نسل کو اپنے دامِ تزویر میں جکڑ لیتی ہیں۔

حکمتے از بندِ دین آزادہ‘ از مقامِ شوق دور افتادہ‘
ہر زماں اندر تلاشِ ساز و برگ کارِ اُو فکر معاش و ترسِ مرگ!

طاغوتی قوتیں نوجوانوں کو بے مقصد تماشوں، کھیل کود، لہو و لعب اور شیطانی مشاغل میں ایسا الجھا دیتی ہیں کہ سب سے پہلے نوجوانوں کے ذہن سے دینی شعور آہستہ آہستہ کم ہوتا ہے اور پھر بالکل ختم ہوجاتا ہے۔ اُن میں مذہبی شعائر کی پاسداری کا جذبہ سر د ہو جاتا ہے، ان شیطانی اثرات کی علامت یہ ہوتی ہے کہ مثلاًنماز کا وقت ہے۔ اورنوجوان کھیل کے میدان میں مصروف ہیں۔ سینما، تھیٹر اور ٹی وی دیکھ رہے ہیں۔ ناچ گانے اور بیہودہ تفریحات میں مگن ہیں۔ سورہ لقمان کی چھٹی آیت میں ’’ لہو الحدیث‘‘ سے منع کیا گیا ہے، لہو الحدیث سے مراد ہر ایسی بات اور کام ہوتا ہے کہ جو انسان کو اپنے اندر ایسا مشغول اور محو کر دے کہ وہ اللہ کے فرائض کی ادائیگی کوبھول جائے۔ دینی اشغال سے غافل ہو جائے۔ اس کا اطلاق ہر ان بُری، بیہودہ اور فضول باتوں پر ہوتا ہے۔ جو شَر اور بدی میں کشش اور باطل میں رنگینی پیدا کر کے نفسِ امارّہ کو بیدار کریں اور حق کو مغلوب کرنے کی ترغیب دے۔

نضر بن حارث؛ مکہ کا ایک مشہور مشرک اور بت پرست تاجر تھا۔ جب پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت حق مکہ میں عام ہونے لگی اور لوگ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان نبوّت سے اللہ کا کلام سن کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قریب آنے لگے اور اسلام میں دلچسپی لینے لگے، تو سردارانِ قریش کو تشویش لاحق ہُوئی اور انہوں نے سخت مزاحمت کی، ان کے لیے یہ امر ناقابل برداشت تھا۔ کہ ان کے غلام اور زیر تسلط لوگ ایک ہاشمی نوجوان کی دعوت حق سننے کے لیے اُس کے گرد جمع ہوں اور اس کی باتوں میں دلچسپی کا اظہار کریں۔ ان کو سنیں اور پسند کریں۔ چنانچہ انہوں نے نبی محتشم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت حق کوسننے اور اس پر لبیک کہنے والوں پر سخت مظالم ڈھانے شروع کیے۔ لیکن ان تمام مظالم، جبروستم اور ناقابل برداشت اذیتوں کے با وجود پروانے شمعِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گرد جمع ہوتے گئے۔ اس پر کفار اور مشرکین مکہ مزید سیخ پا ہوئے اور انہوں نے زیادہ سخت مظالم ڈھانے شروع کئے۔ اس جبر، استبداد اور ظلم و ستم کے ساتھ ساتھ انہوںنے اپنے سیانوں اور دانشوروں کی ایک مجلس مشاورت بھی طلب کی۔ جس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت حق کو روکنے کے لیے مختلف آراء پیش کی گئیں اور ہر تجویز پر غور ہُوا، لیکن پیغمبر اسلام کی دعوتِ حق کا مقابلہ کرنے کی ہر تجویز بودی اور کمزور لگی، اس پر اس وقت کے بہت ذہین، چالاک اور عیّار شخص؛ نضر بن حارث نے تجویز پیش کی، کہ وہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تلاوت آیات اور دعوت و تلقین کے مقابلے میں ایک بہت مؤثر شیطانی فتنہ کو بروئے کار لائے گا، یہ فتنہ لہو الحدیث کا ہو گا جس کے ذریعے وُہ دعوت اسلام کا توڑ کرے گا۔ وُہ رقص و سرود، گانے بجانے، سٹیج ڈراموں، بھانڈوں اور مسخروں کی نقالی کے ذریعے لوگوں کو اپنی طرف مائل کرے گا۔ وہ جگہ جگہ میدانوں اورپنڈالوں میں کھیل تماشوں کے لیے تھیٹر بنائے گا۔ عراق اور فارس سے شاہانِ عجم کے افسانے اورر ستم و اسفند یار کی داستانوں اور کہانیوں کی کتابیں، ناول اور افسانے لا کر مکہ میں جگہ جگہ ایسی لائبریریاں اور سنٹر کھولے گا، کہ جہاں لوگوں کے لیے با لکل مفت ان داستانوں اور کہانیوں کو سنانے کا انتظام ہو گا۔ اس نے دین اسلام کے خلاف اس مکروہ دھندے کو مزید اس طرح فروغ دیا، کہ سردارانِ قریش سے خوش لحن اور خوبرو لونڈیاں اور نوخیز غلام لڑکے حاصل کئے۔ اور شہر کے مختلف حصوں میں پنڈال اور سٹیج سجا کر اُن نیم برہنہ آراستہ لونڈیوں، ہیجڑوں اور مخنثوں کو ناچنے گانے پر لگا دیا۔ یہ صلائے عام بھی تھا، مفت کی دعوت اورمحافل رنگ و بو کی ترغیب بھی تھی۔ چنانچہ مقامی لوگ اور حج کے لیے آنے والے زائرین ان سنٹروں، تھیٹروں اور رقص و سرود کی محفلوں کی طرف تیزی سے راغب ہونے لگے، نتیجتاً مکہ میں تیرہ سال اسلام کے مشن کے فروغ اور دعوت کی رفتار سست پڑ گئی۔ یہاں تک کہ اللہ تعالےٰ کے حکم سے دعوت حق کے فروغ کے لیے آقائے محتشم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مکہ سے مدینہ منورہ ہجرت کرنی پڑی۔

