بچوں کی شخصیت پر ماحول کے اثرات

خالدہ رحمٰن

آج مادیت کی یلغار نے مسلمانوں کے ذہن اس قدر مفلوج کردیئے ہیں کہ وہ اپنے ایمان کے مرکز و محور ذات مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے بارے میں اس طرح کے سوالات اٹھانے سے نہیں ہچکچاتے کہ کیا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  وصال فرماجانے کے بعد بھی زندہ و جاوید ہیں۔ اگر حیات ہیں تو کیا صرف حیات باطنی سے معمور ہیں یا رب تعاليٰ نے انہیں حیات جسمانی کی خلعت سے بھی نوازا ہے۔ کیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے توسل سے دعا مانگنا جائز ہے، کیا آج چودہ سو سال گزرنے کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی ذات اقدس سے وہی عشقی، حبّی اور روحانی تعلق و نسبت ہوسکتی ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی حیات ظاہری میں امت کے لئے تھی۔ کیا روضہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی زیارت اور حاضری سے وہ مقاصد پورے ہوسکتے ہیں جو کہ عین زیارت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  سے ہوتے تھے اور کیا ایسا کرنے میں بدعت یا شرک کا کوئی شائبہ تو نہیں، کیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کو امت کے احوال کی خبر ہے؟ اگر ہے تو کیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی دعا امت کے حق میں کیونکر مقبول ہوگی اور کیا جو عاشقان رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  ہر لمحہ اور ہر گھڑی درودوں کے گجرے سلاموں کے تحفے خدمت نبوی میں ارسال کرتے ہیں تو کیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  اس کو سنتے ہیں اور کیا درود سلام بھیجنے والے کو جانتے ہیں؟ تحریک منہاج القرآن کے عظیم قائد اور لیڈر حضور شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے اپنی نادر تصنیف ’’حیات النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ‘‘ میں ان تمام سوالات و اشکالات کا تسلی بخش دلائل کے ساتھ احاطہ کیا ہے۔ 200 صفحات پر مشتمل یہ کتاب آج کے پرفتن دور میں تمام اہل ایمان کے لئے مفید اور نادر معلومات کا خزینہ ہے۔

اس کتاب کے دو حصے ہیں : حصہ اول کے باب اول میں حیات برزخ کو بیان کیا گیا ہے تاکہ کتاب کے دوسرے حصے میں حیات النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے بیان کو احسن انداز سے سمجھا جاسکے۔ حیات برزخی کو بیان کرنے سے پہلے چند بنیادی اصطلاحات کی وضاحت کی گئی ہے جو کہ نفس مضمون کو سمجھنے کے لئے ضروری ہیں جیسے حیات کیا ہے؟ برزخ کسے کہتے ہیں؟ عذاب و ثواب کے حوالے سے بھی حیات برزخی کو ثابت کیا گیا ہے پھر یہ کہ عذاب و ثواب قبر کا اصل مفہوم کیا ہے وغیرہ وغیرہ۔

باب دوم میں حیات برزخی کو آیات کی روشنی میں ثابت کیا گیا ہے اس سلسلے میں عذاب قبر اور سماع کا تفصیلاً ذکر کیا گیا ہے۔ قرآن مجید کی آیات کے ذریعے یہ بات دلائل سے ثابت کی گئی ہے کہ عذاب قبر حق ہے اور یہ کہ مردے زندوں سے زیادہ سنتے ہیں۔ مختلف انبیاء علیہم السلام کے اپنی امتوں سے انداز تخاطب کو بیان کیا گیا ہے جبکہ قوم کے لوگ عذاب سے فنا ہوچکے تھے گویا وہ کافر زندہ تھے اور ثابت ہوا کہ مردے سنتے ہیں ورنہ یہ انداز تخاطب عبث ہوگا جس کا وقوع ایک نبی سے ممکن نہیں۔ یہ تو ایک کافر کا معاملہ ہے مومن کے لئے تو رب تعاليٰ نے حیات طیبہ کا وعدہ فرمایا ہے :

مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَکَرٍ اَوْ اُنْثٰی وَهُوَ مُوْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَيٰوةً طَيِبَةً.

(النحل : 16، 97)

’’جو کوئی نیک عمل کرے (خواہ) مرد ہو یا عورت جب کہ وہ مومن ہو تو ہم اسے ضرور پاکیزہ زندگی کے ساتھ زندہ رکھیں گے‘‘۔ (ترجمہ عرفان القرآن)

اسی طرح شہداء کرام اور انبیاء کرام کی حیات برزخی بھی نص قرآن سے ثابت ہے کہ وہ زندہ ہیں اور انہیں رزق دیا جاتا ہے تو پھر حضور سرور عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی حیات بعد ممات کی شان اور قدرت کا تو اندازہ ہی نہیں کیا جاسکتا۔

