یوم دفاع پاکستان اور ہماری ذمہ داریاں

مرتب : محمد حسین آزاد الازہری

قوموں اور ملکوں کی تاریخ میں کچھ دن ایسے ہوتے ہیں جو عام ایام کے برعکس بڑی قربانی مانگتے ہیں۔ یہ دن فرزندان وطن سے حفاظت وطن کے لئے تن من دھن کی قربانی کا تقاضا کرتے ہیں، ماؤں سے ان کے جگر گوشے اور بوڑھے باپوں سے ان کی زندگی کا آخری سہارا قربان کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ قربانی کی لازوال داستانیں رقم ہوتی ہیں، سروں پر کفن باندھ کر سرفروشان وطن رزمگاہ حق و باطل کا رخ کرتے ہیں، آزادی کو اپنی جان و مال پر ترجیح دے کر دیوانہ وار لڑتے ہیں، کچھ جام شہادت نوش کر کے امر ہو جاتے ہیں اور کچھ غازی بن کر سرخرو ہوتے ہیں۔ تب جا کر کہیں وطن اپنی آزادی، وقار اور علیحدہ تشخص برقرار رکھنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔

یہ ایام فیصلہ کن ہوتے ہیں، اگر قربانی کا حق ادا نہ کیا جائے، جان و مال کو وطن پر ترجیح دی جائے، ماں کی ممتا اپنے جگر گوشے کو قربان کرنے سے گریزاں ہو، بوڑھا باپ اپنا اور خاندان کا سہارا کھونے کے لئے تیار نہ ہو تو پھر وطن اپنا وجود کھو بیٹھتے ہیں، قومیں تاریخ کا حصہ اور پارینہ قصہ بن جاتی ہیں، اور آزادی کی بجائے غلامی کی زندگی قوموں کا مقدر بن جاتی ہے۔

ایسا ہی ایک دن وطن عزیز پاکستان پر بھی آیا جب بھارت نے اپنے خبث باطن سے مجبور ہو کر ستمبر 1965ء کو پاکستان پر شب خون مارا۔ بھارت کا خیال تھا کہ راتوں رات پاکستان کے اہم علاقوں پر قبضہ کر لیں گے اور ناشتے میں لاہور کے پائے کھائیں گے۔ لیکن انہیں اندازہ نہیں کہ شیر سویا ہوا ہو پھر بھی شیر ہی ہوتا ہے۔ افواج پاکستان اور عوام پاکستان نے مل کر دیوانہ وار دشمن کا مقابلہ کیا۔ سروں پر کفن باندھ کر دشمن سے بھڑ گئے، جسموں سے بارود باندھ کر ٹینکوں کے آگے لیٹ گئے، عوام نے اپنا سب کچھ دفاع وطن کے لئے قربان کر دیا۔ اور ہندو بنیے کے ناپاک عزائم کو رزق خاک بنا دیا۔ طاقت کے نشے سے چور بھارت پاکستان کو دنیا کے نقشے سے مٹانے کے لئے آیا تھا لیکن ہمشہ کے لئے ناکامی کا بد نما داغ اپنے سینے پر سجا کر واپس گیا۔ وہ شاید اس بات سے بھی واقف نہیں کہ جو زمین شہداء کے لہو سے سیراب ہوتی ہے وہ بڑی زرخیز اور بڑی شاداب ہوتی ہے۔ اس کے سپوت اپنی دھرتی کی طرف اٹھنے والی ہر انگلی کو توڑنے اور اس کی طرف دیکھنے والی ہر میلی آنکھ کو پھوڑنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ جان وار دیتے ہیں لیکن وطن پر آنچ نہیں آنے دیتے۔ اور اس کا بہترین مظاہرہ 6 ستمبر 1965ء کو کیا گیا، انتہائی بے سر و سامانی کے عالم میں بھی جرات و بہادری کی وہ درخشاں مثالیں قائم کی گئیں کہ تاریخ میں سنہری حروف سے لکھی جائیں گی۔

