انقلابی جدوجہد میں خواتین کا کردار

اسماء اسلام

عورت اپنے ہر رنگ اور روپ میں کائنات کا حسن اور قدرت کا قیمتی تحفہ ہے۔ وہ ماں، بہن، بیوی اور بیٹی کے روپ میں کائنات کا ایسا رنگ ہے جس کے بغیر کائنات انسانی کی ہر شے پھیکی اور ماند ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مرد کو اس کا محافظ اور سائبان بنایا ہے مگر عورت اپنی ذات میں ایک تنآور درخت کی مانند ہے جو طوفانی ہوؤں اور جھکڑوں کی زد میں آکر بھی نہایت ہمت اور حوصلے سے ثابت قدم رہتی ہے اور ہر قسم کے سرد و گرم حالات کا دلیری سے مقابلہ کرتی ہے اسی عزم و ہمت، حوصلے اور استقامت کی بنیاد پر اللہ تعالیٰ نے جنت کو اس کے قدموں تلے بچھادیا۔ عورت وہ ذات ہے جس کے وجود سے کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کرام علیہ السلام نے جنم لیا اور انسانیت کے لئے رشد و ہدایت کا پیغام لے کر آئے۔ عورت وہ ہے جو حضرت آدم علیہ السلام کے لئے تخلیق کی گئی ہے جس سے نسل انسانی وجود میں آئی۔ عورت عظیم بیٹی، قابل رشک بیوی اور قابل فخر ماں کا کردار ادا کرتے ہوئے سیدہ کائنات حضرت فاطمۃ الزہراء علیہ السلام کی صورت میں نظر آئی جس کے لئے آقائے دو جہاں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی نشست مبارک سے کھڑے ہوکر استقبال کیا کرتے تھے۔ عورت جب مرد کی شریک حیات کے طور پر سامنے آئی تو مرد کے نصف ایمان کی محافظ، جلوت و خلوت کی امین، دکھ سکھ کی ساتھی، سراپائے عزم و وفا پیغمبروں اور ولیوں کو جنم دینے والی خدا کی وہ تخلیق ہے جو کل انسانیت کے لئے قابل احترام اور لائق تحسین ہے۔

عورت اگرچہ صنف نازک ہے مگر اپنی صلاحیت، ذہانت اور سمجھ بوجھ میں صنف قوی سے کسی طور پر بھی کم نہیں۔ تاریخ انسانی اس بات کی گواہ ہے کہ ملک و قوم کو جب بھی کسی مہم جوئی کا سامنا ہوا تو عورت نے مردوں کے شانہ بشانہ رہ کر ملک و قوم کی ترقی میں بھرپور کردار ادا کیا۔

حضرت حواء علیہ السلام سے اسلام کے ظہور تک کئی نامور خواتین کا ذکر قرآن و حدیث اور تاریخ اسلامی کی کتب میں موجود ہے۔ جن میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی والدہ ماجدہ کے علاوہ ان کی ازواج حضرت سارہ علیہا السلام ، حضرت حاجرہ علیہا السلام ، فرعون کی بیوی حضرت آسیہ، حضرت ام موسیٰ، حضرت مریم اور ملکہ صبا نے زیادہ شہرت حاصل کی۔ اسی طرح امہات المومنین اور صحابیات رضی اللہ عنہن کے واقعات سے کتب احادیث بھری پڑی ہیں۔ ام المومنین حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا، ام المومنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا، ام المومنین حضرت ام سلمیٰ رضی اللہ عنہا، سیدہ کائنات حضرت فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا، حضرت سمیہ علیہ السلام ، حضرت زرق علیہ السلام ، حضرت ام حنظلہ علیہ السلام ، حضرت ام طارق علیہ السلام ، حضرت جمیلہ علیہ السلام اور دیگر کئی خواتین ہیں جن کے کارناموں سے تاریخ کے اوراق بھرے پڑے ہیں۔

یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ عورت کے بغیر معاشرے کی تکمیل ناممکن ہے۔ رب کائنات نے عورت کو سب سے بڑا مقام ماں کی صورت میں دیا ہے۔ اگر مائیں انقلابی سوچ کی حامل ہوں تو اپنے بچوں کی تربیت بھی انقلابی نہج پر کرتی ہیں۔ یہی تربیت معاشرے پر گہرے اثرات مرتب کرتی ہے۔ ایک انقلابی ماں ہی انقلابی کردار کے حامل بیٹے عطا کرتی ہے۔ انبیاء کرام اور کتابوں کا نزول انسان کی سیرت اور کردار سازی کے لئے شروع کیا گیا۔ جس میں پہلی ذمہ داری عورت کے سپرد کی گئی۔ ماں جس کی آغوش میں انبیاء کرام، اولیاء کرام اور تمام عظیم شخصیات نے تربیت حاصل کی ہے۔ ماں کی تربیت ہی اولاد کو اعلیٰ مقام پر پہنچاتی ہے۔ ماں کی گود اولین درسگاہ ہے۔ گود اگر سیدہ کائنات کی ہو تو اولاد امام حسن اور امام حسین علیہ السلام بن کر دین حق کا نام سربلند کرتی ہے۔

امت کی تشکیل کا کام مؤں کی تربیت سے ہی طے پاتا ہے۔ عورت اپنے مثبت کردار اورپختہ ارادے سے اپنی راہ میں آنے والی ہر رکاوٹ کا مقابلہ کرسکتی ہے۔ تاریخ کے اوراق الٹ کر دیکھا جائے تو ظلم و جبر کے خلاف اٹھنے والی تحریکوں میں خواتین بھرپور کردار اداکرتی رہی ہیں۔ عورت اگر اپنے اندر انقلابی سوچ پیدا کرلے تو قوموں کی تقدیر بدلتے دیر نہیں لگتی۔ ذیل میں ہم اسلامی تاریخ میں خواتین کے کردار کا جائزہ لینے کی کوشش کریں گے:

تبلیغ اسلام اور خواتین

تاریخ اسلام خواتین کی قربانیوں اور خدمات کا ذکر کئے بغیر نامکمل رہتی ہے۔ اسلام کی دعوت و تبلیغ میں مردوں کے ساتھ عورتوں نے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ تمام آزمائشوں اور مصیبتوں کو سہتے ہوئے ثابت قدم رہیں۔ ان خواتین پر مصیبتوں اور ظلم و ستم کی انتہا کردی گئی۔ ان خواتین نے اپنے ایمان کی حفاظت کی خاطر گھر بار چھوڑ دیئے، اپنے رشتہ داروں سے قطع تعلق کرلیا۔ اپنے ایثار، تقویٰ و پرہیزگاری سے ثابت کردیا کہ خواتین کسی صورت مردوں سے پیچھے نہیں ہیں۔

دعوت و تبلیغ میں سیرت و کردار کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ اگر یہ کہا جائے تو بے جانہ ہوگا کہ بہترین کردار ہی تبلیغ کا موثر ترین ذریعہ ہے اور خواتین کے اسی کردار کو دیکھ کر کئی صحابہ کرام علیہ السلام دائرہ اسلام میں داخل ہوئے جن میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ جیسے جلیل القدر صحابی شامل ہیں جو اپنی بہن کی ثابت قدمی اور جذبہ ایمانی سے متاثر ہوکر مشرف بہ اسلام ہوئے۔ خواتین نے اسلام کی تبلیغ کے لئے گھر گھر جاکر لوگوں کو دعوت دی اور لوگوں کو اسلام کی روشنی سے آگاہ کیا۔ وہ مائیں کتنی عظیم ہیں جنہوں نے حضرت خالد بن ولید علیہ السلام ، حضرت عمر و بن العاص علیہ السلام ، حضرت عبداللہ بن زبیر علیہ السلام ، موسیٰ بن نصیر رحمۃ اللہ علیہ ، محمد بن قاسم رحمۃ اللہ علیہ ، طارق بن زیاد رحمۃ اللہ علیہ اور صلاح الدین ایوبی رحمۃ اللہ علیہ جیسے بیٹوں کی تربیت کی اور ان میں ایسی انقلابی سوچ پیدا کی کہ انہوں نے دین اسلام کی سربلندی کے لئے اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنے سے بھی گریز نہیں کیا۔

حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا

وادی مکہ میں جب صدائے حق بلند ہوئی تو اس پر سب سے پہلے لبیک کہنے والی بھی ایک خاتون حضرت خدیجۃ الکبریٰ علیہ السلام تھیں جنہوں نے اپنی پوری زندگی جان و مال سب کچھ دین اسلام کے ئے وقف کردیا۔ حضرت خدیجۃ الکبریٰ علیہ السلام کی زندگی فہم و فراست، حکمت و تدبر، خدمت و اطاعت، ہمدردی و خیر خواہی، بلند اخلاق و سیرت، رحم دلی اور غریب پروری کی عظیم مثال ہے جن کی سیرت سے خواتین تا قیامت فیض یاب ہوتی رہیں گی۔

اسلام کی اشاعت و تریج میں آپ نے اپنا تمام مال و اسباب آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دہلیز پر قربان کردیا اور اپنی زندگی بھی اس عظیم کام کے لئے وقف کردی۔ آپ کی زندگی کا مقصد نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشنودی کا حصول تھا۔ آپ نے اپنے تمام تعلقات اور رشتے دار مصطفی پر قربان کردیئے اور یہی تعلق اور رشتہ تمام رشتوں پر حاوی ہوگیا۔ سیدہ عالم خدیجۃ الکبریٰ علیہ السلام نے تین سال شعب ابی طالب میں محصور رہ کر تکالیف او رمصائب برداشت کئے اور جب تین سال کے بعد مقاطعہ ختم ہوا تو آپ اس قدر بیمار ار کمزور ہوگئیں کہ اسی بیماری کے عالم میں خالق حقیقی سے جاملیں۔

ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا

ازواج مطہرات میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو منفرد مقام حاصل ہے۔ آپ اپنے ہم عصر صحابہ کرام علیہ السلام اور صحابیات علیہ السلام میں سب سے زیادہ ذہین تھیں۔ اسی ذہانت و فطانت اور وسعت علمی کی بنیاد پر منفرد مقام رکھتی تھیں۔ آپ کے شاگردوں کی تعداد تقریباً آٹھ ہزار تھی۔ آپ سے مروی احادیث کی تعداد 2210 ہے۔ آپ نے آقاء علیہ الصلوۃ والسلام کی نجی زندگی کے احوال کو امت تک اس انداز میں پہنچایا ہے کہ ان احوال کو جاننے کے بعد کسی قسم کی تشنگی باقی نہیں رہتی۔ آپ کے بارے میں آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ

’’دین کا آدھا علم حضرت عائشہ علیہ السلام کے پاس ہے‘‘۔

آپ خداداد ذہانت اور حیرت انگیز حافظہ کی مالک تھیں۔ قرآن پاک کی حافظہ ہونے کے ساتھ آپکو علم طب، قرآن و حدیث اور فقہی علوم پر مکمل دسترس حاصل تھی۔ بڑے بڑے جلیل القدر صحابہ کرام علیہ السلام اپنے اختلافی مسائل کو آپ کے سامنے پیش کرتے تو آپ اپنی بصیرت اور وسعت علمی کی وجہ سے ان مسائل کو حل کردیتی تھیں۔

سیدہ کائنات فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا

سیدہ کائنات فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا کی ذات اقدس ہر حوالے سے ایک کامل عورت کے روپ میں نظر آتی ہے۔ حضرت فاطمۃ الزہراء سلام اللہ علیہا پیغمبر اسلام کے وجود کا خلاصہ ہیں۔ آپ نگاہ خداوندی میں تمام عورتوں کا انتخاب ہیں۔ سیدہ کائنات علیہ السلام نے اپنے عظیم باپ کی محبت کا حق ادا کرتے ہوئے بچپن میں سرداران قریش کے ظلم و ستم کا بڑی جرات مندی، شجاعت، ہمت اور متانت سے سامنا کیا۔

سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے سیدہ کائنات رضی اللہ عنہا کے بچپن کا واقعہ بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ ایک مرتبہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حرم شریف میں دوران نماز سجدے کی حالت میں تھے تو ابوجہل کے کہنے پر عقبہ بن ابی معیط نے اونٹ کی اوجڑی لاکر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کمر مبارک پر رکھ دی۔ یہ منظر دیکھ کر ابوجہل اور اس کے ساتھی ہنسنے لگے۔ سیدہ کائنات سلام اللہ علیہا کو اس بات کی خبر پہنچی، آپ دوڑتی ہوئی آئیں اپنے معصوم ہاتھوں سے اوجڑی اٹھاکر دور پھینکی اور اپنے نازک ہاتھوں سے اپنے بابا جان کے جسم اقدس کو دھویا اور اپنے والد کی محبت اور احترام میں ان شیاطین قریش سے خوب ناراضگی کا اظہار کیا۔

سیدہ کائنات علیہ السلام کا بچپن مہربان والدین کے سایہ شفقت میں گزرا۔ یہ وہ وقت تھا جب کفار مکہ کی ایذا رسانیاں بڑھتی جارہی تھیں۔ انہوں نے ظلم کی انتہاء کرتے ہوئے بنو ہاشم کو تین سال کے لئے شعب ابی طالب میںمحصور کردیا اور اہل بیت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو آتش شکم بجھانے کے لئے درختوں کے پتے کھانا پڑے۔ آپ علیہ السلام کو بچپن سے ہی ایسے مصائب و آلام کا سامنا کرنا پڑا جن کے سامنے بڑے بڑے عالی ہمت حوصلہ ہار بیٹھتے ہیں لیکن آپ کے پایۂ استقلال میں ذرہ برابر جنبش نہ آئی۔

حضرت ام عمارہ رضی اللہ عنہا

غزوہ احد کے موقع پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب زخمی ہوگئے تو کفار مکہ نے مسلمانوں پر اپنا گھیرا تنگ کردیا اور یہ افواہ پھیلادی کہ نعوذ باللہ آقا علیہ السلام شہید ہوگئے ہیں تو اس انتہائی نازک صورتحال کے موقع پر حضرت ام عمارہ علیہ السلام نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دفاع کیا اور شمشیر زنی کا ناقابل فراموش مظاہرہ کیا۔ آپ نے جنگ یمامہ میں بھی شرکت کی اور دشمن فوج کا بہادری کے ساتھ مقابلہ کیا۔

حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا

حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا نہایت بہادر اور نڈر خاتون تھیں۔ آپ دوران جنگ بے خوف و خطر ہوکر زخمیوں کو میدان جنگ سے باہر لاتیں اور ان کی مرہم پٹی کرتی تھیں۔ غزوہ خندق کے موقع پر دوران جنگ ایک یہودی مسلمان خواتین پر حملہ آور ہوا تو آپ نے اس پر ایسا کاری وار کیا کہ اس کا سر کاٹ کر دشمن فوج میں پھینک دیا اس کے بعد دشمن فوج میں کسی سپاہی کی اتنی ہمت نہ تھی کہ وہ مسلمان خواتین پر حملہ کرتا۔

حضرت ام شریک رضی اللہ عنہا

اسلام کے ابتدائی دور میں ایمان لانے والوں میں اکثریت کا تعلق غریب طبقے سے تھا لیکن آپ مالدار ہونے کے باوجود ایمان لائیں اور اپنی دولت کو اسلام کے لئے وقف کردیا اور خود مصائب و آلام کی زندگی گزاری آپ کی ان سرگرمیوں کا علم آپ کے قبیلے کے افراد کو ہوا تو آپ پر بے پناہ تشددکیا جاتا۔ ایک مرتبہ آپ پر بے پناہ تشدد کیا گیا جس کے نتیجے میں آپ کافی عرصہ بے ہوش رہیں۔ آپ نے اپنے گھر کو نئے مسلمان ہونے والوں کی پناہ گاہ بنادیا تھا۔

حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہجرت کی غرض سے غار ثور میں پناہ لی تو حضرت اسماء رضی اللہ عنہا جو کہ اس وقت کم سنی کی عمر میں تھیں کو اپنا راز دار بنایا۔ آپ قریش مکہ کی نظروں سے چھپ کر غار ثور میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کھانا پہنچایا کرتی تھیں۔ ابوجہل کو جب اس بات کا علم ہوا تو اس نے آپ کو زدو کوب کرکے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پتہ معلوم کرنے کی کوشش کی تو آپ نے بتانے سے صاف انکار کردیا۔ حجاج بن یوسف جیسے ظالم اور جابر حکمران نے آپکے بیٹے کو سولی پر لٹکایا تو آپ نے اپنے بیٹے کی سولی پر لٹکتی ہوئی لاش دیکھ کر کمال صبرکا مظاہرہ کرتے ہوئے فرمایا: ’’اے جابر سلطان! تو نے اس کی دنیا برباد کی اور اس نے تیری عاقبت برباد کردی‘‘۔

حضرت سمیہ بنت خباط رضی اللہ عنہا

حضرت سمیہ رضی اللہ عنہا درجہ شہادت پانے والی پہلی خاتون ہیں۔ آپ جب اپنے شوہر یاسر بن عامر اور اپنے بیٹے عمار بن یاسر کے ساتھ ایمان لائیں تو اس وقت اسلام کا ابتدائی مصائب و آلام کا دور تھا۔ آپ کا تعلق غلام خاندان سے تھا جس کی وجہ سے دوسرے لوگوں کی نسبت آپ کو کفار کے زیادہ غیظ و غضب کا سامنا کرنا پڑا۔ آپ کو اور آپ کے شوہر یاسر کو لوہے کی زرہیں پہنا کر مکہ کی تپتی ریت پر لٹانا، سینے پر بھاری پتھر رکھنا، پشت کو آگ کے انگاروں سے داغنا کفار کا معمول تھا۔ آپ کے پیچھے شریر بچوں کو لگادیا جاتا جو آپ کو پتھر مارا کرتے تھے۔ ان تمام مصیبتوں کو سہنے کے باوجود آپ کے جذبۂ ایمان میں ذرہ برابر بھی لغزش پیدا نہ ہوئی۔ ایک مرتبہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کو اور آپ کے بچوں کو مصیبت میں مبتلا دیکھا تو فرمایا: اے آل یاسر! صبر کرو تمہارے لئے جنت کا وعدہ ہے‘‘۔

حضرت خنساء رضی اللہ عنہا

حضرت خنساء رضی اللہ عنہا عرب کی مشہور مرثیہ گو شاعرہ تھیں۔ آپ اپنے وفد کے ساتھ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دست اقدس پر ایمان لائیں۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں جب جنگ قادسیہ لڑی گئی تو آپ اپنے چاروں جوان بیٹوں کے ساتھ شریک ہوئیں اور اپنے بیٹوں کو دشمن فوج کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے کی نصیحت کی۔ آپ کے بیٹوں نے آپ سے وعدہ کیا اور دوران جنگ اپنی بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے جام شہادت نوش کی۔ جب آپ کو بیٹوں کی شہادت کی خبر ملی تو آپ اللہ تعالیٰ کے حضور شکر بجا لائیں اور فرمایا:

’’اے اللہ تیرا شکر ہے کہ تو نے میرے بیٹوں کو شہادت کا درجہ عطا فرمایا مجھے اللہ کی رحمت سے پوری امید ہے کہ میں اپنے بچوں کے ساتھ اللہ کی رحمت کے سائے تلے ملاقات کروں گی‘‘۔

