شب برات توبہ و استغفار اور تجدید وفا و بندگی کی رات

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا خصوصی خطاب

ترتیب و تدوین: صاحبزادہ محمد حسین آزاد

معاونت: ملکہ صبا

بسم اللہ الرحمن الرحیم

وَتُوْبُوْا اِلَی اﷲِ جَمِيْعًا اَيُهَا الْمُوْمِنُوْنَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ.

(النور،24:31)

محترم مشائخ و علماء کرام معزز خواتین و حضرات، عزیزان گرامی قدر اللہ رب العزت کا شکر ہے جس کی توفیق و عنایت سے ہم آج پندرہ شعبان المعظم کی اس مبارک رات میں جسے قرآن مجید نے لیلۃ المبارکہ کے ساتھ تعبیر فرمایا ہے جس رات میں اہم حکمت والے کاموں کی تقسیم فرمائی جاتی ہے۔ جس رات میں ملائکہ کو سال بھر کے کام سپرد کئے جاتے ہیں۔ جس رات میں لوگوں کے اعمال اللہ کے حضور پیش کئے جاتے ہیں۔ جس رات میں اللہ عزوجل اپنی شان رحمت اور شان قدرت کے ساتھ آسمان دنیا پر نزول اجلال کرتا ہے اور اپنی رحمت و بخشش اور مغفرت کی خیرات عطا کرنے کے لئے روئے زمین پر غفلت کی نیند سونے والوں کو پکار پکار کر بیدار فرماتا ہے اور متوجہ فرماتا ہے اور خود پوچھتا ہے۔ آج مجھ سے کوئی معافی مانگنے والا ہے کہ میں اسے معاف کردوں۔ ہے آج کوئی مجھ سے توبہ کرنے والا، میں اس کی توبہ قبول کرلوں۔ ہے آج مجھ سے کوئی رحمت و بخشش کی خیرات مانگنے والا، میں اس کی جھولیاں بخشش، خیرات اور رحمت سے بھردوں۔

آج اس مبارک رات میں ہم بحمداللہ تعالیٰ ادارہ منہاج القرآن کراچی کے زیر اہتمام پورے صوبہ سندھ کی سطح پر پہلے سالانہ روحانی اجتماع میں شریک ہیں اور مبارکبادکے مستحق ہیں وہ لوگ جو نہ صرف کراچی شہر کے دور دراز علاقوں بلکہ اندرون سندھ سے دشوار گزار راستوں سے اور بڑی طویل مسافتیں طے کرکے مختلف علاقوں سے آج ہزارہا کی تعداد میں جمع ہیں۔ میں امید کرتا ہوں رب ذوالجلال کی رحمت اور بخشش و مغفرت جو آج رات جوبن پر ہے ہمیں حاصل ہوگی۔ اب ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ ہمارے دلوں کی جھولیاں کھل جائیں ہمارے روحوں کے دامن اس کے حضور پھیل جائیں، ہماری آنکھیں برسات کی طرح برسنے لگیں، ہمارے ہاتھ اس کے حضور بے ساختہ اٹھیں، ہمارے دل سینوں اور پہلوئوں میں تڑپیں۔ آج رات ہم اپنے گناہوں کو یاد کریں۔ اپنی خطائوں کو یاد کریں۔ اپنی لغزشوں کو یاد کریں اور اپنی بندگی کی ٹوٹی پھوٹی پوجا لے کر اللہ کے حضور سراپا سوال بن کر، سراپا التجا بن کر، سراپا استدعا بن کر، سراپا التماس بن کر، سراپا بھکاری بن کر پیش ہوں۔ یقین ہے کہ اس کی بخشش و مغفرت ہم گناہگاروں کو اپنے دامن میں چھپالے گی۔ اس کی رحمت ہمارے سروں پر سایہ فگن ہوگی اور کوئی شخص بھی اللہ رب العزت کے خزانوں سے اپنی جھولیاں اپنی اپنی بساط کے مطابق بھرے بغیر واپس نہیں جائے گا اور کچھ بعید نہیں کہ آج رات اللہ کے بندوں کی آنکھوں سے گرتے ہوئے آنسو لوگوں کے سینوں سے اٹھتی ہوئی آہیں، صلوٰۃ التسبیح اور نماز و استغفارو توبہ کی شکل میں لوگوں کی جبینوں کے سجدے لاکھوں کی تعداد میں اٹھے ہوئے ہاتھ اللہ کی بارگاہ میں شرف قبولیت پاجائیں اور اللہ کی رحمت کو ہماری حالت زار پر ترس آجائے۔ اس کے دریائے رحمت میں طغیانیاں آجائیں۔ اس کی بخشش و مغفرت کے دریا میں تلاطم آجائے اور آسمان سے اس کی بخشش و رحمت کے دروازے کھل جائیں۔