یوم دفاعِ پاکستان ہمیں اس دن کی یاد دلاتا ہے جب پاکستان کے شہیدوں، جری جوانوں اور غیور پاسبانوں نے دفاع پاکستان کی خاطر سرحدوں پر اپنی بہادری اور شجاعت کا لوہا منوایا۔ ان کی شجاعت کے ناقابل یقین کارناموں کی کوئی مثال پیش نہیں کی جا سکتی۔ ان کی فرض شناسی اور حب الوطنی جدید جنگوں کی تاریخ میں درخشندہ مقام پر فائز کی جا سکتی ہے۔ ان کا یہی جذبہ شجاعت تھا کہ جس نے پاکستانی عوام کے ساتھ مل کر اپنے سے پانچ گنا بڑے اور جدید اسلحہ سے لیس دشمن کے ناپاک ارادوں کو خاک میں ملا دیا۔ یہ ایک تاریخی معرکہ تھا جس میں ہمت اور حوصلوں کی بے مثال کہانیوں نے جنم لیا۔ پوری دنیا یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ پاکستان کی عوام اور افواج دشمن کے عزائم کے آگے سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑے ہوئے۔

اس جنگ کا پس منظر یہ تھا کہ 1962 میں بھارت نے چین کو دعوت مبارزت دی مگر منہ کی کھائی۔ چین از خود جنگ بند نہ کر دیتا تو بھارت صدیوں تک ذلت کے داغ دھو نہ سکتا۔ 1965 میں بھارت نے رن کچھ کے محاذ پر پاکستان سے پنجہ آزمائی کی مگر ذلت اٹھانا پڑی۔ جس پر بھارتی وزیراعظم نے اعلان کیا کہ اب ہم مرضی کا محاذ منتخب کر کے پاکستان کو مزا چکھائیں گے۔ چنانچہ بھارت نے چھ ستمبر کو اچانک لاہور کے تین اطراف سے حملہ کر دیا۔ منصوبہ یہ تھا کہ وسط میں لاہور پر حملہ کے ساتھ شمال میں جسٹر کے مقام پر اور جنوب میں قصور کے مقام پر محاذ کھول دئیے جائیں۔ میجر جنرل نرنجن پرشاد کی قیادت میں پچیسواں ڈویژن ٹینکوں اور توپ خانے کی مدد سے آگے بڑھ رہا تھا۔ ستلج رینجرز کے مٹھی بھر جوانوں نے ان کا راستہ روک لیا۔ ان پلٹونوں کے تمام جوان آخری گولی اور آخری سانس تک لڑتے ہوئے جام شہادت نوش کر گئے۔ نہ کوئی پیچھے ہٹا نہ کسی نے ہتھیار ڈالے بھارتی فوج جسے لاہور کے مضافات میں ناشتہ کرنا تھا۔ پو پھٹنے تک بمشکل تین میل آگے بڑھ سکی۔

اس محاذ پر پاک فوج کے زیر کمان قوت صرف سات بٹالینوں پر مشتمل تھی اور محاذ 05 میل لمبا تھا۔ لاہور میں داخل ہونے کے لئے باٹا پورکے پل پر قبضہ ضروری تھا ۔۔۔ چنانچہ ایک پورے بھارتی بریگیڈ اور ایک ٹینک رجمنٹ نے دوسرا حملہ کیا۔ لاہور کو بھارتی یلغار سے بچانے کے لئے نہر بی آر بی کا پل تباہ کرنا بہت ضروری تھا۔ دن کو یہ کام نا ممکن تھا۔ دشمن نے پل کے دائیں بائیں گولوں کی بوچھاڑ کر رکھی تھی۔ پل تک دھماکہ خیز بارود لے جانے کی کوشش میں ایک جوان شہید ہو گیا۔ اس کے بعد چند رضاکاروں نے ہزاروں پونڈ وزنی بارود ایک گڑھے میں اتارا۔ اس پر ریت رکھ کر آگ لگانے والی تاروں کو جوڑا اور گولیوں کی بوچھاڑ کو چیرتے ہوئے واپس آ گئے۔ ان کا واپس آنا ایک معجزے سے کم نہ تھا۔ یوں لاہور میں داخل ہونے کی بھارتی امیدیں منقطع ہو گئیں۔ اس کے بعد سترہ دنوں کے دوران بھارتی فوج نے تیرہ بڑے حملے کیے مگر ایک انچ بھی آگے نہ بڑھ سکی۔

