دروس سلوک و تصوف : درس نمبر47

صاحبزادہ مسکین فیض الرحمان درانی

سالک اور صوفی کے اعمال و اوصاف

مرید اور مبتدی کے لیے ہر قسم کی بناوٹ، ریا، تصنّع اور نمائش سے پرہیز لازم ہے۔

اسلامی خانقاہی نظام تربیت، مسلمانوں کے لیے اسوہ حسنہ پر چلنے، اخلاقِ نبوی اختیار کرنے اور اسلامی طرزِ حیات کے عام معمولات کی تعلیم دینے کی تحریک کا عملی ادارہ ہوتا ہے۔ یہ ایک تحریک ہے جو انسان کو انسان رہنے، اس کو آدمیت سیکھنے اوراللہ سبحانہ کی زیادہ سے زیادہ عبادت کرنے کی ترغیب، تربیت، تمرین اور عملی مشق کا ماحول فراہم کرتا ہے تاکہ طبیعت میں اسلامی تہذیب و تمدن تدریجاً فطرتی طور پر راسخ ہوتی چلی جائے اور صوفی زیادہ اچھی طرح دنیا میں اللہ کی مرضی کے مطابق زندگی گزارنے کے لیے عملی جدو جہد کرنے کے قابل ہو سکے۔ بفحوائے قرآنی تخلیق انسانی سے اللہ کی منشاء اس کی عبادت ہے۔

’’وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالِْانْسَ اِلاَّ لِيَعْبُدُوْنَ‘‘

(الذاريات : 56)

 عبادت مشرق و مغرب کی جانب رخ کر کے صرف پانچ مرتبہ نماز پڑھنے کا نام نہیں ہے بلکہ شب و روز اللہ کی خالص بندگی کے عملی اقرار کو عبادت کہتے ہیں۔ عبادت کا مفہوم بہت وسیع ہے یہ زندگی کے تمام اعمال کو اللہ تعالیٰ کی رضا کے مطابق سر انجام دینے کو کہتے ہیں۔ گذشتہ ایک درس میں ایمان، اسلام اور احسان پر گفتگو کرتے ہوئے ہم نے یہ سمجھنے کی کوشش کی تھی کہ سلوک، تصوف اور احسان انسانی قلب و ذہن اور فطرت کے اندر پوشیدہ اس گہرے احساس اور کیفیت کو عملی طور پر اجاگر کرنے کا نام ہے کہ جب بندہ اپنے مالک و مولا جل شانہ‘ کی موجودگی اپنے من میں پوری طرح محسوس کر کے اس کی رضا کے لئے وارفتگی اور والہانہ جذب و کیف سے کاروبار زندگی کے سب کام ایسا کرنے لگے کہ جیسے وہ اللہ کو دیکھ رہا ہے یااللہ اس کو دیکھ رہا ہے اورس کے اندر یہ احساس راسخ ہو جائے کہ اس کی نیت کی خالصیت دیکھ کر اللہ خوش ہو رہا ہے۔ عبادت سے اگر ہم صرف نماز، روزہ، زکوۃ اور حج ادا کرنے کا فریضہ مراد لیں تو گویا ہم اللہ تعالیٰ کے حضور اپنی بندگی کے تصور کو محدود کرنے کی بات کرتے ہیں کیونکہ صرف ان پانچ ارکان اسلام کے ادا کرنے سے ہی اللہ کا بندہ ہونے کا حق پوری طرح ادا نہیں ہو سکتا۔ بندگی تو ہر وقت اور ہر لمحہ اللہ کے سامنے اس کا بندہ بن کر رہنے کی کیفیت اور احساس کو کہتے ہیں۔ ارکان اسلام کے مطابق کئے جانے والی عبادات کا تعلق بھی مخصوص اوقات، ایام، شہور اور سالوں سے ہوتا ہے جبکہ ایک انسان ساری عمر، ہر وقت، ہر ساعت اور زندگی کی ہر گھڑی اللہ کا بندہ ہوتا ہے اوربندہ کسی لمحہ بھی اللہ کی بندگی سے باہر نہیں ہو سکتا۔ جیسے اس کی ہر سانس کی آمد روفت کا سلسلہ ہر لمحہ بحکم الہٰی جاری ہے۔ اس طرح انسان بھی اپنی زندگی کے ہر لمحہ اورہر ساعت اللہ کے حکم کا پابند اس کا بندہ اور غلام ہوتا ہے۔ جس طرح ایک انسان کی زندگی قائم رکھنے کے لئے شب و روز کے ہر لمحے انسان کو رزق دینے کا کام اللہ کا ہے۔ اسی طرح انسان بھی چوبیس گھنٹے اللہ کے احکام کا پابند ہوتا ہے۔ ان چوبیس گھنٹوں میں کسی وقت اگر کوئی شخص اپنے آپ کو اللہ کی خدائی سے باہر تصور کر کے ایسی حرکتیں کرے کہ جو اللہ کی مرضی کے خلاف ہوں توایسا وہ شخص خود اپنے اوپر ظلم کر رہا ہوتا ہے۔ اور وہ اپنے آپ کو اس لمحے خود اللہ کی بندگی سے باہر کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ تو اس کو اپنی بندگی سے خارج نہیں کرتا۔ اللہ علیم و خبیر ہے اس نے انسان کو بھی خبر کی صفت عطا کر رکھی ہے، اس کی فطرت بالقوہ کے اندر اقرارِ الوہیت کی صفت خیر و شر اور فجور و تقویٰ کے امتیاز کاعلم، احساسِ امانت و دیانت، اس کی مخفی لاشعوری قوتیں اور بصیرتِ نفس اس کو ہرلحظہ یہ خبر دیتی ہے کہ وہ اللہ کا بندہ ہے اس کے باوصف اگر وہ اپنے نفسِ امارہ، نفسانی خواہشات اور دنیاوی لذات کے لمحاتی چکر میں ایک دائمی اور اٹل حقیقت پر آنکھیں چھپانے کی کوشش کرتا ہے تو یقینا اس کا شعور، عقل نارسا اور فہم خام اس کو دھوکا دیکر گمراہ کر رہا ہے۔ عرفاء اسی لئے کہتے ہیں کہ :۔ اک دم غافل سو دم کافر

