درس : 41

صاحبزادہ مسکین فیض الرحمان درانی
مرکزی امیر تحریک منہاج القران انٹرنیشنل

سلوک و تصوف کی تعلیم کے اجزائے ترکیبی؛ تلقین، تدریس، تربیت، تادیب اور تدریب کے بنیادی مقاصد کو اگرنظر غائر سے دیکھا جائے تو دنیا کے دیگرمروّجہ اور متداول علوم و فنون کے مقاصد پر ان کی جامعیت اور ہمہ گیریت واضح اور فائق دکھائی دیتی ہے۔ نبی رحمت و نجات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت مبارکہ کے لیے دعائے ابراہیمی کا مدّعا بھی یہی تھا۔اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی بارگاہ میں نبی وقت حضرت سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی انتہائی رقت انگیز التجا کچھ یوں تھی کہ

’’اے ہمارے پروردگار ہم کو اپنا حکم بردار بنا اور ہماری اولاد میں بھی ایک جماعت اپنی فرمانبردار بنا اور ہم کو مناسک (یعنی عبادت، عجز و انکسار، سلوک، پاکیزگی، درویشی، زہد، تقویٰ، طہارت، تصوّف، قربانی، ایثار، اخلاص، استقامت اورمداومت یعنی انسان کے لیے مطلوبہ تمام اخلاقِ حسنہ ) کے طریقے (شرائطِ حصول اور شرائط قبول کے ساتھ ) سکھا دے۔ اور ہمیں معاف فرما، بیشک تو ہی توبہ قبول کرنے والا (لطف و کرم سے متوجہ ہونے والا ) مہربان ہے۔ ( اے اللہ ہم پر ہمارے اعمال، سلوک اور عبادات کیوجہ سے نہیں، بلکہ اپنے رحم و کرم سے لطف و احسان کی نگاہ ڈال دے، ہم تو تیری رحمت کے بھکاری ہیں) ۔ اور اے ہمارے رب۔ اِنہیں ( گدایانِ محبت ) میں ایک رسول (نبی آخرلزمان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) خود ان ہی میں مبعوث فرما جو ان پر (بطور مبلّغ اعظم) تیری آیات کی تلاوت کرے اور (بطور معلّمِ اعظم) ان کو کتاب کی تعلیم دے اور (بطورِ مُرشِد اعظم ) ان کو حکمت سکھائے (اور رموز و اسرار کی باتیں بتا کر دانائے راز بنائے) اور (ان کے قلوب کو بطور مصلحِ اعظم غیر اللہ سے) پاک (صاف) کر دے، بیشک تو بڑا زبردست اور بڑی حکمت والا ہے ‘‘