باٹا پور سے شکست کھانے کے بعد بھارت نے بھینی کے محاذ پر دباؤ سخت کر دیا۔ یہ مقام باٹا پور سے سات میل شمال کی طرف واقع ہے۔ دشمن کا ارادہ تھا کہ وہ لاہور شہر کو ایک طرف چھوڑ کر بھینی کے راستے محمود بوٹی پر بند پر پہنچے اور وہاں سے راوی کے پل پر قبضہ کر کے لاہور کو راولپنڈی سے کاٹ دے۔ چنانچہ یہاں دشمن نے انیس حملے کیے اور تقریبا ڈیرھ ہزار گولے برسائے مگر ہر حملے میں منہ کی کھا کر پسپا ہو گیا۔ برکی سیکٹر پر دشمن نے ایک ڈویژن اور دو بریگیڈوں کی مدد سے حملہ کیا۔ پنجاب رجمنٹ کی ایک کمپنی اس پر ٹوٹ پڑی اور پورے نو گھنٹے تک دشمن کی یلغار روکے رکھی۔ دشمن نے دوبارہ صف بندی کرنے کے بعد حملہ کیا تو پاکستان کی ٹینک شکن رائفلوں اور توپخانوں کے گولوں نے دشمن کو آڑے ہاتھوں لیا۔ 10 ستمبر تک دشمن نے چھ حملے کیے جنہیں پسپا کر دیا گیا۔ 10 اور 11 ستمبر کی درمیانی شب دشمن نے پہلے سے زیادہ قوت کے ساتھ حملہ کیا۔

میجر عزیز بھٹی رات بھر دشمن کو روکے رہے۔ صبح کے قریب دشمن نے نہر کی طرف سے بھی گاؤں کو محاصرے میں لے لیا تو میجر عزیز بھٹی نے نہر کے مغربی کنارے پر چلے جانے کا فیصلہ کیا۔ 21 ستمبر کی صبح وہ ذاتی سلامتی سے بے نیاز ہو کر نہر کے کنارے ایک اونچی اور کھلی جگہ پر کھڑے اپنے جوانوں کی قیادت کر رہے تھے اور اسی مقام پر انہوں نے لڑتے ہوئے جامِ شہادت نوش کیا۔ بہادری کی بے مثال روایت قائم کرنے پر انہیں سب سے بڑا فوجی اعزاز نشان حیدر دیا گیا۔

بھارتی ہائی کمانڈ نے قصور کی طرف پیش قدمی کامیاب بنانے کے لئے بھیکی ونڈ اور کھیم کرن کے نواح میں تقریبا دو ڈویژن فوج صف آرا کی۔ اس محاذ پر ضلع لاہور کے سرحدی گاؤں بیدیاں کو پیش قدمی کے آغاز کے لئے منتخب کیا گیا تھا۔ اس رات یہاں پاکستانی فوج کی صرف ایک بٹالین موجود تھی۔ اگلے دفاعی مورچوں میں فرسٹ ایسٹ بنگال رجمنٹ کی صرف ایک کمپنی صف آرا تھی۔ یہاں دشمن نے چودہ بڑے حملے کیے مگر پاکستانی جوانوں نے انہیں ایک انچ آگے بڑھنے نہ دیا۔ قصور کے بعد دشمن نے کھیم کرن کے محاذ پر اپنی عسکری قوت کا مظاہرہ کیا۔ بھارتی فضائیہ بھی محاذ پر آ گئی مگر پاکستانی طیارہ شکن توپوں سے وہ جلد ہی پسپا ہو گئی۔ دشمن کے سات ٹینک تباہ ہوئے تو اس کی صفوں میں کھلبلی مچ گئی۔ 8 ستمبر کو کھیم کرن پر پاکستان کا قبضہ ہو گیا۔

