شیخ الاسلام کی معیت میں سفر حج، آخری قسط

نور احمد نور (درامن، ناروے)

اپنے رفقاءِ سفر کی چھوٹی چھوٹی خواہشات کو پورا کرنا، ان کے لئے دعائیں کرنا، پوری روئے زمین پر پھیلے تحریکی ساتھیوں کو یاد رکھنا، تحریکی کارکنوں کے والدین اور رشتہ داروں اور فوت شدگان تک کے لئے دعائیں کرنا۔ اس تحریک کے جانثاروں کی نسلوں کے لئے دعائیں کرنا، یہ سب باتیں ایک شفیق ماں کی طرح سب کارکنوں کو میسر ہیں۔

قارئین کے ذوق کے لئے میں اپنی ایک طویل نظم کے چند شعر پیش کر رہا ہوں جو میں نے موقع پا کر منیٰ کی ایک مجلس میں شیخ الاسلام مدظلہ کے سامنے پیش کئے تھے۔ یہ صرف میرے ہی جذبات نہیں ہر کارکن ایسے ہی یا اس سے بھی اچھا سوچتا ہے۔

ہر ایک شہر میں بستی میں جھانک کر دیکھا
بھرے جہان میں تجھ سا نہ راہبر دیکھا

تیرے جمال میں طاہر کمال کس کا ہے
وہ جان ہار گیا جس نے اک نظر دیکھا

جو تیرے سنگ رہا وہ قبول ہو ہی گیا
جو تیرے در سے پھرا اسکو دربدر دیکھا

اے میرے دور کے یوسف تیرے جلوؤں کی قسم
تیرے جمال میں ہم نے مہ و مہر دیکھا

تمہارے حسن کی مستی بھی کیسی مستی ہے
تھا جان جانے کا ڈر پھر بھی جان کر دیکھا

جو تجھ کو دیکھتے رہنے کی مشق کرنی تھی
تو ہم نے چاند کے چہرے کو رات بھر دیکھا

وہ جس کے دیکھنے سے جاں میں جان آتی ہے
عجب ہے جب کبھی دیکھا بچشم تر دیکھا

تمہارے در پہ پڑا نور اس طرح طاہر
تمہاری جھوک سے اٹھا نہ اُس کا سر دیکھا

الغرض یہ سفر محبت ایسا سفر تھا جس میں ہم نے گویا اکیس دن میں صدیوں کا سفر کر لیا اور سفر کا ہر لمحہ ایک انمٹ نقش چھوڑ گیا۔ بقول پروین شاکر

گئے برس کی عید کا دن کیا اچھا تھا
چاند کو دیکھ کے اس کا چہرہ دیکھا تھا

کینیڈا سے لے کر آسٹریلیا تک یورپ اور عرب ممالک سے پاکستان، انڈیا، بنگلہ دیش اور برما سے تشریف لانے والے ہر کارکن اور ہر چاہنے والے کو شرف ملاقات نصیب رہا۔ یقینا تحریکی دوستوں اور تحریکی بہنوں کے لئے زندگی کا یہ سفر یادگار ترین رہا ہو گا۔ جسے وہ ہمیشہ دلوں پر نقش پائیں گے۔

تمہیں خیال نہیں کس طرح بتائیں تمہیں
کہ سانس چلتی ہے لیکن اداس چلتی ہے

شیخ الاسلام مدظلہ کو خبر تھی کہ اگرچہ کئی تحریکی کارکنوں اور تنظیمی عہدیداروں نے پہلے بھی کئی حج کئے ہوئے ہیں لیکن اب یہ صرف میری سنگت میں حج کرنے آئے ہیں۔ لہذا آپ نے جہاں تک ممکن ہوا تمام لوگوں کو وقت دیا پہلے تو کوشش کی گئی کہ ہوٹل میں محافل کی جائیں اور سب ساتھیوں کو وقت دیا جائے لیکن ہوٹلوں میں اتنے بڑے ہال نہ تھے جہاں اتنا بڑا اجتماع کیا جا سکتا تو آپ نے مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں قیام کے دوران مختلف کمروں میں کارکنوں سے ملاقات کا اہتمام کیا۔ چنانچہ دنیا بھر سے آئے ہوئے ہر ملک کے کارکنوں کو الگ الگ ملاقات کا وقت دیا گیا۔ اس طرح کارکنوں کو تنہائی میں اپنے قائد سے ملنے، ان کی زیارت کرنے اور حالِ دل سنانے کا موقع مل گیا۔ اسی طرح خواتین کارکنوں کو الگ اور مردوں کو الگ وقت دیا گیا اور تمام کارکنوں کا یہ شوق بھی بتمام و کمال پورا کیا گیا کہ وہ اپنے قائد کے ساتھ گذرے یادگار لمحات کو کیمروں کی آنکھ میں محفوظ کر کے زندگی بھر کا فخریہ اثاثہ جمع کر لیں۔

