منصبِ دعوت اور اس کے اجزائے ترکیبی

منہاجینز ڈے کے موقع پر صدر سپریم کونسل محترم ڈاکٹر حسن محی الدین قادری کا خصوصی خطاب

پہلا حصہ

ترتیب و تدوین: صاحبزادہ محمد حسین آزاد معاونت: ملکہ صبا

بسم اللہ الرحمن الرحیم

کُنْتُمْ خَيْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاﷲِ.

(آل عمران،3:110)

اللہ رب العزت کا بے پایاں لطف و کرم اور احسان عظیم ہے کہ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نعلین پاک کے تصدق سے ہم آج منہاجینز کی اس خوبصورت نشست میں حاضر ہیں۔ اللہ رب العزت کی بارگاہ میں دعا ہے کہ آقا علیہ الصلوۃ والسلام کے نعلین پاک کے تصدق سے ہم اس قابل ہوجائیں کہ ہم تحریک منہاج القرآن کے اس عظیم مشن اور اس مشن کے عظیم قائد، عظیم مربی، عظیم شیخ، عظیم مدرس، عظیم معلم، عظیم پیشوا کی صحبت، ان کے تلمذ اور ان سے کئے ہوئے استفادے پر ثابت قدم رہ سکیں۔

اس دعا کے بعد میں آج کی اس گفتگو جس کا عنوان ’’دعوت‘‘ ہے کے چند پہلو اللہ کی توفیق سے آپ کے گوش گزار کروں گا۔ ہر وہ شخص جسے اللہ رب العزت کسی بھی نعمت کے لئے چن لیتا ہے تو اسے کوئی ذمہ داری، عطا کرکے انسانیت کی رشد و ہدایت کے لئے بھیج دیتا ہے اور وہ شخص جب کسی بھی نعمت کا حامل ہوتا ہے تو وہ اپنے اپنے مقام پر دعوت کے منصب پر فائز ہوجاتا ہے۔ دعوت ایک ایسا منصب اور نعمت ہے جسے مل جائے اسے داعی کہتے ہیں اور دعوت کے کچھ اجزائے ترکیبی ہوتے ہیں اگر وہ اجزائے ترکیبی اس دعوت میں نہ پائے جائیں تو وہ دعوت سرے سے دعوت ہو نہیں سکتی یا ان اجزائے ترکیبی میں سے کوئی ایک جز بھی نامکمل ہو تو وہ دعوت کہنے میں دعوت ہے مگر اپنی ذات میں وہ دعوت نہیں ہوسکتی۔ اگر وہ دعوت سرے سے معرض وجود میں نہ آئی ہو تو اس کا دعویٰ کرنے والا داعی نہیں ہوسکتا۔ وہ دعویٰ تو رہے گا مگر کبھی بھی دعوت نہیں بن سکے گا کیونکہ اسے دعوت کی سمجھ نہیں آئی۔ کچھ لوگ اسے کھانے والی دعوت سمجھ کر اسی میدان میں آجاتے ہیں۔ مگر اللہ رب العزت نے اسے جو منصب دیا وہ کھانے والا نہیں کھلانے والا ہے۔ اصل داعی وہ ہے جو کھانے والی دعوت سمجھ کر نہ آئے بلکہ کھلانے والی دعوت سمجھ کر عطا کرنے کے لئے آئے۔ جھولی بھر بھر کر تقسیم کرنے آئے۔ جھولی بھروانے کے لئے نہ آئے۔ داعی اس وقت کہلاتا ہے جب وہ دعوت کے اسرار و رموز سے واقف ہو۔