اسلامی طرز حیات اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی بندگی کے اس احساس اور کیفیت کے تحت منظم اعمال کا ایک ایسا مجموعہ ہے کہ جس میں ایک مومن کی زندگی کا ہر عمل صرف رضائے الہی کے حصول کے لئے ہوتا ہے۔ اسی کو عبادت اور کامل بندگی کہتے ہیں۔ یہ انسانی جسم، اعضاء و جوارح اور روح کا ہر وقت رواں دواں ایک سفر مسلسل سفر ہے۔ مومن کی زندگی کا ہر عمل اور سلوک جتنا صاف و شفاف اور متصوف ہو گا؟ اللہ کی نظر میں اس کا عامل اتنا ہی بڑا صوفی اور مکرم ہوگا۔ اعمال کی یہ صفائی اور شفافیت دنیا کو زبر دستی دکھانے کی چیز نہیں ہوتی اور نہ اسکی نمائش کی جاتی ہے بلکہ انسان کا اخلاص پر مبنی ہر عمل تو اللہ کو نظر آتا بھی ہے۔ اور اللہ اس کا اجر بھی عطا فرماتا ہے۔ دنیا کو اس کے دکھانے کی غرض عنداللہ ماجور نہیں ہوتی۔ متصوف عمل اور سلوک سے مخلوق خدا کو فائدہ اور نفع ملتا ہے، لوگ اس سے مستفیض ہوتے ہیں۔ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :

’’خَيْرُ النَّاسِ اَنْفَعُهُمْ لِلنَّاسِ‘‘

(لوگوں میں بہترین وہ بندہ ہوتا ہے جس کی ذات سے لوگوں کو نفع پہنچے۔ یعنی جس بندے سے دوسرے بندوں کو نفع پہنچے وہ اللہ کے نزدیک بلند مرتبہ ہوتا ہے۔ )