مسجد نبوی اور حرم مکہ میں حاضری اور طواف کے شیڈول اور حرمین شریفین میں بیٹھنے کی جگہ کا اکثر کارکنوں کو علم ہوتا بلکہ اطلاع کی جاتی تاکہ قائد محترم کے ساتھ حاضری دے سکیں اس طرح طواف کرتے ہوئے چونکہ آپ ویل چیئر پہ ہوتے تو اسے چلانے کے لئے تمام لوگوں کو باری باری وقت دیا جاتا۔ یہ باتیں بظاہر چھوٹی ہو سکتی ہیں لیکن ایک کارکن کے لئے یہ بہت بڑی بات تھی کہ

مے کدہ تھا چاندنی تھی میں بھی تھا
اک مجسم بے خودی تھی میں بھی تھا

بذلہ سنجی اور حِس مزاح

دنیا بھر میں پھیلے تنظیمی عہدیداران سے جس قدر آشنائی، محبت، مزاج شناسی اور حوصلہ افزائی کا سلیقہ میرے قائد کے پاس ہے شاید ہی دور حاضر کسی اور قیادت کے پاس موجود ہو۔ بھری بزم میں تنظیمی عہدیداران کے خاص واقعات کو اتنے پیارے اور مزاحیہ انداز میں پیش کرتے کہ محفل کشتِ زعفران بن جاتی جن لوگوں سے قائد محترم کو بہت زیادہ پیار ہوتا ہے ان کی بہت سی باتیں آپ کے پاس محفوظ ہیں۔ بہت دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ بہت زیادہ پیار یا ادب کی وجہ سے کارکن سے بعض اوقات ایسے الفاظ یا حرکات صادر ہو جاتی ہیں جو بذات خود ایک لطیفہ بن جاتی ہیں آپ ان سب چیزوں کو محسوس کر رہے ہوتے ہیں اور اس سے لطف لے رہے ہوتے ہیں لیکن اس وقت نظر انداز کر دیتے ہیں اور پھر کسی اور وقت بیان کرتے ہیں جب وہ بندہ خود بھی اپنی حرکتوں یا الفاظ سے لطف لیتا ہے اور دوسرے لوگ بھی۔ میرے پیش نظر بہت سے واقعات ہیں لیکن اس وجہ سے نہیں لکھ رہا کہ کسی کی دل شکنی نہ ہو۔ بہر حال علم و معرفت اور دین کی بات ہو تو جس طرح میرے قائد زمانے میں جدا نظر آتے ہیں اسی طرح ان کی ہر ادا زمانے سے جدا نظر آتی ہے۔ جوں جوں بندہ ان کے قریب جاتا ہے طبیعت کا اجلا پن خلوص، محبت، خوش مزاجی بندے کو فوراً گرویدہ کر لیتی ہے۔ بقول غالب

دل سے تیری نگاہ جگر تک اتر گئی
دونوں کو اک ادا میں رضا مند کرگئی

صلح جوئی اور معاملہ فہمی

علم سے گہرہ شغف رکھے والی ہستیاں بعض اوقات علمی مشاغل میں اتنی منہمک ہوتی ہیں کہ انہیں دنیوی مصروفیات کی کمی کی وجہ سے بہت سے دنیوی معاملات میں وہ دسترس نہیں ہوتی جو انہیں اپنے فیلڈ میں ہوتی ہے لیکن شیخ الاسلام مدظلہ کو اللہ تعالیٰ نے سرکار دو عالم کے نعلین پاک کی وہ خیرات عطا فرمائی ہے کہ زندگی کا کوئی بھی پہلو ہو۔ کوئی بھی فیلڈ ہو، کوئی بھی معاملہ ہو آپ اس طرح راہنمائی کرتے ہیں کہ بندہ عش عشق کر اٹھتا ہے۔ حج کے دوران بھی بہت سے ایسے معاملات ہوئے جہاں بہت سے پیچیدہ مسائل کا آپ نے بہت مناسب اور خوبصورت حل پیش کیا۔ مدینہ طیبہ اور مکہ معظمہ میں منتظم ایرانی کمپنی سے حجاج کرام کا تنازع پیچیدگی اختیار کر گیا تو آپ نے پوری رات صرف کر کے جانبین کو مذاکرات اور گفت و شنید کے بعد ایک نہایت خوبصورت حل تک پہنچا دیا۔