آپ جب کسی کو کوئی منصب سونپتے ہیں اور کسی کو کسی سفر پر روانہ کرتے ہیں تو پیغام دے کر بھیجتے ہیں کہ اس منزل پر جانا ہے۔ یہ پیغام لے کر فلاں کو پہنچانا ہے اور فلاں کو بتانا ہے کہ کس نے بھیجا ہے؟ اور پھر اس کا جواب واپسی لے کر آنا ہے۔ یہ ایک ذمہ داری ہوتی ہے۔ اب اگر جانے والے کو نہ یہ پتہ ہے کہ جانا کدھر ہے۔ بھیجنے والا کون ہے اور جدھر جانا ہے وہ کون ہے؟ جانا کیسے ہے؟ سفر کیسے طے کرنا ہے؟ پہنچنا کیسے ہے؟ منزل کیا ہے؟ منزل کس کی ہے اور بھیجا کس نے ہے؟ بھیجے جانے والے کی اپنی قدرو منزلت کیا ہے؟ اور جس کی طرف بھیج رہا ہے اس کی قدرو منزلت کیا ہے؟ جسے کسی شے کی قدرو منزلت ہی معلوم نہ ہو تو اللہ رب العزت اس بے خبر شخص کو داعی نہیں بناتا کیونکہ جسے اپنی خبر نہ ہو اسے کسی کی خبر کیا ہوگی۔ اللہ رب العزت نبوت کا فیض بھی اسے دیتا ہے جسے دعوت کا فیض ملا ہے۔ نبوت خود خبر کو کہتے ہیں اور خبر اسے دی جاتی ہے جسے خبر کا بھی حیا ہو اور خبر کی بھی خبر ہو، جسے نہ صرف خبر کا پتہ ہو بلکہ اس کی قیمت کا بھی اندازہ ہو۔ اب کسی جاہل کو ہیرا پکڑا دیں یا اسکی انگلی میں ہیرے کی انگوٹھی چڑھا کر کہیں جائو تمہیں دے دیا۔ اس جاہل کو اگر اس پتھر کی قیمت کی خبر نہ ہوگی تو وہ ہیرا پہن کر ایسا لگے گا جیسے اسے کوئی قدر نہیں۔ اللہ رب العزت بھی وہ سچے و سچی موتی، سیپ اور ہیرے جواہرات بھی چھپاکر رکھتا ہے پھر وہ نادر پتھر و موتی کسی کسی کو دیتا ہے۔ اس کو دیتا ہے جسے اس کی خبر ہوتی ہے۔ پتھر بہت ہوتے ہیں مگر یاقوت کی خبر ہر کسی کو نہیں ہوتی۔ پتھر بہت ہوتے ہیں مگر سچے موتیوں کی خبر ہر کسی کو نہیں ہوتی۔ پھر پتھر بہت ہیں مگر سُچے عقیق کی خبر ہر کسی کو نہیں ہوتی اسی طرح بندے بہت ہوتے ہیں مگر اصل دعوت والے کی خبر اس کو ہوتی ہے جو دیتا ہے۔

پھر دعوت کی بھی قسمیں ہوتی ہیں۔ ہر نبی کو ہر قسم کی دعوت پر فائز نہیں کیا جاتا۔ کوئی انقلابی دعوت ہے کسی میں حلیمانہ رنگ ہے کسی میں انقلابی رنگ ہے کسی میں جدوجہد ہے کسی میں معجزات کا عروج ہے کسی میں کوئی رنگ ہے کسی میں کوئی رنگ ہے۔ اللہ رب العزت خود جس نبی کو جس دعوت کے منصب پر فائز کرتا ہے پہلے اس نبی کے اندر وہ جوہر رکھتا ہے پھر اس جوہر کو پروان چڑھاتا ہے پھر اسی طرح کا منصب دیتا ہے اُسی طرح کی تعلیم و تربیت و رشد و ہدایت دیتا ہے پھر اسی طرح کے مربی کی صحبت میں بٹھاتا ہے۔ اگر موسیٰ علیہ السلام بنانا ہو تو پہلے شعیب علیہ السلام بناتا ہے اور پہلے شعیب علیہ السلام اس لئے بناتا ہے کہ شعیب علیہ السلام  ہوں گے تو موسیٰ علیہ السلام ان کے پاس آئیں گے پھر ان کو ان مراحل سے پہلے گزارا جاتا ہے۔ شعیب علیہ السلام کو پہلے وہ جوہر عطا کئے جو موسیٰ علیہ السلام کو چاہئے تھے۔ اللہ رب العزت پہلے وہ فیکٹری یا انڈسٹری ان علاقوں میں لگاتا ہے جن علاقوں میں اس کی ضرورت ہو پھر اس میں وہی پروڈکٹ ہوتی ہے جس کی وہاں پر Demand ہو۔ اگر اس مارکیٹ میں اس پروڈکٹ کی Demand نہ ہو تو اللہ رب العزت وہ انڈسٹری وہاں لگاتا ہے نہ نرسری اور نہ ہی وہاں پیداوار ہوتی ہے۔ اہل زمانہ کو ضرورت کے مطابق نبی کو دعوت دے کر بھیجتا ہے پھر اس دعوت کے لئے کچھ عناصر ترکیبی ہوتے ہیں۔ اب ان عناصر ترکیبی کی طرف آنا چاہتا ہوں میں نے آپ کو مثال دی کہ یہ عناصر ترکیبی جس دعوت میں نہ پائے جائیں تو سمجھ لیں کہ وہ دعوت مکمل نہیں ہے۔

