حافظ محمد سعید رضا بغدادی

عرفان القرآن کورس : درس نمبر53 آیت نمبر113 تا 114 (سورۃ البقرہ)
تجوید، صفاتِ حروف کا بیان

سوال : صفت سے کیا مراد ہے؟

جواب : صفت کسی حرف کی "ذاتی کیفیت یا حالت" کو کہتے ہیں جو اس کی ادائیگی کے وقت اس حرف میں پائی جائے۔

سوال : صفات کی کتنی قسمیں ہیں؟

جواب : صفات کی دو قسمیں ہیں :

  1. صفاتِ لازمہ
  2. صفاتِ عارضہ

سوال : صفاتِ لازمہ سے کیا مراد ہے؟

جواب : ایسی صفات جو حرف کے لئے ہر وقت ضروری ہوں اور ان کے بغیر حرف صحیح طور پر ادا ہی نہ ہو سکے، انہیں صفاتِ لازمہ کہتے ہیں۔ جیسے : "ط" میں صفتِ قلقلہ ادا نہ ہو تو "ط" ادا ہی نہیں ہوگا۔

سوال : صفاتِ عارضہ سے کیا مراد ہے؟

جواب : ایسی صفات جو حرف کے لئے کبھی ہوں اور کبھی نہ ہوں ان کے بغیر حرف تو ادا ہو جاتا ہے لیکن اس کی خوبصورتی اور حسن باقی نہیں رہتا۔ صفاتِ عارضہ کہلاتی ہیں۔ جیسے : "ر" اگر مکسور ہوتو "باریک" اور اگر مفتوح و مضموم ہو تو "پُر" پڑھی جائے گی۔ مثلًا :

رَبُّهُمْ، يَقْدِرُ، مِنْ شَرِّ

سوال : صفاتِ لازمہ کی کتنی قسمیں ہیں؟

جواب : صفاتِ لازمہ کی دو قسمیں ہیں۔

  1. صفاتِ متضادہ
  2. صفاتِ غیر متضادہ

ترجمہ

وَقَالَتِ الْيَهُوْدُ لَيْسَتِ النَّصٰرٰی عَلٰی شَيئٍ وَّقَالَتِ

متن وَ قَالَتِ الْيَهُوْدُ لَيْسَتِ النَّصٰرٰی عَلٰی شَيئٍ وَ قَالَتِ
ترجمہ اور کہتے ہیں یہود نہیں نصرانی پر کسی شئے اور کہتے ہیں
عرفان القرآن اور یہود کہتے ہیں کہ نصرانیوں کی بنیاد کسی شئے پر نہیں اور کہتے ہیں

النَّصٰرٰی لَيْسَتِ الْيَهُوْدُ عَلٰی شَيئٍ وَّهُمْ يَتْلُوْنَ الْکِتَابَطکَذٰلِکَ

متن النَّصٰرٰی لَيْسَتِ الْيَهُوْدُ عَلٰی شَئٍ وَ هُمْ يَتْلُوْنَ الْکِتَابَ کَذٰلِکَ
ترجمہ نصرانی نہیں ہیں یہود پر کسی شئے اور وہ تلاوت کرتے ہیں کتاب کی اسی طرح
عرفان القرآن نصرانی کہ یہودیوں کی بنیاد کسی شئے پر نہیں حالانکہ وہ کتاب پڑھتے ہیں‘ اسی طرح

قَالَ الَّذِيْنَ لَايَعْلَمُوْنَ مِثْلَ قَوْلِهِمْ فَاللّٰهُ يَحْکُمُ

متن قَالَ الَّذِيْنَ لاَ يَعْلَمُوْنَ مِثْلَ قَوْلِ هِمْ فَ اللّٰهُ يَحْکُمُ
ترجمہ کہا انہوںنے نہیں علم رکھتے مانند بات انکی پس اللہ فیصلہ کریگا
عرفان القرآن وہ (مشرک) لوگ جن کے پاس علم ہی نہیں‘ وہ بھی انہیں جیسی بات کرتے ہیں‘ پس اللہ فیصلہ فرمادیگا

بَيْنَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فِيْمَا کَانُوْا فِيْهِ يَخْتَلِفُوْنَO

متن بَيْنَ هُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فِی مَا کَانُوْا فِيهِ يَخْتَلِفُوْنَ
ترجمہ درمیان انکے دن قیامت کے میں اس چیز یہ ہیں جس میں اختلاف کرتے
عرفان القرآن ان کے درمیان قیامت کے دن اس معاملے میں (خود ہی) جس میں وہ اختلاف کرتے رہتے ہیں

وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ مَنَعَ مَسَاجِدَ اللّٰهِ أَنْ يُّذْکَرَ

متن وَ مَنْ اَظْلَمُ مِنْ مَّنْ مَنَعَ مَسَاجِدَ اللّٰہِ اَنْ يُّذْکَرَ
ترجمہ اور کون ظالم ہو گا سے اس آدمی جو روکے مسجدوں میں اللہ کی کہ ذکرکیاجائے
عرفان القرآن اور اس شخص سے بڑھ کر کون ظالم ہو گا جو اللہ کی مسجدوں میں ذکر کئے جانے سے روک دے