سلوک و تصوف یا پیری مریدی عام اسلامی زندگی سے ہٹ کر کسی متوازی طرز حیات کا نام نہیں ہے کہ جس کی نمائش کی جائے۔ مومن کی زندگی کی ہر سانس اللہ کی امانت ہے جس کی حفاظت ہر مسلمان پر واجب ہے۔ چاہے وہ کسی کا مرید ہو یا نہ ہو۔ کسی بھی مسلمان کے فعل احسان سے جب کسی دوسرے انسان کی جان یا عزت و آبرو بچ جاتی ہے تو وہ لمحہ خالق انس و جان کے لئے بہت خوشی اور مسرت کا ہوتا ہے۔ سلوک و تصوف میں حقوق العباد یعنی اللہ کی مخلوق کے حقوق ادا کرنے کے عمل اور سلوک کو اس لیے ’’تحسین علاقۃ الانسانِ بالانسان‘‘ کہا جاتا ہے کہ انسانوں کے مابین تعلقات میں احسان کے عنصر کو شامل کیا جائے۔ کائنات کا پورا کاروبار احسان کے تحت سر انجام پا رہا ہے اور عدل اجتماعی پر قائم ہے۔ احسان، بھلائی، نیکی، خیر اور انعام کو کہتے ہیں۔ اسی لئے سورہ نمل کی نویں (90) آیہ کریمہ میں اللہ سبحانہ تعالیٰ انسانوں کو بھی عدل اور احسان (دونوں) کا حکم دیتا ہے۔