ملک عزیز پاکستان کی تاریخ پر گہری نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے۔ کہ 1960 ء کے بعد کس تیزی اور بلا خیز سرعت کے ساتھ لہو الحدیث نے سینما، فلم، تھیٹر، ڈرامہ، فحاشی، عیاشی اور عصمت فروشی کے اڈوں، ہیجڑوں، خواجہ سراؤں، مخنثوںاور بھانڈوں کے مکروہ کاروبار، پاپ میوزک، ڈانس کلبوں، ناچ گھروںاور رقص و سرود کے بزنس کو فروغ دیا گیا اوراس مکروہ کاروبار کو ملک بھر میں کتنے زور و شور سے پھیلا یا گیا، بڑے بڑے سرمایہ داروں اور جاگیر داروں نے بینکوں سے اربوں کھربوں روپے قرضے لے لے کر اس گھناؤنے کاروبار میں سرمایہ کاری کی۔ حکومت نے کھل کر قرضے دئیے اور اس کاروبار کی سر پرستی کی۔ نوجوان نسل کے لیے علمی درسگاہوں، سکولوں، کالجوں اور اعلیٰ تعلیم کے لیے یونیورسٹیوں کی جس قدرشدید ضرورت تھی۔ اس کو پسِ پشت ڈال کر قوم کو ذہنی اور جسمانی تعیش کے ایسے بھیانک سمندر میں دھکیلا گیا۔ جس کا نتیجہ ایک دردناک قومی زوال کی صورت میں جلد ہی سامنے آیا۔ پاکستان ایک ترقی یافتہ ملک بننے کی بجائے بہت تیزی سے ایک ایسے پسماندہ ملک میں تبدیل ہو گیا کہ جس کی عوام بھوک، جہالت، خوف اور غم کی چکی میں مستقل پسنے پر مجبور ہو گئی۔ ملک عزیز میں علم و دانش کی جس قدر شدید بے توقیری کی گئی۔ اس کی نظیر تاریخ میں کہیں نہیںملتی۔ دانائی، علم اور حکمت کی جڑیں کاٹی گئیں۔ اشرافیہ اور حکمران ٹولے میں نام کا بھی کوئی ایسا دانشور، مفکر اور مدبّر منصہ شہود پر نمودارنہ ہو سکا، کہ جو اگر بہت زیادہ نہیں تو کم از کم انڈونیشا، ملائشیا اور ایران جیسے برادر اسلامی ممالک کے قائدین کی طرح ملک عزیز کی ڈولتی نیّا کو کنارے لگا نے کے لیے کسی جدوجہد کا آغاز کرتا۔ موجودہ حکمران ٹولے اور حزب اختلاف کے سیاستدانوں میں کسی ایسے فرد واحد کے دیکھنے کے لیے نگاہیں ترستی ہیںکہ جس کی بات پر عوام کچھ بھروسہ کر سکیں، سیاستدانوں کی زبان سے کلمہ خیر سننے کے لیے عوام کے کان ترستے رہ گئے ہیں۔ عوام اس انتظار میں ہے کہ اے کاش ان کے لیڈروں میں سے کسی کی زبان سے کبھی کوئی بصیرت افروز اور فکر انگیز بات ایسی بھی نکلے، کہ جس میں قوم کے لیے امید کی کوئی کرن ہو، اب تووہ وقت آگیا ہے کہ والدین ٹی وی کے سامنے سے اپنے بچوں کو اس وقت دو ر ہٹا دیتے ہیں، جب ٹاک شوز اور مذاکروں میں سیاسی لیڈر گلا پھاڑ تے نظر آتے ہیں۔ وہ لیڈر جو منہ سے شعلے نکالتے، چیختے چلاتے دھاڑتے ‘ ایک دوسرے پر طنز و تشنیع کرتے اور مغلظاّت بکتے ٹی وی کے سکرین پر نظرآتے ہیں۔ قوم کو سخت ذہنی اذیت میں مبتلا کرنے کا باعث ہیں۔ بلکہ ایک خطر ناک وائرس کی شکل میں عوام الناس کو طرح طرح کی خطرناک ذہنی بیماریوں میں مبتلا کر رہے ہیں۔

