ہمہ جہتی بیداری شعور کی ضرورت : آخری قسط

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری

ترتیب و تدوین : جلیل اَحمد ہاشمی

فساد کہاں سے جنم لیتا ہے

سوال پیدا ہوتا ہے کہ سوسائٹی میں فساد آتا کہاں سے ہے؟ یاد رکھیں کہ فساد نااَہل حکمرانوں کی طرف سے آتا ہے۔ یہ سیاسی اور حکومتی لیڈروں کی بد اَعمالیوں کے باعث رُونما ہوتا ہے۔ یہ بھی حدیث مبارکہ میں ہے جسے قاسم بن مخیرہ نے روایت کیا ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

إِذَا صَلَحَ سُلْطَانُکُمْ، صَلَحَ زَمَانُکُمْ؛ فَإِذَا فَسَدَ سُلْطَانُکُمْ، فَسَدَ زَمَانُکُمْ.

(دانی، السنن الوارده في الفتن، باب ما جاء ان صلاح الزمان بصلاح السلطان و فساده بفساده، 3 : 653، رقم : 298)

’’اگر تمہاری حکومت سنور جائے تو تمہارا زمانہ سنور جائے گا؛ اگر تمہارے اَہلِ حکومت فساد میں مبتلا ہو جائیں تو تمہارا زمانہ بگڑ جائے گا‘‘۔

گویا مسلم اُمہ کی بھلائی اس کے حکمران، لیڈروں اور رہنماؤں کے سنور جانے پر منحصر ہے۔ اَہلِ سلطنت اور اَہلِ حکومت بگڑ جائیں، فاسد ہو جائیں اور corrupt ہو جائیں تو زمانہ corrupt ہو جائے گا، یعنی سارا معاشرہ اور سوسائٹی corrupt ہو جائے گی۔

اِجتماعی اِصلاح کی ناگزیریت

آقا علیہ الصلاۃ والسلام نے اِس حدیث مقدسہ کے ذریعہ معاشی، معاشرتی، سماجی اور اَخلاقی اَبتری کی پوری philosophy بیان کر دی ہے۔ یہاں یہ خیال پیدا ہو سکتا ہے اگرچہ اَہلِ حکومت و سلطنت کے بگڑ جانے نے معاشرے کو بگاڑ دیا ہے، تاہم دوسروں سے لا تعلق ہو کر ہمیں اپنا حال سنوارنے اور دوسروں سے کنارہ کش ہو کر اپنے آپ کو بچانے سے تو کوئی نہیں روک رہا۔ ہمیں دوسروں کی کیا پڑی، ہم اپنا گھر درست رکھیں؟ یاد رکھیں! ایسا کریں گے تو ہم پر بھی ہلاکت اور تباہی آ جائے گی۔ ان حالات میں بیداریِ شعور کی مہم ایک اہم فریضہ ہے۔ اِسی کو قرآن و سنت کی زبان میں اَمر بالمعروف و نہی عن المنکر کہتے ہیں۔ اسے صرف سیاسی حالات کی بہتری پر مختص نہ کریں۔ یہ ایک ہمہ جہت اِصطلاح ہے یعنی اس میں سیاسی طور پہ لوگوں کو بیدار کرنا، دینی و مذہبی طور پر بیدار کرنا، عقیدے اور اعتقادی طور پر بیدار کرنا، اَعمال اور اَخلاق میں بیدار کرنا اور فکر اور نظریات میں بیدار کرنا سب شامل ہیں۔ گویا بیداریِ شعور کی یہ مہم ایک ہمہ جہت اور مسلسل تگ و دو ہے۔

اِجتماعی اِصلاح کو نظر انداز کرنے کے نقصانات

حضرت جابر بن عبداﷲ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

إِذَا نَقَضُوا الْعَهْدَ سَلَّطَ اﷲُ عَلَيْهِمْ عَدُوَّهُمْ، وَإِذَا لَمْ يَأْمُرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَيَنْهَوْا عَنِ الْمُنْکَرِ سَلَّطَ اﷲُ عَلَيْهِمْ أَشْرَارَهُمْ، ثُمَّ يَدْعُو خِيَارُهُمْ فَلَا يُسْتَجَابُ لَهُمْ.

(دانی، السنن الوارده فی الفتن، باب ما جاء فيما ينزل من البلاء ويحل من العقوبة بهذه الأقةِ إذا عملت بالمعاصی و اشتهرت بالذنوب، 3 : 691، رقم : 326)

’’جب لوگ اپنے وعدے توڑنے لگ جائیں گے تو اللہ تعالیٰ ان کا دشمن ان پر مسلط فرما دے گا؛ اور جب وہ نیکی کا حکم نہیں دیں گے اور برائی سے نہیں روکیں گے تو اللہ ان کے بدترین لوگوں کو ان پر مسلط فرما دے گا؛ پھر ان میں سے نیکو کار دعائیں بھی کریں گے تو ان کی دعائیں قبول نہیں ہوں گی‘‘۔

امام طبرانی اور ابن ابی شیبہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

لَتَأْمُرُْنَّ بِالْمَعْرُوْف وَلَتَنْهَوُنَّ عَنِ الْمُنْکَرِ، أَوْ لَيُسَلِّطَنَّ اﷲُ عَلَيْکُمْ شِرَارَکُمَ. ثُمَّ يَدْعُوْ خِيَارُکُمْ فَلاَ يُسْتَجَابُ لَکُمْ.

