دروس سلوک و تصوف، درس : 43

صاحبزادہ مسکین فیض الرحمان درانی

مرشِد! معلِّم سلوک تصوّف کے اوصاف

مشکوٰۃ شریف میں نبی محتشم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی حدیث پاک ہے کہ ’’میں معلِّم بنا کر بھیجا گیا ہوں‘‘اس حدیث شریف کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  معلم بنا کر بھیجے گئے تو گویا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علوم نبوت سے فیض یاب ہونے والا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیروی اور اتباع کرنے والا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دین کی تبلیغ، اشاعت و ترویج کرنے والا ایک مسلمان معلِّم و مُرشِد وراثت پیغمبری کا امین ٹھہرا۔ اتنے عظیم منصب اور مقام پر پہنچ کر امانت کی پاسداری کرنے والے ایک معلِّم و مرشِد کی ذمہ داریوں اور فرائض میں بے پناہ اضافہ ہو جاتا ہے اور اس منصب کا تقاضا ہوتا ہے کہ معلِّم سلوک و تصوف، قرآن و سنت کی روشنی میں اپنے زیر تعلیم متعلمین و مریدین کے دامن ِطلب کو دینی، اخلاقی، ادبی، تعلیمی اور علمی نور سے بھر دے۔ ان کو اخلاق، کردار اور صداقت و دیانت کے زیور سے آراستہ کر دے تاکہ خانقاہی تعلیم حاصل کرنے کے بعد وہ اس نظام اور ملک و ملت کے لیے سود مند اور اسلامی معاشرے کے بہتر افراد ثابت ہوں۔

در حقیقت سلوک و تصّوف کا معلِّم و مربیّ ہونا ایک عظیم نعمت اور اعزاز ہے، یہ پیشہ نہیں بلکہ ایسی عبادت ہے جو بیک وقت معلِّم و مُرشِد اور متعلمین و مریدین کے لیے باعثِ تزکیہ نفس اور رضائے الہی کی جستجو کا ذریعہ ہے، خانقاہی نظام کے تحت تعلیم و تدریس ایک ایسا مقدس مشن ہے، جس کے تحت مستقبل کی صالح نسلیں تیار کی جاتی ہیں۔ جس طرح ایک ماہر جوہری خام ہیرے کی تراش خراش کر کے اس کی پوشیدہ اور بہترین خصوصیات کو سامنے لاتا ہے۔ شیخ اپنے مریدوں کی سیرت و کردار کی اصلاح کرتا ہے۔ اس کی خانقاہ ایک ایسا روحانی کارخانہ ہوتی ہے۔ جس میں مرید خام شیشے کی حالت میں داخل ہوتا ہے اور مُرشِد و مربیّ اس کو ایک ایسے ہیرے کی شکل میں تراش لیتا ہے۔ جس کی چمک دمک سے رفتہ رفتہ ایک دنیا روشن ہو جاتی ہے۔ مُرشِد مرید کا رہبر ہوتا ہے جو اُس کے ذہن میں اللہ کی محبت و اطاعت اور نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع، عشق و محبت اور نصرتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے ساتھ ساتھ اسلامی اخوت، بہادری، غیرت، خود داری، جفاکشی، رواداری، محبت، ایمان، اخوت، مساوات اور بھائی چارے کے بیج بوتا ہے۔ مرشِدخود اعلیٰ ا خلاق، ادب اور حسن عمل کا حسین نمونہ ہوتا ہے، وہ خوش گفتار ہوتا ہے۔ جب بات کرتا ہے تو اس کے منہ سے الفاظ موتیوں اور پھولوں کی طرح جھڑتے ہیں۔ جو مُرید کے قلب و دماغ پر اثر کرتے ہیں۔ اس کی گفتگو پُر تاثیر ہوتی ہے، جو اس کے دل سے نکلتی ہے اور مرید کے قلب پر اثر کرتی ہے۔ مرشِد عفو و درگزر کی تصویر ہوتا ہے۔ مریدوں پر بے جا غصہ نہیں کرتا اور نہ ان پر بلا وجہ چیختا ہے۔ معلِّم ایک باغبان کی مانند ہوتاہے جو باغ کے پودوں جیسی اپنے ہر متعلّم و مرید کی نگرانی اور حفاظت کرتا ہے۔ وہ ہر پودے کی انفرادیت کو برقرار رکھتا ہے اور گلستانِ ارادت کے ہر پھول اور پودے کو ایک محنتی باغبان کی طرح موسموں کی شدت سے بچاتا ہے، شیخ کامل اپنی سوچوں کا پانی پلا کر مریدوں کے اذہان و قلوب کی آبیاری کرتا ہے اور جب ان کے اخلاق حسنہ کی خوشبو پھیلنی شروع ہو جاتی ہے تو اس سے قلبی راحت، سکون اور اطمینان محسوس کرتا ہے۔ یہ وہ حقیقی اطمینان قلب ہوتا ہے جو ایک معلّم اور مرشِد کو عطائے ربانی کی شکل میں نصیب ہوتا ہے۔ شیخ کامل اپنے مریدوں میں حصول علم کے لیے تحقیق و جستجوکی لگن پیدا کر کے ان کے ذہن کو سنوارتا ہے۔ حقیقت میں ایک اہل اور باصلاحیت مرشِد نہ صرف اپنے مریدوں بلکہ پوری ملت کا معمار ہوتا ہے، اس کی فکر آفاقی ہوتی ہے۔ وہ ایک کردار ساز شخصیت ہوتا ہے۔ جس کا کام محض اتنا نہیں ہوتا کہ مرید کو چند اوراد و وظائف پڑھنا سکھا دے اور اُس کو اس کے حال پر چھوڑ دے بلکہ مرشِد مرید کو دروس الاخلاق کی تعلیم دیتا ہے اور اسباق کے معانی، مطالب اور مفہوم سمجھا کر مناسب تربیت سے ان پر عمل کراتا ہے۔

قدیم خانقاہی نظام میں معلِّم یا شیخ کی حیثیت دورِ جدید کے بعض سجادہ نشین پیروں کی طرح نہ تھی کہ جو تختِ پیری پر بیٹھ کر مریدوں سے ادب اور حق کے نام پر صرف اپنی خدمت گزاری کراتے ہیں۔ بلکہ وہ ایک ایسا مربی اور مرجع ہوتا تھا جو نہ صرف مُرید کے اخلاق و کردار پر نظر رکھتا تھا بلکہ اس کی معاشی ضروریات اور گھریلو حالات کی بھی اسے فکر ہوتی تھی تاکہ معاشی پریشانیوں کی وجہ سے کہیں وہ ایسے غیر شرعی اعمال کا شکار نہ ہو جائے جو حرام اور مکروہات کی آمیزش سے اُس کی عاقبت برباد کر دیں۔ تصوّف کا سب سے اہم عمل اکلِ حلال کا حصول تصّور کیا جاتا تھا۔

