دروس سلوک و تصوف درس : 45

صاحبزادہ مسکین فیض الرحمان درانی

گذشتہ درس میں ہم نے تعلیمی مقصد اور تعلیمی عمل کے بارے میں سیر حاصل گفتگو کی تھی۔ مقصد اور عمل ابتداء میں طالب علم اور مرید کا الگ اور عالم، مرشِد و مربی کا الگ ہوتا ہے لیکن آخری منزل دونوں کی ایک ہوتی ہے۔ حقیقت کی تلاش کے لیے منزل مراد پر پہنچنے کے لیے مرید کا ارادہ اور منزل تک پہنچانے کے لیے شیخ کا ارادہ جب باہمی تعامّل و تعاون سے ہم آہنگ ہوتا ہے تو بفضل اللہ تعالیٰ گوہر مقصود دونوں کے ہاتھ آ جاتا ہے اور دونوں اپنے اپنے ارادے، مقصد اور عمل میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔

ہم نے ابتدائی طور پر تین قسم کے مومنین اور تین قسم کے مریدوں کا ذکر کیا ہے۔ معلِّم اور پیر بھی تین طرح کے ہوتے ہیں ایک تو خود ساختہ، جعلی اور وہ نام نہاد پیر ہوتے ہیں جو صوفیوں کا روپ دھار کر سر پر دستار سجا کر علماء کی طرح جبہ پہن کرخود کو عامل، کامل اور پیر جتانے کا ڈھونگ رچاتے ہیں۔ اس قسم کے لوگ زیادہ تر گنڈہ تعویذ اور جھوٹے دم درود کا کاروبار کرتے ہیں اور اپنے ہاں آنے والوں سے بڑی بڑی رقمیں بٹورتے ہیں۔ دین سے ناواقف اس طرح کے عامل، صوفی، پیر اور باوے اپنے کسی گُرو سے کچھ منتر جنتر سیکھ کر رٹے رٹائے کچھ ناقابل فہم الفاظ پڑھ پڑھ کر سائلین اورمریدوں پر پھونکتے رہتے ہیں اور سماجی حالات کے جبر میں مبتلا سائلین کو نفسیاتی سحر میں جکڑ کر بے وقوف بناتے ہیں۔ الٹی سیدھی لکیریں کاغذ پر ڈال کر تعویذ بناتے ہیں اور موٹے سوتی دھاگوں پر گرہیں ڈالتے اور ان پر پھونکتے رہتے ہیں۔ زیادہ تر وُہ ضعیف العقیدہ عورتیں اور جاہل ان پڑھ لو گ ان کے مرید ہوتے ہیں جو جن آسیب اتارنے اور تعویذ گنڈہ کرانے ان کے پاس آتے ہیں۔ ایسے جھوٹے پیر مجرمانہ ذہن کے وُہ لوگ ہوتے ہیں جو مجبور مرد اور عورتوں سے ان کی زندگی کے خفیہ راز حاصل کر کے سار ی عمر ان کو بلیک میل کرتے رہتے ہیں۔ یہ طرح طرح کے جرائم اور بدکاری میں ملوث ہوتے ہیں۔ قبرستان سے مُردوں کی ہڈیاں اور کھوپڑیاں نکال کر ان پر جھوٹے سفلی عملیات کرنے کا ڈھونگ رچا کر لوگوں کو دھوکا دیتے ہیں۔ عجیب عجیب ناموں سے اپنا دھندا کرتے ہیں۔ کوئی سنیاسی ہوتا ہے کوئی بنگالی باوا، کوئی عامل پیر فقیر، یہ لوگ سایہ آسیب اتارنے اور بھوت پریت نکالنے کی ڈرامہ بازی بھی کرتے ہیں اور جعلی دوائیاں بیچنے کا کاروبار بھی۔ ان جرائم پیشہ افراد میں بعض بہت با اثر ہوتے ہیں۔ مقامی پولیس کو بھتہ دیتے ہیں جو ان کے مکروہ دھندے میں مداخلت نہیں کرتی۔ پولیس کی پشت پناہی سے یہ لوگ اپنا ناجائز کاروبار جاری رکھے ہوتے ہیں۔ آج کل گنڈہ تعویذ اور جھاڑ پھونک کرنے والے کاروباری پیر فقیر اور عامل جگہ جگہ نظر آتے ہیں۔ ضعیف العقیدہ افراد مرد عورتیں حتیٰ کہ بڑے بڑے سرکاری افسر اور سیاستدان تک ان کے جال میں پھنس کر ساری عمر کے لیے ذہنی اور اعصابی امراض کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ہندو، سکھ، عیسائی اور چنگڑ نسل کے بے ایمان، مشرک اور بد عقیدہ جادوگر اور کاہن سفلی عملیات کا یہ کاروبار کرتے جگہ جگہ نظر آتے ہیں۔ بڑے بڑے گھرانوں کی ماڈرن خواتین ان بہروپیوں کا زیادہ شکار ہوتی ہیں۔ وُہ مسلمان کاہن جو اس قسم کے مشرکانہ افعال کرتے ہیں، مخلوق خدا کو دھوکا دیتے دیتے اپنے دین و ایمان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ صحیح العقیدہ مسلمان خواتین اور مردوں کا اس قسم کے لوگوں سے دور رہنا بہت ضروری ہے۔ عملیات اور روحانیت کے نام پر یہ لوگ وُہ گندے اور مشرکانہ اعمال کرتے ہیں جن کا شمار گناہ کبیرہ میں ہوتا ہے۔ ایسے بناوٹی عاملوں اور پیر فقیروں کے ہاں جانے اور ان سے تعلق رکھنے والے بھی گناہ کبیرہ کے مرتکب ہوتے ہیں اور بعض تو صریحاً شرک کا ارتکاب بھی کرتے ہیں۔ حقیقی دم کرنے اور تعویذ کا اصل ماخذ قرآن حکیم کی آیات کریمہ ہوتی ہیں۔ شرعی طریقہ سے دم اور تعویذ کرنے والا شخص نیک، متقی، پرہیزگار اور اللہ سے ڈرنے والا ہوتا ہے۔ وُہ مخلوق خدا کی بھلائی کے لیے شریعت کے مطابق دم تعویذ کرتا ہے اور کسی شخص کو نقصان پہنچانے کے ہر کسی قسم کے غیر شرعی عمل کرنے سے اجتناب کرتا ہے۔

خود ساختہ نام نہاد پیروں کی دوسری قسم ان بعض موروثی گدی نشینوں، سجادہ نشینوں اور زیب سجادہ صاحبزادگان کی ہوتی ہے جو مناسب دینی اور خانقاہی تعلیم و تربیت سے بے بہرہ اپنے بڑوں کی وفات کے بعد کسی اہلیت اور استحقاق کے بغیر، کچھ مطلب پرست مریدوں یا خاندان کے کچھ لوگوں کی مدد سے بزرگوں کی گدیوں اور مسانِد طریقت پر قبضہ کر لیتے ہیں۔ رشد وہدایت کے حقیقی مساند پر بیٹھنے کے لیے دینی تعلیم و تربیت کے علاوہ طریقت کی اعلیٰ تعلیم، تربیت اور سلوک و تصوّف کے میدان میں ریاضت، مشقت اور مجاہدہ کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ جب اس قسم کے نا اہل میراث خور سجادوں پر قبضہ جما لیتے ہیں اور پیری مریدی کا کاروبار شروع کرتے ہیں تو ان کے مرید شریعت و طریقت کے حقیقی ثمرات سے تو محروم رہتے ہی ہیں وہُ دین سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ ان پڑھ پیر، مریدوں کو تو دین سکھانے سے رہے۔ الٹا ان کے غیر شرعی حرکات دیکھ کر مرید بھی وہی کچھ کرنے لگ جاتے ہیں اور حقیقی دین سے دور ہوتے جاتے ہیں۔ مرید وہی کچھ نقل کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو ان کے پیر کرتے رہتے ہیں۔ ان جیسے پیروں کی سب سے بڑی نشانی صحیح وقت پر نمازِ باجماعت کا نہ پڑھنا، نماز میں سستی دکھانا، ہر وقت باوضو نہ رہنا اور سب سے بڑھ کر فضول اور لا یعنی گفتگو میں وقت گزارنا ہوتی ہے۔

پیری مریدی کا کاروبار کرنے والوں میں اکثر ایسا ہوتا ہے کہ کسی ایک گدّی کی وراثت کے لیے کئی بھائی اور رشتہ دار میدان میں اتر آتے ہیں اور سب اصلی سجادہ نشین ہونے کا دعوٰی کرتے ہیں۔ اس طرح وُہ سجادہ یا گدی کئی حصوں میں تقسیم ہو جاتی ہے اور ہر دعویدار اپنے حصے کا الگ پیر بن جاتا ہے۔ پیروں کی طرح ان کے خلفاء اور مرید بھی مختلف ٹکڑیوں میں تقسیم ہو جاتے ہیں۔ ہر خلیفہ اور مرید اپنے ہی پیر کو حق پر سمجھتا اور دوسرے پیر کو جھوٹا، کاذب اور غاصب قرار دیتا ہے۔ گویا یہ کوئی دوکان یا کاروبار کی منڈی ہوتی ہے۔ جو شراکت دار آپس میں تقسیم کر دیتے ہیں۔ سجادوں اور گدیوں کے اکثر ورثاء درگاہوں اور مزارات پر جمع ہونے والے نذرانے اور عطیات کی رقوم کے بٹورنے کے لیے باری مقرر کرتے ہیں۔ درگاہوں اور مزارات پر اس طرح جمع ہونے والے نذرانوں کی رقوم اکثر موروثی سجادہ نشین پیروں کا سب سے بڑا ذریعہ آمدن ہوتی ہیں۔ یہ خود ساختہ اور نام نہاد پیر اکل حلال کمانے کے لیے کوئی کام کاج، تجارت اور ملازمت نہیں کرتے، ان کی رہن سہن بادشاہوں جیسی ہوتی ہے اور یہ لوگ عموماً شاہ صاحب، شاہ جی اور پیر سائیں کہلاتے ہیں۔ ان کی جاہ و تمکنت، بڑی بڑی کوٹھیوں اور محلات کی شان و شوکت سے بھی اکژ مرید ان کے ذہنی غلام بنتے ہیں۔ ذہنی اور جسمانی غلامی میں جکڑے جاہل مرید اللہ سے بے خوف ان خودساختہ پیروں کے شکنجے میں بری طرح پھنسے ہوتے ہیں۔ بعض ان پڑھ اور جاہل مرید گمراہ پیروں کے سامنے سجدہ تعظیمی بھی کرتے ہیں لیکن اُن کو سختی سے اس فعل قبیح سے منع کرنے کی بجائے اکثر پیر اس ناجائز حرکت پرسکوت اختیار کرتے ہیں۔ بعض خود ساختہ پیر ان کے سامنے سجدہ تعظیمی کرنے کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ مرید ادب و تعظیم اولیاء کے نام پر شرک کا ارتکاب کرتے ہیں۔ پیر خود کو لائق ادب و تعظیم مقدس اور پاکیزہ سمجھ کر شرک کے مرتکب ہوتے ہیں۔ اپنے آپ کو اس طرح پاکیزہ اور مقدس کہلوانے والے افراد کے بارے میں رب جل شانہ‘ کا ارشاد ہے : ۔

أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ يُزَكُّونَ أَنفُسَهُمْ بَلِ اللّهُ يُزَكِّي مَن يَشَاءُ وَلاَ يُظْلَمُونَ فَتِيلاً.

