نظریہ پاکستان کی آئینی اہمیت

سلسلہ بیداری شعور (قسط سوم)

تحریک پاکستان کا منشور اور موجودہ پاکستان
صاحبزادہ مسکین فیض الرحمان درانی مرکزی امیر تحریک منہاج القران انٹرنیشنل

نظریہ پاکستان کی بنیاد قرانی فلسفہِ انقلاب اور نظریہ کائنات پر قائم ہے۔اسلامی ریاست پاکستان کے آئین کی اساس بھی اللہ جل شانہ‘ کی حاکمیت اعلیٰ پر استوار ہے۔ اللہ سبحا نہ و تعالیٰ اپنی تخلیق کردہ پوری کائنات، آسمانوں اور زمینوں کا خالق، مالک، حکمران، بادشاہ، مدّبر اور منتظمِ مطلق ہے۔ کائنات کی ہر شئے اللہ جل شانہ‘ کے اقتدار اعلیٰ اور حاکمیت کی تابع اوراس کے آگے مسخر ہے۔ اللہ جل شانہ ‘ کے علاوہ کائنات میں حاکمیت کا کسی مخلوق کو حق ہے اور نہ کسی کا اس میںکوئی حصہ ہو سکتا ہے۔ ہر حکم کا اختیار اُسی کو ہے، اور ہر فیصلے کا مختار بھی وہی ذات یکتا ہے۔ سورہ الکہف کی 26 ویں آیہ کریمہ میں ارشاد ربانی ہے :

’’مَالَهُمْ مِّنْ دُوْنِهِ مِنْ وَّلِیِِّ وَّلَا يُشْرِکُ فِیْ حُکْمِهِ اَحَدًاo ‘‘

( مخلوق کے لیے اس کے سوا کوئی ولی اور سرپرست نہیں اور وہ اپنے حکم میں کسی کو شریک نہیں کرتا)

اختیار سارے کا سارا اللہ کا ہے۔ آسمانوں اور زمین کی بادشاہی اسی کی ہے۔ اور سارے معاملات اسی کی طرف رجوع کئے جاتے ہیں۔

اللہ کا حکم اور اس کا قانون اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے انسانوں تک پہنچا ہے۔ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شریعت الہی کے شارع، قرآن حکیم کے رموزواسرار کے شارح اور نظام مصطفیٰ کے نفاذ، قیام، انتظام اور انصرام کے منتظم اعلیٰ، مدّبراور دنیا کے لوگوں کے معلّم اعظم ہیں۔بعثتِ مبارکہ کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے قول و فعل اور اسوہ حسنہ کے ذریعے نظام مصطفیٰ اور اسلامی ریاست کے امور کی تشریح فرمائی۔ چونکہ آپ کی ذات مقدسہ کی آئینی حیثیت ’’خلیفتہ اللہ‘‘ کی ہے اور آپ اللہ تعالیٰ کی حاکمیت اعلیٰ کے نمائندہ ہیں، لہذا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حکم اللہ کا حکم ہے۔ اس بارے میں اللہ تعالیٰ کا واضح ارشاد ہے۔

’’وَ مَنْ يُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللهَ ‘‘ (النساء، 4 : 80)

(اور جس نے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کی۔ اس نے در اصل اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی اطاعت کی)

سورہ نساء کی 115 ویں آیہ کریمہ میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا ارشاد ہے۔

’’اور جو شخص رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اختلاف کرے، جب کہ ہدایت اس پر واضح ہو چکی ہو۔ اور وہ ایمان لانے والوں کی راہ سے جدا راہ چلے اسے ہم اس (گمراہی) کی طرف پھیر رکھیں گے، جدھر وہ خود پھر گیا ہے، اور اس کو جہنم میں ڈالیں گے اور وہ بہت ہی بُرا ٹھکانہ ہے‘‘

سورہ الحشر کی ساتویں آیہ کریمہ میں اللہ تعالیٰ کاحکم ہے۔

’’اور جو کچھ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمہیں عطا فرمائیں۔ سو اسے لے لیا کرو۔ اور جس سے تمہیں منع فرمائیں سو(اس سے) رک جا یا کرو، اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے ڈرتے رہو۔ اور نہ تمہارے دل اس پر تنگی محسوس کریں، بیشک اللہ سخت عذاب دینے والا ہے۔‘‘

سورہ نساء کی پینسٹھ ویں آیت میں اللہ جل مجدہ‘ نے ان لوگوں کو مومن ماننے سے ہی انکار فرمایا ہے جو اختلافات کے فیصلہ کے لیے اللہ کے حبیب مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنا حاکم نہیں بناتے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فیصلوں پر اپنے دِلوں میں تنگی پاتے ہیں۔ ( یعنی ان فیصلوں کو نا پسند کرتے ہیں) صحیح مومن صرف وہ ہوتے ہیں، جو آپ کے احکامات کو بخوشی فرمان برادری کے ساتھ قبول کر لیں۔

