اجتماعی اعتکاف کی حکمت و فلسفہ

مرتّبہ: فریدہ سجاد

اعتکاف عربی زبان کا لفظ ہے جس کا لغوی معنی ’’خود کو روک لینا، بند کر لینا، کسی کی طرف اس قدر توجہ کرنا کہ چہرہ بھی اُس سے نہ ہٹے‘‘ وغیرہ کے ہیں۔ (ابن منظور، لسان العرب، 9: 255)

اصطلاح شرع میں اس سے مراد ہے انسان کا علائقِ دنیا سے کٹ کر خاص مدت کے لئے عبادت کی نیت سے مسجد میں اس لئے ٹھہرنا تاکہ خلوت گزیں ہو کر اﷲ کے ساتھ اپنے تعلقِ بندگی کی تجدید کر سکے۔

اعتکاف بیٹھنے کی فضیلت پر کئی احادیث مبارکہ وارد ہوئی ہیں۔ اِن میں سے چند ایک درج ذیل ہیں:

  1. حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے معتکف کے بارے میں ارشاد فرمایا: ’’وہ (یعنی معتکف) گناہوں سے کنارہ کش ہو جاتا ہے اور اُسے عملاً نیک اعمال کرنیوالے کی مثل پوری پوری نیکیاں عطا کی جاتی ہیں۔‘‘ (ابن ماجہ، السنن، کتاب الصیام، باب فی ثواب الاعتکاف، 2: 376، رقم: 1781)
  2. حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اللہ عنہ سے ہی ایک اور حدیث مروی ہے کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

مَنِ اعْتَکَفَ يَوْمًا ابْتغَاءَ وَجْهِ اﷲ عزوجل، جَعَلَ اﷲُ بَيْنَهُ وَ بَيْنَ النَّارِ ثَـلَاثَ خَنَادِقَ، کُلُّ خَنْدَقٍ اَبْعَدُ مِمَّا بَيْنَ الْخَافِقَيْنِ.

  1. طبرانی، المعجم الاوسط، 7: 221، رقم: 7326

  2. بيهقی، شعب الايمان، 3: 425، رقم: 3965

  3. هيثمی، مجمع الزوائد، 8: 192

’’جو شخص اﷲ کی رضا کے لئے ایک دن اعتکاف کرتا ہے، اﷲ تبارک و تعالیٰ اس کے اور دوزخ کے درمیان تین خندقوں کا فاصلہ کردیتا ہے۔ ہر خندق مشرق سے مغرب کے درمیانی فاصلے سے زیادہ لمبی ہے۔‘‘

  1. حضرت علی (زین العابدین) بن حسین اپنے والد امام حسین رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

مَنِ اعْتَکَفَ عَشْرًا فِی رَمَضَانَ کَانَ کَحَجَّتَيْنِ وَ عُمْرَتَيْنِ.

(بيهقی، شعب الإيمان، باب الاعتکاف، 3: 425، رقم: 3966)

’’جس شخص نے رمضان المبارک میں دس دن کا اعتکاف کیا، اس کا ثواب دو حج اور دو عمرہ کے برابر ہے۔‘‘

مسنون اعتکاف

رمضان المبارک کے آخری دس دنوں میں اعتکاف بیٹھنا مسنون ہے۔ حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما سے مروی ہے:

اَنَّ رَسُوْلَ اﷲِصلی الله عليه وآله وسلم کَانَ يَعْتَکِفُ الْعَشْرَ الْاَوَاخِرَ مِنْ رَمَضَانَ.

(ابن ماجه، السنن، کتاب الصيام، باب فی المعتکف يلزم مکانًا من المسجد، 2: 373، رقم: 1773)

’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف بیٹھا کرتے تھے۔‘‘

شریعت کی رو سے مسنون اعتکاف کا آغاز بیس رمضان المبارک کی شام اور اکیس کے آغاز یعنی غروب آفتاب کے وقت سے ہوتا ہے اور عید کا چاند دیکھتے ہی اعتکاف ختم ہوجاتا ہے۔ چاند چاہے انتیس تاریخ کا ہو یا تیس کا، دونوں صورتوں میں سنت ادا ہوجائے گی۔

اعتکاف کی شرائط

اعتکاف بیٹھنے کی شرائط درج ذیل ہیں:

  1. مسلمان ہونا۔
  2. اعتکاف کی نیت کرنا۔
  3. حدث اکبر (یعنی جنابت) اور حیض و نفاس سے پاک ہونا۔
  4. عاقل ہونا۔
  5. مسجد میں اعتکاف کرنا۔
  6. اعتکاف واجب (نذر) کے لئے روزہ بھی شرط ہے۔