اسلامی ادوارِ حکومت میں شیوخ طریقت کا مقام بر ترسمجھا جاتا تھا۔ قول و فعل کی پاکیزگی کی وجہ سے خلفاء اور عمّالِ حکومت ان کی عزت اور احترام کرتے تھے، وہ خانقاہوں اور درسگاہوں کے معاملات میں مداخلت سے باز رہتے تھے۔ خانقاہی ادارے سجادہ نشینی، وراثت اور خلافت کے جھگڑوں سے پاک تھے۔ خلافت اور سجادہ نشینی موروثی نہیں ہوتی تھی۔ بلکہ قرآن کے احکام کے مطابق اہلیت اور صلاحیت کی بنا پر تفویض کی جاتی تھی۔ بنا برایں خانقاہ اور مدرسہ کو معاشرے میں اعلیٰ اور معزز مقام حاصل تھا۔ عوام الناس خانقاہوں اور مدرسوں کے معلّمین کی صدق دِل سے عزت و تکریم کرتے تھے، شیوخ وعلماء طریقت کو اپنا رہنما مانتے تھے۔ شیوخ طریقت کا اثر و رسوخ صرف خانقاہوں اور درس گاہوں تک محدود نہ تھا بلکہ دور دراز ممالک، بڑے بڑے شہروں اور علاقوں تک پھیلا ہوتا تھا۔ پیران عظام خانقاہی اشغال کے علاوہ شہری اور معاشرتی سرگرمیوں میں بھی فعّال کردار ادا کرتے تھے۔ عہد اسلامی میں کسی دینی خدمت کے لیے معاوضہ لینا یا طلب کرنا اچھا نہ سمجھا جاتا تھا، حالات و ضروریات کے تحت خانقاہوں اور مدارس کی کفالت کے لیے حکمرانوں اور عوام الناس کی جانب سے ہدیات، عطیات اور نذرانے پیش کئے جاتے تھے۔ جن کو فتوح کہا جاتا تھا۔ خانقاہوں اور مدارس کے ساتھ حکومت اور امراء کی جانب سے وقف جائیدادیں ہوتی تھیں۔ جن سے متعلمین اور خانقاہوں میں رہنے والے عزلت گزینوں کی ضروریات کی کفالت ہوتی تھی۔ خانقاہوں اور مدارس کے معلمین اور اساتذہ’’علم کو نہ بیچنے‘‘ کی اخلاقی روایت کے تحت خود ہی ان ہدیات اور عطیات سے دستکش رہتے اور تنگ حالی کو گوارہ کرتے تھے۔ اس لیے اکثر معلمین تعلیم و تدریس کا کوئی معاوضہ نہیں لیتے تھے۔ کائنات کے سب سے بڑے معلِّم اور مُدَرِّس حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کا تو اعلان تھا کہ:’’ میں تم سے دین کی تعلیم اور تدریس کا معاوضہ نہیں مانگتا۔ میرا معاوضہ تو خدا کے ذمہ ہے۔ ‘‘سنت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  پر عمل کرنے کی غرض سے بعینہ یہی صورت خانقاہوں کے شیوخ، مسند نشینوں، پیروں اور مدارس کے معلمین و مدرّسین کی ہوتی تھی۔ پیری، مریدی اور تعلیم و تدریس کو ذریعہ معاش نہیں سمجھا جاتا تھا بلکہ وہ ادائے فرض کی حیثیت رکھتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ فقہائے متقدمین نے بالا تفاق تعلیم و تدریس کا معاوضہ لینے کو مکروہ قرار دیا تھا۔ یہ اسی نظام تعلیم کا اثر تھا کہ قرون اُولیٰ و وسطیٰ میں اکثر ائمہ، شیوخ اور عام علمائے کرام ذریعہ معاش کے لیے کوئی پیشہ اختیار کرتے تھے اور تعلیم و تدریس کا کوئی معاوضہ نہیں لیتے تھے۔ آج بھی ان کے اسمائے گرامی کے ساتھ پیشوں کی نسبت سے ان کے ذرائع معاش کا پتہ چلتا ہے۔ مثلاً ان میں سے کسی کے نام نامی اسم گرامی کے ساتھ حلوائی لگا ہوا ہے تو کسی کے نام کے ساتھ قدوری (ہانڈیاں بنانے والا) کوئی حَدَّاد (لوہار) ہے تو کوئی بزار(بکریاں بیچنے والا) ہے۔ کوئی فطّان(دھنیا) ہے تو کوئی اسکاف(موچی) ہے۔ وہ ان پیشوں میں کوئی عار نہیں سمجھتے تھے بلکہ بڑے فخر کے ساتھ اپنے ناموں کے ساتھ ان کو استعمال کرتے تھے۔ ان کے فخر کے لیے یہ بات کیا کم تھی کہ وہ اللہ کی مخلوق کو اللہ کے ساتھ واصل کرتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ اپنے عہد میں وہ آسمان علم و تصوف کے آفتاب و ماہتاب بنے اور بڑے بڑے فرعونوں کی گردنیں ان کی چوکھٹ پر جھکتی تھیں۔ طبیعتوں کے ضعف، علوم سے عام بے رغبتی اور حکومتوں کی بے التفاقی کو دیکھتے ہوئے فقہائے متاخرین نے تعلیم و تدریس کے معاوضے اور اعزازیہ کے جواز کا فتویٰ دیا۔ مگر یہ معاوضہ یا اعزازیہ پورے اسلامی دور میں کبھی بھی نادار طلباء سے نہیں لیا گیا۔ یہ یا تو وظائف کی صورت میں حکومتوں نے خانقاہوں اور مدارس کو ادا کیا۔ یا ان کے ا خراجات اہل خیر کے عطیات اور چندے سے پورے کئے جاتے تھے۔ آج کے دور میں مریدوں سے بڑے بڑے نذرانوں کا وصول کرنا اور بزرگوں کے مزارات پر چندہ کی جمع داری کے لیے بڑے بڑے آہنی صندوق رکھنے کا رواج دورِ جدید کے موروثی سجادہ نشینوں کا وطیرہ اور مال بٹورنے کا طریقہ ہے۔ شومئے قسمت سے اس سے نادار مریدوں اور خانقاہوں کے خادمین کی کفالت کا کوئی مناسب اہتمام نہیں کیا جاتا ہے بلکہ لنگر کے لئے الگ نذرانے وصول کئے جاتے ہیں۔

تعلیم و تربیت کے قدیم خانقاہی نظام میں مُرشِد اور مُرید کے تعلقات روحانی باپ اور بیٹوں کے طور پر قائم تھے۔ شیوخ مریدوں کو صرف چند اوراد و وظائف تلقین کرنے پر مامور نہ ہوتے تھے، بلکہ ان میں روحانی پاکیزگی اور بلند اخلاق پیدا کرنا بھی ان کے فرائض میں داخل تھا، جس طرح ایک گھر میں باپ اپنے بچوں کی آئندہ زندگی کے لیے نمونہ ہوتا ہے، اسی طرح شیوخ طریقت مریدوں کی آئندہ زندگی کے لیے اسوہِ عمل بنتے تھے۔ علمائے سلوک و تصوف فرماتے ہیں کہ ضروری ہے کہ مشائخ عظام ذاتی طور پر دیندار ہوں اور محاسن اخلاق، تہذیب اور شائستگی کے سراپا پیکر ہوں، اس لیے دروسِ سلوک و تصوف میں مریدوں اور شاگردوں کو ان کے دینی فرائض کے ساتھ اسباق ِ اخلاق اور تہذیب نفس کے بنیادی اصول بھی سکھائے جاتے ہیں۔ شیوخ طریقت کی دینداری، تہذیب اورحسنِ اخلاق کو بہت اہمیت حاصل ہوتی ہے، ان کی طرز زندگی اور اخلاقی روّیوں پر عوام الناس کی گہری نظر ہوتی ہے۔