(1. طبراني، المعجم الأوسط، 2 : 99، رقم : 1379

2. ابن أبي شيبة، المصنف، 7 : 460، رقم : 37221

3. بزار، المسند، 1 : 292، 293، رقم : 188

4. أبو يعلی، المسند، 8 : 313، رقم : 6916

’’تم ضرور بالضرور نیکی کا حکم دو گے اور برائی سے منع کرتے رہو گے ورنہ اﷲ تعالیٰ تم میں سے برے لوگوں کو تم پر مسلط کر دے گا۔ پھر تمہارے اچھے لوگ اﷲ تعالیٰ سے (مدد کی) دعا کریں گے لیکن ان کی دعا تمہارے حق میں قبول نہیں ہوگی‘‘۔

اَحادیث مبارکہ کی روشنی میں داخلی طور پر ہمیں یہی صورت حال درپیش ہے کہ عوام کے نمائندے دشمن بن کر عوام پر مسلط ہیں؛ جب کہ خارجی طور پر مسلمانوں کے دشمن مسلمانوں پر مسلط ہیں یعنی ہمارا اقتدار در حقیقت کسی اور ہاتھ میں ہے۔ اگر ہم لوگوں کے شعور کو بیدار کرنے کی جد و جہد نہیں کریں گے اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا جھنڈا نہیں اٹھائیں گے یعنی جد و جہد کا یہ فریضہ انجام دینا چھوڑ دیں گے تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان کے مطابق بدترین دشمن ہمارے اوپر مسلط کر دیا جائے گا۔ یعنی جو سوسائٹی امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے حکم سے پہلو تہی اِختیار کرے گی اس صورت میں اس سوسائٹی کے سب سے زیادہ گھٹیا اور کمینے لوگ ان کے لیڈر اور حکمران بن جائیں گے۔ یاد رکھیں! علماء، اَئمہ، خطباء - جو اپنے مناصب کے حوالے سے سب سے زیادہ ذمہ دار ہیں - اگر شرم و حجاب اور خوف کے باعث چپ رہیں گے اور باطل کے خلاف جرات سے کام نہیں لیں گے تو پھر اَشرار لوگ ان کے اوپر مسلط ہو جائیں گے اور اسی طرح اگر سیاسی و قومی طور پہ عوام چپ رہیں گے تو اَشرار سیاسی اور قومی سطح پر مسلط ہو جائیں گے۔ دیکھا جائے تو بے عملی کے حوالے سے حکمرانوں اور عوام کا تعلق reciprocal ہے، حکمران برے اور بدکردار ہوں گے تو عوام میں فساد آ جاتا ہے اور اگر عوام بُرے ہوں تو بدکردار حکمران ان پر مسلط ہو جاتے ہیں۔ یعنی ان حالات میں ان کے اَخیار، اولیاء و صالحین، نیک اور شب زندہ دار پرہیزگار لوگ قوم کے لئے دعائیں بھی کریں تو ان کی دعاؤں کو قوم کے حق میں اﷲ قبول نہیں کرے گا۔ کیوں؟ اس لئے کہ داعیین اور قوم دونوں نے اپنا فریضہ ادا نہیں کیا۔ خود پر ظلم کیا اور اَشرار یعنی گھٹیا، کمینے، خائن اور بددیانت لوگوں کو اپنے اوپر مسلط کرنے کا خود سبب بنے ہیں۔

ہماری سیاسی تاریخ اِس اَمر کی شاہد ہے کہ لوگ بار بار اپنا ووٹ دے کے اَشرار کو اَخیار کے اوپر لائے۔ اِس طرح انہوں نے خائن اور کرپٹ لوگوں پسند کیا ہے اور اپنے ہاتھوں سے اپنے دشمنوں کو خود پر مسلط کیا ہے۔ یہ جرم چونکہ عوام نے کیا ہے تو آقا علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا کہ ان کے حق کے پھر اﷲ تبارک و تعالیٰ اپنے اولیاء اور صالحین کی دعائیں بھی قبول نہیں کرے گا۔ جیسے کہا گیا کہ

خدا نے آج تک اُس قوم کی حالت نہیں بدلی نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا

عذابِ اِلٰہی کا نزول

جب کوئی سوسائٹی یا قوم اللہ تعالیٰ کے حکمِ اَمر بالمعروف و نہی عن المنکر کو چھوڑ دے اور لاتعلق ہو جائے تو گناہ عام ہونے لگتے ہیں۔ حضرت ہُشَیم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قدرت رکھنے کے باوجود بر ے کاموں سے منع نہ کرنے والوں کو تنبیہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا :

مَا مِنْ قَوْمٍ يُعْمَلُ فِيْهِمْ بِالْمَعَاصِي، ثُمَّ يَقْدِرُوْنَ عَلَی أَنْ يُغَيِّرُوْا، ثُمَّ لاَ يُغَيِّرُوا إِلاَّ يُوْشِکُ أَنْ يَعُمَّهُمُ اﷲُ مِنْهُ بِعِقَابٍ.

  1. أبو داود، السنن، کتاب الملاحم، باب الأمر والنهي، 4 : 122، رقم : 4338

  2. ابن ماجه، السنن، کتاب الفتن، باب الامر بالمعروف والنهي عن المنکر، 2 : 1329، رقم : 4009

  3. أحمد بن حنبل، المسند، 4 : 364، رقم : 19250

جس قوم میں بھی برے کاموں کا اِرتکاب کیا جائے، پھر لوگ اِن برے کاموں کو روکنے پر قدرت رکھنے کے باوجود بھی نہ روکیں تو قریب ہے کہ اﷲ تعالیٰ ان سب کو اپنے عذاب میں مبتلا کر دے۔

حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنے خطبہ میں امر بالمعروف و نہی عن المنکر کو نظر انداز کرنے والوں کو تنبیہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا :

يَا أَيُهَا النَّاسُ إِنَّکُمْ تَقْرَء ُوْنَ هَذِهِ الْآيَةَ : {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ عَلَيْكُمْ أَنفُسَكُمْ لاَ يَضُرُّكُم مَّن ضَلَّ إِذَا اهْتَدَيْتُمْ}(1) وَإِنَّا سَمِعْنَا رَسُولَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُولُ : إِنَّ النَّاسَ إِذَا رَأَوْا الْمُنْکَرَ فَلَمْ يُنْکِرُوهُ أَوْشَکَ أَنْ يَعُمَّهُمْ اﷲُ بِعِقَابِهِ.(2)

(1) المائدة، 5 : 105

(2) احمد بن حنبل، المسند، 1 : 2، رقم : 1

’’اے لوگو! تم یہ آیت مبارکہ تو پڑھتے ہی ہو : { اے ایمان والو! تم اپنی جانوں کی فکر کرو، تمہیں کوئی گمراہ نقصان نہیں پہنچا سکتا اگر تم ہدایت یافتہ ہو چکے ہو}۔ اور بے شک ہم نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا : لوگ جب برائی کو پنپتے ہوئے دیکھیں اور اس کو نہ روکیں تو قریب ہے کہ اﷲ تعالیٰ انہیں اپنے عذاب میں مبتلا کردے‘‘۔

حضرت جریر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے برائی کو روکنے کی قدرت رکھنے کے باوجود نہ روکنے والوں کو اﷲ تعالیٰ کے عذاب سے ڈراتے ہوئے ارشاد فرمایا :

مَا مِنْ رَجُلٍ يَکُوْنُ فِي قَوْمٍ يُعْمَلُ فِيْهِمْ بِالْمَعَاصِي يَقْدِرُوْنَ عَلَی أَنْ يُغَيِّرُوْا عَلَيْهِ فَلاَ يَغَيِّرُوْا إِلاَّ أَصَابَهُمُ اﷲُ بِعَذَابٍ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَمُوْتُوا.

  1. أبو داود، السنن، کتاب الملاحم، باب الأمر والنهي، 4 : 122، رقم : 4339

  2. ابن ماجه، السنن، کتاب الفتن، باب الأمر بالمعروف والنهي عن المنکر، 2 : 1329، رقم : 4009

  3. أحمد بن حنبل، المسند، 4 : 364

  4. ابن حبان، الصحيح، 1 : 536، رقم : 300

  5. طبراني، المعجم الکبير، 2 : 332، رقم : 2382

’’جو شخص بھی ایسی قوم میں رہتا ہو جس میں برے کام کئے جاتے ہوں اور لوگ ان کو روکنے کی قدرت رکھنے کے باوجود نہ روکتے ہوں تو اﷲ تعالیٰ انہیں ان کی موت سے قبل عذاب میں مبتلا کر دے گا‘‘۔

یعنی جس سوسائٹی میں ظلم اور گناہ عام ہونے لگیں، نا انصافی عام ہو جائے، جبر و بربریت اور خیانت اور کرپشن کا دور دورہ ہو، سرِ عام جھوٹ بولا جائے، لوگوں کے حق تلف کئے جائیں اور لوگ ظالموں کو ظلم سے روکنے کے لئے اور بددیانت کرپٹ لوگوں کو کرپشن سے روکنے کے لئے حرکت میں نہ آئیں وہ اپنے حقوق کی خاطر ان کے گریبانوں پر ہاتھ نہ ڈالیں اور حالات کو بدلنے کے لئے اپنا فریضہ ادا نہ کریں بلکہ ہر بار پلٹ کر پھر انہی کو ووٹ دے کے اپنے کندھوں پر سوار کرتے رہیں - یعنی انہیں اپنا حکمران بناتے رہیں - تو پھر اﷲ تعالیٰ ایسی قوم کو اپنے عذاب کی لپیٹ میں لے لے گا اور اس میں نیک و بد کا فرق نہیں رہے گا۔

حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ بنی اسرائیل میں خرابی اس لیے پختہ ہو گئی تھی کہ انہوں نے اِحقاقِ حق اور اِبطالِ باطل کا فریضہ ترک کر دیا تھا۔ فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ملاحظہ کریں :

إِنَّ بَنِي إِسْرَائِيْلَ لَمَّا وَقَعَ فِيْهِمُ النَّقْصُ کَانَ الرَّجُلُ يَرَی أَخَاهُ عَلَی الذَّنْبِ فَيَنْهَاهُ عَنْهُ. فَإِذَا کَانَ الْغَدُ لَمْ يَمْنَعْهُ مَا رَأَی مِنْهُ أَنْ يَکُوْنَ أَکِيْلَهُ وَشَرِيْبَهُ وَخَلِيْطَهُ. فَضَرَبَ اﷲُ قُلُوْبَ بَعْضِهِمْ بِبَعْضٍ وَنَزَلَ فِيْهِمُ الْقُرْآنُ. فَقَالَ : {لُعِنَ الَّذِينَ كَفَرُواْ مِن بَنِي إِسْرَائِيلَ عَلَى لِسَانِ دَاوُودَ وَعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ ذَلِكَ بِمَا عَصَوا وَّكَانُواْ يَعْتَدُونَ}.(1) فَقَرَأَ حَتَّی بَلَغَ : {وَلَوْ كَانُوا يُؤْمِنُونَ بِالله والنَّبِيِّ وَمَا أُنزِلَ إِلَيْهِ مَا اتَّخَذُوهُمْ أَوْلِيَاءَ وَلَـكِنَّ كَثِيرًا مِّنْهُمْ فَاسِقُونَ}.(2) قَالَ : وَکَانَ نَبِيُّ اﷲِ مُتَّکِئًا فَجَلَسَ، فَقَالَ : لَا، حَتَّی تَأْخُذُوْا عَلَی يَدِ الظَّالِمِ فَتَأْطَُرُوْهُ عَلَی الْحَقِّ أَطْرًا.(3)

