حافظ محمد سعید رضا بغدادی

درس نمبر55 آیت نمبر119 تا 121 (سورۃ البقرہ)

ترجمہ

اِنَّآ أَرْسَلْنَاکَ بِالْحَقِّ بَشِيْراً وَّنَذِيْراً وَّلَاتُسْئَلُ عَنْ

متن اِنَّا أَرْسَلْنَاکَ بِالْحَقِّ بَشِيْرًا وَّ نَذِيْرًا وَلَا تُسْئَلُ عَنْ
لفظی ترجمہ بیشک ہم ہم نے بھیجاآپکو حق کے ساتھ خوشخبری سنانیوالا اور ڈرانیوالا اور نہیں تجھ سے سوال ہوگا سے
عرفان القرآن بیشک ہم نے آپ کو حق کے ساتھ خوشخبری سنانے والا اورڈرانیوالا بنا کر بھیجا ہے اور آپ سے پرسش نہیں کی جائیگی

أَصْحَابِ الْجَحِيْمِO وَلَنْ تَرْضٰی عَنْکَ اْليَهُوْدُ وَلَاالنَّصٰرٰی

متن أَصْحَابِ الْجَحِيْمِ وَ لَنْ تَرْضٰی عَنْکَ الْيَهُوْدُ وَ لَا النَّصٰرٰی
لفظی ترجمہ اصحاب دوزخ اور ہرگزنہیں خوش ہونگے آپ سے یہود اور نہ نصرانی
عرفان القرآن اہل دوزخ کے بارے میں اور یہود ونصاریٰ آپ سے (اس وقت تک) ہرگزخوش نہیں ہو ں گے

حَتّٰی تَتَّبِعَ مِلَّتَهُمْ ط قُلْ إِنَّ هُدَی اللّٰهِ هُوَ الهُدٰی

متن حَتّٰی تَتَّبِعَ مِلَّتَهُمْ قُلْ إِنَّ هُدَی اللّٰهِ هُوَ الْهُدٰی
لفظی ترجمہ یہاں تک کہ آپ پیروی کریں مذہب انکے فرمادیں بیشک ہدایت اللہ کی وہ حقیقی ہدایت ہے
عرفان القرآن جب تک آپ انکے مذہب کی پیروی اختیار نہ کر لیں‘ آپ فرما دیں کہ بیشک اللہ کی ہدایت ہی حقیقی ہدایت ہے

وَلَئِنِ اتَّبَعَتَ أَهْوَآءَ هُمْ َبعْدَ الَّذِيْ جَآئَ کَ مِنَ الْعِلْمِ

متن وَ لَئِنِ اتَّبَعَتَ أَْهوَآءَ هُمْ بَعْدَ الَّذِيْ جَاءَ کَ مِنَ الْعِلْمِ
لفظی ترجمہ اور اگر آپ نے پیروی کی خواہشات کی انکی بعد اسکے کہ آیاتمہارے پاس کوئی علم
عرفان القرآن اور اگر (بفرض محال)آپ نے اس علم کے بعد جو آپ کے پاس آ چکا ہے۔ ان کی خواہشات کی پیروی کی

مَالَکَ مِنَ اللّٰهِ مِنْ وَّلِیٍّ وَّلَا نَصِيْرٍO اَلَّذِيْنَ

متن مَا لَکَ مِنَ اللّٰهِ مِن وَّلِیٍ وَ لَا نَصِيْرٍ اَلَّذِيْنَ
لفظی ترجمہ نہیں تمہارے لئے اللہ کی طرف سے کوئی دوست اور نہ مددگار وہ لوگ کہ
عرفان القرآن توآپ کیلئے اللہ سے بچانے والا نہ کوئی دوست ہو گا اور نہ کوئی مددگار(ایسے لوگ بھی ہیں) جنہیں

اٰتَيْنَاهُمُ الْکِتَابَ يَتْلُوْنَه حَقَّ تِلَاوَتِه ط أُوْلٰئِکَ يُوْمِنُوْنَ بِهط

متن اٰتَيْنَا هُمُ الْکِتَابَ يَتْلُوْنَه حَقَّ تِلَاوَتِه أُوْلئِکَ يُؤْمِنُوْنَ بِه
لفظی ترجمہ دی ہم نے جنکو کتاب پڑھتے ہیں اسے جیساحق ہے اسے پڑھنے کا وہی لوگ ایمان لاتے ہیں اس پر
عرفان القرآن ہم نے کتاب دی وہ اسے اس طرح پڑھتے ہیں جیسے پڑھنے کا حق ہے‘ وہی لوگ اس پر ایمان رکھتے ہیں

