احیاء دین اور تحریک منہاج القرآن

غلام مرتضیٰ علوی

(گزشتہ شماروں میں تحریک منہاج القرآن کے مقاصد اورخدمات کی وضاحت میں مضامین کاسلسلہ جاری تھا اس سلسلہ میں نئی تحریر)

کائنات ارض وسماء میں ہر شے تغیر پسند ہے۔ زمین آسمان پہاڑ سمندر چرند پرند انسان حیوانات تمام مخلوقات ہر لمحہ تبدیلی کے عمل سے گزر رہی ہیں۔ حتی کہ جامد ترین اشیاء کے اجزاء جیسے ایٹم، مالیکیول بھی ہر لمحہ حرکت میں رہتے ہیں بقول شاعر : ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں

یعنی تبدیلی ایک ایسا عمل ہے جس کو دوام حاصل ہے۔ ساری کائنات کی طرح انسانی علم بھی ہر لمحہ ترقی کی منازل طے کر رہا ہے۔ ہر دور میں علم کی ترقی کے ساتھ انسانی رویے کردار وعمل ضروریات اور تقاضے بدل جاتے ہیں۔ دنیا میں وہی قومیں زندہ رہتی ہیں جو نئے دور کے تقاضوں کے مطابق اپنے آپ کو ڈھال لیتی ہیں جب کہ نئے دور کے تقاضوں سے منہ موڑنے والی اقوام زمانے کی دوڑ سے پیچھے رہ جاتی ہیں۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ تبدیلی کے سیلاب میں بہہ جانے والی اقوام اپنی شناخت، تشخص اور اقدار بھی کھو دیتی ہیں لہذا وہی تہذیبیں زندہ رہتی ہیں جو اپنی ثقافت کی حفاظت بھی کریں اور نئے دور کے تقاضوں کے مطابق ترقی کی دوڑ میں شامل بھی رہیں۔

دین اسلام دین فطرت ہے اور اس نے قیامت تک انسانیت کی رہنمائی کرنی ہے۔ اسلام کی تعلیمات اس قدر جامع اور اکمل ہیں کہ یہ ہر دور کے چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کی اہلیت رکھتا ہے۔ اسلام جہاں تقلید کے ذریعے اپنی بنیادی اقدار کو نئے نسلوں میں منتقل کرتا ہے وہاں قیاس اور اجتہاد کے دروازے بھی ہمیشہ کھلے رکھتا ہے۔ دین اسلام خود چونکہ سراپا علم ہے لہذا یہ نہ صرف ہر دور کے مسائل کا حل پیش کرتا ہے بلکہ تحقیق کی راہیں بھی متعین کرتا ہے۔

تجدید دین کی ضرورت واہمیت

ایک صدی کے عرصے میں تقریباً 4 نسلیں بدل جاتی ہیں۔ زمانے کی تیز رفتار ترقی کے ساتھ نسلوں تک تہذیب وثقافت کو بچائے رکھنا اور نئے دور کے چیلنجز کا مقابلہ بھی کرنا ایک مشکل امر ہے لہذا اللہ رب العزت نے قیامت تک دین اسلام کوایک زندہ اور قابل عمل دین رکھنے کے لیے حضور کی امت پرخاص کرم فرمایا اور وہ یہ کہ اللہ رب العزت ہر صدی کی ابتداء میں ایک مجدد بھیجتا ہے جو کہ دین کی تجدید کرتا ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

إِنَّ اﷲَ جلَّ جَلَالُهُ يَبْعَثُ لِهَذِهِ الْأُمَّةِ عَلَی رَأْسِ کُلِّ مِائَةِ سَنَةٍ مَنْ يُجَدِّدُ لَهَا دِيْنَهَا.

(ابوداود، کتاب : الملاحم، باب : ما يذکر فی قرن المائة، 4 / 109، الرقم : 4291)

’’اللہ تعالیٰ اس امت کے لئے ہر صدی کے آخر میں کسی ایسے شخص (یا اشخاص) کو پیدا فرمائے گا جو اس (امت) کے لئے اس کے دین کی تجدید کرے گا‘‘۔

اسلام کو 14 سو سال سے زندہ رہنے اور دنیا میں سب سے زیادہ Practicing مذہب ہونے کا اعزاز حاصل ہے اس کا ایک بڑا سبب اللہ رب العزت کا ہر صدی میں ایک مجدد کو پیدا کرنا ہے۔ جو صدی بھر کے لیے دین کو زندہ اور قابل عمل حقیقت ثابت کرتا ہے۔