(1) المائدة، 5 : 78

(2) المائدة، 5 : 81

(3) ترمذي، السنن، کتاب تفسير القرآن، باب ومن سورة المائدة، 5 : 252، رقم : 3048

2. أبو داود، السنن، کتاب الملاحم، باب الأمر والنهي، 4 : 121، رقم : 4336

3. ابن ماجه، السن، کتاب الفتن، باب الأمر بالمعروف والنهي عن المنکر، 2 : 1327، رقم : 4006

4. طبراني، المعجم الکبير، 10 : 146، رقم : 10268

5. طبرانی، المعجم الأوسط، 1 : 166، رقم : 519

’’جب بنی اسرائیل میں خرابی واقع ہوتی تو اس وقت ان میں سے بعض لوگ اپنے دوسرے بھائی کو گناہ کرتے دیکھ کر منع کرتے۔ لیکن جب دوسرا دن ہوتا تو اس خیال سے نہ روکتے کہ اس کے ساتھ کھانا پینا اور ہم مجلس ہونا ہے۔ اس پر اﷲ تعالیٰ نے ان کے دلوں کو باہم مخلوط کر دیا۔ ان کے بارے میں قرآن مجید کی یہ آیت نازل ہوئی ہے : {بنی اسرائیل میں سے جو کافر ہوئے ان پر داؤد (علیہ السلام) اور عیسی بن مریم (علیھماالسلام) کی زبان سے لعنت کی گئی۔ یہ اس لئے کہ وہ نافرمان تھے اور حد سے گزر گئے تھے}۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ آیت یہاں تک پڑھی : {اور اگر وہ اللہ تعالیٰ اور نبی پر اور اس چیز پر جو ان کی طرف نازل کی گئی ہے ایمان لاتے تو کافروں کو دوست نہ بناتے۔ لیکن ان میں سے اکثر نافرمان ہیں}۔ حضرت عبیدہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تکیہ لگائے ہوئے تھے۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُٹھ بیٹھے اور فرمایا : تم بھی عذابِ الٰہی سے اس وقت تک نجات نہیں پا سکتے جب تک کہ تم ظالم کا ہاتھ پکڑ کر اُسے راہِ راست پر نہ لے آؤ۔‘‘

8۔ حضرت نعمان بن بشیر رضی اﷲ عنھما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اَمر بالمعروف و نہی عن المنکر کے اَہم فریضے کو نظر انداز کرنے اور ایک مثال کے ذریعے اس مداہنت و چشم پوشی کے تباہ کن نتائج سے خبردار کرتے ہوئے ارشاد فرمایا :

مَثَلُ الْمُدْهِنِ فِي حُدُوْدِ اﷲِ وَالْوَاقِعِ فِيْهَا مَثَلُ قَوْمٍ اسْتَهَمُوْا سَفِيْنَةً فَصَارَ بَعْضُهُمْ فِي أَسْفَلِهَا وَصَارَ بَعْضُهُمْ فِي أَعْـلَاهَا. فَکَانَ الَّذِي فِي أَسْفَلِهَا يَمُرُّوْنَ بِالْمَاءِ عَلَی الَّذِيْنَ فِي أَعْـلَاهَا فَتَأَذَّوْا بِهِ. فَأَخَذَ فَأْسًا فَجَعَلَ يَنْقُرُ أَسْفَلَ السَّفِيْنَةِ. فَأَتَوْهُ فَقَالُوْا : مَا لَکَ؟ قَالَ : تَأَذَّيْتُمْ بِي وَلاَ بُدَّ لِي مِنَ الْمَاءِ. فَإِنْ أَخَذُوْا عَلَی يَدَيْهِ أَنْجَوْهُ وَنَجَّوْا أَنْفُسَهُمْ، وَإِنْ تَرَکُوْهُ أَهْلَکُوْهُ وَأَهْلَکُوْا أَنْفُسَهُمْ.

  1. بخاري، الصحيح، کتاب الشهادات، باب القرعة في المشکلات، 2 : 954، رقم : 2540

  2. ترمذي، السنن، کتاب الفتن، باب ما جاء في تغيير المنکر باليد أو باللسان أو بالقلب، 4 : 470، رقم : 2173

  3. أحمد بن حنبل، المسند، 4 : 270

  4. بزار، المسند، 8 : 238، رقم : 3298

اﷲ تعالیٰ کی حدود کے بارے میں نرمی برتنے والے اور ان میں مبتلا ہونے والے کی مثال ان لوگوں جیسی ہے جنہوں نے کشتی میں (سفر کرنے کے سلسلے میں) قرعہ اندازی کی تو بعض کے حصے میں نیچے والا حصہ آیا اور بعض کے حصے میں اوپر والا۔ پس نیچے والوں کو پانی کے لیے اوپر والوں کے پاس سے گزرنا ہوتا تھا تو اس سے اوپر والوں کو تکلیف ہوتی تھی۔ چنانچہ (اس خیال سے کہ اوپر کے لوگوں کو ان کے آنے جانے سے تکلیف ہوتی ہے) نیچے والوں میں سے ایک شخص نے کلہاڑا لیا اور کشتی کے نچلے حصے میں سوراخ کرنے لگا۔ تو وہ اس کے پاس آئے اور کہا : تجھے کیا ہوگیا ہے؟ اس نے کہا : تمہیں میری وجہ سے تکلیف ہوتی تھی اور پانی کے بغیر میرا گزارہ نہیں۔ پس اگر انہوں نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا اور اسے بچا لیا تو خود بھی بچ گئے، اور اگر انہوں نے اسے چھوڑ دیا تو اسے بھی ہلاک کر دیا اور اپنے آپ کو بھی ہلاکت میں ڈال لیا۔

حضرت قیس بن ابی حازم بیان کرتے ہیں کہ سیدنا صدیق اکبر نے منبر پر کھڑے ہو کر بیان کیا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے :

إِنَّ النَّاسَ إِذَا رَأَوُا الظَّالِمَ، ثُمَّ لَمْ يَأْخُذُوْا عَلٰی يَدَيْهِ أَوْشَکُوا أَنْ يَعُمَّهُمُ اﷲُ بِعِقَابٍ.