رب کریم، رب رحیم، رب غفور! آج رات یہ ہم پر رحم کردے کہ صدق کی زمین کو امن کی خیرات مل جائے۔ اے رب ذوالجلال، اے رب ذوالکرم والسخاء، اے تاجدار کائنات کے رب، اے ہم گناہگاروں کے رب! آج ہم تیری بارگاہ میںپندرہ شعبان معظم کی رات کی مبارک ساعتوں میں توبہ کا ذکر کرتے ہیں۔ ہم توبہ کا ذکر چھیڑتے ہیں۔ تیری رحمت کا ذکر چھیڑتے ہیں، تیری بخشش کا ذکر چھیڑتے ہیں، تیرے نام کا ذکر چھیڑتے ہیں، تیری عطاء کی بات کرتے ہیں، تیری جودو سخا کی بات کرتے ہیں، تیری پکاروں کی بات کرتے ہیں اس امید پر کہ تیری بخشش کے دروازے کھل جائیں گے۔ آج تیری رحمت کی برسات اس کائنات پر برسے گی۔ آگ، عداوتیں اور نفرتیں مٹ جائیں گی اور تیری رحمت کا پانی اس کائنات کی تپتی آگ کو بجھا کر امن و سکون عطا کردے گا۔

عزیزان محترم! جو آیت کریمہ تلاوت کی اس کے چند الفاظ ہیں جن میں اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان سے فرمایا:

وَتُوْبُوْا اِلَی اﷲِ جَمِيْعًا اَيُهَ الْمُوْمِنُوْنَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ.

(النور،24:31)

’’اور تم سب کے سب اللہ کے حضور توبہ کرو، اے مومنو! تاکہ تم (ان احکام پر عمل پیرا ہو کر) فلاح پا جاؤ‘‘۔

آج کی اس رات کی اہمیت کیا ہے توبہ تو ہم سب کرتے ہیں۔ ہر کوئی ہر جگہ کرتا ہے، روتا بھی ہر کوئی ہے، التجائیں بھی سب کرتے ہیں مگر آج ہزاروں لاکھوں فرزندان اسلام، مل کر اللہ کے حضور توبہ کرنے کے لئے بیٹھے ہیں، گڑ گڑاکر کتنے آنسو کتنی آنکھوں سے جو بہیں گے خدا جانے کس کی آنکھ کا گرا آنسو اُس بارگاہ میں قبول ہوجائے، خدا جانے کس کی آہیں اس بارگاہ میں قبول ہوجائیں اور ایک آنسو بھی کسی کا قبول ہوگیا تو سارے کے سارے بخشے جائیں گے۔

حدیث پاک میں آتا ہے کہ قیامت کا دن ہوگا ایک گناہگار کو حساب و کتاب کے بعد پکڑ کر دوزخ میں پھینکے جانے کا فیصلہ سنا دیا جائے گا۔ ملائکہ اسے دوزخ کے دروازے کی طرف لے چلیں گے۔ دوزخ کے دروازے پر پہنچ کر جب اسے جہنم میں گرائے جانے کا وقت قریب آئے گا وہ اللہ کے حضور ہر قسم کے واسطے دے گا۔ ہر قسم کی التجائیں کرے گا مگر فیصلہ صادر ہوچکا ہوگا آخر وقت سیدنا جبرائیل امین علیہ السلام کسی برتن میں پانی لائیں گے اور آقا علیہ الصلوۃ والسلام کی بارگاہ اقدس میں پیش کریں گے اور عرض کریں گے حضور! دوزخ کی آگ کے شعلے اچھل رہے ہیں، لپک رہے ہیں، بڑے بلند ہورہے ہیں اور آج اس دوزخ کی آگ کے شعلوں سے بچائو ممکن نہیں ہے۔ لہذا آپ اس پانی کو اسی آگ پر چھڑکیں وہ دوزخ کی آگ جو کسی واسطے سے بھی بجھ نہیں رہی تھی اس پر جب وہ چند بوندیں پانی کی پڑیں گی تو وہ بجھ جائے گی۔ پوچھا جائے گا حضور! یہ پانی کیا تھا جس کے چند قطروں نے اس دوزخ کی آگ کو بجھادیا۔ آپ فرمائیں گے یہ میری امت کے گناہگاروں کے آنسو ہیں ان آنسوئوں نے دوزخ کے بلند شعلوں کو بجھادیا۔ آج ہم اللہ کے حضور ان گناہگار آنکھوں سے وہی آنسو بہانا چاہتے ہیں۔ اللہ رب العزت نے فرمایا تم سب مل کر توبہ کرو تاکہ اتنی کثرت کے ساتھ آنسو بہیں اتنی کثرت کے ساتھ چیخ و پکار اللہ کے حضور بلند ہو کہ اس کی ذات اور رحمت کو ترس آہی جائے۔