(ان آیات کریمہ کی روشنی میں پاکستان کے قانون ساز اداروں میں قانون سازی اورتنفیذی اداروں میں قانون کا نفاذ کرنے والوں کو اپنے کردار کا از سرِ نو جائزہ لینا ضروری ہے)

دنیائے ارضی میں خلافت کے لیے اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے انسان کا انتخاب کیا۔ اس کو شرف انسانیت سے نوازااور اس کوارادہ، عمل اور اختیار کی آزادی عطا فرمائی، اس کو علم، عقل اور وجدان عطا کیا اور تسخیر کائنات کا اہل بنایا۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے انسان کو فطرۃ بالقوہ او ر فطرۃ بالفعل مرحمت فرمائے۔ اس کو نیکی بدی، حق و شر، صحیح اور غلط باتوں کو سمجھنے کا شعور دیا۔ اس کی جِدوجہد اور جذبہ مقاومت و مداومت کو تیز تر بنانے کے لیے شیطان کو تخلیق کیا۔ نوع انسانی کو دو قومی نظریہ دیا، یعنی انسانوں کو دو جماعتوں کا شعور دیا۔ ایک اللہ کی جماعت جس کو حزب اللہ اور قوم المسلمین کہا گیا اور دوسری وہ جو اللہ کی ذات کی نفی کرنے والوں اور اس کے احکام کونہ ماننے والوں کی جماعت ہے۔ یہ کفار، مشرکین اور ملحدوں کی جماعت ہے جس کو حزب الشیطٰن یا جماعت الکافرون کے نام سے موسوم کیا گیا۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ، اس کے رسولوں اور انبیاء کے ا حکامات کو ماننے اوراللہ کے احکام پر عمل کرنے والے لوگوں کی جماعت اور اللہ کے دین پر عمل نہ کرنے والے لوگوں کی جماعت؛مشیت ایزدی کے مطابق یہ دونوں جماعتیں ازل سے ابد تک رہیں گی۔ تاکہ انسان کی آزمائش مسلسل ہوتی رہے۔ اس تقسیم کی رو سے گویا پاکستان کی تخلیق کرنے والوں اور اللہ کی مرضی کے مطابق اس کی تعمیر اور تکمیل کرنے والے افراد کا تعلق جماعت المسلمین سے ہے اور پاکستان کو غیر اسلامی افکار اور سیکولر نظریات کے تحت لانے والے لوگوں کا تعلق نظریہ پاکستان اور اسلامی فکر کے مخالف گروہ سے ہے۔ اللہ تعالیٰ نے نوع انسانی کی قیادت اور دنیا پر آخری غلبہ حاصل کرنے والے افراد کواپنی جماعت کے لوگ کہہ کر مخاطب کیاہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے۔

’’کَتَبَ اللّٰهُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا و رُسُلِیْ‘‘

(المجادلة، 58 : 21)

(اللہ تعالیٰ نے یہ لکھ دیا (یعنی طے کر لیا ہے ) کہ بے شک میں اور میرے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی(باطل کے مقابلے میں)غالب اور فتحیاب ہوں گے )

اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی راہنمائی کے لیے ایک مثالی قیادت نبی محتشم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صورت میں اور خلافت اللہ فی الارض کے قیام کا مقدس مشن دین اسلام کی شکل میں عطا فرما یا۔ ارشاد ربانی ہے :

لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌحَسَنةٌ.

(الاحزاب، 33 : 21)

’’در حقیقت تم لوگوں کے لیے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ایک بہترین نمونہ ہے‘‘۔

یعنی مادّی، اخلاقی، روحانی زندگی کے لیے، سیاست، معیشت، معاشرت، عدالت، حکومت اور میدان جنگ کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اسوہ حسنہ بہترین نمونہ ہے۔ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسوہ حسنہ سے مسلمانوں کو اسلامی ریاست کی تشکیل، نظام مصطفیٰ کے قیام اور دنیا میں کامیاب عملی زندگی کو چھ بنیادی ستونوں پر قائم کرنے کی راہ نمائی ملتی ہے :۔

1۔ عزم مصّمم اور یقین کامل (strong conviction)

ہر قسم کے نامساعد حالات، مصائب، شدائد اور ابتلاء میں نصب العین کے حصول اوراسلامی مشن میں کامیابی کے لیے صبر و استقامت اور عزم و حوصلہ سے ثابت قدم رہنا اور غلبہ حق کی خاطر داخلی اور خارجی محاذوں پر تمام باطل، طاغوتی، استحصالی اورمنافقانہ قوتوں کے خلاف غیر مصالحانہ انقلابی جدوجہد فیصلہ کن مرحلہ تک جاری رکھنالازم ہوگا۔

2۔تعمیرقیادت (development of muslim leadership)

