حد خمر نشہ کرنے کی سزا

ڈاکٹر ساجد خاکوانی

منشیات کے خلاف عالمی دن کے موقع پر خصوصی تحریر

شراب نوشی کو اسلامی قانون میں جرم گردانا گیا ہے اور اسکی سزا بھی مقرر کی گئی ہے جس کا شمار ’’حدوداﷲ‘‘میں ہوتا ہے۔ ’’حدوداﷲ‘‘ وہ سزائیں ہیں جنہیں اسلامی ریاست کی طرف سے بطور حق اﷲتعالی نافذ کیا جاتا ہے۔ شراب کے لیے اسلامی تعلیمات میں ’’خمر‘‘کی اصطلاح استعمال کی گئی ہے۔ حضر ت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے خمر کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ ’’الخمر ماخامر العقل‘‘ کہ خمر وہ ہے جو عقل پر پردہ ڈال دے‘‘۔ عرب معاشرے میں پانچ چیزوں کو مختلف مراحل سے گزار کر ان میں نشہ پیدا کیاجاتا تھا، یہ پانچ اشیاء انگور کا رس، کھجور کا خیساندہ، شہد میں پانی ملا کر اور گندم اور جو کو پانی میں بھگونا ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے کہ ہر نشہ آور چیز حرام ہے نیز محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جس شے کی کثیر مقدار نشہ دے اس کی قلیل مقدار بھی حرام ہے۔

قرآن مجیدکی اصول قانون سازی میں ایک اصول ’’تدریج‘‘بھی ہے۔ اس اصول کے مطابق کتاب اﷲ نے بعض امور کو ایک دم نافذ کرنے کی بجائے آہستہ آہستہ اور تھوڑا تھوڑا کر کے اہل ایمان پر عائد کیا۔ تدریج کی ایک عمدہ مثال حرمت خمر بھی ہے یعنی حرمت شراب بھی یک بارگی نازل نہیں کی گئی بلکہ اس کا حکم تدریجاََ نازل ہوا۔ مے خوری عربوں کی گھٹی میں پڑی ہوئی عادت تھی ان کی محفلیں اور انکی راتیں مے خوری سے عبارت ہوا کرتی تھیں، شراب کے وہ اس قدر رسیاتھے کہ ان کی جنگیں بھی حالت نشہ میں لڑی جاتی تھیں چنانچہ جنگ احد میں قریش کا لشکر شراب کے مٹکے بھر بھر کے ہمراہ لایا تھا۔ عرب کے بڑے بڑے شعراء اپنی عادت شراب خوری کو فخراََ بیان کیا کرتے تھے۔ ان حالات میں قرآن مجید نے تین یا چار مراحل میں شراب کی قطعی حرمت کے احکامات نازل فرمائے۔ پہلے اطلاع کے طور پر فرمایا کہ ’’اور اسی طرح کھجور کے درختوں اور انگور کی بیلوں سے بھی ہم تمہیں ایک چیز پلاتے ہیں جسے تم نشہ آور بھی بنا لیتے ہو اور پاک رزق بھی‘‘ ( سورۃ نحل کی آیت نمبر67)۔ اس آیت میں مسلمانوں کو محض مطلع کیا گیا کہ نشہ آور چیز پاک نہیں ہے۔ دوسرا حکم پوچھنے پر ارشاد ہوا ’’پوچھتے ہیں شراب اور جوئے کا کیا حکم ہے؟ کہو ان دونوں چیزوں میں بڑی خرابی ہے اگرچہ ان میں لوگوں کے لیے کچھ منافع بھی ہیں مگر ان کا گناہ ان کے فائدے سے بہت زیادہ ہے‘‘ (سورۃ بقرہ آیت219)۔ اس آیت کے نزول کے بعد اکثر اہل ایمان نے شراب نوشی ترک کر دی، بعض علماء کے نزدیک یہی پہلا حکم تھا۔ پھر اﷲ تعالی نے یہ حکم نازل کیا کہ ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو جب تم نشہ کی حالت میں ہو تو نماز کے قریب نہ جاؤ، نماز اس وقت پڑھنی چاہیے جب تم جانو کہ کیا کہ رہے ہو‘‘ (سورۃ نساء آیت43)۔ اس آیت کے بعد مسلمانان مدینہ طیبہ میں سے جو ابھی بھی مے نوشی کے عادی تھے انہوں نے ایسے اوقات مقرر کر لیے کہ نماز کا وقت آنے تک نشہ ختم ہو چکا ہوتا۔