حدیث مبارکہ ہے یہی پندرہ شعبان معظم کی رات ہے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اچانک دیکھتی ہیں کہ آپ کا بستر مبارک خالی ہے، دائیں بائیں نظر دوڑاتی ہیں۔ آپ حجرہ مبارک میں نظر نہیں آتے۔ آقا کی تلاش میں نکل پڑتی ہیں اور تلاش کرتے کرتے جنت البقیع میں چلی جاتی ہیں جہاں مومنین، مومنات، مسلمانوں کی قبریں ہیں اور دیکھتی ہیں کہ آقا اس کے ایک کونے میں اللہ کے حضور سجدہ ریز ہیں اور رو رو کر اللہ کے حضور دعائیں کررہے ہیں اپنی امت کی بخشش و مغفرت کے لئے دعائیں کر رہے ہیں۔ پلٹ آتی ہیں۔ آقا سے پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا کہ یہ پندرہ شعبان معظم کی رات وہ رات ہے کہ جو شخص اس میں اللہ کے حضور رو کر اپنے گناہوں کی معافی مانگے۔ کچھ سجدے اللہ کے حضور نظر کرے۔ توبہ و استغفار کرے۔ اللہ رب العزت اس کی زندگی بھر کے گناہ معاف فرمادیتا ہے۔ اس رات کے دامن کو یہ سعادت حاصل ہے کہ اس میں اور لیلۃ القدر میں یک بارگی قرآن کا نزول ہوا۔ آقا کے معمولات میں سے ہے کہ رات کے اندھیروں میں اللہ کے حضور عبادت کرتے اور اس قدر روتے کہ آپ کی ریش مبارک آنسوئوں کے ساتھ تر ہوجاتی تھی۔ خشیت الہٰی کا عالم یہ تھا کہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام ہر روز اللہ کے حضور سو مرتبہ توبہ کرتے تھے۔ ایک حدیث میں 70 مرتبہ استغفار کرنا بھی ثابت ہے۔ وہ ذات جو معصوم ہے، جس ذات کی زندگی میں گناہ کا کوئی تصور اور امکان ہی نہیں، جن کے وجود پاک اور قدموں کے تصدق سے لوگوں کو نیکیوں کی سعادت اور تقویٰ اور طہارت نصیب ہورہی ہے۔ گناہ جس معصوم ذات کے قریب بھی آنے کا تصور نہیں کرتا وہ ذات رات بھر کھڑے ہوکر اللہ کے حضور رو رو کر استغفار کرتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے قدمین شریفین متورم ہوجاتے ہیں یعنی سوج جاتے ہیں۔ صحابہ عرض کرتے ہیں یارسول اللہ آپ کو تو اللہ نے معصوم بنایا ہے۔ آپکی زندگی کے دامن میں تو گناہ کا کوئی دھبہ اور اس کا امکان تک بھی نہیں۔ پھر ساری رات کھڑے ہوکر اپنے مبارک قدموں کو متورم کرلینا اتنی مشقت اٹھانا، محنت کرنا، مجاہدہ کرنا، اس کی کیا ضرورت ہے۔ آقا فرماتے ہیں: ’’اللہ کی ان رحمتوں اور نعمتوں پر کیا میں اللہ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں‘‘۔

ایک صحابی کہتے ہیں میں رات کو آقا کی خدمت میں گیا۔ حضور رات کے اندھیرے میں مصلے پر کھڑے عبادت کررہے ہیں۔ چشمان مقدس سے زارو قطار آنسو رواں تھے۔ اتنے رواں تھے کہ ریش مبارک ساری تر ہوچکی تھی اور عشق الہٰی اتنا جوش مار رہا تھا کہ سینہ اقدس میں حضور کے رونے کی آواز اس طرح آرہی تھی جس طرح آگ پر رکھی ہوئی ہنڈیا میں پانی ابل رہا ہو۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: جب اذان ہوتی اور اللہ کے حضور سے دعوت اور بلاوا آتا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرہ اقدس کا رنگ متغیر ہونا شروع ہوجاتا۔ کیفیت بدلنے لگتی۔ حال تبدیل ہونا شروع ہوتا۔ آقا مصلے پر آتے، نماز کے لئے کھڑے ہوتے، رنگ بالکل متغیر ہوجاتا، کیفیت بدل جاتی اور چشمان اقدس کا حال یہ ہوتا کہ اس وقت حضور ہمیں بھی پہچاننے کے قابل نہ ہوتے۔ اللہ کے حضور پیش ہوتے وقت آقا علیہ السلام کی خشیت کا عالم یہ ہوتا کہ حضرت عائشہ صدیقہ فرمارہی ہیں کہ مجھے بھی پہچان نہ سکتے۔ یہ کیفیت تھی خوف الہٰی کی، یہ کیفیت تھی خشیت الہٰی کی، وہ ہستیاں جو ساری امت کی بخشش و مغفرت کا باعث تھیں جو ساری کائنات کے گناہ گاروں کو شفاعت کی خیرات لٹانے والی تھیں اور ایک طرف ہم ہیں کہ ہماری ساری زندگی اور اس کا ایک ایک لمحہ غفلت کی نظر ہورہا ہے ہم اللہ کو بھول چکے ہیں اور اسے فراموش کرکے ہم نے اللہ کی بندگی کا طوق گلوں سے اتار کر پھینک دیا ہے۔ ہماری جبین اللہ کے حضور سجدوں کی لذت سے ناآشنا ہوگئی۔ دل عشق الہٰی میں تڑپنے سے ناآشنا ہوگئے۔ سینے خوف الہٰی کی کیفیات سے ناآشنا ہوگئے۔ راتیں غفلتوں کی نظر ہوگئیں۔ دن اللہ کی نافرمانی کے نظر ہوگئے۔ آنکھیں اللہ کے حضور آنسوئوں اور نمیوں سے ناآشنا ہوگئیں اور پھر ہم یہ تصور کرتے کہ اللہ کے مقرب بندوں جیسی نعمتوں کے حق دار ٹھہرائے جائیں۔

