درس : 42 دروس سلوک و تصوف

صاحبزادہ مسکین فیض الرحمن درانی

مرکزی امیر تحریک منہاج القران انٹرنیشنل

مُرشِد! معلّمِ سلوک و تصوف کے اوصاف

بحمد اللہ تعالیٰ گذشتہ دروس میں ہم سلوک و تصّوف کی تعلیم کے عمل یعنی تربیت سلوک اور اس کے مقاصد پر گفتگو کر چکے ہیں۔ ہم نے سلوک و تصّوف کے مقاصد کے حصول کے لیے مُرشِدومعلّم کے علمی، تعلیمی اور تربیتی سلوک کی تاثیر(efficacy) کے ذریعے متعلم یا مُرید کا شیخ کے ساتھ اس باہمی قلبی ربط و تعلق کا ذکر کیا تھا کہ جس کے ذریعے شیخ اور مُرید کے لیے ایک دوسرے کی ظاہری اور باطنی معرفت کا سامان ہوتا ہے اور سلوک و تصوّف کے مشترکہ مقاصد کے حصول کے لیے سازگار ماحول(conducive environment) پیدا کرنے اور اس کوتوحید مطلب کے اصول کے مطابق برقرار رکھنے میں سہولت ہوتی ہے۔ بقول ’’مَنْ عَرَفَ نَفْسَهُ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّهُ‘‘  شیخ اور مُرید کے مابین مستحکم سلوکِ تعلق یعنی مُرید کی ذاتی معرفت نفس اور دلی خواہش اور بعدہ ‘ شیخ کی اہلیت علمی کی جستجو؛ سلوک و تصوف کے راستے کی پہلی منزل ہوتی ہے۔ حقیقت نفس انسانی کی شناخت اور معرفت سے اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی قدرتوں کی پہچان ممکن ہوتی ہے۔ کسی چیز کی ذات کو اُس کا نفس کہا جاتا ہے، نفس کی حقیقت رُوح اور رُوح کی حقیقت حق الحقائق جل شانہ‘ ہے۔

مُرشِد یا معلم کی پہچان اس کے اوصاف ظاہری اور باطنی سے ممکن ہوتی ہے۔ شیخ طریقت کی تین حیثیات بطور معلّم بالعموم بڑی اہمیت کی حامل ہیں۔ ایک بحیثیت صاحب علم سلوک، دوسری بحیثیت ماہرِ تربیت و تدریس سلوک اور تیسری بحیثیت منفرد روحانی شخصیت، سالکِ راہ طریقت کی تعلیم و تربیت کے لیے شیخ کامل کا ہونا ضروری ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالی سورہ المائدہ کی پینتیسویں(35)آیہ کریمہ میں ارشاد فرماتا ہے۔

’’ يَاَ يُّهَا الَّذِيْنَ اٰ مَنُوا اتَّقُوْا اللّٰهَ وَ ابْتَغُوْ ا اِلَيْهِ الْوَسِيْلَةَ وَ جَا هِدُوْا فِيْ سَبِيْلِهِ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَO ‘‘

’’اے ایمان والو! تم اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو( ایمان بین الخوف و الرجاء پید ا کرو! تمہیں ہر وقت یہ خدشہ لگا رہے کہ کہیں اللہ جل جلالہ‘ کی خوشنودی اور رحمت سے دُور نہ جا پڑو) اور اس تک پہنچنے کا وسیلہ تلاش کرو (ایمان میں آراستگی پیدا کر کے کسی صالح سے رجوع ہو جائو، عالم، عابِد، عارف کے لیے وسیلے الگ الگ ہیں) اور اللہ کی راہ میں جہاد(بالنفس، بالقلم، بالمال)کرو۔ (اُس کا قرب حاصل کرنے میں جان لڑا دو۔ اپنی انانیت نفس اور فرعونیتِ جَسد کو مٹا دو)تا کہ تم فلاح پاؤ( دین و دنیا کی کامیابی و کامرانی کے امیدوار بنو)‘‘۔

