لانگ مارچ کی کامیابیاں

ملکہ صبا

آج کل جدید زمانے میں جدید ذرائع ابلاغ و جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے دنیا ایک گلوبل ویلج بن گئی ہے۔ جس طرح سے دنیا کی اکانومی اور کلچر گلوبلائز ہورہے ہیں اسی طرح سے مسائل بھی گلوبلائز ہورہے ہیں۔ ان مسائل میں اول نمبر کا مسئلہ دہشتگردی ہے اور اس گلوبلائزیشن نے پوری گلوب کو ہی گن کے نشانے پر لاکھڑا کیا ہے جسمیں سر فہرست پاکستان ہے۔

قرآن کریم میں ارشاد ربانی ہے :

’’جب کسی بستی میں ظلم ہوتا دیکھو تو اسے ظلم سے نجات دلاؤ‘‘

یہ آیت کریمہ کسی دوسرے ملک میں بھی جاکر ظالم سے نجات دلانے پر دلالت کرتی ہے تو پھر اپنے ہی ملک میں عوام الناس پر ظلم ہوتا دیکھ کر ظالموں کو اس سے روکنے پر بدرجہ اولیٰ دلالت کرتی ہے۔ تحریک منہاج القرآن اور پاکستان عوامی تحریک کے قائد ڈاکٹر محمد طاہرالقادری جب 23 دسمبر 2012ء کو پاکستان واپس آئے تو پاکستانی عوام نے ان کا والہانہ استقبال کرکے اس بات کا ثبوت دیا کہ وہ بھی ایسے ہی کسی مسیحا کی تلاش میں پلکیں بچھائے ہوئے تھے۔ مینار پاکستان پر کروڑوں لوگوں کے حقوق کی بات کرنے والا وہ واحد شخص تھا جو تمام مفادات سے بالاتر ہوکر ایک وکیل کے فرائض انجام دے رہا تھا اور طاغوتی قوتوں کو یہ باور کرارہا تھا کہ ظلم سے باز آجاؤ تاکہ غریب عوام پر سکون طریقے سے جی سکے وگرنہ ہم پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے پہنچ کر ہی اس کا فیصلہ کریں گے۔ وہ 23 دسمبر کے بعد بھی پریس کانفرنس کرکے ملک پاکستان کے حکمرانوں کو مذاکرات کرنے کی دعوت دیتے رہے۔ مگر ان کے کانوں میں جوں تک نہیں رینگی۔ آخر کار نوبت یہاں تک آن پہنچی کہ لانگ مارچ کا قافلہ 13 جنوری کو پارلیمنٹ ہاؤس اسلام آباد کی طرف روانہ ہوگیا۔

14 جنوری رات تقریباً 3 بجے جب عوامی لانگ مارچ پارلیمنٹ ہاؤس پہنچا تو وہاں پر متعدد طریقے سے عوام کو ہراساں کرنے کی چال چلی گئی تاکہ عوام خوف و ہراس کے باعث منتشر ہوجائیں مگر معاملات اس کے برعکس نکلے۔ وہ منتشر ہونے کے بجائے مزید کمر بستہ ہوئے۔ وہ ان حالات میں مہینوں رہنے کو تیار تھے مگر حکومت اس وقت بھی مذاکرات کرنے کو تیار نہ تھی بلکہ مستقل اپنی بے حسی کا ثبوت دے رہی تھی اور دھمکیاں دے رہی تھی۔ ان حالات میں میڈیا نے بھرپور ساتھ دیا اور بیرون ملک حکمرانوں کی طرف سے مستقل یہی بیان آرہے تھے کہ کسی قسم کی زیادتی نہ کی جائے، وہ پرامن ہیں انہیں پرامن رہنے دیا جائے۔ قافلہ کے روانہ ہونے سے قبل ایک ہی سوال جنم لے رہا تھا کہ کسی بھی قسم کے جانی و مالی نقصان کا ذمہ دار کون ہوگا؟ میڈیا کو یہی جواب دیا جارہا تھا کہ ایک پتہ بھی نہیں گرے گا۔ ایک گملا بھی نہیں ٹوٹے گا۔ ایک پتھر نہیں چلے گا۔ درحقیقت ایسا ہی ہوا۔ ایسے نازک حالات میں جن کا مقابلہ مائیں، بہنیں، بیٹیاں حتیٰ کہ کم عمر معصوم بچے کررہے تھے۔ سب 5 روز صبرو استقامت کا دامن تھامے نہایت سکون و اطمینان اور دلجمعی کے ساتھ بیٹھے رہے مگر کسی قسم کی بدنظمی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے :

’’ہم نے ان کے درمیان روز قیامت تک عداوت و بغض ڈال دیا ہے جب بھی یہ لوگ جنگ کی آگ بڑھکاتے ہیں اللہ اسے بجھادیتا ہے اور یہ (روئے) زمین میں فساد انگیزی کرتے رہتے ہیں۔

(المائده، 5 : 62)

اسی طرح حدیث مبارکہ میں ہے :

حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ

’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کسی بھی قوم کے ساتھ اس وقت تک جنگ نہیں کی جب تک انہیں دعوت نہیں دی‘‘۔

(الدارمی، السنن، کتاب السير، 2 : 167، رقم : 2479)

مذکورہ آیت کریمہ اور حدیث سے ثابت ہے کہ حتی الامکان مصالحت کی کوشش کرنے کا حکم ہے۔ لہذا اس پر عملدرآمد کرتے ہوئے قائد تحریک منہاج القرآن و پاکستان عوامی تحریک نے بھی ایسا ہی لائحہ عمل اپنایا اور آخر تک مذاکرات کی دعوت دیتے رہے مگر پھر مجبور ہوکر 5 دن بعد آخری قدم اٹھانے کا اعلان سن کر حکمرانوں پر لرزہ طاری ہوگیا کہ کہیں ہمارا تختہ نہ الٹ دیں۔ اس طرح وہ مذاکرات پر رضا مند ہوئے۔

مذاکرات کے بعد مصالحت

اسلام چونکہ خون خرابہ کو ناپسند کرتا ہے لہذا وہ مذاکرات کے ذریعے فتنہ و فساد کے خاتمے کا حکم دیتا ہے چاہے مذاکرات مفاہمت میں ہوں یا پھر مخالفت میں ہوں یا پھر بعد میں دھوکہ دہی پر منتج ہوں۔

قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ

’’اور اگر وہ (کفار) صلح کے لیے جھکیں تو آپ بھی اس کی طرف مائل ہوجائیں اور اللہ پر بھروسہ رکھیں۔ بے شک وہی خوب سننے والا جاننے والا ہے۔ اور اگر وہ چاہیں کہ آپ کو دھوکہ دیں تو بے شک آپ کے لیے اللہ کافی ہے، وہی ہے جس نے آپ کو اپنی مدد کے ذریعے اور اہلِ ایمان کے ذریعے طاقت بخشی‘‘۔

اسی طرح صلح حدیبیہ کا واقعہ ہوا جب معاہدہ تحریر کیا جارہا تھا تو بات بات پر سہیل بن عمرو تنازعہ پیدا کررہا تھا لیکن باوجود اس کے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صبروتحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے درگزر فرمارہے تھے۔

صلح نامہ حدیبیہ

دلائل النبوۃ میں ہے :

’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا لکھئے : بسم اللہ الرحمن الرحیم جس پر سہیل بن عمرو نے اعتراض کیا اور کہا کہ میں نہیں جانتا یہ کیا ہے بلکہ اس طرح لکھئے جیسے پہلے لکھا کرتے تھے یعنی با سمک اللہم‘‘۔

(بيهقی، دلائل النبوة، ج4، ص105)

اسی طرح لفظ ’’محمد‘‘ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر تنازعہ ہوا کہ اگر ہم یہ جانتے کہ آپ رسول اللہ ہیں تو ہم بیت اللہ سے کیوں روکتے۔ لکھیں : محمد بن عبداللہ کی طرف سے تحریر ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسی طرح لکھوایا۔

ابن ہشام یوں رقمطراز ہیں :