دور حاضر میں تجدید دین کی ضرورت

آج سے 30 سال قبل جب ہم اپنے معاشرے کا جائزہ لیتے ہیں تو ایک طرف اسلام کی سیاسی، معاشی، معاشرتی، اخلاقی اقدار کمزور ہوتی ہوئی دیکھائی دیتی ہیں تو دوسری طرف اندرونی اور بیرونی فتنوں کی یلغار اس قدر طاقتور تھی کہ مذہبی طبقہ اپنی بقا کی جنگ میں مصروف عمل تھا۔ اندرونی سطح پر ملکی فرقہ واریت نے مسلمانان برصغیر کو دست وگربیاں کر رکھا تھا۔ تو بیرونی سطح پر فتنہ قایادنیت اور خارجیت مسلمانوں کے دلوں میں نفرت اور تفرقہ کی آگ جلا رہا تھا۔ ایک طرف قدیم نصاب تعلیم اور طریقہ تدریس نے تقلید کا ایسا جامد تصور بیش کیا تھا کہ علم و تحقیق کی راہ اختیار کرنا جرم قرار پا گیا اور دوسری طرف معاشرے میں تنگ نظری اور انتہا پسندی کو اس قدر فروغ ملا کہ ہر طبقہ اور مسلک دوسروں پر کفر وشرک کے فتوے لگانے لگا۔

بیرونی طاقتوں نے کبھی جہاد افعانستان کے نام پر اور کبھی دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر نہ صرف پوری عسکری اور سیاسی قیادت کوبلکہ پوری قوم کو قتل و غارت گری کے ایک عذاب میں مبتلا کر دیا تھا۔ اسلام کے تصور جہاد کو مسخ کر دیا گیا۔ بین المذاہب رواداری کا خاتمہ ہوگیا۔ دنیا تہذیبی تصادم کے کنارے پر پہنچ چکی تھی۔

ایسے میں ضرورت تھی ایک مجدد فرد اور مجددانہ تحریک کی جو علم و تحقیق سے قدیم روایات کے حامل طبقے کو زمانے کی دوڑ میں شامل کرے اور زمانے کی رفتار کے ساتھ دوڑنے والے طبقے کو دلائل کی قوت کے ساتھ اسلام کی ثقافت ایسے پیش کرے کہ وہ طبقہ 14 سو سال پہلے کے معاشرے کی اقدار کو اپنی زندگی کا سرمایہ سمجھنے لگے۔

تحریک منہاج القرآن اور تجدید دین

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے امت مسلمہ کے انہی مسائل کے حل کے لیے اسلام کے ہر ہر پہلو پر تجدید و احیاء دین کا فریضہ سرانجام دینے کے لئے تحریک منہاج القرآن کی بنیاد رکھی۔ تحریک منہاج القرآن گزشتہ 30 سالوں سے دین اسلام کے ہر ہرپہلو میں تجدید واحیاء کی جدوجہد کو جاری رکھے ہوئے ہے۔ فتنہ وفساد اور کفر وشرک کے فتوؤں میں بین المسالک امن و رواداری کا فروغ ہو، یا دنیا کو تہذیبی تصادم سے بچانے کے لیے بین المذاہب رواداری کا قیام، عقائد اسلامی کا دفاع ہو یا فروغ عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، ذخیرہ حدیث کو دور حاضر کی علمی ضروریات کے مطابق جدید اسلوب تحقیق سے ترتیب نو دینے کا معاملہ ہو یا تصوف کے علمی وعملی احیاء کا معاملہ، عالمی سطح پر تحفظ ایمان کی جدوجہد ہو یا دہشت گردی کے فتنے کا مقابلہ تحریک منہاج القرآن ہر محاذ پر اسلام کے دفاع اور نئی نسلوں میں اسلامی اقدار کی منتقلی کے لیے مصروف عمل ہے۔ تحریک منہاج القرآن کی حسب ذیل پہلوؤں میں تجدیدی خدمات نمایاں ہیں۔

  1. عالمگیر سطح پر دعوتی وتنظیمی نیٹ ورک کا قیام
  2. عقائد اسلامی کا دفاع اور فروغ
  3. بین المسالک امن و رواداری کا قیام
  4. بین المذاہب ہم آہنگی کا فروغ
  5. عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فروغ
  6. تصوف کا علمی وعملی احیاء
  7. تدوین حدیث میں تجدیدی خدمات
  8. علم کے فروغ میں ملکی و بین الاقوامی خدمات
  9. دہشت گردی اور فتنہ خوارج کے خلاف جدوجہد
  10. جدید ذرائع دعوت کا بہترین استعمال
  11. تصنیف و تالیف کے ذریعے امت کی رہنمائی