اس آیہ کریمہ میں ان اللہ والوں کا ذکر ہے کہ جو اللہ تعالیٰ کی رضا اور اُس کے کرم کے متلاشی ہیں۔ ان کو بتایا جا رہا ہے کہ اللہ کی رضا اور قرب چار چیزوں سے حاصل ہوتی ہے۔ ایمان، تقوٰی، وسیلہ اور جہاد، تا کہ یہ اللہ والے امن کو قائم کرنے، اللہ تعالیٰ کے رضا کے حصول اور معاشرہ کو حسنِ اخلاق سے آراستہ کرنے میں مشغول رہیں۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نصرت کرنے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معاون بن کر اللہ کا قرب حاصل کریں۔ نبی مکرم و محتشم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے۔ ’’ میرے صحابی ستاروں کی مانند ہیں۔ جس کی بھی تم پیروی اور اتباع کر لو گے، راستہ پالو گے‘‘

( مصنف ابن ابی شيبة)

شیخ کسی بھی شکل و صورت، نسل، ذات قوم کا ہو، اگر وہ شریعت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع کرنے والا؛ متقی، پرہیز گار، ارکانِ اسلام کا پابند، صحیح العقیدہ مومن، با شرع مسلمان، طریق حق پر چلنے والا، بقدر ضرورت قران و حدیث جاننے والا، امانتِ طریقت کی حفاظت کی اہلیت رکھنے والا، مستحق حقدار، تابع اجماعِ امت، صلحائِ وقت میں مقبول، مخلص، صادق الوعد، اللہ تعالیٰ سے طلب استعانت کرنے والا، رشدو ہدایت اور نصیحت کرنے والا، نہ مجذوب نہ مشرکانہ کلمہ گوہی اور شطحیات کہنے والا، ریاضت و مجاہدہ سے فارغ التحصیل، اہل طریقت سے تربیت یافتہ، فراست مند اور ظاہری جمال و جلال، مکارم اخلاق اور حسن ادب رکھنے والا ہو، تو وُہ کسی مستند صاحب طریقت کی باقاعدہ اجازت سے معِّلم سلوک، مُربیّ تصّوف اور سجادہ نشینِ مسند طریقت و معرفت بن سکتا ہے۔ شیخ طریقت کے لیے ضروری ہے کہ وُہ اپنے شاگردوں اور مریدوں کو اپنے نمونہ عمل سے درس سلوک و تصّوف اس انداز سے عطا کرے، کہ مریدوں کو زندگی کے حقیقی نفع و نقصان سے آگاہی ہو اور وُہ حلال و حرام میں تمیز کر سکیں۔ طریقت کی کسوٹی شریعت کی پابندی، اتباع قرآن و سنت اور اجماع امت ہے۔ شیخ کامل کی مثال بمطابق ارشاد نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایسی ہوتی ہے کہ جیسے عطر فروش کی صحبت۔ کہ جو عطر نہ بھی دے، تب بھی اس کی خوشبو سے بہرہ یابی ضرور ہو گی۔ اور بد عقیدہ، غیر متشرع، اہل بدعت غیر تربیت یافتہ اور جاہل خود ساختہ پیر کی مثال لوہار کی ہم نشینی جیسی ہوتی ہے کہ اُس کی بھٹی کی آگ اگر بدن اور کپڑے کو نہ بھی جلائے، تب بھی اُس کے دھوئیں کی بدبو دل و دماغ کو ضرور پریشان کر دے گی۔

راہ سلوک پر چلنے کا ارادہ کرنے والے مُرید کے لیے شرعی لحاظ سے واجب ہے کہ وہ شیخ کامل کی تلاش و جستجو اور پہچاننے میں پوری کوشش کرے اور عجلت سے کام نہ لے۔ آج کے زمانہ میں ایک عام رواج ہے، کہ دین سے ناواقف اکثر بے علم اور جاہل لوگ بغیر دیکھے بھالے اور سوچے سمجھے اپنے خاندان، دوستوں یا ’’ساہو کار پیروں کے اجرتی خلیفوں‘‘ کے جھانسے میں آکر اکثر ایسے بد دین، بد عقیدہ اور غیر متشرع ان پڑھ، جاہل ڈبہ پیروں، خود ساختہ سجاد ہ نشینوں زیبِ سجادہ صاحبزادگان سے بیعت ہو کر ان کے شکنجہ تزویرمیں ایسا پھنس جاتے ہیں۔ کہ ان کی ساری عمر گمراہی اور بے راہروی کی نذر ہوجاتی ہے، اور دین کے حوالے سے کامرانی اور شادمانی کی بجائے تباہی اور نامرادی ان کا مقدر بن جاتی ہے۔