مشائخ عظام اور علمائے کرام کے ذاتی اوصاف میں سب سے اول خوف خدا ہوتا ہے۔ شیوخِ تصّوف پر واجب ہوتا ہے کہ وہ خلوت اور جلوت ہر جگہ اپنے ظاہری اور باطنی افعال اور اشغال میں خوف خدا کو ملحوظ رکھیں۔ پوری دیانتداری سے اپنے فرائض نبھائیں، جو علوم طریقت ان کو ودیعت کئے جاتے ہیں وہ اللہ کی امانت ہوتے ہیں ان علوم کے حقیقی نگہبان اور امانت دار بھی شیوخ ہی ہوتے ہیں۔ سورہ انفال کی ستائیسویں (27) آیہ کریمہ میں ارشاد ِربّانی ہے۔ ’’ اے ایمان والو! اللہ اور رسول  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  سے خیانت نہ کرو۔ (قرآن، حدیث، احکام دین اور مناصبِ علمی سب اللہ اور اس کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی ’’امانت‘‘ ہیں۔ اس مقدس امانت کو بطریق احسن اپنے مسلم بھائیوں، طالب علموں، مریدوں اور عام افرادِ معاشرہ کو پہنچاؤ۔ یہ تم پر اللہ سبحانہ و تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  اور اسلامی معاشرے کا حق ہے) اور آپس کی امانتوں میں (بھی) خیانت نہ کرو۔ ( یہ تم پر اللہ کی مخلوق کا حق ہے) حالانکہ تم( حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں خوب) جانتے ہو(اور خیانت کی سزا سے بھی واقف ہو)‘‘

علمائے سلوک و تصوف اورشیوخ طریقت کی عملی زندگی میں وقار، متانت اور سنجیدگی لازم ہوتی ہے۔ متقدمین شیوخ پُر وقار اور اچھی خصلتوں والے ہوتے تھے، ان کی مجالس میں شور اور ہنگامہ ہوتا اور نہ ان کی اپنی آواز بلند ہوتی تھی۔ نرمی سے ہمکلام ہونا ان کا طریق تھا، شریعت کی پابندی کرنا مشائخ عظام اور علمائے کرام کا فرض ہوتا ہے، وہ عوام الناس کے لیے نمونہِ تقلید ہوتے ہیں لہذا ان کے لیے لازم ہوتا ہے کہ وہ اسلامی شعائر اور ظاہری احکام کے پورے پابند ہوں، خاص طور پر نماز با جماعت پابندی سے مسجدوں میں پڑھتے ہوں، آجکل کے اکثر پیران عظام اور سجادہ نشین حضرات (الا ماشاء اللہ) مساجد میں جانے سے گریز کرتے ہیں۔ اکثر جاہل پیر اپنے مریدوں کو اس کی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ ان کی نمازوں اور عام لوگوں کی نمازوں میں فرق ہوتا ہے۔ نماز میں ان پر کچھ اس نوع کی روحانی کیفیات وارد ہوتی ہیں کہ جو ائمہ مساجد اور عوام کی سمجھ سے بالا تر ہوتی ہیں۔ نماز میں ان کے قلوب جاری ہوتے ہیں اور وہ بآواز بلند ذکر الہی کرتے ہیں جس سے ان کے اجساد تھرکتے تڑپتے پھڑکتے ہیں۔ مولوی حضرات اور مقتدی ان خاص روحانی حرکات و سکنات سے نابلد ہوتے ہیں اور اس پر معترض ہوتے ہیں۔ لہذا ان کے اعتراض کے پیش نظر وہ مساجد میں نماز پڑھنے سے اجتناب کرتے ہیں۔ یہ سب ان پڑھ پیروں کے ڈھکوسلے ہوتے ہیں۔ اس طرح کی باتوں سے نہ صرف وہ خود گمراہ ہوتے ہیں بلکہ اپنے مریدوں کو بھی گمراہ کرتے ہیں۔