یہاں پہلا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر وہ صاحب معرفت اور صاحب بصیرت ہے تو وہ اپنی ذات و صفات میں معلم کامل، مربی کامل، قائد کامل اور مرشدکامل ہے تو پھر یہ شک و شبہ نہیں رہنا چاہئے کہ جسے بھیجا ہے وہ کامل نہ ہوگا کیونکہ اگر بھیجنے والے کے کمال پر شک ہے تو پھر جسے بھیجا ہے اس کے انتخاب پر بھی شک ہوگا۔ اللہ رب العزت کا نظام ہے کہ وہ سکھائے اور بتائے بغیر آزمائش میں نہیں ڈالتا۔ جب وہ تلمذ اختیار کرلیتا ہے تو پھر سرپرستی کرتا ہے پہلے پالتا ہے پھر اس کو اجلا کرتا ہے پھر اس میں وہ جوہر رکھتا ہے پھر تھوڑا تھوڑا اسے ابتلاء میں ڈالتا ہے اور جن اینٹوں سے مل کر دعوت کا محل تیار ہوتا ہے اس میں سے پہلی اینٹ رکھتا ہے تاکہ وہ دعوت اپنے اجزائے ترکیبی سے کامل دعوت ہوجائے اس دعوت کا پہلا جز علم نافع ہے۔ یعنی وہ علم ہو جو نفع بخش ہو جس میں نفع ہی نفع ہو وہ دعوت حقیقی ہے۔

اللہ رب العزت بھی اپنے بندوں کو وہ سودا سکھاتا ہے جس میں نفع ہو۔ وہ بندوں کے لئے خسارے کی بات نہیں کرتا پھر دوسرا جز اور رکن عمل صالح ہے۔ اس کی بنیاد وہ بنیادی جواہر اور را میٹریل ہے جس سے اسے پیدا کیا گیا ہے۔ یہ جوہر ہیں جو اس کے اندر ہونے چاہئیں۔ ان میں سے پہلے جوہر علم نافع اور دوسرے عمل صالح کی بات ہوچکی ہے جبکہ تیسرا سلامتی قصد و غایت ہے یعنی اس داعی کے ارادوں میں بھی دوسروں کے لئے سلامتی اور خیر ہو اور وہ دوسروں کو خیر عطا کرنے والا ہو۔ پھر وہ الفہم الصحیح کا حامل ہو یعنی اس کا فہم، نظریہ، سوچ، عقائد، درست ہوں اور صحیح سمت میں ہوں۔

اس کے بعد ’’البصیرۃ فی الدین‘‘ ہے کہ اس کو دین میں بصیرت عطا ہو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ داعی سرے سے دعوت کا پیکر نہیں ہوسکتا جس میں بصیرت و حکمت نہ ہو۔ اس کے بعد معرفت حال المنحاطبین ہے کہ جن کے پاس گیا ہے ان کے پاس جانے سے پہلے ان کے حال کی خبر بھی ہو۔ یعنی جانے سے پہلے وہ ہوم ورک اور تیاری کرکے جائے اور معلومات لے کر جائے۔ اس کا Map اس کے ہاتھ میں ہو اور پھر مختلف Roots اور ان راستوں کے نشیب و فراز کی بھی خبر ہو۔ Main Road اور پھر اس کے Side Roads کی بھی خبر ہو۔ پھر جن کے پاس جارہا ہے ان کی بھی خبر ہو۔ وہ داعی ہو ہی نہیں سکتا کہ جن کو جاپان بھیجا جائے اور بغیر بتائے بھیجا جائے کہ کن کے پا س بھیجا جارہا ہے۔ کیسے کپڑے پہن کر جائیں۔ کیسی تیاری کے ساتھ جائیں۔ کونسا اسلحہ (قلم) چلے گا دانش کا، معرفت کا، حکمت کا، انقلابیت کا۔ اگر قلم چلانا علمیت کا ہو اور وہ چلادے انقلابیت کا تو اگر پہلے دن ہی انقلابیت کا چلادے گا تو پھر اس پر ہی انقلاب آجائے گا۔ لہذا اس کا تجزیہ (Analysis) کرنا اور اس کی معرفت کا ہونا بڑا ضروری ہے۔ اگر وہ داعی اس سے پہلے دعوت کا دعویٰ کرکے چلا جائے تو وہ دعویٰ دعویٰ رہ جائے گا دعوت نہیں ہوگی۔