’’إِنَّ اللّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ ‘‘

سلوک میں تصوف کا عنصر جیسا جیسا نکھرتا ہے صفت احسان بھی کمال حاصل کرتا جاتا ہے اور ایک مقام پر ’’کمال احسان‘‘ کی کیفیت یہ ہو جاتی ہے کہ محسن فطرتی طور پر اپنا سارا کا سارا حق دوسروں کے لئے قربان کر دیتا ہے۔ ایک متفق علیہ حدیث میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ معلم اخلاق نبی مکرم و محتشم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ ’’اس ذات پاک کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے کوئی شخص بھی اس وقت تک صاحبِ ایمان نہیں ہو سکتا۔ جب تک وہ اپنے بھائی کے لئے وہی کچھ پسند نہ کرے جو اپنی ذات کے لیے پسند کرتا ہے‘‘۔ صوفی کے ’’عمل احسان‘‘ اور کسی عام شخص کے احسان کے عمل میں فرق یہ ہوتا ہے کہ کسی پر احسان کرتے وقت صوفی کی نیت اور ارادہ، فقط اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لئے ہوتا ہے۔ اس میں دکھاوا، تصنع، بناوٹ، نمائش، ذاتی شہرت اور نام بنانے کی نیت نہیں ہوتی۔ وہ کسی کے ساتھ جب عمل خیر، نیکی، اچھا سلوک اور برتاؤ کرتا ہے تو بدلے میں اس سے کسی احسان کی توقع نہیں کرتا۔ وہ اپنے تمام اعمال کا صلہ اللہ سے طلب کرتا ہے۔ وہ ہر وقت اللہ کے نظر کرم کا طالب ہوتا ہے اور اسی کے نام پر جیتا مرتا ہے۔ ایمان کی تکمیل کی شرط ایک حدیث قدسی میں یہ بتائی گئی ہے کہ ’’جس نے اللہ تعالیٰ کے لئے محبت کی، اللہ تعالیٰ کے لئے عداوت رکھی، اللہ تعالیٰ کے لئے دیا اور اللہ کے لئے دینے سے ہاتھ روک لیا اس نے اپنے ایمان کی تکمیل کی‘‘۔ (رواہ ابو داؤد) لہذا راہ طریقت پر قدم رکھنے والے ہر مرید، مبتدی، سالک، صوفی کی نیت اور ارادہ فقط اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی کے حصول کے لئے ہونا لازم ہوتا ہے۔ ذاتی منفعت، نمائش اور حصول شہرت کی نیت گمراہی کے اسباب ہوتے ہیں۔ اگر مرید بنتے وقت کسی کی نیت کا مدار اپنی ذات کی منفعت ہو تو وہ پہلے دن سے ہی اپنی حقیقی منزل اور مقصد (objective, goal, aim, purpose) کی راہ سے بھٹک جاتا ہے اور وہ کسی دوسری سمت کا سفر شروع کرتا ہے پھر جب اس کی آنکھ کھلتی ہے تو آخر میں نتیجہ اس کی ناکامیابی، ناکامی اور نامرادی کی شکل میں سامنے آتا ہے اور ساری عمر وہ ایک عجیب طرح کے احساسِ ندامت اور پشیمانی کا شکار ہوتا ہے۔ وہ سمجھ جاتا ہے کہ اس نے اپنا سفر طریقت غلط طریقے اور غلط راہنمائی سے شروع کیا تھا۔ یہ احساس گناہ بھی اس پر اللہ کا کرم ہوتا ہے اور اللہ کی جانب سے اس کو تنبیہ ہوتی ہے کہ بندے! اب بھی وقت ہے اپنی نیت، ارادے اور راہنما کو بدل کر صحیح راستے پر آ جا۔ اللہ تعالیٰ نے جب ایک انسان کو دوسرے انسانوں کی طرح ایک عام انسان پیدا کیا ہے تو زندگی میں بھی اس کو عام انسانوں کی طرح رہنا درکار ہوتا ہے۔ اس کو غیر معمولی (extra-ordinary) بننے سے احتراز کرنا چاہیے۔ اس کو چاہیے کہ راہ طریقت پر معمول کے مطابق دوسرے انسانوں کی طرح زندگی بسر کرے۔ اپنے آپ کو دوسروں سے الگ، فائق اور برتر نہ سمجھے بلکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی اس عطا، مہربانی، فضل و کرم اور عنایت پر شکر ادا کرے کہ اس کی زندگی کو صاف ستھرا کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے اس کی راہنمائی کی اور سیدھے راستہ پر ڈال دیا ہے۔ جس کی التجا وہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے سامنے رات دن پانچ مرتبہ یا اس سے بھی زیادہ بار نہایت عاجزی سے اپنی نماز وں میں ’’اِهْدِنَاالصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ‘‘ کے الفاظ سے کرتا ہے۔ اب اللہ کے سامنے حاضررہنے کی حالت میں بھی اگر کوئی شخص اپنی زبان سے اد اکرنے والے الفاظ کو خود سمجھنے سے انکار کرے اور راہ ہدایت کی بجائے ضلالت کی راہ اختیار کرے تو قصور تو اس کا اپنا ہوا۔

میں جو سربسجدہ ہُوا کبھی تو زمین سے آنے لگی صدا
تیرا دل تو ہے صنم آشنا تجھے کیا ملے گا نماز میں

(اقبال رحمۃ اللہ علیہ)

