پاکستانی عوام کو سیاست نہیں ریاست بچانے کی ضرورت ہے

صاحبزادہ مسکین فیض الرحمان درانی

حضرت شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری بانی و سرپرست اعلیٰ تحریک منہاج القرآن انٹرنیشنل اور چیئرمین پاکستان عوامی تحریک کے ارشاد کے مطابق ملتِ پاکستانیہ میں بیداری شعور کی مہم گذشتہ سال کی پہلی دہائی سے پوری شد ومد کے ساتھ تحریک کے مرکز اور ہر سطح کی ذیلی تنظیمات کے پلیٹ فارم سے کامیابی سے جاری و ساری ہے۔ قبل ازیں تحریک منہاج القرآن انٹرنیشنل کے مرکزی امیر اور پاکستان عوامی تحریک کے مرکزی صدر صاحبزادہ فیض الرحمن درانی نے اسی مہم کے سلسلہ میں قارئین کی خدمت میں مجلہ اور نیٹ کے ذریعے علمی اور سیاسی موضوعات پر گرانقدر مضامین، نظریہ پاکستان۔ آج کا پاکستان، اسلامی جمہوری ادارتی نظام کی اہمیت، شیخ الاسلام کی فکر اور آمرانہ طرز حکمرانی کی ہلاکت خیزیاں اور مسیحائے جمہوریت کے عنوانات سے پیش کئے۔ قارئین مجلہ اور منہاج ویب سائٹ www.minhaj.info کے ناظرین نے ان کو بہت سراہا۔ قارئین کے پر زور اصرار پر مجلہ صاحبزادہ درانی مدظلہ کا زیر نظر تازہ مضمون ’’پاکستانی عوام کو سیاست نہیں ریاست کی ضرورت ہے‘‘ کے عنوان سے قارئین کی خدمت میں پیش کررہا ہے۔ امید ہے حسب سابق قارئین مضمون کے بارے میں اپنی آراء و تاثرات سے ہمیں آگاہ فرمائیں گے۔ (مجلہ دختران اسلام)

پاکستان میں کرپٹ سیاسی نظام کی جڑ کرپٹ نظام انتخابات ہے

1973 کے آئین اسلامی جمہوریہ پاکستان کے حصہ، ہشتم کے آرٹیکل نمبر 213 سے آرٹیکل 226 تک انتخابات (elections) انتخابی قوانین (electoral - laws) اور انتخابات کے انعقاد (conduct of elections) سے متعلق قوانین اور قواعد و ضوابط کا ذکردرج ہے۔ انتخابی قوانین کے مطالعہ سے ایسا لگتا ہے کہ جیسے یہ کسی بہت مہذب معاشرہ سے تعلق رکھنے والے قانون کے پابند ان افراد کے، وضع کیے گئے ہیں جو انتخابات کے عمل کو عبادت کی طرح مقدس فریضہ سمجھ کر پورا کرتے ہیں۔ منتخب کرنے والے افراد یعنی ووٹروں اور منتخب ہونے والے امیدواروں کو ووٹ کے تقدس اور نزاکت کا پورا پورا احساس ہے، الیکشن میں حصہ لینے والے افراد اورسیاسی پارٹیوںکو ایک دوسرے کے حقوق کی پاسداری، آپس میںخوشگوار تعلق، اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی جانب سے ملنے والی آزاد ریاست اور اس پر حق حاکمیت کو ایک مقدس امانت سمجھنے، عوام کی کفالت اور اپنے فرائض اور ذمہ داریوں کو پورا کرنے کابھرپورا حساس ہے۔ آرٹیکل 222 کے تحت انتخابی قوانین کی چھ شقیں بہت وضاحت سے اُن سب حقوق و فرائض کی نشاندہی کرتی ہیں کہ جو عوام کے منتخب نمائندوں اور الیکشن کمیشن نے سیاسی جماعتوں کی تجاویز کی روشنی میں عملدرآمد کے، بطور خاص وضع کئے ہیں اسی طرح الیکشن سے متعلق تمام قوانین، الیکشن کمیشن، انتخابی ادارے اور امیدواروں کے حقوق، فرائض اور اختیارات پوری وضاحت اور تشریح سے آئین میں موجود ہیں۔ لیکن کیا وجہ ہے کہ پاکستان کے ہر شہری، ووٹر حتیٰ کہ الیکشن میں حصہ لینے والے ہر امیدوار کی زبان پر بھی ایک ہی داستان ہے کہ موجودہ نظام انتخابات ہی الیکشن میں تمام بدعنوانیوں، کرپشن، دھاندلی، لوٹ مار اور فساد کی جڑ ہے۔ کرپٹ نظام انتخابات، اس میں کی جانے والی سنگین بد عنوانی، دھاندلی اور اس سے پیدا ہونے والے نتائج پر ہر پاکستانی شہری نالاں ہے۔ موجودہ نظام انتخابات کی وجہ سے وطن عزیز ناقابل تصور خرابیوں کی آماجگاہ بن چکا ہے اور روز بروزان میں مزید اضافہ ہو رہا ہے۔

