حافظ محمد سعید رضا بغدادی

عرفان القرآن کورس
درس نمبر49آیت نمبر103 تا 105 (سورۃ البقرہ)
تجوید

سوال : مدَّات کی تفصیل بیان کریں؟

جواب : مدَّات کی تفصیل درج ذیل ہے :

1۔ مدِّ لازم کلمی مُخَفَّفْ کی تعریف مع امثال

اگر کسی کلمے میں حرفِ مدّہ کے بعد ایسا حرف ساکن ہو جس کا سکون اصلی ہو یعنی وقف کرنے کے سبب پیدا نہ ہوا ہو تو ایسے حرفِ مَدّہ کو ’’مدِّ لازم کلمی مُخَفَّفْ‘‘ (نرمی سے پڑھی جانے والی) کہتے ہیں۔ مثلاً : آلْئٰنَ (سورۃ یونس)

2۔ مدِّ لازم کلمی مُثَقَّل کی تعریف مع امثال

اگر کسی کلمہ میں حرفِ مدّہ کے بعد کوئی حرف مشدّد ہو تو اسے بھی مدِّ لازم کے ساتھ پڑھتے ہیں اور ایسے مدّ کو ‘‘مدِّ لازم کلمی مُثَقَّل‘‘کہتے ہیں۔ مثلاً : حَآجَّہ۔ اس کی مقدارِ مَدّ بھی ’’تین الف‘‘ کے برابر ہوتی ہے۔

3۔ مدِّ لازم حرفی مُخَفَّفْ کی تعریف مع امثال

اگر کسی حرف میں حرفِ مدَّہ کے بعد سکونِ اصلی بغیر تشدید کے ہو تو اس کو مدِّ لازم حرفی مُخَفَّفْ کہتے ہیں۔ جیسے : المّ میں یائے مدَّہ کے بعد میم کا سکون اصلی ہے۔

4۔ مدِّ لازم حرفی مُثَقَّل کی تعریف مع امثال

اگر کسی حرف میں سکونِ اصلی بالتشدید ہو تو اس کو مدِّ لازم حرفی مثقل کہتے ہیں۔ جیسے : المّ

ترجمہ

وَلَوْ أَنَّهُمْ آمَنُواْ واتَّقَوْا لَمَثُوبَةٌ مِّنْ عِندِ اللَّه خَيْرٌ

متن وَ لَوْ أَنَّهُمْ آمَنُواْ واتَّقَوْا لَمَثُوْبَةٌ مِّنْ عِنْدِ اللّٰهِ خَيْرٌ
لفظی ترجمہ اور اگر بیشک وہ ایمان لاتے تقویٰ اختیار کرتے تو ثواب ملت سے پاس اللہ کے بہترین
عرفان القرآن اور اگر وہ ایمان لے آتے اور پرہیزگاری اختیارکرتے تو اللہ کی بارگاہ سے ثواب کہیں بہتر ہوت

لَّوْ كَانُواْ يَعْلَمُونَO يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ لاَ تَقُولُواْ رَاعِنَا

متن لَوْ کَانُوْ يَعْلَمُوْنَ يَا أَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْ لاَ تَقُوْلُوْ رَاعِنَا
لفظی ترجمہ کاش ہوتے وہ جانتے اے لوگو جو ایمان لائے مت کہو راعن
عرفان القرآن کاش وہ آگاہ ہوتے۔ اے ایمان والو! (نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو متوجہ کرنے کیلئے) رَاعِنَا مت کہا کرو۔

وَقُولُواْ انظُرْنَا وَاسْمَعُوا وَلِلكَافِرِينَ عَذَابٌ أَلِيمٌO

متن وَ قُوْلُوْ انظُرْنَا وَ اسْمَعُوْا وَ لِلْکَافِرِيْنَ عَذَابٌ أَلِيْمٌ
لفظی ترجمہ اور کہو ہماری طرف نظر فرمائیے اور بغور سنتے رہا کرو اور کافروں کیلئے عذاب ہے دردناک
عرفان القرآن بلکہ انظرنا (ہماری طرف نظر کرم فرمایئے) کہا کرو اور بغور سنتے رہا کرو اور کافروں کیلئے دردناک عذاب ہے