قران حکیم کی سورہ النساء کی اٹھانویں(58) آیہ کریمہ میں اللہ جل شانہ‘ بنی نوع انسان کو حکم فرماتا ہے۔ ’’ بے شک اللہ سبحانہ و تعالیٰ تم کو حکم دیتا ہے کہ تم اپنی (ہر قسم کی) امانتیں ان لوگوں کے سپرد کرو جو ان کے اہل اور حقدار ہیں۔ اور( اے حکم چلانے والے مسند نشینو!) جب تم لوگوں کے درمیان فیصلے کرو تو عدل و انصاف سے کرو، بیشک اللہ تمہیں کیا خوب نصیحت فرماتے ہیں۔ بے شک اللہ سننے والا اور دیکھنے والا ہے‘‘ امانت اللہ کی بھی ہے اور بندوں کی بھی، سب کچھ واپس کرنا ہے۔ امانت الہی؛ کتاب اللہ، احکام شرعیہ، علم الہی کی فہم، اللہ کی وحدانیت، توحید مطلق، اقتدار اعلیٰ اور حاکمیت کلیہ پر ایمان اور یقین ہے جس کو خوب جان اور سمجھ کر تخت شاہی، مسندوں، سجادوں اور منبروں پر بیٹھنے اور حکم دینے والوں نے اپنی رعایا، پیروکاروں، مریدوں، شاگردوں اور عوام تک بطور امانت پہنچانا ہے۔ بندوں کے دِل میں صرف اللہ تعالیٰ کا خوف ہونا چاہیے، نہ کہ شاہوں، سرداروں، پیروں، فقیروںاور ملنگوں کا خوف۔ انسان کے دِل میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی ناراضی کے خوف کے سوا کسی مخلوق کا خوف رکھنا شرک ہے۔ سورہ النساء کی انسٹھ ویں(59) آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے۔ ’’اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اور تم میں جو اولی الامر ہیں۔ ان کا حکم مانو( فرائض میں اللہ کی اطاعت، سنت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت، اُولی الامر یعنی صاحبانِ امر میں خلفاء اربعہ، صحابہ کرام، اربابِ عقول، پیرانِ طریقت، اربابِ حکومت، عساکر اسلامیہ کے حاکم وغیرہ سب شامل ہیں۔ مسلمانوں کو خود کتاب و سنت کے تابع رہنا چاہیے اور جو اس پر چلتا ہے اور دوسروں کو چلاتا ہے اُس کا کہنا ماننا چاہیے، اطاعت سے نفس کو اطمینان نصیب ہوتا ہے اور صاحبان امر سے نزاع نہیں ہوتا۔ دِل برائی سے دور ہوجاتا ہے۔ اس پر بھی اگر کسی مسئلہ میں حکّام کے ساتھ تمہارا اختلاف ہو جائے۔ (حق بات واضح نہ ہو)تو( ایسی صورت میں) اس کو خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف رجوع کرو۔ اگر تم اللہ اور روزِ قیامت پر ایمان رکھتے ہو( یہ جو کچھ کہا گیا ہے) یہی بہتر ہے اور اس کا انجام اور بھی اچھا ہے‘‘(یاد رکھو خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شریعت کے خلاف کسی کا حکم ماننے کے قابل نہیں، اللہ تعالیٰ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت ابد الآباد تک ہے، اولی الامر بندگانِ الہی کے احکام ایک حد تک محدود ہوتے ہیں۔ اور یہ اُسی وقت ممکن ہے۔ اگر تم اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتے ہو۔ یہاں رسول کا لفظ مکرّر نہ آیا۔ بات یہ ہے کہ کتاب کے ساتھ سنت، اللہ کی اطاعت کے ساتھ شریعت، لازم و ملزوم ہیں اور یہ اصول جو بتایا گیا یہ نہایت خوب ہے۔ اور اس کا انجام اور بھی اچھا ہے)