اسی طرح میدان عرفات میں جہاں مختلف ممالک سے تشریف لانے والے حجاج کرام اور تحریکی ساتھی جمع تھے آپ نے تین نقاط پر خطبہ ارشاد فرمایا۔ نماز، ایک دوسرے کے عیب چھپانا اور ایک دوسرے کو معاف کرنا۔ ویسے بھی حج کے آخری ایام تھے لہذا اس پورے سفر کے دوران جن احباب کی آپس میں شکر رنجی ہوئی اس گفتگو کے بعد سب ایک دوسرے سے گلے ملے اور ہر بندہ دوسرے سے معافی مانگ رہا تھا یہ ایسا جذباتی اور خوبصورت منظر تھا کہ ہمیشہ یادوں کے گلشن میں مہکتا رہے گا آپ کی گفتگو اس قدر مدلل تھی اور زود اثر تھی کہ ایک دوسرے سے گلے ملتے ہوئے عجب روحانی کیف اور آنکھوں میں محبت و درگذر اور ندامت کے آنسو رواں تھے۔

درد میں لذت بہت اشکوں میں رعنائی بہت
اے غم ہستی تیری دنیا پسند آئی بہت

عجب ہوتی ہیں اہل دل کی باتیں

جب ایسی ہستیاں شمع محفل ہوتی ہیں تو قدم قدم پر عجیب عجیب واقعات رونما ہوتے ہیں۔ ناقابل یقین نظارے دیکھنے کو ملتے ہیں جو لوگ بائی ایئر سفر کرتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ سیکورٹی چیک ان سے 100 ملی لیٹر سے زائد لیکوئڈ چیز لے جانا ناممکن ہے۔ جدہ ایئر پورٹ سے چک ان کے لئے شیخ الاسلام مدظلہ کا قافلہ جب اندر جانے لگا تو ناروے کے ایک پرانے تحریکی ساتھی نے قائد محترم کی فیملی اور بچوں کے لئے بیس کے قریب جوس اور پیپسی کے پیک لے لئے جب ظفر اقبال سیال صاحب یہ شاپنگ بیگ لے کر پہنچے تو آدھی فیملی چیک ان ہوکر اندر جا چکی تھی۔ آپ نے اشارہ کیا کہ ان ڈرنکس کو اندر لے جائیں۔ وہ حیران تھے کہ یہاں سے سو ملی لیٹر لیکوئڈ اندر نہیں لے جا سکتے تو یہ 250 ملی لیٹر اور 500 ملی لیٹر کے 20 پیکٹ کیسے اندر جائیں گے لیکن چونکہ شیخ کا حکم تھا لہذا انہوں نے وہ شاپر اٹھا لیا۔ وہ حیران تھے کہ کسی نے ان سے اس کے بارے میں پوچھا تک نہیں جیسے یہ کسی کو نظر ہی نہ آ رہے ہوں۔ اندر جا کر آپ نے فرمایا کہ ہم کولڈ ڈرنک نہیں بلکہ کافی پئیں گے۔ ابھی ہم ادھر ادھر کافی شاپ کے بورڈ تلاش کرنے کی کوشش کر رہے تھے کہ ایئر پورٹ کے عملے میں سے ایک شخص نے پورے قافلے کے لئے کافی اور چائے کے ووچر قائد محترم کو پیش کر دیئے۔

واپسی پر استنبول ایئر پورٹ پر نہایت عجیب واقعہ پیش آیا کہ جہاز سے اتر کر جب پورا قافلہ لاؤنج میں آ گیا تو ٹرانزٹ کے لئے دوسرے فلور پر جانا ہوتا ہے جہاں جانے کے لئے تمام مسافروں کو اپنے پاسپورٹ دکھانے ہوتے ہیں چونکہ قائد محترم کی فیملی سب سے پہلے کاؤنٹر پر پہنچی اور سب فیملی کے پاسپورٹ قائد محترم کے پاس موجود ایک چھوٹے سے بیگ میں تھے جو بمشکل 6x8 انچ ہو گا۔ آپ نے جب سب پاسپورٹ نکال کر دیئے تو صاحبزادہ حسن محی الدین قادری کا پاسپورٹ ان میں نہیں تھا۔ آپ نے دوبارہ دیکھا تیسری مرتبہ دیکھا اور پھر سارے خاندان نے اپنے اپنے بیگ میں چیک کیا لیکن پاسپورٹ کہیں ہوتا تو ملتا پھر قائد محترم کا چھوٹا بیگ دوسرے ساتھیوں نے چیک کیا لیکن پاسپورٹ ندارد۔ دو احباب کو جہاز پر چیک کرنے کے لئے بھیجا حالانکہ لاؤنج سے جہاز پر واپس جانے کی اجازت نہیں ہوتی بہر حال خبر ملی کہ جہاز میں بھی پاسپورٹ نہیں ملا۔ اتنی مدت میں آپ کچھ پڑھتے رہے۔ آپ نے پرویز نثار صاحب MQI ناروے کے صدر سے پوچھا کہ حسن بھائی کے پاسپورٹ کی فوٹو کاپی مل سکتی ہے۔ انہوں نے عرض کیا کہ ای میل میں ہے وہاں سے مل سکتی ہے۔ آپ نے ایک دو منٹ سوچا اور وہی بیگ جس کو بیسیوں دفعہ چیک کیا تھا کھولا اور پاسپورٹ نکال کر پرویز صاحب کے ہاتھ میں تھما دیا اور فرمایا کہ یہ لیں پاسپورٹ سب لوگ دیکھ کر ششدر رہ گئے کہ پاسپورٹ کہاں سے آیا۔ آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ملکہ بلقیس کا تخت اتنی دور سے چشم زدن میں لا سکتا ہے تو اس کے لئے پاسپورٹ کا پہنچانا کیا مشکل ہے۔