روایت میں منقول ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے خدمت اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں عرض کی کہ اﷲ تعالی سے دعا فرمائیں کہ شراب کے بارے میں کوئی فیصلہ کن حکم نازل فرمائے۔ محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک خطبہ میں لوگوں کو متنبہ فرمایا کہ اﷲ تعالی کو شراب خوری سخت ناپسند ہے چنانچہ بعید نہیں کہ اس کی حرمت کا حکم آ جائے۔ پس قرآن مجید نے حرمت شراب کی بابت وہ آخری آیت نازل کی جس کے بعد تاقیامت شراب حرام قرار دے دی گئی، اﷲ تعالی نے قرآن میں حکم دیا کہ

’’اے ایمان والو! بے شک شراب اور جوا اور (عبادات کیلئے) نصب کئے گئے بت اور (قسمت معلوم کرنے کے لئے) فال کے تیر (سب) ناپاک شیطانی کام ہیں۔ سو تم ان سے (کلیتاً) پرہیز کرو تاکہ تم فلاح پا جاؤ‘‘۔

(عرفان القرآن)

(سورۃ المائدہ، آیت90)۔

 اس آیت کے بعد شراب پینا، پلانا، بنانا، بیچنا وغیرہ اور اسکے جملہ استعمال ممنوع و حرام کر دیے گئے۔ کسی نے محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا کہ کیا شراب کو دوائی کے طور پر بھی استعمال میں لایا جا سکتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کی اجازت دینے سے بھی انکار کر دیا اور فرمایا کہ شراب میں بیماری ہے۔

شراب خوری کا جرم ثابت ہونے کے چار طریقے ہیں، پہلا طریقہ اقرار جرم ہے لیکن شرط ہے کہ اس طریقے میں مجرم بقائم ہوش وحواس ہو اور اسے اس حد کی کیفیت و کمیت کا بھی اندازہ ہو اور وہ بغیر کسی جبر واکراہ کے یہ اقرار کر رہا ہو، بعض فقہاء کا کہناہے کہ اس سے ایک سے زائد بار کی مجالس میں اقرار کرایا جائے گا اور تب اس پر حد جاری کی جائے گی۔ شراب خوری کے حرام کے اثبات کا دوسرا ذریعہ گواہان ہیں، دو عادل، مسلمان اور آزادگواہوں کی گواہی سے یہ جرم ثابت ہو سکے گا جب کہ وہ عدالت کے رو برو بیان دیں کہ انہوں بنظر خود مجرم کو شراب نوشی کرتے دیکھاہے۔ اس جرم کے اثبات کا تیسرا طریقہ شرابی کے منہ سے بدبو کا پھوٹنا ہے، لیکن بعض فقہاء صرف بو کے قرینے سے حد جاری کرنے سے اتفاق نہیں کرتے کیونکہ کسی اور چیز کی بو شراب کے مشابہ ہو سکتی ہے، اور ایک حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رو سے شبہ سے حدود ساقط ہو جاتی ہیں۔ آخری ذریعہ جس سے شراب خوری کا جرم ثابت ہو سکتا ہے وہ نشہ کی حالت مخمور میں رنگے ہاتھوں پکڑے جانا ہے لیکن اس صورت میں عدالت میں اجرائے حد کے لیے یہ ثابت کرنا ہو گا کہ شراب نوشی میں اس فرد کی کتنی رضا شامل تھی، اگر اس شخص نے یہ ثابت کر دیا کہ اسے زبردستی شراب پلائی گئی ہے تو پھر بھی حد جاری نہیں کی جا سکے گی۔