حالت یہ ہو گئی ہے کہ ٹی وی چینلز پر عوام الناس کے لیے سیاستدانوں کی لا یعنی گفتگو سننے کی بجائے بھانڈوں اور مسخروں کی باتوں میں دلچسپی کا سامان زیادہ ملنے لگا ہے۔ جس کو ٹاک شاک کہا جاتا ہے۔ قومی زبان اردو کو ہندی لہجہ میں بول کر بگاڑا جا تا ہے۔ اشتہارات اور چینلز میں لغو ز بان بولی جاتی ہے جس نے شائستہ اور نستعلیق زبان بولنے کے تصور کو ختم کر دیا ہے۔ بھارتی ایکٹروں اور ایکٹرسوں کے بنائے گئے چینلز نے چھوٹے بچوں کی زبان بگاڑ کر روایتی شائستگی کا ناس کر دیا ہے۔ قوم کی نوجوان نسل کو تباہ کرنے کے لیے ٹی وی چینلز پر موبائیل فونز کے اشتہاراتی اور پبلسٹی پروگراموں اور جنگلز کی بھر مار ہے۔ جو آج کے دور میں لہو و لہب، عریانی، فحاشی اور نوجوان نسل کے اخلاق کوبگاڑنے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ موبائیل فونز پر رات گئے نوجوان لڑکے لڑکیوں کے لیے مفت بات چیت (chatting) کے پیکجوں کے آفر دئیے جاتے ہیں۔ ساری ساری رات قوم کے بچے جاگ کر شہوانی اور جنسیاتی بات چیت میں گزار دیتے ہیں۔ صبح وُہ کیا خاک سکول کالجوں میں جا کر تعلیم پر توجہ دے پائیں گے۔ کیا حکومت وقت، اربابِ بست و کشاد اور قومی قائدین اس حقیقت سے بے خبر ہیں؟نہیں، قطعاً نہیں، بلکہ وُہ منافع کے اس کاروبار میںوُہ بھی بطور شراکت دار برابر کے شریک ہیں۔ نوجوان نسل کو موبائیل فونز کے ذریعے جس عظیم تباہی سے دو چار کیا جارہا ہے اور مغربی اور ہندوستانی فلموںکے بے حیائی اور بے شرمی کے جوعریاں مناظر قومی ٹی وی چنیلز پر دکھائے جاتے ہیں، نوجواں نسل اُن کو دیکھ دیکھ کرخود بخود ان مردانہ صلاحیتوں سے ہاتھ دھو رہی ہے کہ جو اقوام و ملّل کی غیرت، حمیّت، طاقت اور شجاعت کی ضمانت ہوتے ہیں، اور جن پر اقوام کے مستقبل کی تقدیرکا دارومدار ہوتا ہے، ٹی وی چنیلز پر ہیجڑوں، مخنثوں اور خواجہ سراؤں کو خاص گٹ اپ میںبڑے ذوق و شوق سے سکرین کی زینت بنایا جارہا ہے، تا کہ نوجوان نسل ان کو ملک کے معزز ترین افراد تصور کریں۔ فلمی اداکاروں اور ایکٹرسوں کو ستارے کہا جاتا ہے۔ اور اُن کو قومی اعزازات سے نوازا جاتا ہے۔ یہ سب کچھ قوم اور نوجوان نسل کو ایک خاص قسم کی جنسی انارکی کی طرف لے جانے کی گھناؤنی سازش ہے۔ جو حکومتی سر پرستی کے تحت ہو رہی ہے۔