(النساء : 49)

’’ کیا تو نے ان کو نہ دیکھا۔ جو ( باوجود بے شمار خرابیوں اور شرک میں مبتلا ہونے کے) اپنے آپ کو پاکیزہ (اور مقدس) بتاتے ہیں۔ (دولت، ثروت، دنیاوی جاہ و مرتبت ہرگز تقدس کا ثبوت نہیں) بلکہ اللہ تعالیٰ ہی جس کو چاہتا ہے پاک کرتا ہے۔ (پاکیزگی وُہ ہے جو اللہ دے۔ انسان کے اپنے زعمِ باطل میں اپنے کو پاکیزہ اور مقدس سمجھنے سے کیا ہوتا ہے۔ اس سے تو وہ عذاب سے نہ بچ سکے گا)۔ اور ان پر ایک تاگے کے برابر بھی ظلم نہ ہو گا لیکن ان کو اس قدر سزا ضرور ملے گی جس کے وہ حقدار ہیں‘‘

ارتکابِ شرک، دین اسلام میں سب سے بڑا گناہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی غیر اللہ کو سجدہ کرنا حرام ہے۔ کسی شخص، بت، مورتی، درخت، پہاڑ، قبر، یا مزار وغیرہ کے سامنے پیشانی کو زمین پر رکھنے کا عمل ’’سجدہ‘‘ ہے۔ اگر یہ عمل عبادت کی نیت سے کیا جائے تو اعلانیہ شرک ہے اور اگر تعظیم و تکریم کی نیت سے کیا جائے تو حرام قطعی اور گناہ کبیرہ ہے۔ سابقہ شریعتوں میں تعظیمی سجدہ روا تھا۔ لیکن شریعت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں تعظیم کی اس شکل کو حرام قرار دیا گیا تھا۔ یہ دورِ نبوی میں بھی حرام تھا اور آج بھی اسی طرح ایک حرام فعل ہے۔ اس ضمن میں تفصیلی مطالعہ کے لیے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی تصانیف تفسیرِسورہ البقرہ، کتاب التوحید، کتاب البدعۃ اور توحید اور تعظیم سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ بعض جاہل خود ساختہ پیر اور ان پڑھ سجادہ نشین بڑے دھڑلے سے مریدوں کے اس حرام فعل کو ’’اظہارعقیدت‘‘سے تعبیر کرتے ہیں اور تاویل کے لیے اکابر اولیاء تک کا نام لینے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ دین سے ناواقف یہ لوگ کہتے ہیں کہ اکابر اولیاء بھی تو اپنے پیروں کے سامنے سجدہ تعظیمی بجا لاتے تھے۔ یہ پرلے درجے کا جھوٹ، کذب اور افتراء ہے۔ کسی صاحب علم بزرگ اور ولی اللہ نے اس فعلِ حرام کا کبھی ارتکاب کیا اور نہ ہی اپنے کسی متعلم یا مرید کواپنے سامنے یا کسی دوسرے بزرگ کے سامنے ایسا کرنے کی اجازت دی۔ اولیاء اللہ علمائے راسخین تھے انہوں نے ہمیشہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی توحید کا پرچار کیا اور امت کو حرام سے بچانے کی جِدوجُہد کی۔ قدم بوسی کے لیے بھی اگر کوئی مرید اپنا سر کسی پیر کے قدموں پر سجدہ کی صورت میں رکھ دے تو تعظیم کی یہ شکل بھی حرام ہے۔ قد م بوسی کے نام پر کسی کا ایسی ہیئت اختیار کرنا مکروہ تحریمی اور گناہ عظیم ہے۔ اس طرح کے ادب و تعظیم سے ہر راسخ العقیدہ مسلمان، عالم اور پیر کا بچنا لازم ہے۔ اکثر ان پڑھ اور جاہل لوگ بزرگوں کے مزارات پر حاضری کے وقت سجدہ تعظیمی بجا لاتے ہیں۔ یہ فعل بھی حرام ہے اور شریعت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔ بعض نادان لوگ مزارات کے سامنے نماز پڑھنی شروع کر دیتے ہیں جو شریعت کی رُو سے سخت ناجائز ہے اور اس سے اجتناب ضروری ہے۔ اگر کسی شخص سے نادانستگی میں کسی پیر کے سامنے ایسی قبیح حرکت سرزد ہو گئی ہو۔ یا کسی پیر نے کسی شخص کو اپنے سامنے سجدہ تعظیمی کرنے دیا ہو، اُس کی سرزنش نہ کی ہو اور اس فعل پر سکوت اختیار کیا ہو تو اُس پیر، عامل اور مرید کو فوری طور پر اللہ تعالیٰ کے حضور توبہ کر کے مغفرت طلب کرنی چاہیے اور آئندہ کے لیے ایسی حرکت سے تائب ہونا چاہیے۔ کسی فرد و بشر کو اپنی موت کی خبر نہیں ہوتی۔ موت کسی بھی وقت آ سکتی ہے۔ موت کا وقت آنے سے پہلے اپنے گناہوں کی معافی مانگنی چاہیے اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے توبہ کر کے پوری طرح تائب ہونا چاہیے۔ بہت سارے خود ساختہ پیر اور خبط العظمت کی بیماری (acute paranoid disorder) میں مبتلاجاہل گدی نشین اپنے مریدوں کے سامنے عجیب و غریب تصوراتی، بے سروپا، من گھڑت اور ایسی لا یعنی باتیں کرتے رہتے ہیں کہ جن کا قرآن و سنت سے دور دور کا واسطہ تک نہیں ہوتا ہے مثلاً بعض کہتے ہیں کہ قیامت کے دن ان کے مرید ان کے جھنڈے تلے جمع ہوں گے۔ دنیا میں ان کے اعمال چاہے جیسے بھی ہوں اور وُہ کیسے بھی گناہ کے مرتکب کیوں نہ ہوئے ہوں۔ ان کی شفاعت سے وُہ کسی مواخذہ کے بغیر جنت میں جائیں گے، کسی موروثی ان پڑھ پیر یا مرید کا ایسا عقیدہ حرام اور شرک فی النبوۃ کے زمرہ میں آتا ہے۔ شفاعت کا مرتبہ صرف اور صرف نبی محتشم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حاصل ہے۔ ان پڑھ پیروں کا اس قسم کے خود ساختہ نظریات کا مریدوں کے سامنے بیان کرنا حرام ہے۔ ایسی من گھڑت باتوں کا سلوک و طریقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ گذشتہ ادوار میں ایسے ہی نظریات اور عقائد کی وجہ سے اکثر اقوام و ملِل تباہی و بربادی سے دو چار ہُوئیں۔ آخرت کے بارے میں اس قسم کے غلط نظریات زندگی میں عمل، اخلاص، احسان اور تصوّف کی اہمیت کو یکسر زائل کر دیتے ہیں اور مرید ان لغو خرافات پر اکتفا کر کے اپنی ساری زندگی بے عملی میں گزار دیتے ہیں۔ انسان کے لیے دنیا میں اطاعت الہی کے جذبہ سے سرشار ہو کر صدق و اخلاص سے عمل کرنا ہی نجات کا باعث ہوتا ہے۔ عمل کے بغیر پیروکاروں کی خالی خولی جذباتی عقیدت اور ان پڑھ پیروں کی گمراہ کن باتوں کو نجات کا ذریعہ سمجھنا خام خیالی اور غفلت و تساہُل کی خطر ناک ترین صورت ہوتی ہے۔ میدان حشر میں البتہ اولیائے کاملین اور علمائے راسخین اپنے نیک عمل، متقی، پرہیز گار مریدین اور متعلمین کی شفاعت کے لیے شفیع المذنبین نبی رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ بے کس پناہ میں التجا اور سفارش کر سکیں گے اور بطور شاہد ان کے اعمال حسنہ پر گواہی دیں گے۔ یہ اس نوع کی شہادت ہو گی۔ جس طرح امت مسلمہ دیگر ادیان کے پیروکاروں پر قیامت کے دِن شاہد ہو گی۔ سورہ البقرہ کی آیت نمبر 143 میں ارشاد الہی ہے۔ ’’ اور اسی طرح ہم نے (اے مسلمانو!) تم کو ایک اعتدال پر رہنے والی امت بنایا تاکہ (افراط و تفریط سے پاک ہو کر اُممِ عالَم کے لیے مرکز و محورِ ہدایت بنو اور) تم لوگوں پر گواہ رہو اور (ہمارا) رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تم پر گواہ رہے(تمہارا نگرانِ حال ہو۔ تمہارے عمل صالح پر گواہ ہو) اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں امت مسلمہ کو گواہ قرار دیا ہے اور گواہی اس کی مقبول ہوتی ہے جو عادل اور نیک ہو۔ اس آیت کے اولین مخاطب اور مصداق حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین ہیں۔ سو یہ آیت اس بات کو مستلزم ہے کہ تمام صحابہ رضی اللہ عنہم عادل اور نیک ہیں اور جو کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد تین چار کے سِوا باقی تمام صحابہ (العیاذ باللہ) مرتد ہو گئے تھے۔ ان کا یہ کہنا باطل اور مطرود ہے۔ نیز صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے علاوہ قیامت تک کے تمام مسلمان بھی امت مسلمہ میں ثانیاً و بالعرض داخل ہیں اور اس میں یہ دلیل ہے کہ امت مسلمہ کبھی گمراہی پر مجتمع نہیں ہو گی کیونکہ ان کا گمراہی پر مجتمع ہونا ان کی عدالت اور نیکی کے خلاف ہے اور جو عادل نہ ہو وُہ گواہ نہیں ہو سکتا اس لیے تمام امت مسلمہ کا گواہ ہونا امت مسلمہ کے اجماع اور حجت کو مستلزم ہے اور یہ واضح رہے کہ کفر، شرک اور بدعت عدالت کے منافی ہے۔ نبی محتشم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گواہی اور شہادت کا مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام پچھلی امتوں اور اپنی امت وسط اور ان تمام اُمتوں کے احوال سے واقف ہیں جو حق کے ظہور کے بعد بھی گمراہ رہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی امت کے نگہبان ہیں۔ لہذا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سب پر گواہی دیں گے۔ قران مجید کی سورہ النساء کی اکتالیسویں آیہ کریمہ میں ارشاد ربانی ہے۔ ’’اُس وقت کیا حال ہو گا جب ہم ہر امت سے ایک گواہ لائیں گے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ان (سب) پر گواہ بنا کر لائیں گے‘‘ علامہ بیضاوی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ ہر نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی امت کے فاسد عقائد اور بُرے اعمال کے خلاف گواہی دے گا اور نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام نبیوں کی گواہی کے صدق پر گواہی دیں گے۔ اس آیت سے معلوم ہُوا کہ نبی مکرم و محتشم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام امتوں کے احوال پر مطلع ہیں، کیونکہ بغیر علم کے گواہی جائز نہیں ہے۔