یہ وہ معاہدہ ہے جس پر محمد ابن عبداللہ نے سہیل ابن عمرو سے صلح کی۔ دونوں نے اتفاق کرلیا کہ دس سال تک جنگ بند رہے گی۔ اس دس سال میں لوگ امن کی زندگی بسر کریں گے اور وہ ایک دوسرے سے ہاتھ روکے رکھیں گے۔ شرط یہ ہے کہ قریش کا جو آدمی ولی کی اجازت کے بغیر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئے گا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسے واپس لوٹائیں گے اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھیوں میں سے جو شخص قریش کے پاس آئے وہ اسے واپس نہ کریں گے نیز یہ کہ دلوں کی عداوت دلوں میں ہی رہے گی انہیں ظاہر نہ کیا جائے گا۔ نہ بدعہدی اور خیانت کی جائے گی اور یہ کہ جو پسند کرے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عقد میں داخل ہوجائے۔

(ابن هشام، السيرة النبوية، 3 : 317 318)

حضرت عمررضی اللہ عنہ کا اضطراب

حضرت عمر رضی اللہ عنہ بہت زیادہ غمگین تھے لہذا وہ بار بار یہ سوال کرتے تھے کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیا ہم حق پر نہیں ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہاں ہم ضرور حق پر ہیں اور پھر ان کو حوصلہ دے کر صبر کا حکم دیا۔

دلائل النبوۃ میں یوں رقم ہے :

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جواب دیا کہ بے شک میں اللہ کا رسول ہوں میں اس کی نافرمانی نہیں کروں گا وہ میرا مددگار ہے۔ پھر سوال کیا کہ کیا آپ نے یہ نہیں بتایا تھا کہ ہم بیت اللہ میں آئیں گے اور طواف کریں گے کیا یہ بات سچ نہیں تھی؟

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جی ہاں میں نے تمہیں خبر دی تھی مگر کیا یہ کہا تھا کہ اسی سال کریں گے؟ میں نے کہا کہ نہیں یہ نہیں کہا تھا تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ بے شک تم بیت اللہ میں آئو گے اور طواف بھی کرو گے۔

(بيهقی، دلائل النبوة، ج 4، ص156)

وقت نے ثابت کردیا کہ آقا علیہ الصلوۃ والسلام کی بات درست ثابت ہوئی۔ لہذا اسلام کی رو سے صلح حدیبیہ ہمیں یہی درس دیتا ہے کہ مسلمان ہمیشہ خون خرابہ، فتنہ و فساد سے اجتناب کرتا ہے اور حتی الامکان مصالحت کی کوشش کرتا ہے۔ صلح حدیبیہ بظاہر مسلمانوں کے خلاف ہوئی مگر اس سے بیشتر فوائد حاصل ہوئے۔ حالانکہ وقتی طور پر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے دل آزردہ بھی ہوئے تھے۔

صلح حدیبیہ کے فوائد

  1. مسلمانوں کو 10 سال تک غیر مسلموں سے پرامن رہنے کا معاہدہ کرنے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ انہیں مدینہ میں اسلام کی اشاعت احسن طریقے سے کرنے کا موقع ملا۔ جس کی وجہ سے کفار جوق در جوق اسلام میں داخل ہوئے۔
  2. کفار خود تنگ آکر ہی معاہدہ توڑنے پر مجبور ہوئے جبکہ مسلمان مدینہ پاک میں نہایت منظم طریقے سے اپنی قوت کو مضبوط کرچکے تھے۔
  3. حضرت ابو جندل رضی اللہ عنہ جنہیں مسلمان چھوڑ آئے تھے ان کی تکلیف و پریشانی کو دیکھ کر بھی بہت سے لوگ بدظن ہوئے جس میں ابونصیر بھی تھے۔
  4. لیکن جب قریش کے کہنے پر واپس بھیجنے سے وہ مکہ مدینہ کے راستے میں بیٹھ کر ان کی تجارتی قافلوں کو تنگ کرنے لگے تو وہ پریشان ہوئے۔
  5. بالآخر وہ معاہدہ توڑنے پر رضا مند ہوگئے۔
  6. ہر وہ شق جو بظاہر مخالفت میں تھی مفاہمت کا پیش خیمہ بنی۔
  7. فتح مبین کی صورت میں اللہ رب العزت کی خوشنودی حاصل ہوئی۔