خانقاہی نظام کے تحت سلوک و تصوف اور احسان کی تعلیم اور عملی تربیت حاصل کر نے والے مرید باصفا کا حقیقی مقصد اور مدعا قوانینِ شریعتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تحت اللہ کی رضا اور خوشنودی حاصل کرنے کے لیے اپنی زندگی کو راہ راست پر لانے کی جدوجہد، ریاضت اور مجاہدہ ہے۔ اس کی یہ مشقت اس وقت زیادہ آسان ہوتی ہے جب کسی ملک اور ریاست میں نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسوہ حسنہ اور شریعت کے مطابق اجتماعی طور پر اسلامی طرزِ حیات قائم ہو۔ سیرۃ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور سیرۃ صحابہ رضی اللہ عنہم کی اتباع میں ریاست کا نظام حکومت چل رہا ہو، تہذیب و تمدن، معاشرت، معیشت اور معاملاتِ زندگی حیاتِ طیبہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روشنی میں پروان چڑھ رہے ہوں تو ایسی اسلامی ریاست کا مجموعی ماحول سلوک و تصوف اور احسان کے لیے سازگار ہوتا ہے ایسے ماحول میں معاشرہ کے افراد خود بخود روحانی الذہن ہو کر اسلامی تعلیمات کے مطابق وحدت نسلِ انسانی اور شرف و تکریمِ انسانیت کے تصور کے تحت ایسا سلوک اور اعمال کرتے ہیں کہ پوری سوسائٹی محدود گروہی، لسانی، علاقائی اور طبقاتی عصبیتوں اور آلائشوں سے پاک، امن اور سلامتی کی زندگی گذارتی ہے۔ لوگوں کی جسمانی، ذہنی، فکری، جذباتی اور روحانی صلاحیتوں میں دن بدن ترقی ہوتی ہے وہ انفرادی اور اجتماعی زندگی میں تمام داخلی اور خارجی موجباتِ خوف و غم، بھوک، افلاس اور جہالت سے محفوظ ہوتے ہیں۔ ان کی عبادات میں جسمانی، فکری اور روحانی آسودگی خود بخود آ جاتی ہے۔ سب روحانی طور پر خوش ہوتے ہیں۔ عوام بھی خوش، علماء اور حکمران بھی خوش اور پورا معاشرہ خوش حال ہوتا ہے۔ ہر شخص دوسرے شخص کے ساتھ احسان کرتا ہے۔ ایکدوسرے کے ساتھ احسان کرنے سے سب کی زندگی حسین اور خوبصورت بن جاتی ہے۔ لوگوں کے ذہن خود بخود خوبصورت ہو جاتے ہیں۔ ہر شخص رضائے الہی کی جستجو میں مگن ہوتا ہے اور ان کے ہر عمل کی بنیاد’’اپنا حق مانگنے‘‘ کی بجائے پہلے ’’دوسرے کے حق کو ادا کرنا‘‘ ہوتا ہے لہذا معاشرے کا کوئی فرد’’محرومی‘‘ کا شکار نہیں رہتا۔ خانقاہی نظام کی تعلیم و تربیت کا ماحاصل یہ ہوتا ہے کہ صوفیاء عام مسلمانوں کی طرح معمول کی زندگی (normal life) گزاریں، کوئی غیر معمولی(abnormal) نہ بنے۔ ایک صوفی جب دوسرے انسانوں جیسی زندگی بسر کرے گا تو وہ اپنی ضروریات پر دوسروں کی ضروریات کو فائق سمجھے گا اور اپنی ضروریات پوری کرنے سے پہلے دوسروں کی ضروریات پوری کرے گا۔ نبی محتشم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پوری امت مسلمہ کے لیے فرمان ہے کہ :۔

وَالَّذِيْ نَفْسِيْ بِيَدِهِ لَا يُؤْمِنُ عَبْدٌ (اَوْ اَحَدُکُمْ) حَتّٰی يُحِبَّ لِاَ خِيْهِ مَا يُحِبُّ لِنَفْسِهِ

(متفق عليه)

(حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ‘ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا، قسم اس ذات کی جس کے دستِ قدرت میں میری جان ہے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہو گا جب تک اپنے پڑوسی یا بھائی کے لیے اس چیز کو پسند نہ کرے جسے وہ خود اپنے لیے پسند کرتا ہو) اس حدیث میں صوفی، مبتدی سالک اور مرید کے لیے واضح نصیحت ہے کہ وہ عام مسلمانوں کی طرح معمول کی زندگی بسر کرے اور اپنی وضع قطع، حرکات و سکنات، تصنع اور بناوٹ سے اپنے غیر معمولی ہونے کا اظہار نہ کرے۔ اسلامی طرزِ معاشرت اختیار کرے۔ صوفی کی زندگی میں جسمانی، ذہنی، جذباتی اور روحانی استحکام لازم ہوتا ہے۔ اس کی زندگی عام انسانوں سے اس لحاظ سے مختلف ہوتی ہے کہ اس کا ہر کام اللہ تعالیٰ کے لیے ہوتا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس کی زندگی کا ہر زاویہ، ہر پہلو اور ہر کام ہر طرح سے پاک، صاف اور مصفاّ ہو۔ مسلمان صوفی کے ہر سلوک میں صفائی اور تصوف کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ زندگی کا ہر کام اللہ کی رضا کے لیے خلوص نیت اور صدق و اخلاص سے کرتا ہے۔ اُس میں کسی قسم کی بناوٹ، تصنّع، ریاکاری اور ایسی نمائش نہیں ہوتی کہ جس سے جان بوجھ کر اس کی شہرت کا پہلو نکلتا ہو۔