ایک روحانی الذہن معاشرہ کی تشکیل,تعمیر اور تکمیل کے لیے اسلامی ریاست کے لیے ایسے نیک، با صلاحیت، دانشمند اور مخلص انسانوں کی مناسب تعلیم و تربیت اور ذہنی افزائش کا بندوبست کرنالازم ہو گا کہ جو بنی نو ع انسان کی بے لوث خدمت اور قیادت کا فریضہ ادا کر سکیں۔اسلامی ریاست کے قائدین اور اداروں کے عمال و حکام کے لیے لازم ہو گا، کہ ان کی زندگی کی تمام تر جِدوجہد میں محرک عمل رضائے الہی کی ہمہ وقت تلاش و جستجو ہو اور ان کے اعمال کی اساس مطالبہ حق( demand of rights) کی بجائے ایتائے حق(fulfilment of obligations) پر قائم ہو۔ یعنی اپنا حق حاصل کرنے سے پہلے افرادِ معاشرہ کو ان کے پورے کے پورے حقوق دینا۔ اس طرح ایک دوسرے کی تقلید کرتے ہوئے معاشرے کا ہر فرد دوسرے کی خدمت کو اپنا شعار بنائے اور کوئی فرد بھی بلا تمیز رنگ، نسل، قوم، قبیلہ اور مذہب زندگی کی ضروری بنیادی سہولتوں سے محرومی کا شکار نہ ہونے پائے۔ تعلیمات نبوی سے آراستہ اسلامی معاشرہ کے ان تربیت یافتہ اور مخلص افراد کی جِدوجہد کامقصودو منتہاء یہ ہوگا، کہ اسلامی ریاست میں بسنے والے ہر شخص کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کو موجباتِ خوف و غم(روٹی، کپڑا، مکان، صحت، تعلیم، غربت، بے روز گاری، امن و امان اور عدم انصاف سے پیدا ہونے والے تفکرات اور اندیشوں سے) سے پاک اور آزاد رکھا جائے۔

کس نہ با شد در جہاں محتاج
کس نکتہ ِشر ع ِمبین این است و بس!

3۔ اقدام (offence)

اسلام دشمن قوتیں جب اسلامی ریاست، اسلامی معاشرہ، اسلامی تہذیب و تمدن، اسلامی اقدار اور اسلامی طرزِزندگی کو ناپاک اور آلودہ کرنے کے لئے فکری، نظریاتی، علمی، ثقافتی اور عملی ہتھکنڈے استعمال کریں، اسلامی ریاست کے عوام کے خلاف سازشیں کریں یا مسلمانوں پر جارحیت کے لیے ہتھیار اٹھائیں یا اسلامی ریاست کی سرحدوں پر حملہ آور ہوں تو اسلامی ریاست اس کی بھر پور اور سخت مزاحمت کرے۔ مسلمانوں کا مزاحمانہ طریق فقط مدافعانہ(defensive) چاپلوسانہ، خوشامدانہ اور کمزوری دکھانے والا نہ ہو، بلکہ اسوہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تقلید میں ایسا جُراتمندانہ اورجارحانہ(offensive) ہوکہ دشمن ان کو کمزورنہ سمجھیں اور جارحانہ کاروائی کی ہمت نہ کریں۔ اسلامی ریاست ہر گز ایسا کمزور مصالحانہ روّیہ اختیار نہ کرے۔ کہ دشمن اس کی مصالحت کو کمزوری پرمحمول کرکے جارحانہ اقدام کی جرات کرے۔ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس حقیقت سے بخوبی آگاہ تھے کہ قوموں کی زندگی میں دشمن کے خلاف بروقت اقدام قومی حیات کا ضامن ہوتا ہے اور دشمن کے ساتھ مصالحت کے لیے زیادہ نرمی دکھانا کمزوری اور موت کا پیش خیمہ ہوتی ہے (موجودہ دور میں تو اسرائیل اور اقوام مغرب اس طرح کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں کہ خود حفاظتی کاروائی یا شُفعَانہ دفاع (preemptive defence) کے نام سے جارحانہ اقدام (offensive) کر کے صرف مخالف سوچ رکھنے والے کو بھی تباہ کر دیتے ہیں۔) یہ حقیقت ہے کہ دفاع تو زمین پر رینگنے والے کیڑے مکوڑے بھی کر لیتے ہیں۔ بہادر اورزندہ قومیںفقط دفاع کو بزدلی اور کمزوری سے تعبیر کرتی ہیں۔ مسلمان کی زندگی عزم مصمم سے عبارت ہے۔ مسلمانوں پر جہاد کس وقت فرض ہو جاتا ہے ؟ قران کریم کی واضح ہدایات کی روشنی میں ہر مسلمان پر اس کا جاننا اور سمجھنا پر واجب ہے۔ اسلامی ریاست کے متعلقہ عاملین پر لازم ہوتا ہے کہ وہ دشمن قوتوں کے جارحانہ ارادوں کا ہر وقت نظر غائر سے جائزہ لیتے رہا کریں، ان کو ہر وقت پوری طرح باخبر رہنا چاہیے کہ دشمن ان کے خلاف کس قسم کی سازش میں مصروف ہے اور اسلامی ریاست کے خلاف کس قسم کی طاقت اور قوت جمع کر رہا ہے، وہ اسلامی ریاست کے دشمنوں کے ساتھ کس قسم کی ساز باز کررہا ہے اور اسلامی ریاست کے اندر اپنے جاسوسوں اور ایجنٹوں کو کس طرح تیار کر رہا ہے۔ اسلامی ریاست کے حکمرانوں پر واجب ہے کہ وُہ دشمن کی اس قسم کی کاروائیوں کا بروقت سدِّباب کریں۔ جب دشمن کے اس ارادہ (intention) کے بارے میں معلوم ہو جائے، کہ وہ حملہ کرنے کی تیاری کررہا ہے اور کسی وقت بھی حملہ کر سکتا ہے۔ تو مصدقہ اطلاعات کے ملنے پر اسلامی ریاست پر جہاد فرض ہوجاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اسلامی ریاست ہر وقت ذہنی طور پر دشمن کے جارحانہ اقدامات کے خلاف اقدام کے لیے تیار رہے۔ اسلامی ریاست کے حکمرانوں کے لیے یہ امر قطعی حرام ہے کہ وُہ کسی دوسری اسلامی ریاست پر حملہ آور ہونے کے لیے اسلام دشمن قوتوں کا ساتھ دے۔ اور ان سے کسی قسم کا عسکری یا غیر عسکری تعاون کرے۔