جرم ثابت ہو جانے پر حد جاری کی جائے گی یعنی مجرم کو سزا دی جائے گی لیکن نشہ کی حالت میں سزا نہیں دی جائے گی اور نشہ کے اترنے کا انتظار کیا جائے گا۔ نشہ اترنے کے بعد گرمیوں میں ٹھنڈے وقت اور سردیوں میں گرم وقت کا انتخاب کیا جائے اور مریض اگر بیمار ہے تو اس کے صحت مند ہونے تک بھی حد موخر کی جائے گی۔ حد کا آغاز قاضی کرے گا اور اگر گواہوں سے جرم ثابت ہوا ہے تو گواہ بھی حد کے اجرا میں شریک کار ہوں گے جبکہ باقی ماندہ سزا جلاد سے پوری کرائی جائے گی۔ مسجد میں حدود جاری کرنے کی اجازت نہیں اس عمل کے لیے ضروری ہے کہ کھلے عام جگہ پر ہو اور عوام الناس اس کیفیت کا نظارہ کریں تاکہ سزا اور بدنامی کا خوف لوگوں کو اس جرم سے باز رکھنے میں اپنا کردار ادا کر سکے۔ دور نبوت میں کوڑوں کی کوئی خاص تعداد مقرر نہ تھی اور شرابی کو جوتوں، ڈنڈوں اور سخت کپڑوں سے مارا پیٹا کرتے تھے۔

حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اپنی خلافت کے ابتدائی دور میں نشے کی حالت میں پائے جانے والے شخص کو جسے کسی بھی چیز سے نشہ ہوا ہو اسے چالیس کوڑے مارتے تھے، لیکن اپنی خلافت کے آخری ایام میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک خاص واقعہ کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مشورے سے اس جرم کی سزا اسی کوڑے جاری کر دی۔ واقعہ یہ ہے کہ حضرت خالد بن ولید نے ابو افرہ کلبی کوحضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجا، اس وقت حضرت عمر رضی اللہ عنہ مسجد میں تھے اور ان کے پاس حضرت عثمان رضی اللہ عنہ، حضرت علی رضی اللہ عنہ، حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ، حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ اور حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ بھی موجود تھے۔ ابو افرہ کلبی نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ لوگ بکثرت مے نوشی اختیار کرتے جا رہے ہیں اور سزا کو کم سمجھ رہے ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ سب بیٹھے ہیں ان سے دریافت کر لو، حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ہماری رائے یہ ہے کہ آپ شراب نوشی کی سزا اسی (80) کوڑے مقرر کر دیں کیونکہ جب کوئی آدمی شراب پیتا ہے تو اسے نشہ ہوتا ہے اور نشہ میں ہذیان بکتا ہے اور لوگوں پر تہمت لگاتا ہے اسی لیے تہمت کی سزا ہی شراب نوشی کی سزا مقرر کر دیں جو کہ 80 کوڑے ہے۔ چنانچہ اس رائے کے مطابق حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے شراب نوشی کی سزا 80 کوڑے مقرر کرنے کا فرمان جاری کر دیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس لیے بھی 80 کوڑے مقرر کی کہ حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ شراب نوش کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جوتیوں کے چالیس جوڑے مروائے، اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ہر جوتی کی جگہ ایک کوڑا مقرر کیا۔ شراب نوشی کے ساتھ اگر کوئی اور جرم بھی جمع ہو جاتا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ اسکی سزا بھی حد کے ساتھ جمع کر دیتے، جیسے انہوں نے اپنے بیٹے عبدالرحمن پر حد کے ساتھ تعزیر بھی جمع کی۔ ایک مرتبہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے رمضان کے دوران مے نوشی پر ایک شخص کو اسی درے شراب نوشی کے اور بیس کوڑے رمضان کی بے حرمتی کے بھی لگائے۔ جو شخص جتنی مرتبہ شراب پئے گا اتنی مرتبہ ہی اس پر حد جاری کی جائے گی۔ چنانچہ ابومحجن ثقفی نے آٹھ مرتبہ شراب پی اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس پر آٹھ مرتبہ ہی حد جاری فرمائی۔