بيهقی، السنن الکبری، کتاب آداب القاضی، باب يستدل به علی أن القضاء وسائر أعمال الولاة، 10 : 156

بے شک لوگ جب کسی ظالم شخص کو دیکھتے ہیں اور پھر اس کے ہاتھوں کو (ظلم کرنے سے) نہیں روکتے تو قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سب کو عذاب میں مبتلا کر دے۔

یعنی اگر لوگ خود پر ظلم و ناانصافی ہوتا دیکھ کر بھی خوابِ غفلت سے بیدار نہ ہوں تو پھر اﷲ تعالیٰ اپنی گرفت اور عذاب میں ساری قوم کو شریک کرے گا۔ آپ خود سوچیے کیا ایک ایک حدیث کا اِطلاق ہمارے حالات پر نہیں ہو رہا ہے؟ اس کا ایک ہی علاج ہے کہ تحریک منہاج القرآن کا ہر فرد حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اِس پیغام کو لے کر اس قوم کے ایک ایک شخص کے شعور کو بیدار کرنے کے لئے اُٹھ کھڑا ہو۔ تحریک منہاج القرآن کو بیداریِ شعور کی تحریک بنا دیں اور یہ تحریک سیاسی، دینی، مذہبی، اِعتقادی، اَخلاقی، سماجی، معاشرتی ہر پہلو کو محیط ہونی چاہیے۔ پہلے اپنا شعور بیدار کریں، اپنے اَحوال کی اصلاح کریں۔ اس حوالے سے آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ایک اور ارشاد بڑا واضح ہے۔ حضرت عدی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عوام و خواص کے عذاب میں مبتلا ہونے کا سبب بیان کرتے ہوئے سنا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

إِنَّ اﷲَ تعالیٰ لَا يُعَذِّبُ الْعَامَّةَ بِعَمَلِ الْخَاصَّةِ حَتَّی يَرَوا الْمُنْکَرَ بَيْنَ ظَهْرَانَيْهِمْ، وَهُمْ قَادِرُوْنَ عَلَی أَنْ يُنْکِرُوْهُ فَـلَا يُنْکِرُوْهُ. فَإِذَا فَعَلُوْا ذَالِکَ عَذَّبَ اﷲُ الْخَاصَّةَ وَالْعَامَّةَ.

  1. أحمد بن حنبل، المسند، 4 : 192

  2. مالک، الموطا، کتاب الکلام، باب ما جاء في عذاب العامة بعمل الخاصة، 2 : 991، رقم : 1799

  3. طبراني، المعجم الکبير، 17 : 139

بے شک اﷲ تعالیٰ عوام کو خاص لوگوں کے برے اعمال کے سبب سے عذاب نہیں دیتا یہاں تک کہ وہ (عوام) اپنے درمیان برائی کو کھلے عام پائیں اور وہ اس کو روکنے پر قادر ہونے کے باوجود نہ روکیں۔ پس جب وہ ایسا کرنے لگیں تو اﷲ تعالیٰ ہر خاص و عام کو (بلا امتیاز) عذاب میں مبتلا کر دیتا ہے۔

اگر برائی، کرپشن، ظلم اور ناانصافی کو ہوتا ہوا دیکھتے رہیں اور ان کو روکنے اور نظام کو بدلنے کی بجائے پھر اُسی ظالمانہ نظام کو ووٹ دیتے رہیں تو اس سے بڑھ کر بدبختی کیا ہو سکتی ہے؟ یاد رکھیں! جب ہم کسی شخص کو ووٹ دیتے ہیں تو فی الحقیقت ووٹ اس شخص کو نہیں بلکہ اس نظامِ اِنتخابات کو جا رہا ہے جو نظام ہمارا قومی دشمن ہے۔ اس کے خلاف نفرت کو بلند کریں اور پُراَمن طریقے سے مسلسل اپنا احتجاج ریکارڈ کروائیں۔

اَمر بالمعروف و نہی عن المنکر پر کاربند جماعت کا بیان

اُمت کے ان ناگفتہ بہ حالات میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صرف ایک جماعت کی بات کی جو ہر حال میں اَمر بالمعروف و نہی عن المنکر پر ثابت قدم رہے گی۔ کاش! ہمارا شمار اُسی طبقے میں ہو جائے جس کا ذکر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بڑی محبت کے ساتھ اُمت کے سامنے بیان کیا۔

حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

لَا تَزَالُ طَائِفَةٌ مِنْ أُمَّتِی ظَاهِرِيْنَ عَلَی الْحَقِّ، لَا يَضُرُّهُمْ مَنْ خَذَلَهُمْ.