قرآن حکیم میںمتعددمقامات پر جہاد کے رموز و اسرار، اسلامی جہاد کے مقاصد، جنگ سے متعلق اسلامی ریاستی قوانین، بین الاقوامی قوانینِ جنگ، اسلامی فلسفہِ جہاد، اسلامی نظام قصاص و دیت، جہاد و قتال کی فرضیت، اسلامیانِ عالم کے لیے ایمان کی شرائط میں جہاد کا مقام، جہاد کے بارے میں قران کا عملی تصور، جہاد کی ا قسام؛ جہاد بالعلم، جہاد بالمال، جہادبالنفس اورجہاد بالقتال پر تفصیلی مباحث مسلمانوں کی راہنمائی کے لیے موجود ہیں۔ اسلام اور جہاد لازم و ملزوم ہے، جہاد دین کا جزو لا ینفک ہے، یہ ایک مکمل عبادت ہے۔ نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج کی طرح جہاد کے فلسفہ کو پوری طرح سمجھ کر مکمل آداب کے ساتھ ادا کرناواجب ہے۔ اسلامی شریعت کے مطابق امت کا ہر شخص اپنے طور پر جہاد بالقتال شروع کرنے یااس بارے میں فتویٰ دینے کا مجاز نہیں ہوتا۔ کفر اور اسلام کی جنگ میں اسلامی ریاست پر فرض ہوتا ہے کہ وْہ اعلان کرے کہ دشمن کے خلاف کس وقت اور کس طریقے سے جہاد کرنا ہے، امت کے کسی فرد یا گروہ کے لیے از خود کسی ملک یا قوم کے خلاف جہاد بالقتال کا اعلان کرنا حرام ہے، ایک مسلمان کی جان، مال اور عزت پر بہر حال جب کوئی دشمن حملہ آور ہو، تو اپنی حفاظت کے لیے جنگ کرنا اس کا حق ہوتا ہے۔ جامع ترمذی میں حضرت سعید بن زید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے انہوں نے یہ فرماتے ہوئے سنا’’جو شخص اپنے مال کی حفاظت کرتے ہُوئے مارا جائے وہ شہید ہے، جو شخص اپنے دین کی حفاظت کرتے ہوئے مارا جائے، وہ شہید ہے۔ جو شخص اپنی جان کی حفاظت کرتے ہُوئے مارا جائے۔ وُہ شہید ہے۔ اور جو شخص اپنے اہل و عیال کی حفاظت کرتے ہوئے مارا جائے۔ وہ شہید ہے۔‘‘

4۔ طاقت (power)

جاہل اور شکست خوردہ ذہن کے لوگ وقت کی رَو میں بہہ جاتے ہیں اور زمانے کے ساتھ چلتے ہیں، لیکن ایک سچا مومن اور مسلمان زمانے کو اپنے دینی اقدار کے سانچے میں ڈھال لیتا ہے۔ وہ زمانے کو اپنے ساتھ لے کر چلتا ہے۔ اسلامی ریاست کے لیے اسوہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع میں دنیا کے ہر ملک اور قوم کے مقابلے میںزیادہ طاقت، قوت، صداقت، عدالت، اور نظم و ضبط کا اہتمام کرنا لازم ہوتا ہے، اس ضمن میں نبی محتشم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیروی اوراتباع ریاستی پالیسی اور طریقہ کار کی بنیاد ہونی چاہیے۔ اس بنیاد پر عسا کر اسلامیہ کی ہر قسم کی حربی ضرورت کا پورا کرنا اسلامی ریاست کا اولین فرض ہوتا ہے۔

5۔ اقتدار (sovereignty)

امت مسلمہ پر واجب ہے، کہ وہ اسلامی ریاست کو ہر لحاظ سے ایسی مقتد ریاست (sovereign state) بنائے جس کا دستور اسلامی ہو کیونکہ ایک اسلامی نظریاتی ریاست کسی دنیاوی دستور کی متحمل اور ماتحت نہیں ہو سکتی۔ نظریہ کائنات کے نفاذ کے لیے اسلامی ریاست کا مکمل خود مختار اور مقتدر ہونا لازم ہوتا ہے۔