پرویز نثار صاحب کہتے ہیں کہ ایک میری نہایت ضروری پرائیویٹ بات تھی جو میں نے سوچا کہ حج پر قائد محترم سے ضرور ڈسکس کروں گا۔ کہتے ہیں میں حیران رہ گیا جب پہلی فرصت میں شیخ الاسلام مدظلہ نے مجھے اسی چیز کے بارے میں پوچھ لیا۔ شیخ الاسلام مدظلہ جب سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی بارگاہ میں حاضری کے لئے جاتے تو ہم  بھی آپ کی معیت میں ہوتے۔ اکثر اوقات جب آپ تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی بارگاہ میں دست بستہ آنکھیں بند کئے کھڑے ہوتے ہم دیکھتے کہ ڈیوٹی پر موجود شرطے اور متولے لوگوں کو ہٹانے آتے اور آگے چلنے کا کہتے لیکن چلتے چلتے جب شیخ الاسلام مدظلہ پر ان کی نظر پڑتی تو ان کی زبان بھی یکدم بند ہو جاتی اور ہاتھ بھی رک جاتے اور دیکھنے والے کو محسوس ہوتا کہ جیسے کسی نے ان کا ہاتھ پکڑ کر چہرہ پھیر دیا ہو۔ ہم اکثر اس دلچسپی کے ساتھ دیکھ رہے ہوتے کہ دیکھیں جو اہلکار لوگوں کو دھکے دے رہے ہیں آقا کی بارگاہ میں قائد محترم کا ان کے ساتھ ری ایکشن کیا ہوتا ہے لیکن ہمیشہ ایسے ہوا کہ آنے والے یہاں آ کر خود دوسری طرف متوجہ ہو جاتے بھلا جو سرکار کے ساتھ ہمکلام ہو اسے کوئی کہہ بھی کیا سکتا ہے۔

آپ نے مدینہ طیبہ میں میریٹ ہوٹل کی ایک نشست میں مدینہ طیبہ کی تکالیف اور بیماریوں پر لیکچر دیا کہ جو لوگ مدینہ طیبہ کی بیماریوں اور پریشانیوں پر صبر کرتے ہیں۔ آقا علیہ السلام نے ان کی شفاعت کا وعدہ فرمایا ہے۔ اسی لیکچر میں آپ نے بتایا کہ ایک دفعہ میں مدینہ طیبہ میں بہت سخت بیمار ہو گیا اور وہ بیماری زندگی کی سخت ترین بیماریوں میں سے تھی جب تکلیف انتہا پر پہنچی تو اسی کیفیت میں آنکھ لگی تو مدینہ طیبہ سے بیت المقدس تک روحانی سفر کرایا گیا۔

نہ پوچھ ان خرقہ پوشوں کی ارادت ہو تو دیکھ ان کو
ید بیضا لئے بیٹھے ہیں اپنی آستینوں میں

سفر حج کی مشقت اور تکالیف پر صبر و شکر

عظیم المرتبت ہستیوں پر تکالیف اور مشکلات بھی ان کے حسب مرتبہ آتی ہیں جو ان کے عظیم المرتبہ ہونے کا ثبوت بھی ہوتا ہے اور مزید بلندی درجات کا موجب بھی یہ ان کا امتحان ہوتا ہے اور وہ ایسے ہی امتحانوں سے گذر گذر کر بہت بلند ہو چکے ہوتے ہیں پھر جو نظریں ہر وقت محبوب حقیقی کے دیدار اور اس کی رضا میں مست ہو جاتی ہیں وہ پریشانیوں کو بھی نعمت سمجھ کر ان پر شکر ہی کرتے ہیں کہ

انعام سمجھ کر ہر غم کو سینے سے لگائے بیٹھے ہیں
ان رنگ برنگے پھولوں سے گھر بار سجائے بیٹھے ہیں

