منہاج القرآن ویمن لیگ کی سرگرمیاں

محفل میلاد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کمالیہ (رپورٹ: ساجدہ پروین)

مورخہ 28 اپریل 2013ء کو منہاج القرآن ویمن لیگ کمالیہ کی صدر مسز عابدہ مشتاق کے زیر سرپرستی پانچویں سالانہ محفل میلاد بشیر نوشاہی میرج ہال پر منعقد ہوئی۔ جس میں کمالیہ کی تمام UC سے 1000 خواتین اور دیگر تنظیمات شورکوٹ اور رجانہ نے شرکت کی۔ محفل کا باقاعدہ آغاز تلاوت قرآن مجید سے ہوا۔ تلاوت قرآن پاک کی سعادت محترمہ مدیحہ فرید نے حاصل کی۔ نقابت کے فرائض محترمہ ساجدہ پروین اور محترمہ بشریٰ رفیق نے سرانجام دیئے۔ منہاج نعت کونسل شور کوٹ، کمالیہ اور لاہور نے حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی بارگاہ اقدس میں درود و سلام کے تحفے پیش کئے۔

محترمہ گلشن ارشاد مرکزی ناظمہ تربیت نے خطاب کرتے ہوئے اطاعت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روشناس کرایا اور موجودہ کرپٹ نظام کے خلاف 11 مئی کے دھرنے کا پیغام دیا جس کے بعد محفل کا اختتام درود و سلام پر ہوا۔ دعائیہ کلمات محترمہ شوقیہ تبسم نے ادا کئے۔

بانی پاکستان کی رہائش گاہ پر حملہ ۔۔ پاکستان عوامی تحریک ویمن لیگ لاہور کا احتجاج

پاکستان عوامی تحریک ویمن ونگ لاہور کے زیر اہتمام بانی پاکستان محمد علی جناح رحمہ اللہ علیہ کی ریذیڈنسی پر حملہ اور اسے جلانے کے مذموم عمل، ویمن یونیورسٹی کوئٹہ اور بولان میڈیکل کمپلیکس پر دہشت گردی کے خلاف لاہور پریس کلب کے باہر پرامن احتجاجی مظاہرہ کیا گیا جس میں سینکڑوں خواتین نے شرکت کی۔ خواتین نے احتجاجی کتبے اٹھا رکھے تھے اور وہ بلوچستان میں دہشت گردی کے واقعات کے خلاف سراپا احتجاج تھیں۔ کچھ خواتین شیر خوار بچوں کے ساتھ بھی شریک تھیں۔ خواتین نے قائد اعظم رحمۃ اللہ علیہ کی تصاویر بھی اٹھا رکھی تھیں جن پر قائد ہم شرمندہ ہیں کی عبارت درج تھی۔ پاکستان عوامی تحریک ویمن ونگ کی مرکزی صدر محترم نوشابہ ضیائ، مرکزی نائب صدر محترمہ ساجدہ صادق اور صدر لاہور محترمہ ارشاد اقبال نے خطابات کرتے ہوئے ان واقعات کی پرزور مذمت کی۔