 (البقرہ : 128، 129) ۔

چنانچہ آیات ربانی کی تلاوت، کتاب الہی کی تعلیم، تزکیہ نفس کی تربیت، حکمت اور سلوک و تصوف کی تعلیمات نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بتدریج صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ، تابعین رضی اللہ عنہم ، تبع تابعین رضی اللہ عنہم ، اور ان کے واسطہ سے اولیاء کرام رحمۃ اللہ علیہم ، صلحاء عظام رحمۃ اللہ علیہم اور امت کے علماء حق رحمۃ اللہ علیہم کو پورے تواتر اور تسلسل سے درجہ بدرجہ منتقل ہو رہی ہیں۔ ان نبوی تعلیماتِ جلیلہ میں تلقین بھی ہے اور تدریس بھی، مخلوقاتِ خدا کے ساتھ نیک سلوک اور اچھے برتائو کی تعلیم بھی ہے اور تربیت و ہدایت بھی، ان میں اخلاق و کردار سنوارنے کا عمل بھی ہے اور رذائل اخلاق سے بچنے کی مشق و تمرین بھی، ان میں روحانی آداب بھی ہیں اورجسمانی آداب بھی ہیں، گویا اس نوع کی تعلیم میں انتقال علم کے ساتھ انسان کی روح اور بدن کو درکار ہر قسم کے مقتضیات کی تکمیل کا مکمل سامان موجود ہے۔یہ تعلیماتِ سلوک و تصّوف کے وُہ بنیادی مقاصد ہیں جو دنیا میں زندگی گزارنے کے لیے دیگر مطلوبہ علوم و فنون اور درس و تدریس کے طریقوں میں نظر نہیں آتے۔ تصوّف کا مقصد انسان کو خالق عزّوجل کی محبت، اطاعت، احساس عظمت، مولا کی ناراضی کا خوف، منشاء خداوندی کے مطابق آفاق و انفس کا فہم، انسان کے خارج اور داخل میں اللہ کی قدرت کی نشانیوں کی تلاش، تشخیص امراض نفس، تعمیر شخصیت، انسانی اقدار کا حقیقی ادراک، اللہ کی مرضی کے مطابق زندگی میں حسن، سچائی اور کارِخیر کے جذبات کی افزائش اور فروغ کے علم سے بہرہ ور ہونا ہے۔انہی اعمال و افعال کی پاکیزگی تعلیماتِ صوفیہ کا نصاب ہے۔ جو علمی اور عملی طریقوں سے سکھایا اور سیکھا جاتا ہے۔طریقت کے مبتدی کے لیے تعلیمی مقصد اور تعلیمی عمل میں فرق کرنا ضروری ہوتا ہے۔ تعلیمی مقصدکی آگہی سے تعلیمی عمل کی سمت (طریقت) کا تعین ہوتا ہے اور اسی سے مُرید یا طالب علم کے لیے استاد، پیر، معلّم اور مربیّ کے معلمانہ کردار کی پہچان بھی آسان ہو جاتی ہے۔ مقصد کی صحیح آگہی سے طالب علم، شاگرد یا مرید کو ترغیب (motivation) ملتی ہے، کہ وہ مطلوبہ علم کے حصول کے لیے مناسب سمت (direction) کا تعین اور کسی باصلاحیت تربیت یافتہ اوراہل معلّم و مرشِد کے انتخاب کے لیے جستجو کرے۔ اس کا ذہن اس اَمر پر پوری طرح مطمئن ہو کہ وہ کس مقصد کے لیے مطلوبہ علم سیکھنے اور تربیت حاصل کرنے کا خواہاں ہے۔ اس کی مثال یوں ہے کہ میٹرک کے بعد اگر ایک طالب علم ایف ایس سی میڈیکل کرنا چاہتا ہے تو اس کا حقیقی مقصد ایم بی بی ایس کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد ڈاکٹر بننا ہوتا ہے۔کسی سکول اور کالج کے استاد کو جس طرح اپنے زیر تعلیم طالب علموں کو پڑھائے جانے والے مضامین (subjects) پر عبور اور ان کو پڑھانے کا تجربہ ہوتا ہے۔اسی طرح اس کو یہ علم بھی ہوتا ہے۔ کہ ان مضامین کو پڑھنے کا طالب علموں کا اصل مقصد کیا ہے، وہ تعلیم حاصل کرنے کے بعد کیا کرنا چاہتے ہیں اور معاشرے میں کس قسم کی ذمہ داری نبھانے کے خواہشمند ہیں۔ سلوک و تصوف کے معلّم، پیر یا مرشِد کے لیے بھی لازم ہوتا ہے کہ اُس کو بھی اپنے حلقہ ارادت میں شامل ہونے والے مرید، سالک اور صوفی کے حقیقی ـ’’ارادہ‘‘ (intent) کے بارے میں معلوم ہو، کہ وہ کس مقصد (goal) کے حصول کے لیے اس کے حلقہ ارادت میں شامل ہونا چاہتا ہے۔ اور کس قسم کی تعلیم اور تربیت حاصل کرنے کا خواہاں ہے۔ کیا وُہ فقط لوجہ اللہ یعنی رضائے الہی کے حصول کے لیے دروسِ سلوک و تصّوف پڑھنے، سمجھنے اور اس پر اخلاص نیت سے ’’عمل‘‘ کرنا چاہتا ہے۔ یا اس کے پیش نظرکوئی دنیوی منفعت، ذاتی مقصد، نام و نمود اور شہرت پانے کی خواہش ہے اور یایہ کہ وہ خود پیر بن کر کوئی حلقہ قائم کرنا اور خانقاہ چلانے کا متمنی ہے۔ حقیقی سلوک و تصوّف کا مقصد سالک کے اندر اس صلاحیت کواجاگرکرنا ہوتا ہے کہ جس سے اس کی فطرت میں مخلوق خدا کے لیے صلاح و فلاح اور خدمت کا بے لوث جذبہ پیدا ہو اور وہ اپنے عملی سلوک سے معاشرہ میں لوگوں کے سامنے امن، سلامتی اور اتحاد سے زندگی بسر کرنے کی مثال قائم کرے، لوگ اُس کی تقلید کریں اور وہ دوسروں کے لیے عملی نمونہ بن جائے۔