باب سوم میں حیات برزخی کو احادیث کی روشنی میں بیان کیا گیا ہے کہ قبر جنت کا باغ بھی اور جہنم کا گڑھا بھی ہوسکتا ہے، موت کے بعد انسان پر صبح و شام جنت یا جہنم کا ٹھکانہ پیش ہوتا ہے، قبر میں سوال و جواب کا سلسلہ اور یہ کہ میت اپنے غسل دینے والے اور کفن پہنانے والے کو پہچانتی ہے، آہ و بکا سے میت کو قبر میں عذاب ہوتا ہے، مردوں سے زندوں کی طرح حیا کرنا، میت کا سلام کا جواب دینا، میت کا قدموں کی آہٹ سننا، میت کا اپنے زائر کو پہچاننا، زندوں کے اعمال مردوں پر پیش کئے جانا اور یہ کہ دفن کے بعد میت کے لئے ثابت قدمی کی دعا کرنا۔۔

یہ تمام امور احادیث سے ثابت ہیں اور ذات مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  اپنے امتیوں کو پہنچنے والی ہر تکلیف کو محسوس کرتی ہے کیونکہ ماعمومیت کا تقاضا کرتی ہے جو فقط حیات ظاہری کے ساتھ خاص نہیں۔ دوسرا یہ کہ تکلیف محسوس کرنے میں تکلیف کا علم ہونا ضروری ہے۔ اس سے یہ ثابت ہوا کہ حضور سرور کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کو اپنی امت کی تکالیف و مشکلات کا علم ہے اور احساس اور علم دونوں حیات کا تقاضا کرتے ہیں۔

وَمَآ اَرْسَلْنٰـکَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِيْنَ.

(الانبياء، 21 : 107)

’’اور (اے رسولِ محتشم!) ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر‘‘۔ (ترجمہ عرفان القرآن)

معلوم ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کو پوری کائنات کے لئے رحمت بناکر بھیجا گیا ہے اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  حیات ظاہری میں بھی رحمت ہیں اور بعد از وفات بھی۔ اگر آپ بعد از وصال رحمت نہ ہوں تو پھر رحمۃ للعالمین کا مفہوم درست نہ ہوگا کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے اس ظاہری دنیا سے پردہ پوشی فرمانے کے بعد بھی عالم تو موجود ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے عالمین کے لئے رحمت کا تقاضا یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  جمیع العالمین کے ہر ہر فرد کو فیض پہنچارہے ہیں اور اسی طرح آیت

وَمَا کَانَ اﷲُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَاَنْتَ فِيْهِمْ.

(الانفال، 8 : 33)

میں بھی یہی بیان کیا جارہا ہے کہ امت محمدی سابقہ امم کے برعکس عذاب الہٰی سے اسی وجہ سے مامون رہے گی کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی ذات زندہ و جاوید ہے اور اسی طرح آیت

وَلَوْ اَنَّهُمْ اِذْ ظَّلَمُوْا اَنْفُسَهُمْ جَآءُ وکَ.

(النساء، 4 : 64)

میں بھی دلائل کے ساتھ یہ بات بیان کی گئی ہے کہ اس آیت میں کسی کے بارے کوئی تخصیص ثابت نہیں ہوئی آپ تمام امت کے لئے یکساں رحمت ہیں۔

حصہ دوم کے باب اول میں حیات النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے سلسلے میںنصِ قرآنی کے دلائل کے بعد باب دوم میں حیات النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کو احادیث کی روشنی میں ثابت کیا گیا ہے۔

صحیح مسلم میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے سفر معراج کو بیان کرتے ہوئے فرمایا :

’’میں موسيٰ علیہ السلام کے پاس سے گزرا تو آپ اپنی قبر میں نماز ادا فرمارہے تھے‘‘۔

(المسلم 2 : 268)

یہی حدیث کئی طرق سے دوسرے مقامات پر بھی آئی ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ انبیاء علیہم السلام اپنی قبروں میں نہ صرف زندہ ہیں بلکہ زندوں جیسے اعمال صالحہ بھی سرانجام دیتے ہیں۔

(بحواله زرقانی علی المواهب 5 : 333)

اس باب میں احادیث سے استدلال کرتے ہوئے ثابت کیا گیا ہے کہ انبیاء علیہم السلام کو مزارات میں رزق دیا جاتا ہے اور ان کے اجسام مقدسہ سلامت رہتے ہیں۔ جہاں تک رحمت بیکراں، آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی حیات کا تعلق ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی حیات و ممات دونوں امت کے حق کے لئے بہتر ہیں اور یہ حدیث سے ثابت ہے کہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں : میری حیات بھی تمہارے لئے بہتر ہے تین بار فرمایا اور میری موت بھی تمہارے لئے بہتر ہے یہ بھی تین بار ارشاد فرمایا پھر قوم خاموش ہوگئی تو عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ  نے عرض کیا میرے ماں باپ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  پر قربان ہوں، یہ کیسے ہوگا؟ (موت بہتر کیسے) فرمایا : میری حیات تمہارے لئے اس طرح بہتر ہے کہ مجھ پر آسمان سے وحی نازل ہوتی ہے پس میں تمہیں بتاتا ہوں وہ چیزیں جو تم پر حلال ہیں اور وہ چیزیں جو تم پر حرام ہیں اور میری وفات تمہارے لئے اس طرح بہتر ہے کہ تمہارے اعمال ہر جمعرات کو میرے اوپر پیش کئے جاتے ہیں۔ پس اگر وہ اعمال بہتر ہوں تو میں اس پر اللہ کی حمد و ثنا بیان کرتا ہوں اور اگر وہ اعمال برے ہوں تو میں تمہارے لئے تمہارے گناہوں کی معافی طلب کرتا ہوں۔

