اداریہ : آزاد اسلامی مملکت کا خواب اور علامہ محمد اقبال

21 اپریل شاعر مشرق مفکر پاکستان علامہ ڈاکٹر محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کا یوم وفات ہے۔ علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے مسلمانان ہند کے لئے قیام پاکستان کی صورت میں وہ عظیم کارنامہ سرانجام دیا جس کی وجہ سے ان کا نام ہمیشہ زندہ رہے گا۔ پاکستان 14 اگست 1947ء کو جن عظیم مقاصد کے لئے حاصل کیا گیا تھا وہ یہ تھے کہ یہ آزاد انسانوں کا ملک ہو گا اس میں اسلامی اقدار حیات کی حفاظت کی جائے گی یہ اسلامی ثقافت کا علمبردار ہو گا اور معاشرتی عدل کی فطری بنیادوں پر قائم ہو گا لیکن اگر ہم اپنے نظام سیاست کا جائزہ لیں تو 64 سال کا طویل عرصہ گزر جانے کے باوجود ہم سیاسی عدم استحکام اور سیاسی قیادت کی ناکامی سے دوچار ہیں۔ یہ ملک جن عظیم مقاصد کے لئے حاصل کیا گیا تھا ہماری سیاسی قیادت نے کبھی سنجیدگی کے ساتھ اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش ہی نہیں کی۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری 64 سالہ زندگی کا اکثر حصہ فوجی ڈکٹیٹرشپ اور ان کے لگائے گئے مارشل لاء کے منحوس سائے میں بسر ہوا حالانکہ بانی پاکستان قائد اعظم رحمۃ اللہ علیہ نے پاکستان کے نظام حکومت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے واضح طور پر فرمایا تھا ’’علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی دعوت پر میں نے دولت اور منصب دونوں تج کر کے انڈیا میں محدود آمدنی کی دشوار زندگی بسر کرنا پسند کی ہے تاکہ پاکستان وجود میں آئے اور اس میں اسلامی قوانین کا بول بالا ہو کیونکہ دنیا کی نجات اسلامی قوانین میں ہی ہے صرف اسلام ہی کے علمی و عملی اور قانونی دائروں میں آپ کو عدل، مساوات، اخوت، محبت اور امن دستیاب ہو سکتا ہے‘‘۔

علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے جس آزاد اسلامی مملکت کا خواب دیکھا تھا اور جس کے لئے تحریک بپا کرنے کے لئے انہوں نے قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ کو آمادہ کیا وہ اس مملکت خداداد کو دین اسلام کا عملی نمونہ بنانا چاہتے تھے اور ان کی شدید خواہش تھی کہ زمین کا ایسا ٹکڑا حاصل کیا جائے جس میں شریعت اسلامی، اجتہادی اور انقلابی روح کے ساتھ نافذ ہو اور اس میں صرف قرآن و سنت کی بالادستی ہو۔ علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ ایسے آئین کا نفاذ چاہتے تھے جو گود سے گور تک مسلمانوں کی راہنمائی کرے اور مکمل ضابطہ حیات فراہم کرے جس کے بارے وہ اپنی کتاب ’’اسرار و رموز‘‘ میں لکھتے ہیں:

آن کتاب زندہ قرآن حکیم
حکمت او لایزال است و قدیم

’’وہ (آئین اور ضابطہ حیات) قرآن حکیم ہے جو ایک زندہ کتاب ہے جس کی حکمت قدیم اور کبھی نہ ختم ہونے والی ہے‘‘۔

علم حق غیر از شریعت ہیچ نیست
اصل سنت جز محبت، ہیچ نیست

’’سچا علم شریعت کے علاوہ اور کچھ نہیں اور سنت رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی بنیاد محبت کے علاوہ کچھ نہیں‘‘۔

تاشعار مصطفی از دست رفت
قوم را رمز بقا از دست رفت

’’جب حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی یہ شریعت ہاتھ سے نکل گئی تو قوم اپنی بقا کے راز سے محروم ہو جائے گی‘‘۔

علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی اس فکر کے نتیجے میں قیام پاکستان کے لئے جن بنیادی مقاصد کا تعین کیا گیا تھا اس کو عملی جامہ پہنانے کے سلسلے میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی جس کے نیتجے میں صورت حال یہ ہو گئی ہے کہ اب بعض وطن دشمن اور اسلام دشمن عناصر اخبارات و رسائل کے ذریعے اہل پاکستان کو یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ قیام پاکستان کا مقصد شریعت اسلامیہ کا نفاذ ہرگز نہیں تھا بلکہ قیام پاکستان کا مقصد محض انگریزوں سے نجات حاصل کر کے انہیں سیاسی اور سماجی طور پر ایک آزاد خطہ زمین دلانا تھا۔ آج نوجوان نسل جس نے تحریک پاکستان کی عظیم جدوجہد اور عظیم قربانیوں کو اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا اخبارات و رسائل اور میڈیا میں قیام پاکستان کی اس غلط تعبیر کو پڑھتی اور سنتی ہے کہ قیام پاکستان کا خواب کسی تہذیبی، ثقافتی اور نظریاتی بنیادوں پر شرمندہ تعبیر نہیں ہوا بلکہ محض سیاسی، معاشی اور معاشرتی بنیادوں پر معرض وجود میں آیا تو وہ اس ملک کو دیگر سیکولر ممالک کی صف میں شامل کرتی نظر آتی ہے جو علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے تصور پاکستان کے بالکل برعکس ہے کیونکہ علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کا تصور پاکستان تہذیبی اور ثقافتی طور پر ایک اسلامی، نظریاتی اور فلاحی ملک تھا اور علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے دو ٹوک طریقے سے اپنے مختلف خطابات میں کہتے رہے ہیں کہ امت مسلمہ کی بقا کا راز صرف اور صرف قرآن اور صاحب قرآن کے ساتھ تعلق قائم رکھنے میں ہے۔ آج کی نوجوان نسل کو علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے اس تصور پاکستان کو سمجھ کر نظریہ پاکستان کی بنیاد کو جاننا ہو گا جو قیام پاکستان کے وقت لگائے گئے اس نعرہ میں مضمر ہے۔

’’پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ‘‘