مسلم، الصحيح، کتاب الإمارة، باب قوله : لا تزال طائفة، 3 : 1523، رقم : 1920

میری امت کا ایک گروہ ہمیشہ حق پر قائم رہے گا اور انہیں رُسوا کرنے (کی کوشش کرنے) والا اُنہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔

یعنی قیامت تک اُمت میں ایک طبقہ ایسا رہے گا جو حق کو غالب کرنے کی struggle کرتا رہے گا اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے پیغام کو اور اس حکم کی انجام دہی کے لیے حق کے شعور کو بیدار کرنے میں struggle کرتا رہے گا۔ آقا علیہ الصلاۃ والسلام نے یہ بھی فرمایا : وہ کسی مذمت کرنے والے کی مذمت کی پرواہ نہیں کریں گے۔ کسی طعنہ دینے والے کی طعنہ زنی کی پرواہ نہیں کریں گے اور وہ اپنا کام کرتے رہیں گے۔ خواہ لوگ انہیں کتنا ہی برا کہیں اور شرمسار کریں وہ ان کی طعن و تشنیع کو خاطر میں نہیں لائیں گے یہاں تک کہ قیامت آ جائے گی۔ تو آقا علیہ الصلاۃ والسلام نے فخر کیا کہ جہاں بددیانتی، شر اور ظلم چھا جائے گا جہاں جہالت عام ہو جائے گی اور ظلم و ستم روا رکھا جائے گا وہاں قیامت تک میری اُمت میں ایک طبقہ ایسا بھی رہے گا جو اِن ساری برائیوں کی کثرت اور غلبے سے بے نیاز ہو کر حق کے شعور کو بیدار کرنے کی جد و جہد جاری رکھے گا اور وہ کبھی خیر کو ترک نہیں کرے گا۔

اگر ہم میں سے ہر کوئی یہ چاہے کہ اس کا شمار اس طبقے میں ہو جسے قبر اور حشر میں آقا علیہ الصلاۃ والسلام پہچان لیں کہ یہ بلا شبہ یہ میرے بیان کیے ہوئے طبقے کافرد ہے جس کا ذکر اوپر کیا گیا تو اس کے لئے ضروری ہے کہ ہر حال میں حق کے شعور کو بیدار کرنے کی جد و جہد جاری رکھے اور ملامت کرنے والوں کی ملامت سے بے خوف و بے نیاز ہو کر مصروف جد و جہد رہے۔

حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ بھی فرمایا ہے :

لَنْ تَزَالُوا بِخَيْرٍ مَا لَمْ تَعْرِفُوا مَا کُنْتُمْ تُنْکِرُوْنَ، وَمَا دَامَ الْعَالِمُ يَتَکَلَّمُ فِيْکُمْ بِعِلْمِهِ، فَلَا يَخَافُ أَحَدًا.

دانی، السنن الواردة فی الفتن، باب قول النبي صلی الله عليه وآله وسلم : لا تزال طائفة من أمتی علی الحق ظاهرين، 3 : 744، رقم : 365

تم ہمیشہ بھلائی کے ساتھ رہو گے جب تک کہ تم اُس شے کو نہ جان لو (یعنی اس پر عمل شروع کر دو) جس (کی برائی کے سبب اس) کا انکار کرتے رہتے تھے (یعنی اس سے بچتے رہتے تھے)؛ اور جب تک تم میں کوئی عالم اپنے علم کے ساتھ حق بات کہتا رہتا ہے اور وہ کسی سے نہیں ڈرتا (اُس وقت تم بھلائی پر رہو گے)۔

حدیث مبارکہ کا مفہوم یہ ہے کہ وہ چیزیں جنہیں قرآن وسنت نے برا کہا جب تک تم انہیں برا نہیں جانو گے اور اچھے کو اچھا نہیں کہو گے، جب تک بددیانتی کو بددیانتی اور خیانت کو خیانت اور ظلم کو ظلم سمجھو گے، تم خیر پر رہو گے۔ جب تک شعور رکھنے والے اَہلِ علم ہمیشہ حق کی بات جرات سے کرتے رہیں گے اور لوگوں کا شعور بیدار کرنے کے لئے اپنا فریضہ ادا کرتے رہیں گے اور کسی شخص سے نہیں ڈریں گے تو وہ خیر پر رہیں گے۔

مجدد اور تجدید دین

خیر کو زندہ دیکھنے اور اُمت میں دین کی قدروں کو زندہ کرنے کے لئے اﷲ پاک نے ایک دائمی اور مسلسل تجدید کا نظام بنایا ہے اور ہر صدی کے شروع میں قیامت تک کے لئے اﷲ اُمت میں مجدد بھیجے گا۔ نبوت و رسالت کا دروازہ ہمیشہ کے لئے بند ہوگیا ہے، اب کوئی نئی نبوت نہیں ہوگی، نئی کتاب نہیں ہوگی۔ اب دینی قدروں کو زندہ کرنے، لوگوں کے عقیدے کو درست رکھنے، ان کے اَعمال و اَخلاق کو درست کرنے، انہیں حق کا بھولا ہوا سبق پلٹ پلٹ کر یاد دلانے اور بھٹکے ہوئے لوگوں کو پھر سے راہِ حق پر گامزن کرنے کے لئے ہر صدی کے شروع میں اﷲتعالیٰ ایک مجدد کو پیدا کرے گا۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث مبارکہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

إِنَّ اﷲَ تعالیٰ يَبْعَثُ لِهَذِهِ الْأُمَّةِ عَلَی رَأْسِ کُلِّ مِائَةِ سَنَةٍ، مَنْ يُجَدِّدُ لَهَا دِيْنَهَا.