ظلم کی انتہا جانیے کہ اب تو عید جیسے مقدس ایام میں بھی ٹی وی چینلز پر مکروہ صفت ایکٹروں، ایکٹرسوں اور اینکر پرسن کے بے حیائی والے ایسے پروگرام ترتیب دیئے جاتے ہیں کہ جن کو دیکھ کر انسانی شرم و حیاء دور کسی کونے میں منہ چھپا کر رو رہی ہوتی ہے۔ اینکر پرسن نوجوان لڑکیاں ہیجڑوں، خواجہ سراؤں اور مخنثوں کے ساتھ گلے ملتی ہیں۔ اور ان کے ساتھ جڑ کر ایسے بیٹھتی اورلپٹتی ہیں، جیسے وہ ان خواجہ سراؤں سے کوئی خاص فیض حاصل کر رہی ہوں۔ مرد عورتیں، لڑکے لڑکیاں کھلے عام ایکدوسرے سے ہاتھ ملاتے ہیں، گلے ملتے ہیں اور ایکدوسرے کو یار کے لفظ سے پکارتے ہیں۔ اور اس لفظ کو آپس میں بے تکلفی اور دوستی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ ہندوستانی رسوم والے شادی بیاہ کے پروگرام پاکستانی قومی ٹی وی چینلز پر دکھائے جا رہے ہیں۔ یہ سب اداکار لڑکے لڑکیاں مسلمان اور امت مسلمہ کے افراد ہیں اور ایک اسلامی مملکت کے وہ باشندے کہ جنہوں نے ملک عزیز میں نظریہ پاکستان کو فروغ دینے کا فریضہ انجام دینا ہے۔ ایک بین الاقوامی سازش کے تحت حکومتی اشارے پر ٹی وی چینلز کی نوجوان اینکر پرسنز ملک عزیز کے مختلف شہروں کے گندگی اور فحاشی کے بازاروں میں جنہیں وُہ بازار حسن کے نام سے پکارتی ہیں، طوائفوں کے کوٹھوں اور بالاخانوں پرجا کر نوجوان طوائفوں اور عصمت فروش عورتوں (prostetutes) سے ایسے خاص انداز میں انٹرویو کرتی ہیں۔ کہ عوام ان کی طرف زیادہ سے زیادہ راغب ہوتے چلے جائیں۔ جن پاکستانی نوجوانوں اور بچوں کو شاہی محلہ اور ہیرا منڈی جیسے مکروہ ناموں کا علم تک نہ تھا، ٹی وی کے یہ پروگرام دیکھ کر وہ اپنے بڑوں سے ان کی تاریخ اور محل وقوع کے بارے میں استفسار کرنے لگے ہیں۔ اینکر پرسن ساتھ ساتھ یہ اعلان بھی کرتی ہیں کہ یہ پیشہ ملک کا ایک گرانقدر ورثہ اور تہذیبی کلچر ہے۔ جس کے فروغ کے لیے زیادہ سے زیادہ کوشش کرنی چاہیے۔