فِيْهَا اسْمُه وَسَعٰی فِی خَرَابِهَاط أُوْلٰئِکَ مَاکَانَ لَهُمْ

متن فِيْھَا اسْمُہ وَ سَعٰی فِی خَرَابِھَا اُوْلٰئِکَ مَا کَانَ لَھُمْ
ترجمہ ان میں اسکا نام اور کوشش کرے میں انکی ویرانی یہی لوگ ہیں نہیں ہے ان کیلئے
عرفان القرآن اس کے نام کا‘ اور انہیں ویران کرنے کی کوشش کرے ان کو تو یہ چاہئے تھا کہ

أَنْ يَدْخُلُوْهَا اِلَّا خَآئِفِيْنَ ط لَهُمْ فِی الدُّنْيَا خِزْیٌ وَّ

متن أَنْ يَدْخُلُوْ هَا اِلاَّ خَآئِفِيْنَ لَهُمْ فِی الدُّنْيَا خِزْیٌ وَ
ترجمہ یہ کہ داخل ہوں ان میں مگر ڈرتے ہوئے ان کیلئے میں دنیا رسوائی ہے اور
عرفان القرآن مسجدوں میں(اللہ سے) ڈرتے ہوئے داخل ہوتے‘ ان کے لئے دنیا میں (بھی) ذلت ہے اور

لَهُمْ فِی الْأٰخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيْمٌO

متن لَهُمْ فِی الْأٰخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيْمٌ
ترجمہ ان کیلئے میں آخرت عذاب ہے بڑا
عرفان القرآن ان کے لئے آخرت میں(بھی) بڑا عذاب ہے۔

تفسیر

ربط وشان نزول

ان آیات میں یہود کے چھتیسویں معاملہ کا ذکر ہے اور اس برائی میں نصاری اور مشرکین عرب بھی شریک ہیں۔ ابن ابی حاتم نے بطریق عکرمہ یا سعید تخریج کرتے ہوئے حضرت ابن عباس سے روایت نقل کی ہے کہ ایک مرتبہ کچھ یہود ونصاری آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مجلس مبارکہ میں حاضر ہوئے اور مذہبی مباحثہ ومناظرہ کرنے لگے۔ رافع بن خزیمہ نے یہود کی طرف سے دین نصاری کا رد اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نبوت کا رد کیا اور انجیل کے آسمانی کتاب ہونے کا انکار کیا، اسی طرح نصاری نے مذہب یہود کا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کی رسالت کا اور تورات کے کتاب اللہ ہونے کا بطلان کیا۔ حق تعالیٰ نے اسی مذہبی تعصب کو نقل کر کے رد فرمایا ہے۔

مشائخ علماء کے لیے نکتہءِ فکر

جو مشائخ اور علماء اپنے طریقوں پر اس درجہ مگن اور پھولے ہوئے ہیں کہ دوسرے اہل حق کی تنقیص وتحقیر سے بھی نہیں شرماتے وہ اس آ ئینہ میں اپنا عکس ملاحظہ فرمائیں۔

(تفسير جلالين)

1۔ یہود ونصاریٰ کا ایک دوسرے کی تنقیص اور تحقیر کرنا۔

فائدہ : مسلمانوں کے ما بین فرقہ وارانہ اور مسلکی اختلافات میں یہ رجحان کہ دوسرے مسلک کے لوگوں کو کلیتاً کافر و مشرک اور بدعتی وجہنمی قرار دینا اور بلا امتیاز مخالف علماء اور ان کے پیرو کاروں کو " لا شئی" اور" لَنْ يَدْخُلَ الْجَنّۃََ" کے فتووں سے نوازنا صحیح نہیں ہے یہ وطیرہ دراصل یہودیوں اورعیسائیوں کا ہے۔ قرآن مجید نے اس کی مذمت کی ہے۔ ہر فرد کے عقیدہ وعمل کی مناسبت سے الگ حکم ہونا چاہیے۔

2۔ ایک دوسرے پر اپنی فضیلت جتانے والوں کا صحیح فیصلہ قیامت کے روز ہو گا۔

وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ مَنَعَ... الخ

  1. مساجد میں ذکر الٰہی سے روکنے والے در اصل مساجد کی بربادی اور ویرانی کا باعث بنتے ہیں۔
  2. مساجد میں بے باکی اور ایک دوسرے پر زیادتی کی جسارت سخت بے ادبی اور ظلم ہے۔
  3. مساجد کی بے حرمتی کی سزا۔

مساجد کی بے ادبی و بے حرمتی اور ویرانی کا باعث بننے والے دنیا میں ذلت اور آخرت میں عذاب عظیم کے مستحق ہیں۔ (تفسیرمنہاج القرآن)

حدیث

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ص أَنَّ رَسُوْلَ اﷲ قَالَ : هَلْ تَرَوْنَ قِبْلَتِي هَاهُنَا؟ فَوَاﷲِ! مَا يَخْفَی عَلَيَّ خُشُوْعُکُمْ وَلَا رُکُوْعُکُمْ، إِنِّي لَأَرَاکُمْ مِنْ وَرَاءِ ظَهْرِي. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

"حضرت ابوہریرہ ص سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کیا تم یہی دیکھتے ہو کہ میرا منہ ادھر ہے؟ اللہ کی قسم! مجھ سے تمہارے (دلوں کی حالت اور ان کا) خشوع و خضوع پوشیدہ ہے نہ تمہارے (ظاہری حالت کے) میں رکوع، میں تمہیں اپنی پشت پیچھے سے بھی (اسی طرح) دیکھتا ہوں (جیسے اپنے سامنے سے دیکھتا ہوں)۔ "