6۔مسلسل جِدو جہد (continuous struggle)

اسوہ حسنہ کی روشنی میں یہ امر لازم ہے کہ اسلامی نظریہ کی بنیاد یعنی لا الہٰ الّا اللہْ محمد رسول اللہ کی اساس طیبہ پر جب اسلامی ریاست قائم ہو جائے اور اس کے انتظام و انصرام کے لیے اہل، با صلاحیت، دیندار اورمتقی منصبداروں کا انتخاب شریعت کے مطابق مکمل ہو جائے اور ریاست کے سب ادارے عوام کو عدل و انصاف فراہم کرنے میں مستعد ہوں تو ہر اہلکار پر واجب ہوتا ہے کہ وہ ریاست کو مستحکم اور طاقتور بنانے کے لیے ہمہ وقت جِدو جہد میں مصروف رہے۔ کسی شخص کا ایک لمحہ بھی غفلت میں نہ گزرے، ریاست کا ہر شخص اسلامی نظم کی ہمہ جہتی افادیت کا مظہر ہو، تا کہ دنیا کے لوگ اسلامی ریاست کے ہمہ گیر اصولوں؛ عدالت، صداقت، نظم و ضبط، قوت اور طاقت سے متاثر ہو کر دین اسلام کی آغوش میں آئیں اور دنیا پر نظام مصطفیٰ کی افادیت زیادہ سے زیادہ آشکار ا ہوجائے۔

جدو جہد آزادی اور تحریک پاکستان کا منشور

نظریہ پاکستان کی آئینی اور دستوری اہمیت، اسلامی ریاست کے حکام اور عوام کے لیے اسوہِ حسنہ اور نبوی تعلیم و تربیت پر عملدرآمد کی ضرورت کے مختصر جائزہ کے بعد ہم اب اُس عہد و اقرار کی بات کرتے ہیںکہ جس کی بنیاد پر مسلمانانِ ہند نے تحریک پاکستان کی مہم کا آغاز کیا تھا۔ تحریک پاکستان کے قائدین نے مسلمانانِ برصغیر کے سامنے تحریک پاکستان کا جو نصب العین اور منشور(manifesto) رکھا تھا۔ اس کی رو سے مسلمانوں نے اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے ’’پاکستان کا مطلب کیا۔ لا الہ الا اللہ‘‘ کا نعرہ لگاکر یہ عہد کیا تھا۔ کہ پاکستان کے قیام کے بعد وہاں ایک اسلامی معاشرہ کی بنیاد رکھی جائے گی اور اسلامی مملکت قائم ہو گی۔ پاکستان کاریاستی بندوبست نظام مصطفی کے تحت ہو گا۔پاکستان کا ہر ادارہ عوام کو عدل، انصاف اور سماجی فلاح و بہبود بہر صورت مہیا کرنے کے اصول کی بنیاد پر کام کرے گا۔ ملک سے موجبات خوف و غم؛افلاس، غربت، بیروز گاری اور مہنگائی کا خاتمہ کیا جائے گا۔ تعلیم اور صحت کی سہولتیں ہر شہری کو فراہم کی جائیں گی۔ اسلامی ثقافت کا احیاء ہو گا۔ ہر شہری کی عزت و آبرو، چادر اور چار دیواری، جان و مال اور املاک و اموال کی حفاظت ریاست کی ذمہ داری ہو گی۔ حکمرانوں، حکام، عمال اور ہر امیر و غریب شخص کا بے لاگ محاسبہ ہو گا۔ عدلیہ اور احتساب کے ادارے فیصلے کرنے میں آزاد اور خود مختار ہوں گے۔یہ دونوں ادارے اللہ تعالیٰ اور اْس کے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شریعت اور احکام کے تابع ہوں گے۔ اور احکام شریعت کے نفاد میںکسی سربراہ مملکت یا کسی اور اتھارٹی کے زیر تسلط اورتابع نہیں ہو نگے۔ اسلامی ریاست کا قانون قران و سنت پر مبنی ہو گا۔ اور سربراہ مملکت بھی اسلامی عدالت عالیہ کے سامنے جوابدہ ہو گا۔علوم نافع کو ترقی دی جائے گی۔ تسخیر فطرت سے متعلق علوم یعنی سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی اور افزائش پر خصوصی توجہ دی جائے گی۔ عسا کر اسلامیہ کو مضبوط سے مضبوط تر بنایا جائے گا۔ملک کی ارضی اور نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کا فریضہ فرائض دینی کی تکمیل کے طور پر ادا کیا جائے گا۔ دشمن کی جانب سے ہر طرح کی عسکری، ثقافتی اور تہذیبی جارحیت کا مقابلہ قومی سطح پرکیا جائے گا۔ تمام اداروں میں فیصلے بلا تمیز رنگ، نسل، زبان، قوم، قبیلہ، خاندان اور مذہب کلّی طور پر قرآن و سنت پر مبنی عدل اور انصاف کے تقاضوں کے عین مطابق(on merit) کئے جائیںگے۔ مملکت کے تمام شہریوں کے حقوق مساوی ہوں گے۔اور کسی حاکم یا مقتدر شخصیت کو کسی عام شہری پر تفوق حاصل نہ ہو گا۔ آپس کے ہر قسم کے تنازعات کو باہمی تصادم کاسبب نہیں بننے دیا جائے گااور ان کا فیصلہ قران و سنت کے مطابق کیا جائے گا۔ اسلامی نظریاتی ریاست کا نظام معیشت فلاحی ہو گا۔اور کوئی شخص کسی دوسرے شخص کا محتاج نہ ہو گا۔ شریعت اسلامیہ کے مطابق کوئی شخص مخلوق خدا کا رازق بننے اورعوام کو روٹی کپڑا مکان دینے کا دعوٰی کرنے کا مجاز نہیں ہوتا۔ رازق صرف اللہ ہے، حکمرانوں کو بھی اللہ سے رزق حلال کی طلب کرنا چاہئے۔ مملکت اور عوام الناس کو ایک دوسرے کے تعاون سے زیادہ سے زیادہ کوشش کرنی ہو گی کہ وہ اللہ تعالیٰ کے دئیے ہُوئے اسباب و وسائل کا موثر اور دیانتدارانہ استعمال کر کے اجناس خوردنی اور عوام کے لیے درکار دیگر اشیائے ضروریہ کی زیادہ سے زیادہ پیداوار حاصل کریں۔ تا کہ اسلامی ریاست کی عوام آسودہ حال اور کسی دشمن ملک کی امداد کی محتاج نہ ہو۔