اسی طرح سے جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ لانگ مارچ میں گئے اتنا پیسہ خرچ کیا۔ کیا فائدہ ہوا؟ تو وہ غافل ہیں۔ ہمیں بے حد فوائد حاصل ہوئے۔ یہ الگ بات ہے کہ صلح حدیبیہ کی طرح کامیابی ابھی نظر نہیں آرہی۔ لیکن مستقبل میں سب کچھ واضح ہوجائے گا۔

لانگ مارچ کے فوائد

لانگ مارچ میں ہمیں بے شمار فوائد حاصل ہوئے چند ایک درج ذیل ہیں :

  1. دنیائے عالم کو پاکستانی قوم نے یہ باور کرایا کہ پاکستانی قوم نہایت منظم، پرامن اور صلح جو ہے وہ دہشت گردی کو نہ صرف ناپسند کرتی ہے بلکہ اس کی مخالفت کرتی ہے۔
  2. اللہ رب العزت نے قرآن کریم میں جو ہدایات جاری کیں کہ مسلمان حد سے تجاوز نہ کریں اور اگر دوسرے مخالف صلح کے لئے جھکیں تو ان کے ساتھ صلح کی جائے۔ اس حکم پر عمل کرکے دین اسلام کا نام روشن کیا گیا۔
  3. دنیا کو پاکستانی قوم کے اتحاد و اتفاق کا پتہ چلا کہ کسی ایک فرد کو تکلیف ہوتی ہے تو تمام قوم ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوکر نہایت ہمت، حوصلہ اور دلجمعی کے ساتھ مقابلے کے لئے ڈٹ کر کھڑی ہوجاتی ہے۔ لہذا ہمیں ان کی طرف میلی آنکھ سے نہیں دیکھنا چاہئے وگرنہ وہ اسی طرح سے ڈٹ کر ہمارا منہ توڑ جواب دیں گے۔
  4. دنیا کو علم ہوگیا کہ پاکستانی قوم کے پاس ہمدرد، نیک نیت، تقویٰ پر گامزن، مفادات سے بالا تر لیڈر اور ایک ایسا مسیحا ہے جو اپنی قوم کا ہمدرد اور وفادار ہے جس کی ایک آواز پر پوری قوم اس کا ساتھ دینے کے لئے اٹھ کھڑی ہوئی ہے۔
  5. آئین کے آرٹیکل 63,62 پر عملدرآمد کا مطالبہ تسلیم کرلیا گیا جس کے جزوی طور پر مظاہر بھی نظر آرہے ہیں۔
  6. بیلٹ پیپر میں ایک خانہ خالی رکھنے کا مطالبہ بھی تسلیم کرلیا گیا تاکہ کرپٹ سیاستدانوں سے مایوس عوام اپنا احتجاج ریکارڈ کراسکیں۔
  7. الیکشن کمیشن کے غیر آئینی ہونے اور جانبدار ہونے کے مظاہر بھی سامنے آرہے ہیں جس سے قوم کی آنکھیں کھل رہی ہیں۔

یہ ہماری بظاہر چند ایک وہ کامیابیاں ہیں جن کی طرف شاید ہماری نظر ابھی نہیں پہنچ رہی لیکن جوں جوں وقت گزرتا جائے گا اس کرپٹ نظام کی اصل حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہوتی جائے گی۔ تب نکتہ چینی کرنے والے حضرات خود کہیں گے کہ نہیں پاکستان کو ایسے ہی مسیحا کی ضرورت تھی۔ لیکن بقول کسے

اب کیا پچھتائے جب چڑیاں چگ گئیں کھیت

ہمارا معاشرہ اپنے ہی جیسے لٹیروں، بے ایمانوں، بے ضمیر لوگوں کو پسند کرتا ہے تاکہ ان کا بھی کاروبار چلتا رہے اور کوئی ان کی راہ میں رکاوٹ نہ پیدا کرسکے۔ مگر!

مایوس تو نہیں ہیں طلوع سحر سے ہم