پاکستان عوامی تحریک کے زیراہتمام مرکزی سیکرٹریٹ میں پری بجٹ سیمینار

پاکستان عوامی تحریک کی فیڈرل کونسل کے صدر اور وطن عزیز کے نامور اکانومسٹ ڈاکٹر حسین محی الدین القادری نے ماڈل ٹاؤن سیکرٹریٹ میں ہونے والے پری بجٹ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اگر حکومت عوامی جذبات کی نمائندہ نہ ہو تو وہ انکی توقعات پر پورا نہیں اترسکتی۔ جو ملک کی معیشت کو پچھلے 5, 6 سال سے نہیں سنبھال سکے وہ اب کیسے سنواریں گے؟ کرنسی جس تیزی سے ڈی ویلیو ہو رہی ہے خدشہ ہے کہ اسکی حالت انڈونیشیا جیسی نہ ہو جائے۔ تنخواہوں میں 10 سے 20 فیصد اضافہ کر دیا جاتا ہے جبکہ مہنگائی کا تناسب اس سے کہیں زیادہ ہوتا ہے۔ ملٹری کے بجٹ میں ایک سے سوا بلین روپے کا اضافہ کر دیا جائے گا۔ زرعی سیکٹر موت کے دہانے پر ہے جبکہ کبھی یہ معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہوتا تھا۔ زرعی انڈسٹری کو ہمیشہ نظر انداز کیا جاتا رہا ہے جو بہت بڑی غلطی ہے۔ زرعی انڈسٹری کو زندہ کر دیا جائے تو 50 فیصد روزگار کا مسئلہ بھی حل ہو جائے گا۔ اگلے پانچ سے دس سالوں میں دنیا بھر میں فوڈ سیکیورٹی کا بڑا مسئلہ آنے والا ہے۔ پاکستان کے پاس زرخیز زمین اور ہر طرح کا موسم ہے۔ سمال، میڈیم اور بڑے لون دے کر پاکستان میں سبز انقلاب لانے کی ضرورت ہے۔ ہمارا المیہ ہے کہ ہم اپنا اصل میدان جو زراعت ہے، کو چھوڑ کر دوسرے ملکوں کے پیچھے چل پڑے ہیں۔ IMF کی شرائط پر عمل کر کے نہ نظر آنے والے ٹیکس بھی لگ جائیں گے۔ موجودہ نظام پاکستان کی معیشت کا اصل دشمن ہے جس میں ایک ماہر اکانومسٹ ملک کا بجٹ نہیں بنا سکتا۔ آج سے 65 برس قبل ایک قوم کو ملک کی تلاش تھی آج پاکستان قوم کو تلاش کر رہا ہے۔ ہمیں ایسے نظام اور قیادت کی ضرورت ہے جو ہمیں قوم بنا سکے۔

استقبالیہ کلمات پاکستان عوامی تحریک کے مرکزی صدر ڈاکٹر رحیق احمد عباسی نے ادا کئے۔ سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر مبشر حسن نے کہا ہے کہ بجٹ تب اچھا ہوتا ہے جب بجٹ دینے والے اچھے ہوں۔ عوام اچھا بجٹ چاہتے ہیں تو اچھے حکمران لائیں۔ بجٹ آئینہ ہوتا ہے حکمرانوں کی ترجیحات کا۔ عجیب ملک ہے دو لقموں کو ترسنے والوں کے حکمران ارب پتی ہیں۔ پاکستان چند کروڑ غریبوں اور چند لاکھ امیروں کا ملک ہے۔ سفید پوش طبقہ تو اب کتابوں میں ہی ملے گا۔ ہم تو اس حال کو پہنچ چکے کہ IMF کے قرض کا سود غریبوں پر ٹیکس لگا کر دیتے ہیں۔ پاکستان کا المیہ ہے کہ امیر لوگ ٹیکس نہیں دیتے اور جن سے لیا جاتا وہ تنخواہ دار طبقہ ہے۔ حکمران طبقہ پاکستان کا نہیں ذاتی مفاادت اور بڑی طاقتوں کا وفادار ہے۔

سابق وفاقی وزیر ریاض فتیانہ نے کہا کہ بجٹ میں زیادہ رول بیورو کریسی کا ہوتا ہے اگر ٹیکس چوری رک جائے تو IMF کے دروازے کا راستہ بھلایا جا سکتا ہے۔ کالا باغ ڈیم کا نام بدل کر سبز باغ ڈیم رکھ دینا چاہیے اگر یہ بن جاتا تو 7000 میگا واٹ بجلی بھی دے رہا ہوتا۔ پاکستان میں آبادی پر کنٹرول کرنے کیلئے سنجیدگی سے سوچنا ہو گا۔ زیادہ آمدنی والوں اور بڑی گاڑیوں پر ٹیکس کی شرح بڑھانا ہو گی۔ سرکاری دفاتر میں AC کے استعمال پر پابندی لگانا ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ نوجوانوں کیلئے یوتھ پالیسی بنانا ہو گی تا کہ ٹیلنٹ ملک کے کام آ سکے۔ نوجوانوں کو تعمیری سرگرمیاں دینا حکومت کی اولین ترجیح ہونا چاہیے۔

