نافرمان قوموں کا عبرت ناک انجام

فریال احمد

اللہ تعالیٰ نے انسان کو دھڑکنے والا دل، سوچنے والا دماغ، سننے والے کان اور دیکھنے والی آنکھیں دی ہیں اور ساتھ ہی یہ بھی ارشاد فرمادیا:

فَاعْتَبِرُوْا يٰـاُولِی الْاَبْصَارِ.

(الحشر، 59:2)

’’پس اے دیدہِ بینا والو! (اس سے) عبرت حاصل کرو‘‘۔

ہم لوگ آخرت پر یقین رکھتے ہیں لیکن ہمارے قلب اور ذہن گروی ہیں ہم یہ سمجھ رہے ہیں کہ یہ جو ہر آن ہمارے اردگرد حادثے ہورہے ہیں، محض اتفاقی امر ہے کیونکہ ہم نے غفلت اور دور اندیشی کی دور بینیں لگا رکھی ہیں حالانکہ یہ سارے واقعات ہمیں عبرت اور نصیحت کی طرف توجہ دلاتے ہیں۔

سونامی طوفان کی خوفناک لہریں چند لمحوں میں لاکھوں انسانوں کو غرقاب کرتی ہوئی دوبارہ سمندرکے سینے میں جا اترتی ہیں اور ہیبت ناک زلزلے نے بالاکوٹ جیسے خوبصورت شہر سمیت پورے کشمیر کو صرف چند سیکنڈ میں ملبے کا ڈھیر بنا ڈالا۔ کتنے حسین چہرے جو بذات خود دنیا کا حسن تھے پہاڑوں کی چٹانوں کے نیچے دب گئے۔ یہ سب کیا ہے؟ کبھی سوچاہم نے؟ یہ اللہ کی نافرمانی کی سزا ہے تاکہ لوگ غفلت کی نیند اور سرکشی اور نافرمانی کی راہ چھوڑ کر اللہ کے احکامات کی پیروی کریں اور ان کی یہ مصیبتیں یہ حادثات یہ آفات یہ دہشت گردیاں یہ اندھیرے ختم ہوسکیں۔ جس کے لئے توبہ کا دروازہ ہر وقت کھلا ہے۔

قارئین محترم! قرآن مجید تمام انسانوں کو بالعموم اور تمام مسلمانوں کو بالخصوص دعوت فکر دیتا ہے کہ وہ اپنے ماضی کو سامنے رکھ کر آئندہ کا لائحہ عمل تیار کریں۔ دنیا میں جو کچھ ہورہا ہے اللہ کی طاقت اور قدرت سے ہی ہورہا ہے ارشاد ربانی ہے:

’’ لوگوں کے دل میری مٹھی میں ہیں، حکمرانوں کے دل بھی میری انگلیوں میں ہیں۔ اگر میری اطاعت نہیں کرو گے تو یہی حکمران تم پر ظلم کے ایسے ایسے حربے استعمال کریں گے کہ تم سوچ بھی نہیں سکتے۔ اگر میری اطاعت کرو گے تو میں ان کے دل پھیر دوں گا تمہارے حق میں‘‘۔

گزری ہوئی قومیں اپنے برے اعمال، اپنی نافرمانی اور سرکشی کی وجہ سے اللہ کے مٹانے سے ہی مٹی ہیں اور انہیں ایک دن دوبارہ زندہ ہوکر اپنے اعمال کی جزا و سزا کے لئے بھی کھڑا ہونا ہے۔

دنیا میں جن قوموں اور جن لوگوں نے اللہ جل شانہ کی نافرمانی کی ان کا انجام یقینا اچھا نہیں ہوا۔ کوئی فرعون کوئی ہامان، کوئی قارون، کوئی شداد اور کوئی ابوجہل بچا اور نہ ہی ان کے نقش قدم پر چلنے والے لوگ اللہ جل شانہ کے فیصلوں سے بچ سکے۔ اللہ کے فیصلے ان کے حق میں نہایت بھیانک ثابت ہوئے۔

بنائی شوق سے شداد نے، پر یہ نہ وہ سمجھا نہ میں جنت کے قابل ہوں، نہ جنت میرے قابل ہے

