علامہ اقبال اور ان کے فکری نظریات

عنبرین عاصم

علامہ اقبال کی شاعری کا اگر بغور مشاہدہ کیا جائے تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ان کی شاعری دراصل اسلام کا مکمل مطالعہ ہے۔ ان کی شاعری ایک مخصوص فلسفہ حیات ہے جس میں زندگی کے بنیادی مسائل کا حل پیش کیا گیا ہے۔ ایک انسان کو اپنی زندگی کس طرح سے گزارنی چاہئے اس فلسفہ کو اقبال نے فلسفہ خودی کی اصطلاح سے موسوم کیا ہے۔ اگر ہم اقبال کے فلسفہ خودی کو اچھی طرح سے سمجھ لیں تو ہم ان کی عظمت کے قائل ہوجائیں کیونکہ اس کا نمایاں وصف یہ ہے کہ اس میں نفی ذات، حیات گریز رحجانات کی بجائے اثبات ذات، تسخیر کائنات، جدوجہد، عظمت آدم اور احترام آدم کا تصور کارفرما ہے اور جب انسان ان مقاصد پر عمل درآمد کرتا ہے تو انسانی زندگی بہترین سانچے میں ڈھل جاتی ہے اور ایک بہترین سماجی نظام وجود میں آتا ہے جس کی آج کے دور میں بہت زیادہ ضرورت ہے۔

اقبال کا فلسفہ خودی جس انسان کی سمجھ میں آجاتا ہے اس کے لئے زندگی نہایت آسان ہوجاتی ہے۔ بہتر یہ ہے کہ ہم اقبال کا فلسفہ خودی پہلے اچھے طریقے سے سمجھنے کی کوشش کریں۔ اقبال کا فلسفہ خودی دو بنیادوں پر استوار ہے۔ خودی اور بے خودی۔ خودی کا تعلق فرد کی ذات ہے۔ اس کا مقصد فرد کی تمام صلاحیتوں کی نشوونما اور اسے غیر اللہ سے بے نیاز کرنا ہے۔ انہی صلاحیتوں کو متوازن بنانے اور انہیں خلق خدا کے لئے وقف کردینے کا نام بے خودی ہے۔ بے خودی ایثار و قربانی اور انسانیت کی بے لوث خدمت سے عبارت ہے۔

خودی پیدا کرنے کے لئے انسان کو تین مرحلوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ مرحلہ اول ہے اطاعت، جب انسان اللہ تعالیٰ کے مروج کردہ اصولوں کو اپنالیتا ہے تو ظاہر ہے اس سے اس کی زندگی تو سنورتی ہے ساتھ ہی دوسروں کو فائدہ بھی دے جاتی ہے۔

دوسرا مرحلہ ہے ضبط نفس۔ اپنے نفس پر قابو پانا تو انسان کا سب سے بہترین وصف ہے جس کی وجہ سے وہ بے شمار برائیوں سے بچا رہتا ہے۔ مرحلہ سوم ہے نیابت الہٰی۔

ہو حلقہ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزم حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن

افلاک سے ہے اس کی حریفانہ کشاکش
خاکی ہے مگر خاک سے آزاد ہے مومن

نظام سرمایہ داری کے بجائے اقبال ایسے نظام زندگی کا خواہاں ہے جس میں تمیز بندہ و آقا کے بجائے اخوت و مساوات کا دور دورہ ہو۔ایک جگہ فرماتے ہیں:

تو راز کن فکاں ہے اپنی آنکھوں پر عیاں ہوجا
خودی کا راز داں ہوجا، خدا کا ترجماں ہوج

ہوس نے کردیا ہے ٹکڑے ٹکڑے نوع انسان کو
اخوت کا بیاں ہوجا، محبت کی زباں ہوج

اقبال اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ

کب ڈوبے گا سرمایہ پرستی کا سفینہ
دنیا ہے تیری منتظر روز مکافات

اقبال نے عدل و انصاف کی بنیاد محنت کو قرار دیا ہے۔ بغیر محنت کے جو بھی مال کسی کو ملتا ہے اسے وہ حرام قرار دیتے ہیں۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو اقبال کا فلسفہ حیات اثبات ذات کی تعمیر اور نشوونما کے لئے غیر طبقاتی سماج کے قیام کو لازم و ملزوم ٹھہراتا ہے۔