دوستو! حضرت یحییٰ علیہ السلام جو حضرت زکریا علیہ السلام کے صاحبزادے تھے۔ برگزیدہ نبی ہیں۔ ان کے بچپن کے زمانے کا واقعہ ہے۔ حضرت یحییٰ علیہ السلام کی عمر 5 یا 6 برس ہے جس عمر میں گناہ کا تصور بھی نہیں ہوتا۔ جس عمر میں توبہ اور معافی کا تصور نہیں ہوتا۔ عمر کے اس دور میں حضرت یحییٰ علیہ السلام کی کیفیت یہ تھی کہ جنگلوں اور صحرائوں میں چلے جاتے تھے، پہاڑوں میں چلے جاتے تھے، کئی کئی دن اور کئی کئی راتیں، کھائے پئے بغیر سجدے میں گر کر اللہ کے حضور رونے میں بسرکردیتے ماہی بے آب کی طرح تڑپتے رہتے۔ آنکھوں سے آنسوئوں کی برسات بہتی۔ کئی کئی دن گھر پلٹ کر نہ آتے۔ ایک روز کئی دن بیت گئے۔ کھائے پئے بغیر پہاڑوں اور غاروں کی طرف نکل گئے تھے۔ اللہ کے حضور روتے روتے آپ کی والدہ ماجدہ آپ کو تلاش کرتے کرتے وہاں پہنچیں۔ ہر وقت چونکہ انہیں موت کا خیال تھا اور اللہ کے حضور پیش ہونے کا خیال تھا لہذا والدہ ماجدہ کے جب قدموں کی آہٹ کی آواز آئی تو یہ سمجھے کہ شاید ملک الموت روح قبض کرنے کے لئے آگیا ہے۔ سر اٹھایا فرمانے لگے ایسا لگتا ہے کہ تو کہیں میری روح قبض کرنے کے لئے آگیا ہے۔ اے آنے والے اگر تو ملک الموت ہے تو ٹھہر جا کہ والدہ کی خدمت میں سلام عرض کرکے دعائیں لے لوں پھر میری روح قبض کرلینا۔ اتنے میں کان میں آواز آتی ہے بیٹا میں تیری والدہ ہوں اور تیری تلاش میں ادھر آئی ہوں۔ کئی دن سے تو کھانا پینا بھول گیا ہے بیٹے ذرا ماں کی مامتا اور اس کی کیفیت کو دیکھ۔ اے یحییٰ! تیری 5 برس عمر ہے اور تو رو رو کر التجا کررہا ہے کہ باری تعالیٰ میرے گناہ معاف کردے، میری توبہ قبول فرمالے، مجھے جہنم کی آگ سے نجات دے دے، مجھے قیامت کے دن سخت گرفت نہ فرمانا۔ بیٹے! اس معصوم عمر میں تو کن گناہوں کی بات کرتا ہے۔ کس دوزخ کی بات کرتا ہے۔ اللہ کے خوف میں تیرا کھانا پینا چھوٹ گیا۔ اللہ کے خوف میں تیری نیند اچاٹ ہوگئی، اللہ کے خوف میں تجھے بستر بھول گیا۔ اس عمر میں تو بچے بستر پر آرام کی نیند سوتے ہیں۔ اس عمر میں بچوں کو مرنے اور دوزخ کا تصور نہیں ہوتا لیکن تیری یہ کیفیت کیوں ہوگئی؟ آج ساتواں دن ہے تو کھانا پینا چھوڑ کر پہاڑوں کے غاروں میں روئے جارہا ہے اور کسی کو خبر نہیں۔ تلاش کرتے کرتے ایک چرواہا نظر آیا اس کے ساتھ کچھ بکریاں اور ریوڑ تھے۔ اس سے پوچھا اے چرواہے! ادھر کوئی میرا بیٹا یحییٰ روتا ہوا نظر آیا ہے۔ کہیں تو نے اسے دیکھا ہے کئی دن گزر گئے ہیں پلٹ کر واپس نہیں آیا۔اس نے کہا مجھے یحییٰ کی تو خبر نہیں مگر اتنا جانتا ہوں کہ تین چار دن ہوگئے اسی غار میں کسی بچے کے رونے کی آواز آرہی ہے۔ دن رات وہ مسلسل رو رہا ہے۔ اتنی درد ناک آواز اس کے رونے کی اٹھتی ہے کہ آج چوتھے دن سے اس کی آہ و پکار اور درد ناک آواز سن کر میری بکریوں نے بھی کھانا پینا چھوڑ دیا ہے۔ خدا جانے غار میں اس درد کے ساتھ رونے والا گناہگار کون ہے؟ اس کے سوا مجھے اور کوئی خبر نہیں۔ وہ سمجھ گئیں کہ اس درد بھری آواز میں رونے والا یحییٰ کے سوا اور کون ہوسکتا ہے۔ قریب گئیں تو وہ حضرت یحییٰ ہی تھے۔ فرمایا بیٹے گھر آ تو کیوں روتا ہے؟ فرمانے لگے امی جان کیا مجھ سے یہ وعدہ آپ کرتی ہیں کہ قیامت کے دن اگر میری گرفت ہوئی اور دوزخ کا فیصلہ سنادیا گیا تو آپ مجھے بچا لیں گی؟ والدہ ماجدہ نے فرمایا: ’’میں تو یہ وعدہ نہیں کرسکتی‘‘۔ فرمایا امی جان! اس دن چھڑانے کا وعدہ نہیں کرسکتیں تو آج رونا کیوں چھڑاتی ہیں؟ پھر جی بھر کے رولینے دیں۔ اس حال میں گھر لائیں۔