پھر وہ الصلابۃ والجرۃ فی الحق کا پیکر ہو۔ داعی وہ ہے جس کے اندر جرات بھی ہو قوت بھی ہو زمانے کا سامنا کرنے کی اہلیت بھی ہو۔ یعنی وہ حقیقت میں الرجل (مرد) ہو۔ اب یہ ساری چیزیں صرف اس سے تقاضا نہیں کی جاتیں بلکہ جب مثلاً محترم ناظم اعلیٰ کسی کو بھیجیں گے کہ آپ دعوت پر جائیں اور اگر صحیح جگہ پر صحیح شخص کو نہ بھیجا گیا تو آپ پہلے ناظم اعلیٰ صاحب سے پوچھیں گے اس کو کیوں بھیجا؟ وجہ یہ تھی بھیجنے سے پہلے کچھ تقاضے پورے کرنا تھے اگر وہ تقاضے ہم نے پورے نہ کئے اور بھیج دیا جیسے کہتے ہیں کہ Right person for a right job and wrong person for a wrong job لیکن اس کے برعکس Wrong person for a right job ہوگیا۔ یعنی بندہ تو کسی اور میدان کا تھا کسی نے غلطی سے کسی اور میدان میں بھیج دیا۔ اب فرق کس پر آئے گا؟ فرق اس پر نہیں آئے گا جو بھیجا گیا ہے کیونکہ وہ تو اپنے آپ کو کامل سمجھ کر جائے گا۔ وہ اپنے آپ کو نااہل سمجھ کر نہیں جائے گا۔ وہ دور گئے جب پڑھانے والا پہلے خود پڑھتا تھا، بتانے والا پہلے خودسیکھتا تھا،سکھانے والا پہلے خود زانوئے تلمذ طے کرتا تھا، علم پڑھانے والا ساری زندگی ادب پڑھتا اور سیکھتا تھا اور پڑھانے سے پہلے اسے خود حیا آجاتا تھا۔ ایک دفعہ سوچتا تھا کہ جو علم دے رہا ہوں کیا میرا عمل خود اس علم کی مطابقت میں ہے یا مخالفت میں ہے۔ اگر مخالفت میں دیکھتا تھا تو رک جاتا تھا، کہتا تھا پہلے کسی اور کے پاس جاکر سیکھ آئوں مجھے نہیں آتا۔ آج پوچھنے سے پہلے ہم کہتے ہیں کہیں بھیج دو ہمیں سارا پتہ ہے لہذا بھیجنے والا اگر کامل ہے تو جسے بھیجا جائے گا وہ بھی کامل ہوگا کیونکہ کامل کامل کو بھیجے گا وہ غیر کامل کو بھیج نہیں سکتا۔

کامل بننے کے لئے اس کے اندر قابلیت اور Energy بھی ہو اور وہ اتنا Efficient ضرور ہو کہ بروقت اچھا فیصلہ کرسکے۔ ہاں یہاں جرات سے مراد ڈنڈا اٹھا کر مارنے کی بات نہیں کررہے بلکہ جرات سے مراد حکمت ہے کہ اس کی جرات حکمت کے ساتھ جھلکے۔ یہ جرات چیخ و پکار کا نام نہیں بلکہ یہ جرات حکمت و بصیرت اور Decision Making کا نام ہے۔ یہ جرات Right decision at the right time کا نام ہے۔ اگر اچھے وقت میں اچھا فیصلہ کرلیا تو کہیں گے کہ یہ بڑا جری تھا۔ اگر اچھے وقت میں برا فیصلہ کیا تو کہیں گے بڑا ڈرپوک تھا ڈر گیا۔ اگر حکمت کے ساتھ رہتا تو Serviceکرتا اور آج نہیں تو کل منزل مراد پر پہنچ جاتا۔

