فرمان الٰہی و فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

{فرمان الہٰی}

يَقُوْلُ يٰلَيْتَنِيْ قَدَّمْتُ لِحَيَاتِيْ. فَيَوْمَئِذٍ لاَّ يُعَذِّبُ عَذَابَهُ اَحَدٌ. وَّلَا يُوْثِقُ وَثَاقَهُ اَحَدٌ. يٰـاَيَتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ. ارْجِعِيْ اِلٰی رَبِّکِ رَاضِيَةً مَّرْضِيَةً. فَادْخُلِيْ فِيْ عِبٰـدِيْ. وَادْخُلِيْ جَنَّتِيْ.

(الفجر، 24 تا 30)

’’وہ کہے گا: اے کاش! میں نے اپنی (اس اصل) زندگی کے لیے (کچھ) آگے دیا ہوتا (جو آج میرے کام آتا)o سو اس دن نہ اس کے عذاب کی طرح کوئی عذاب دے سکے گاo اور نہ اس کے جکڑنے کی طرح کوئی جکڑ سکے گاo اے اطمینان پا جانے والے نفسo تو اپنے رب کی طرف اس حال میں لوٹ آ کہ تو اس کی رضا کا طالب بھی ہو اور اس کی رضا کا مطلوب بھی (گویا اس کی رضا تیری مطلوب ہو اور تیری رضا اس کی مطلوب)o پس تو میرے (کامل) بندوں میں شامل ہو جاo اور میری جنتِ (قربت و دیدار) میں داخل ہو جا‘‘o

(ترجمه عرفان القرآن)

{فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم }

عَنْ جَابِرٍ رضی الله عنه أَنَّ أَبَاهُ تُوُفِّيَ وَعَلَيْهِ دَيْنٌ، فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم فَقُلْتُ: إِنَّ أَبِي تَرَکَ عَلَيْهِ دَيْنًا، وَلَيْسَ عِنْدِي إِلَّا مَا يُخْرِجُ نَخْلُهُ، وَلَا يَبْلُغُ مَا يُخْرِجُ سِنِيْنَ مَا عَلَيْهِ، فَانْطَلِقْ مَعِي لِکَي لَا يُفْحِشَ عَلَيَّ الْغُرَمَائُ، فَمَشَی حَوْلَ بَيْدَرٍ مِنْ بَيَادِرِ التَّمْرِ فَدَعَا، ثُمَّ آخَرَ، ثُمَّ جَلَسَ عَلَيْهِ، فَقَالَ: انْزِعُوْهُ فَاَوْفَاهُمُ الَّذِي لَهمْ، وَبَقِيَ مِثْلُ مَا أَعْطَاهُمْ.

رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَأَحْمَدُ.

’’حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میرے والد محترم (حضرت عبد اﷲص) وفات پا گئے اور ان کے اوپر قرض تھا. سو میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: میرے والد نے (وفات کے بعد) پیچھے قرضہ چھوڑا ہے اور میرے پاس (اس کی ادائیگی کے لئے) کچھ بھی نہیں ماسوائے جو کھجور کے (چند) درختوں سے پیداوار حاصل ہوتی ہے اور ان سے کئی سال میں بھی قرض ادا نہیں ہو گا. آپصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے ساتھ تشریف لے چلیں تاکہ قرض خواہ مجھ پر سختی نہ کریں سو آپصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (ان کے ساتھ تشریف لے گئے اور ان کے) کھجوروں کے ڈھیروں میں سے ایک ڈھیر کے گرد پھرے اور دعا کی پھر دوسرے ڈھیر (کے ساتھ بھی ایسا ہی کیا) اس کے بعد آپصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک ڈھیر پر بیٹھ گئے اور فرمایا: قرض خواہوں کو ماپ کر دیتے جاؤ سو سب قرض خواہوں کا پورا قرض ادا کر دیا گیا اور اتنی ہی کھجوریں بچ بھی گئیں جتنی کہ قرض میں دی تھیں.‘‘

(ماخوذ از منهاج السّوی من الحديث النبوی صلی الله عليه وآله وسلم، ص 672)