عجب تماشا ہے کہ الیکشن کے قوانین اور قواعدوضوابط کے تحت صوبائی اسمبلی کا امیدوار انتخابی مہم پر دس لاکھ روپے اور قومی اسمبلی کا امیدوارپندرہ لاکھ روپے تک خرچ کرنے کا مجاز ہے۔ لیکن انتخابی مہم شروع ہوتے ہی ہر پاکستانی کھلی آنکھوں سے دیکھتا ہے کہ صوبائی و قومی اسمبلیوں اور سینیٹ کے امیدواراپنی انتخاباتی مہمات پر کروڑوں روپیہ بیدریغ خرچ کرتے ہیں۔ کھلم کھلا الیکشن قوانین کی خلاف ورزی کی جاتی ہے۔ پارٹی سے ٹکٹ کی خریداری سے لے کر اسمبلی پہنچنے تک کروڑوں روپے خرچ کیے جاتے ہیں اور وزارت حاصل کرنے کے، تو اربوں کا نذرانہ پارٹی چیئرمین کو دینا پڑتا ہے۔ اسمبلی کے اراکین کھلم کھلا الیکشن کو کاروبار کہتے اور اس سے منافع کمانے کا اعتراف کرتے ہیں۔ اسمبلیوں میں پہنچنے والے اراکین صاف صاف کہتے ہیں کہ وُہ زرِ کثیر خرچ کر کے پارٹی سے ٹکٹ خریدتے ہیں، ووٹروں کو ووٹ کی منہ مانگی قیمت دیتے ہیں اورلوکل ایڈمنسٹریشن اور الیکشن کمشنری کے ذریعے جعلی ووٹ ہتھیانے پر بے تحاشا دولت خرچ کرتے ہیں۔ لہذا اپنی لگائی ہوئی رقم پر منافع کمانا تو ان کاحق بنتا ہے۔ اس کاروباری ذہنیت کے ساتھ چل کر الیکشن جیتنے والاامیدوارجب قانون ساز اسمبلی کے اندر داخل ہوتا ہے تو روزِ اول سے ہی اس کی نیت دولت کا حصول ہوتی ہے۔ اس طور دولت کمانے کے، اُس کا ذہن عام دوکانداروں، سیٹھوں اور ساہوکاروں جیسا نہیں ہوتا بلکہ وُہ ان سے بڑھ کر ایک ایسا مہاجن بن جاتا ہے کہ جو کاروبار کی ترقی کے، ہر قسم کے دجل و فریب، مکاری، دغا بازی، رشوت خوری اور بدعنوانی کا ایکسپرٹ ہوتا ہے۔ وُہ قوم کی دولت لوٹنے کے ایسے منصوبے بناتا ہے کہ عوام کو اس کا اتنا احساس بھی نہیں ہوتا جتنا کہ دن سے رات اور رات سے دن کے جدا ہونے کے غیر محسوس عمل کا ہوتا ہے۔ عوام اور حکومت کی بڑی بڑی زمینوں اور جائیدادوں کا ہتھیانا، شاہراہوں، پُلوں اور بڑے بڑے ہائی ویز اور موٹر ویز میں اربوں کمانا، اموال و املاک اور بڑے بڑے سرکاری اداروں جیسے ریلوے، پی آئی اے، سٹیل ملز، ہیوی مشینری اینڈ ایکوپمنٹ انڈسٹری، بڑے بڑے بینکوں اور سرکاری محکموں میں گھپلے بازی اور دونوں ہاتھوں سے ان کا لوٹنا اس کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہوتا ہے۔ اسمبلی، وزارت اور صدارت کے ایوان، سیاست کاروں کی وُہ تربیت گاہیں ہوتی ہیں کہ جہاں عوام کو انسان نہ سمجھنے کے، درکار تکبّر کے، اس کی مہارت میں اضافہ ہوتا ہے۔ آپس میں گالی گلوچ، دشنام طرازی، بد کلامی اور غیر شائستہ گفتگو کرنے کی ٹریننگ بھی یہیں سے ملتی ہے۔ انتخابات کے وقت لاکھوںکروڑوں کی تواب کوئی اہمیت ہی نہیں رہی اب تو بات اربوں تک پہنچ چکی ہے۔ یہ سب بے ضابطگی، بے قاعدگی اور بد عنوانی نظام انتخابات چلانے کے ذمہ دار ’’قومی آئینی ادارے الیکشن کمیشن‘‘ کے سامنے ہوتی ہے لیکن سیاسی دباؤ اور مقتدر شخصیات کے خوف اور ڈر کی وجہ سے قانون نافذ کرنے والا یہ ذمہ دار ادارہ انتخابی دھاندلیوں پر خاموش تماشائی بن جاتا ہے۔

الیکشن کمیشن کے قواعد و ضوابط کے مطابق اسمبلی کے امیدوار کے، کسی قسم کے دھن، دھونس اور دھاندلی سے کسی ووٹر کو ہراساں کرنا اور زبر دستی یا اُس کی مجبوری سے فائدہ اٹھا کر ووٹ حاصل کرنا ممنوع ہے لیکن ناجائز سرمایہ، جاگیرداری، پیری مریدی، عقیدہ، برادری اور نری بد معاشی سے بے بس اور مجبور ووٹروں سے ووٹ ہتھیانا معمول بن چکا ہے۔ طاقتور امیدوار کی فراہم کردہ ٹرانسپورٹ میں ووٹروں کو زبر دستی ٹھونس کر پولنگ بوتھ لے جایا جاتا ہے اور امیدوار کے کارندوں کے سامنے ووٹ پول کرایا جاتا ہے۔ سیاست کاری کے ماہر امیدواروں کے پاس الیکشن میں دھاندلی کرنے والے تربیت یافتہ تنخواہ دار غنڈوں کی پوری فوج ہوتی ہے جو کسی بھی وقت مخالف امیدوار سے لے کر اس کے پولنگ ایجنٹوں اور ووٹروں تک کو اغوا کر لیتے ہیں۔ کسی شریف شہری کی بے عزتی یا اس کو مارنا پیٹنا تو معمولی بات ہے یہ طاقتور لوگ تو پولیس، رینجرز اور فوج کی موجودگی میں بھی ووٹوں کے باکس اور نتائج کی لسٹیں تک زبردستی اٹھا لے جاتے ہیں۔ پولنگ اور پریزائیڈنگ افسروں کا اغوا تک کیا جاتا ہے۔ پرانے وزیر، مشیر، سابقہ ایم این ایز، ایم پی ایز، جاگیردار وڈیرہ قسم کے لوگ بڑی شان سے مسلح گارڈز کے ساتھ اپنی شاندار گاڑیوں میں بڑے طمطراق سے پولنگ بوتھوں پر آتے اور اپنی مرضی دکھاتے ہیں۔ اگر کوئی سرکاری اہلکاربفرض محال کسی غنڈے وڈیرے کی غیر قانونی حرکات کے سامنے کسی وقت تھوڑی بہت مزاحمت بھی کر لے تو لاتوں گھونسوں سے اس کی ایسی مرمت کر دی جاتی ہے کہ وہ اس کو مدتوں یاد رکھتا ہے اور بعد میں بھی عرصہ دراز تک اس کی مزید مرمت ہوتی ہی رہتی ہے۔ الیکشن کمیشن کا کوئی قانون یا حکومت اس سرکاری بندے کی کسی قسم کی مدد کی روادار نہیں ہوتی۔ پولنگ بوتھوں پر ہاتھا پائی، لڑائی جھگڑا، فتنہ و فساد کے علاوہ بعض دفعہ قتل و غارت گری کے واقعات بھی رونما ہوتے ہیں۔ ووٹ کے بکسوں کو پہلے سے تیار کردہ ووٹوں سے بھرنا سیاست کاروں کے بائیں ہاتھ کا چمتکار ہوتاہے یہ بالکل اسی طرح ہوتا ہے جیسا کہ قانون ساز اسمبلیوں کے امیدوار اپنے حلقہ انتخاب میں ہزاروں لاکھوں جعلی شناختی کارڈ اور بوگس ووٹ بناتے رہتے ہیں۔ گذشتہ سال الیکشن کمیشن کی ایک رپورٹ میں اس امر کا اعتراف کیاگیا ہے کہ 2008 ء کے قومی انتخابات میں ملک کی ساڑھے سترہ کروڑ آبادی میں رجسٹرڈ ووٹوں کی تعداد آٹھ کروڑ دس لاکھ تینتیس ہزار نو سو اکیانوے (8,10,33,991) اورانتخابی فہرستوں میں جعلی ووٹوں کی تعداد تین کروڑ اکہتر لاکھ چھیاسی ہزار (3,71,86000) تھی یعنی بوگس ووٹوں کی شرح کل ووٹوں کی چھیالیس فیصد (46%) تھی۔ مشکوک ووٹوں کا تناسب بلوچستان میں65 فیصد، فاٹا میں62 فیصد، سندھ میں54 فیصد، خیبر پختونخواہ میں43 فیصد اور پنجاب میں41 فیصد تھا۔ پول کئے گئے کل ووٹوں کی تعداد تین کروڑ انچاس لاکھ، اسی ہزار اور انہتر (3,49,80,069) تھی، یعنی بوگس ووٹوں کی تعداد ڈالے گئے ووٹوں سے بائیس لاکھ پانچ ہزار نو سو اکتیس (22,05,931) زیادہ تھی۔ بوگس ووٹ کیسے بنائے جاتے ہیں، انتخابی فہرستوں میں ان کا اندراج کون، کہاں اور کیسے کرتا ہے، الیکشن کے دن بوگس ووٹوں کو کون، کیسے، کب اور کس طرح بکسوں میںڈالنے کا انتظام کرتا ہے؟ کیا حکومت وقت، الیکشن کمیشن کے ذمہ داروں اور کارندوں کے سامنے یہ سب کچھ بہت دھڑلے سے نہیں کیا جاتا ہے، کیا یہ سب قانون اور آئین پاکستان کے ساتھ ایک کھلا مذاق اور آئین کی حفاظت کا دعوٰی کرنے والوں کے منہ پر طمانچہ نہیں ہوتا ہے۔ کیا یہ پوری ملت پاکستانیہ کے خلاف ایک کھلا اعلان جنگ نہیں ہوتا ہے۔ کیا پاکستانی قوم کے ساتھ یہ گھناؤنا کھیل کھیلنے والوں میں نادرا، نظام انتخابات چلانے والا ادارہ الیکشن کمیشن اور جھوٹا الیکشن لڑنے والا امیدوار سب کے سب شامل نہیں ہوتے؟انتخابات کرانے والی نگران عبوری حکومت کیا اس مکروہ کھیل میں برابر کی شریک نہیں ہوتی؟ کیا سیاہ کرتوتوں اور دسیسہ کاریوں کا ماہر ہر پاکستانی سیاست گر دستور پاکستان کی شق باسٹھ اور تریسٹھ کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرنے کے جرم کامرتکب نہیں ہوتا؟ پاکستان میں انتخابات کرانے کا ذمہ دار آئینی ادارہ’’الیکشن کمیشن‘‘ اور اس کے کرپٹ اور کمزور ترین نظام پر کیا یہ اعتماد کیا جا سکتا ہے کہ اس کی لاچاری اور بے کسی کے اس عالم میں وطن عزیز میں وُہ کوئی ایسا صاف اور شفاف الیکشن کرانے کی ہمت کر سکتا ہے کہ جس کے ذریعے ایسے اہل افرادِ ملت بر سر اقتدارآجائیں کہ جو اللہ سبحانہ وتعالیٰ اور ملتِ پاکستانیہ کی مقدس امانت’’ ریاستِ پاکستان‘‘ کی حفاظت کا فریضہ ادا کرنے کے قابل ہوں۔

