جدید تعلیم اور صوفی ازم

ڈاکٹر فرحین اقبال

جدید تعلیم جو آکسفورڈ کی کتابوں پر مشتمل ہے جس میں ہر موضوع جو سائنس سے تعلق رکھتا ہو ابتدا سے ہی اس کی بنیاد سے متعلق مفید معلومات مہیا کی جاتی ہیں۔ اگر یہ عمارت مضبوط بنیادوں پر استوار ہو تو آگے چل کر ذہنی نشوونما کے نئے دریچے کھولتی ہے اور انسان ترقی کی منازل آسانی سے طے کرتا چلا جاتا ہے۔ چاہے یہ انسان مشرق کا ہو یا مغرب کا۔ جہاں تک مشرق کا تعلق ہے تو ہر ایسا علم جو انسان کو دین کے قریب کرے دینی علوم کی فہرست میں شامل ہو جاتا ہے۔ دینی علوم محض مذہب کا ہی نام نہیں بلکہ خدا سے تعلق کو مضبوط بنانے میں جو علم بھی فائدہ دے وہ دینی علم کے زمرے میں ہی آتا ہے چاہے وہ کوئی میڈیکل کی Speciality ہو یا انجینئرنگ کا کوئی باب، یہ سب تو انسان کی ذہنی بالیدگی کے لئے ضروری ہے۔ اہل مشرق کو جو بات مغرب سے ممتاز کرتی ہے وہ یہاں صوفیائے کرام کا موجود ہونا اور روحانی تربیت میں اپنا حصہ ڈالنا ہے جو کہ انسانیت کی بقا کے لئے بہت ضروری ہے۔

برصغیر پاک و ہند میں اولیائے کرام نے اپنے حسن اخلاق، محبت اور کردار سے افراد کی روحانی تربیت کی نہ صرف افراد کی بلکہ پورے اسلامی معاشرے کی بہتری کے لئے اقدامات کئے۔ دین اسلام انسانی معاشرت کی بہتری کا عظیم داعی ہے جو زندگی کے تمام شعبوں میں فرد کی راہنمائی کرتا ہے۔ تصوف یعنی صفائے قلب یا روحانی بالیدگی کی ضرورت ہر دور میں محسوس کی گئی ہے۔ تصوف روح کی اصلاح کا ضامن ہے۔ اگر ہمارے ارباب اختیار بچوں کے سکول کے سلیبس میں اولیائے کرام کے کارنامے نمایاں طور پر شامل کریں تو نہ صرف یہ قوم کی ترقی کے لئے روحانی فیض ہوگا بلکہ ہر شعبہ زندگی کے لوگ اسے اپنی تعلیم کا ضروری حصہ خیال کرتے ہوئے معاشرتی سکون پائیں گے۔

اولیاء اللہ چونکہ روحانیت اور علم کا سرچشمہ ہیں اس لئے ان کی محبت کو ایمان کا حصہ قرار دیا گیا ہے۔ ان سے محبت کرنے والوں کا شمار بھی اللہ کے دوستوں میں ہوتا ہے۔

قرآن و حدیث اولیاء اللہ کی عظمت و شان اور عزت و حرمت پر شاہد ہیں۔ حضور سرور کائنات سیدنا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان کے مطابق امت محمدی کسی زمانے میں بھی اولیاء اللہ اور علمائے صالحین سے خالی نہیں ہوگی اور اولیاء و صلحاء ہی درحقیقت صوفی ہیں۔ یہی وہ حضرات ہیں جو شریعت ظاہری کے علمبردار اور طریقت کے مظہر ہیں جو اپنی سیرت و کردار سے امت مسلمہ کو شریعت و طریقت پر چلاتے ہیں۔ یہی صوفیائے عظام انبیاء علیہم السلام کے حقیقی وارث ہیں۔

یہی صوفی ازم اگر ہماری جدیدیت کا حصہ بن جائے تو یہ تشدد کی فضا اور بے چینی کا ماحول یقینا ایک پرسکون معاشرے میں تبدیل ہوسکتا ہے۔