ان مقرب بارگاہ ہستیوں کی سنگت میں رہنے والوں اور ان سے محبت کا دعویٰ کرنے والوں کو بھی اسی راہ سے گذارا جاتا ہے۔ ان کو بھی اسی امتحان سے گذارا جاتا ہے اور پرکھا جاتا ہے کہ یہ کتنے پانی میں ہیں۔ کچھ خوش قسمت تو صرف اسی نشے میں مست رہ کر سارا وقت گذار دیتے ہیں کہ اے مولیٰ تیرا شکر کس منہ سے اور کس طرح ادا کریں کہ تو نے ایک عظیم ہستی کی سنگت میں اپنے گھر اور پیارے محبوب کے در کی حاضری کی توفیق دی۔ ان کی آنکھوں سے شکرانے کے آنسو ہی خشک نہیں ہوتے مگر کچھ میرے جیسے بے ذوق کم ظرف اور ناشکرے بھی ہوتے ہیں جن کی نظر ہوٹل، بیڈ، کمرے، ناشتے، لنچ اور ڈنر پر رہتی ہے جو وی آئی پی پیکج کے چکر میں شکوؤں کے انبار لگا کر اپنا حج بھی خراب کر لیتے ہیں اور ناشکری کے گناہ سے اپنی عاقبت بھی۔ وہ یہ نہیں سمجھتے کہ عاشقوں کی اپنی زندگی بھی امتحان ہوتی ہے اور ان سے محبت کا دعویٰ کرنے والوں کی زندگی بھی امتحان بنادی جاتی ہے۔

یہ عشق نہیں آساں بس اتنا سمجھ لیجئے
اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے

جو لوگ اللہ، اس کے رسول اور قائد کی محبت میں گم ہو جاتے ہیں انہیں کوئی پریشانی نظر ہی نہیں آتی کہ

سخت جو بھی مرحلے تھے عشق کے
جوش اس کے دم سے آساں ہو گئے

اگر آپ کے مقام و مرتبہ کو دیکھا جائے اور پھر ناسازی طبع کو دیکھا جائے تو سیون سٹار ہوٹل بھی ہیچ لگے لیکن حج کے دوران فور سٹار ہوٹل میں اور بیسیوں بیماریوں کے باوجود اور وہ مشکلات جو کئی لوگوں کے لئے بہت زیادہ بے چینی اور اضطراب کا سبب بن رہی تھیں شیخ الاسلام مدظلہ نہ صرف ان پر صبر شکر کر کے مسکراتے رہے بلکہ تمام ساتھیوں کو صبر و شکر کی تلقین کرتے رہے۔ عرفات سے مزدلفہ واپسی پر آپ کو ناسازی طبع کے باوجود ساری رات گاڑی میں بیٹھنا پڑا اور قدم مبارک ورم کی وجہ سے سوج چکے تھے لیکن کیا مجال جو لفظ شکایت یا ہائے وائے زبان پر آئے۔ ان کی ہر ادا دیکھ کر بے ساختہ کہنا پڑتا ہے۔

ہر ایک چیز میں ان کی عجب قرینہ ہے
وہ اپنی ذات میں بے مثل اک نگینہ ہے

قافلے میں موجود کسی بھی حاجی کو جو مشکلیں آئیں شیخ الاسلام مدظلہ کو ان سب سے بڑھ کر آئیں مگر یہ پریشانیاں ان کے لئے پریشانیاں نہ تھیں بلکہ قربت محبوب کے زینے تھے جنہیں وہ ذوق و شوق سے گلے لگا رہے تھے۔ بڑے لوگوں کو ان کا کردار بڑا بناتا ہے۔ صوفیاء کی کہاوت ہے ’’الاستقامۃ فوق الکرامۃ‘‘ کہ استقامت کرامت سے بلند ہوتی ہے۔ کردار کی یہی استقامت انہیں وصال محبوب جیسی عظمتوں سے ہمکنار کرتی ہے۔

عرب شیوخ کے ساتھ ایک نشست

شیخ الاسلام مدظلہ جب بھی حج یا عمرے پر جاتے ہیں مدینہ طیبہ میں علماء و مشائخ اور سادات، شیخ الاسلام کے اعزاز میں ہمیشہ دعوت اور مجلس کا اہتمام کرتے ہیں۔ اس دفعہ بھی استراحہ گیلانیہ پر سادات مدینہ کی دعوت پر شیخ الاسلام مدظلہ کے ساتھ علماء و مشائخ کی مجلس کا اہتمام تھا۔ پوری دنیا سے آئے ہوئے منہاج القرآن کے فاضلین (منہاجینز) اور مختلف ممالک سے آئے ہوئے تنظیمی احباب بھی آپ کے ساتھ اس نشست میں شریک تھے۔ راقم کچھ انتظامی مشغولیت کی وجہ سے اس مجلس میں قدرے تاخیر سے پہنچا۔ جب ہم استراحہ گیلانیہ کے سامنے گاڑی سے اترے تو شیخ الاسلام مدظلہ اس جوش اور ولولے سے عربی میں خطاب فرما رہے تھے کہ ماحول پہ سناٹا تھا اور آپ کی آواز دور دور تک گونج رہی تھی۔ ورفعنالک ذکرک کے موضوع کے تحت فضائل مدینہ طیبہ پر گفتگو ہو رہی تھی۔ خطاب تو طویل تھا مگر نچوڑ یہ تھا کہ اے اہل مدینہ آپ خوش بخت ہو کہ آقا کے شہر میں رہتے ہیں۔ ہمیں تو سرکار اپنے در کا سگ بھی قبول کر لیں تو ہماری سعادت ہے۔ یہاں کی پاک ہوائیں اور معطر فضائیں ہماری آنکھوں کی ٹھنڈک اور دلوں کا سکون ہیں۔ ہم تو اس در کے کتوں کا بھی ادب کرتے ہیں۔ اے طیبہ کے باشندو! اے مدینے کے علماء! ہم آپ سے محبت کرتے ہیں۔ آپ لوگ گواہ رہنا کہ ہم آپ سے پیار کرتے ہیں۔ ہم مدینہ پاک کے درو دیوار، مدینہ کی خاک سے پیار کرتے ہیں، اسے اپنی آنکھوں کا سرمہ سمجھتے ہیں۔ قائد محترم پر بھی یہ الفاظ کہتے ہوئے وجدانی کیفیت تھی اور سننے والے بھی اپنے آنسوؤں کو ضبط نہ کر سکے۔