متقدمین مشائخ عظام اس امر کا خاص خیال رکھتے تھے، کہ وہ معاشرہ میں حسنِ اخلاق کا مظاہرہ کریں تاکہ لوگ ان کی تقلید کریں۔ اسلامی تہذیب و تمدن کو فروغ دینے کے لیے وہ ضروری سمجھتے تھے کہ ہر خاص و عام کو سلام کرنے میں خود پہل کریں، غصہ آنے پر وہ صبر کرتے اورسنت نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی اتباع کرتے تھے، بدعات اور منکرات سے دور رہتے تھے۔ مسلمانوں کو نیکی کی تلقین کرتے، ان کو برائی سے بچاتے اور خود بھی برے کاموں سے اجتناب کرتے تھے۔ وہ ضروری سمجھتے تھے کہ عامتہ المسلمین کی قومی اور ملی مصلحتوں کی پاسداری کریں کیوں کہ علماء اور مشائخ ہی عام مسلمانوں اور مریدوں کے پیشوا ہوتے ہیں، اگر ایک عالم اور شیخ اپنے علم سے خود فائدہ نہ اٹھائے، تو دوسرے لوگ اس سے کیونکر فائدہ اٹھا سکتے ہیں، اس لیے کہا گیا ہے کہ عالم اور شیخ کی گمراہی کا جرم زیادہ سنگین ہوتا ہے، کیوں کہ اس کے ذریعے برائیوں کے پھیلنے کا زیادہ امکان ہوتا ہے، عوام ان کی معصیت کی وجہ سے جری ہو کر زیادہ جرات کے ساتھ گناہوں کے مرتکب ہوتے ہیں۔ آج کے دور کے بعض جدید پیروں میں ایک بُری عادت کھلے عام تمباکو نوشی اور سگریٹ پینے کی ہے۔ جو ایک عمل قبیح ہے، ان کے دیکھا دیکھی مُرید بھی ایسا ہی کرنے لگ جاتے ہیں اور ان حرکتوں کو معیوب نہیں سمجھتے۔ اکثر ان پڑھ پیروں میں بٹیر بازی، کتوں اور مرغوں کا لڑانا، فلم بینی اور ہر وقت ٹی وی کے سامنے بیٹھ کر ڈرامے دیکھنے کی لت عام ہے۔ اسی طرح بعض جاہل پیر مُجرے کراتے اور حجروں میں ہیجڑوں کو نچاتے ہیں۔ بعض اپنی مریدنیوں سے پاؤں دبواتے ہیں۔ مریدوں سے اپنے سامنے سجدہ تعظیمی کراتے ہیں۔ اور جاہل مریدوں کی ان مشرکانہ حرکات پر خوش ہوتے ہیں۔ بعض ان پڑھ اور جاہل پیر گنڈے، جن اور آسیب اتارنے اور ٹونہ ٹوٹکہ کا مکروہ دھندا کرتے ہیں۔ عوام الناس اور خاص کر مستورات کو بیوقوف بناتے ہیں اور معاوضہ میں بڑی بڑی رقمیں ہتھیا لیتے ہیں۔ کالا جادو اور سفلی علوم کے نام سے دھوکہ دیتے ہیں۔ ان کی وجہ سے لاکھوں لوگ ذہنی امراض کا شکار ہو گئے ہیں اور ہزاروں اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ ان جعلی نام نہاد جھوٹے بہروپیے پیروں کو نہ دین سے غرض ہوتی ہے اور نہ قرآن و سنت اور شریعت سے کوئی تعلق۔ پیسہ کمانے کے لیے ہر مکروہ کام کرنے کے لیے وہ ہمہ وقت تیار ہوتے ہیں۔ حکومت وقت کے فرائض میں داخل ہے کہ وہ ان جیسے بہروپیوں کو بے نقاب کر کے ان کے خلاف قانونی کارروائی کریں۔ شریعت کے لحاظ سے اس قسم کی حرکات حرام اور گناہ کبیرہ کے ذیل میں آتی ہیں۔ جن سے یہ لغزشیں سرزد ہوئی ہیں ان کو فوراً اللہ کریم کی بارگاہ میں توبہ اور طلب مغفرت کرنی چاہیے اور آئندہ ایسے گناہوں اور جرائم سے باز آنا چاہیے۔ راہ طریقت پر صحیح معنوں میں چلنے کا ارادہ رکھنے والوں کو جاہل پیروں سے دور رہنا چاہیے۔ ان کی سب سے بڑی نشانی یہ ہوتی ہے کہ وہ شریعت پر عمل نہیں کرتے۔ اکثر جاہل پیر داڑھی منڈاتے یا ترشواتے ہیں۔ اور اس کے لیے عجیب طرح کی تاویلات پیش کرتے ہیں۔ مشائخ اور علماء حق کے لیے ان امور میں بہت زیادہ احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے۔ نیک، صالح اور متقی مشائخ کلام پاک کی تلاوت پابندی سے کرتے ہیں۔ اور دل کو بیدار رکھ کر اللہ تعالیٰ کے ذکر میں مشغول رہتے ہیں۔ وہ قرآن حکیم کے معانی، مطالب، اس کے اوامر و نواہی اور اس میں کئے گئے وعدوں اور وعید پر مسلسل غور وفکر کرتے رہتے ہیں۔ اور اکثر خوف خدا کی وجہ سے گریہ و زاری میں مصروف رہتے ہیں۔

اخلاق حسنہ سلوک و تصوف کا لباس اور شیخ کامل کی پہچان کا سب سے بڑا ذریعہ ہوتے ہیں۔ لہذا با عمل، متشرع اور متقی مشائخ سمجھتے ہیں کہ مرشِد، پیر اور مربی کو محاسنِ اخلاق کے زیور سے آراستہ ہونا چاہیے، ان کی زندگی سراپا پاکبازی اور قناعت میں بسر ہو، وہ خیرات اور صدقات سے راہ سلوک کے منازل طے کریں۔ لوگوں کو کھانا کھلائیں، ان سے کشادہ پیشانی سے پیش آئیں، غصہ کو پی جا نا عمل حسنہ ہے، دوسروں کی مصیبتوں میں ہمدردی کرنا اور ان کی مشکلات کا دور کرنا ہی حقیقی سلوک اور تصوف ہے؛ حقیقی شیوخ طریقت اپنے اثر و اقتدار کو لوگوں کو فائدہ پہنچانے اور ان کی جائز سفارشیں کرنے میں صرف کرتے ہیں۔ فقیروں اور مسکینوں کے ساتھ لطف اور نرمی سے پیش آتے ہیں۔ پڑوسیوں اور رشتہ داروں سے محبت اور صلہ رحمی کا سلوک کرتے ہیں جو بہت افضل عبادت ہے۔ شاگردوں اور مریدوں سے نرمی کا سلوک کرتے اور ان کی دستگیری کرتے ہیں۔ وہ جب کسی مُرید کو دیکھتے ہیں کہ نماز کا پابند نہیں، طہارت کا لحاظ نہیں کرتا یا دوسرے شرعی واجبات کو اعلانیہ ترک کرتا ہے، تو اسے تلطف اور نرمی سے سمجھاتے ہیں، جیسے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے اس اعرابی کوکہ جس نے مسجد میں پیشاب کر دیا تھا، نرمی سے سمجھایا، اور پانی ڈال کر مسجد کو اپنے مبارک ہاتھوں سے صاف کیا تھا۔ بزرگ مشائخ و اولیاء اپنے آپ میں توبہ، استغفار، اخلاص و یقین، صبر و تقوٰی، قناعت و رضا، زہد، توکل، طہارت باطن، حسن ظن، درگزر، حسن خلق، احسان، شکر، نعمت، مخلوق پر شفقت، شرم و حیاء اور محبت الہی جیسے جامع خصائل پیدا کرنے کے لیے مجاہدہ اور سخت ریاضت کرتے تھے اور اپنے مریدوں اور شاگردوں کو بھی ان مجاہدات اور عمل تدریب سے گزارتے تھے۔ یہ سب اعمال صالح فقط حضرت رسول مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی پیروی و اتباع ہی سے حاصل ہو سکتے ہیں،

’’قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِيْ يُحْبِبْکُمُ اللّٰهُ وَ يَغْفِرْلَکُمْ ذُنُوْبَکُم ْ

(آل عمران: 31)

 (اے محبوب مکرم! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  فرما دیجیے۔ اگر تم اللہ کی محبت رکھتے ہو۔ تو میری پیروی کرو ( اپنی تمام کیفیات اور حالات میں میری اتباع کرو، میرے اخلاق حسنہ اپناؤ، تو) اللہ تم کو محبوب رکھے گا۔ ( اللہ تم سے محبت کرے گا) اور (اس محبت کا نتیجہ یہ ہو گا کہ) اللہ تمہارے گناہ بخش دے گا۔)