آج ضرورت ہے جدید تعلیم کے ساتھ ساتھ بچوں کی تربیت میں اولیائے کرام کی تعلیمات شامل کی جائیں انہیں اپنے آباؤ اجداد کے افکار سے آگاہ کیا جائے۔ برصغیر پاک و ہند ہی نہیں پوری دنیائے اسلام انہی کی رشد و ہدایت سے منور ہے۔ ان حضرات نے تصوف کے ایسے مراکز اور خانقاہیں قائم کیں کہ تخت نشینوں کو رشک آنے لگا۔ اگر صدیوں پر محیط صوفیائے عظام کی مساعی کو نظر انداز کیا جائے تو اس کا نتیجہ کیا نکلے گا؟

سلطان الہند حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ، حضرت بہاء الدین زکریا ملتانی رحمۃ اللہ علیہ، حضرت داتا گنج بخش علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ، حضرت خواجہ شاہ سلیمان تونسوی رحمۃ اللہ علیہ، حضرت بابا فریدالدین گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ، حضرت شاہ رکن عالم رحمۃ اللہ علیہ جیسے بزرگان دین کے فیضان اور خدمات سے کسی طور انکار نہیں کیا جا سکتا۔ حضرت بہاء الدین زکریا رحمۃ اللہ علیہ نے ملتان میں برصغیر کی پہلی اقامتی درسگاہ قائم کی جس میں دینی و عصری تعلیم کے ساتھ ساتھ مختلف علوم و فنون کے شعبے قائم کئے۔ اسی دور میں مختلف زبانوں مثلاً عربی، فارسی، سندھی اور سرائیکی زبانوں نے فروغ پایا۔

آج جو لوگ ان بزرگان دین اور ان روشن نفوس قدسیہ کی تعلیمات سے فائدہ اٹھانا تو درکنار بے ادبی کی حد تک ان کے مزارات پر جانے کو اچھا خیال نہیں کرتے ایسے لوگوں کی ذہنی صحت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ جو محض دنیاوی زندگی کو ہی سب کچھ سمجھ بیٹھے ہیں اور عام لوگوں تک یہ خیالات اس طرح پہنچاتے ہیں کہ مانگو تو ڈائریکٹ اللہ سے مانگو حالانکہ اولیاء اللہ تو رب کا قرب حاصل کرنے کا ایک وسیلہ ہوتے ہیں۔

روزمرہ زندگی میں اگر ہمیں کسی اعلیٰ افسر سے بات کرنی ہو تو ہم ڈائریکٹ جا کر اس کے سامنے اپنا مدعا پیش نہیں کر سکتے بلکہ ہم وسیلے تلاش کرتے ہیں ایسے بندوں کا جو اس اعلیٰ افسر کے قریب ہوتے ہیں جس کی وہ بات زیادہ سنتا ہے، بہ نسبت عام لوگوں کے۔ اس سے اندازہ لگائیں کہ ان اولیائے کرام نے یہ قرب الہٰی شدید مجاہدے کے بعد حاصل کیا ہوتا ہے۔

صوفیائے کرام نے تصوف کی معنویت کے پیش نظر خدمت خلق پر زور دیا۔ انہوں نے خدا پرستی، تصوف، تقویٰ، پرہیزگاری، صبرو تحمل، برداشت، عفوو درگذر، محنت، دیانت وامانت اور حقوق العباد کی ادائیگی پر زور دیا۔ دور حاضر میں عصری علوم کے ساتھ ساتھ ان اولیائے کرام کی تعلیمات کو عام کیا جائے۔

آج کے معاشرے میں فرقہ وارانہ اختلافات، دہشت گردی اور تمام تعصبات کے خاتمے کے لئے ان کی تعلیمات کو عام کیا جائے۔

صوفیائے عظام کو خراج عقیدت پیش کرنے کا اصل طریقہ یہی ہے کہ ہم معاشرتی برائیوں کے خاتمے کے لئے اپنا بھرپور کردار ادا کریں۔

ان صوفیائے عظام کے سالانہ عرس کا انعقاد ان کی آفاقی تعلیمات کے فروغ کے لئے دراصل تجدید عہد ہے تاکہ ہم اپنے اندر محبت کا جہاں آباد کریں۔ ملت کے تمام طبقات اور مکاتب فکر انتہا پسندی اور شدت پسندی کے خلاف مشترکہ موقف اختیار کریں۔