اداس لہجے میں اک کرب تھا قیامت کا
میں اس کو سن نہ سکا وہ مجھے سنا نہ سکا

میں اس کے چند ہی لفظوں پہ ہوش کھو بیٹھا
وہ اپنے دل کی لگی تو مجھے دکھا نہ سکا

یادگار دعائیں

دعا عبادت کا مغز ہوتا ہے۔ حرمین شریفین میں تو عام سے عام انسان جب حاضری دیتا ہے اور اپنے غم اور دکھڑے اپنے مالک کے حضور پیش کرتا ہے تو مانگنے کا سلیقہ نہ بھی ہو تو آنسوؤں کے ساتھ الفاظ خودبخود منہ سے ابلنا شروع ہو جاتے ہیں اور گنہگار پہ وہ وہ کیفیات طاری ہوتی ہیں کہ وہ لمحے زندگی کا سرمایہ بن جاتے ہیں لیکن جب آپ کسی مرد کامل کی سنگت میں مالک کائنات کی بارگاہ کی حاضری دیتے ہیں جو صاحب نظر بھی ہے اور صاحب دل بھی جو مانگنے کا سلیقہ بھی جانتا ہے اور محبوب کو منانے کا طریقہ بھی تو اس حاضری کا مزہ ہی جدا ہوتا ہے اس وقت بہت سی چیزوں کے ساتھ نظر ان دعاؤں پر بھی ہوتی ہے جو یقینا درجہ مقبولیت کی حامل ہوتی ہیں۔ قائد محترم کے ساتھ طواف کرتے ہوئے بذات خود ایک عجب کیف و سرور طاری تھا لیکن طواف کے چوتھے چکر میں جب آپ نے دعا شروع کی تو گویا حرم کا پورا ماحول گرم ہو گیا۔ کعبے کی طرف شیخ الاسلام مدظلہ کا منہ تھا آواز دور دور تک گونج رہی تھی۔ ہاتھ لرز رہے تھے اور وہ پورے انہماک کے ساتھ آنکھیں بند کر کے اپنی مولیٰ سے التجائیں کر رہے تھے۔ قائد محترم کی عام محافل میں رقت سے مانگی جانے والی دعائیں کلیجہ چیر دیتی ہیں۔ یہ تو پھر حرم کا ماحول تھا قائد محترم کی درد ناک التجاؤں کے ساتھ لوگوں کے آنسوؤں اور چیخوں کا ایک ہجوم تھا کلیجے پھٹے جارہے تھے۔ آپ اپنی کمزوریوں کو پیش کر کے اللہ سے اس کی رحمت و مغفرت کے طلبگار تھے۔ اس مضمون کو پڑھنے والے اس جملے سے پورا ذوق لیں کہ حرم کی ان دلدوز دعاؤں میں آپ بھی شامل تھے۔ منہاج القرآن کا بچہ بچہ، دنیا کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے منہاج القرآن کے رفقاء و اراکین اور محبین بلکہ ان کے آباؤ اجداد اور ان کے بچے اور نسلیں ان دعاؤں میں شامل تھے۔ یہ دعائیں صرف سننے والوں کے سینے نہیں بلکہ آسمانوں کے پردے چاک کر کے براہ راست خالق ارض و سماوات کی بارگاہ میں شرف قبولیت پا رہی تھیں۔