ان پہلوؤں میں سے چند پہلوؤں کی مختصر وضاحت سابقہ مضامین میں گزر چکی ہے جبکہ اہم پہلوؤں میں تجدیدی خدمات حسب ذیل ہیں۔

1۔ عالمگیر سطح پر دعوتی تبلیغی نیٹ ورک کا قیام

امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی دعوت کو افراد معاشرہ کے ذریعے قائم بہترین نیٹ ورک کے بغیر دنیا بھر میں پہنچانا ناممکن ہے۔ خصوصاً موجودہ ترقی یافتہ دور میں اداروں دفاتر اور افراد کے وسیع تر نیٹ ورک کے بغیر کسی بھی فکر کو دنیا تک پہنچانا اور افراد معاشرہ کے کردار کو اس فکر میں ڈھالنا ناممکن ہے۔

تحریک منہاج القرآن نے ملکی اور بین الاقوامی سطح پرامت مسلمہ کی علمی و فکری رہنمائی، نئی نسلوں کے ایمان کے تحفظ اور امر بالمعروف کی جدوجہد کو وسیع اور مضبوط تر کرنے کے لیے ملک میں یونٹ، یونین کونسل، تحصیل اور ضلع سے لے کر دنیا کے تما م آباد براعظموں تک 100 سے زائد ممالک میں دعوتی وتبلیغی اور تعلیمی نیٹ ورک قائم کیا ہے۔ اس دعوتی وتبلیغی نیٹ ورک کے ساتھ ساتھ چاپان سے امریکہ تک اور آسٹریلیا سے ناروے تک مقامی افراد اورخصوصاً برصغیر سے جانے والے افراد پر مشتمل تنظیمات کا پورا نیٹ ورک بھی قائم ہے۔ یورپ وامریکہ کے اکثر ممالک میں وسیع و عریض اسلامک سنیٹرز قائم ہیں۔ دنیا بھر میں قائم تنظیمات ان ممالک کے قوانین کا احترام کرتے ہوئے دعوت وتبلیغ حق اور اصلاح احوال امت میں مصروف عمل ہیں۔ 100 سے زائد ممالک میں دعوتی نیٹ ورک جبکہ 80 سے زائد ممالک میں تنظیمی نیٹ ورک قائم ہے اور ان ممالک میں 50 سے زائد اسلامک سنیٹرز بھی قائم ہو چکے ہیں۔ ان سنیٹرز پر مسلمانوں کی مذہبی تقریبات کے ساتھ ساتھ خطبات جمعہ اور نئی نسلوں میں اسلامی اقدار کی منتقلی کی جدوجہد جاری ہے۔

2۔ امن اور رواداری کا فروغ

اتحاد امت تحریک منہاج القرآن کے مقاصد میں سے اہم ترین مقصد ہے۔ تحریک منہاج القرآن نے جس دور میں اصلاح احوال کی جدوجہد کا آغاز کیا اس دور میں ملکی سطح پر فرقہ واریت اور کفر وشرک کے فتوؤں کا بازار گرم تھا جبکہ عالمی سطح پر دنیا تہذیبی تصادم کی طرف بڑھ رہی تھی۔ ایسے دور میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری صاحب نے اپنی دعوت کی بنیاد امن وسلامتی پر رکھی۔ آپ نے بین المذاہب اور بین المسالک دونوں سطحوں پر امن و رواداری کے فروغ کی جدوجہد کی۔

بین المسالک امن و رواداری کا فروغ

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی لخت لخت امت کو پھر سے یکجا کرنے کے لیے دلوں میں نفرت وکدورت کی بجائے پیار و محبت کے چراغ جلانے کے لیے تحریک منہاج القرآن 30 سالوں سے مصروف جدوجہد ہے۔ بین المسالک رواداری کے فروغ میں تحریک منہاج القرآن کی چند اہم خدمات حسب ذیل ہیں۔

  1. دعوت و تبلیغ میں تکفیر سے اجتناب
  2. امر بالمعروف کی دعوت کو مسالک سے بالا تر رکھنا
  3. اتحاد امت کے لیے عملی جدوجہد
  4. اہل تشیع سے مشترکہ جدوجہد کا معاہدہ (اعلامیہ وحدت)
  5. عالمی ختم نبوت کانفرنس لاہور