مکہ میں فحاشی، عریانی، ناچ گانے، قصے کہانیوں ‘ داستانوں، نقالی اور اداکاری جیسے مکروہ دجالی منصوبے کے ذریعے دین اسلام کی دعوت کی راہ میں شدید رکاوٹیں کھڑی کرنے والا منصوبہ ساز، لہو الحدیث کا ماہر فنکار نضر بن حارث؛ کچھ عرصہ بعد غزوہ بدر میں کئی دوسرے کفار مکہ کے ساتھ گرفتار ہُوا۔ اس عہد کے رواج کے خلاف سرکار مدینہ رحمتہ للعالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسیرانِ جنگ کے ساتھ بہت رحمدلانہ اور نیک سلوک کیا۔ ان میں اکثر کو فدیہ لے کر چھوڑ دیا۔ جن کے پاس فدیہ ادا کرنے کے لیے رقم نہ تھی، ان کو محض آئندہ مسلمانوں کے خلاف جنگ نہ کرنے کے وعدے پر رہا کر دیا۔ اورپڑھے لکھے قیدیوں کو مسلمان بچوں کو تعلیم دینے کے عوض رہا فرما دیا لیکن لہو الحدیث کے ماہر، نضر بن حارث کومعاف نہیں کیا گیا۔ اور اس کو موت کی سزا دی گئی۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ نضر بن حارث کا ’’فن‘‘پوری عالم انسانیت کی گمراہی اور تباہی کا موجب تھا۔ دنیا میں انسانیت کی تباہی کا شاید ہی اس سے زیادہ کوئی اور بھیانک کام بھی ممکن ہو۔

نضر بن حارث کی روحانی اولاد کو ملک عزیز میں حکومتی سر پرستی، دین مخالف عناصر اور علمائے سُو کی بے حسی کی وجہ سے ایسا مناسب ماحول میسر ہے کہ وہ اس ’’فن ‘‘ کی بڑی تیزی سے نشو ونماکر رہی ہے، وہ پھولی پھلتی جا رہی ہے اورنوجوان نسل اور تہذیبِ انسانی کو تباہ کررہی ہے۔ پاکستان کی تنزلی، بربادی اور تباہی میں لہوالحدیث کی فنکاری اور پُرکاری کا کردار سب تباہیوں سے بڑھ کر ہے۔ علامہ اقبال مفکر پاکستان اور اہل درد حضرات بار بار مسلمانوں سے کہتے رہے، لیکن بے سود؛ کیونکہ آج کا حکمران ٹولہ بیرونی اشارے پر خود لہو الحدیث کا سب سے بڑا سر پرست اور پر چارک ہے : ۔

حریم تیرا‘ خودی غیر کی‘ معاذ اللہ دوبارہ زندہ نہ کر‘ کاروبارِ لات و منات
یہی کمال ہے تمثیل کا کہ تو نہ رہے رہا نہ تو تو نہ سوزِ خودی نہ ساز حیات!

حضرت علامہ اقبال نے سینما اور اداکاری کے متعلق بہت پہلے فرمایا تھا :

وہی بت فروشی وہی بت گری ہے سینما ہے یا صفتِ آذری ہے !
وہ مذہب تھا اقوام عہد کہن کا یہ تہذیب حاضر کی سوداگری ہے!
وہ دنیا کیا مِٹی‘ یہ دوزخ کی مِٹی وُہ بتخانہ خاکی‘ یہ خاکستری ہے !

نوجوان نسل کی اخلاقی تباہی کو فرعونی طاقتیں اپنی سب سے بڑی کامیابی سمجھتی ہیں۔ سورہ الاعراف کی ایک سو ستائیسویں آیہ کریمہ میں اللہ تعالےٰ مسلمانوں کو فرعون کے ان الفاظ کے بارے میں بتاتا ہے، جووُہ اپنے اتحادیوں سے کہتا ہے ’’ میں ان (مخالفین) کے بیٹوں کو قتل کر دوں گا‘‘ یعنی اپنے نظریہ سیاست کے مخالفوں کا جسمانی قتل بھی کروں گا اور معنوی لحاظ سے در پردہ ان کے نوجوانوں کی جسمانی اور مردانہ صلاحیتوںکو بھی فحاشی، عریانی، بد کاری اور جنسی نراج کے ذریعے تباہ کروں گا۔ تا کہ ان میں وُہ طاقت، شجاعت، غیرت اور قومی حمیت باقی نہ رہے۔ کہ جس کے ذریعے وہ میرا مقابلہ کر سکیں۔ اس مقصد کے حصول کے لیے فرعون کے جانشین آج بھی قوم کے بچوں کو اعلیٰ اخلاقی تعلیم و تربیت، جسمانی اور ذہنی ورزشوں، قوت اور دماغی صلاحیتوں سے اسی طرح