بھارتی کمانڈر انچیف نے پسپا ہوتی ہوئی فوج کو مزید کمک بھیجی تاکہ کھیم کرن واپس لے سکے۔ ضلع ساہیوال میں بین الاقوامی سرحد سے اندازاً ایک میل ادھر دریائے ستلج پر سلیمانکی ہیڈ ورکس واقع ہے۔ یہاں سے نکلنے والی نہریں ملتان اور بہاولپور کے وسیع علاقوں کو سیراب کرتی ہیں۔ اس اہم خطے پر دشمن کی طرف سے حملے کا خطرہ تھا۔ ہماری افواج نے دشمن کی پیش قدمی کا انتظار کرنے کی بجائے آگے بڑھ کر دشمن کے حوصلے پست کر دیئے۔ موضع نور کی چوکی صرف ایک ہی پاکستانی پلاٹون نے شب خون مار کر فتح کر لی۔ ان مقامات پر شکست کھانے کے بعد دشمن نے موضع پکا میں دفاعی پوزیشن لے لی۔ اس کے پاس ہر قسم کا اسلحہ موجود تھا۔ دونوں فوجوں کے درمیان سیم زدہ دلدلی علاقہ اور ایک جھیل حائل تھی۔ پاکستانی فوج کی ایک کمپنی نے توپوں اور مشین گنوں کی اندھا دھند فائرنگ سے دشمن کی یلغار روک دی۔ جنگ بندی کے قریب دشمن نے ایک بار پھر بھرپور حملہ کیا جس پر دشمن کے ڈیڑھ سو آدمی مارے گئے۔

لاہور پر حملے کے چوبیس گھنٹے بعد بھارتی فوج نے تقریبا پانچ سو ٹینک اور پچاس ہزار فوج کے ساتھ سیالکوٹ پر اچانک حملہ کر دیا۔ پاکستان کی طرف سے صرف سوا سو ٹینک اور تقریبا نو ہزار جوان میدان میں آئے۔ بھارتی منصوبہ یوں تھا کہ پہلے جسٹر پھر سچیت گڑھ پر حملہ کیا جائے۔ ہر دو مقامات پر پاکستانی فوج الجھ جائے گی تو حملہ آور فوج درمیان سے گزر کر پسرور سے ہوتی ہوئی جی ٹی روڈ پر پہنچ جائے گی۔ جسٹر کے مقام پر پاک فوج نے صرف دو بٹالینوں کے ساتھ حملہ آور فوج کا نہایت دلیری سے مقابلہ کیا۔ ادھر سچیت گڑھ میں بریگیڈیر ایس ایم حسین نے دشمن کو ناکوں چنے چبوا دیئے۔ 7 اور 8 ستمبر کی درمیانی رات بھارتی فوج نے چونڈہ کے محاذ پر حملہ کر دیا۔ اس محاذ پر پیدل فوج کی دو بٹالین اور ایک آرمڈ رجمنٹ دشمن کے استقبال کیلئے موجود تھیں۔ جنگ کا میدان گرم ہوا تو پاکستان کے صرف تیس ٹینکوں نے بھارت کے ایک سو دیو ہیکل ٹینکوں کو پسپا ہونے پر مجبور کر دیا۔

دشمن کا پروگرام 24 گھنٹے کے اندر چونڈہ سے آگے بڑھ جانا تھا مگر اب 72 گھنٹے بعد بھی وہ ایک انچ آگے نہ بڑھ سکا تھا چنانچہ وہ مزید طاقت لے کر میدان میں اتر آیا اور اس طرح دوسری عالمی جنگ کے بعد ٹینکوں کی جنگ کا دوسرا بڑا میدان گرم ہوا۔ گولہ بارود سے فضا دھواں دھار تھی۔ پاکستانی ہیڈ کوارٹر نے حکم دیا تھا کہ جب تک آخری جوان باقی ہے اور ایک بھی گولہ موجود ہے چونڈہ کا دفاع کیا جائے۔ بھارتی جرنیلوں کے پاس تازہ دم فوج، ٹینکوں اور گولہ بارود کی کمی نہ تھی۔۔۔ وہ سترہ ستمبر کو تازہ دم فوج میدان میں لے آئے اور چونڈہ کے مغرب میں ریلوے لائن سے سڑک کی طرف پیش قدمی شروع کر دی ۔۔۔ جہاں ہمارے افسر اور جوان گھات لگائے بیٹھے تھے۔ ٹینکوں کے انجن بند کر دیئے گئے تھے تاکہ دشمن کو ان کی موجودگی کا علم نہ ہو سکے۔ جب دشمن کی پوری جمعیت اپنی کمین گاہ سے نکل آئی تو انہوں نے فائرنگ کا حکم دے دیا۔ دشمن کے صرف 105 سپاہی زندہ بچے جنہیں جنگی قیدی بنا لیا گیا۔