ان پڑھ اور جاہل خود ساختہ، خوفِ خدسے عاری پیر مختلف طریقوں سے اپنے جاہل مریدوں کے اذہان و قلوب کو قابو میں رکھنے کے لیے طرح طرح کے ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں۔ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ ان کے مرید مسجدوں سے دور رہیں۔ علمائے حق کی گفتگو سنیں اور نہ کسی صاحب علم پابندِ شریعت پیر طریقت کی مجلس میں جائیں۔ تا کہ ان کی گفتگو سن کر وُہ اپنے ان پڑھ اور بے عمل پیر سے بر گشتہ نہ ہو جائیں۔ یہ جاہل پیر اپنے مریدوں کے ذہنوں کو من گھڑت کہانیوں، پُر فریب افسانوں اور جھوٹے ڈھکوسلوں سے توہمات کی ایسی آماجگاہ بنا دیتے ہیں کہ مرید ڈر اور خوف کے مارے صحیح بات سوچ سکتے ہیں اور نہ پیر کے سامنے کوئی شرعی یا علمی بات پوچھنے یا کہنے کی جرات کر سکتے ہیں۔ بہت سارے ان پڑھ پیر اپنے مریدوں کو دینی کتب کے مطالعہ سے منع کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ آدمی کا علم جتنا کم ہو، اللہ کے ہاں اُس کا مواخذہ بھی اتنا ہی کم ہو گا۔ بعض یہ بھی کہتے ہیں کہ کتابوں کے اندر تو ظاہری علوم ہوتے ہیں۔ جب کہ پیروں کے پاس باطنی اور روحانی علم ہوتا ہے۔ ظاہری علوم پڑھنے سے مریدوں پر باطنی علوم کے دروازے بند ہو جاتے ہیں اور ان پر روحانی اسرار کا کشف بند ہو جاتا ہے۔ مرید کے لیے ضروری ہے کہ وُہ صرف اپنے پیر کی باتیں سنے اور اپنے کانوں کو علماء کی گفتگو سننے اور آنکھوں کو کتابوں کے مطالعے کے لیے بند رکھیں۔ خوفِ خدا نہ ہونے کی وجہ سے اس قسم کے پیروں کے دل پتھر کی طرح سخت ہوتے ہیں۔ اس طرح کے خود ساختہ بے علم پیر پتھر کی طرح ہوتے ہیں۔ جو خود بھی گمراہی کے سمندر میں ڈوبے ہوتے ہیں اور اپنے ساتھ مریدوں کو بھی جہالت کے سمندر کی گہرائیوں کی نذر کر دیتے ہیں۔ آج کے دورِ فتن میں دین سے بے خبر اور علوم شریعت و طریقت سے ناواقف بعض خود ساختہ پیر یہ دعوٰی بھی کرتے ہیں کہ وُہ اپنی محفلوں میں اپنے پیروکاروں کو اپنی توجہ سے رسول مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کرا سکتے ہیں۔ وُہ مرید کو تلقین کرتے ہیں کہ وہ پیر کی صورت پر توجہ مرکوز کر کے یہ خیال کرے کہ جیسے وُہ ہو بہو نبی محتشم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھ رہے ہیں۔ ان کا ارتکازِ خیال جیسے جیسے قوی ہو گا۔ اسی طرح پیر کی صورت العیاذ باللہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صورت میں تبدیل ہو گی۔ ایسا عقیدہ رکھنا یا مریدوں کو اس عقیدے کی تلقین کرنا اور ان کو اس طرح کے ارتکازِ خیال پر مجبور کرنا ناجائز اور حرام ہے۔ اکثر جاہل پیر اپنے مریدوں کے سامنے ایسی خرافات بھی بکتے ہیں کہ باتیں جو وُہ مریدوں کے ساتھ کرتے ہیں۔ وُہ خود سے نہیں کرتے بلکہ اللہ سے براہ راست سن کر مریدوں کے سامنے بیان کرتے ہیں۔ کسی جاہل پیر کا ایسا عقیدہ رکھنا حرام اور گناہ کبیرہ ہے یہ صرف جاہل مریدوں کو رام کرنے کا ایک ڈھونگ ہوتا ہے۔ اللہ کے بارے میں حلول جیسے گمراہ کن نظریہ رکھنے والے لوگ ایسی باتیں کرتے اور ہندو دھرم سے متاثر ہو کر ایسی خرافات بکتے ہیں۔ مسلمانوں کو ایسے نام نہاد شیخوں اور پیروں سے دور رہنا چاہیے۔