جب بھی عاشقان مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  پر سلام پیش کرتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  خود براہ راست اسکا جواب مرحمت فرماتے ہیں فرمایا : مشرق و مغرب میں جو مسلمان بھی مجھ پر سلام بھیجتا ہے میں اور میرے رب کے فرشتے اس کے سلام کا جواب دیتے ہیں۔ شیخ الاسلام مدظلہ نے اس سلسلے میں کئی ایک اشکالات کو بیان کرکے ان کا تسلی بخش جواب بھی دیا ہے۔ اسی طرح نماز میں تشہد پڑھنے کی تعلیم، حدیث پاک سے ملتی ہے اس کے الفاظ السلام علیک ایہا النبی ہیں اور ان میں صیغہ خطاب ہے ظاہر ہے کہ حضور پر نور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے ظاہری دور رسالت سے لے کر قیامت تک یہی تشہد صیغہ خطاب سے پڑھا جانا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی حیات کی دلیل ہے جس کی تائید علامہ ابن قیم نے اپنی کتاب کتاب الروح میں بھی کی ہے۔

پھر یہ بات بھی احادیث سے ثابت ہے کہ فرشتے بارگاہ مصطفوی میں درود پیش کرتے ہیں اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  خود سلام کو سنتے بھی ہیں اور جانتے بھی ہیں حتی کہ دیکھتے بھی ہیں فرمایا : جو آدمی مجھ پر جمعہ کے دن اور جمعہ کی رات سو بار درود پڑھے اللہ تعاليٰ اس کی سو حاجتیں پوری کردیتا ہے جس میں سے ستر آخرت میں اور تیس دنیا میں اللہ تعاليٰ اس کے لئے ایک فرشتہ مقرر فرمادیتا ہے وہ فرشتہ اس درود کو میری قبر پر اس طرح پیش کرتا ہے جیسے تم کو ہدیے پیش کئے جاتے ہیں بے شک میرا علم میری وفات کے بعد بھی ایسے ہی ہے جیسے میرا علم میری ظاہری زندگی میں ہے۔

(الخصائص الکبريٰ 2 : 28)

یہی وجہ ہے روضہ انور کی زیارت کو حیات ظاہری کی جھلک قرار دیا گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے فرمایا جس نے حج کیا پھر میری قبر کی زیارت کی میری وفات کے بعد تو گویا کہ اس نے میری ظاہری زندگی میں میری زیارت کی۔

(شفاء السقام : 16)

شیخ الاسلام مدظلہ فرماتے ہیں کہ علمائے امت نے بارگاہ مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی زیارت کے آداب کا ذکر کرتے ہوئے اس بات کی تصریح کی ہے کہ قبر انور کے سامنے بالکل اسی طرح آداب کو ملحوظ رکھا جائے جیسے کہ حیات ظاہری میں آداب کو ملحوظ رکھا جاتا تھا اور اس کا سبب بھی یہی ہے کہ حضور پر نور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  اپنی قبر انور میں زندہ ہیں۔

باب سوم میں شیخ الاسلام مدظلہ نے حیات النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کو اقوال صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور دیگر اکابرین کی روشنی میں تفصیلاً بیان کیا ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ آنحضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کو بعد وصال بھی کامل حیات حاصل ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کا امت کے ساتھ آج بھی اسی طرح تعلق ہے جس طرح ظاہری حیات میں تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کا فیضان آج بھی جاری و ساری ہے۔

مندرجہ بالا گفتگو میں طوالت کے خوف سے انتہائی مختصر انداز میں فقط دلائل کے نتائج اور حاصلات کو بیان کرنے پر اکتفا کیا گیا ہے جس کے بغیر تعارف تصنیف نامکمل رہ جاتی۔ مذکورہ حقائو کن دلائل کی بنیاد پر سچ ثابت ہوئے ہیں اس کا صحیح ادراک درحقیقت مکمل کتاب پڑھ کر ہی حاصل کیا جاسکتا ہے جو کہ اس کے کتاب کے تعارف کا مقصد بھی ہے۔

مندرجہ بالا احادیث و سیر کی روایات ایسی ہیں جو کہ سیرت کے نہایت اچھوتے اور نئے انداز کی ترجمانی کررہی ہیں اور یہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی اس تصنیف کا خاصہ ہے کہ حیات النبی بعد ممات کے اس پہلو سے امت کو روشناس کروایا گیا ہے جس سے زیادہ واقفیت نہ ہونے کی وجہ سے حیات النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  بعد وصال کو محل اعتراض بنایا جارہا تھا۔ بلاشبہ یہ قائد محترم کی ایک تحریری کاوش ہے۔