مَّا يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُواْ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ وَلاَ الْمُشْرِكِينَ

متن مَّا يَوَدُّ الَّذِيْنَ كَفَرُواْ مِنْ أَهْلِ الْکِتَابِ وَ لاَ الْمُشْرِکِيْنَ
لفظی ترجمہ نہ چاہتے ہیں وہ لوگ جو کافر ہوئے سے اہل کتاب اور نہ مشرکین
عرفان القرآن نہ وہ لوگ جو اہل کتاب میں سے کافر ہو گئے ہیں اور نہ ہی مشرکین اسے پسند کرتے ہیں۔

أَن يُنَزَّلَ عَلَيْكُم مِّنْ خَيْرٍ مِّن رَّبِّكُمْ وَاللّهُ يَخْتَصُّ

متن أَنْ يُنَزَّلَ عَلَيْکُمْ مِنْ خَيْرٍ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَ اللّٰهُ يَخْتَصُّ
لفظی ترجمہ یہ کہ نازل کی جائے تم پر کوئی نیک بات سے تمہارے رب اور اللہ خاص کر لیتا ہے
عرفان القرآن کہ تمہارے رب کی طرف سے تم پر کوئی بھلائی اترے‘ اور اللہ خاص کر لیتا ہے

بِرَحْمَتِهِ مَن يَشَاءُ وَاللّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِO

متن بِ رَحْمَةِ هِ مَنْ يَشَاءُ وَ اللّٰهُ ذُوْ الْفَضْلِ الْعَظِيْمِ
لفظی ترجمہ ساتھ رحمت اپنی جس کو چاہتا ہے اور اللہ صاحب فضل بڑا
عرفان القرآن اپنی رحمت کے ساتھ جسے چاہتا ہے۔ اور اللہ بڑے فضل والا ہے۔

تفسیر

وَلَوْ أَنَّهُمْ اٰمَنُوْا وَاتَّقُوْا... الخ

ایمان اور تقوی کا اجر بہتر اور اخروی معاوضہ اعلی ہے۔

يٰاَيُهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا... الخ

1۔ شان رسات مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں معمولی گستاخی بھی کفر ہے۔ اس آیت کریمہ میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ادب واحترام اور تعظیم وتکریم کا ایک اصولی ضابطہ امت مسلمہ کو عطا کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہِ اقدس میں گفتگو کے آداب کیا ہونے چاہئیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم سے کلام فرماتے تو اگر انہیں کسی بات کی سمجھ نہ آتی تو وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دوبارہ سننے کے لیے عرض کرتے

’’رَاعِنَا يَا رَسُوْلَ اللّٰهِ‘‘

(یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے حال کی رعایت فرمائیے)

یعنی ہمیں سمجھانے کے لیے یہ بات دوبارہ ارشاد فرمائیے۔ یہ کلمہ فی نفسہ گستاخی کا نہ تھا۔ مگر یہودیوں نے اپنے خبث باطن کے باعث اسے غلط معنی میں استعمال کرنا شروع کر دیا تھا۔ جس سے دربارِ رسالت میں بے ادبی اور گستاخی کا پہلو نکلتا تھا۔ چنانچہ مسلمانوں پر بھی اس لفظ کے استعمال کی پابندی لگا دی گئی۔ چونکہ اس میں گستاخی و بے ادبی کا مفہوم پیدا ہونے یا پیدا کر لیے جانے کا احتمال تھا اس لیے اللہ تعالیٰ کو یہ بھی گوارا نہ ہوا کہ ایسا لفظ میرے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف منسوب کیا جائے۔ حضرت سعد بن معاذ  رضی اللہ عنہ اور بعض روایات کے مطابق حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے یہود کو لفظ رَاعِنَا غلط معنی میں استعمال کرتے سنا تو کہا :