مخلص صوفیاء اور سالکین طریقت کا پاکیزہ وجود اجتماعی طور پر عدل و انصاف پر مبنی ایک ایسے صالح اور مثالی معاشرہ کے قیام کا سبب بنتا ہے، کہ جو اللہ کے دین اوراسلامی طرز حیات کے غلبہ، تفوق اور امن و سلامتی کا ضامن ہوتا ہے۔یہ روحانی معاشرہ وحدت نسلِ انسانی اور شرف و تکریم انسانیت کے ایسے تصور پر مبنی ہوتا ہے۔ کہ جس سے محدود گروہی، مسلکی، لسانی، علاقائی اور طبقاتی عصیبتیں (group prejudices) معدوم ہوجاتی ہیں۔معاشرہ کے افراداس طرح روحانی الذہن ہوجاتے ہیں، کہ فطرتی طور پر ان کی تمام تر جدو جہد میں محرکِ عمل (incentive ) ’’رضائے الہی کی جستجو‘‘ ( (acquisition of the divine pleasure of صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم lmighty  Allah) ہوجاتا ہے، ان کا اساس عمل (basis of action) مطالبہ حقوق (demand of rights) کی بجائے ایتائے حقوق (fulfilment of obligations) ہو جاتا ہے، ان کو ہر وقت یہ فکر دامن گیر رہتا ہے کہ معاشرے کا کوئی فرد کسی معاشی اور معاشرتی محرومی کا شکار نہ ہو۔ اس متصوّف معاشرے میں ہر قسم کی انسانی جدو جہد کی بنیاد اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے حصول اور توکل علی اللہ پر استوار ہوتی ہے۔ ہر شخص دوسرے کے لیے بغیر کسی لالچ اور ترغیب کے دِل و جان سے ایسی جدو جہد کرتا ہے کہ وہ انفرادی اور اجتماعی زندگی میں موجبات خوف و غم سے محفوظ زندگی بسر کر سکے۔ اس طرح کے روحانی معاشرہ کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہوتی ہے، کہ وہ غلبہ حق کی خاطر داخلی اور خارجی محاذوں پر تمام باطل، طاغوتی، استحصالی اور منافقانہ قوتوں کے ساتھ کسی قسم کے سمجھوتہ کے لیے آمادہ نہیں ہوتا۔وہ ہر طرح کے دبائواور جبر کو خاطر میں لائے بغیر نیکی کے عمل کو ترقی دینے اور اس کی نشوونما میں مصروف رہتا ہے۔ اس خالص روحانی، فلاحی اور دینی معاشرہ میں اللہ تعالیٰ کے فرمان کے مطابق تسخیر فطرت کے لیے درکارخاص علوم و فنون سے استفادہ کے لیے انسانی صلاحیت اور ہنر و کمال کی افزائش (human resource development) کے لیے درکار ہنر مند افراد (skilled persons) تیار کئے جاتے ہیں۔ اور فرمان الہی کے مطابق غلبہ حق کے لیے ہر طرح کی جدید عسکری اور سائنسی طاقت کے حصول کے لیے اہتمام ہوتا ہے۔ سورہ البقرہ کی ایک سو چونسٹھ ویں آیہ کریمہ میں ارشاد ربّانی ہے۔ ( بے شک آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے میں، اور رات اور دن کے بدلتے رہنے میں اور کشتیوں میں جو دریا میں لوگوں کے فائدے کی چیزیں لے کر چلتی ہیں۔ اور اس پانی میں جو اللہ تعالیٰ آسمان سے اتارتا ہے (برساتا ہے) اور پھر اس سے مردہ زمین کو زندہ کرتا ہے۔ (یعنی خشک ہو جانے کے بعد سر سبز و شاداب کرتا ہے) اور زمین پر ہر قسم کے جانورپھیلانے میں اور ہوائوں کے بدلنے میں اور بادلوں میں جو زمین و آسمان کے درمیان اس کے تابع فرمان ہیں۔ (ان سب چیزوں میں) بے شک عقلمندوں کے لیے (اللہ کی وحدانیت، رحمانیت اور قدرت و حکمت کی) بڑی نشانیاں ہیں۔‘‘ اہل سلوک اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی کے لیے اس کی عطا کردہ نعمتوں کو مخلوق کے لیے عام کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔

کسی پھل کے اوصاف، اُس کی تاثیر اور خصوصیات کا ادراک اس کی شکل و صورت اور جسامت سے نہیں ہوتا، بلکہ یہ ادراک پھل کا ذائقہ چکھنے، کھانے اور استعمال کے بعد ہی ممکن ہوتا ہے۔ یعنی حواس خمسہ ظاہری اور باطنی کے پوری طرح کارفرما ہونے کے بعد جب عقل اور شعور اس کے بارے میں ذہن کو مطلوبہ علم فراہم کرتا ہے، تواس سے پھل کی حقیقت سمجھ میں آتی ہے، اور معلوم ہوتا ہے کہ اس کے خواص، اوصاف اور تاثیرات کیا ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی ذات یکتا کی حقیقت مخلوق کے عقل و شعور اور فہم و فراست سے کلیتاًماوراء ہے۔ کسی مخلوق کو اللہ جل شانہ‘ کی حقیقت کے ادراک کی طاقت نہیں ہے، اللہ جل شانہ‘ کو صرف اس کی قدرتوں سے پہچانا جا تا ہے۔ کائنات انفس و آفاق میں ہر سُو اس کی قدرت جلوہ فگن ہے، ہر شئے اللہ کی قدرت سے زندہ اور متحرک ہے۔ اشیاء کی اِسی داخلی اور خارجی حرکت کو فطرت (nature) کہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نوع انسانی کو اشیاء کی فطرت کی تسخیر کی دعوت دیتا ہے، کائنات کی فطرت کے رازوں کی حقیقت معلوم کرنا اور انسان کی فطرت بالقوہ اور بالفعل (potential and actual nature) کا سمجھنا انسان کی حیات کا مقصد بھی ہے۔ اس کی تعلیم و تربیت کا ماحصل بھی اور یہی منشاء ایزدی بھی ہے۔

تعلیماتِ نبوی کے مقاصد کی تکمیل کے لیے معلم کائنات نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ابتداء ہی سے مسلمانوں کے اجتماعی ذہن کو جہاں ایک طرف رموز دین کی حقیقت کو سمجھنے کے لئے مرکوز کیا تو دوسری طرف کائنات کے اسرار کی عقدہ کشائی کی طرف بھی ان کی توجہ کو مبذول فرمایا۔ کائنات و انفس کے رموز و اسرارکو سمجھنے کی یہی وہ نبوی تعلیم اور تربیت تھی، کہ جس کی بدولت مسلمانوں نے افلاطون، ارسطو، اقلیدس، سقراط اور جالینوس جیسے یونانی فلاسفہ کی غلطیوں کی نشاندہی کر کے ان کی تعلیمات کی اصلاح کی۔ اور اس طرح عہد جدید کی سائنس اور ٹیکنالوجی کی افزائش اور ترقی کے لیے راستہ ہموار کر دیاور وہ تمام رکاوٹیں دور کردیں جو یہودی اور عیسائی مذاہب کے ربانییّن اور پادریوں نے اس کی راہ میں کھڑی کر دی تھیں۔