ریاست بچانے کے، عوام کا کردار

پاکستانی قوم اور خاص کر نوجوانانِ ملت کے، لازم ہو چکا ہے کہ وہ پوری دیانتداری اور سنجیدگی سے بین الاقوامی سیاسی حالات و واقعات کے تناظر میں وطن عزیز کے انتہائی مخدوش موجودہ سیاسی، معاشی، معاشرتی حالات کابغور مطالعہ و مشاہدہ کریں اور جائزہ لیں کہ وطن عزیز میں بیرونی اور اندرونی سازشیوں کا اصل منصوبہ کیا ہے اور یہ لوگ مستقبلِ قریب میں بین الاقوامی سازشوں کے تحت پاکستان کی مقدس ریاست کے ساتھ کس نوع کی سنگین وارداتوں کا آغاز کرنے جا رہے ہیں؟ پاکستانی سیاست کاروں کی دسیسہ کاریوں اور سازشوں کی وجہ سے ریاست پاکستان شدید معاشی اور معاشرتی تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے۔ پاکستان ایک عظیم سازش کا شکار ہونے والا ہے، بھارت پاکستان کے دریاؤں کا رہا سہا پانی ختم کر کے اس کی زمینوں کو بنجربنانے کے منصوبہ کی تکمیل کے آخری مراحل میں ہے لہذا مستقبل قریب میں وطن عزیز میں بجلی پیدا کرنے اور آبپاشی کے، نہ پانی رہے گا اور نہ کوئی ڈیم ہو گا۔ پاکستانی سیاست کار توانائی کے دیگر ذرائع کے استعمال کے منصوبوں پر سرے سے کام کرنے کے، تیار ہی نہیں ہو رہے ہیں۔ خام تیل اور قدرتی گیس کے نئے ذخائر کی تلاش پر پابندی ہے۔ پاکستان کے انتہائی قیمتی معدنیات سونا، چاندی، گرینائٹ، سنگ مرمر اور خام یورینیم جیسی قیمتی دھاتوں کو مغربی ممالک کے ہاتھ کوڑی کے مُول بیچا اور ان سے بنائی گئی مصنوعات کو انتہائی اونچے داموں واپس خریدا جاتا ہے۔ سیاست کاروں کے باہمی خلفشار کی وجہ سے توانائی کے خود ساختہ اور مصنوعی بحران سے پاکستان کی صنعتوں کو تباہ کر دیا گیا ہے۔ زراعت ختم ہو گئی ہے۔ ایک انتہائی خطرناک انسان کش منصوبہ کے تحت بھارت اپنے کارخانوں سے نکلنے والا زہریلا مواد پاکستانی دریاؤں میں ڈال رہا ہے جس کی آبپاشی سے پاکستان میں پیدا ہونے والے اجناس خوردنی، سبزیاں اور سبز چارہ انتہائی حد تک زہر آلود ہو چکا ہے اور اس کے استعمال سے انسانوں اور مویشیوں میں لاعلاج بیماریاں پیدا ہو کر ان کی ہلاکت کا باعث بن رہی ہے۔ لیکن پاکستانی سیاست کار اس کے خلاف نہ صرف بین الاقوامی سطح پر کوئی آواز اٹھانے سے قاصر ہے۔ بلکہ اس کے بر عکس دشمن کے ساتھ محبت کی پینگیں مزید بڑھائی جا رہی ہیں اور امن کی آشا کے ترانے مِل کر گائے جا رہے ہیں۔ پاکستانی دریاؤں پر بھارت اب تک چونسٹھ ڈیم بنا کر بجلی بنا رہا ہے اور دریاؤں کا رخ موڑ کر ان کے پانی کو زراعت کے، استعمال کر رہا ہے۔ اس کے علاوہ وہ مزید چونسٹھ ڈیموں کے بنانے کے منصوبہ پر تیزی سے عمل پیرا ہے۔ سندھ طاس معاہدہ پر عمل درآمد کے، جو بھی حکومتی کمیشن تشکیل دیا جاتا ہے اس کے سربراہ اور اراکین کو بھارت اُسی طرح نوازتا ہے۔ جس طرح کالا باغ اور بھاشا ڈیم کی تعمیر رکوانے کے، پاکستان میں وُہ اپنے سیاسی ہم نواؤں کو ہر سال بے پناہ دولت سے نوازتا ہے۔ کشمیر کمیٹی کا چیئرمین حکومتی اتحادی اور بھارتی ہم نوا ہونے کے ناطے اقوام متحدہ، سلامتی کونسل اور دنیا کے کسی فورم پر آواز اٹھانے سے اس، معذور ہے کیونکہ اس کاپیٹ بھی اوروں کی طرح بھاری ہے بلکہ بہت ہی بھاری ہے۔ بیداری شعور کی مہم کے سلسلہ میں لکھے گئے اپنے متعدد مضامین اور خاص کر ’’مسیحائے جمہوریت‘‘ کے عنوان سے چھپنے والے مضمون میں ہم نے ملتِ اسلامیہ پاکستانیہ کو بروقت آگاہ کیا تھا کہ وطنِ عزیز پاکستان کس بری طرح اسلام دشمن طاقتوں کے ان خفیہ کارندوں کے نرغے میں ہے کہ جو پاکستان کی سیاسی، مذہبی اور نیم مذہبی سیاسی جماعتوں، بیورو کریسی اور ایسٹیبلشمنٹ کی صفوں میںشامل ہیں، ان کے مال کی چمک سے پورا حکومتی، انتخاباتی، معاشی اور معاشرتی نظام ان کے شکنجہ میں گرفتار ہے۔ ملک عزیز کے اندر اکثر سیاسی جماعتوں اور ایسٹیبلشمنٹ کے لوگ’’ سٹیٹس کو‘‘ کے حامی ہیں اور جاری کرپٹ نظام کی حفاظت کرتے ہیں، یہ لوگ موجودہ کرپٹ سیاسی اور انتخاباتی نظام کی تبدیلی یا اس میں اصلاح کے، کی جانے والی جدوجہد اور کوششوں کے خلاف ہیں، ریاست پاکستان کی سا لمیت کے خلاف کام کرنے والے سازشی عناصردولت کے بل بوتے پر آئے دن مزید طاقتور ہورہے ہیں۔ بظاہر ان کا مقابلہ مشکل نظر آتا ہے۔ لیکن پاکستانی قوم اگر اس فرعونی نظام سے نجات حاصل کرنے کے، قرآن حکیم فرقان مجید سے ہدایت طلب کرے اور اللہ تعالیٰ کے فرمان پر عمل پیرا ہو کر اس کرپٹ انتخابی نظام کوپوری طرح مسترد کردے توبفضل تعالیٰ بہت جلدیہ ملک دشمن نظام نیست و نابود ہو جائے گا۔ ریاست پاکستان میں کرپٹ سیاسی اور انتخابی نظام قرآنی ہدایت کی روشنی میں کس طرح ختم کیا جاسکتا ہے۔ اس ضمن میں قرآن حکیم مجبور و مقہور عوام کو فرعونی نظام پر عمل نہ کرنے کی اس حکمت سے آگاہ کرتا ہے۔ جس پر اللہ جل شانہ نے اس وقت کے پیغمبر حضرت موسیٰ علیہ السلام کو عمل کرنے کا حکم دیا تھا۔ حکمت موسوی آج بھی بعینہ پورے عالم اسلام کے، اسی طرح قابل عمل ہے۔ قرآن مجید نے فرعونیت کے نظام کے سدِ باب کے، جو طریقہ تجویز فرمایا ہے، اس کے دو حصے ہیں۔ سورہ النّٰزِعات کے مطابق پہلے مرحلہ میں فرعونی سیاسی نظام چلانے والوں کو ’’نصیحت‘‘ کرنے کے، ایک ایسے ’’مسلّمہ ناصح اور مصلح‘‘ شخصیت کا انتخاب کہ جو بڑی بیباکی، جرات اور بہادری سے موّثِر اور باصلاحیت انداز میں ان کو انفرادی اصلاح، اجتماعی یعنی سیاسی، معاشی، معاشرتی اور اخلاقی نظام کی اصلاح اور اللہ تعالیٰ کی مرضی کے مطابق اس کی مخلوق پر حاکمیت کے نظام (system of public administration and governance) میں اصلاح کرنے کی دعوت دے۔ ان کو شیطان کے غلبہ سے باہر نکالنے اور اللہ سبحانہ ‘ کی بندگی، پرہیزگاری اور تقویٰ اختیار کرنے کے، ان کی رہبری (guidance) کرنے کا یقین دلائے۔ اگر فرعونی سیاسی نظام چلانے والے’’نصیحت‘‘قبول نہ کریں، دعوت حق کی جانب مائل نہ ہوں اور دعوت حق دینے والے ناصح اور مصلح کی تکذیب کریں اور اس کے خلاف سازش کریں تو دوسرے مرحلہ میں پھر عوام الناس مِل کر’’عصائے موسوی‘‘کے ذریعے فرعونی سیاسی نظام کو مسترد کر کے اُس کو بیخ و بن سمیت اکھاڑپھینکیں۔ قرآن حکیم کا ارشاد ہے ’’اِذْھَبْ اِلیٰ فِرْعَوْنَ اِنّہ‘ طَغیٰ‘‘ (فرعون، اس کی آمرانہ سیاست اورملک میںرائج اس کے نظام کا مقابلہ کرو۔ وُہ باغی ہو گیا ہے) یعنی بندگی کی حد سے تجاوز کر کے خالق اور خلق دونوں کے خلاف اس نے ایک آمرانہ نظام لاگو کر دیا ہے۔ قرآن کا حکم ہے کہ اس موقع پر اللہ کے اطاعت گزار بندو ں نے خاموش ہوکر نہیں بیٹھنا ہے بلکہ جھوٹ اور دھوکہ دہی پر مبنی آمرانہ نظام کے خلاف آواز اٹھانی ہے۔ قائدین ملت نے خاموش بیٹھی عوام کے شعور کو بیدار کرنا ہے، عوام الناس کو احساس دلانا ہے کہ ان کے حقوق کیا ہیں اور ایک کرپٹ نظام کے ذریعے کس طرح ان کے حقوق پر ڈاکہ ڈالا جا رہا ہے۔ کسی ملک میں ایک ایسا کرپٹ سیاسی نظام کہ جس کے ذریعے نااہل بے صلاحیت اور دغا باز لوگ اقتدار میں آتے رہیں بلاشبہ ایک بہت بڑی آفت ہوتی ہے، قرآن آفات سے مقابلہ کرنے کا درس دیتا ہے اور تلقین کرتا ہے کہ ایک دشمن کی طرح اُس سے براہ راست نمٹا جائے۔ حضرت علامہ محمد اقبال مفکر پاکستان بھی قرآن کی بخشی ہوئی ہدایت کی روشنی میں فرعونی نظام کے سد باب کے، ’’حرفِ کلیم‘‘ یعنی عوام کے شعور کی بیداری اور فرعونی نظام چلانے والوں کے مقابلے میں’’عصائے موسیٰ‘‘ کے استعمال کا اشارہ دے رہا ہے۔ آپ’’پس چہ باید کرد‘‘ میں فرماتے ہیں کہ

پیشِ فرعونان بگو حرف کلیم
تاکند ضرب تو دریا رادونیم!