مُرشِد کامل کی تلاش صحابہ اور صالحین کی سنت ہے۔ شریعت، طریقت اور احسان کا پڑھانا، سکھانا، اس کی تلقین، تدریس، تربیت، تادیب اور تدریب، سب اعلیٰ ترین امانت ہے۔ معلِّم یا مُرشِد ایک عظیم دینی امانت کی حفاظت کرنے والا ہوتا ہے۔ مدرسہ اورخانقاہ میں اُس کا یہ منصب بفحوائے قران سراسر امانت ہے۔ جس کے لیے اس کا اہل اور حقدار ہونا واجب ہے۔ بیعت ہونے سے پہلے مُرید یا متعلم اس امانت کا پہلاحامل ہوتا ہے۔ سورہ النساء کی اٹھانویں آیت کے مطابق اس کو تلقین کی گئی ہے کہ وُہ یہ امانت ان لوگوں کے سپرد کرے جوان کے اہل اور حقدار ہیں۔ یعنی معِّلم سلوک یا مرشِد تصوف کے انتخاب(selection) کی ذمہ داری متعلم یا مُرید کی ذمہ داری ہے۔ قرآن نے ایک سنہری اصول دیا ہے کہ ’’ علمی اور عملی طور پر نا اہل اور غیر مستحق افراد نہ اس عظیم امانت کا بارِ گراں اٹھانے کے لیے اپنے آپ کو پیش کر سکتے ہیں۔ اور نہ ان کو منتخب کیا جا سکتا ہے‘‘ یہ حکم اُس ذات باری تعالیٰ کی جانب سے ہے، جس کی رضا کے حصول کے لیے ایک مسلمان شریعت، طریقت اور احسان کا ذریعہ استعمال کرنے جا رہا ہے۔ اس آیہ کریمہ سے اس منصب جلیلہ کے بارے میں یہ وضاحت بھی ہو گئی ہے۔ کہ یہ کسی کی وراثت نہیں ہوتی، بلکہ سراسر رب جلیل کی عطائے خاص ہے۔ اور جستجوئے حق کے لیے ’’وسیلہ‘‘ ہے۔

سورہ المائدہ کی پینتسویں(35) آیہ کریمہ میں ’’ وَابْتَغُوْا اِلَيْهِ الْوَسِيْلَة‘‘ سے اسی نوع کا توسُّل مراد ہے۔ اس آیہ مقدسہ کے سیاق و سباق، نحوی اور صرفی اطلاقات میں گئے بغیر، جب لفظ ’’وسیلہ‘‘ کی تصریحات؛ جو متقدمین اور اکابر امت سے عطا ہُوئے ہیں۔ اُس کے مطابق علمائے راسخین کی ایک معتدبہ اکثریت نے اس سے ’’ توُسِّل مُرشِد‘‘ مراد لیا ہے۔ ان میں وُہ علماء حضرات بھی شامل ہیں۔ کہ جن کو ایک خاص طبقہ خیال کے لوگ اپنا مذہبی پیشوا، امام اور ہم مذہب و عقیدہ سمجھتے ہیں۔ ان مشہور علماء کرام میں حضرت شاہ ولی اللہ، اور شاہ عبدالعزیز کے نام نامی اسمائے گرامی سرِ فہرست ہیں۔ شیخ الاسلام حضرت ڈاکٹر محمد طاہر القادری مدظلہ‘ نے اپنی معرکۃ الآراء تصنیف ’’ عقیدہ تَوَسُّل‘‘ میں اسلام کے اس معروف عقیدہ پر تفصیلی گفتگو فرمائی ہے اور ’’ قائلینِ عقیدہ توسل‘‘ کے عنوان سے ایک مفصل باب قائم کرتے ہُوئے رقمطراز ہیں۔ ’’ دور جدید کے معروف مذہبی سکالر، حرم مکی میں مسند تدریس پر فائز عظیم محقق السید محمد بن علوی المالکی نے اپنی کتاب’’ مفاھیم یجب ان تصحح‘‘ میں تَوَسُّل پر شافی کلام کیا ہے، خصوصاً انہوں نے ان ائمہ کبار کا ذکر بھی کیا ہے جو مشروعیت ِتَوَسُّل کے قائل ہیں۔ ہم ذیل میں مذکورہ کتاب کے اس مقام سے استفادہ کرتے ہوئے اس کا ترجمہ دے رہے ہیں تا کہ مسلمان اس حقیقت کو جان لیں کہ وسیلہ مسلمانوں کے درمیان متفقہ مسئلہ ہے اور اسے ان اجل علماء و مفسرین اور محدثین نے نقل کر کے اس کو جائز قرار دیا ہے جو خود اپنے وقت کے امام گزرے ہیں اور جن سے ہمیں دین کی رہنمائی ملی ہے۔ ان سے یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ انہوں نے (معاذ اللہ) دین میں خیانت کی ہو اور کسی قسم کی شرک و بدعت اپنی کتابوں میں درج کی ہو۔ علوی مالکی صاحب کا اقتباس ملاحظہ فرمائیں :