اسلامی ریاست پرپیداوار میں اضافہ کے لیے ہر قسم کے ریاستی وسائل و اسبا ب کا موثر استعمال لازم ہوتا ہے۔کیونکہ ریاستی وسائل و اسباب اللہ عزوجل کی امانت ہوتے ہیں۔اسلامی ریاست کا فرض ہوتا ہے کہ دولت اور وسائل زندگی چند ہاتھوں میں مرتکز نہ ہونے پائیں تا کہ سرمایہ دار اور ذخیرہ اندوز ضرورتمندوں کااستحصال (exploitation) نہ کر سکیں۔ دین اسلام میںدولت کا ارتکاز، اکتناز اوراحتکارِ مال کا شمار سخت ترین مکروہات اور افعالِ شَیِنعہ میں ہوتاہے۔ ارشاد ربانی ہے :

’’ہر (روبرو) اور (پس پشت) عیب جوئی کرنے والے کے لیے ہلاکت ہے۔ (یہ وْہ حریص اور خسیس ہے )جو مال جمع کرتا( اْسی دھن میں گرفتار رہتا)اور اْس کو گِن گِن کر رکھتا ہے۔ وْہ خیال کرتا ہے۔ کہ اْس کا مال اس کے ساتھ ہمیشہ رہے گا۔ ہرگز نہیں۔( اْس کا مال، اْس کی اولاد سب اسی دنیا میں رہ جائے گی۔ البتہ اْس کا ہوس زر اور بد اعمالیاں اس کے ساتھ جائیں گی) وْہ یقیناً حطمہ(یعنی روندنے والی آگ) میں ڈالا جائے گا‘‘۔

(الهمزة : 1، 2، 3، 4)

اللہ تعالیٰ کے احکامات، نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اسوہ حسنہ، نظریہ پاکستان کی آئینی اہمیت اور تحریک پاکستان کے منشور کی روشنی میں موجودہ پاکستان کے ہولناک حالات پاکستان کے عوام کے سامنے ہیں۔ قیام پاکستان کے بعد چونسٹھ سالوں میں پاکستان کو موجودہ مصائب، مشکلات اور ان سب کربناک حالات تک کس نے پہنچایا؟وہ کون لوگ تھے کہ جن کے مکروہ عزائم اور سیاہ کرتوتوں کی وجہ سے مملکت خداداد پاکستان دو لخت ہُوا۔ کس نے بچے کھُچے آدھے پاکستان کو لْوٹا اور کون موجودہ دور میں اس کو بری طرح اور مسلسل لوٹنے میں مصروف ہے۔ کون اس کو دنیا کی نظر میں ایک ناکام ریاست (rogue state) ثابت کرنے میں مصروف ہے، کون ملک پاکستان کو چار ٹکڑوں میں تقسیم کر کے بھارت کی تحویل میں دینے کے مکروہ منصوبے پر عمل پیرا ہے۔ کون آزاد کشمیر کو بھارت کے مقبوضہ کشمیر کے ساتھ ملانے کے درپے ہے۔ ان تمام عناصر، عوامل، اور اسباب کی حقیقت کو اچھی طرح سمجھ لینے اور دشمن کے مکروہ عزائم کا مقابلہ کرنے میں پاکستان کی بقاء کا راز مضمر ہے۔ آج پاکستان کی نوجوان نسل کا سب سے بڑا قومی فریضہ یہ ہے، کہ وُہ جلد از جلد اس حقیقت سے باخبر ہو جائے کہ ان کے پیارے وطن عزیز کو تباہ کرنے والے افراد کون ہیں، ان کا طریقہ واردات کیا ہے اور وہ کس نظام اور حکمت عملی کے تحت ملک عزیز کو تباہ کررہے ہیں؟