تاریخ عالم میں تسخیر فطرت کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے صریح احکام سے روگردانی کرنے، اورعلوم و فنون کی ترقی اور افزائش کی راہ میں سنگین رکاوٹیںکھڑی کرنے کا سب سے گھنائونا کردار عیسائی پادریوں نے ادا کیا ہے۔ ان کی جہالت کا عالم یہ تھا، کہ 1609ء میں جب سائنسدان گلیلو نے دور بین ایجاد کی اور اُس کی مدد سے نظام شمسی سے متعلق اپنی تحقیقات کو دنیا کے سامنے پیش کیا، تو پادریوں نے اس جرم کی پاداش میں اس کو قید بامشقت کی سزا دی۔ اور وہ دورانِ اسیری اس دنیا سے رخصت ہُوا۔ عیسائی پادریوں نے متعدد سائنسدانوں کو آگ میں زندہ جلایا۔ بہت سوں کو پھانسی پر چڑھایا اور سینکڑوں کو سخت اذیتناک سزائیں دیں۔ عیسائی پادریوں کی اس جہالت نے ان کے مذہب کو بھی شدید نقصان پہنچایا۔ علم و فن میں ترقی ہونے کے بعد با شعور افراد عیسائی پادریوں کی علم دشمنی کے خلاف سر گرم عمل ہُوئے اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ عیسائیوں کے جاہلانہ معاشرے میں مذہب اور سائنس کے درمیان ایک کھلی جنگ چھڑ گئی اور ایک شدید جنگ کے بعد بالآخر عیسائی معاشرے نے کلیسا کو ہی اپنی زندگی سے نکال باہر کیا اور اس طرح عیسائی دنیا پر کلیسائی بادشاہت کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہو گیا۔