ہم آج دیکھتے اور سوچتے ہیں کہ منزل نہیں ملی۔ بھئی قائد آپ کے جرت والے ہیں وہ نہیں گھبراتے تو ہم کیوں گھبراتے ہیں؟ وہ کہتے ہیں نہیں ڈٹے رہو۔ ہم کہتے ہیں نہیں طوفان آرہا ہے۔ وہ کہتے ہیں طوفان آرہا ہے تمہیں بھی تو صلابت اورجرات والا بنایا ہے۔ صلابت و جرات اسے کہتے ہیں کہ طوفان بڑھتا جائے اس کی قوت بھی بڑھتی جائے جنہوں نے طوفان کا مقابلہ گھر سے سیکھا ہو وہ باہر بھی طوفانوں کا مقابلہ کرتے ہیں۔ اب اگر اپنے گھر سے، اپنے شیخ کی بارگاہ سے، اس کی کٹیا سے، درسگاہ سے جرات سیکھ کرگئے ہیں تو کبھی بھی زمانے کے سامنے جھکتے ہوئے نظر نہیں آئیں گے۔ جو خود دار ہوں، جری ہوں، جن کو اپنی عزت و ناموس سے بڑھ کر اپنے شیخ کی عزت و ناموس کی حیاء ہو، فکر ہو، وفا ہو، وہ مر تو جاتے ہیں، کٹ تو جاتے ہیں مگر سر نہیں جھکنے دیتے۔ یہ صلابت ہے یہ جرات ہے یہ نہیں کہ دو گالیاں دے آئے اور کہے کہ میں دو گالیاں دے آیا ہوں۔ نہیں وہاں صبر کا پیکر بنے رہتے تو یہ حکمت تھی، وہاں تحمل سے بات کرتے تو یہ حکمت تھی، زمانہ بدل گیا ہے۔ جو لوگ بیتے ہوئے زمانے کے ساتھ خود نہیں چلتے وہ رکے رہتے ہیں۔ زمانے گزر جاتے ہیں انہیں کوئی یاد نہیں کرتا۔

جب زمانہ بیتے تو زمانے کے ساتھ اس کے تن اور من پر بھی زمانہ بیتے۔ اس کا مطلب ہے جب زمانہ بیتے گا تو وہ شے رکی نہیں رہے گی۔ زمانے کا مطلب ہے کہ جب زمانہ گزر رہا ہے تو انسان کے احوال بھی گزرتے رہیں گے۔ جس کے احوال رک جائیں وہ سمجھ لے کہ اس پر زمانہ نہیں گزرا۔ اسی طرح دعوت کے ساتھ سیکھنا پڑتا ہے، Issues کو Tackle کرنا پڑتا ہے۔ حالات حاضرہ سے باخبر رہنا پڑتا ہے۔ دعوت کے مختلف Tools کو Adopt کرنا پڑتا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس کے مختلف Elementsکو Adopt کرنا پڑتا ہے پھر جس طرح کے مخاطب ہوں دعوت کے لئے اس طرح کا انداز اپنانا پڑتا ہے۔ جس طرح قرآن حکیم نے ہماری راہنمائی فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا:

اُدْعُ اِلٰی سَبِيْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُمْ بِالَّتِيْ هِيَ اَحْسَنُ.

(النحل،16:125)

’’(اے رسولِ معظّم!) آپ اپنے رب کی راہ کی طرف حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ بلائیے اور ان سے بحث (بھی) ایسے انداز سے کیجیے جو نہایت حسین ہو‘‘۔

اس آیت سے معلوم ہوا کہ اگر آپ کو کسی سے ٹکرانا بھی پڑ جائے تو خوبصورت انداز سے ٹکرائیں۔ اس انداز سے جو کل کو آپ، آپ کی تحریک اور آپ کے لوگ بھی برداشت کرسکیں اور آپ کے قائد کو بھی شرمندگی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہاں صرف اپنا حیا نہیں بلکہ اپنے مربیّکا حیاہوتا ہے۔ (جاری ہے)