ابتدائی دینی تعلیم نہ ہونے کے باعث بعض لوگ غیر اختیاری طور پر جب ایسے پیروںکے حلقہ ارادت میں داخل ہوتے ہیں جو حقیقی مرشِد و مرّبی نہیں ہوتے اور اپنے حلقہ میں داخل ہونے والوں کو وُہ ابتدائی آدابِ ارادت بتانے سے قاصر ہوتے ہیں کہ جو ایک مبتدی سالک کے لیے خانقاہ میں داخل ہونے سے پہلے سیکھنا ضروری ہوتے ہیں تو نتیجہً بعض خانقاہ میں داخل ہوتے ہی وہ زندگی کے عام معمول سے ہٹ کر کچھ ایسی غیر معمولی حرکات دکھانا شروع کر دیتے ہیں جو دنیا کے لیے اچنبھے کا باعث ہوتے ہیں۔ کچھ لوگ اپنی وضع قطع، لباس، بول چال اور بودوباش کے طریقے اچانک کچھ اس طرح تبدیل کر لیتے ہیں کہ لوگ مذاق اڑانا شروع کر دیتے ہیں۔ کچھ لوگ غیر مناسب انداز میں اس کو مولوی، صوفی یا پیر جی کے نام سے بُلا کر تضحیک کرتے ہیں۔ لوگوں کا یہ روّیہ عام طور پر بہت تکلیف دہ ہوتا ہے لیکن یہ امر بھی قابلِ توجہ ہے کہ لوگوں کو اس گناہ پر مائل کرنے کا باعث کون بنا، در حقیقت معمول کی زندگی کو اچانک غیر معمولی بنا کر لوگوں کو دکھانا خود اپنے ہاتھوں اپنا مذاق اڑانے کے مترادف ہے۔

صوفیانہ زندگی اختیار کرنے کے بعد مرید، مبتدی سالک اور صوفی کی زندگی کے معمولات اور ماحول میں کچھ تبدیلی تو ضرور آتی ہے۔ لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہونا چاہیے کہ وہ اپنے پورے کاروبارِ زندگی کو یکسر ایسا تبدیل کر لے کہ دنیا اس کو بھی پہچاننے سے قاصر ہو اور وہ کسی دسری دنیا کی مخلوق نظر آنے لگے۔ مرید بننے یا اسباق، اورادو وظائف حاصل کرنے کے بعد مریدی کا عملی مظاہرہ اگر کوئی فوری طور پر اپنی روز مرہ زندگی کے حوالے سے یوں کرے کہ معمول کے مطابق روزانہ زیبِ تن کرنے والے کپڑوں مثلاً قمیض شلوار کی بجائے اچانک ایک لمبا ڈھیلا ڈھالا کرتہ پہننا شروع کر دے، کرتے کے اوپر ایک لمبا چغہ گڈری یا رنگین کپڑے کے ٹکڑوں سے بنا ہوا خرقہ پہن لے اور سر پر ایک بڑا عمامہ رکھ کر اس کے اوپر ایک بڑی سبز چادر اور پاؤں میں جوتوں کی بجائے گھاس کے بنے چپل پہن لے، ہاتھ میں ہزار دو ہزار دانوں والی مالا تھام لے اوراپنا سارا کاروبار سمیٹ کر یا ملازمت چھوڑ کر کسی خانقاہ یا مزار پر جا کر عزلت گزینی کی زندگی اپنا لے۔ عوام الناس حتیٰ کہ اپنے اہل خانہ سے ملنا جلنا اور بات چیت کرنی بند کر لے، چپ کا روزہ سادھ لے گویا دنیا سے الگ تھلگ ہو کر سادھوں اور ملنگوں والی زندگی اختیار کر لے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ وہ معمول کے لوگوں (ordinary people) سے الگ ہو کر کوئی غیر معمولی مخلوق (extra-ordinary person) بن گیا ہے۔ اب اس ہئیت کذائی میں اس نے دنیا والوں سے پہلے جیسا تعلق رکھنا ہے اور نہ دنیا والے اس کو پہلے جیسا انسان سمجھیں بلکہ وہ کوئی ماورائے خلق شئے بن گیا ہے اور دنیا والوں نے اس کو کوئی مافوق الفطرت بزرگ سمجھ کر اس سے دعائیں لینی ہوں گی۔ کسی مبتدی صوفی، سالک یا نئے مرید ہونے والے شخص کا یہ عمل سوائے نادانی، بیوقوفی اور جہالت کے اور کیا ہو سکتا ہے۔