تحریک منہاج القرآن نے اپنی 30 سالہ جدوجہد میں ہر سطح پر امن و رواداری کو فروغ دیا ہے۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری صاحب کبھی تحریر وتبلیغ میں کسی مسلم فرقے پر کفر وشرک کا فتویٰ نہیں لگایا۔ ہر مسلک کے افراد تحریک کے مرکز پر آتے ہیں، اس کی ممبر شپ اختیار کرتے ہیں اور اس پلیٹ فارم پر خدمت دین کی جدوجہد میں مصروف عمل ہیں۔ یہی وجہ ہے کروڑوں کی تعداد میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کے افراد تحریک منہاج القرآن سے محبت رکھتے ہیں اور اس پلیٹ فارم پر خدمت دین جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اس کی بہترین مثال شیخ الاسلام کا حالیہ دورہ بھارت ہے۔ تحریک منہاج القرآن ملکی سرحدوں سے پار امت مسلمہ کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کے لیے عالمگیر جدوجہد بھی جاری رکھے ہوئے ہے۔ انگلینڈ میں سال ہا سال سے جاری الھدایہ کیمپ، دورہ بخاری، دورہ مسلم جیسے سینکڑوں پروگرام، اجتماعات اور کیمپوں کے ذریعے اس فکر کو عام کرنے میں مصروف عمل ہے۔ عالمی سطح پر اتحاد امت کی جدوجہد کا آغاز 1988 میں ہی کر دیا گیا تھا۔

منہاج القرآن انٹرنیشنل اسلامک کانفرنس لندن

19 جون 1988ء میں لندن میں ویمبلے ہال میں منہاج القرآن انٹرنیشنل کانفرنس کا انعقاد ایک فقیدالمثال تاریخی واقعہ ہے اس کانفرنس میں دنیا بھر سے عالم اسلام کی نامور ہستیاں شریک ہوئیں۔ اس کانفرنس میں 71 نکات پر مشتمل ویمبلے ڈیکلریشن جاری کیا گیا۔

بین المذاہب رواداری کا فروغ

تحریک منہاج القرآن نے جہاں امت مسلمہ کو ایک وحدت میں پرونے کی کوشش کی ہے وہاں عالمی سطح پر مذاہب کے درمیان نفرت وکدوت کو کم کرنے، دنیا کو تہذیبی تصادم سے بچانے اور انسانیت میں پیار، محبت اور رواداری کو فروغ دینے کے لیے ہر سطح پر جدوجہد کو جاری رکھے ہوئے ہے۔ بین المذاہب رواداری کے فروغ کے سلسلہ میں تحریک منہاج القرآن کی اہم ترین خدمات حسب ذیل ہیں۔

  1. مسلم کرسچین ڈائیلاگ فورم (MCDF) کا قیام
  2. حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا یوم ولادت منانا
  3. چرچ اور مندر میں محافل میلاد مصطفی کا انعقاد
  4. گستاخانہ خاکوں کے خلاف عالمی رہنماؤں کو خطوط
  5. قرآن برن ڈے جیسے واقعات کی روک تھام کے لیے اقدامات
  6. عالمی امن کانفرنس (ویمبلے لندن) کا انعقاد

ان تمام خدمات کی وضاحت کے لئے بیسیوں صفحات کی ضخامت درکار ہے۔ ان خدمات کے نیتجے میں مذاہب کے درمیان نفرتوں کی خلیج کم ہوئی۔ محبتوں کے نئے دور کا آغاز ہوا۔ بین المذاہب رواداری کے فروغ میں جہاں تحریک منہاج القرآن کے مرکز پر گزشتہ کئی سالوں سے مسلم کرسچین ڈائیلاگ فورم کے تحت حضرت عیٰسی علیہ السلام کا یوم ولادت منایا جا رہا ہے۔ اس طرح چرچ میں بھی تحریک منہاج القرآن کی کاوش سے محافل میلاد کے انعقاد کا سلسلہ سالہا سال سے جاری ہے اور اب تاریخ میں پہلی مرتبہ مندر میں بھی جا کر منہاج القرآن نے محفل میلاد منعقد کی اور بالمک مندر لاہور پادری نے نعت مصطفی پڑھی۔ اسی جدوجہد کا نیتجہ ہے کہ عیسائی پادری کو قرآن جلانے سے روک دیا گیا اس کے ان ناپاک عزائم پر عیسائی دنیا نے اس کی مذمت کی۔ لندن ویمبلے میں عالمی امن کانفرنس میں تمام مذاہب مل کر بیٹھے اور دنیا کو امن و رواداری کا پیغام دیا۔ اس ساری جدوجہد سے سب سے بڑا دین اسلام کا فائدہ میسر آیا کہ پوری دنیا کواسلام کے امن و رواداری کے پیغام کو سمجھنے کا موقع ملا۔

(جاری ہے)