وَمَنْ يَکْفُرْبِه فَأُوْلٰئِکَ هُمُ اْلخَاسِرُوْنَO

متن وَ مَنْ يَکْفُرْ بِه فَاُوْلٰئِکَ هُمُ الْخَاسِرُوْنَ
لفظی ترجمہ اور جو انکارکریں اس کا پس وہی ہیں وہ نقصان اٹھانیوالے
عرفان القرآن اورجو اس کا انکار کر رہے ہیں سووہی لوگ نقصان اٹھانے والے ہیں۔

تفسیر

  • اِنَّاارْسَلْنَاکَ بِالْحَقِّ۔۔۔۔ رسالت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تصدیق
  • منکرین کی نسبت انبیاء سے جواب طلبی نہیں کی جاتی۔
  • داعیان حق کے ذمہ یہ نہیں ہوتا کہ ان کی بات کس نے مانی اور کس نے نہیں مانی، دعوت کا انکار کرنے والوں کی بابت داعیان حق سے باز پرس اور جواب طلبی نہیں کی جاتی منکرین کے انکار کے باوجودبھی دعوت حق پر مبنی ہی رہتی ہے۔

وَلَنْ تَرْضٰی عَنْکَ الْيَهُوْدُ وَالنَّصٰری ... الخ

  • آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے دعوت وجدوجہد کے بعض آداب وہدایات ۔
  • یہود ونصاریٰ کسی قیمت پر بھی نظام اسلام سے خوش نہیں ہوں گے۔
  • یہود ونصاریٰ کے نظام کی پیروی سے عذاب الٰہی کی آمد۔

امت کے اہل فکر وقیادت کو جان لینا چاہیے کہ جب تک مسلمان اسلام کی راہ پر ہیں عالم یہودیت اور عالم عیسائیت دونوں ان سے کبھی خوش نہیں ہو سکتے خواہ مسلم ممالک ہزار دفعہ ان کی پالیسیوں کی تائید کرتے رہیں۔ مغربی سامراج کی طاقتیں صرف اسی وقت عالم اسلام یا کسی مسلم سلطنت سے خوش ہوں گی جب وہ اسلامی نظام اور اسلامی طرز حیات کو چھوڑ کر سیکولر ہو جائیں گی۔آج بنیاد پرستی اور غیر بنیاد پرستی کا جھگڑا اسی حوالے سے ہے ۔

’’حَتَّی تَتَّبِعَ مِلَّتَهُمْ‘‘ اور’’ لَئِنِ اتَّبَعْتَ اهْوَائَهُمْ‘‘

کی صورت میں اگر مسلمان ان استعماری اور طاغوتی طاقتوں کا فلسفہ حیات اور ان کا عطا کردہ نظام عالم مان لیں جسے New World Order کے نام سے پیش کیا جا رہا ہے۔ تو خدا کے عذاب او رتباہی سے نہیں بچ سکیں گے۔

اَلَّذِيْنَ اٰتَيْنٰهُمُ الْکِتَابَ.... الخ

  • کتاب الٰہی کا حق تلاوت ادا کرنے والے ہی اصل مومن ہیں۔
  • کتاب الٰہی کا انکار کرنے والے ہی خسارے میں ہوں گے۔

(تفسير منهاج القرآن)

ساتھ ہی فرمایا کہ اسلام کی حقانیت کی سب سے بڑی دلیل خود آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات ہے جو آپ کی ہمہ صفت موصوف اور با کمال ہستی کو دیکھ کر ہدایت قبول نہیں کرتے انہیں کوئی اورمعجزہ یا دلیل کیونکر راہ ہدایت دکھا سکتی ہے۔

(تفسير ضياء القرآن)

عَنْ قَيْسِ بْنِ مَخْرَمَةَ ص قَالَ: وُلِدْتُ أَنَا وَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم عَامَ الْفِيْلِ قَالَ: وَسَأَلَ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ ص قُبَاثَ بْنَ أَشَيْمَ أَخَا بَنِي يَعْمَرَ بْنِ لَيْثٍ أَ أَنْتَ أَکْبَرُ أَمْ رَسُوْلُ اﷲِ؟ فَقَالَ: رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم أَکْبَرُ مِنِّي وَ انَا أَقْدَمُ مِنْهُ فِي الْمِيْـلَادِ… الحديث. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالْحَاکِمُ. وَقَالَ أَبُوْعِيْسَی: هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ.

’’حضرت قیس بن مخرمہ ص روایت کرتے ہیں کہ میں اور حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عام الفیل میں پیدا ہوئے۔حضرت عثمان بن عفان ص نے بنی یعمر بن لیث کے بھائی قباث بن اشیم سے پوچھا: آپ بڑے ہیں یا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بڑے ہیں؟ انہوں نے کہا: رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھ سے بڑے ہیں اور میری تو (صرف) ولادت پہلے ہے۔‘‘