محروم کر کے طرب و نشاط، نغمہ و موسیقی، ناچ گانے اور لہو و لہب کے مشاغل پر لگا تے ہیں، وہ نوجوانوں کو عورتوں کی طرح حلیہ بنانے، بننے اور سنوارنے کا شوق دلاتے ہیں، پاکستان میں مخنثوں اور ہیجڑوں کے مکروہ اور خلاف اسلام کاروبار کو اسی مقصد کے حصول کے لیے زیادہ سے زیادہ تحفظ دیا جا رہا ہے، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر ان کے خاص پروگرام انتہائی دلکش انداز میں دکھائے جاتے ہیں، ان کے گندے کاروباری معاملات میں زیادہ سے زیادہ آسانیاں پیدا کی جا تی ہیں۔ شادی بیاہ کے موقعوں پر بھاری معاوضہ دے کر ان سے محافل طرب و نشاط سجائے جاتے ہیں۔ شاہراہوں، سڑکوں کے فٹ پاتھ اور ٹریفک سگنل والے چوراہوں کو ان کے اڈوں کی صورت دی جارہی ہے۔ ہوٹلوں اور شیشہ کیفیوں میں عورتوں کے روپ میں نوجوانوں کے ساتھ ان کے آزادانہ اختلاط کا بندوبست کیا جاتا ہے۔ حال ہی میں اخبارات میں یہ بھیانک خبر شائع ہوئی کہ وفاقی دارلحکومت میں ایک غیر ملکی اسلام دشمن سفارت خانے میں اعلیٰ حکومتی حکام کی موجودگی میںکھلم کھلا ہم جنس پرستوں کے لیے جشن آزادی کی خصوصی تقریب منعقد ہوئی۔ شرکاء جشن نے پوری آزادی اور سہولت سے ہم جنسی اور آزادانہ اختلاط کیا، شراب و کباب کے دور چلتے رہے، غیر ملکی سفارت خانے کے حکام یہ خلاف انسانیت کام کرنے والوں کو ہر سطح پر اپنی حکومت کی حمایت کا یقین دلا رہے تھے۔ اعلیٰ پاکستانی خاندانوں کے لڑکے لڑکیوں کو خاص دعوت دی گئی تھی، جنہوں نے زنانہ و مردانہ روپ دھارکر خوب داد عیش دی۔ بنظرِ غائر دیکھا جائے تو یہ پاکستان میںبین الاقوامی دجالی منصوبہ’’ انتشارِ فتنہ جنس اور فحش‘‘  (explosion of affluence and extravagance) ,سیکس کا پہلا پارٹ (episode) تھا، جو مغربی دنیا میں تو کئی سالوں سے قانونی اور آئینی طور پر عام ہے لیکن پاکستان کی سر زمین پرپہلی بار سرکاری سطح پر نافذ کرنے کے لیے اس کی راہ ہموار کی گئی۔ اور پہلا بیج بویا گیا۔ پاکستان میں انسان کی فطری آزادی کے نام پر اب مغربی دنیا اس غیر فطری شیطانی عمل کی بھر پور حمایت کرے گی۔ اس کی کامیابی کے لیے بے تحاشا فنڈ دئیے جائیں گے، اسلام مخالف، بے دین پاکستانی حکمران، صاحبان اقتدار اور گمراہ اشرافیہ اس دجالی اور فرعونی کام کی پوری حمایت کریں گے۔ بالکل اُسی طرح، جس طرح پاکستان میں خواجہ سراؤں، مخنثوں اور ہیجڑوں کی سرکاری سرپرستی کر کے ان کے کاروبار کو ترقی دی جارہی ہے۔