حضرت نوح علیہ السلام کی قوم کا عبرتناک انجام

حضرت نوح علیہ السلام نے جب اپنی قوم کو ایمان کی دعوت دی تو قوم نے ان کی نبوت و رسالت پر اعتراض کیا۔ سورہ ہود میں تفصیل سے حضرت نوح علیہ السلام کی وہ تقریر نقل کی گئی ہے جو انہوں نے اپنی قوم کے سب اعتراضات سننے کے بعد ان کو کچھ اصولی ہدایات دینے کے لئے ارشاد فرمائی کہ نبوت و رسالت کے لئے وہ چیزیں ضروری نہیں جو تم نے سمجھ رکھی ہیں۔

حضرت نوح علیہ السلام  کو حق تعالیٰ نے تقریباً ایک ہزار سال کی عمر دراز عطا کی اس طویل مدت عمر میں ہمیشہ اپنی قوم کو دین حق اور کلمہ توحید کی دعوت دیتے رہے۔ قوم کی طرف سے سخت ایذائوں کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کی قوم ان پر پتھرائو کرتی یہاں تک کہ آپ بے ہوش ہوجاتے پھر جب ہوش آتا تو ان کے لئے دعا کرتے کہ یااللہ میری قوم کو معاف کردے جب اس عمل پر طویل صدیاں گزر گئیں تو ان طویل مصائب کے بعد اس مرد خدا کی زبان پر یہ الفاظ آگئے۔:

قَالَ رَبِّ انْصُرْنِيْ بِمَا کَذَّبُوْنِ.

’’نوح (علیہ لسلام) نے عرض کی: اے میرے رب! میری مدد فرما کیونکہ انہوں نے تجھے جھٹلادیا ہے‘‘۔

دوسرے مقام پر حضرت نوح علیہ السلام نے عرض کی تھی:

’’اے میرے پروردگار! ان نافرمانوں میں سے کوئی بھی زمین پر بسنے والا نہ چھوڑ‘‘۔

یہ دعا قبول ہوئی اور پوری قوم طوفان نوح میں غرق کردی گئی۔ نوح علیہ السلام  کے بیٹے کا انجام بھی برا ہوا۔ باپ نے بیٹے کو نصیحت کی مگر اس بدبخت نے کہا کہ میں پہاڑ پر چڑھ کر جان بچالوں گا اور پھر وہ بھی ڈوبنے والوں میں ہوگیا۔

خدائی کے دعویدار نمرود مردود کا انجام

نمرود نے کہا کہ میں خدا ہوں یعنی میں تمہارے لئے اپنے سوا کسی کو معبود نہیں جانتا۔ متکبر بادشاہ تھا۔ سرکشی بغاوت اور کفر شدید نخوت و غرور سے بھرا ہوا تھا۔ اسی چیز نے اسے خدائی کے دعویٰ پر آمادہ کیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ اس نے چار سو سال تک حکومت اور بادشاہت کی تھی۔

اللہ تعالیٰ نے اس جابر بادشاہ کے پاس ایک فرشتہ بھیجا اس نے آکر اس کو اللہ پر ایمان لانے کی دعوت دی لیکن اس نے انکار کیا۔ دوبارہ دعوت دی پھر انکار کیا۔ سہ بار دعوت دی پھر انکار کیا پھر فرشتے نے کہا تو بھی اپنا لشکر جمع کر میں بھی کرتا ہوں چنانچہ نمرود نے طلوع آفتاب کے وقت اپنا تمام لشکر جمع کیا ادھر اللہ تعالیٰ نے ان پر مچھروں کا دروازہ کھول دیا۔ اس کثرت سے مچھر آئے کہ ان لوگوں کو سورج نظر بھی نہ آتا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو ان پر مسلط کردیا۔ ان مچھروں نے نہ صرف ان کے خون بلکہ ان کے گوشت پوست تک کو کھالیا اور ان کو ہڈیوں کا ڈھانچہ بناکر جنگل میں پھینک دیا۔ انہی مچھروں میں سے ایک مچھر نمرود بادشاہ کے نتھنوں میں گھس گیا اور آخر دم تک اس کے نتھنے میں رہا۔

اللہ تعالیٰ نے اس کو اس مچھر کے ذریعے ایسا سخت عذاب دیا کہ اس کا سر ہتھوڑوں سے کچلا جاتا تھا حتی کہ اللہ نے اس مچھر کے ذریعے اس کو ہلاک کردیا گیا۔