آمرانہ سیاسی نظام بچانے کے، سیاست کاروں کے منصوبے

مسلمانوں کو یہ بھی سمجھنا ضروری ہے کہ جب بھی اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے حکم کے مطابق عوام الناس کے شعور کی بیداری کے، کوئی مردِ حق، عوام کا حقیقی قائد، عوام کو صحیح سمت دکھانے والا صاحب حریت، عوام کے حقوق کا پرچم اٹھا کر کرپٹ سیاسی نظام کے خلاف میدانِ عمل میں اترتا ہے توملک پر مسلط آمریت یا آمرانہ جمہوریت کے سیاسی رکھوالے اور سیاست کار اپنے اقتدار کی ناؤ کو ڈولتا دیکھ کر اس کے خلاف پروپیگنڈا کرتے ہیں کہ ملک میں رائج سیاسی اور انتخاباتی نظام کے خلاف ہونے والی عوامی بیدارئِ شعور کی مہم وہ کسی خفیہ سازش کے تحت چلا رہا ہے۔ قرآن کے الفاظ میں فرعونی سیاست کار جگہ جگہ پر وپیگنڈا کرتے پھرتے ہیں کہ’’اِنَّ ھٰذا لَمَکْرٌمَکَرْتُمُوْهُ ‘‘ (الاعراف:123) (یہ تو ایک سیاسی چال ہے) فرعونی سیاسی نظام کو قائم رکھنے والے سیاست کار، عوام کے حقیقی قائد اور مسیحائے جمہوریت کے پیغام حق کے خلاف ایکا کرتے ہیں اور اُس کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرتے ہیں۔ اُس کی کردار کشی کرتے ہیں۔ عوام کو اس سے دور رکھنے کے، پولیس کے ذریعے جگہ جگہ ناکہ بندیاںکرائی جاتی ہیں۔ حکومت عوامی قافلے کے لوگوں کو اپنی سیاسی قوت اور طاقت سے مرعوب کرتے ہیں، لوگوں کو ورغلاتے ہیں کہ عوامی بیداری شعور کی مہم چند دِنوں کی بات ہے۔ جو جلدی دم توڑ دے گی، ہم مضبوط سیاسی لوگ ہیں۔ تھانہ، کچہری اور جھگڑے فساد میں ہمیشہ تمہارا ساتھ دیتے ہیں۔ ہم تمہاری برادری کے لوگ ہیں اور دکھ درد میں تمہارے ساتھ شریک ہوتے ہیں۔ بیداری شعور کی مہم چلانے والے عملی طور پر تمہارا ساتھ کہاں دے سکتے ہیں ہماری غمی خوشی مرنا جینا ایک ہے لہذا بیدارئِ شعور اور ریاست کی حفاظت کے چکر میں نہ پڑو اورسیاست میں ہمارے ساتھ رہو۔ قرآن حکیم مردانِ حرّیت کو جگہ جگہ سیاسی آمروں کی مختلف چالوں سے باخبر کرتا ہے۔ سورہ الاعراف کی ایک سو ستائیسویں آیت میں فرعونی سیاست کاروں کی دھمکیوں اور گیڈر بھبکھیوں کا ذکر کیا گیا ہے کہ جب فرعونی سیاست کار بیداری شعور کی مہم چلانے والوں کے بارے میں یہ کہتا پھرتا ہے۔ ’’اِنَّا فَوْ قَھُمْ قٰاھِرُوْنo ‘‘ (ہم ان پر (ہر طرح) زور آور ہیں (یہ اپنے کام میں لگے رہیں، یہ ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتے) ظلم و بربریت اور استیصالی نظام کے خلاف جب عوام کے شعور کی بیداری کی مہم شدت پکڑتی ہے اور ملک کو دجالی سیاست سے نجات دینے اور حقیقی سیاسی اور عوامی فلاحی پروگرام دینے کیے، عوام کا حقیقی نمائندہ، جمہوریت کا مسیحا اور’’اسلامی ریاست کی حفاظت کرنے والا حقیقی محافظ‘‘ میدان عمل میں قوم کی قیادت، سیادت اور رہبری کے، اترتا ہے تو دجالی سیاسی نظام چلانے والے چھوٹے چھوٹے سیاسی جوکر عوامی اجتماعات سے گھبرا کر’’بڑے سیاست کار‘‘ کے پاس پہنچ کر ان سے کہتے ہیں کہ کیا تو عوام میں بیداری شعور کی ان عظیم لہروںکی شدت دیکھ رہا ہے اور جگہ جگہ عظیم الشان عوامی اجتماعات کے اثرات کو محسوس کر رہا ہے کہ کس طرح ان کی وجہ سے سارا ملک جاگ گیا ہے۔ وُہ ہمارے سیاسی نظام پر کاری ضرب لگا رہا ہے کیا تو ایک عظیم تبدیلی لانے والے قائد عوام اور اس کی پیروی کرنے والے سرفروشوں کو اس، چھوڑ دے گا کہ وُہ ملک میں (یونہی ہمارے سیاسی اور انتخاباتی نظام کے بخیئے ادھیڑ کر رکھ دیں) اور فساد پھیلاتے پھریں اور تیرے اور تیرے رکھوالوں کو چھوڑ دیں اور ان کو (ذلیل کر دیں) ۔ (سیاسی نظام کے کرپٹ بڑے فرعونی سیاست کار نے) کہا (نہیں ہم اپنی اسی پرانی رسم پر عمل کریں گے تا کہ اس سوچ اور فکر کو اپنانے والی قوم کا خاتمہ ہی ہو جائے یعنی) ہم ان کے لڑکوں کو قتل کریں گے اور ان کی لڑکیوں کو زندہ رکھیں گے (تاکہ ہمارے راستہ پر رہ کر اور حق سے گمراہ ہو کر وہ ہماری سوچ و فکر پر عمل کریں)