بھارت چاہتا تھا کہ پاکستانی فوج کو کارگل سے لے کر تھرپار کر تک تقریبا ڈیڑھ ہزار میل لمبی سرحد پر پھیلا کر کمزور کر دیا جائے چنانچہ راجستھان کے محاذ پر بھارتی فوج کی ایک پیدل بٹالین نے ٹینکوں کے دو اسکوارڈرنوں کی مدد سے گدرو پر حملہ کر دیا۔ یہاں مٹھی بھر رینجرز نے دشمن کی یلغار کو تین گھنٹے تک روکے رکھا۔ 9 ستمبر کو آگے بڑھ کر مونابا پر گولہ باری شروع کر دی۔ اس اسٹیشن سے بھارتی فوج کو رسد پہنچ رہی تھی۔ صرف سترہ گولے برسانے سے دشمن کی فوج میں کھلبلی مچ گئی۔ مونابا پر قبضہ کرنے سے دشمن کی سپلائی کٹ گئی۔ اس معرکے میں سندھ کے مجاہدین بھی اپنی فوج کے دست وبازو بن گئے۔ سندھ کے محاذ پر روہڑی، کھاری، جے سندھ اور متراکی فوجی چوکیوں پر پاکستانی جوانوں نے قبضہ کر لیا۔ حیدرآباد کو فتح کرنے کے خواب دیکھنے والی بھارتی فوج ایک ہزار دو سو مربع میل کا علاقہ گنوا بیٹھی۔ چھمب کے محاذ پر پہلی دفعہ بھارت سے فضائی جھڑپ ہوئی۔ چند لمحوں میں دشمن کے چار اعلی ویمپائر طیاروں کو مار گرایا۔ اس کے بعد اس محاذ پر اسکواڈرن لیڈر ایم ایم عالم اور فلائٹ لیفٹیننٹ یوسف علی خان نے دشمن کی زمینی فوج کو بے بس کر کے رکھ دیا۔

پاک فضائیہ کے ایک اسٹار فائٹر ''ایف104'' نے دشمن کا جہاز پسرور کے ہوائی اڈے پر اتار لیا اور اسکواڈرن لیڈر برج پال سنگھ کو گرفتار کر لیا گیا۔ 6 ستمبر کو بھارت نے پاکستان پر حملہ کیا تو فضا میں بھی مڈ بھیڑ ہونے لگی۔ پاک فضائیہ کے دو اسٹار فائٹر نے دشمن کے چار طیاروں کا مقابلہ کیا اور ایک کو گرانے میں کامیاب ہو گئے۔ لاہور پر بھارتی فوج کے حملے کے بعد چھ طیارے فضا میں یکدم نمودار ہوئے اور پورے بیس منٹ تک دشمن پر بموں راکٹوں اور گولیوں کی بارش کرتے رہے۔ پٹھان کوٹ کے ہوائی اڈے کی تباہی نے بھارتی فضائیہ کی کمر توڑ کر رکھ دی۔ اس کارنامے کے بھی سرخیل سجاد حیدر ہی تھے۔ انہوں نے نہایت نیچی پرواز کر کے دشمن کے بارہ جنگی اور دو ٹرانسپورٹ طیارے اڈے پر کھڑے کھڑے ہی تباہ کر دئیے اس کے علاوہ اڈے کو مزید کام دینے کے لئے ناکارہ بھی کر دیا۔