خدائی کے دعویدار فرعون کا عبرتناک انجام

دراصل فرعون کسی شخص کا ذاتی نام نہیں تھا بلکہ قدیم شاہان مصر کا لقب تھا۔ جیسے ہمارے زمانے میں بھی کل تک جرمنی کے بادشاہ کو قیصر، روس کے تاجدار کو زار، ترکی کے فرمانروا کو سلطان اور والئی دکن کو نظام کہتے تھے۔ آج بھی صدر، و وزیراعظم، شاہ اور چانسلر جیسے الفاظ ملک کے اعلیٰ ترین منصب پر فائز افراد کے لئے استعمال ہوتے ہیں۔ اس منصب میں کچھ ایسی تاثیر ضرور ہے کہ اس پر متمکن ہونے کے بعد دماغ گھومنے لگتا ہے۔ اقتدار کے ایوانوں میں پہنچتے ہی حکمران بہکی بہکی باتیں اور خدائی دعوے کرنے لگتا ہے۔ ساون کے اندھے کی طرح اسے ہر سو سبزہ ہی سبزہ دکھائی دیتا ہے۔ سبزے کا انجام اس کی نظروں سے اوجھل رہتا ہے۔ وہ بھول جاتا ہے کہ لہلہاتی کھیتی ایک دن خزاں کی زد میں ہوگی۔ بڑھاپا جوانی پر چھاجائے گا، ہریالی کو زردی اپنی لپیٹ میں لے لے گی، کھیتی چورا چورا ہوجائے گی۔ اسے پیروں تلے روندا جائے گا۔ ہر طرف خاک اڑے گی اور نام صرف اسی کا باقی رہے گا جس کی ذات اور اقتدار کو زوال نہیں۔

جب زمین پر اکڑ کر چلنے والے فرعون اور نمرود اپنی تدبیروں کو عملی جامہ پہنارہے ہوتے ہیں تو ارض و سما کا خالق بھی تدبیر کررہا ہوتا ہے اور بالآخر اسی کی تدبیر غالب آکر رہتی ہے۔ باقی سب تدبیریں لکڑی کا جالہ ثابت ہوتی ہیں پھر ایسا بھی ہوتا ہے کہ فرعون کے گھر میں موسیٰ پیدا ہوجاتا ہے وہ خود اس کی پرورش کرتا ہے اور اس کی جوانی دیکھ دیکھ کر خوش ہوتا ہے وہ نہیں جانتا کہ یہ جوانی اس پر آسمانی بجلی بن کر گرنے والی ہے۔ یہ معجزہ کل بھی رونما ہوا تھا اور آج بھی رونما ہوسکتا ہے۔

اس کی رونمائی میں انسانی عقل کے اعتبار سے تاخیر ہوسکتی ہے مگر کائنات کا نظام چلانے والے کے ہاں یہ تاخیر نہیں ہوتی۔ اس کے ہاں سمندر کے پھیلنے اس پر سورج کی شعاعیں پڑنے اور بخارات اٹھنے، بادل بننے، ہوائوں کے چلنے، قطرے بننے اور زمین پر برسنے کا ایک انتظام ہے۔ یقینا وہ اس نظام کا محتاج نہیں وہ وہی کرتا ہے جو اللہ کی حکمت اور مشیت کا تقاضا ہوتا ہے۔ مصر کے ستم زدوں کو بھی برس ہا برس فرعون کی ہلاکت کا انتظار کرنا پڑا جب خدائی کا وہ دعویدار دریا کی بپھری ہوئی موجوں میں غرق ہوگیا تو آسمان سے اعلان کیا۔

فَالْيَوْمَ نُنَجِّيْکَ بِبَدَنِکَ لِتَکُوْنَ لِمَنْ خَلْفَکَ اٰيَةً.

 (يونس، 10:92)

’’(اے فرعون!) سو آج ہم تیرے (بے جان) جسم کو بچالیں گے تاکہ تو اپنے بعد والوں کے لیے (عبرت کا) نشان ہوسکے‘‘۔

فرعون کی میت آج بھی قاہرہ کے عجائب گھر میں موجود ہے اور بصارت اور بصیرت رکھنے والے انہیں دیکھ کر عبرت حاصل کرتے ہیں۔

ہاتھی والے لشکر کا عبرتناک انجام

قرآن مجید کی سورہ الفیل میں ایک اہم واقعہ ارشاد فرمایا گیا ہے جو یقینا باعث عبرت ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہورہا ہے:

اَلَمْ تَرَ کَيْفَ فَعَلَ رَبُّکَ بِاَصْحٰبِ الْفِيْلِ.