قرآن حکیم کی سورہ الاعراف کی ایک سو ستائیسویں آیت کریمہ بہت ہی معنی خیز اور خاص کر اس کے دو جملے’’سَنُقَتِّلُ اَبْنَآ ئَ ھُمْ‘‘ (ہم ان کے لڑکوں کو قتل کریں گے) اور’’وَ نَسْتَحْی نِسَآ ئَھُمْ‘‘ فرعونی سیاسی نظام کے بہت خاص گھناؤنے اور انسانیت کش منصوبوں کا پول کھولتے ہیں۔ قرآن حکیم فرقان مجید کا اعجاز ہے کہ کائنات کے ذرّذرّہ کے شاہد عادل حضرت نبی اول و آخر محتشم و مکرم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قلب مطہر پر نازل کی گئی قرآنی آیات تخلیق کائنات؛ آفاق و انفس کے پہلے لمحہ سے لے کر آخری لمحے تک کے تمام واقعات اور ہر زمانہ کے حالات کی عکاسی کرتی ہیں۔ زیر تلاوت آیت کریمہ کے دونوں جملے جس طرح حضرت موسیٰ علیہ التحیتہ والثناء اور دیگر انبیاء و رُسل کے زمن کے حالات اور واقعات کو بیان کرتے ہیں اسی طرح یہ موجودہ دَور کے دجالی سیاسی نظام نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا کے تمام ممالک اور اقوام کے نظامہائے حیات کی عقدہ کشائی بھی کرتے نظر آتے ہیں۔ موجودہ دجالی، سیاسی، معاشی اور معاشرتی رائج نظام کا بغور مطالعہ کرنے سے اس کے اندازِ عمل اور طریقہِ و ارادت؛ (modus-operandi) کا اندازہ ہوتا ہے۔ پوری دنیا میں دجالی سیاسی نظام کا دجالی سیاست کاروں کے اقتدار کو قائم رکھنے کے، سب سے بھیانک اور ہولناک منصوبہ مرد و زن کو اخلاقی بے راہ روی اور جنسی نراج کے راستے پر ڈال کر انہیں کردار کی موت سے دوچار کرنے کا ہوتا ہے۔ وہ بچوں کو بچپن سے جنسی لذّات اور معلومات سے آگاہ کرتا ہے اور جوانی تک پہنچنے سے پہلے ان کی مردانگی کا جوہر ضائع کرنے کے لئے ان کو بد فعلی کے آسان مواقع فراہم کرتا ہے۔ وُہ نوجوان (teenagers) لڑکے لڑکیوں کی وُہ صلاحیتیں آزاد اختلاط کے ذریعے پہلے سے ہی زائل کرادیتا ہے جس سے ان میں غیرت اور حمیّت کے جذبات کی پرورش اور طاقت و قوت کی افزائش ہوتی ہے۔ وُہ نوجوانوں کو راگ و رنگ، طاؤس و رباب، رقص اور سرود کی مخلوط پارٹیوں میں شامل ہونے کی ترغیب دیتا ہے۔ سینما، تھیٹر، ڈرامہ، گانا بجانا اور ڈسکو ڈانس کلبوں اور بڑے بڑے ہوٹلوں کی تعمیر و ترقی کے، بین الاقوامی بینک بڑے بڑے قرضے آسان اقساط پر جاری کرتے ہیں۔ قرآن نے لڑکیوں کے کردار کی اس تباہی کے، ’’بچوں کا قتل‘‘ کا استعارہ استعمال کیا ہے اور لڑکیوں کی عصمت دری، برہنگی، عریانیت اور فحاشی کی افزائش کی، ’’نَسْتَحْی نِسآ ئَھُمْ‘‘یعنی بدکاری کے، ’’عورتوں کا زندہ رکھنا‘‘ کے کنایے کا استعمال کیا ہے۔ دجالی سیاست کاری کے نظام میں عورتوں کو سیاسی مقاصد کے، استعمال کیاجاتا ہے تا کہ مردوں کو سیاسی پارٹیوں میں شامل ہونے کی کشش (attraction) اور ترغیب (motivation) ہوتی رہے۔ مردوں کے ساتھ آزادانہ اختلاط کے، عورتوں کو حدِ اعتدال سے بڑھ کر آزاد خیال بنایا جاتا ہے۔ تا کہ محرم و نامحرم اور حرام و حلال کی تمیز کا شعور ختم ہو جائے اورمعاشرہ کو بے حیائی اور عیش پرستی میں غرق کر دیا جائے۔ نوجوانوں کو عورتوں کی طرح بننے سنوارنے اور حلیہ بنانے کے، خصوصی ترغیبات اور مراعات دی جاتی ہیں۔ تھیٹر اور ٹی وی پر ان کو سب سے زیادہ معاوضہ دیا جاتا ہے جوعورتوں کا بہروپ بھر کر بیگمات کی شکل میں آتے ہیں، مخنثوں اور ہیجڑوں کے ڈانس دکھائے جاتے ہیں۔ ہیجڑے کولہے مٹکا کر اور سینوں سے مخصوص اشارے کر کے مردوں کو بدکاری کی طرف مائل کرتے ہیں، ہوس کار بوڑھے بھی اس فعل بد میں پیچھے نہیں رہتے اور حیا سے بیگانہ ہو جاتے ہیں۔ غرضیکہ دجالی سیاست کاری کا سارا دارومدار معاشرے کی بے حیائی اور فحاشی پر ہوتا ہے کیونکہ عوام جب ایک بے جان اور بے غیرت معاشرے کا حصہ بن کر شہوات اور فواحشات میں ڈوب جاتے ہیں تو سیاست کاروں کو ان کی جانب سے مزاحمت کا خطرہ نہیں رہتا۔