مشائخ عظام اور معلّمینِ سلوک و تصّوف اس بات کا خصوصی اہتمام کرتے اور اس امر کو ضروری سمجھتے تھے کہ ان کوہر قسم کے بُرے اخلاق سے اپنا دامن پاک اور صاف رکھنا چاہیے، خصوصاً بغض، حسد، کینہ، تکبر، بخل نفس، خود پسندی، فخر، غیبت، چغل خوری، جھوٹ، بہتان، حرص، نمود و نمائش، فحاشی یا بیہودہ مذاق اور دنیا طلبی ایسی برے عادات ہیں، جن سے مشائخ کی قدر و منزلت متاثر ہوتی ہے۔ لہذا ان کو ان رذائل سے بلند اور بالاتر رہنا چاہیے۔ شومئی قسمت سے موجودہ دور کے بہت سارے مُرید ساختہ نقلی شیوخ ان عیبوں خصوصاً حسد، تکبر، ریاکاری اور دوسرے لوگوں کو حقیر و کمتر جاننے کی بیماری میں مبتلا نظر آتے ہیں۔ حقیقت میں وہ ایک شدید نفسیاتی بیماری ’’خبط العظمت‘‘ یا’’پیرانوی عتاہٹ‘‘ acute paranoid disorder)) کا شکار ہوتے ہیں۔ یہ بیماری عام طور پر مریض اور معالج دونوں کی سمجھ میں مشکل سے آتی ہے۔ شیطان کے بہکاوے میں آ کر بڑے نامور افراد بھی غرور اور تکبر کی وجہ سے اس موذی مرض کا شکار ہو جاتے ہیں اوراپنی سطحی حرکات اورمتکبرانہ گفتگو کی وجہ سے اپنے مقام سے گر جاتے ہیں۔

قدما ء مشائخ، اساتذہ اور علماء اپنا فرض سمجھتے تھے کہ وہ علم کی عزت کریں اور اپنے کسی طرز عمل سے کوئی موقع ایسا نہ آنے دیں، کہ علم کا احترام مجروح ہو، حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ اکثر اپنے شاگردوں سے فرمایا کرتے تھے: ’’اپنے عماموں کی عظمت کرو، اور اپنی آستینوں کو وسیع کرو‘‘ امام زبیری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ’’علم کی یہ بھی کسر شان ہے کہ اس کو طالب علم کے گھر پہنچایا جائے۔ چاہے وہ دنیاوی وجاہت اور مرتبے میں جس قدر بھی بلند مرتبہ رکھتا ہو‘‘ کاروباری پیر اور درباری علماء اکثر اس مرض کا زیادہ شکار ہوتے ہیں۔ صاحب ثروت لوگوں کے گھر جانا ان کا معمول ہوتا ہے۔ مشائخ فرماتے تھے کہ کسی دینی مصلحت کے پیش نظر یا دعوت دین کی خاطر اگر مشائخ عظام اور علمائے کرام کو کسی صاحب ثروت، متمول یا مقتدر افراد کے گھر جانا پڑ جائے، تو وہ جائز ہے۔ لیکن احتیاط شرط ہے۔ حضرت سفیان بن عینیہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ : ’’مجھے قرآن کا فہم عطا کیا گیا تھا، لیکن جب میں نے ابو جعفر (المنصور) سے اشرفیوں کی تھیلی قبول کی، تو وہ فہم مجھ سے چھین لیا گیا، اور میں اس کوتاہی پر ہمیشہ ہمیشہ اللہ سے عفو و مغفرت کا طلبگار رہا‘‘۔

ایک حدیث شریف کے مطابق مشائخ عظام، معلّمین اور علمائے حق کو اُن جگہوں اور مقامات پر جانے سے پرہیز لازم ہے کہ جہاں لوگوں کی بدگمانی کا اندیشہ ہو۔ انہیں تہمت کے مشتبہ مواقع سے بھی بچنے کی ضرورت ہے، اگرچہ فی نفسہ وہ فواحش و منہیات سے دور ہوں اوران کو کوئی ایسا کام نہیں کرنا چاہیے، جو اخلاق کے بلند اصولوں کے منافی ہو یا جو کام اصل میں برے نہ بھی ہوں، مگر عوام ظاہر میں انہیں برا سمجھتے ہوں، ان سے بھی دامن بچانا چاہیے ورنہ لوگوں کو ان کے خلاف اپنے دلوں میں بد گمانی پیدا کرنے کا موقع ملے گا اور وہ لوگوں کی نظروں سے گر جائیں گے۔ کسی امر مجبوری یا شدید ضرورت کے وقت بفرض محال اگر ایسے مواقع پر جانے کی ضرورت پڑ جائے تو کچھ لوگوں کو اس سے مطلع کرنا چاہیے، تا کہ وہ لوگ اصل حقیقت سے پہلے سے آگاہ رہیں اور بد گمانی پیدا ہونے کی نوبت نہ آئے۔ حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  ہے

’’ عَنْ أَ بیِ مُحَمَّدِِ الْحَسَن ِبْن عَلِیّ بْنِِ أَبِيْ طَالِبٍ رَضَیِ اللهُ عنهما قَالَ: حَفِظْتُ مِنْ رَسُوْلِ الله دَعْ مَا يُرِيْبُکَ اِلَی مَالَا يُرِيْبُکَ، فَاِنَّ الصِّدْقَ طَمَانِيْنَةٌ، وَالْکَذِبَ رِيْبَةٌ

(رَوَاهُ التِّرمَذیّ فیِ السنن، کتاب : صفة القيامة والرقائق والورع)

’’حضرت ابو محمد حسن بن علی بن ابی طالب رضی اللہ عنھم بیان کرتے ہیں: مجھے حضور نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے ارشاد فرمایا جو مجھے آج بھی یاد ہے۔ ’’ شک و شبہ والی چیز کو چھوڑ کر شک سے پاک چیز کو اختیار کرو، بیشک سچ سکون ہے اور جھوٹ شک و شبہ ہے‘‘

اولیائے سلف کے فرمودات کے مطابق مشائخ اور علماء حضرات کے لیے لازم ہے کہ وہ ہر وقت دینی اشغال میں مصروف رہیں۔ ان کی عبادات، پڑھنے پڑھانے، غور وفکر کرنے، تصنیف اور تالیف کے معمولات کے جو اوقات ہوں، انہیں پابندی سے قائم رکھیں، ان کے سلسلے کو نہ توڑیں۔ انہیں اپنا یہ وقت سب سے زیادہ عزیز رکھنا چاہیے، مختلف غیر علمی مشاغل، غیر ضروری کھانے پینے، کھلانے پلانے، ملنے ملانے، مال و دولت کمانے، راحت و آرام اور خانگی امور میں بھی کم سے کم وقت صرف کریں۔ حقیقت یہ ہے کہ علم کا مرتبہ پیغمبروں کی جانشینی کے درجے تک پہنچاتا ہے، بلند مراتب، تکلیفیں اور مشقتیں اٹھائے بغیر حاصل نہیں ہو سکتے، صحیح مسلم میں روایت ہے۔ کہ’’جسم کی آسائش کے ساتھ علم کو تابع نہیں بنایا جا سکتا۔ ‘‘ ایک دوسری روایت میں ہے۔ ’’جنت تکلیفوں اور مصیبتوں سے حاصل ہوتی ہے۔‘‘علمائے تصوف کو مطالعہ کا سلسلہ ہمیشہ جاری رکھنا چاہیے، حضرت سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، ’’ عالم اسی وقت تک عالم رہ سکتا ہے، جب تک وہ طالب علم ہے، جب وہ پڑھنا چھوڑ دے اور سمجھے کہ وہ علم حاصل کرنے سے بے نیاز ہو گیا اور جو کچھ اس نے حاصل کر لیا وہ اس کے لیے کافی ہے، تو ایسا سمجھنے والا سب سے بڑا جاہل ہے۔‘‘

آن کس کہ نداند ونداند کہ نداند
در جہل مرکّب ابدالدَّ ہر بماند

(جو شخص کہ نہیں جانتا اور نہیں سمجھتا ہے کہ وہ نہیں جانتا ہے۔ وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے سخت نا سمجھی اور جہالت میں مبتلا رہے گا)

مشائخ کے لیے یہ قطعاً بے جا اور معیوب نہیں ہے کہ وہ اپنے شاگردوں اور مریدوں سے کھل کر ان کے سوالات پر مکالمہ کریں۔ اسی سے علم کو فروغ ملتا ہے اور چھوٹوں کے حقیقی خیالات اور اُن کے ذہن میں جنم لینے والے شکوک و شبہات یا منفی رجحانات کا پتہ چلتا ہے جس کا بروقت علاج ایک اچھا مرشد اور معلّم ہی کر سکتا ہے۔ اسی طرح اگر کسی شیخ طریقت اور معلم سلوک کو اپنے شاگردوں کے خیالات سے اچھی باتیں اخذ کرنے کا موقع ملے۔ اور وہ اپنے مرتبہ پر تحفظات کا خیال کئے بغیر ان کو اخذ کر لے تو علم کی توقیر سے اس کے روحانی درجات میں اضافہ ہوتا ہے اور اس حسن عمل سے وہ غرور اور تکبر نفس سے بچتا ہے۔ علم کی تحصیل خواہ کسی صورت اور شکل میں کسی سے بھی ہو معیوب نہیں ہے۔ حدیث پاک کے مطابق حکمت مومن کی کھوئی ہوئی میراث ہے، اسے جہاں پائے اٹھالے‘‘۔ ایک دوسری روایت میں ہے، حکمت کا کلمہ جہاں ملے، حاصل کرو، خواہ وہ مشرکوں کے ہاتھوں سے ہو۔

حضرت ابو بکر عبداللہ بن زبیر حمیدی ( متوفی219 ھ) جو حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے شاگرد تھے، فرماتے ہیں کہ : ’’میں حضرت شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی معیت میں مکہ سے مصر تک گیا، راستہ بھر ہم دونوں ایک دوسرے سے فائدہ اٹھاتے رہے ہیں۔ میں ان سے فقہ کے مسئلے پوچھتا اور وہ مجھ سے حدیثیں سنتے تھے۔ ‘‘

امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ اپنے شاگردوں سے فرماتے تھے۔ ’’ تم لوگ مجھ سے حدیث زیادہ جانتے ہو، اگر تمہارے پاس کوئی صحیح حدیث نکلے، تو مجھے بتا دیا کرو، میں تم سے لے لوں گا‘‘۔

حضرت اشب بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:’’میں نے حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کوحضرت امام مالک رضی اللہ عنہ کے سامنے ایسا دیکھا جیسے کوئی بچہ اپنے باپ کے سامنے ہو۔‘‘ اس پر امام ذہبی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ’’ یہ امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ کے حسن ادب اور تواضع کی سب سے بڑی دلیل ہے، حالانکہ وہ امام مالک رضی اللہ عنہ سے تیرہ سال بڑے تھے‘‘۔ علم میں حضرت امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ کا مرتبہ سب ائمہ سے بہت بلند ہے۔ مشائخ کبار، معلّمین سلوک و تصوف کا تصنیف اور تالیف میں مشغول رہنا پسند فرمایا کرتے تھے لیکن ان کا حکم تھا کہ معلمین سلوک یہ دشوار گزار راستہ اسی وقت اختیار کریں جب اس پر چلنے کی پوری استعداد ان میں آ گئی ہو اور وہ راہ سلوک کی منازل کی دشواریوں اور پیچیدگیوں سے پورے آگاہ ہوں، تصوف کے علوم و فنون کے حقائق بیان کرنے کے لیے تحقیق و مطالعہ، غور و فکر، تدبّر اور امہات کتب کا بار بار مطالعہ اور اُن کو پوری طرح سمجھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اہل تصنیف و تالیف اپنے لیے ایسے موضوعات منتخب کریں، جس کی لوگوں کو ضرورت ہو اور جس سے علوم نافع کی اشاعت اور ترویج ہو۔ زبان سادہ اور عبارت معتدل ہو۔ تاکہ وُہ لوگوں کی سمجھ میں آسانی سے آ سکے، مضمون نہ زیادہ طویل ہو اور نہ زیادہ مختصر کہ مفہوم واضح نہ ہو سکے۔ اپنی تصنیف اور تالیف اس وقت تک شائع نہیں کرنی چاہیے، جب تک اس کو مختلف زاویوں سے بار بار پرکھا نہ جائے اور اس پر غور نہ کیا جائے۔ مضمون میں درج مسائل و مباحث اور سیاق و سباق پر نظر ثانی ضرور کرنی چاہیے۔ اگر تصنیفی استعداد موجود نہ ہو تو کتابیں لکھنے کے لئے ہرگز قلم نہ اٹھایا جائے کیوں کہ ہر مرشدِ و معلّم کے لیے مصنف ہونا ضروری نہیں ہوتا ہے۔

ہم مشائخ کبار کے ان اقوال اور ملفوظات پر گفتگو کر چکے ہیں کہ دور قدیم کے خانقاہی نظام میں شیوخ اور اُن کے شاگردوں اور مریدوں کے درمیان تعلقات خالص روحانی بنیادوں پر ہوتے تھے۔ شیخ روحانی باپ اور مرید ان کے روحانی بیٹے تھے، چنانچہ ان دونوں کے باہمی تعلقات اور مراسم میں سب سے زیادہ یہی رشتہ نمایاں ہوتا تھا۔ وہ ان کے اخلاق اور سیرت کے کامل نگہبان تھے، جس موقع پر شفقت و محبت کی ضرورت ہوتی، شفقت سے پیش آتے، جہاں تنبیہ و تادیب کا موقع ہوتا، تنبیہ کرتے تھے، اکثر شیوخ اشاروں و کنایوں میں نصیحت فرماتے تھے جب مرید کو کسی زیادہ غلط کام سے روکنے کی ضرورت ہوتی، توصاف گوئی سے کام لے کر بلا جھجک روک دیتے، شیوخ کے سامنے مریدوں کی آئندہ زندگی کا سوال مستقل طور پر رہتا اور اسی کے مطابق وہ ان کی تعلیم و تربیت کرتے تھے۔ اکثر شیوخ کا وطیرہ ہوتا تھا کہ مریدوں کے لیے چند وصیتیں اس کے حسب حال لکھ کر ان کے سپرد کرتے تھے جنہیں مرید اپنی آئندہ زندگی میں مشعل راہ بناتے تھے، چنانچہ مختلف مشائخ کی وصیتیں تصوف کی کتابوں میں محفوظ ہیں جو ہر دور کے اہل سلوک و طریقت کے لیے قابل تقلید ہیں۔ شیخ مریدوں کے ساتھ شفقت، لطف و التفات اور محبت سے پیش آتے تھے۔ وُہ مریدوں کی اصلاح کو اپنے لیے وسیلہ نجات سمجھتے تھے۔ ان کے اخلا ق و عادات کی نگرانی اور ان میں اسلامی پاکبازی اور پرہیز گاری پیدا کرنے کے علاوہ ان کی ہر قسم کی ضرورتوں پر نگاہ رکھتے تھے۔ جب کبھی کوئی مرید درس کے حلقے سے زیادہ غیر حاضر ہو جاتا تو شیخ اس کے متعلق دریافت کرتے اور معقول عذر کی صورت میں اسے درپیش مشکلات کو دور کرنے کی کوشش کرتے تھے، اسی طرح مشائخ عظام نادار مریدوں کی پوشیدہ مالی مدد کرتے تھے، وہ بیمار پڑتے تو ان کی عیادت کو جاتے، ان کے گھر میں کوئی سانحہ پیش آتا تو تعزیت کرتے، غرض یہ کہ معاشرتی زندگی میں جس نوعیت کے باہمی مخلصانہ تعلقات کی ضرورت ہوتی ہے وہ شیخ اور مرید کے درمیان موجود تھے۔ حضرت امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ معلم کا حق والدین کے حق سے زیادہ ہے اور جس طرح والدین اپنے بچوں پر شفقت اور مہربانی کرتے ہیں اسی طرح ان کا بھی فرض ہے کہ وہ متعلمین سے شفقت اور مہربانی سے پیش آئیں۔

شیوخِ طریقت اپنے اوپر لازم رکھتے تھے کہ وہ اپنے مریدوں اور شاگردوں کی مصلحتوں اور ضرورتوں کا لحاظ کریں اور ان کے قلب وذہن میں یکسوئی پیدا کرنے کے لیے ا پنی استطاعت کے مطابق ان کا معاشی تعطل دور کرتے اور ضرورت کے وقت ان کی مالی مدد کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ وہ مریدوں اور شاگردوں کو دینی بھائی سمجھتے تھے۔ وُہ جانتے تھے کہ جب کوئی بندہ اپنے مسلمان بھائی کی اعانت کرتا ہے، اللہ اس کی اعانت کرتاہے اور جو اپنے بھائی کی ضرورت پوری کرتا ہے، اللہ اس کی حاجت روائی فرماتا ہے، اور جو کسی مسلمان کی مشکل میں آسانی پیدا کرتا ہے، اللہ قیامت کے دن کا حساب اس پر آسان کرے گا، پورے اخلاص اور صدق دِل سے طالبان معرفت کی اعانت کرنا افضل ترین ثواب کا کام ہے۔ شیوخ کا ایک عام طریقہ تھا کہ اگر کوئی مرید خلاف معمول حلقہ سے زیادہ غیر حاضر ہو جاتا۔ تو وہ اس کا سبب دریافت کرتے تھے اور دیگر مریدوں میں سے جو اس کے واقف ہوتے تھے۔ ان سے اس کے حالات پوچھتے تھے اور اگر کسی سے اس کا حال معلوم نہ ہو پاتا تو کسی مرید کو پرسان حال کے لیے اس کے پاس بھیجتے تھے بلکہ اکثر خود اس کے گھر جا کر اس کے حالات پوچھتے تھے۔ کوئی مرید بیمار پڑتا یا کسی غم میں مبتلا ہوتا تھا تو اکثر شیوخ اس کے گھر پر جا کر اس کی عیادت کرتے تھے اور اس کی صحت یابی کے لیے دُعا کرتے تھے۔

اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے حکم ’’وَابْتَغُوْا اِلَيْهِ الْوَسِيْلَةَ‘‘ کے مطابق ہم نے بزرگانِ تصوف کے فرمودات کی روشنی میں راہ طریقت پر چلنے کا ارادہ کرنے والوں کے لیے اللہ کی بارگاہ میں پہنچنے کے لیے ’’وسیلہ‘ ‘کی صحیح پہچان کے لیے شیخ کامل کے چند اوصاف و خصائل بمصداق’’ مشتے نمونہ از خروارے‘‘ بیان کئے چونکہ مرید کے لیے بیعت شیخ عمر بھر کا سودا ہوتا ہے، لہذا وسیلہ یا شیخ کامل کی پہچان کے لیے پوری محنت اور مشقت سے جستجو کرنا بھی ایک اہم عبادت ہے۔ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ’’ کسی کا ظاہری اسلام تم کو مسرور نہ بنائے، جب تک اُس کی قلبی حالت اور عقیدہ سے پوری واقفیت حاصل نہ کر لو‘‘ ایک حدیث قدسی میں سرکارِ ہر دوسرا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرماتا ہے۔ ’’مَنْ طَلَبَنِيْ فَقَدْ وَ جَدَنِيْ وَ مَنْ طَلَبَ غَيْرِيْ فَلَمْ يَجِدُنِيْ‘‘ (جس نے مجھ کو طلب کیا تو پا لیا اور جس نے میرے سوا غیر کو طلب کیا، وُہ مجھے نہیں پاتا) متلاشیانِ حق کے لیے یہ حدیثِ اُمید ہے کیونکہ اس میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے طلب کو اپنی ذات پاک کی طرف منسوب فرمایا ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ وصول ذات متوقع ہے۔