شرابی پر اس وقت حدجاری ہو گی جب اسکا نشہ اتر جائے گا اور کوڑے جو مارے جائیں گے وہ زیادہ شدید نہیں ہونے چاہئیں بلکہ ہلکے لیکن درد پہنچانے والے ہوں۔ چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس ایک شخص لایا گیا جس نے شراب چڑھائی ہوئی تھی۔ آپ نے فرمایا کہ میں تجھے ایک ایسے شخص کے پاس بھیجتا ہوں جو تیرے ساتھ کوئی نرمی نہیں کرے گا۔ چنانچہ اسے مطیع بن اسود عدوی کے پاس بھیج دیا گیا اور ان سے کہا کہ اگلے دن صبح اس پر مے نوشی کی حد جاری کر دینا۔ چنانچہ اگلے دن حضرت عمر رضی اللہ عنہ خود گئے تو دیکھا کہ وہ اس مے نوش کو سخت قسم کے کوڑے مار رہے ہیں، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا کتنے مارے جا چکے ہیں جواب دیا کہ ساٹھ، حضرت عمر نے حکم دیا اس کوڑے کی شدت کے سبب باقی بیس چھوڑ دو۔ شراب نوشی کی حد میں چالیس کی بجائے اسی کوڑوں کا تقرر چونکہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں ہوا اس لیے بعض فقہاء ان اضافی چالیس دروں کو تعزیر کا مقام دیتے ہیں تاہم جمہور علمائے امت کل اسی کی تعداد کو ہی حد گردانتے ہیں کیونکہ اس تعداد پر صحابہ کرام کا اجماع واقع ہوا ہے اور جس مقدس گروہ سے جمع و تدوین قرآن میں کسی غلطی کا احتمال نہیں ہوا تو کیا اس گروہ سے دیگر معاملات میں غلطی کے احتمال کے امکان سے قرآن مجید کی صحت مشکوک ہو سکتی ہے۔

شراب کی حرمت کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں لیکن بنیادی وجہ جو فوری طور پرانسانی ذہن میں وارد ہوتی ہے وہ جملہ امور سے غفلت ہے کہ ایک شخص کے نشہ میں آتے ہی اس پر اس حد تک غفلت سوار ہو جاتی ہے کہ وہ امور دینی و امور دنیاوی سے یکسر غافل ہو جاتا ہے اور یہ امر شریعت کو کسی طور بھی قبول نہیں۔ اسی طرح جس جس کام سے بھی انسان غفلت میں جا گرے اس سے شریعت نے کراہت کا اظہار کیا ہے اسے ’’لہوالحدیث‘‘ کہا گیا ہے کہ جس کام کا کوئی مقصد نہ ہو اور جو کام عادت ثانیہ بن جائے اور اس کے بغیر انسان کا گزارہ نہ چل سکے اور وہ نشہ کی حد تک جا پہنچے اس سے علمائے حق سختی سے منع کرتے ہیں کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ہر نشہ آور چیز حرام ہے۔ اور جس چیز کی کثیر مقدار نشہ دے اس کی قلیل مقدار بھی حرام کر دی گئی ہے تاکہ اس طرف جانے والے دروازے ہر طرح سے بند کر دیے جائیں اور انسانوں کو ذمہ دار کی حیثیت سے زندگی گزارنے کی تعلیم و ترغیب دی جائے۔ موسیقی، چیٹنگ، ٹیلی ویژن بینی، ہر وقت کی دوستیاں، فضول اور بے مقصد گپ شپ، کیرم، تاش، شطرنج اور اس طرح کے دیگر مشاغل جو وقت کے ساتھ ساتھ انسانی معاشروں میں در آئیں گے اور براہ راست یا بالواسطہ نشہ کا باعث بنیں گے ان کے جائز یا ناجائز ہونے میں تو کلام ہو سکتاہے لیکن اگر یہ اس حد تک بڑھ جائیں کہ نشے کی حدود کو چھونے لگیں اور ان کے بغیر زندگی کا تصور محال ہو جائے اور ان میں بہت زیادہ مشغولیت دیگر حقوق و فرائض سے غفلت کا موجب ہو نے لگے تو یہ بھی قیاساََ نشے کے زمرے میں آ جائیں گے اور ان سے بچنا اور بچنے کی ترغیب دینا اور اپنی اولاد پر اس معاملے میں سختی کرنا عین فرائض دینیہ میں داخل ہو جائے گا۔

٭٭٭٭٭