پاکستانی سیاست کار؛ چاہے وہ پرانے ہوں یا نئے کھلاڑی، سب کا انداز سیاست ایک جیسا ہے۔ نوجوانوں کو اپنی جانب مائل کرنے کا ایک ہی طرح کا طریقہ و اردات، سب کے سب اپنی پارٹیوں میں لڑکے لڑکیوں اور مرد و زن کے آزاد اختلاط کے مواقع پیدا کرتے ہیں۔ گانا بجانا، ڈسکو میوزک، ڈانس اور بینڈ گروپ کا عام رواج ہے تا کہ جنسی کشش اور ترغیب (temptation) کا عنصر موجود رہے اور لڑکے لڑکیاں کھل کر مادر پدر آزادی کا مظاہرہ کریں۔

تحریک منہاج القران اور پاکستان عوامی تحریک گذشتہ سال سے ملت پاکستانیہ میں بیداریِ شعور کی ایک ایسی نادر المثال مہم چلا رہی ہے کہ جس کی نظیر گذشتہ چھ سات دہائیوں میں وطن عزیز میں کہیں نہیں ملتی۔ پاکستانی عوام کے بنیادی حقوق سیاسی بازی گروں کے ہاتھوں بُری طرح پامال کئے جاتے ہیں۔ عوام زندگی کی بنیادی ضرورتوں سے محروم ہیں۔ حقیقی سیاستدانوں کے فقدان کی وجہ سے کاروباری سیاست کاروں کی بھرمار ہے۔ جہاں سیاستدانوں کا فریضہ عوامی ضروریات سے واقفیت اور ان کی کفالت ہوتا ہے کاروباری سیاست کار سوائے اپنی ذاتی کفالت اور دولت سمیٹنے کے اور کسی کام میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ وُہ کاروبار کرنے سیاست کی منڈی میں آتے ہیں اور نفع کما نا ان کا مطمحِ نظر ہوتا ہے۔ سیاسی تجارت میں مندی کا سودا نہ کوئی کرتا ہے اور نہ ہوتا ہے۔ سود ہی سود، منافع ہی منافع ہے۔

پاکستان کے موجودہ گھمبیر معاشی، سیاسی اور معاشرتی حالات

سیاست کاروں کے خود ساختہ موجودہ کرپٹ انتخاباتی نظام کی وجہ سے عوام کے سروں پر مسلط بر سر اقتدار سیاسی اتحادی ٹولے کی سیاہ کاریوں کی وجہ سے ملک عزیز پر اس وقت تیرہ ہزار ارب روپے کا سرکاری قرضہ ہے جو چار سال قبل پانچ ہزار چھ سو ارب تھا۔ ملک شدید مالیاتی اور معاشی بد حالی کا شکار دیوالیہ ہونے کے، تیار ہے۔ اگلے تین چار مہینوں میں گورنمنٹ کے بہت سارے محکموں کے پاس ملازمین کو تنخواہ دینے کے، ایک پیسہ تک نہ ہو گا۔ اس وقت ملکی شرح نمو پاکستانی تاریخ کی سب سے کم ترین سطح پر ہے۔ سرکاری محکموں میں آئے دن بڑھتی رشوت ستانی کی وجہ سے بیرونی سرمایہ کاری آخری حد تک نیچے گر گئی ہے۔ حکمرانوں اور سرکاری حکام کورشوت نہ دینے کی صورت میں بیرون ملک سرمایہ کاروں کی راہ میں ہزار رکاوٹیں کھڑی کر دی جاتی ہیں۔ حکومت میں دادرسی نام کی کسی ایسی چیز کاوجود تک نہیں ملتا جو پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے والے کسی بے بس فریادی کی فریاد سن کر اس کو ظالم رشوت خوروں سے بچاسکے۔ رشوت خور سرکاری اہلکار بڑے بڑے سیاست کاروں کو ان کا طے شدہ حصہ کمال دیانتداری سے پہنچاتے ہیں۔ سیاستکاروں کے کمیشن کی شرح جو کسی وقت دس فیصدتھی۔ اب بڑھ کر ساٹھ فیصد ہو گئی ہے۔ پانچ سال پہلے 60 روپے کا ایک ڈالر اس وقت96 روپیہ کا مل رہا ہے۔ آج کا دور دنیا میں صنعتی اور معاشی ترقی کا دور ہے۔ جس کا انحصارتوانائی؛ بجلی، پٹرول، ڈیزل، گیس اور کوئلے جیسے بنیادی وسائل و ذرائع کی فراہمی پر ہوتا ہے، لیکن وطن عزیز میں یہ چیزیں عنقا ہیں۔ ملک عزیز میں وسیع ذخائر ہونے کے باوجود دشمن ممالک کے ایماء پرایوانِ اقتدار میں موجود ان کے ایجنٹ پاکستانی عوام پر ان وسیع و عریض ذخائر کا سر چشمہ چند ٹکوں کے عوض بند کرانے میں کامیاب نظر آتے ہیں۔ کالا باغ ڈیم پاکستانی معیشت کی شہ رگ ہے۔ جس سے پیدا ہونے والی بجلی سے ملک کی مردہ پڑی صنعتوں میں جان پڑ سکتی ہے، ہر سال سیلاب سے ہونے والی تباہ کاری سے بچنے کے علاوہ دریائے سندھ کے سیلابی پانی کو ذخیرہ کرنے سے ملکی زراعت میں ناقابل یقین ترقی ہو سکتی ہے۔ لیکن کرپٹ سیاست کاروں اور فوجی آمروں کے باہمی گٹھ جوڑ کی وجہ سے کالا باغ ڈیم کا منصوبہ اربوں روپے خرچ کرنے کے باوجود عرصہ دراز سے معرض التواء میں پڑا ہُوا ہے۔ پڑوسی دشمن ملک کے اشارے پر ملکی معیشت کی شہ رگ کاٹنے کے، بھاشا ڈیم کے منصوبے کو بھی سیاست کاری کی نذر کر دیا گیا ہے اور یہی حالت گیس، تیل اور قیمتی معدنیات کے ذخائر کے منصوبوںپر کام کی ہے کہ جو مدتوںسے سرخ فیتوں کے اندر بند سرکاری فائلوں میں پڑے ارض وطن کے کسی ایسے حقیقی قائد کے منتظر ہیں کہ جو ان کو فائلوں سے نکال کر ملک و قوم کی ترقی کے، استعمال کرے۔