ممتاز ماہر معاشیات پروفیسر ڈاکٹر قیس اسلم نے کہا کہ آنے والا بجٹ عوام دوست نہیں ہو گا، ملٹری، سول اور سیاسی بیورو کریسی کے معاملات تو اچھے چلیں گے۔ یہ دنیا کا واحد ملک ہے جہاں غریب امیروں کو کھلاتے ہیں۔ امن کا ماحول پیدا کرنے کیلئے ہمسایوں خصوصاً ایران، انڈیا اور چین سے دوستی کرنا ہو گی۔ ٹیکس کے نظام کو عوام دوست اور بزنس دوست بنانا ہو گا۔ ریلوے کی بات تو ہوتی ہے کیوں نہ PIAکو پرائیوٹائز کر دیا جائے۔ گریڈ 1 سے 16 کی تنخواہوں میں 100 فیصد اضافہ کر کے مراعات کا کلچر ختم کر دیا جائے۔ ہمارا المیہ ہے کہ حکومتی ادارے بجلی کا بل نہیں دیتے۔

چیئرمین ایگر ی فورم پاکستان ابراہیم مغل نے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آئین پابند کرتا ہے کہ بجٹ پیش کیا جائے۔ وزیر خزانہ کی اپنی ساری انویسٹمنٹ دبئی میں ہے وہ دوسروں کو کس منہ سے ملک میں سرمایہ لانے کا کہہ رہے ہیں۔ اسلامی ممالک کے 400 بلین ڈالر مغربی بینکوں میں پڑے ہیں اسلامی ممالک اپنا بینک کیوں نہیں بناتے۔ GDP میں اضافے کے پانچ ستون ہوتے ہیں ان پر توجہ دینا ہو گی۔ ملک میں میگا پراجیکٹ شرو ع کئے جائیں، قدرتی وسائل سے فائدہ اٹھایا جائے۔ زرعی گروتھ اور بزنس گروتھ غیر معمولی طور پر بڑھائی جائے اور سروسز کے کلچر کو عام کیا جائے۔ گریڈ ایک سے سولہ کی تنخواہیں 60 فیصد 17 سے 19 کی 20 فیصد اور 20 سے 22 کی 10فیصد بڑھا دی جائیں اور مراعات کا کلچر ختم کر دیا جائے۔ 75فیصد سرکاری گاڑیاں بیچ دی جائیں۔

ممتاز اکانومسٹ اور بینکار شاہد اے ضیاء نے کہا کہ خسارے کا بجٹ ہو گا اور آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑے گا۔ ٹیکس ایشو نہیں ٹیکس کا جمع کرنا مسئلہ ہے۔ مسئلہ سرجری سے حل ہو گا مگر مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے پاس عطائی تو ہیں سرجن نہیں ہیں۔ FBR میں عزم نہیں ہے۔ پاکستان میں صحت اور تعلیم کے دونوں شعبے ہر دور میں نظر انداز کئے گئے جبکہ پوری دنیا میں ان پر سب سے زیادہ توجہ دی جاتی ہے۔ قریبی ہمسایوں کے ساتھ تجارت کا راستہ کھولنا چاہیے۔ ہمارے بے وقوف حکمران سمندر پار تجارت کو ترجیح دیتے ہیں۔ وسائل اور آبادی ددونوں چین اور انڈیا کے پاس ہیں۔ ڈیم بنانے سے فائدہ ہی فائدہ ہے چاہے یہ بڑے ہوں یا چھوٹے۔ ٹیکس کولیکشن کیلئے تاجروں کو اعتماد میں لے کر آگے بڑھا جائے۔المیہ یہ ہے کہ ٹیکس کی Base نہیں بڑھائی جا رہی۔

قائدین اور مرکزی سیکرٹریٹ کے سٹاف کا ناران، کاغان اور جھیل سیف الملوک کا تفریحی وزٹ

(رپورٹ: ملکہ صبا)