(الفيل،105:1)

’’کیا تو نے نہیں دیکھا کہ تیرے رب نے ہاتھی والوں کے ساتھ کیسا سلوک کیا‘‘۔

اس سورہ اصحاب فیل کے واقعہ کا مختصر بیان ہے کہ انہوں نے بیت اللہ کو مسمار کرنے کے قصد سے ہاتھیوں کی فوج لے کر مکہ مکرمہ پر چڑھائی کی تھی۔ حق تعالیٰ نے معمولی پرندوں کے ذریعے ان پر آسمانی عذاب نازل فرماکر نیست و نابود کرکے ان کے عزائم کو خاک میں ملادیا۔

زنا اور لواطت کا انجام

قرآن مجید فرقان حمید میں ارشاد فرمایا گیا:

وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنٰی اِنَّهُ کَانَ فَاحِشَةًط وَسَآءَ سَبِيْلاًo.

(بنی اسرائيل:32)

’’اور تم زنا (بدکاری) کے قریب بھی مت جانا بے شک یہ بے حیائی کا کام ہے، اور بہت ہی بری راہ ہے‘‘۔

اور کئی جگہ ایمان والے لوگوں کی یہ صفات بیان کی گئی ہیں کہ ’’وہ اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں۔ زنا نہیں کرتے اور جائز محل کے علاوہ شہوت پوری نہیں کرتے۔ (سورہ مومنون، سورہ معارج وغیرہ)

نیز اسلام نے زنا کی ایسی سخت سزا مقرر کی ہے جس کے تصور سے ہی رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں یعنی اگر ثبوت مل جائے تو کنوارے مجرم کو سوکوڑے اور شادی شدہ کو سنگسار کرنے کا حکم ہے۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے ارشاد فرمایا:

لا يزنی الزانی حين يزنی وهو مومن.

(مسلم شريف)

’’زنا کار زنا کرتے وقت (کامل) مومن نہیں رہتا‘‘۔

یعنی یہ ایک ایسی نحوست ہے جس سے معاشرتی نظام تباہ و برباد ہوجاتا ہے اور گھر گھر فتنہ و فساد کی نوبت آجاتی ہے، خون خرابہ ہوجاتا ہے حتی کہ نسلیں تک مشتبہ ہوجاتی ہیں۔ ایک اور حدیث میں وارد ہے کہ تین آدمیوں سے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن گفتگو نہیں کرے گا۔

  • بوڑھا زنا کار۔
  • جھوٹا بادشاہ۔
  • قلاش متکبر

(رواه مسلم شعب الايمان، 36013)

یہ قرب قیامت کی علامت ہے جو آج ہر طرف بے حیائی اور عریانی کا سیلاب آیاہوا ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  اپنی امت کو پہلے ہی آگاہ فرماچکے ہیں تاکہ امت ان فواحش سے بچنے کی تدبیر کرے۔

حدیث مبارکہ ہے کہ

’’قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی جب تک لوگ جانوروں کی طرح راستوں میں (سرعام) جماع کریں گے اور مرد مردوں سے اور عورتیں عورتوں سے اپنی خواہش پوری کریں گی‘‘۔

یعنی شرم و حیا کا بالکل جنازہ نکل جائے گا۔ زناکاری موجب عار نہ رہے گی اور اس معاملے میں جانوروں اور انسانوں میں تمیز ختم ہوجائے گی۔

ایسے پرفتن دور میں ہر مسلمان کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ غیروں کی دیکھا دیکھی اپنی انسانیت اور شرم و حیاء کو دائو پر نہ لگائے بلکہ اس کی بھرپور حفاظت کرے اور گھرکے افراد کی نقل و حرکت پر پوری نگاہ رکھے اور اپنے ایمانی ماحول کو گندا اور نجس نہ ہونے دے اور اللہ تعالیٰ سے حفاظت کی دعا کرتا رہے۔

ہم جنس پرستی اور لواطت کرنے والوں کا دنیا میں انجام

قوم لوط پر اللہ کا عذاب آیا حضرت مجاہدؒ فرماتے ہیں کہ حضرت جبرائیل ؑ نے ان سب کو جمع کرکے ان کے مکانات اور مویشیوں سمیت اونچا اٹھالیا یہاں تک کہ ان کے کتوں کے بھونکنے کی آوازیں آسمان کے فرشتوں نے سن لیں پھر انہیں زمین پر الٹ دیا۔ ایک کو دوسرے کے ساتھ ٹکرادیا اور سب ایک ساتھ غارت ہوگئے۔ جو باقی رہ گئے تھے ان کے دماغ آسمانی پتھروں نے پھوڑ دیئے اور ان کی بستیاں بے نام و نشان کردی گئیں۔