قیام پاکستان کے بعد حضرت قائد اعظم رحمۃ اللہ علیہ اور بزرگ زُعمائے ملت کے جہان فانی سے رخصت ہونے کے بعد اس کے قیام کے نظریاتی مخالفین، بھارتی ایجنٹوں اور اسلام دشمن طاقتوں نے مختلف سازشوں اور حیلوں سے اپنے زیر اثر گماشتوں، فکری غلاموں، سیاسی لٹیروں، وڈیروں، جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کو مملکت خداداد پاکستان کے کلیدی سیاسی، معاشی، عمرانی اور حکومتی مناصب پر کسی نہ کسی طرح براجماں کر کے تمام سیاہ و سفید کا مالک بنا دیا۔ پاکستان پر قبضہ کرنے والے ان ٹوڈی حکمرانوں کا تحریک پاکستان سے براہ راست کسی قسم کا ویسے بھی کوئی نظریاتی اور عملی تعلق نہ تھا۔ شومئی قسمت کہ تحریک پاکستان کے حقیقی مجاہدین یا تواس اثناء میں اللہ کو پیارے ہو گئے، یا ان کو شہید کیا گیا اور مخلص اور محب وطن پاکستانیوں کو ملک میں رائج انتخابی نظام کی وجہ سے امور مملکت سے دور رکھا گیا۔ دوسری جانب ملک عزیز کے جمہوری نظام کو بار بار فوجی آمریت نے بھی اپنے بوٹوں تلے کچلا۔ تعلیمی اداروں، سکولوں، کالجوں، یونیورسٹیوں، پاکستان کے نیشنل سنٹرز، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر ناجائز قبضہ کر کے پاکستان کے مخالفین نے کھلم کھلانظریہ پاکستان کے خلاف اپنے مکروہ خیالات کا اظہار شروع کیا اور اس دور یعنی قیام پاکستان کے وقت نوجوان نسل یا موجودہ دور کی بوڑھی نسل کے ذہنوں کو اپنے مذموم نظریات سے بُری طرح زہر آلود کیا۔ انہوں نے اُس وقت بھی بھرپور پروپیگنڈا کیا اور آج بھی موجودہ دَور کی نوجوان نسل کے سامنے ببانگِ دُہل کہہ رہے ہیں کہ :۔

  1. اسلامی نظریہ کائنات یا نظریہ پاکستان محض ایک مذہبی تخیل ہے، جس کا دنیا کے موجودہ معاشی اور معاشرتی حالات میں کسی قسم کا عمل دخل نہیں ہو سکتا ہے۔ یہ ایک ایسا بے اثر اور بے کار خیال محض ہے۔ کہ جس کی وجہ سے پاکستان معاشی اور معاشرتی طور پرمسلسل تباہ ہو رہا ہے۔
  2. علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ، قائد اعظم رحمۃ اللہ علیہ اور پاکستان کے لیے جدوجہد کرنے والے اکابرین کا ’’دو قومی نظریہ‘‘ محض ایک جذباتی نعرہ تھا۔ جو برطانیہ اور ہندوستان کے خلاف مسلمانوں کے جذبات کو بھڑکانے اور اشتعال دلانے کے لئے لگایا گیا تھا۔ پاکستان دو قومی نظریہ کی بنیاد پر نہیں بنا تھا۔ یہ ایک اتفاق تھا اور عالمی سطح پر برطانیہ کے زوال اور جنگ عظیم دوم میں اس کو درپیش نا مساعد حالات کی وجہ سے بنا۔ حکومت برطانیہ دنیا بھر میں اپنی مقبوضات اورکالونیوں پر چونکہ مزید تسلط قائم رکھنے کے قابل نہ رہی تھی۔ لہذا اس کو اپنی دوسری کالونیوں کی طرح ہندوستان کو بھی آزاد کرنا پڑا۔ جس کے نتیجہ میں پاکستان بھی حادثاتی طور پر معرض وجود میں آیا۔ اگر جنگ عظیم دوم میں برطانیہ کی یہ خستہ حالی نہ ہوتی۔ تو پاکستان کبھی معرض وجود میں نہ آتا۔ اورنام نہاد دو قومی نظریہ کی اہمیت خاک بھی نہ ہوتی۔
  3. اگرپاکستان نہ بنتا تو انگریز کے چلے جانے کے بعد آج اکھنڈ بھارت دنیا کی ایک عظیم سلطنت ہوتی اور اکھنڈ بھارت میں رہنے والے مسلمانوںکی حالت بہت بہتر ہوتی اور آج پاکستان میں بسنے والے مسلمانوں جیسی نہ ہوتی۔ جو بھوک، مہنگائی اور غربت کا شکار ہیں۔ مسلمانوں کے لئے ہندوستان میں زبان، مذہب، ثقافت اور فلسفہ زندگی کااختلاف معمولی نوعیت کا تھا۔ ایسا اختلاف دنیا کے ہر ملک میں ہوتا ہے جہاں تک مسلمانوں کی مذہبی آزادی کا تعلق تھا، تو اکھنڈ بھارت میں وہ مسلمانوں کو اسی طرح مِل جاتی، جس طرح مسلمان حکمرانوں کے دور میں ہندوئوں اور سکھوں کو حاصل تھی۔ پاکستان بنانے والوں نے آخر کار دیکھ ہی لیا ہے۔ کہ موجودہ دور میں پاکستان ہر لحاظ سے کتنا کمزور اور بھارت کتنی مضبوط ریاست ہے۔ پاکستان چھوٹا ملک ہے، اس کے وسائل بہت کم ہیں، یہ کبھی بھی ایک ترقی یافتہ ملک نہیں بن سکتا ہے۔ اب بھی بہتر یہ ہے کہ پاکستان انڈیا کے ساتھ فیڈریشن بنا لے۔ اور اس کے زیر نگیں رہ کر معاشی ترقی کرے۔
  4. دین، مذہب، نظریہ اور فلسفہ حیات ویسے بھی یہ سب ذاتی نوعیت کے معاملات ہوتے ہیں۔ پاکستان میں ریاست، سیاست اور ہمہ جہت قومی معاملات میں ان کا کوئی عمل دخل نہیں ہونا چاہیے۔