28 مئی 2013ء کو علی الصبح بعد نماز فجر قائدین اور کارکنان سیکرٹریٹ پر جمع ہوئے اور یہ قافلہ نہایت آب و تاب سے 6بجے لاہور سے اپنی منزل کی جانب رواں دواں ہوا۔ سفر نہایت دلکش تھا۔ رب قادر کی نصرت ہمہ وقت ہمارے ساتھ رہی۔ قبل ازیں لاہور کا موسم نہایت گرم تھا مگر اس صبح موسم اتنا خوشگوار تھا کہ ہلکی پھلکی پھوار کا منظر پیش کرنے لگا۔ جب ناشتہ کے لئے کلر کہار جاکر قافلہ رکا تو اس وقت اس قدر دلفریب مناظر تھے جو ناقابل بیان ہیں۔ ٹھنڈی ہوائیں، چاروں اطراف سرسبز لہلہاتے درخت اور پھر بارش کی بوندا باندی نے اس کا لطف دوبالا کردیا تھا۔ اس موسم میں انقلابی ترانوں کی آواز جب فضا میں گونجی تو وہ منظر دیدنی تھا۔ قائدین و کارکنان کے علاوہ ہوٹل کے چاروں اطراف میں کھڑے لوگ بھی محظوظ ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ یہ قافلہ جس کی قیادت ناظم اعلیٰ محترم شیخ زاہد فیاض اور صدر PAT ڈاکٹر رحیق احمد عباسی کررہے تھے اور جس کو محترم جواد حامد (ناظم اجتماعات) نے Organise کیا تھا۔ مرکزی ناظم رابطہ علماء و مشائخ اور منیجنگ ایڈیٹر ماہنامہ دختران اسلام صاحبزادہ محمد حسین آزاد الازہری کے علاوہ دیگر قائدین بھی شریک سفر تھے۔ یہ قافلہ 6 گاڑیوں پر مشتمل تھا جس میں 4 عدد AC کوسٹرز اور دو عدد ٹوڈی کاریں تھیں۔ تقریباً 90افراد سے بھرپور یہ قافلہ قطار در قطار اپنی منزل کی جانب بڑھ رہا تھا۔ گاڑیوں پر PATکے جھنڈے لگے ہوئے تھے اور یہ چھوٹے سے لانگ مارچ کا منظر پیش کررہا تھا۔

قافلہ تقریباً ڈیڑھ بجے دن ہری پور میں سپیریئر سائنس سکول پہنچا جہاں تحریک منہاج القرآن ہری پور تنظیم کے احباب نے والہانہ استقبال کیا۔ وہاں قافلے کے لئے ظہرانے کا اہتمام تھا۔ نماز ظہر کی ادئیگی اور تقریباً ایک گھنٹہ Stay کے بعد دوبارہ قافلہ اپنی منزل کی جانب رواں دواں ہوا اور نہایت حسین وادیوں سے ہوتا ہوا Haronoiکے نہایت پرفضا مقام پر 3:15 بجے پہنچا اور وہاں پر ایک چھوٹی سی جھیل کے کنارے برف سے زیادہ ٹھنڈے پانی میں بیٹھ کر لطف اندوز ہوئے تو گرم پکوڑوں اور چائے نے لطف دوبالا کردیا۔ قافلہ دوبارہ منزل کی جانب رواں دواں ہوا تو راستے کے حسین مناظر کو دیکھ کر ہر شخص کا چہرہ دمک رہا تھا۔ قافلہ رات 8 بجے مانسہرہ آشیانہ ہوٹل پہنچا تو بارش کی رم جھم شروع ہوگئی جسے دیکھ کر ہر کوئی محظوظ ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔

نماز عشاء کی ادائیگی کے بعد آرام کیا گیا اور پھر صبح ناشتہ کرکے قافلہ کے احباب ناران کاغان کی طرف روانہ ہوئے۔ جیسے جیسے ہم آگے جاتے تھے موسم مزید بہتر سے بہتر ہوتا جاتا تھا۔ جونہی قافلہ نے ناران ویلی میں قدم رکھا تو وہاں ایک لکڑی کے پل کے نیچے دریا بہہ رہا تھا اور چاروں طرف پہاڑ تھے۔ یہ اس قدر دلفریب منظر تھا کہ دل چاہتا تھا بس یہیں رہ جائیں۔ تقریباً 3:30 بجے مدینہ ریسٹورنٹ میں رک کر نماز ظہر ادا کی گئی۔ یوں ہم ان مناظر سے محظوظ ہوتے ہوئے 7:30 بجے شام ہرینہ ہوٹل پہنچے جو ایک نہایت خوبصورت چشمہ پر آباد تھا جہاں ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں چل رہی تھیں۔ نہایت شدید سردی میں گرم کھانے اور چائے نے مزہ دوبالا کردیا۔ یوں اس حسین وادی میں صبح کا منظر نہایت دلفریب تھا لہذا سب نے یہاں کے حسیں منظر کو اپنے کیمروں میں محفوظ کرلیا اور تمام قافلہ ان حسین وادیوں میں اپنے رب کی بارگاہ میں سجدہ شکر بجا لاتا رہا جسکا فریضہ صاحبزادہ محمد حسین آزاد الازہری وقت مقررہ پر ادا کرتے رہے۔ ہم تمام ویمن لیگ کی بہنیں جن کی قیادت محترمہ نوشابہ ضیاء (مرکزی ناظمہ ویمن لیگ) کررہی تھی نہایت پرمسرت تھیں۔ پھر ہمارا قافلہ جھیل سیف الملوک کی طرف روانہ ہوا۔ راستے میں برف سے اٹے گلیشئر دیکھ کر خوشی کی انتہاء نہ رہی۔ جوں جوں آگے بڑھتے تھے تو اپنے رب کی نعمتوں کا شکر ادا کرتے تھے کہ رب قادر نے بنی نوع انسان کے لئے اپنی قدرت کی کتنی حسین نشانیاں اور اس قدر روح پرور مناظر بنائے ہیں جن کو دیکھ کر انسان حیران و ششدر رہ جاتا ہے اور یہ یقین کامل ہوجاتا ہے کہ رب تعالیٰ موجود ہے۔

جھیل سیف الملوک کا سفر کچھ پیدل کچھ گھوڑوں پر طے کرکے جب قافلہ منزل پر پہنچا تو برف باری شروع ہوگئی تو یہ منظر دیدنی تھا۔ قرآن حکیم کی وہ آیت بار بار یاد آتی ہے جس میں فرمایا گیا تھا:

فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ.

’’تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے‘‘۔

جھیل سیف الملوک پہنچ کر ہر زبان پر یہی حمد تھی۔ ’’کوئی تو ہے جو نظام ہستی چلا رہا ہے۔ وہی خدا ہے‘‘۔ اس مقام پر سب نے خوبEnjoy کیا۔ آئس سلائڈنگ کا مقابلہ ہوا۔ جیتنے والوں میں قائدین نے انعامات تقسیم کئے۔ خواتین جھیل سیف الملوک میں کشتی کے سفر سے محظوظ ہوئیں اور قافلہ کے دیگر لوگ گلیشئر پر برف کے گولوں سے لطف اندوز ہوئے۔ تقریباً رات 8 بجے ناران میں کونہار ہوٹل پہنچے جو نہایت خوبصورت ہوٹل تھا۔ جہاں رات قیام کرنے کے بعد پھر ان حسین وادیوں کو خیرآباد کرتے ہوئے صبح ایک Restaurant میں ناشتہ کے بعد دوبارہ سے لاہور کی جانب رواں دواں ہوگئے۔ راستے میں ایک نہایت خوبصورت جگہ شوگراں پر ٹھہرے جہاں قافلہ کے افراد کرکٹ و فٹ بال کھیل کر لطف اندوز ہوئے۔ کرکٹ کا میچ نہایت دلچسپ تھا۔ PAT اور تحریک کی دو ٹیموں میں سنسنی خیز مقابلے کے بعد میچ ٹائی ہوگیا۔ رات تقریباً 6 بجے ایبٹ آباد پہنچے جہاں تنظیم کی طرف سے نہایت پرتکلف کھانے کا اہتمام کیا گیا تھا۔ اس موقع پر صدر PAT محترم ڈاکٹر رحیق احمد عباسی نے تنظیمی نشست سے اظہار خیال کیا جبکہ ناظم اعلیٰ محترم شیخ زاہد فیاض نے تنظیم کا شکریہ ادا کیا۔ قافلہ رات 2:30 بجے واپس لاہور سیکرٹریٹ پہنچا۔