يَا أَعْدَاءَ اللّٰهِ عَلَيْکُمْ لَعْنَةُ اللّٰهِ وَالَّذِيْ نَفْسِی بِيَدِهِ لَئِنْ سَمِعْتُهَا مِنْ رَجُلٍ مِنْکُمْ يَقُوْلُهَا لِرَسُوْلِ اللّٰهِ لَأَضْرِبَنَّ عُنُقَهُ، فَقَالُوْا أوَ لَسْتُمْ تَقُوْلُوْنَهَا فَنَزَلَتْ هٰذِهِ الاٰيَة‘‘

(تفسير کبير، کشاف، قرطبی، روح المعانی)

’’اے اللہ کے دشمنو!تم پر اللہ کی لعنت ہو، اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے۔ اگر میں نے تم میں سے کسی کو یہ لفظ ’’رَاعِنَا‘‘ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حق میں بولتے ہوئے سن لیا تو میں ا سکی گردن اڑا دوں گا۔ اس پر انہوں نے کہا کہ تم بھی تو یہ لفظ بولتے ہو۔ چنانچہ اس لفظ کے استعمال کے منع پر یہ آیت نازل ہو گئی۔‘‘

لفظ رَاعِنَا میں گستاخی و بے ادبی کے درج ذیل احتمالات تھے

(1) یہود کی زبان میں یہ کلمہ تحقیر کے طور پر استعمال ہوتا تھا اور وہ اسے بطورِ گالی استعمال کرتے تھے۔

(2) عبرانی اور سریانی زبان میں اس سے ملتا جلتا ایک لفظ تھا جس کے معنی تھے ’’تو بہرہ ہو جائے‘‘

(3) عربی زبان کا ایک معنی صاحب رعونت متکبر کا تھا ’’ رَاعِن‘‘ کے لیے۔ اور ایک معنی جاہل اور احمق کا بھی تھا۔ گو رَاعِن اور لفظ تھا اور وہ رعونت سے تھا اور’’راعنا‘‘ رعایت سے تھا اور اس کا معنی تھا ہمارے حال کی رعایت فرمایئے مگر رَاعِن اور رَاعِنَا بولتے وقت کوئی بد بخت اضافت کا تعلق بنا سکتا تھا اور اس طرح لفظ رَاعِنْ کا معنی، مفہوم ادھر منسوب کیے جانے کا امکان تھا۔

(4) یہود اپنی گستاخانہ ذہنیت کے باعث آپس میں راعنا کے لفظ کو دبا کر رَاعِيْنَا کہتے تھے جس کا معنی ’’ ہمارے چرواہے‘‘ بن جاتا ہے۔ اس طرح وہ اپنی مجلسوں میں سرکار دو عام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گستاخی اور تضحیک کے ذریعے اپنے بغض وحسد کی آگ کو ٹھنڈا کرتے تھے۔ اس کا ذکر قرآن مجید میں ایک دوسرے مقام پر یوں آیا ہے :

’’رَاعِنَا لَيًّا بِاَلْسِنَتِهِمْ‘‘

(راعنا کو اپنی زبان مروڑ کر بولتے ہیں)

(5) قطرب نے بیان کیا ہے کہ یہ لفظ بعض اوقات اہل حجاز تضحیک اور تمسخر کے وقت بھی استعمال کرتے تھے۔

(6) اَلرَّعیِ بَيْنَ اِثْنَيْنِ میں دو بولنے والوں کے لیے برابری اور مساوات کا مفہوم پایاجاتا ہے لہٰذا اس لفظی مناسبت کی بنا پر رَاعِنَا میں بوقت مخاطبت مفہوماً لوگوں کی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مساوات اور برابری کا گمان ہو سکتا تھا۔

(7) قاضی عیاض نے الشفاء میں بیان کیا ہے کہ لغت انصار کے مطابق اس لفظ راعنا کے استعمال میں قلت ادب اور عدم تعظیم وتوقیر کا پہلو نکلتا تھا کیونکہ مقامی لوگ اس لفظ کو اس جگہ استعمال کرتے تھے جہاں خاص ادب وتعظیم ملحوظ نہ ہوتا اور بلا اہتمام خاص گفتگو کرنا مقصود ہوتی۔ (تفسیر منہاج القرآن)