اسی طرح میدان عرفات میں قیام عرفہ کے دوران عرفات سے منیٰ روانگی سے پہلے شام سے پہلے جو دعا کی گئی منہاج القرآن کی پوری تاریخ میں مانگی گئی دعاؤں کی فہرست میں چوٹی کی چند دعاؤں میں سے ایک تھی۔ دنیا کے طول و عرض سے آئے قافلہ منہاج کے جانثار، قائد محترم کے خیمے کے اندر اور باہر جم غفیر کی شکل میں موجود تھے۔ دعا شروع ہوئی تو ساتھ ہی سسکیوں اور آہوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ یہ منظر کہنے سننے سے تعلق نہیں رکھتا صرف وہی لوگ محسوس کرسکتے ہیں جو اس وقت وہاں موجود تھے۔ آنسوؤں کا سیلاب تھا کہ رکنے کا نام نہیں لیتا تھا۔ قائد محترم کے دامن میں بندگی کے جتنے ہیرے موتی اور پھول تھے سب بارگاہ خداوندی میں پیش کر دیئے۔ پہلے عربی میں پھر اردو میں، دعا میں شامل لوگوں کو یہ دعا ساری عمر یاد رہے گی۔ یہ دعا منہاج القرآن کی تحریک، اس مشن، تحریکی لوگوں اور ساری امت کے لئے تھی۔ درد و کیف اور گریہ و زاری کی نسبت سے یہ دعا لاجواب تھی۔ دعا کا پورا عرصہ ایک ہیلی کاپٹر ہمارے خیمے کا طواف کرتا رہا۔

مجھے دعائوں کی طاقت کا پوچھتا ہے کیا
جو عرش کو نہ ہلادے بھلا دعا کیا ہے

ہے کام بندے کا اس طرح بندگی کرنا
خدا یہ بندے سے پوچھے تیری رضا کیا ہے (نور)

بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  میں حاضری

آپ سوچ رہے ہوں گے کہ اس عنوان کو مضمون کے آخر میں کیوں رکھا۔ میرے نزدیک یہ پورے مضمون کا حاصل بھی ہے اور عروج بھی۔ صرف اس لئے آخر میں رکھا کہ پڑھنے والا مضمون ختم کرنے کے بعد بھی لذت حضور میں رہے۔ یہ وہ بارگاہ ہے جس کا نام لیں تو ادب سے پلکیں سجدہ ریز ہو جاتی ہیں۔ زبان تقدس کے حصار میں آ جاتی ہے۔ دل مچل اٹھتا ہے، اس بارگاہ کے تصور سے چودہ صدیوں کی طوالت سمٹ کر منزل حدِّ نظر میں آ جاتی ہے اور ہر مومن اس ان دیکھے حسن کی رعنائیوں سے من کی دنیا کو گل و گلزار اور مشام جاں کو معطر و معنبر پاتا ہے۔ بقول ساغر صدیقی

جبین عشق نے سجدے کے لئے تقدیس الفت کے
چمن میں رقص فرمائی ہوئی موج حماء آئی

عمر بھر کی اداسیوں اور لمحے لمحے کے کرب فراق کے بعد جب امتی اس حسن ازل کے وارث اور تقویم ابد کے پیکر کی بارگاہ بے کس پناہ میں پہنچتا ہے تو پہلے تو انسان کو یقین نہیں آتا کہ میں یہاں پہنچ گیا ہوں۔ جب سر کو جھٹکتا ہے اور دیکھتا ہے کہ واقعی میں اس دربار ادب اور آستانہ وقار پہ کھڑا ہوں جہاں آ کرجبرائیل بھی ادب سے سانس تھام کر حاضری دیتے تھے تو ساتھ ہی عمر بھر کی اداسی آنسو بن کر شہر مدینہ کی خاک کو بوسہ دینے کے لئے سوئے منزل روانہ ہوتی ہے۔ گنبد خضریٰ کا روح پرور نظارا دیکھ کر بلند و بالا کونپلوں کی طرح کھلے کھلے میناروں کے درمیان پھولوں جیسے سبز و سفید گنبد انسان کو اپنے سحر میں دبوچ لیتے ہیں اور بارگاہ محبت کی حاضری سے پہلے انسان غیر شعوری طور پر اس کیفیت میں مبتلا ہو جاتا ہے۔

منزل غم کی فضاؤں سے لپٹ کر رولوں
تیرے دامن کی ہواؤں سے لپٹ کر رولوں

(ساغر)

اگرچہ عمر بھر یہ وطیرہ رہا۔ بقول اعظم چشتی

بے وضو عشق کے مذہب میں عبادت ہے حرام
خوب رو لیتا ہوں آقا کی ثنا سے پہلے

یہ وہ بارگاہ ہے جہاں بڑے بڑوں کا پِتّا پانی ہو جاتا ہے۔ جہاں کج کلاہ سر جھکانے کو فخر گردانتے ہیں۔ جہاں پہنچ کر نہ دل پر قابو رہتا ہے نہ اشکوں پر اختیار