خلفائے راشدین اور فقہائے دین کا فتوٰی ہے کہ کھلم کھلا بے حیائی، بے شرمی اور اباحیت پھیلانے کے مرتکب افراد کے خلاف شرعی عدالتوں میں مقدمے چلا کر سخت سزائیں دی جائیں۔ حضرت علی کرم اللہ وجھہ کا فرمان ہے کہ ہم جنسی کرنے والے مجرموں کو تلوار سے قتل کر کے ان کی لاشوں کو جلا دیا جائے۔ اللہ اور اس کے رسول مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان مردوں اور عورتوں پر لعنت کی ہے کہ جو ’’ تغییر خلق اللہ‘‘ جیسا گھناؤنا کام کرتے ہیں، یہ شیطان کی ملازمت (service) اور اتباع کرتے ہیں، مغربی دنیا کی اصطلاح میںجسم فروشی کرنے والی عورتیں اور مرد اس کو جسمانی خدمت کی فروخت کا نام دیتے ہیں۔ اور اس کو کسی قسم کی قباحت نہیں سمجھتے ہیں۔ سورہ نساء کی 119 ویں آیت کریمہ میں شیطان نے بہت بے ادبی سے اللہ تعالےٰ کے حضور تعلیّ کی کہ’’ مجھے قسم ہے کہ میں (نوع انسان) کو ضرور بہکاؤں گا اور ان کو طرح طرح کی امیدیں دلاؤں گا اور ان کو سکھلاؤں گا کہ اللہ کی بنائی ہوئی صورتیں بد ل ڈالیں ( اور اللہ کے احکام کی حکم عدولی کریں)اور (اللہ فرماتا ہے) کہ جو کوئی اللہ کو چھوڑ کر شیطان کو دوست بنا لے تو وہ صریح نقصان میں رہا‘‘۔ حضرت انس بن مالک، مجاہد، عکرمہ اور قتادہ کا قول ہے کہ کسی انسان کا خصی کرنا (مخنث اور ہیجڑا بنانا اوراس کوگندے کاموں کی تربیت دینا) اللہ کی بنائی ہوئی صورت کو بدلنا (تغییر خلق اللہ ) ہے، اور اللہ کے امر میں تغیر کرنا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمر بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس عورت پر لعنت کی جو ایک عورت کے بالوں کے ساتھ دوسری عورت کے بال ملاتی ہے اور جسم کے گودنے والی اور گود وانے والی عورت پر لعنت کی ہے۔ (صحیح بخاری) جو مرد عورتوں کی طرح چوٹی کرتے ہیں۔ اور جو عورتیں مردوں کی طرح بال کٹواتی ہیں یا سر منڈاتی ہیں۔ مرد اور لڑکے عورتوں اور عورتیں اور لڑکیاں مردوں کی طرح لباس پہنتی اور روپ دھارتی ہیں۔ یہ سب اللہ کی بنائی ہوئی صورتوں کو تبدیل کرنے کے جرم کا صریح ارتکاب کرتے ہیں۔ تغییر خلق کے معنی اللہ کے دین کو بدلنا اور اس میں تغیر کرنا، حرام کو حلال اور حلال کو حرام کہنے کے مترادف ہے۔

قیام پاکستان کے وقت جوان اور آج کی بوڑھی نسل وہ تھی، جس نے اس نسل کو دیکھا کہ جو پاکستان بنانے کے عظیم کارنامے کے بعد اللہ کو پیاری ہو گئی۔ 1947 ء کے بعد موجودہ نسل نے پاکستان کو جس طرح تعمیر کیا، وہ سب کچھ موجودہ نئی نسل کے سامنے ہے۔ موجودہ بوڑھی نسل نے جہاں دفاع پاکستان کو مضبوط بنانے کے لیے اس کو ایک عظیم جوہری طاقت بنانے کا کارنامہ سر انجام دیا اور جیسے تیسے کر کے پاکستان کو اب تک قائم رکھا، تین آبی ذخیرے بنائے۔ تعلیمی درسگاہیں، سکول کالج اورچند یونیورسٹیاں بنائیں۔ مواصلاتی پرنٹ اور الیکڑانک نظام کی تشکیل کی، گو اس نے یہ سب بہت سست روی اور نا اہلی سے کیا، مگر پھر بھی وہ کچھ نہ کچھ کرتی رہی، نئی نسل ملکی ترقی میں ان کی اس کاہلی، سست روی اور بد عنوانی کو سہہ لیتی، لیکن جس بھیانک مکروہ اور گھناؤنے جرم کا داغ بوڑھی نسل امت مسلمہ کے دامن پر لگا چکی ہے، نئی نسل شاید اس کو قیامت تک نہ بھلا سکے۔ اسی نسل کے ایک نظریہ پاکستان مخالف ٹولے نے ’’ ادھر تم ادھر ہم‘‘ کا نعرہ لگا کر مادرِ وطن کو دو لخت کرنے کے گھناؤنے اور ناقابل فراموش جرم کا ارتکاب کیا۔ مشرقی پاکستان کو مغربی پاکستان سے الگ کر کے بنگلہ دیش بنایا اور بھارت کے ساتھ مل کر امت مسلمہ کے سینہ میں ایسا خنجر گھونپ دیا کہ جس کا اند مال ہونا قیامت تک ممکن نہیں۔ یہ حصول اقتدار اور ہوا و ہوس کا ایک بھیانک کھیل تھا۔ جو پاکستانی قوم کے ساتھ کھیلا گیا۔ ایسا کیوں، کس کے ایماء اور کس سازش کے تحت کیا گیا اور کس نے اس گھناؤنی، مکروہ اور ہولناک سازش میں حصہ لیا؟ آج کی موجودہ نئی پاکستانی نسل کا سوال ہے۔ جس کا صحیح جواب دینا موجودہ بوڑھی نسل پر واجب ہے۔ اگر یہ لوگ نئی جوان نسل کو سچی بات بتانے سے گریز کریں اور حقائق کو چھپانے کی کوششیں کریں گے تو جان لیں کہ جہاں وہ اپنے ہاتھوں اپنی عاقبت تباہ کرنے اور اللہ کی بارگاہ میں اپنے آپ کو مجرم ٹھہرائیں گے، وہیں وہ پاکستان کو مزید تباہی اور بربادی کے گڑھے میں پھینکنے کے جرم کے بھی مرتکب ہوں گے۔