  1. أبوداود، السنن، کتاب الملاحم، باب ما يذکر فی قرن المائة، 4 : 109، رقم : 4291

  2. حاکم، المستدرک، 4 : 567-568، رقم : 8592-8593

  3. طبرانی، المعجم الأوسط، 6 : 223، رقم : 6527

  4. ديلمی، مسند الفردوس، 1 : 148، رقم : 532

  5. دانی، السنن الوردة فی الفتن، 3 : 742، رقم : 364

’’اللہ تعالیٰ اِس اُمت کے لیے ہر صدی کے آغاز میں کسی ایسے شخص (یا اَشخاص) کو پیدا فرمائے گا جو اِس (اُمت) کے لیے اس کے دین کی تجدید کرے گا‘‘۔

اﷲتعالیٰ نے قیامت تک نبوت و رسالت کا دروازہ بند کر دیا ہے۔ اب ہر صدی کی ابتداء میں ایک مجدد کو مبعوث کرے گا جو مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا غلام ہوگا۔ چنانچہ مجددّین برے زمانوں میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنتوں کو زندہ کریں گے اور لوگوں کو دین کی تعلیم دے کر راہِ حق کی طرف لائیں گے۔ مجدد اﷲ کے دین کے مٹی ہوئی یا مٹتی ہوئی یا مٹ جانے والی قدروں کو زندہ کر دے گا، وہ بھولے ہوئے سبق دوبارہ یاد دلائے گا، بھٹکے ہوئے لوگوں کو بلا کر پھر سے حق پر گامزن کر دے گا تاکہ یہ دین ہر صدی میں ایک نئی اور تازہ روح کے ساتھ پھر سے زندہ ہوتا رہے۔

منہاج القرآن ایک مجددانہ تحریک ہے

تحریک منہاج القرآن موجودہ صدی کی تجدید دین کی تحریک ہے۔ اللہ نے دینِ اسلام کی تجدید کا فریضہ آپ کے ذمے کیا ہے۔ اس لئے شعور کو بیدار کرنے کا فریضہ ادا کریں۔ چنانچہ دینی قدروں کو بحال کرنے اور لوگوں کے اَعمال، اَخلاق، اَحوال، عبادات اور معاملات کو بہتر کرنے کے لئے اَوّلاً اپنے اندر سے تحریک شروع کریں اور پھر اسے قوم کے ہر ہر فرد تک پہنچا دیں۔ دعوت و تبلیغ، تعلیم و تربیت، رفاہِ عامہ و فلاح پر مشتمل تجدید کا اتنا بڑا عالم گیر کام منہاج القرآن کے رُفقاء و اراکین اور وابستگان سے ایثار مانگتا ہے۔ اتنے بڑے ہمہ گیر اور ہمہ جہت کام کے لئے وسائل درکار ہوں گے۔ میں نہیں چاہتا کہ مشن اور مشن کا عالم گیر کام وسائل کے اعتبار سے کبھی بھی کسی کمزوری اور محرومی کا شکار ہو جائے۔ اس لئے ضروری ہے کہ کارکنان و وابستگان میں سے ہر کوئی اِنفاق فی سبیل اللہ کے تحت ماہانہ آمدن / تنخواہ کا ایک فیصد تحریک کے نام وقف کرے تاکہ آقا علیہ الصلاۃ والسلام کا پیغام پوری قوت اور تاثیر کے ساتھ جاری و ساری رہے۔ یاد رکھیں! جو آدمی اللہ کی راہ میں خرچ کرتا ہے اس کا مال نہ کبھی ختم ہوتا ہے نہ کم ہوتا ہے۔ حدیث پاک میں ہے کہ آقا علیہ الصلاۃ والسلام نے ایک صحابی کے سینے پر دستِ مبارک مار کر تین بار اِرشاد فرمایا :

أَنْفِقْ يُنْفِقِ اﷲُ عَلَيْکَ.

  1. طبرانی، المعجم الأوسط، 8 : 247، رقم : 8536

  2. هيثمی، مجمع الزوائد، 3 : 128

’’(اللہ کی راہ میں) خرچ کیا کر۔ اللہ تجھ پہ خرچ کرے گا‘‘۔

ایک اور مقام پر آقا علیہ الصلاۃ والسلام نے ارشاد فرمایا :

يَقُولُ اﷲُ تعالیٰ : {مَنْ جَآءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهُ عَشْرُ اَمْثَالِهَا}.

مسلم، الصحيح، کتاب العلم، باب فضل الذکر والدعاء والتقرب إلی اﷲ تعالی، 4 : 2068، رقم : 2687

اللہ تعالی فرماتا ہے : {جو کوئی ایک نیکی لائے گا تو اس کے لیے (بطور اَجر) اس جیسی دس نیکیاں ہیں}۔

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ سے فرمایا :

أَنْفِقْ بِلَالُ، وَلَا تَخْشَ مِنْ ذِي الْعَرْشِ إِقْلَالًا.

  1. طبرانی، المعجم الکبير، 1 : 342، رقم : 1025

  2. أبو يعلی، المسند، 10 : 430، رقم : 6040

’’اے بلال! خرچ کر اور عرش والے سے مال کم ہونے کا خوف نہ کھا‘‘۔

کیونکہ جو خرچ کرتا ہے اللہ اس کا مال کم نہیں کرتا۔ ہم نے یہ سبق سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے سیکھا ہے۔ جب آقا علیہ الصلاۃ والسلام نے پوچھا :

يَا أَبَا بَکْر، مَا أَبْقَيْتَ لِأَهْلِکَ؟

’’اے ابوبکر! گھر والوں کے لئے کیا چھوڑ آئے ہو‘‘؟

تو سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا :

أَبْقَيْتُ لَهُمُ اﷲَ وَرَسُولَهُ.