حضرت یحییٰ علیہ السلام کے خوف، محبت اور خشیت الہٰی میں رونے کا عالم یہ بھی تھا کہ آپ کے والد گرامی حضرت زکریا علیہ السلام نے اپنے خطاب کے دوران جب حضرت یحییٰ موجود ہوتے تو ان کو دیکھ کر خوف الہٰی کا بیان نہ کرتے تھے اور جب موجود نہ ہوتے تو پھر لوگوں کو نصیحت کرتے تھے۔ ادھر حضرت یحییٰ علیہ السلام کی کیفیت یہ تھی کہ اللہ کے خوف اور آخرت کا ذکر سننے میں لذت کا یہ عالم ہوتا کہ چھوٹے سے بچے ہیں مگر ستونوں کے پیچھے چھپ کر کھڑے ہوجاتے کہ میرے والد گرامی بیان کریں اور میں سن لوں۔ ایک دن چھپ کر کھڑے ہوگئے۔ حضرت زکریا علیہ السلام سمجھے کہ آپ موجود نہیں ہیں۔ یہ خیال کرکے آپ نے خوف الہٰی کا جو مضمون بیان کیا اس کے ابھی چند کلمات بیان فرمائے تھے کہ چیخ نکلی اور بے ہوش ہوکر زمین پر گر پڑے۔ حضرت زکریا علیہ السلام سمجھ گئے کہ میرے بیٹے یحییٰ موجود تھے اٹھاکر گھر لائے، چارپائی پر لٹایا اور 6,5 دن اسی طرح بے ہوشی کی حالت میں پڑے رہے۔ ہوش میں آئے پھر جنگلوں کی طرف چل نکلے۔ یہ تھے وہ لوگ جن کا اللہ کے ساتھ تعلق استوار ہوگیا تھا۔ جنہوں نے اپنے اندر اللہ کی بندگی کے شعور کو بیدار کرلیا تھا۔ جنہوں نے اپنے اندر عشق الہٰی کی شمع جلالی تھی۔ جنہوں نے اپنے من کو محبت الہٰی سے آباد کرلیا تھا۔ جنہوں نے اپنی روح کو خشیت الہٰی کی لذت سے آشکار کرلیا تھا۔ ان کی کیفیت تو یہ تھی کہ ان کی آنکھیں روتے روتے تھمتی نہ تھیں اور کہاں ہم، دنیا کے حرص و لالچ میں برباد ہوجانے والے۔ زرپرستی، ہوس پرستی، نفس پرستی اور جاہ و منصب کے جہنم میں گر کر تباہ ہونے والے۔ جنہوں نے اپنے چہرے اللہ کے حضور سے پھیر لئے، خشیت الہٰی کا تصور ہماری زندگیوں میں باقی نہ رہا۔ توبہ کے تصور اور خوف الہٰی سے ہماری زندگیاں خالی ہوگئیں۔ ہماری آنکھیں اللہ کے حضور پرنم ہونے سے ناآشنا ہوگئیں۔ ہم فرعونیت، نمرودیت، تکبر اور جاہ طلبی کا بت بن کر اللہ کی زمین پر اکڑ کر چلتے ہیں۔ کسی کو مال و دولت اور کسی کو جاہ و منصب کی تمنا ہے۔ کسی کو دنیا کا غرور و نشہ ہے۔ ہم بھول گئے کہ قیامت کے دن اگر اللہ کی رحمت نے منہ پھیر لیا اور یہ آواز آگئی کہ غرور و تکبر کرنے والے، اللہ کی خشیت کو بھولنے والے آج رب کی رحمت تمھیں بھولتی ہے تو کیا حشر ہوگا اور ہماری کیفیت کیا ہوگی؟

سیدنا امام زین العابدین رضی اللہ عنہ حج کے سفر پر آتے ہیں، گھوڑے پر سوار ہوتے ہیں، احرام باندھتے ہیں، سفرپر روانہ ہوتے ہیں اور اپنی زبان سے بآواز بلند کہتے ہیں: لبیک، اللہم لبیک! ’’حاضر ہوں میرے اللہ میں حاضر ہوں‘‘۔ ان کلمات کے لئے منہ کھولتے ہیں، پہلا لفظ زبان سے جاری ہوتا ہے۔ لبیک! سیدنا امام زین العابدین علیہ السلام جن کی پیشانی پر سجدے بھی فخر کرتے ہوں گے، جن کے آنسوئوں پر اطاعت فخر کرتی ہوگی، جو سجدوں کی زینت، جو عبادتوں کی زینت، جو زہد کی زینت، ورع کی زینت مگر جب زبان سے لفظ لبیک نکلا تو ساتھ ایک چیخ نکلی اور بے ہوش ہوکر گر پڑے۔ تین دن بے ہوش رہے۔ مناسک رہ گئے۔ جب ہوش میں آئے تو پوچھا امام عالی مقام کیا ہوا؟ آپ فرمانے لگے۔ جب میں نے کہا لبیک! ’’اے اللہ میں حاضر ہوں‘‘ تو مجھے اپنے گناہ یاد آگئے۔ اپنی نافرمانیوں پر نظر پڑگئی اور یہ خیال آیا کہ علی (آپ کا نام علی اوسط تھا) تُو اللہ کے حضور پیش ہوکر عرض کررہا ہے لبیک! مگر تیری نافرمانیوں کو دیکھ کر اگر اللہ کی بارگاہ سے یہ جواب آگیا کہ جا تیرا آنا ہم قبول نہیں کرتے تو کیا کرے گا؟ بس اتنا خیال آنا تھا کہ فوراً چیخ نکلی اور میں گر پڑا۔