پاکستانی لبادے میں ملبوس بھارتی ایجنٹ اور نظریہ پاکستان کے مخالف موجودہ سیاسی اور انتخابی نظام کے پروردہ سیاستدان، اسلام دشمن سو شلسٹ، کمیونسٹ اور سر مایہ دارانہ نظام کے حامی نام نہاد دانشور؛ اور وہ پاکستان دشمن عناصر کہ جن کو پاکستان کا ایٹمی طاقت کا حامل ہونا ایک آنکھ نہیں بھاتا۔ اپنے مکروہ پرپیگنڈہ کے ذریعے تعلیمی اداروں، اسلام دشمن این جی اوز، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیامیں اپنے زرخرید ایجنٹوں اور اسلامی نظریہ کے مخالف سیاستدانوں، اشتراکی ذہن رکھنے والی جماعتوںاور خاص کر بھارتی مالی امداد کے بل بوتے پر حکومت کرنے والی سیاسی اورمذہبی لبادہ اوڑھے سیاسی جماعتوں کے ایجنٹوں کے ذریعے مسلسل نوجواں نسل کے اذہان کو نظریہ پاکستان کے بارے میں زہر آلودکرنے اور نوجوان پاکستانی نسل کو پاکستان کے مستقبل کے بارے میں شدید احساس کمتری کا شکار کرنے میں مصروف ہیں۔

وقت کی ضرورت ہے کہ نظریہ پاکستان اور اسلام کے ہمہ گیر نظریہ وحدت ملّت پر ایمان رکھنے والے محب وطن پاکستانی زعماء، دانشوراور پاکستان سے محبت کرنے والے افراد، جماعتیں اور ادارے نوجوان نسل اور ملت اسلامیہ کی بیداری شعور کا اہتمام کریں، نوجوانوں کو نظریہ پاکستان کی حقیقت سے آگاہ کریں اور ان کو بتائیں کہ اس بچے کھُچے آدھے پاکستان کی بقا کا راز صرف اور صرف نظام مصطفیٰ کے قیام، نظریہ پاکستا ن کی روشنی میں ملک عزیز کے اداروں کے استحکام اور ایک بے لوث مخلص، نظریہ کائنات سے با خبر، نظام مصطفیٰ کو سمجھنے والی عالم فاضل اور دیانتدار قیادت کے انتخاب میں پنہاں ہے۔ ملک عزیز میں رائج غاصبانہ سیاسی نظام انتخاب جمہور پاکستان اور اسلامی جمہوریت کے لئے زہر قاتل ہے۔ پاکستان میں حقیقی اسلامی نظام مصطفی کا رائج کرنا وقت کی آواز ہے۔ پاکستان کی حفاظت کا یہ اہم فریضہ صرف اور صرف پاکستان کی وہ حریت پسند نوجوان نسل ہی سر انجام دے سکتی ہے۔کہ جن کے اذہان حقیقی اسلامی فہم سے مزّین ہوں۔ جن کے قلوب نور ایمانی اور عشق مصطفیٰ سے منّور ہوں۔ جو نظریہ کائنات اور نظریہ پاکستان پر یقین رکھتے ہوں۔ جن کا تن، من، جان اور روح مصطفوی ہو :۔

یہ بت کہ تراشیدہ تہذیبِ نوی ہے
غارت گرِ کاشانہ دینِ نبوی ہے

بازو ترا توحید کی قوت سے قوی ہَے
اسلام ترا دیس ہَے تو مصطفوی ہَے

نظّارہ دیرینہ زمانے کو دکھا دے
اے مصطَفوی خاک میں اس بت کو مِلا دے