دہر و حرم کی راہ سے دل بچ کے آ گیا
تیری گلی کے موڑ پر سودائی بن گیا

بہر حال ہر مومن کی کم و بیش یہی یا اس سے ملتی جلتی کیفیات ہوتی ہیں۔ لیکن اگر بندہ کسی صاحب دل، صاحب وفا، پیکر تسلیم و رضا کے ساتھ حاضری دیتا ہے تو منظر ہی کچھ اور ہوتا ہے۔ اپنی کیفیات تو جو ہوتی ہیں سو ہوتی ہیں لیکن ان عاشقوں کی سنگت میں ان کی معیت میں حاضری کا مزہ ہی کچھ اور ہوتا ہے۔ آپ مدینہ طیبہ میں بھی اور مکہ مکرمہ میں بھی رات حرمین شریفین میں گزارتے عشاء کے بعد سے لے کر فجر تک رفقاء و اراکین کے ساتھ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی بارگاہ میں حاضر رہتے۔ آپ ہمیشہ باب السلام سے داخل ہوتے اور بائیں طرف مسجد میں جہاں آسانی سے جگہ ملتی سرکار کے روضے کی طرف منہ کر کے بیٹھ جاتے اور کبھی کبھار صاحبزادہ حماد کے پیچھے باجماعت نوافل ادا کرتے۔ اسی مقام پر آپ تحیۃ المسجد، حاضری کے لئے شکرانے اور تہجد کے نوافل ادا کرتے اور مسلسل آستانہ محبوب کو دیکھتے رہتے اور درود پاک پڑھتے رہتے گویا جالیوں میں سے جھانک جھانک کر حسن محبوب کا دیدار کر رہے ہوں۔ درمیان میں کبھی کبھی چاروں طرف پھیلے سراپا ادب گلشن منہاج کے گلوں سے مخاطب ہوتے اور سرکار دو عالم نور مجسم کی سیرت، آپ کی زندگی سے متعلق واقعات، مسجد نبوی کے مختلف حصوں، تعمیر، اپنی حاضری یا کسی اور موضوع پر ہلکی پھلکی گفتگو کرتے۔ یہ گفتگو جس میں عاشقوں کے لئے محبت بھرے الفاظ ہوتے کبھی کسی کو مخاطب کرتے تو وہ خود کو عرش کا ہمسر سمجھتا۔ ساری رات بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  میں گزارنے کے بعد اور فجر کی نماز کے بعد آپ مواجہ شریف کے سامنے حاضری دیتے۔ ایک محب صادق کا محبوب مکرم کی بارگاہ میں سراپا ادب بن کر حاضر ہونا یہ بھی ایک عجیب منظر ہوتا۔ ان جھکی جھکی نظروں کا جالیوں کے پیچھے کس قسم کا رابطہ تھا۔ دل کے تار کون سے نغمے چھیڑ رہے تھے۔ اشکوں کی زباں کس طرح محبت کا اظہار کرتی، ہو سکتا ہے خاموش لب کچھ اس طرح سے اظہار عقیدت کر رہے ہوں۔

خوابوں کے یہ جگنو میری آنکھوں میں نظر بند
دیکھو میرے آنسو میری آنکھوں میں نظر بند

چہرے کا وہ اک پھول ہے اب تک ترو تازہ
اب تک ہے وہ خوشبو میری آنکھوں میں نظر بند

کتنا بھی چلا جائے تو دنیا سے میری دور
رہتا ہے مگر تو میری آنکھوں میں نظر بند

قائد محترم حاضری کے بعد پروانوں کی جماعت کے حلقے میں رخصت ہوتے۔ آپ اس انداز سے چلتے کہ گنبد خضریٰ کی طرف پشت نہ ہو۔ کار پارکنگ نمبر دو کے قریب جا کر جہاں سے نیچے گاڑی میں بیٹھنا ہوتا ایک دفعہ پھر گنبد خضریٰ پر الوداعی نظر ڈالتے اور الوداعی سلام عرض کرتے ہوئے غلاموں کی نظروں سے اوجھل ہوتے۔

یہ سفر سعادت اپنی مدت میں تو ختم ہو گیا مگر یادوں کا سلسلہ ساری عمر چلتا رہے گا۔ اس سفر کی قربت نے تسکین کی بجائے اور اضطراب پیدا کیا۔

یوں تو دل کو کبھی قرار نہ تھا
اب بہت بے قرار رہتا ہے

وہ بارگاہ ہے ہی ایسی کہ قریب رہیں تو بھی دل کو ایک کشش رہتی ہے اور دور ہوں تو ایک اور قسم کی بے چینی گو عالم سوز و ساز میں کسی پل چین نصیب نہیں ہوتا یہ محبت کا خاصہ ہے اور یہی رونق زندگی۔

جو آگ لگائی تھی تم نے اس کو تو بجھایا اشکوں نے
جو اشکوں نے بھڑکائی ہے اس آگ کو ٹھنڈا کون کرے

٭٭٭٭٭