  1. أبو داؤد، السنن، کتاب الزکاة، باب فی الرخصة فی ذلک، 2 : 129، رقم : 1678

  2. ترمذی، السنن، کتاب المناقب، باب فی مناقب أبی بکر وعمر 5 : 614، رقم : 3675

’’گھر والوں کے لئے اللہ اور اللہ کا رسول چھوڑ کے آیا ہوں‘‘۔

اور یہی سبق سیدنا مولا علی المرتضی رضی اللہ عنہ سے سیکھا ہے۔ ان سے کسی نے پوچھا کہ آپ زکوۃ کتنی دیتے ہیں؟ فرمایا : میں نے زکوۃ کے حساب تک اپنا مال کبھی پہنچنے ہی نہیں دیا۔ یعنی وہ انفاق فی سبیل اللہ ہی اتنا کرتے رہتے کہ زکوٰۃ کی نوبت نہیں آتی۔ یہ اَہلِ بیت کا طریقہ ہے۔

سیدنا امام محمد باقر رضی اللہ عنہ سے ایک روایت ہے کہ جب سیدنا امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ سے حضرت شقیق بلخی کی ملاقات ہوئی تو سیدنا امام جعفر الصادق رضی اللہ عنہ نے پوچھا : آپ کے ہاں اللہ والوں کا کیا حال ہے اور آپ کے ہاں فتوت (یعنی اﷲ کی راہ میں اَحباب پر خرچ کرنے) کا کیا حال ہے؟ حضرت شقیق بلخی رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ حضور! ہمارے ہاں تو حال یہ ہے کہ مل جائے تو شکر کرتے ہیں، نہ ملے تو صبر کرتے ہیں۔ سیدنا امام جعفر الصادق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ہمارے مدینے کے کتوں کا بھی یہی حال ہے۔ مل جائے تو شکر کرنا اور نہ ملے تو صبر کرنا۔ ہمارے ہاں مردانِ حق کا حال یہ ہے کہ مل جائے تو بانٹ دیتے ہیں نہ ملے تو شکر کرتے ہیں۔ نہ ملے تو شکر اس لئے کرتے ہیں کہ وہ کہتے ہیں کہ حلال کا رزق ملے تو اس کا حساب ہوگا اور اگر حرام کمایا تو عذاب ہوگا۔ چنانچہ نہ ملے تو شکر کرتے ہیں کہ حساب سے تو بچ گئے۔

حرف آخر

آخری بات یہ ہے کہ حق کی نصیحت پہلے اپنی ذات کو کریں، اپنے اَعمال، اَحوال اور اَخلاق کو درست کریں۔ نمازِ پنج گانہ کی پابندی کریں۔ ظاہری اور باطنی طہارت کا ہمیشہ خیال رکھیں۔ رزائلِ اَخلاق سے بچیں، دوسروں کی پردہ پوشی کو اپنا وطیرہ بنائیں۔ محض عقیدت سے تجدید دین کا کام نہیں ہوتا، قرآن حکیم اور حدیث رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مطالعہ روز مرہ کا معمول بنائیں۔ علم و آگہی کے بغیر تحریکیں زندہ نہیں رہتیں، اس لئے خود میں شوق و ذوقِ مطالعہ پیدا کریں۔ عرفان القرآن، سیرۃ الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، المنہاج السوی، کتاب التوحید، کتاب البدعہ اور دیگر کتبِ عقائد و تصوف کا مطالعہ ہمیشہ جاری رکھیں۔ فکری و نظریاتی، تربیتی موضوعات پر میرے خطابات CDs اور DVDs کی شکل میں مرکز پر موجود ہیں ان سے بھر پور استفادہ کریں۔

آخر میں ایک حدیث بیان کرنا چاہتا ہوں جو آبِ زر سے لکھے جانے کے قابل ہے۔ آقا علیہ الصلاۃ والسلام نے ارشاد فرمایا :

إِنَّ ِﷲِ فِی الْأَرْضِ أَوَانِيَ، أَلَا وَهِيَ الْقُلُوبُ، وَأَحَبُّهَا إِليَ اﷲِ : أَرْقَاهَا وَأَصْفَاهَا وَأَصْلَبُهَا.

(حکيم ترمذی، نوادر الأصول، 4 : 3-4)

’’زمین پر اللہ کے برتن ہیں۔ جان لو! کہ وہ (لوگوں کے) قلوب ہیں۔ اور ان میں سے اﷲ کے نزدیک محبوب ترین وہ (برتن یعنی دل) ہیں جو سب سے زیادہ نرم، سب سے زیادہ صاف شفاف (یعنی میل کچیل سے پاک) اور سب سے زیادہ مضبوط (و مستحکم اور ثابت قدم) ہوتے ہیں‘‘۔

یہ حدیث مبارکہ ایک مومن کے لئے زندگی بسر کرنے کا ایک عملی نصاب ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کو وہی دل سب سے زیادہ پیارے ہیں جن میں نرمی، محبت اور استقامت ہے؛ جو نفرت اور غیض و غضب سے پاک ہیں اور جو حرصِ دنیا اور لالچ و شہوت سے کلیتاً پاک ہیں۔ برائی کا بدلہ بھلائی سے دیتے ہیں؛ گناہوں، بری خواہشات سے ہمیشہ خود کو پاک رکھتے ہیں۔ معاملاتِ زندگی میں دوستوں اور مسلمان بھائیوں میں نرم برتاؤ کرنے والے ہیں۔ ہر دم اللہ تبارک و تعالیٰ کی بندگی میں ثابت قدم رہنے والے ہیں۔ یہ نیکیوں کا ایسا چارٹر ہے جس پر عمل پیرا ہوئے بغیر ہم تجدید دین اور تحریکِ بیداریِ شعور کے اَہداف حاصل نہیں کر سکتے۔

ہمیں ہر روز اپنے اَعمال کا محاسبہ کرنا چاہیے اور دیکھنا چاہیے کہ گزرے کل کی نسبت آج کے دن کس قدر اللہ تعالیٰ کے قریب ہوئے ہیں۔ ایسا کرنے سے اللہ تعالیٰ کی محبت بڑھتی چلی جائے گی۔ اللہ تعالیٰ کی مخلوق کے ساتھ پیار محبت اور شفقت میں اضافہ ہوگا اور قلوب دنیوی میل و کچیل اور گناہوں سے پاک و صاف ہوتے چلے جائیں گے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیں بیداریِ شعور کی تحریک میں کامیاب و کامران فرمائے۔ (آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)