پھر یہی امام زین العابدین کعبہ کا صحن ہے لوگ اللہ کے گھر کا طواف کرنے میں مصروف ہیں۔ پچھلی رات کا وقت ہے۔ لوگ دیکھتے ہیں کہ کوئی جوان چہرے پر نقاب اوڑھے ہوئے مقام ملتزم پر کھڑا ہے، کعبہ کا غلاف ہاتھ میں تھامے رو رہا ہے اور عرض کررہا ہے کہ باری تعالیٰ مجھے معاف کردے۔ میرے گناہ اتنے ہیں کہ تیری ساری کائنات میں ریت اور مٹی کے اتنے ذرے نہیں، سمندروں اور دریائوں میں پانی کے اتنے قطرے نہیں، تیری پوری زمین پر درختوں کے اتنے پتے نہیں۔ تیری کائنات میں اتنی وسعتیں نہیں جتنے میرے گناہ ہیں۔ تیری ساری زمین پر مجھ سے بڑھ کر کوئی گناہگار نہیں، مجھ سے بڑھ کر نافرمان نہیں، مجھ سے بڑھ کر خطاکار کوئی نہیں، میری زندگی کے دن و رات تیری نافرمانیوں میں بیتے۔ تو مجھے دوزخ میں ڈال دے تو تیری ساری دوزخ مل کر بھی مجھے جلانے کا حق ادا نہیں کرسکتی۔ تیری ساری سزائیں مل کر بھی میری سزا کا بدل نہیں دے سکتیں۔ مولا تو میری خطائوں کو معاف کردے۔ اتنی درد بھری آواز سے روئے کہ ساری رات گریہ و زاری اور چیخ و پکار میں بیت گئی، سسکیاں بلند ہوتی رہیں، طواف کرنے والوں کے قدم تھم گئے۔ لوگ طواف کعبہ بھول گئے۔ لوگوں کو اپنی عبادات و دعائیں بھول گئیں۔ وہ روتے روتے بے ہوش ہوکر زمین پر گر پڑتے جب ہوش آتا پھر اللہ کے حضور چیخنے لگتے۔ لوگوں نے کہا: اے جوان لگتا ہے کہ تیرے جیسا اس پوری دنیا میں کوئی گناہ گار نہیں۔ تو کوئی بڑے گناہ کرکے آیا ہے۔ اے گناہگار نوجوان! رونا بند کر ہمارے جگر پھٹنے کو ہیں۔ ہم سب مل کر تیرے لئے اللہ کے حضور سفارش کرتے ہیں کہ وہ تیرے گناہ معاف کردے۔ انہوں نے دعا کی اے مولا! ہم سارے تیری بارگاہ میں سفارش کرتے ہیں، ہمارے طواف و دعا کے صدقے اس جوان کے گناہ معاف کردے۔ مگر جوں جوں لوگ سفارش کرتے، اس کی گریہ زاری اور تڑپنا بڑھتا چلا جاتا تھا۔ لوگوں نے کہا اے جوان! اپنے چہرے سے پردہ اٹھا اور دکھا کہ ایسا گناہگار کون ہے جسے اللہ رب العزت کے گھر آکر بھی مغفرت کی تسلی نہیں ہورہی۔ جب چہرے سے پردہ اٹھایا تو لوگ غش کھاگئے کہ وہ حضرت امام زین العابدین تھے جن کی ساری رات اللہ کے حضور گریہ و زاری میں بیت جاتی۔

ارے وہ لوگ جن سے ہمیں عبادت کا تصور ملا، جن سے آہ و زاری کا درس ملا، توبہ کا ڈھنگ ملا۔ اللہ سے معافی مانگنے کا سلیقہ تو وہ جانتے تھے، خشیت، رقت، گریہ و زاری ادا کرنے کا حق تو وہ جانتے تھے۔ ساری ساری رات رو کر اور عبادت کرکے بھی آقا علیہ الصلوۃ والسلام کی زبان اقدس سے پھر یہ نکلتا تھا۔ ماعبدنک حق عبادتک ’’مولا تیری عبادت کا حق ادا نہ ہوسکا‘‘۔

امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ جو پوری دنیا کی شریعت اور فقہ و علم کے امام تھے۔ نماز عشاء پڑھ کر فارغ ہوئے، گھر گئے، کپڑے بدل کر تھوڑی دیر بعد پھر آگئے۔ غلامانہ کپڑے پہن کر مسجد کے کونے میں کھڑے ہوگئے۔ چراغ جل رہا تھا، ایک شخص چھپ کر دیکھتا رہا کہ حضرت امام ا عظم ابوحنیفہ کے دن تو دیکھے ہیں۔ قال اللہ وقال الرسول کو پڑھاتے، اللہ کے دین کا وعظ کرتے دن تو دیکھے ہیں۔ اب راتیں بھی دیکھیں کہ کس طرح بسر ہوتی ہیں۔ ایک طرف چھپ کر دیکھا کہ امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے ہاتھ داڑھی مبارک پر ہیں۔ عشاء سے فجر تک اپنی داڑھی کھینچ کر التجا کرتے رہے کہ اے مولا ابوحنیفہ بڑا گناہگار ہے اس کے پاس کوئی نیکی، کوئی عبادت نہیں جو تیرے حضور پیش کرسکے۔ داڑھی تھام کر عرض کرتے باری تعالیٰ اس کا حیا کرلینا، مولا! ابوحنیفہ کے بڑھاپے کا حیاء کرلینا اور معاف کردینا۔ رو رو کر غش کھاکر گر جاتے اور جب ہوش آتا تو زبان سے یہی جملہ ادا ہوتا تھا کہ اگر ابوحنیفہ بخشا گیا تو بڑے تعجب کی بات ہوگی۔ اس طرح جب فجر کا وقت آگیا تو ایک شخص (موذن) قریب آیا تو آپ نے سمجھا کہ شاید عشاء کی نماز پڑھ کر یہ گھر جانے کے لئے چراغ بجھانے کے لئے آیا ہے تو آپ نے پوچھا کہ اپنا چراغ اٹھانے آئے ہو۔ اس نے عرض کیا نہیں حضرت اٹھانے کے لئے نہیں اب تو فجر ہوگئی چراغ بجھانے کے لئے آیا ہوں۔ آپ نے بلاکر کہا کہ جو کچھ رات دیکھا خدا کے لئے اسے بیان نہ کرنا۔ لوگو! اللہ کی بندگی کے حق تو ان لوگوں نے ادا کئے ہیں۔

