فرمان الٰہی و فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

فرمان الہٰی

لَقَدْ اَنْزَلْنَا آيٰتٍ مُّبَيِّنٰتٍ ط وَاﷲُ يَهْدِيْ مَنْ يَشَآءُ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ o وَيَقُوْلُوْنَ اٰمَنَّا بِاﷲِ وَبِالرَّسُوْلِ وَاَطَعْنَا ثُمَّ يَتَوَلّٰی فَرِيْقٌ مِّنْهُمْ مِّنْم بَعْدِ ذٰلِکَ ط وَمَا اُولٰـئِکَ بِالْمُوْمِنِيْنَ o وَاِذَا دُعُوْا اِلَی اﷲِ وَرَسُوْلِهِ لِيَحْکُمَ بَيْنَهُمْ اِذَا فَرِيْقٌ مِّنْهُمْ مُّعْرِضُوْنَo

(النور، 24 : 46-48)

’’یقینا ہم نے واضح اور روشن بیان والی آیتیں نازل فرمائی ہیں، اور اللہ (ان کے ذریعے) جسے چاہتا ہے سیدھی راہ کی طرف ہدایت فرما دیتا ہے. اور وہ (لوگ) کہتے ہیں کہ ہم اللہ پر اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لے آئے ہیں اور اطاعت کرتے ہیں پھر اس (قول) کے بعد ان میں سے ایک گروہ (اپنے اقرار سے) رُوگردانی کرتا ہے، اور یہ لوگ (حقیقت میں) مومن (ہی) نہیں ہیں. اور جب ان لوگوں کو اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف بلایا جاتا ہے کہ وہ ان کے درمیان فیصلہ فرما دے تو اس وقت ان میں سے ایک گروہ (دربارِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  میں آنے سے) گریزاں ہوتا ہے‘‘۔

(ترجمہ عرفان القرآن)

فرمان نبوی  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه، قَالَ :  قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم  :  إِنَّ اﷲَ عزوجل يَقُوْلُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ :  يَا ابْنَ آدَمَ، مَرِضْتُ فَلَمْ تَعُدْنِي. قَالَ :  يَا رَبِّ! کَيْفَ أَعُوْدُکَ وَأَنْتَ رَبُّ الْعَالَمِيْنَ؟ قَالَ :  أَمَا عَلِمْتَ أَنَّ عَبْدِي فُـلَانًا مَرِضَ فَلَمْ تَعُدْهُ. أَمَا عَلِمْتَ أَنَّکَ لَوْ عُدْتَهُ لَوَجَدْتَنِي عِنْدَهُ؟ يَا ابْنَ آدَمَ! اسْتَطْعَمْتُکَ فَلَمْ تُطْعِمْنِي. قَالَ :  يَا رَبِّ! وَ کَيْفَ أُطْعِمُکَ وَأَنْتَ رَبُّ الْعَالَمِيْنَ؟ قَالَ :  أَمَا عَلِمْتَ أَنَّهُ اسْتَطْعَمَکَ عَبْدِي فُـلَانٌ فَلَمْ تُطْعِمْهُ؟ أَمَا عَلِمْتَ أَنَّکَ لَوْ أَطْعَمْتَهُ لَوَجَدْتَ ذَلِکَ عِنْدِي؟ يَا ابْنَ آدَمَ! اسْتَسْقَيْتُکَ فَلَمْ تَسْقِنِي. قَالَ :  يَا رَبِّ! کَيْفَ أَسْقِيْکَ وَأَنْتَ رَبَّ الْعَالَمِيْنَ؟ قَالَ :  اسْتَسْقَاکَ عَبْدِي فَـلَانٌ فَلَمْ تَسْقِهِ، أَمَا إِنَّکَ لَوْ سَقَيْتَهُ وَجَدْتَ ذَلِکَ عِنْدِي.

’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے فرمایا :  بے شک قیامت کے دن اﷲ تعاليٰ فرمائے گا :  اے ابن آدم! میں بیمار ہوا اور تو نے میری مزاج پرسی نہیں کی. بندہ عرض کرے گا :  اے پروردگار! میں تیری بیمار پرسی کیسے کرتا جبکہ تو خود تمام جہانوں کا پالنے والا ہے؟ ارشاد ہوگا :  کیا تجھے معلوم نہیں کہ میرا فلاں بندہ بیمار ہوا اور تو نے اس کی مزاج پرسی نہیں کی. کیا تو نہیں جانتا کہ اگر تو اس کی بیمارپرسی کرتا تو مجھے اس کے پاس موجود پاتا؟ اے ابن آدم! میں نے تجھ سے کھانا طلب کیا اور تو نے مجھے کھانا نہ کھلایا. بندہ عرض کرے گا :  اے پروردگار! میں تجھے کھانا کیسے کھلاتا جبکہ تو خود تمام جہانوں کا پالنہار ہے؟ ارشاد ہو گا :  کیا تجھے معلوم نہیں کہ میرے فلاں بندے نے تجھ سے کھانا مانگا اور تو نے اسے کھانا نہیں کھلایا؟ کیا تو نہیں جانتا کہ اگر تو اسے کھانا کھلاتا تو اس کا ثواب میری بارگاہ سے پاتا؟ اے ابن آدم! میں نے تجھ سے پانی مانگا اور تو نے مجھے پانی نہیں پلایا. بندہ عرض کرے گا :  پروردگار! میں تجھے پانی کیسے پلاتا جبکہ تو رب العالمین ہے؟ ارشاد ہوگا :  میرے فلاں بندے نے تجھ سے پانی مانگا اور تو نے اسے پانی نہیں پلایا. کیا تجھے معلوم نہیں کہ اگر تو اسے پانی پلاتا تو اس کا ثواب تجھے میری بارگاہ سے ملتا؟‘‘

(ماخوذ از منهاج السّوی من الحديث النبوی صلی الله عليه وآله وسلم  ،ص 124-123)