ہمہ گیر اصلاحی پہلو

موجودہ صورت حال میں انسانی زندگی کا مطالعہ کیا جائے تو اس کی زندگی کا ہر پہلو مکمل طور پر بگاڑ کا شکار ہوچکا ہے اور کوئی بھی گوشہ ایسا نہیں ہے جسے اصلاح کی ضرورت نہ ہو امت کی اصلاح اسی صورت میں ممکن ہے جب ہر محاذ پر بدی کا مقابلہ کیا جائے اور بدی کو روکنے کی بھرپور کوشش کی جائے اور ایسے افراد کی کوششوں کو سراہا جائے جو امت کی اصلاح میں اپنا بھرپور کردار ادا کررہے ہیں اور اگر خواتین اس بدی کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہوجائیں تو انقلاب کا راستہ ہموار کیا جاسکتا ہے۔

بلا واسطہ کردار

ایسی خواتین جو اپنی ذمہ داریوں سے فارغ ہوگئی ہیں یا جن کی ذمہ داریوں کا بوجھ کم ہوگیا ہے یا ایسی لڑکیاں جنہیں فرصت کے اوقات میسر ہیں ان کے لئے اشاعت دین، دعوت و تبلیغ اور غلبہ حق کی بحالی کے لئے براہ راست تگ و دو ضروری ہے۔ ایسی خواتین کو مصطفوی انقلاب کے لئے گھروں سے نکلنا چاہئے۔ اسلامی تعلیمات کا مطالعہ کرکے ذکر و فکر کی محافل اور درس قرآن کا سلسلہ شروع کرنا چاہئے اور گھر گھر جاکر دعوت دین کا کام کرنا چاہئے۔

بالواسطہ کردار

جن خواتین کے لئے اولاد کی تربیت اور دیگر مصروفیات کے باعث گھروں سے نکلنا ممکن نہ ہو وہ بالواسطہ طور پر ایسے کاموں میں حصہ لے سکتی ہیں۔ خود بھی دین سیکھیں اور ملنے جلنے والی خواتین کو بھی اس جانب راغب کریں۔ اسلامی کتب کو خرید کر تحفے میں دیں۔ دین کی خدمت کرنے والوں کی مالی معاونت کریں اور اپنے گھروں میں باقاعدہ روحانی محافل اور دروس قرآن و حدیث کا اہتمام کریں۔ انقلابی جدوجہد کے لئے ان کی طرف سے یہ بہت بڑی خدمت ہوگی۔

فکر انقلاب

اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ہر مسلمان بنیادی طور پر ایک داعی کی حیثیت رکھتا ہے۔ لہذا مرد اور خواتین دونوں یکساں طور پر دعوت دین ضروری ہے۔ دوسروں کو قائل کرنے کے لئے فکری واضحیت ہونی چاہئے اس کے بغیر جب دعوت انقلاب لے کر نکلیں گے تو جلد ہی اپنی دعوت کو غیر موثر کر بیٹھیں گے۔ اگر خود اپنے اندر تمام معاملات پر فکری واضحیت نہ ہوئی تو کسی کو اپنی بات سے مطمئن نہیں کرسکیں گے جس سے مشن کو نقصان پہنچے گا۔ فکری واضحیت کے ساتھ ساتھ دعوت اور مشن کو دیگر سرگرمیوں پر ترجیح حاصل ہو، تمام غیر ضروری سرگرمیوں کو ترک کردیں اور اپنے خیال اور سوچ کے ہر رخ کو انقلاب کی جانب موڑ دیں تاکہ ہماری سیرت و کردار اور عمل ہماری شخصیت کی پہچان بن جائے۔

غزوہ احد کا وہ منظر جب یہ افواہ پھیل گئی کہ نعوذ باللہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو شہید کردیا گیا ہے تو مدینہ منورہ میں کہرام بپا ہوگیا اور پردہ دار خواتین باہر نکل آئیں۔ ایک صحابیہ دیوانہ وار میدان جنگ کی طرف بھاگیں آپ کو آپ کے والد، شوہر اور بیٹے کی شہادت کی اطلاع دی گئی لیکن آپ ان سب کی پرواہ کئے بغیر بے چینی کے عالم میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خیریت دریافت کرتی رہیں اور بے اختیار پکار اٹھیں کہ کوئی میرے آق علیہا السلام کی خبر دے دے تاکہ میرے دل کو سکون اور راحت نصیب ہوسکے۔ جب آپ نے خود حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھ لیا تو اللہ کا شکر ادا کرنے کے لئے بے اختیار سجدے میں گر پڑیں اور فرمایا کہ اب مجھے کوئی پرواہ نہیں۔ آقا علیہ السلام کی زیارت سے میرے سارے غم دھل گئے ہیں۔ یہی جذبہ انقلابی جذبہ کہلاتا ہے۔

داعی انقلاب کا اپنے مشن کی کامیابی پر کامل یقین ہونا ضروری ہے بصورت دیگر وہ انقلابی فکر کو کامیابی کے ساتھ آگے منتقل نہیں کرسکے گا۔ اسلام کا جھنڈا سر بلند رکھنے اور انقلابی مشن کی تکمیل کے لئے خود غرضی، مفاد پرستی، مایوسی اور بے مقصدیت کا خاتمہ کرکے اتحاد اور ملی وحدت کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ اس کام کو خواتین بہتر انداز میں سرانجام دے سکتی ہیں۔ تاریخ میں مسلمان خواتین کے مجاہدانہ کردار اور بہادری کے بے شمار واقعات ہیں۔ قیام پاکستان کی تحریک میں سامراجی قوتوں کے خلاف محترمہ فاطمہ جناح، بیگم رعنا لیاقت علی خان اور بی اماں جیسی تاریخ ساز شخصیات نے اہم کردار ادا کیا اور بے شمار خواتین نے جانوں کی پرواہ کئے بغیر حیرت انگیز کارنامے سرانجام دیئے اور یہ ثابت کردیا کہ ان کے کردار کے بغیر پاکستان کا وجود میں آنا بہت حد تک ناممکن سی بات تھی۔ پنجاب سول سیکرٹریٹ کی عمارت کے گرد سخت حفاظتی اقدامات کے باوجود فاطمہ صغری نامی سولہ سالہ لڑکی نے اوپر چڑھ کر انگریز سامراج کا جھنڈا اتارکر پاکستان مسلم لیگ کا جھنڈا لہرادیا۔

قائداعظم بھی مسلم خواتین کے جوش و جذبے اور عزم و عمل سے متاثر ہوکر یہ کہنے پر مجبور ہوگئے۔ ’’بہنو اور بیٹیو! اب مجھے یقین ہوگیا ہے کہ میرا مشن کامیاب ہوگا اس لئے کہ اب ہندوستان کی مسلمان عورت نے بھی آزادی کے مفہوم کو سمجھ لیا ہے لہذا میدان جنگ بہر حال ہمارے ہاتھ رہے گا۔ مجھے فخر ہے کہ اب میری قوم کے مردوں کے شانہ بشانہ عورتیں بھی جنگ آزادی میں شریک ہوں گی اس وقت آپ کو اتحاد اور عمل کی ضرورت ہے۔

مسلمان خواتین نے جس طرح پاکستان کے حصول میں مثالی کردار ادا کیا وقت کا تقاضا ہے کہ اب خواتین پاکستان کی تکمیل میں اپنا بھرپور انقلابی کردار ادا کریں۔ اس عظیم مقصد کے حصول کے لئے ضروری ہے کہ قوم کی مائیں، بہنیں اور بیٹیاں باطل اور استحصالی نظام کے خلاف اٹھ کھڑی ہوں تاکہ مصطفوی انقلاب کا روشن سویرا جلد سے جلد طلوع ہو اور تکمیل پاکستان کے بعد غلبہ اسلام کا خواب شرمندہ تعبیر ہوسکے۔