حضرت بابا فریدالدین گنج شکررحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ بیان فرماتے ہیں ایک ولی اللہ جوان، متقی اور عبادت گزار تھا۔ جوانی کے عالم میں اس کی موت واقع ہوگئی۔ ساری جوانی اللہ کی محبت میں روتے اور تڑپتے ہوئے گزری اور وہ پتلا ٹہنی کی طرح ہوگیا تھا۔ دن بھر اللہ کے حضور روتا اور عبادت کرتا تھا۔ رات ہوتی تو کمرے میں جاتا چھت کے ساتھ رسی لٹکی ہوئی تھی اسے اپنے گلے میں ڈالتا اور اللہ کے حضور ساری رات غلام بن کر پھانسی کا پھندہ گلے میں ڈال کر روتا اور سجدہ ریز ہوتا اور جب کبھی اونگھ آتی تو اس پھندے کی وجہ سے آنکھ کھل جاتی تھی۔ ساری جوانی، ساری عمر، سارے دن، ساری راتیں اللہ کے حضور اس طرح شان غلامی میں بیت گئے۔ جب وفات کا وقت قریب آیا تو اپنی والدہ ماجدہ سے عرض کیا۔ امی جان! میں اللہ کا بڑا نافرمان تھا، گناہگار تھا۔ عمر بھر اللہ کی بندگی سے بھاگا رہا۔ عبادت سے دور رہا۔ اب میری موت کا وقت قریب آرہا ہے۔ مجھے ڈر ہے کہ پتہ نہیں میرا حشر کیا ہوگا؟ امی جان میری 3 درخواستیں ہیں پوری کردینا، والدہ نے کہا بیٹا بولو پوری کردوں گی۔ کیا ہیں؟ عرض کیا۔ امی جان جب مرجائوں اور میری روح قفس عنصری سے پرواز کرچکی ہو تو میرے گلے میں وہی رسی کا پھندا ڈال دینا اور گھر کے صحن میں میری میت میری لاش کو گھسیٹ کر چاروں طرف گھمانا اوربلند آواز سے کہنا لوگو! اللہ کے نافرمانوں کا حال یہ ہوتا ہے۔

دوسری درخواست یہ ہے کہ مرجائوں تو میرا جنازہ رات کے اندھیرے میں اٹھانا کہ دیکھنے والے میرے جنازے کو دیکھ کر کہیں طعنہ نہ دیں کہ گناہگار کا جنازہ جارہا ہے۔

تیسری بات یہ ہے کہ جب میری میت کو دفن کردیا جائے تو مجھے علم ہے کہ مجھے عذاب ہوگا تو میری ماں میری قبر پر کچھ دیر کھڑے رہنا کہ شاید بخشا نہ جائوں۔ ممکن ہے کہ آپ کے قدموں کے طفیل میرا مولا معاف فرمادے۔

والدہ نے وعدہ کرلیا۔ حضرت بابا فریدالدین گنج شکررحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں جب اس کا انتقال ہوگیا تو بہ دل نخواستہ والدہ نے وعدہ کو نبھانے کے لئے رسی لے کر اپنے اسی جوان بیٹے کے گلے میں ڈالنے لگیں۔ قریب تھا کہ وہ رسی ڈالتیں۔ ہاتف غیب سے آواز آئی اے نیک خاتون ہٹ جا! تمہیں کیا خبر یہ تو ہمارا عاشق اور دوست تھا۔ ادھر اس کی روح جسم سے نکلی، ادھر ہم نے قبول کرلی۔ معلوم ہوا کہ اللہ کے عاشقوں اور اللہ کے دوستوں کا عالم بڑا پیارا ہوتا ہے۔ وہ لوگ جن کے اندر اللہ کی بندگی اور تعلق کی معرفت پیدا ہوگئی تھی ان کے دن ان کی راتیں اللہ کے حضور روتے تڑپتے گزر جاتی تھیں۔ ان کو تو رونے کے سوا اور کوئی چارہ نہ تھا۔ یہی رونا ان کی عبادت تھی، یہی رونا ان کی التجا تھی، یہی رونا ان کی دعا تھی اور اللہ کے حضور ساری زندگی کا ایک ایک لمحہ اس طرح رونے دھونے میں بسر کرتے۔