یہ گندی عادتیں دراصل ایمانی کمزوری کا نتیجہ ہیں۔ آج کا بے حیا معاشرہ شرم و حیا سے عاری ہوکر انسان ہونے کے باوجود اپنے آپ کو رذیل جانوروں کی صف میں کھڑا کرچکا ہے ہم جنسی یعنی مردوں کا مردوں سے اور عورتوں کا عورتوں سے خواہشات پوری کرنے کا عمل وہ منحوس اور بدترین جرم ہے جس کا دنیا میں سب سے پہلے قوم لوط نے ارتکاب کیا جس کی وجہ سے اس قوم کو دنیا میں ہی ایسا بھیانک عذاب دیا گیا جس کی نظیر دنیا کی تاریخ میں نہیں ملتی ان کی بستیوں کو الٹ کر انہیں پتھروں سے سنگسار کیا گیا۔ جس جگہ یہ بستیاں الٹی گئی تھیں وہاں بحر مردار کے نام سے ایسا سمندر بن گیا جس میں کوئی جاندار زندہ نہیں رہتا۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے ارشاد فرمایا:

ان من اخوف ما اخاف علی امتی اوعلی هذه الامة عمل قوم لوط.

(شعب الايمان4/534)

’’ان بدترین چیزوں میں جن کا مجھے اپنی امت پر سب سے زیادہ خطرہ ہے وہ قوم لوط کا عمل ہے‘‘۔

اگر پاکستانی معاشرہ اس حدیث مبارکہ کو سمجھ لے توان شاء اللہ معاشرہ سدھر جائے گا۔ ورنہ اس دنیا میں بھی اللہ کے عتاب کا نشانہ بننا پڑے گا اور قبر میں رو رو کر عرض کرے گا کہ یا اللہ میں بھول گیا میں غلطی کر بیٹھا۔ یا اللہ تو مجھے ایک بار دنیا میں بھیج دے میں کوئی گناہ کوئی برائی نہیں کروں گا۔ اس پر یہ فرمان جاری ہوگا کہ یہ ہرگز نہیں ہوسکتا کہ تجھے دوبارہ دنیا میں بھیجا جائے۔

وَمِنْ وَّرَآئِهِمْ بَرْزَخٌ اِلٰی يَوْمِ يُبْعَثُوْنَ.

(المومنون،23:100)

’’اور ان کے آگے اس دن تک ایک پردہ (حائل) ہے (جس دن) وہ (قبروں سے) اٹھائے جائیں گے‘‘۔

قرآن کریم فرمارہا ہے:

وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ.

 (الذاريات، 51:56)

’’ہم نے جن و انس کو صرف اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے‘‘۔

مگر ہم نے نظریہ بنالیا کہ ہم دنیا میں عیش کرنے آئے ہیں۔

قارئین محترم! جو بھی واقعات پیش کئے گئے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اے نافرمان قوم اے سرکشی کی راہ پر چلنے والے انسان دیکھ لے کہ جن لوگوں نے اللہ کی نافرمانی کی دنیا میں یقینا ان لوگوں کا انجام اچھا نہیں ہوا۔ آج بھی ان کے نقش قدم پر چلنے کی شعوری یا لاشعوری کوشش کسی بھی انسان کو ذلت اور رسوائی کے سوا کچھ نہیں دے گی۔ اللہ کا نافرمان کوئی بھی ہو۔ امیر ہو یا غریب، گورا ہو یا کالا، حاکم ہو یامحکوم، عربی ہو یا عجمی سب کو اپنے اعمال پر نظر ثانی کرنی چاہئے۔ منزل پر پہنچنے سے پہلے صحیح منزل کا تعین ضروری ہے۔

شیطان کی خوشنودی کا کوئی بھی کام رحمان کی خوشنودی کا باعث کبھی نہیں بن سکتا۔ کعبے کی طرف چلنے کے لئے اپنا منہ، دل، دماغ، اعمال سب کعبے کی طرف ہی کرنے پڑیں گے تبھی منزل ملے گی۔ ورنہ یہ سیلاب یہ زلزلے یہ اندھیرے یہ مہنگائیاں، یہ حادثات یہ اتفاقی امر نہیں بلکہ اللہ کی طرف سے وارننگ ہے۔