اداریہ : یوم قائد اعظم... تجدید عہد کادن

حقیقی قیادت وہ ہوتی ہے کہ غیر بھی جن کی عظمتِ کردار کا اعتراف کریں۔ کچھ عرصہ قبل اخبارات میں ایک اہم خبر آپ نے پڑھی ہو گی جس سے پوری قوم میں خوشی کی لہر دوڑ گئی جبکہ دوسری طرف بھارت میں غم وغصے کی فضا پیدا ہو گئی تھی۔ جب بھارت کے سابق وزیر خارجہ اور بی جے پی کے رہنما اور بھارت کے سابق وزیر خارجہ جسونت سنگھ کی کتاب ’’Jinah and the partition of India‘‘ منظر عام پر آئی جس نے بھارت میں تہلکہ مچا دیا۔ یہ کتاب 600 صفحات پر مشتمل ہے اور موصوف نے اسے پانچ سال کی محنت اور تحقیق کے بعد مکمل کیا ہے اس کتاب میں جو انکشافات کئے گئے انہوں نے پورے بھارت کو ہلا کر رکھ دیا۔ یہی وجہ ہے کہ جسونت سنگھ کی اس کتاب میں لکھی جانے والی حقیقت اور سچائی کو بی جے پی برداشت نہیں کر سکی اور انہیں فوری طور پر پارٹی سے نکال دیا۔ دوسری طرف گجرات کے بی جے پی کے انتہا پسند رہنما نریندر مودی نے اپنی ریاست میں اس کتاب کے داخلے پر پابندی لگا دی۔ جسونت سنگھ کی کتاب کے اہم نکات درج ذیل ہیں :

  1. تقسیم ہند کے لیے محمد علی جناح کو بلا وجہ بدنام کیا گیا۔
  2. حقیقت یہ ہے کہ جواہر لعل نہرو نے اپنی ہٹ دھرمی کی وجہ سے الگ مسلم مملکت کے قیام کے لیے محمد علی جناح کو مجبور کیا۔
  3. بھارتی مغربی تاریخ دان اور میڈیا محمد علی جناح کو " ولن" کے طور پر پیش کرتا رہا حالانکہ انکا کردار " ہیرو" کا تھا جسکی وجہ سے بھارت نے جناح کی عظمت کو سمجھنے میں غلطی کی۔
  4. محمد علی جناح، جواہر لعل نہرو اور سردار پٹیل سے زیادہ بڑے سیاسی رہنما تھے۔
  5. جناح کو کئی مرتبہ گاندھی جی عظیم ہندوستانی قرار دے چکے ہیں جس سے انکی عظمت آشکار ہوتی ہے۔

اب یہ حقائق بھارتی حکومت، اپوزیشن اور عوام کو بھلا کب ہضم ہو سکتے تھے۔ لامحالہ مذکورہ کتاب کی رونمائی کے چند گھنٹوں بعد پورے بھارت میں ایک طوفان کھڑا ہو گیا جس کے بعد جسونت سنگھ نے پریس کانفرنس کر کے یہ موقف اختیار کیا کہ جس دن ہم لکھنے پڑھنے، سوچنے اور برداشت کرنے کا سلسلہ ترک کر دیں گے اس دن ہم انتہائی قابلِ ر حم قوم کی حیثیت اختیار کر جائیں گے۔

مذکورہ بالا واقعہ سے بخوبی عیاں ہے کہ بھارت کی دونوں بڑی جماعتوں حکمران کانگرس اور اپوزیشن بی جے پی نے جس طرح حق کا نعرہ بلند کرنے والے جسونت سنگھ کو تنقید کا نشانہ بنایا اس سے ہندو ذہنیت کی عکاسی ہوتی ہے اور بجا طور پر اس امر کی حقانیت واضح ہو جاتی ہے کہ قائدِ اعظم کی قیادت میں جنوبی ایشیا میں الگ وطن کا قیام کس قدر ناگزیر تھا؟۔

اس سے یہ امر بھی روزِ روشن کی طرح عیاں ہوجاتا ہے کہ اپنے قلم کے ساتھ انصاف کرنے والی جسونت سنگھ جیسی اہم سیاسی شخصیت کے ساتھ حق گوئی اور بے باکی کی وجہ سے جب یہ سلوک روا رکھا جا رہا ہے تو عام مسلمانوں کے ساتھ متعصب ہندو طبقات کا طرزِ عمل کیسا ہو گا؟۔

اس سے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا دعویٰ کرنے والی بھارتی حکومت بھی بے نقاب ہوجاتی ہے کہ بھارت میں کسی فرد واحد چاہے اس کا تعلق ہندوجاتی سے ہی کیوں نہ ہو کو اظہارِ رائے کی قطعاََ آزادی حاصل نہیں ہے۔ تبصرہ نگاروں کے مطابق وقت نے ایک بار پھر ثابت کر دیا ہے کہ ہندو درحقیقت ایک ایسی متعصب قوم ہے کہ جو کسی بھی صورت مسلمانوں کو برداشت کر ہی نہیں سکتی ہے۔

27 رمضان المبارک کودنیا کے نقشے پر ایک عظیم مملکت پاکستان نمودار ہوئی، دنیا کی تاریخ میں پاکستان کا قیام ایک معجزے سے کم نہیں۔ بلاشبہ پاکستان، دو قومی نظریہ اور تحریک پاکستان کے نتیجے میں معرض وجود میں آیا اور لاکھوں قربانیاں دے کر آئینی اور جمہوری جدوجہد کے نتیجے میں حاصل کیا گیا۔ اس الگ مملکت کا خواب علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے دیکھا اور پھر اس کی تعبیر بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ نے کی جنہوں نے بڑی جرات، استقامت اور پامردی سے پاکستان دشمن قوتوں کا مقابلہ کیا اور بالاخر اپنی پچاس سالہ کامیاب سیاست کے بعد اپنی ذہانت، جرات اور عمل پیہم کے نتیجے میں پاکستان بنانے میں کامیاب ہو گئے۔

11 ستمبر کو قائدِ اعظم کے یوم وفات کے موقع پر پوری قوم ان کی عظمت اور قیادت کو خر اجِ تحسین پیش کرتی ہے۔ یہ حقیقت ہمیشہ ذہن میں رہنی چاہیے کہ قائدِ اعظم ایک عظیم مقصد کے حصول کا ذریعہ تھے خود ایک مقصد کبھی نہیں رہے۔ لہذا ہمیں اس موقع پر تجدیدِ عہد کرنا ہوگا کہ جس مقصد کے لیے پاکستان تعمیر کیا گیا تھا اس کی تکمیل کے لیے اب ہم قائد اعظم جیسی مخلص، باکردار، جرات مند، محبِ وطن، باصلاحیت، نڈر اور بے باک قیادت کو تلاش کر کے آگے لائیں گے تاکہ وہ دینِ اسلام اور اس کے نام پر حاصل کیے گئے ملک عزیز پاکستان کو ترقی یافتہ ممالک کی صف میں لا کھڑا کرے۔