دروس سلوک و تصوف درس : 46 (گذشتہ سے پیوستہ)

صاحبزادہ مسکین فیض الرحمان درانی

خود ساختہ پیروں کی ایک خطرناک قسم سیاسی جاگیردار پیروں کی ہے۔ جن کیوجہ سے برصغیر پاک و ہند میں قدیم خانقاہی نظام کو شدید نقصان پہنچا اور مسلمانوں کی ایک کثیر تعداد گمراہی کا شکار ہو گئی۔ برصغیر میں انگریز حکومت کے قیام کے بعد سیاسی پیروں نے، جن کا حقیقی زمرہ مشائخ و صالحین سے دور دور تک کوئی تعلق نہ تھا، سامراجی آقاؤں کے کہنے پر اپنے مریدوں کو حقیقی اسلامی عقائد و تعلیمات، معیاری دین اور معمول بہ دین سے دور رکھنے کے لیے ایک ایسے تخیّلاتی اسلام کے دامِ فریب میں پھنسا دیا کہ جو حقیقی عملی اسلام کے برعکس شرکیہ عقائد کی ترویج پر مبنی تھا۔ اللہ کی وحدانیت اور توحید پر کامل ایمان کی بجائے مُرید پیروں کو اپنا ان داتا سمجھنے اور شرک کا کھلم کھلا ارتکاب کرنے لگے۔ اسی سامراجی منصوبہ کے تحت انگریز سرکار نے اپنے بعض ملازمین کو جھوٹے نبی اور مجدد بھی بنا دیا جو بعد میں عالم اسلام کے لیے ایک بہت بڑے فتنہ کی صورت میں ظاہر ہوا۔ اسی طرح سرکار کی اشیرداد سے بعض لوگ صوفیاء کا بہروپ بھر کر سرکاری پیر بن کر مختلف مساندِارشاد پر قابض ہو گئے۔ دین اسلام کی حقیقی اشاعت و ترویج اور اسلامی اقدار کی حفاظت کرنے والے حرّیت پسند مشائخ اور مجاہد پیرانِ عظام کی ایک کثیر تعداد جنگ آزادی کے وقت سامراجی قوتوں کے ساتھ جہاد کرتے جامِ شہادت نوش کر چکی تھی۔ ان اہل ایمان جسور اور غیّور مشائخ عظام کا تعلق صاحبان ِ عزیمت سے تھا، کفر و اسلام کی اس جنگ میں بعض مشائخ نے رخصت کا راستہ اختیار کر کے دارالکفر سے ہجرت کی اور دور دراز علاقوں میں سکونت اختیار کر کے دین مبین کی ترویج اور حفاظت کا فریضہ سر انجام دینے لگے۔ لیکن وہ بُودے، جہاد سے منہ موڑنے والے کمزور، بے عمل اور دنیا سے محبت کرنے والے موروثی سجادوں اور گدیوں والے پیر کہ جو صاحبانِ عزیمت اور نہ ہی صاحبان رخصت ہوئے انہوں نے سامراجی دربار کاحاشیہ نشین بننے کو ترجیح دی اور سرکارِ برطانیہ کی خدمت گزاری کر کے سرکاری پیر بن گئے۔ اس طرح کے مراعات یافتہ پیر مستقل طور پر حکومت برطانیہ کی سرپرستی میں زندگی بسر کرنے لگے۔ برطانوی سامراج کے وظیفہ خوار بننے کے بعد ان کی وفاداری پر سرکار برطانیہ نے ان کو بڑی بڑی جاگیروں سے نوازا۔ نمک حلالی کا حق ادا کرتے ہوئے یہ پیر اپنے مریدوں اور جاگیروں پر رہنے والے مزارعوں کو حکومت برطانیہ کی فوج میں بھرتی کرتے اور سامراجی قوتوں کو افرادی قوت فراہم کرنے کا بہت بڑا ذریعہ بنتے تھے۔ سرکار برطانیہ کے وفادار پیروں کے جاہل مرید اپنے پیروں کے کہنے کو خدائی حکم سمجھ کر سامراج کی خدمت گزاری کرتے اور ہندوستان کے مسلمانوں اور حریت پسندوں کا خون بہانے میں پیش پیش رہتے تھے۔ ان خدمات کے عوض برطانوی حکمران گاہے گاہے اپنے وفادار پیروں کے سرکاری مراتب بڑھاتے رہتے تھے گویا ان دِنوں پیری مریدی کی گنگا الٹی بہنی شروع ہو گئی تھی۔ سرکاری پیروں کے مرید اپنے ہم وطن اور ہم مذہب مسلمانوں کے خلاف لڑنے کی وجہ سے اپنے پیروں کے سرکاری درجات کی بلندی کا وسیلہ بنتے تھے۔ ان جاگیردار پیروں کے سیاسی تعلقات اپنے غیر ملکی آقاؤں کے ساتھ جس نوعیت کے تھے اورجس طرح وُہ اپنے غیر ملکی پیروں کے آگے سجدہ تعظیمی بجا لاتے، جبین سائی کرتے تھے یہ تاریخ اسلام اور آزادی ہند کا ایک عبرت ناک، سیاہ اور گھناؤنا باب ہے۔ تاریخ اور سیاست کی کتابیں اور برطانوی حکمرانوں کے گزیٹیئرز سیاسی پیروں کی خدمت گزاری کے واقعات سے بھرے پڑے ہیں۔ برصغیر میں سیاسی پیروں نے سامراج سے تاحیات کس قسم کی مراعات حاصل کیں اور ملک و ملت کے ساتھ غداری کے کون سے باب رقم کئے۔ یہ ہندوستان میں پیری مریدی کی شرمناک ایک سیاہ تاریخ تو ہے لیکن دروس سلوک و تصوف میں ہمیں ان پر زیادہ وقت صرف کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ان سطور کے ذریعے ہمارا مقصد جاگیردار اور سیاسی پیروں کا دم بھرنے والے مریدوں کو صرف یہ آگہی دینی ہے کہ انگریز کے دور حکومت میں سامراج کی مریدی سے بننے والے پیر سر زمین پاک و ہند پر آج بھی اُسی طرح موجود ہیں یہ لوگ انگریز کی دی ہوئی وسیع و عریض جاگیروں اور زمینوں کے اسی طرح مالک ہیں۔ مختلف القابات اور ناموں سے ہندوستان میں یہ لوگ کل بھی پیر سائیں تھے اور آج ملک عزیز پاکستان میں بھی انہی القابات سے یاد کئے جاتے ہیں۔ پاکستان کے بڑے بڑے سرمایہ داروں، زمینداروں، کارخانہ داروں، جاگیرداروں اور سیاستدانوں میں پیروں کا یہ مخصوص طبقہ typical paranoiac class) ( سرفہرست ہے۔ پاکستان میں بننے والی دائیں یا بائیں بازو والی ہر حکومت میں یہ لوگ سب سے پہلے شامل ہوتے ہیں۔ سیاسی پارٹیاں اور حکومتیں ان کے دم قدم سے بنتی بگڑتی ہیں اور اسی نسل کے لوگ اپنے مریدوں اور مزارعوں کی طاقت کے بل بوتے پر سفیر مشیر وزیر بنتے رہتے ہیں لیکن ایک بات بالکل واضح اور پتھر پر لکیر ہے کہ ان سیاسی جاگیر دار پیروں سے اسلام کی علمداری قائم ہونے کی توقع کی جا سکتی ہے اور نہ ہی دین مبین کی کوئی اشاعت اور تبلیغ ان کے ذریعے ممکن ہے۔ ان سب حقائق کے علی الرغم ان پڑھ اور جاہل مریدوں کے لیے یہ پیر سائیں بد قسمتی سے آج بھی عام انسانوں سے بالکل الگ غیر مرئی اور مافوق الفطرت ہستیاں ہیں۔ دین اور مذہب کے حوالہ سے اس قسم کے پیر سائیں نرے ان پڑھ اور جاہل ہوتے ہیں۔ لیکن مریدوں کے ذہن میں یہ اللہ کے اوتار اور ایک خاص ماورائی مخلوق ہیں۔ مرید ان کے آگے بہت فخر سے جبین سائی کرتے اور سجدہ تعظیمی بجالانے کے لیے جھکے رہتے ہیں اور ان کو ہی اپنا والی وارث سمجھتے ہیں۔ یہ مریدوں کی جان و مال، عزت و آبرو اور ان کی رُوح تک کے مالک ہوتے ہیں۔ ان کے بڑے بڑے محلات، شاندار کوٹھیاں اور لمبی چوڑی گاڑیاں مکافات العمل کی اس دنیا میں ان کے اعلیٰ روحانی مراتب کی مظاہرسمجھی جاتی ہیں۔ جاہل اور ان پڑھ خاندانی مرید ان کی زیارت کے لیے مدتوں تڑپتے رہتے ہیں لیکن یہ ماورائی مخلوق مریدوں کو بہت کم اپنی زیارت سے مشرف باد کرتے ہیں۔ جب ان کی سیاہ شیشوں والی لمبی چمکدار گاڑیاں محافظین کے کھلی چھتوں والے سرف ڈالوں کے جلو میں شوق زیارت میں گھنٹوں سڑک کے کنارے کھڑے انتظار کرتے مریدوں کے سامنے دھول اڑاتی گزرتی ہیں تو مُرید ان کے پہیوں سے لگی مٹی کو اٹھا کر بڑی عقیدت سے سر آنکھوں پر لگاتے ہیں، وُہ مرید اپنے حلقہ میں زیادہ خوش قسمت تصور کیے جاتے ہیں جن کے ہاتھ اس پَوتِر مٹی کو چھولینے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ مُرید اس مٹی کو اٹھا کر چادر کے پلو میں بڑی احتیاط سے باندھ کر دور پرے دیہاتوں میں بسنے والے اپنے بیمار والدین اور بیوی بچوں کو بطور امرت دھارا چٹانے کے لئے ساتھ لے جاتے ہیں۔ دینی تعلیمات سے نابلد پاکستانی عوام کی ایک بہت بڑی تعداد اس گمراہ عقیدت کی شکار ہے۔

ان جاگیردار سیاسی پیروں کی نجی زندگی مغربی دنیا میں رہنے والے لوگوں سے بھی زیادہ ماڈرن ہوتی ہے۔ ان کی تعلیم، لباس، زبان، وضع قطع اور رہن سہن کلیتاً انگریزوں جیسا اور ان کا گھریلو اور معاشرتی ماحول پوری طرح مغرب زدہ ہوتا ہے۔ دین اور مذہب سے دور دور تک ان کا کوئی تعلق نہیں ہوتا ہے۔ نماز، روزہ، زکوۃ، حج یا دیگر ارکان اسلام کی خود پابندی کرنا یا اپنے مریدوں سے اس کی پابندی کرانا ان کی سرشت میں ہوتا ہے اور نہ شریعت میں۔ رشد، ہدایت، تعلیم و تلقین اور مریدوں کی روحانی تربیت تو دور کی بات، یہ اپنے بچوں کو بھی دین سے دور رکھتے ہیں اور مغربی تعلیم کے حصول کے لیے اکثر بیرون ملک بساتے ہیں۔ دین اسلام کے ارکان اور شریعت کی پابندی ان کے نزدیک جہالت اور پسماندگی کی علامت ہوتی ہے۔ سال بھر میں ایک دفعہ البتہ یہ لوگ اپنی زندگی کا سب سے اہم مذہبی فریضہ اس وقت ادا کرتے ہیں جب یہ اپنے خاندان کے سب سے بڑے بزرگ کے مزار کو عرق گلاب سے غسل دیتے ہیں۔ اس وقت یہ سیاسی پیر اپنے مبارک ہاتھوں پر دستانے چڑھا کر بزرگوں کے مراقد کو دھوتے ہیں۔ قبر پر نئی چادر ڈالتے ہیں۔ اور اس پر تازہ گلاب کے پھولوں سے گل پاشی کرتے ہیں۔ پیر سائیں کا سال بھر میں یہ سب سے بڑا واحد دینی اور مذہبی فریضہ ہوتا ہے۔ یہ وُہ متبرک اور مقدس دِن ہوتا ہے جس میں پیر سائیں کی کرامت سے اس کے بینک بیلنس میں کئی گنا اضافہ ہو جاتا ہے۔ مرید کے لیے بھی یہ وہ مبارک دن ہوتا ہے جب وُہ اللہ کے ہاں سرفرازی کے لیے پیر سائیں کے قدموں میں اپنی دولت نچھاور کرتا ہے۔ لیکن اسی مرید کے لیے حقیقی خانقاہی نظام کی اشاعت و ترویج یا درگاہ سے متعلق فقراء اور مساکین کی فلاح و بہبود کے لیے اپنی دولت میں سے کچھ خرچ کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ درگاہوں پر رکھے بھاری بھر کم آہنی صندوق مریدوں کی دولت سے لبا لب بھر جاتے ہیں۔ پیر سائیں کے لیے سال بھر کا راشن جمع کرنا مرید کا فرض اولین ہوتا ہے۔ لیکن ان سیاسی جاگیر دار پیروں کے پیٹ کا کنواں اپنی وسیع و عریض جاگیروں اور زمینداریوں کی طرح اتنا گہرا، ڈُونگا اور عمیق ہوتا ہے کہ اس کے اندر بہت کچھ ہونے کے باوجود بھی وُہ کبھی نہیں بھرتا۔ یہی وجہ ہوتی ہے کہ سیاسی حکومتوں میں وزارتوں اور مناصب کے ملتے ہی پیر سائیں اور ان کے بال بچے یعنی چھوٹے پیر سائیں، ان کے قرابتدار اور دوست احباب ریاست کے نادار اور غریب عوام کو مرید سمجھ کر ان کے ٹیکسوں سے جمع ہونے والی دولت پر اس طرح ٹوٹ پڑتے ہیں جیسا گدھ کسی مردار پر منہ ماری کرتے ہیں۔ دولت جمع کرنے کی اس مہم میں پیر سائیں اور ان کے بیوی بچوں کے ایسے عجیب و غریب سکینڈل بھی منظر عام پر آتے ہیں کہ اگر وہ خدانخواستہ کسی عام غیر تمند مسلمان کے ہوں تو وہ شرم سے اسی وقت ڈوب کر مر جائے لیکن سیاسی پیروں کو ان سیکنڈلز بارے پہلے سے یہ الہام ہو چکا ہوتا ہے کہ یہ سب سکینڈلز جھوٹے اور ان کے سیاسی مخالفین کا ڈھونگ ہیں جو ان کی سیاسی ساکھ کو نقصان پہنچانے کے لیے رچائے جاتے ہیں۔ لہذامریدوں اور عوام الناس کو ان پر کان دھرنے کی ضرورت نہیں ہونی چاہیے۔ الامان و الحفیظ! جب یہ سیاسی پیر حکومت میں بر سرِ اقتدارنہیں ہوتے تو اپنی جاگیروں اور زمینداری میں رہنے والی رعایا پر حکومت کرتے ہیں اور جب مسند آرائے سلطنت ہو جاتے ہیں تو پورے ملک کی عوام ان کی مرید، رعایا اور غلام بن جاتی ہے۔ ان جیسے سیاسی پیروں نے خانقاہ اور طریقت کے حقیقی روحانی نظام کو بری طرح تباہ کر دیا ہے۔ یہ اپنے مریدوں اور زیر اثر مزارعوں کو دین، ایمان اور اسلام سے دور رکھنے والے لوگ ہوتے ہیں۔ ان سے وابستہ ہونا دین کی بنیادوں کو کھوکھلا کر دینے کے مترادف ہوتا ہے۔

میراث میں آئی ہے انہیں مسندِارشاد
زاغوں کے تصرّف میں عقابوں کے نشیمن

متقی اور بزرگ پیران عظام طریقت اور تصوّف کو ورثہ انبیاء سمجھتے ہیں اور خانقاہی نظام کی حقیقی حفاظت کے لیے شریعت اور طریقت کو باہم لازم و ملزوم سمجھتے ہوئے سب سے پہلے ان کا اطلاق اپنے آپ، اہل خانہ اور اپنی اولاد پر کرتے ہیں۔ یہ نیک بزرگ اوائل عمر سے اپنی اولاد کی دینی اور روحانی تربیت کا مناسب اہتمام کرتے ہیں اور ان کی نگرانی اور احتساب کا فریضہ خود سر انجام دیتے ہیں۔ وہ ہر طرح اپنی اولاد، اہلخانہ اور نزدیکی قرابتداروں کی تعلیم و تربیت کا خیال کرتے ہیں اور ان کو اسلامی معاشرے کا سودمند فرد بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اسلام اخلاق حسنہ کی ترویج کا دین ہے۔ ایک اچھے مسلمان کی پہچان اس کے اچھے اخلاق، کردار اور دین کے ارکان پر عمل کی پابندی سے ہوتی ہے۔ اولاد حقیقت میں والدین کا ثمر اور پہچان ہوتی ہے۔ نیک اور صالح بزرگ پیروں کی اولاد میں ایسے پڑھے لکھے تعلیم یافتہ صاحبزادگان خانقاہی نظام کے لیے بلاشبہ نعمت غیر مترقبہ ہوتے ہیں۔ جو دینی اور عصری تعلیم کے علاوہ سلوک و تصوف کی مناسب تعلیم سے بھی آراستہ اور باقاعدہ تربیت یافتہ ہوتے ہیں۔ اپنے بزرگوں اور نیک والدین کو دیکھ دیکھ کر وُہ اوائل عمر سے اپنی انفرادی اصلاح کی جانب متوجہ ہوتے ہیں۔ ان کا وراثتی تعلق بزرگوں کے مزارات اور درگاہوں سے ہوتا ضرور ہے لیکن وُہ اس تعلق کو ذریعہ معاش نہیں بناتے۔ عامتہ الناس کی طرح تجارت، کاروبار یا ملازمت سے اکل حلال کماتے ہیں۔ خاموشی سے دینی فرائض ادا کرتے ہوئے طریقت کی راہ پر گامزن رہتے ہیں۔ اور معمول کے مطابق بالکل نارمل لوگوں کی طرح زندگی بسر کرتے ہیں۔ یہ لوگ خبط العظمت کی بیماری کا شکار نہیں ہوتے۔ بزرگوں کی درگاہوں سے متعلق جو افراد ان سے دینی تعلق اور تمسک رکھنے کی خواہش رکھتے ہیں تو یہ ان کی دینی اور روحانی تربیت کو فرض سمجھ کر پورا کرتے ہیں۔ یہ اپنے زیر اثر افراد کے اصلاح ِ احوال پر توجہ دیتے ہیں اور مناسب تربیت کر کے ان کو ایسا باکردار مسلمان اور اچھا شہری بنانے کی کوشش کرتے ہیں کہ جو اسلامی معاشرے کے لیے سود مند ہوں۔ یہ بے جا شہرت اور دکھاوے سے پرہیز کرتے ہیں اور عام پیروں کی طرح مریدین کا جم غفیر بنانے کے عمل سے دُور رہتے ہیں۔ اپنے بارے انکساری سے کام لیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ان سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی اگر کسی طور اصلاح ہو جائے تو اللہ کی بارگاہ میں ان کا یہ عمل ان کی اپنی عاقبت سنوارنے کا ذریعہ ہو سکتا ہے۔ ایسے نیک خصلت صاحبزادگان با عمل، متقی اور پرہیز گار ہوتے ہیں۔ ان کو ہر وقت عاقبت کی فکر ہوتی ہے۔ ان کی معیت اختیار کرنا سعادت کا باعث ہوتا ہے۔

پیروں کے گروہ میں بعض پیر پتوں کی مانند ہوتے ہیں۔ ان کا یہ نام اس لیے مشہور ہو گیا ہے کہ ابتدائی ضروری تعلیم وتربیت حاصل کرنے کے بعد وہ جب اس قابل ہوتے ہیں کہ رموز طریقت سے آشنائی کے بعد عاملین خیر کے گروہ میں داخل ہونے کی تیاری کریں۔ خطرات کا سامنا کر یں۔ آزمائشوں کے دریا میں تیرنے کی صلاحیت حاصل کریں اور مزید ریاضت اور مجاہدہ اس لئے کریں کہ اس منزل کو پا سکیں کہ جس کے لیے وُہ اس وادی عمل میں داخل ہوئے تھے۔ مرشِد کی نگاہ میں یہ لوگ البتہ ابھی پوری طرح عامل اور کامل نہیں ہوتے اور ان کو مزید تربیت حاصل کرنے کی ضرورت ہوتی ہے شومئے قسمت سے ھنوز ناپختہ یہ مرید عجلت میں شیخ کامل کی اجازت کے بغیرخود پیر بننے کے چکر میں کسی جگہ ڈیرہ جما کر بیٹھ جاتے ہیں شہرت، دولت، عزت اور جاہ و منزلت کے چکر میں نفس اور شیطان سے دھوکہ کھا جاتے ہیں۔ عملِ احسان میں ناپختگی کی بناء پر اپنے گرد جمع ہونے والے مریدوں کو خطرات کے دریا سے پار اتارنے کی صلاحیت سے ہنوز عاری اور ان کی خاطر خواہ تربیت سے قاصر تو ہوتے ہی ہیں پیرانہ بزرگی، مریدوں کی اطاعت و فرمانبرداری کی وجہ سے فتوت روحانی کی بجائے دنیوی فتوحات کی لذتوں میں ایسے گم ہو جاتے ہیں کہ اپنی منزل سے بہت پیچھے رہ جاتے ہیں۔ لہذا اس طرح عجلت میں بننے والے پیروں سے کسی کو روحانی فائدہ ملنے کی توقع فضول ہوتی ہے۔ یہ ساری عمر دریا کی لہروں پر پتے کی مانند ڈولنے والے لوگ ہوتے ہیں اور منزل کی جانب یکسوئی سے سفر کرنے سے محروم رہ کر گردابِ زندگی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ آخرت کی جانب ان کی ترقی لذات اور شہوات کی کثرت کی وجہ سے رک جاتی ہے۔ ان کی ساری زندگی دنیا اور آخرت بارے ابہام و تشکیک کی نذر ہو جاتی ہے۔ واضح رہے کہ مرشد کامل کی اجازت سے بیعت کرنے کی اجازت مدرسہ سے حاصل ہونے والی اس سند کی مانند ہوتی ہے کہ جو تعلیم کی تکمیل اور اہلیت کی سند مانی جاتی ہے۔ سند حاصل کرنے کے بعد اگر کوئی شخص تحصیلِ علم، درس و تدریس اور تعلیم و تعلم کے مشغلہ میں مشغول رہے تو علوم میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ اور اگر تعلیم و تعلم اور درس و تدریس کو چھوڑ کر بے سند پیری مریدی شروع کر دے تو تحصیل علم سے مناسبت چلی جاتی ہے۔ یہ امر بھی پیش نظر رہے کہ اجازت شیخ دلیل مناسبت ہوتی ہے دلیل کمال نہیں۔ کمال کے لیے صدق و اخلاص سے عمل پیہم اور شیخ کامل سے مسلسل رابطہ لازم ہوتا ہے۔

مشائخ عظام اور پیران طریقت کی تیسری قسم کا تعلق مرشِدین کرام کے اس قبیل سے ہوتا ہے۔ جو اپنی دینی تعلیم و تربیت، سلوک و تصوّف میں اہلیت اور تربیتی صلاحیتوں کی بنا پر ’’مسند رشد و ہدایت‘‘ کے حقیقی ورثاء ہوتے ہیں، قرآن و سنت سے واقف یہ بندگان خدا اعلیٰ درجہ کے تعلیم یافتہ ہوتے ہیں۔ ایک مضبوط سفینے کی مانند یہ خود بھی دریائے معرفت میں تیرتے رہتے ہیں اور اپنے طالب علموں اور مریدوں کو بھی عمل و آزمائش کے دریا میں تیرنا اور پار اترنا سکھاتے ہیں۔ شطحیات سے پر ہیز کرنے والے یہ تربیت یافتہ افراد شریعت کے قواعد و ضوابط کی پابندی کرنے والے محتاط افراد ہوتے ہیں۔ ان کا شمار حقیقی معلّمینِ تصوف میں ہوتا ہے۔ یہ تصوّف اور طریقت کے مدرسہ سے نہ صرف خود تربیت یافتہ ہوتے ہیں بلکہ اپنے متعلمین اور مریدوں کی تعلیم و تربیت کا بھی مناسب بندوبست کرتے ہیں۔ یہ قدیم خانقاہی نظام کے داعی اور حقیقی صاحبان رشد و ہدایت ہوتے ہیں۔ امت کی اصلاح احوال کے لیے یہ اپنے آپ کو ذمہ دار سمجھتے ہیں اور اپنی ذمہ داری کو پورا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ شیخ کامل کے اوصاف اور اعمال کے ضمن میں ہم گذشتہ درس میں گفتگو کر چکے ہیں۔ دروس سلوک و تصوف میں مناسب وقت اور موقع پر ہم ان اصحابِ باصفا کے مواعظ اور ملفوظات سے بحمداللہ تعالیٰ مستفید ہوتے رہیں گے کہ یہی اصلِ تصّوف ہے۔