یہی مقصود و فطرت ہے، یہی رمز مسلمانی
اخوت کی جہانگیری، محبت کی فراوانی

اقبال کی شاعری میں ایک اور چیز جس نے ہمیں بے پناہ متاثر کیا ہے اور حقیقت کو روزِ روشن کی طرح ہمارے سامنے پیش کیا ہے وہ ہے مغربی تہذیب۔ جسے اقبال محض ایک دکھاوا قرار دیتے ہیں۔ مسلمان آنکھیں بند کرکے مغرب کی ظاہری تقلید کررہے تھے اور اس کی تقلید پر زور دے رہے تھے۔ اقبال نے اس چیز کو محسوس کیا اور اپنی شاعری کے ذریعے لوگوں کو پیغام دیا کہ اگر مسلمان اسی طرح مغربی تہذیب کی تقلید اندھا دھند کریں گے تو وہ ذلت و پستی کی اتھاہ گہرائیوں میں گرجائیں گے اسی لئے وہ کہتے ہیں۔

تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی
شاخ نازک پہ جو آشیاں بنے گا ناپائیدار ہوگ

اقبال مغربی تہذیب کی رسمی اور سطحی تقلید کے مخالف تھے لیکن ان کی اچھی چیزیں اخذ کرنے میں کوئی برائی نہیں سمجھتے تھے۔ ان کے خیال میں قومیں محکوم ہوکر احساس کمتری کا شکار ہوجاتی ہیں۔ ایک جگہ اقبال بہت خوبصورتی سے انسان کو سمجھاتے ہیں کہ

اپنے من ڈوب کر پاجا سراغ زندگی
تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن اپنا تو بن

اقبال اپنے آپ کو جاننے اور اپنے آپ کو تسخیر کرنے پر توجہ دے رہے ہیں۔ انہیں دوسروں کی نقالی پسند نہیں پسند وہ چاہتے ہیں کہ ہر انسان اپنا آپ پہچانے یا اس دنیا میں آنے کے مقصد کو سمجھے۔ زندگی کو ایک اصلاحی مقصد کے تحت گزارے۔

اقبال کی زندگی میں ان کی شاعری کا بنیادی مقصد صرف یہ تھا کہ مسلمان اپنے آپ کو پہچانیں۔ ان کے خیال میں مسلمان جب اپنی قوت بازو پر یقین کرتے ہیں تو ترقی کے بڑے بڑے جھنڈے گاڑ دیتے ہیں۔ وہ انسان کے ذہن کو اندر تک جھنجھوڑتے ہیں تاکہ اسے شعور آئے۔ شاید اس لئے وہ اپنے اشعار میں کچھ ایسے حوالے دے دیتے ہیں کہ انسانی ذہن کے بند پرت کھلنے لگتے ہیں چونکہ اقبال مغربیت کو اپنے اوپر چھاتا محسوس کررہے تھے تو انہوں نے مسلمانوں کو سمجھایا کہ سورج مشرق سے نکلتا ہے اور ہر طرف روشنیاں بکھیر دیتا ہے لیکن یہی سورج مغرب میں جاکر غروب ہوتا ہے اور ہر طرف تاریکی چھا جاتی ہے۔ بالکل مسلمان اسی طرح ہیں جب وہ اپنی اقدار، اپنی روایات اور اپنے اصولوں پر عمل کرتا ہے تو وہ ہر سو روشنیاں بکھیر دیتا ہے لیکن جب وہ اپنی اقدار چھوڑ کر دوسروں کی تقلید شروع کرتا ہے تو وہ غروب ہوجاتا ہے گویا ڈوب جاتا ہے۔

اٹھ آنکھ کھول! فلک دیکھ زمین دیکھ!
مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ

اقبال کی مشہور نظمیں ’’شکوہ‘‘ اور ’’جواب شکوہ‘‘ سے کون واقف نہیں ہے۔ یہاں بھی اقبال کی شاعری مسلمانوں کی وحدت کا درس دے رہی ہے۔ اقبال بار بارمسلمانوں کو متحد رہنے کا درس دیتے ہیں اور آج کے دور کے حساب سے دیکھا جائے تو اقبال کی اس وقت کی شاعری آج کے اس مادی دور میں کس قدر ضروری ہے اور اس کو سمجھنا اور بھی زیادہ اہم ہے۔

منفعت ایک ہے اس قوم کی نقصان بھی ایک
ایک ہی سب کا نبی دین بھی ایمان بھی ایک

حرم پاک بھی اللہ بھی قرآن بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک

فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں؟

اقبال کی شاعری کا اگر بغور مطالعہ کیا جائے تو ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں جو جو آیات مسلمانوں کی ہدایت کے لئے اتاری ہیں اقبال نے بہت خوبصورتی سے انہیں اپنے اشعار میں سمودیا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کو اللہ نے انسان کے لئے بنیادی وصف قرار دیا ہے۔ اقبال نے کہا:

کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں

اللہ تعالیٰ جہاد کا حکم کرتا ہے۔ اقبال لکھتے ہیں:

میں تجھ کو بتاتا ہوں تقدیر امم کیا ہے
شمشیر و سناں اول، طائوس و رباب آخر

اپنی ذات کو پہچاننے کے حوالے سے اقبال نے کیا خوبصورت کہا:

تو راز کن فکاں ہے اپنی آنکھوں پر عیاں ہوجا
خودی کا راز داں ہوجا، خدا کا ترجماں ہوج

ہوس نے کردیا ہے ٹکڑے ٹکڑے نوع انسان کو
اخوت کا بیاں ہوجا محبت کی زباں ہوج

مومن کی بنیادی خوبیاں کیا ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صورت اس جہاں کو ایک روشن مثال عطا کی۔ اس چیز کو کس قدر خوبصورتی سے اقبال نے واضح کیا ہے۔

ہاتھ ہے اللہ کا بندہ مومن کا ہاتھ
غالب و کار آفریں کارکشا، کار ساز

خاکی و نوری نہاد، بندہ مولا صفات
ہر دو جہاں سے غنی اس کا دل بے نیاز

اس کی امیدیں قلیل اس کے مقاصد جلیل
اس کی ادا دل فریب اس کی نگہ دل نواز

نرم دم گفتگو، گرم دم جستجو
رزم ہو یا نرم ہو، پاک دل و پاکباز

اقبال چاہتا ہے کہ مومن کا وجود جب عمل میں آتا ہے تو اس کی راہ میں حائل غلط نظام زندگی مٹ جائے تاکہ انسان کے اندر کی تمام صلاحیتیں کھل کر سامنے آئیں۔ علامہ اقبال رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی شاعری ہم سب کے لئے ایک ٹھوس مقام ہے جہاں اگر انسان ٹھہر جائے تو زندگی کے سچے اسلوب کو سمجھ لیتا ہے۔ کبھی مسجد قرطبہ کے صحن میں اکیلا نماز پڑھتا یہ وجود عشق خداوندی سے سرشار نظر آتا ہے تو کبھی انسانیت کی اسرار خودی اور رموز بے خودی کے گہرے سمندر میں دھکیل دیتا ہے۔ کبھی آزادی رائے کا شدید طلبگار ہے تو کبھی اسلامی حدود و قیود کا بہترین انداز سے پرچار کرتا نظر آتا ہے کبھی بال جبریل کی غزلیات میں عشق و محبت کے نغمے بکھیرتا ہے اور تصوف سے بھرپور ان غزلیات میں اقبال اللہ سے اپنے عشق کو مضبوط کرتا نظر آتا ہے۔ میرے خیال میں اقبال بلاشبہ اس صدی کا بہترین شاعر ہے۔ جس کے اشعار کی کرنیں ہر سو پھیل کر کل عالم کو منور کررہی ہیں۔ اقبال کا اپنا ہی یہ شعر ان کو واضح کررہا ہے۔

ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پید