دین اسلام کی تعلیمات میں علم و حکمت کوزندگی کی بنیادی حقیقت تسلیم کیا گیا۔ قران حکیم میں جگہ جگہ علم کی فضیلت بیان کی گئی اور مسلمانوں پر علم کا حصول واجب قرار دیا گیا۔ تاریخ انسانیت میں ظہور اسلام کے بعد علم و فن، فکر و فلسفہ، سائنس و ٹیکنالوجی اور ثقافت و تمدن کے نئے اسلوب کا آغاز ہُوا، قران حکیم میں عقل، فکر اور تدبّر کی اہمیت کے بار بار بیان سے مسلمانوں کے اندر دنیا کے مختلف علوم و فنون کی جستجو اور حصول کا شوق پیدا ہُوا۔ مسلمانوں نے دنیا کے دور دراز خطوں میں جا کر قدیم علماء فلاسفہ کے علوم و فنون کا مطالعہ کیا۔ مسلمانوں نے قدیم علوم و فنون کی کتابوں کے تراجم کے علاوہ خود بھی نادر کتب تحریر کیں۔ یوروپ میں سپین پر مسلمانوں نے آٹھ سو سال حکومت کی۔ سپین پر قبضہ سے پہلے یہ ملک یوروپ، امریکہ، آسٹریلیا اور روس کی طرح جہالت کے تاریک پردے میں گم تھا۔ مسلمانوں کی آمد سے نہ صرف اسپین بلکہ پورے یوروپ میں علم، تمدّن اور تہذیب کی روشنی پھوٹی اور جہالت کا اندھیرا دُور ہوا۔ مسلمانوں نے جگہ جگہ مدارس اور رسدگاہیں قائم کیں۔ یہ طرہّ امتیاز بھی مسلمانوں کو حاصل ہے، کہ ان کی درسگاہوںکے دروازے بلا تمیز رنگ، نسل اور مذہب سب انسانوں کے لیے کھلے تھے۔ یوروپ کے لوگ اور خاص کر مسلمان بادشاہوں اور امراء کے غیر مسلم غلاموں کی ایک بہت بڑی تعداد نے مسلمانوں سے جدید علوم اور فنون سیکھے، یہ وہی لوگ تھے کہ جنہوں نے بعد ازاں اسلامی علوم کی روشنی یوروپ، امریکہ، روس اور آسٹریلیا تک پہنچائی اور جن کی وجہ سے آج اقوام مغرب جدید سائنس اور ٹیکنالوجی سے مستفید ہورہے ہیں۔ شومئے قسمت سے دوسری جانب مسلمانوں کے سیاسی، معاشرتی اور علمی زوال نے ان کو ان کے شاندار ماضی سے محروم کر کے یوروپ اور امریکہ کی ذہنی اور جسمانی غلامی کے شکنجے میں کس دیا ہے۔علم و فن کی دنیا میں اس وقت مسلمانوں کی اپنی شکستہ حالی یہ ہے کہ وہ نہ صرف اپنی علمی میراث کے وارث بننے کی صلاحیت سے محروم ہیں بلکہ ان کی نئی نسل کواپنے عظیم علمی ماضی کے بارے میں ابتدائی معلومات تک حاصل نہیں ہیں۔ آئے دن امریکی اور یوروپی متعصب مورّخین اور مصنفّین مسلمانوں کی جہالت اور ان کے غیر مہذب ہونے کے بارے میںایسے افسانے تراشتے رہتے ہیں کہ الحفیظ و الامان! ہماری بدقسمتی کہ متعّصب، نام نہاد مُستَشرقین کے من گھڑت پروپیگنڈے کی زد میں آ کر اکثرمسلمان اساتذہ اور پروفیسر بھی نادانستگی میں اپنے طالب علموں کو خود اپنے ہاتھوں مایوسی کے اتھاہ اندھیروں میں پھینکنے کا سامان کر رہے ہیں۔ یہ لوگ سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں مسلمان طالب علموں کو یوروپ کے پروفیسروں کے علمی کارناموں کی ایسی الف لیلوی داستان سناتے ہیں، کہ ہمارے طالب علم اُن کے خودساختہ علمی کارناموں کے چکر میں آ کر یہ سمجھتے ہیں کہ جیسے جدید علوم و فنون کے بانی یوروپ کے اساتذہ اور علماء ہی ہیں۔ ان داستانوں میں ماضی کے ہمارے مسلمان علماء، حکماء، فلاسفہ اور سائنسدانوں کاتذکرہ ہی نہیں ہوتا اور نہ ہی ان کے علمی اور سائنسی کارناموں کاکوئی ذکر۔ درحقیقت یہ ہی وُہ مسلمان علماء اور فضلاء تھے کہ جن سے عیسائی اور یہودی طلباء نے جدید علوم و فنون سیکھ کر ان کو امریکہ، یوروپ، روس اور آسٹریلیا کے دور دراز ممالک میں پہنچایا۔ اور جن کی وجہ سے آج اقوام مغرب پوری دنیا پر غالب ہیں۔

دین اسلام کے پیروکاروںپر نافع علوم و فنون کا حاصل کرنا فرض ہے۔ اہل طریقت کا بھی دینی فریضہ ہے۔ کہ وُہ تعلیماتِ اسلامیہ کی روشنی میں جدید علوم و فنون سے بھر پور استفادہ کریں اور اپنے زیر اثر افرادِ معاشرہ کو بھی نافع علوم و فنون کے حصول کے لیے آمادہ کریں۔ اپنے مریدوں اور شاگردوں کو علم و فن کی اہمیت سے آگاہ کریں تا کہ وُہ ملک و ملت کی تعمیر کا فریضہ بخوبی ادا کر سکیں۔علم و حکمت ایک ایسی دولتِ خداوندی ہَے کہ جس کے ذریعے امت مسلمہ دنیا میں اپنا کھویا ہُوا مقام دوبارہ حاصل کر سکتی ہے۔ وقت کی اہم ضرورت ہے کہ امت مسلمہ ایک بار پھر دنیا میں ایک ایسی باوقار، نافع علوم و فنون سے مزّین، شائستہ، بااخلاق اور مہذب قوم بن جائے کہ ماضی کی طرح دیگر اقوامِ عالم ان سے اسباق اخلاق حاصل کریں۔دنیا میں امن، سکون اور آشتی سے رہیں اور دوسروں کو بھی امن سے جینے کا حق دیں۔