کامل شیخ طریقت کی سب سے معتبر پہچان یہ ہے کہ وُہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی طلب اور اُس کی رضا کی جستجو کو ہر وقت مریدوں کے قلوب میں راسخ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ وُہ مرید کے دِل میں اپنا ڈر اور خوف گھسنے نہیں دیتا، بلکہ اُس کو اللہ کی رضا اور ناراضی کے خوف کا محل بناتا ہے۔ ضروری ہے کہ شیخ کا اپنا عمل بھی ہر وقت وصول الی اللہ میں مصروف ہونے کی خبر دے۔ یہ بھی ضروری ہے کہ شیخ خود بھی کسی واصل بالحق کا شاگرد اور زیرِ تربیت رہ چکا ہو اور اس راہ کے بُرے بھلے کو دیکھ چکا ہو۔ وہ حلال و حرام میں تمیز، اور شُبہات اور مکروہات سے پرہیز کرنے والا ہو۔ وُہ مُرید کو نافع اور مُضر امور کے سمجھانے پر قادر ہو۔ آج کل ایک رواج سا ہو گیا ہے کہ پیر یا معلِّم کی وفات پر اُس کے بیٹے کے سر پر خانقاہ یا مدرسہ کی سربراہی کی دستارِ خلافت سجا دی جاتی ہے اور وہ نیا پیر یا نیا صدر مدرِّس بن جاتا ہے۔ جب کہ وُہ متوفی پیر یا کسی دوسرے مُرشِد سے تربیت یافتہ نہیں ہوتا ہے اور سلوک و تصوف کی تعلیم و تربیت سے پوری طرح بہرہ وَر نہیں ہوتا۔ اسی طرح متوفی مدرِّس اعلیٰ کا صاحبزادہ ابھی تعلیم سے فارغ التحصیل نہیں ہوتا کہ وہ مدرس اعلیٰ بن جاتا ہے۔ جبکہ خانقاہ یا مدرسہ میں اس منصب کے لیے دیگر اہل صحاب موجود ہوتے ہیں۔ خلافت کا یہ طریقہ قرآن اور سنت کے احکام کے خلاف ہے کیونکہ خلافت کا حق صرف اہل اور مستحق افراد کا ہوتا ہے۔ کوئی مجذوب اگرچہ مطلوب تک پہنچاوا بھی ہو، لیکن راہ کی مصیبتوں اور خطرات سے بے خبر اور انجان ہونے اور مُرید کو راہ طریقت میں در پیش مصائب و مشکلات کی خبر دینے سے معذور ہو تو اس بناء پر وہ شیخ اور رہبر طریقت بنانے کے قابل نہیں ہوتا۔ شیخ کامل کا وجود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے نور کے انعکاس اور انعطاف سے مستنیر ہوتا ہے لہذا نبوی تجلّیات سے اس کا چہرہ روشن اور قلب منّور ہو تا ہے۔ اُس کے چہرے پر مشاہدہ اور کمالات کے انوار دمک رہے ہوتے ہیں۔ اور نور قلب کی وجہ سے اُس کا شرح صدر ہو چکا ہوتا ہے۔ شیخ کامل ترکِ صحبۃ العوام کی تمرین سے دریائے جلال و جمال سے سیراب ہونے کے بعد مقام احسان میں جلوہ خداوندی سے ہمکنار ہوتا ہے۔ چنانچہ حضرت دعیل یمانی نے جب حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم سے پوچھا کہ اے علی! کیا تم اپنے ربّ جل شانہ‘ کو دیکھتے ہو؟ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ربِّ جلَّ جلالہ‘ کو دیکھوں نہیں تو اس کی عبادت بھی نہ کروں، حضرت دعیل نے عرض کیا کہ کس طرح دیکھتے ہو؟ فرمایا کہ اے دعیل اس کو ظاہری آنکھیں نہیں دیکھ سکتیں البتہ دِل بینا صدق و ایمان کے ساتھ اس کو دیکھتا ہے۔ شیخ کامل مجاہدہ و ریاضت سے راحت وصال تک پہنچتا ہے۔ جس کی پہچان یہ ہوتی ہے کہ کثرت عبادت کی مشقت میں اُس کو راحت ملتی ہے۔ مشقت کی تلخی اُس کے لیے حلاوت و شیرینی بن جاتی ہے۔ مشاہدات کا دروازہ اُس پر کھل جاتا ہے اور وہ راز کا امین بن جاتا ہے۔ اس کی زبان انکشافِ راز پر بند لیکن اُس کی آنکھوں کی مخصوص چمک حقیقت کو دیکھنے کی غمازی کرتی ہے۔ اُس کی زبان میں ایک عجب طرز کی شیرینی اور گفتگو میں ملائمت اور شائستگی آ جاتی ہے۔ حکمت اور دانشمندی کا کلام اس کی زبان پر آ جاتا ہے۔ وُہ حال کی کیفیات و واردات سے مغلوب نہیں ہوتا، اور نہ شطحیات بیان کرتا ہے۔ اپنی عقل و فراست کی قوت سے وہ دوسروں کی استعداد اور قابلیتوں کو جان سکتا ہے لیکن اس کے مقام و مرتبہ کو کوئی پہچان نہیں سکتا۔ وہ بندگی کی انتہاء کی طرف گامزن ہوتا ہے اور جیسے جیسے اللہ کی قدرتوں کی بلندیوں کا مشاہدہ کرتا ہے اُسی قدر اللہ کی بندگی میں اپنی پستی اور تذلّل کی انتہاء کے نزدیک ہو جاتا ہے۔ وہ ماورائے خلق کی کیفیات سے نکل کر حقیقت مخلوقیت کی جانب بڑھتا ہے اور ایسا انسان ہو جاتا ہے جو دوسرے انسانوں کی طرح نظر آتا ہے۔ وُہ خود کو دوسرے انسانوں سے بر تر نہیں سمجھتا، لیکن اللہ سبحانہ و تعالیٰ اُس کو مخلوق سے بے نیاز کر دیتا ہے۔ اُس کے شاگردوں اور مریدوں میں سے بعض اہلیت کی بنا پر اس کے خلیفہ بن جاتے ہیں۔ شیخ کے روحانی علم اور جسمانی تقویٰ کے آثار خلفاء حقیقی میں نظر آتے ہیں۔ وہ بھی خلق خدا کی خدمت میں فخر اور عظمت محسوس کرتے ہیں۔ زبان اور قلب کی نرمی شیخ کامل کے بدن کی جِلد میں بھی نمودار ہو جاتی ہے۔ یعنی اس کا بدن اس کے اعمال کی تاثیر کو قبول کر لیتا ہے۔ اکثر اس کے بدن کی جلد اور بال ملائم ہو جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ بہت شفقت سے اس کا ذکر سورہ الزمر کی تیئسویں(23) آیہ کریمہ میں یوں فرماتا ہے’’ اللہ نے (تو) بہت اچھا کلام نازل فرمایا کتاب (یعنی قران حکیم) جس کی آیتیں ایک دوسری سے ملتی جلتی ہیں۔ (اور) دہرائی جاتی ہیں۔ (گو اس میں مضامین طرح طرح سے بیان ہُوئے ہیں۔ تاکہ لوگوں کے دِل نشین ہو جائیں لیکن نہ آیات میں تعارض ہے اور نہ اختلاف، ان کو بار بار پڑھنے سے خوفِ خدا پیدا ہوتا ہے۔ پھر دِل کو تسکین اور روح کو حلاوت ملتی ہے۔ یہ وہ آیتیں ہیں) جن (کو پڑھنے) سے ان لوگوں کے بدن کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ جو اپنے رب سے ڈرتے ہیں۔ پھر ان کے چمڑے اور دل نرم (یعنی مطیع) ہو کر اللہ کی یاد میں محو ہو جاتے ہیں۔ یہی اللہ کی ہدایت ہے۔ اللہ جس کو نہ چاہتا ہو اُس کو کوئی ہدایت دینے والا نہیں‘‘۔

اللہ سبحانہ و تعالیٰ بطفیل ہادی اعظم، مرشِد اعظم اور معلّم اعظم جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  طالبان حق اور سالکانِ راہ طریقت کو شیخ کامل کی صحیح پہچان اور معرفت کی توفیق عطا فرمائے، تا کہ وُہ آسانی سے اپنی منزل مُراد کو پا سکیں۔ آمین بجاہ سید المرسلین و خاتم النبین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم 

٭٭٭٭٭