فضائی معرکے کا ایک قابل تحسین معرکہ ایم ایم عالم کا ہے۔ انہوں نے سرگودھا کے قریب ایک ہی جھڑپ میں دشمن کے پانچ طیارے گرا کر ریکارڈ قائم کر دیا۔ اس کے بعد بھارتی فضائیہ کو سرگودھا کی جانب جانے کی جرات نہیں ہوئی۔ انبالہ کے دفاعی انتظامات کی بڑی کہانیاں مشہور تھیں۔ یہی خطرات پاکستانی ہوابازوں کے لئے چیلنج بنے ہوئے تھے۔ 21 ستمبر کو سحر سے ذرا پہلے ونگ کمانڈر نذیر لطیف اور اسکواڈرن لیڈر نجیب احمد خان دو بی 57 بمبار طیارے لے کر آسمان کی وسعتوں میں نمودار ہوئے۔ انہوں نے دشمن کے ہوائی اڈے کو بموں کا نشانہ بنایا۔ دشمن نے بے پناہ گولہ باری کی مگر دونوں جوانوں نے کمال حوصلے اور شجاعت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنا مشن پورا کر دیا۔

انبالہ کے دفاعی انتظامات کا غرور آن واحد میں خاک میں مل گیا۔ سترہ روز جنگ کے دوران پاکستان کے جرات مند ہوابازوں نے35 طیاروں کو دو بدو مقابلے میں اور 43 کو زمین پر ہی تباہ کر دیا تھا۔ 32 طیاروں کو طیارہ شکن توپوں نے مار گرایا۔ بھارت کے مجموعی طور پر 110 طیارے تباہ کر دیئے گئے۔ اس کے علاوہ ہماری فضائیہ نے دشمن کے 149 ٹینک' 200 بڑی گاڑیاں اور 20 بڑی توپیں تباہ کر دیں۔ اس کے مقابلے میں پاکستان کے صرف 19 طیارے تباہ ہوئے۔ پاک فضائیہ کے ان عظیم کارناموں پر عالمی حلقوں کی طرف سے حیرت و استعجاب کا اظہار کیا گیا۔ جنگ ستمبر میں پاک بحریہ کو سمندری جنگ کے معرکوں میں جو برتری حاصل رہی ان میں معرکہ دوارکا قابل ذکر ہے۔ یہ معرکہ پاک بحریہ کی تاریخ میں یادگار حصہ بن چکا ہے۔ دوارکا کی تباہی کا بیرونی اخبارات میں بڑا چرچا ہوا۔ برطانوی اخبارات نے تو خاص طور پر کہا کہ پہلی جنگ عظیم کے بعد بھارت کی سرزمین پر سمندر کی جانب سے پہلی گولہ باری ہوئی ہے۔

انہوں پاک بحریہ کی جرات اور مستعدی کی تعریف کی۔ خاص طور سے اس لیے کہ مخالف طاقت اس سے کہیں زیادہ بڑی تھی۔ 1965 میں صرف اس کارروائی نے دشمن پر یہ ظاہر کر دیا کہ سمندروں میں اس کو من مانی نہیں کرنے دی جائے گی۔ یہ کارنامہ دراصل ان لوگوں کے لیے بھی قابل فخر ہے جو پاکستان نیوی کے جہازوں کو سنبھالے ہوئے تھے اور ان میں ان لوگوں کا بھی حصہ تھا جو ساحل پر بیٹھے ان جہازوں کو سمندروں میں خدمات بجا رکھنے کے قابل رکھنے کے کاموں میں مصروف تھے۔ پاکستان کی تینوں مسلح افواج ہر محاذ پر برسرپیکار تھیں۔ ان افواج کو حوصلہ اور تقویت عطا کرنے میں پاکستان کی غیور عوام کا بھی نہایت اہم کردار تھا۔ وہ اپنی مسلح افواج پر اپنا سب کچھ نچھاور کرنے کے لئے تیار تھے۔ لاہور کے عوام کو جب جنگ کی اطلاع ملی تو وہ تانگوں پر کھانا، اچار، کپڑے، سگریٹ غرض ہر وہ چیز جو ان کی دسترس میں تھی۔۔۔ لے کر اپنے جوانوں کو دینے کے لئے سرحدوں کی جانب دوڑے۔ جب فوجیں سرحد کی طرف جاتیں تو بوڑھے مرد اور عورتیں سڑک کے کنارے ان کی سلامتی کے لئے دعائیں مانگتے' ان کی مدد کے طریقے پوچھتے اوربچے جذبہ عقیدت سے سلوٹ کرتے۔

بہنیں اللہ سے ان کی حفاظت کے لئے دعائیں مانگتیں۔ شاعر ملی ترانے لکھ کر اپنے جذبوں کا اظہار کر رہے تھے۔ غرضیکہ پورا ملک جنگ میں شامل تھا مگر کسی قسم کا خوف نہ تھا۔ پاکستانی عوام فضا میں پاک فضائیہ کے شاہینوں کی کاروائیوں کو دیکھتے تھے۔ الغرض اس جنگ میں ہماری قوم نے یہ ثابت کر دیا کہ وہ آزمائش کی ہر گھڑی میں پاک فوج کے شانہ بشانہ ہر قربانی دینے کو تیار ہے۔ اس نے دشمن کی عددی برتری کی ماضی میں پروا کی ہے نہ آئندہ کرے گی بلکہ دشمن کے سامنے سیسہ پلائی دیوار ثابت ہو گی۔ جنگ ستمبر 1965 کے دوران قوم کا جذبہ دفاع اپنے عروج پر تھا۔ یہ حوصلوں اور جرتوں کی جنگ تھی۔ اگر بھارت کے پاس کثیر تعداد میں اسلحہ و بارود تھا تو پاکستان کے غازی جذبہ ایمانی سے سرشار تھے۔

غیر ملکی صحافیوں اور مبصرین کی کثیر تعداد سرحدوں پر موجود تھی اور کسی کو اس امر میں شک نہیں تھا کہ پاکستانی قوم نے متحد ہو کر اپنے سے کہیں زیادہ بڑے اور طاقتور دشمن کو ہر محاذ پر ذلت آمیز شکست دی۔ پاکستان کی تینوں افواج کا دفاع اور عوام کے ایثار و قربانی کے مظاہرے ہماری تاریخ کا ایک روشن باب ہیں۔

ہماری ذمہ داریاں

آج ہم 44 واں یوم دفاع منا رہے ہیں، ہر سال کی طرح اس سال بھی وطن عزیز کے لئے دعائیں ہوں گی، سرکاری اور نجی سطح پر تقاریب کا اہتمام ہوتا ہے، افواج پاکستان پریڈ پیش کرتی ہیں، توپوں کی سلامی سے شہداء کو خراج عقیدت پیش کیا جاتا ہے۔ دفاع وطن کے لئے کسی بھی قربانی سے دریغ نہ کرنے کے دعوے کئے جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔ اور پھر شام ہو جاتی ہے، جب صبح سو کر اٹھتے ہیں تو سب کچھ بھول جاتا ہے۔ ایک دن قبل کئے گئے وعدے اور دعوے بھول جاتے ہیں۔ پھر وہی کاروبار زندگی، وہی سیاست کی سیاہ کاریاں، وہی دولت کی ہوس، وہی اقتدار کی جنگ، وہی کاسہ لیسی، وہی غیروں کی غلامی، وہی ازلی دشمنوں سے دوستی کی پینگیں۔ ۔ ۔ نیز ہر وہ کام جو دفاع وطن کے فلسفے کے خلاف اور جو شہداء کے مقدس خون سے غداری کے مترادف ہو، حب الوطنی کے لبادے میں کیا جاتا ہے۔

کیا اسی لئے شہداء نے اپنا خون، ماؤں نے اپنے جگر گوشے اور قوم نے اپنے سپوت قربان گاہ عشق میں وار دیئے تھے؟ کیا ہم نے اسی لئے قربانیوں کی داستانیں رقم کی تھیں کہ پھر اسی دشمن کے سامنے گھٹنے ٹیک دیں گے؟ کیا جرات و بہادری کا یہی تقاضا ہے کہ اپنا جائز حق مانگنے کے لئے بھی منتیں اور سماجتیں کی جائیں، دشمن ہمارا پانی بند کر دے، ہماری شہ رگ پر قابض ہو کر ظلم و جبر کے پہاڑ توڑے اور ہم مذاکرات کے لئے اپنے سارے وسائل صرف کر دیں، جس کا نتیجہ سوائے دشمن کو مزید مہلت دینے کے کچھ نہ ہو۔ ؟

اگر قیامت کے دن ان ماؤں نے ہمارا گریبان پکڑ کر سوال کر لیا کہ کیا اسی لئے ہم نے اپنے بیٹے وطن کے لئے وارے تھے تو کیا جواب ہو گا۔؟ اگر شہیدوں نے پوچھ لیا کہ کیا ہم اسی لئے جان سے ہارے تھے تو کیا جواب ہوگا؟

آج وطن عزیز جن حالات سے دوچار ہے وہ انتہائی تشویش ناک ہیں۔ اندرونی اور بیرونی طور پر دشمنان پاکستان ہماری جڑیں کھوکھلی کرنے میں مصروف عمل ہیں، ایک طرف بھارت ہے جس کو چین نصیب نہیں، دوسری جانب افغان سرحد پر استعماری قوتیں اسلامی جمہوریہ کے خلاف سازشیں کرنے میں مصروف ہیں۔ اندرونی طور پر قبائلی علاقوں میں اپنی ہی فوج اپنی ہی عوام کے خلاف برسرپیکار ہے۔ بلوچستان میں ہماری اپنی کوتاہیوں کے باعث آزادی کی تحریک دن بدن زور پکڑ رہی ہے۔ خودکش حملوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ مہنگائی بام عروج پر پہنچ چکی ہے۔ اور حکمران اقتدار کے مزے لوٹ رہے ہیں۔

امریکہ بہادر پاکستان کے اندر تک گھس آیا ہے، بدنام زمانہ 148 بلیک واٹر 147 امریکی سفارتخانے کی زیر سرپرستی مصروف ہے۔ پاکستان کی سالمیت کا ضامن ایٹمی پروگرام خطرات میں گھرتا جا رہا ہے اور ہم سوئے ہوئے ہیں۔

ان مشکل حالات میں ضروری ہو گیا ہے کہ ایک بار پھر اسی جذبے کے ساتھ دفاع وطن کے لئے اٹھ کھڑے ہوں۔ وہی جرات اور بہادری، وہی عزم و استقلال اور وہی جہد مسلسل ہمارا زاد راہ ہو۔ اس سے ایک طرف ہم بیرونی دشمن کا منہ توڑ جواب دینے کے لئے تقویت حاصل کریں تو دوسری جانب اندرونی مشکلات کا مقابلہ کرنے میں تحمل و برداشت کا مظاہرہ کریں۔ تاکہ ہماری طرف سے اٹھنے والا کوئی جذباتی قدم دشمن کو فائدہ نہ دے۔

آزادی بہت بڑی نعمت ہے اور نعمت قربانی مانگتی ہے۔ جتنی بڑی نعمت ہو اتنی بڑی قربانی ہوتی ہے۔ ہمارے اسلاف نے قربانیاں دیں جس کے نتیجے میں ہم آج آزاد فضا میں جی رہے ہیں۔ دنیا کے نقشے پر ایک آزاد وطن اور آزاد قوم کے طور پر پہچانے جاتے ہیں۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ جیسے جیسے قربانی کا جذبہ ماند پڑتا ہے اسی طرح آزادی کا تصور بھی دھندلاتا جاتا ہے۔

بدقسمتی سے آج ہم اسی دور سے گزر رہے ہیں۔ ہم نے قربانی سے انحراف کیا تو دشمنوں نے ہر محاذ سے ہماری آزادی کو چیلنج کر دیا۔ ڈرون حملوں سے لے کر اسلام آباد میں امریکہ کے 200 گھر کرائے پر لینا، بلیک واٹر کی کاروائیاں، بلوچستان میں آزادی کی تحریک، سرحد کی صورتحال اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔

آئیے مل کر عہد کریں کہ وطن عزیز پر کبھی آنچ نہیں آنے دیں گے۔ اپنے اپنے دائرہ کار میں رہ کر وطن عزیز کی فلاح اور دفاع کے لئے کردار ادا کریں گے۔ اور اپنے قول و فعل سے کوئی ایسا کام نہیں کریں گے جس سے وطن عزیز کی عزت پر حرف آ سکے۔

خدا کرے کہ میری ارض پاک پر اترے
وہ فصل گل جسے اندیشہ زوال نہ ہو

توحید تو یہ ہے کہ خدا حشر میں کہہ دے
یہ بندہ دو عالم سے خفا میرے لئے ہے