وطن عزیز کے انتہائی سنگین اور مخدوش سیاسی، معاشی اور معاشرتی حالات کے گرداب میں پھنسے بے بس پاکستانی عوام کا دم بری طرح گھٹ رہا ہے۔ پاکستان میں رہنے والے کسی شخص کے، سکون سے سانس لینا بھی دشوار ہو گیا ہے۔ ہر سُو یاس اور نا امیدی کا اندھیرا ہے۔ پاکستانی سیاست کی وجہ سے پوری قوم مسائل کی ایسی الجھنوں میں گرفتار ہے کہ کسی فرد و بشر کو چین و سکون میسر نہیں ہے۔ مسائل کا ایک انبار ہے جس کے نیچے ہر پاکستانی دبا ہُوا ہے، حکومت پر قابض ان پڑھ سیاست کاروں نے پاکستان کو مسائلستان بنا دیا ہے۔ جھوٹ، دجل و فریب اور مکاری کی سیاست کی کوکھ سے ہزار طرح کے فتنے پیدا ہو گئے ہیں۔ ہر شہر اور قریہ دہشت گردی کی زد میں ہے۔ کسی شہری کو گھر سے نکلتے وقت دوبارہ گھر واپس آنے کا یقین نہیں ہوتا۔ دہشت گرد کھلے عام بے گناہ عوام کا خون بہا رہے ہیں۔ حکومت بے بس ہے یا سیاسی مصلحتوں کی شکار خاموش تماشائی بنی بیٹھی ہے۔ خیبر سے کراچی تک سارا ملک طرح طرح کے فسادات کی آگ میں جل رہا ہے۔ آئین اور قانون کی حکمرانی کا کوئی تصوّر سر زمینِ بے آئین کے کسی سیاست کار اور حکومت کے حکام و عمال کے ذہنوں میں سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔ اعلیٰ عدلیہ اگر حکومت کو بعض سنگین غیر آئینی اقدامات کی نشاندہی کر کے اس کے تدارک کا حکم دیتی ہے تو وُہ ماننے کے، آمادہ نہیں اور ہزار عذر پیش کرتی ہے۔ سارے ملک میں کہیں بھی حکومت کی رِٹ نظرنہیں آتی اور اگر اتفاقاً قانون کے نفاذ کے، کوئی انتظامی ادارہ حرکت میں آبھی جائے تو اتحادی مصلحتیں، انتظامیہ اور قانون کے راستے کا پتھر بن جاتی ہیں۔ ہر طرف قتل و غارت گری کا بازار گرم ہے۔ ہر روز بے گناہوں کے خون کے چھینٹوں سے وطن عزیز کی گلیاں، محلے، بازار اور سڑکیں رنگین ہو رہی ہیں۔ حکومتی سیاسی اتحادی ٹولوں کے زیر نگین طاقتور حکمرانی کے باوجود وہ صوبے دنیا کی سب سے بڑی قتل گاہوں کا منظر پیش کر رہے ہیں۔ کراچی، کوئٹہ، پنڈی اور پشاور کے بے گناہ شہریوں کے خون سے سیاسی ہولی کھیلی جا رہی ہے۔ حکمرانوں، گورنروں اور وزراء میں اس ہولناک قتل و غارت گری، فتنہ و فساد، دہشت گردی اور بھتہ خوری کے خلاف جنگ کرنے کی نہ اہلیت ہے اور نہ حوصلہ، بس لے دے کے سب کے پاس صرف ایک ہتھیار’’ نوٹس لینا‘‘ موجود ہے۔ جہاں کہیں دہشت گردی، بم بلاسٹ اور فائرنگ کا واقعہ ہُوا، بے گناہ پاکستانی شہید ہوئے۔ اُسی وقت الیکٹرانک میڈیا پر صدر مملکت، وزیر اعظم اور وزیر داخلہ کے اس کے خلاف نوٹس لینے کے اعلانات نشر ہونے شروع ہو جاتے ہیں۔ نوٹس لیتے لیتے سیاست کاروں نے بوریوں کی بوریاں بھرلی ہیں۔ ان کی بوریاں نوٹوں سے بھرتی ہیں اور یادہشت گردی کے نوٹسوں سے۔ نوٹس اور نوٹ توروزانہ، جاتے ہیں۔ لیکن کسی سیاسی دسیسہ کار کو کھل کر دہشت گردوں پر ہاتھ ڈالنے کی جرت نہیں ہوتی۔ سرکاری اہلکاروں، فوجی اور پولیس کے سپاہیوں کو چن چن کر قتل کیا جاتا ہے۔ ہر پاکستانی سیاست کار اپنے علاقے میں اڑتی چڑیا کے پرتو گن لیتا ہے لیکن ان کو دہشت گردوں، بھتہ مافیا، منشیات کے سمگلروں، ڈکیتوں، قاتلوں اور جرائم کی دنیا کے بے تاج بادشاہوں کے ٹھکانوں کا کوئی علم نہیں ہوتا کیوں کہ وجہ صاف ظاہر ہے :

دیکھا جو تیر کھا کے کمین گاہ کی طرف
اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی

مسیحائے جمہوریت شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری

ملت پاکستانیہ کے حقیقی قائد، عوام کی امنگوں کے مرکز حضرت شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری عالمی سطح پرنہ صرف ایک جیّد عالم دین، مفکر اسلام اور مفسر قرآن و حدیث ہونے کے ناطے عالمی سطح پر ایک نامی گرامی شخصیت کے طور پر پہچانے جاتے ہیں بلکہ حقیقی معنوں میں آپ کا شمار بین الاقوامی امورکے ماہر قانون دانوں اور مدّبر سیاستدانوں (statesmen) میں بھی کیا جاتا ہے۔ حضرت ڈاکٹر محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے بر صغیر کی تقسیم سے پہلے اسلامیانِ ہند کو حریت فکر اور آزادی سے جینے کا ایک واضح لائحہ عمل دیا۔ حضرت قائد اعظم محمدعلی جناح رحمۃ اللہ علیہ نے فکر اقبال پر مبنی آزادی کا عملی نمونہ اسلامیانِ ہند کوسرزمین پاک کی صورت میں دیا کہ جس میں مسلم قوم اپنے اتحادی دیگر قومیتوں سے مل کر اسلام کے زرّین اصول سیاست کے تحت ایک پر امن اور موجبات خوف و غم سے آزاد معاشرہ قائم کر سکیں۔ شومئی قسمت کہ حضرت قائد اعظم رحمۃ اللہ علیہ اور آزادی وطن کے، جدو جہد کرنے والے ان کے ساتھی یکے بعد دیگرے بہت جلد دنیائے فانی سے رحلت کر گئے اوروطن عزیز کی زمامِ کا ر ایسے نا اہل سیاست کاروں کے ہاتھ آگئی جنہوں نے اپنی ناقص اور ناقابلِ برداشت سیاست کاری سے نہ صرف ملت پاکستانیہ کو بھوک، افلاس، جہالت اور مستقل خوف و غم کے ایسے گرداب میں پھنسا دیا کہ امن و سکون سے ان کا جینا ہی محال ہو گیا۔ اقتدار کی ہوس، مادی تمناؤں اور حرص و آز میں گرفتارکاروباری سیاست کاروں نے ریاست پاکستان کے وجود کو شدید خطرات سے دو چارکر دیا۔ مشکلات کے ان لمحات میں جب ملّت کی ناؤ سیاست کاروں، سیاسی بازی گروں اور فوجی آمروں کے ہاتھوں نااہلیت اور بد عملی کے بھنور میں پھنسی چکر پرچکر کاٹ رہی تھی اور کامیابی کی جانب سفر کرنے کے، اُس کی کوئی سمت ہی نہ تھی۔ اللہ تعالیٰ جل شانہ‘ نے ملک و ملت کو ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی صورت میں وطن عزیز سے بے لوث محبت کرنے والا ایک ایسا نابغہءِ عصر، مفکر اسلام اورسیاسی مدبّر عطا فرمایا کہ جس نے انتہائی سنجیدگی اور درد دِل سے وطن عزیز کے سیاسی، معاشی، معاشرتی، اخلاقی، روحانی اور تعلیمی حالات کاغائر مطالعہ اور مشاہدہ کیا اور حل طلب مسائل کا دقیق تجزیہ کر کے قوم کواپنے خطابات، تحریرات اور ہزاروں آڈیو ویڈیو کیسیٹس اور کتب کے ذریعے صحیح صورت حال سے آگاہ کرنے کے بعد ان کاممکنہ علاج بھی بتا دیا۔ بد قسمتی سے وطن عزیز میں چونکہ لکھنے پڑھنے کا رواج زیادہ نہیں تھا اور شرح خواندگی تو شرمندگی کی حد سے بھی کم تھی لہذا حضرت شیخ الاسلام نے سب سے پہلے عملی طور پر عوام میں حقیقی سیاسی شعور اجاگر کرنے کے، تعلیم کے شعبہ میں کام کیا اورپورے ملک میں سکولوں، تعلیمی درسگاہوں، کالجوں اور لائبریریوں کا ایک جال بچھا دیا۔ تعلیم و تعلم سے دانش و فراست جِلا پاتی ہے اور انسانی شعور بیدار ہوتا ہے۔ قائد عوام کے علمی خطابات سے قوم غفلت کی نیند سے بیدار ہونے لگی اور ان کی خوابیدہ سوچیں جاگنے لگیں۔ ملت کی علمی، تعلیمی، سیاسی، معاشی اور معاشرتی زبوں حالی کی حقیقت سے آگاہ ہونے کے بعد ان پر پریشاں اور مشوش ہونے والے باشعور اور سنجیدہ افراد ملت بہت تیزی سے آپ کی تحریک منہاج القران میں شامل ہونے لگے اور دامے، درمے، سخنے قومی ترقی کے، آپ کی جدو جہد میں ساتھ دینے لگے۔ آپ کی سحر انگیز شخصیت اور تحریک کی خالصیت، جامعیت، معنویت، مقصدیت اور بے لوث عوامی خدمت کے جذبہ سے متاثر ہو کر پاکستان سے باہر بسنے والے افراد ملت اسلامیہ بھی کثیر تعداد میں تحریک کی رفاقت اور رکنیت حاصل کرنے لگے۔ بحمد اللہ تعالیٰ قائد تحریک کی انتھک اور شب و روز محنت سے تحریک منہاج القران انٹرنیشنل عالمی سطح پر اب اس پوزیشن میں آگئی ہے کہ پوری دنیا میں اس کا نام دین اسلام کی حقیقی عکاسی کرنے والے ادارہ کی حیثیت اختیار کر گیا ہے۔ حتیٰ کہ اقوام متحدہ نے بھی عالمی امن اور سلامتی کے، حضرت شیخ الاسلام کے بے لوث کام اور دین اسلام کی حقیقت سے دنیا کو آگہی سے متاثر ہو کر اس کو اپنے ہاں عالم اسلام کے معاشی و معاشرتی مسائل پر بات کرنے کی کونسل (ECOSOC) کا درجہ دیا ہے۔

حضرت شیخ الاسلام مدظلہ کچھ عرصہ سے تحریک اور مشن کے اعلیٰ ترین مقاصد کے حصول کے، بیرون ملک فروکش ہیں۔ وطن عزیز کی تیزی سے بگڑنے والی انتہائی خطر ناک سیاسی، معاشی اور معاشرتی صورت حال کے پیش نظر ان شاء اللہ امسال 23 دسمبر کو آپ بہ نفسِ نفیس اہل وطن سے ملک عزیز کے مسائل پربراہ راست مکالمہ کرنے اہل وطن کوموجودہ مخدوش حالات سے جنم لینے والے خطرات کا ممکنہ حل بتانے اور ریاست پاکستان کی حقیقی حفاظت کا فارمولا دینے کے، تشریف لا رہے ہیں۔ پاکستان کے لاکھوں کروڑوں عوام اپنے حقیقی قائد کی زیارت کے، انتہائی شوق و اشتیاق اور بے چینی سے منتظر آپ کے فقید المثال استقبال کے، شب و روز تیاریوں میں مصروف ہیں۔ ا ن شاء اللہ آپ مینار پاکستان کے سائے تلے قوم سے براہ راست خطاب فرمائیں گے اور قوم کے سامنے ریاست بچاؤ کے ایک قابل عمل فارمولا سے روشناس کرائیں گے۔

اللہ سبحانہ و تعالیٰ بطفیل خواجہ انام سرکار ہر دوسرا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ کی آمد کو وطن عزیز پاکستان کے، باعث خیر و برکت بنا دے اور سیاست کاروں کی سیاست سے ریاست پاکستان کی حفاظت فرمائے۔

آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم