اداریہ: کرپٹ سسٹم کا مینڈیٹ

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ملک کی سیاسی تاریخ میں ایسے الیکشن کرادیئے ہیں جن کے بعد ہارنے اور جیتنے والے دونوں دھرنوں پر رہے۔ تبدیلی کی امید لگائے عوام کو نظام انتخاب کی جادوگری نے ایسا چکمہ دیا کہ غالب ترین اکثریت انہی خاندانوں کی منتخب ہوکر پارلیمنٹ جاپہنچی جو گذشتہ 5 دھائیوں سے پارلیمنٹ کا مکین بننے کی حقدار چلی آرہی ہے۔

اس مرتبہ تبدیلی کا نعرہ بلند کرنے والی دو قوتیں عوام کے سامنے تھیں ایک نے الیکشن لڑ کر تبدیلی کی کوشش کی تودوسری نے نظام انتخاب کے خلاف سینہ سپر رہنے کو اہمیت دی اور الیکشن کے بائیکاٹ کی بجائے پورے کے پورے نظام انتخاب کو ہی اس ملک عوام اور جمہوریت کا قاتل گردانا اور پوری شدو مد کے ساتھ اس کے خلاف عوامی طاقت کے ساتھ آواز اٹھائی۔ پاکستان عوامی تحریک نے ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ الیکشن ڈے کو ملک بھر کے 300 شہروں میں ووٹ ڈالنے کی بجائے کامیاب دھرنے دیئے ہر جگہ ہزاروں کی تعداد میں عوام نے ان دھرنوں میں شرکت کرکے نظام انتخاب کے خلاف پرامن علامتی احتجاج کیا۔ بڑے شہروں میں ہونے والے دھرنوں میں الیکشن کے ہنگامے کے باوجود بیس ہزار سے لے کر پچاس ہزار تک عوامی شرکت نے یہ پیغام دیا کہ نظام انتخاب کی گیلی لکڑیوں تک بھی آگ پہنچ گئی ہے، شعوری بیداری کی ہوا اس کو اور بھڑکادے گی اور مستقبل قریب میں یہ نظام خاکستر ہونے کے قریب پہنچ سکتا ہے۔ پاکستان عوامی تحریک کے دھرنوں کی اہمیت اس تناظر میں اور بھی بڑھ جاتی ہے کہ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا نے جس طریقے سے ووٹ دینے کے حق میں مہم چلائی، ہر سیاسی جماعت نے اربوں روپے کی خطیر رقم سے انتخابی مہم کو گرمایا اور ’’پاکستان کو ووٹ دو‘‘ کا سلوگن استعمال ہوا۔ چاہئے تو یہ تھا کہ ٹرن آئوٹ غیر معمولی بڑھتا مگر اس سب کے باوجود تاریخ کی بدترین دھاندلی اور ہر حلقہ میں ہزاروں کی تعداد میں مبینہ جعلی ووٹوں کی پولنگ کا ٹرن آئوٹ 54 فیصد ہی رہا۔ محتاط اندازوں کے مطابق اصل ٹرن آئوٹ 35 سے 40 فیصد ہی رہا۔ لہذا عوام کی اکثریت نے نظام انتخاب کے خلاف عدم اعتماد کردیا۔۔ یوں ڈاکٹر طاہرالقادری کے نظام کے خلاف موقف کے حق میں تائید کھل کر سامنے آئی۔

تحریک انصاف موجودہ انتخابی نظام کی تمام تر قباحتوں کے باوجود الیکشن لڑنے کی پالیسی پر کاربند رہی، ملک بھر میں اس کے کارکنان انتہائی پرامید تھے کہ مرکز اور صوبوں میں ان کی حکومتیں بنیں گی اور تبدیلی کا خواب شرمندہ تعبیر ہوجائے گا۔ مگر دھن، دھونس اور دھاندلی کے ستونوں پر کھڑے انتخابی نظام نے 11 مئی کی شام ہی ان کی امیدوں پر پانی پھیردیا اور کارکن دھرنوں پر دھرنے دینے لگے۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر جاندار انتخابی مہم پر ہی اکتفا کیا کیونکہ وہ پہلی بار قیادت کے بغیر نظر آئی۔ آصف زرداری کو قصرِ صدارت نے زنجیریں پہنا رکھی تھیں جبکہ بلاول نے فیلڈ میں اترنے کی جرات نہ کی۔ شائد پانچ سالہ کارکردگی کے تناظر میں انہوں نے سرنڈر کرنے میں ہی عافیت خیال کی۔

پاکستان کا الیکشن کچھ ممالک کے لئے انتہائی اہمیت کا حامل رہا ہے سو اس مرتبہ بھی پاکستان کی سیاسی جماعتوں نے اس ضرورت سے خوب فائدہ اٹھایا اور خطیر سرمایہ لے کر الیکشن مہم پر خرچ کیا۔ اس کاروبار میں بچت بھی خوب ہوئی ہوگی کیونکہ یہ اس کھیل کا جزو لاینفک ہے۔ نیٹو فورسز کا انخلاء افغانستان سے 2014ء میں ہونا قرار پایا ہے۔ اربوں ڈالرز کا جنگی سازو سامان بحفاظت واپس لے جانا ان ملکوں کی پہلی ترجیح ہے اس لئے اس مرتبہ پاکستان کے انتخابات کی ان کی نظر میں اہمیت بہت زیادہ تھی۔ سو By Design مرکز اور خیبر پختونخواہ میں ایسی حکومتوں کا قیام عمل میں لایا گیا ہے جو طالبان دوست ہوں جب یہ انخلاء ہوجائے گا تو پاکستان کو بھی ایسے بے یارومددگار چھوڑ دیا جائے گا جیسے روس کے انخلاء کے بعد امریکہ نے کیا تھا۔ وہ وقت یقینا پاکستان کے لئے بدتر ہوسکتا ہے جب معیشت کے دیوالیہ پن کے ساتھ ساتھ دہشت گردی کی تیز لہر ایک مرتبہ پھر پاکستان کو اپنی لپٹ میں لے لے گی۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان اور دیگر اعلیٰ قومی اداروں نے اپنی ذمہ داریوں کو ’’احسن‘‘ اندا زمیں ادا کرکے الیکشن کرادیئے ہیں اور اس کے نتیجہ میں پارلیمنٹ بھی تشکیل پاچکی ہے جس کا آئینی، قانونی ہونا بھی یقینا حقیقی تبدیلی کی بات کرنے والوں کے لئے سوالیہ نشان ہوسکتا ہے۔ ان سارے حالات میں شیخ الاسلام ڈاکٹر طاہرالقادری کا یہ کہنا بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے کہ اس سسٹم نے جس کو جہاں جتنا مینڈیٹ دے دیا ہے ہم انہیں کام کرنے کا پورا موقع فراہم کریں گے اور کسی کے لئے کوئی پریشانی نہیں بنائیں گے۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے اپنے پارٹی ورکرز کو ایک کروڑ نئے افراد کو پاکستان عوامی تحریک کا ممبر بنانے کا ٹارگٹ بھی دیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ دوبارہ تیاری کے عمل کی طرف لوٹ گئے ہیں۔

گذشتہ 8 سال سے نظام کے خلاف بیداری شعور کی مہم چلانے والے ڈاکٹر طاہرالقادری نے 23 دسمبر 2012ء کو مینار پاکستان میں جو جلسہ کیا یقینا وہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایسی مثال بن گیا ہے جسے دھرانا کسی کے بس کا روگ نہیں ہے۔ لانگ مارچ کے بعد PPPP کی حکومت کا اسلام آباد ڈکلریشن کے ساتھ سلوک اور قومی اداروں کے رویے یقینا ڈاکٹر طاہرالقادری کو مستقبل کی حکمت عملی وضع کرنے میں بہت معاون ٹھہریں گے۔ ڈاکٹر طاہرالقادری نے پاکستان کی سیاست کو اس بری طرح جھنجھوڑا کہ رائے ونڈ میں سیاستدانوں کا مجمع لگ گیا اور ہر کوئی ڈاکٹر طاہرالقادری کے خلاف اخلاق کی جس سطح تک گرسکتا تھا گرا۔ دوہری شہریت سمیت دیگر سطحی اشوز پر اودھم مچایا جاتا رہا مگر انہوں نے آئین کی حکمرانی کے لئے جو نقاط اٹھائے ان سے کوئی اختلاف نہیں کرسکا۔ تاریخ اٹھائیں تو لیڈر کے ساتھ سیاستدان ایسا ہی سلوک کرتے رہے ہیں اور تاریخ کے اوراق میں نام کسی سیاستدان کا نہیں لیڈر کا ہی زندہ رہا ہے۔ لیڈر اپنے کھرے اور سچے موقف پر ڈٹا رہتا ہے اور ایک وقت ضرور آتا ہے جب عوامی طاقت کے ساتھ وہ اپنے کہے ہوئے کو نافذ بھی کردیتا ہے۔

ڈاکٹر طاہرالقادری بھی پاکستان کی سیاست میں کچھ ایسا ہی کرنے جارہے ہیں۔ الیکشن کے نتائج کے بعد ہر کسی نے محسوس کیا کہ ڈاکٹر طاہرالقادری نے الیکشن سے قبل جو کہا وہ من و عن درست ثابت ہوا۔ آلودہ ترین سسٹم کا مینڈیٹ حکومتی ایوانوں میں پہنچ چکا۔ اب ملک اور عوام کے ساتھ کیا ہوتا ہے یہ دیکھنے کے لئے کچھ انتظار کرنا ہوگا کیونکہ ابھی تو ہنی مون چل رہا ہے۔