نئی نسل اور آئندہ آنے والی نسلیں اُن کا یہ بھیانک جرم کبھی بھی معاف نہیں کریں گی۔ جن لوگوں نے پاکستان کو دو ٹکڑے کرنے کا جرم عظیم کیا ہے وہ لوگ اللہ کے سامنے ضرور جوابدہ ہونگے۔ صاحبان فکر و نظر جب پاکستان کو دولخت کرنے والے لوگوں کے کردار پر نظر ڈالتے ہیں۔ تو صاف نظر آتا ہے کہ وہ لوگ فکری اور عملی طور پر اسلامی فلسفۂِ زندگی اور نظریہ پاکستان کے صریح منکر ہیں۔ وہ اسلام دشمن طاقتوں کے پروردہ ہیں۔ ان کی تعلیم اور تربیت اسلام دشمن اداروں کے اندر ہوئی اور وہ قرآن، حدیث اور اسلامی تعلیمات سے یکسر بے بہرہ اور دین مخالف لوگ ہیں۔ برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں نے ایک طویل اور جان گسل جدو جہد کے بعد عظیم قربانیاں دے کر پاکستان کی تشکیل کی۔ قربانی دینے والے ان نفوس قدسیہ نے پاکستان کیوں بنایا؟ اس کے وجوہات اور اسباب کیا تھے؟ تاج برطانیہ جیسی جابر اور قاہر سلطنت، برٹش انڈیا جیسی ظالم حکومت اور چالیس کروڑ ہندوؤں سے ٹکر لینے کا جذبہ ان میں کیسے پیدا ہوا؟ حریت فکر کے حامل اورآزادی کی تڑپ رکھنے والے نوجوانانِ پاکستان کے لیے یہ وہ داستان ہے، کہ جس کے حرف حرف اور لفظ لفظ کو جاننا اور حرزِ جان بنانا آج کی نوجوان نسل کے لیے روح حیات اور شاندار مستقبل کی نوید ہے۔ پاکستان کی نوجوان نسل کا سوال ہے۔ کہ نظریہ پاکستان اور لا الہٰ الا اللہ کے عہد پر حاصل کئے گئے پاکستان میں آج ان کے سنہرے مستقبل کو تباہ کرنے کے لیے جو ہتھکنڈے استعمال کئے جارہے ہیں، وہ کون لوگ کر رہے ہیں اور کس کی ایماء پر یہ سب کچھ ہو رہا ہے ؟۔ پاکستان کو بنانے میں نظریہ پاکستان کا کیا بنیادی کردار تھا۔ اور موجودہ حالات میں جب پاکستان کی نظریاتی اور جغرفیائی بنیادوں کو تباہ کرنے کے بین الاقوامی منصوبوں کا انکشاف ہو رہا ہے۔ نظریہ پاکستان کی اہمیت کیا ہے اور اس کی کتنی ضرورت ہے؟ کیا نظریہ پاکستان کو معدوم کر دینے کی صورت میں پاکستان کے قیام کا کوئی جوازرہ جائے گا؟ (جاری ہے)