’’ ذیل میں ان کبار ائمہ اور حفاظ حدیث کے اسماء مبارکہ نقل کئے جاتے ہیں۔ جو توسل کے قائل ہیں۔

1۔ الامام الحافظ ابو عبداللہ رحمہ اللہ

انہوں نے اپنی کتاب المستدرک میں حدیث توسل آدم علیہ الصلوۃ و السلام کو ذکر کرنے کے بعد اس کو صحیح قرار دیا ہے۔

2۔ الامام الحافظ ابو بکر البہیقی رحمہ اللہ

انہوں نے اپنی کتاب دلائل النبوۃ میں حضرت آدم علیہ السلام وغیرہ کی حدیث کو ذکر کیا ہے اور انہوں نے اس کا اہتمام کیا ہے کہ اپنی کتاب میں کوئی موضوع روایت ذکر نہ کریں۔

3۔ الامام الحافظ جلال الدین السیوطی رحمہ اللہ

انہوں نے اپنی کتاب الخصائص الکبریٰ میں حضرت آدم علیہ السلام کی توسل والی حدیث کو ذکر کیا ہے۔

4۔ الامام الحافظ ابو الفرج ابن الجوزی رحمہ اللہ

انہوں نے بھی اپنی کتاب الوفاء میں حدیث آدم علیہ السلام وغیرہ کو ذکر کیا ہے۔

5۔ الامام الحافظ القاضی عیاض رحمہ اللہ

انہوں نے اپنی کتاب الشفاء فی التعریف بحقوق المصطفے میں باب الزیارۃ وباب فضل النبی و دیگر بہت سے ابواب ذکر کئے ہیں۔

6۔ الامام الحافظ الشیخ نورالدین القاری رحمہ اللہ

جو کہ ملا علی قاری کے نام سے مشہور و معروف ہیں نے شرح شفاء شریف میں اس مسئلے پر گفتگو کی ہے۔

7۔ العلامۃ احمد شہاب الدین الخفاجی رحمہ اللہ

انہوں نے بھی اپنی کتاب شرح شفا مسمی’’ نسیم الریاض‘‘ میں توسل کا جواز بیان کیا ہے۔

8۔ الامام الحافظ القسطلانی رحمہ اللہ

انہوں نے اپنی کتاب ’’المواہب اللدنیہ‘‘ کے المقصد الاول میں ذکر کیا ہے۔

9۔ العلامتہ الشیخ محمد عبدالباقی الزر قانی رحمہ اللہ

انہوں نے بھی المواہب کی اپنی شرح میں اس مسئلہ کو ثابت کیا ہے۔ 1: 44

10۔ الامام الشیخ الاسلام ابو زکریا یحی النووی رحمہ اللہ

انہوں نے بھی اپنی کتاب الایضاح کے باب 6 صفحہ498 پر اس مسئلہ توسل کو ذکر کیا ہے۔

11۔ العلامہ ابن حجر الہیثمی رحمہ اللہ

انہوں نے بھی اپنی کتاب الایضاح کے حاشیہ پر اس مسئلہ کو ذکر کیا ہے(499) اور ان کا تو اس موضوع پر خاص طور سے ایک رسالہ ہے جس کا نام الجوھر المنظم ہے۔

12۔ الحافظ شہاب الدین محمد بن محمد بن الجوزی رحمہ اللہ

انہوں نے بھی اپنی کتاب عدۃ الحصن الحصین میں دعاء کے آداب کے تحت ذکر کیا ہے۔

13۔ الحافظ شہاب الدین محمد بن علی الشوکانی رحمہ اللہ

انہوں نے اپنی کتاب تحفتہ الذاکرین کے ص161 پر اس مسئلہ کو ذکر کیا ہے۔

14۔ العلامۃ الامام المحدث علی بن عبدالکافی السبکی رحمہ اللہ

انہوں نے بھی اپنی کتاب شفاء السقام فی زیارۃ خیر الانام میں ذکر کیا ہے۔

15۔ العلامتہ الشیخ الحافظ عماد الدین ابن کثیر رحمہ اللہ

انہوں نے بھی اللہ پاک کے قول ’’ و لو انهم اذظلموا انفسهم ‘‘ کی تفسیر کے تحت مسئلہ توسل کو ذکر کیا ہے۔ اور واقعہ العتبی کو اس اعرابی کے ساتھ جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کے وقت شفاعت کی درخواست لے کر آیا تھا ذکر کیا ہے۔ اور اس پر کوئی اعتراض نہیںکیا۔ اور البدایۃ و النہایۃ میں آدم علیہ السلام کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اتباع کی وجہ سے ہے۔ اور آپ کی اتباع اور ایمان کی وجہ سے یہ توسل ہر ایک پر ہر حال میں ظاہراً و باطناً اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات میں اور وفات کے بعد، موجودگی و غیوبت میں فرض ہے۔ حجت قائم ہونے کے بعد یہ توسل کسی بھی حال میں کسی بھی فرد بشر سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان و اطاعت کی وجہ اور کسی بھی عذر کی وجہ سے ساقط نہیں ہوتا۔ اور اللہ جل شانہ کی رحمت تک پہنچنے کے لیے اور اس کی پکڑ و عذاب سے بچنے کے لیے صرف اور صرف آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان و اطاعت کو وسیلہ بنانے کا راستہ ہے۔ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شفیع الخلائق ہیں، صاحب مقام محمود ہیں کہ جس پر اولین و آخرین سب رشک کریں گے۔ اور نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مقام و مرتبہ اللہ جل شانہ کے دربار میں سب سے عظیم ہے اور تمام شفیعوں کے مقابلہ میں سب سے بلند ہے۔ اللہ جل شانہ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے باے میں فرمایا ہے۔ ’’ و کان عند الله وجيها‘‘ اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں فرمایا ہے۔ وجيها فی الدنيا و الاخرة‘‘ اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام انبیاء سے عظیم المرتبت ہیں۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت و دعا سے صرف اسی شخص کو نفع ملے گا جس کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شفاعت و دعا فرمائیں گے تو وہ شخص اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت و دعا کو وسیلہ بنائے گا۔ جیسا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بنایا کرتے تھے۔ صلے اللہ علیہ و الہ وسلم تسلیما‘‘

(التوسل والوسيلة5. 6)

الفتاویٰ اکبریٰ میں ہے کہ ان سے سوال کیا گیا کہ کیا نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وسیلہ جائز ہے یا نہیں؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ الحمدللہ، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر صلوۃ و سلام اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعا و شفاعت اور اس جیسے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے افعال اور نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے افعال اور نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حق میں بندوں کے مامور بہا افعال کو وسیلہ بنانا باتفاق المسلین مشروع ہے۔

(الفتاویٰ الکبریٰ ج1. ص140)

ہمارا بھی یہی عقیدہ ہے کہ جب ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کووسیلہ بناتے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان آپ کے مقام و مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ عقیدت و محبت اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی فضیلت و شرف کو وسیلہ بناتے ہیں اس کے علاوہ ہم کسی اور معنی کا تصور بھی نہیں کرتے اور جملہ اہل اسلام بھی توسل کے وقت یہی عقیدہ رکھتے ہیں۔ ‘‘