اسلامی طرز حیات میں احسان، سلوک اور تصوف کے اعمال کا جہاں تک تعلق ہے وُہ تو ہر مسلمان کی زندگی کا روزمرہ کا معمول ہوتا ہے۔ ایک مسلمان کے لیے طریقت کی راہ پر گامزن ہونے کے لیے کسی مخصوص وضع قطع یا غیر معمولی طرز زندگی اپنانے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ کیونکہ کسی صوفی نے نہ تو کوئی جادو ٹوٹکہ کرنا ہوتا ہے اور نہ ہی سفلی عملیات پکے کرنے ہوتے ہیں کہ جس کے لئے اس کو کوئی خاص وضع قطع اختیار کرنی ہوگی۔ البتہ ہندوؤں کے جوگی، سنیاسی اور بدھ بھکشو اپنے عقیدے کی بنا پر اس قسم کی وضع قطع اور رہبانیت کی زندگی ضرور اپناتے ہیں۔ عیسائی پادریوں اور ننوں کی زندگی گزارنے کا صوفیانہ طور طریقہ بھی لباس اور بودوباش کی حد تک ایسا ہی ہوتا ہے۔ مسلمان صوفیاء عام مسلمانوں میں رہ کر ان کی طرح زندگی بسر کرتے ہیں۔ فرق صرف اتنا ہوتا ہے کہ وہ عام مسلمان کے مقابلے میں شریعت کی پابندی کرتے ہوئے حلال اور حرام کے امتیاز میں زیادہ احتیاط کرتے ہیں۔ اسلامی صوفیانہ طرز زندگی میں اس طرح کی باتوں کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔ ایک صوفی کے لیے ہر قسم کی نمائش، ریاکاری، تصنع اور بناوٹ کی زندگی سے احتراز لازم ہوتا ہے۔ ہاں اگر ایک شخص عادتاً یا رواجاً اپنی روز مرہ زندگی پہلے سے کسی مخصوص لباس اور وضع قطع میں گزار رہا ہو اور خلق خدا اس کو اسی لباس اور وضع قطع میں دیکھنے کی عادی ہو۔ اس کی بودوباش پہلے سے کسی خاص روایتی انداز کی ہو، اس کی طرز معاشرت، رہنا سہنا روّیہ اور سلوک و برتاؤ کا معمول ایسا ہی ہوجیسا وُہ نظر آتا ہے اور لوگ اس کے مخصوص لباس، وضع قطع اور طرز معاشرت کے عادی ہوں۔ اس کو دیکھ کر حیرت زدہ اور متحیر نہ ہوتے ہوں اور اس کے لیے اس طرح کے سلوک کو غیر معمولی تصور نہیں کرتے ہوں تو اس کا ایسا کرنا جائز ہے، وہ اسی طرح کرتا رہے۔ یہ بناوٹ، تصنع اور نمائش نہیں ہے بلکہ اس کی طرز معاشرت کا معمول کے مطابق ایک انداز ہے۔