دوستو! آج ہم اس رونے والی آنکھ سے محروم ہوگئے جب سے ہم رونے والی آنکھ سے محروم ہوئے اللہ سے ہماری یاد کا تعلق ٹوٹ گیا۔ آیئے آج دنیا کے گورکھ دھندوں میں اپنے آپ کو تباہ کرنے والو! اور اس محبت کرنے والے رب سے منہ موڑ لینے والو! ہم ذرا اپنا حال بھی دیکھیں اور اس رب کریم کا حال بھی دیکھیں۔ جب رات کا اندھیرا چھاتا ہے۔ ہم غفلت کی نیند سوجاتے ہیں۔ بستر پر لیٹ جاتے ہیں۔ حضرت دائود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ جب ایسی صورت ہو تو رب کریم کی آواز آتی ہے اے میری محبت کا دم بھرنے والو! مجھ سے محبت کرنے والو! مجھ کو بھی کیا نیند آتی ہے۔ دیکھ! میں تمہیں یاد کررہا ہوں اور تو غفلت کی نیند سورہا ہے۔ حضرت بابا فرید کہتے ہیں:

اٹھ فریدا ستیا تو جھاڑو دے مسیت
تو ستا او جاگدا تیری ڈاڈے نال پریت

دوستو! سوچنے کی بات ہے ہم اللہ کے بندے ہوکر غفلت کی نیند سوئیں اور محبت کرنے والا رب پوچھے۔ ’’ہے کوئی مجھ سے معافی مانگنے والا، میں معاف کردوں۔ ہے کوئی مجھ سے بخشش طلب کرنے والا میں اسے بخش دوں، ہے کوئی مجھ سے گناہوں کی معافی طلب کرنے والا میں اس کے گناہ معاف کردوں‘‘۔ ہم کتنے ظالم ہیں سارا دن دنیا طلبی میں بیت جائے، رات آئے تو ہم آرام کی نیند سوجائیں۔ ہم کس طرف جارہے ہیں آج سوچنے کی رات ہے۔ اپنے گریبان پکڑ کر جھنجھوڑو۔ کیا یہ چہرہ لے کر خداکے حضور پیش ہوں گے۔ ہمارے آقا رات بھر عبادت کرتے کہ قدمین شریفین متورم کرلیتے۔ حالانکہ معصوم عن الخطا تھے جبکہ ہم جن کی زندگی کا لمحہ لمحہ گناہوں سے لت پت ہے ہم راتوں کو جاگ کر اللہ سے باتیں بھی کرنا چھوڑ دیں۔ دوستو! رات کی گھڑیاں اللہ سے تعلق جوڑنے کے لئے بڑی مفید ہوتی ہیں۔

حدیث پاک میں آتا ہے کہ جب رات ڈھل جاتی ہے اورپچھلا پہر آتا ہے تو رب کریم اپنی رحمت اور قدرت کی شان سے آسمان دنیا پر اتر آتا ہے اور ندا دیتا ہے کہ بندو! مانگ لو مجھ سے۔ میری عطا اتر کر آگئی ہے۔ ہماری بندگی اس وقت تک بندگی نہیں ہے جب تک کم از کم ہم یہ تہیہ نہ کریں کہ ہم رات کی کچھ گھڑیاں اللہ کے حضور سجدہ ریز ہوکر رونے دھونے میں نہ گزار دیں۔ آج کی رات ہمیں اللہ کے حضور توبہ کرنی ہے۔ اپنے گناہوں پر معافی مانگنی ہے اور یہ عہد کرنا ہے کہ اے مولا! آج ہم تیری ذات سے تجدید وفا و بندگی کرتے ہیں، دجل و فریب سے توبہ کرتے ہیں۔ تیری مخلوق پر ظلم سے توبہ کرتے ہیں۔ آج مسلمان مسلمان کا گلا کاٹ رہا ہے۔ مسلمان کی گولی سے مسلمان کا سینہ چھلنی ہورہا ہے۔ مسلمان مسلمان کو ذبح کررہا ہے۔ ہم نہ اللہ کا حق ادا کررہے ہیں نہ اللہ کی مخلوق کا حق ادا کررہے ہیں۔ اللہ کی مخلوق سے ہمارا پیار صرف پیسے کی وجہ سے ہے۔ ہمارا پیار کوٹھیوں، مال و دولت، جاہ و منصب اور دنیا کی مختلف آسائشوں کی وجہ سے ہے۔ آئو آج جھوٹے پیار کی ڈوریاں کاٹ کر اپنے پیار کی ڈوری اللہ کے ساتھ جوڑ لو اور جو کچھ آج مانگیں اس پر استقامت سے رہیں۔ اس سے پھر پیچھے ہٹنے نہ پائیں۔ اس لئے گفتگو کو ختم کرتے ہوئے روشنی بجھادیں گے اور سارے لوگ اللہ کی طرف متوجہ ہوں گے، اپنے گناہوں کو یاد کریں گے اور لغزشوں کو یاد کرکے مراقبہ کی حالت میں سرجھکا کر بیٹھیں گے اور یہ سمجھیں کہ ہم سب مجرم ہیں اور آج اللہ کے در پر قیدی اور مجرم بن کر پیش ہوئے ہیں۔ اس کیفیت میں روئیں گے۔ زارو قطار روئیں گے۔ آہ و بکا کریں گے اور چیخ و پکار کرکے اللہ کو راضی کریں گے۔