اجتماعی اعتکاف کی شرعی حیثیت

ناموَر فقیہ علامہ ابن رشد لکھتے ہیں کہ اعتکاف میں اجتماعی نوعیت کے معاملات کے جواز اور عدمِ جواز میں اختلاف کی بنیادی وجہ اعتکاف کے معنی کی تعیین ہے۔ آپ فرماتے ہیں:

فمن فهم من الإعتکاف حبس النفس علی الافعال المختصة بالمساجد، قال:لا يجوز للمعتکف إلا الصلاة والقراءة، ومن فهم منه حبس النفس علی القرب الاخروية کلها اجاز له غير ذلک.

(ابن رشد ،بداية المجتهد، 1: 312)

’’جس نے اعتکاف کا معنی مسجد میں مخصوص افعال پر اپنے نفس کو روک لینا سمجھا، اس نے معتکف کے لیے صرف نماز اور قراء تِ قرآن کو مشروع قرار دیا؛ اور جس نے اعتکاف سے مراد نفس کو دوسروں کے قرب سے بچائے رکھنا لیا اس نے لوگوں سے میل جول کے علاوہ ان تمام امور کو مشروع قرار دیا۔‘‘

عصرِ حاضر اور مقاصدِ اِعتکاف

اس میں شک نہیں کے اعتکاف کا مقصد نفس کی اصلاح، برائیوں سے اجتناب اور خلوت کا حصول ہے۔ مگر یہ بھی ایک قابلِ لحاظ امر ہے کہ کوئی بھی عمل جب تک کسی مستحکم بنیاد پر قائم نہ ہو، ثمرآور اور دیرپا نہیںہو سکتا۔ اور علم ہی کسی عمل کو مستحکم بنیاد فراہم کر سکتا ہے۔ اسی مقصد کے حصول کے لئے دوران اعتکاف تعلیم وتعلم کو ایک اجتماعی عمل ہونے کے باوجود تمام ائمہ فقہ نے جائز قرار دیا ہے کیونکہ بغیر علم کے ریاضت و مجاہدہ کسی منزل تک نہیں پہنچا سکتا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

فَقِيْهٌ وَاحِدٌ أَشَدُّ عَلَی الشَّيْطَانِ مِنْ أَلْفِ عَابِدٍ.

(ابو داود، السنن، باب فضل العلماء والحث علی طلب العلم، 1: 81، رقم: 222)

’’ایک فقیہ، شیطان پر ایک ہزار عابدوں سے زیادہ بھاری ہے۔‘‘

دور حاضر میں ہمیں اِسلام وراثت میں ملا ہے، ہم نے اس کے لئے کوئی کاوِش اور محنت نہیں کی، والدین مسلمان تھے تو ہم بھی مسلمان کہلائے۔ لیکن اصل صورتِ حال یہ ہے کہ ہمارے عوام کی ایک قابلِ ذکر تعداد کو کلمہ تک یاد نہیں، اور اگر کلمہ آتا ہے تو اس کے معنی کا علم نہیں، اور اگر بالفرض معنی معلوم ہے تو اس کے تقاضوں کا علم نہیں۔

قرآن کریم کی تلاوت کو افضل العبادات قرار دیا گیا ہے اور تلاوت قرآن اعتکاف کے بنیادی معمولات میں سے ہے، لیکن ہمارے عوام کی ایک قابلِ ذکر تعداد صحت لفظی کے ساتھ قرآن نہیں پڑھ سکتی۔ ان حالات میں انفرادی عبادات پر حد سے زیادہ زور دینا اور گنے چنے چند وظائف کرنے میں دس دن گزار دینا اعتکاف کا منشاء ہے نہ اس سے اعتکاف کا مقصد حاصل ہوتا ہے۔

ہماری اجتماعی صورتِ حال اور دور حاضر کے تقاضوں کے پیش نظر اعتکاف میں فرد کی تربیت اور اصلاحِ معاشرہ سے تعلق رکھنے والے اجتماعی اُمور مجرد وظائف اور تسبیحات سے زیادہ اہم اور ضروری ہو چکے ہیں۔ ویسے بھی جب معاشرہ کلیتاً برائی اور بے راہ روی کا شکار ہو تو اس صورت میں اَحکام بدل جاتے ہیں۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:

إِنَّ اﷲَ تَبَارَکَ وَتعَالَی لاَ يُعَذِّبُ الْعَامَّةَ بِذَنْبِ الْخَاصَّةِ. وَلٰـکِنْ إِذَا عُمِلَ الْمُنْکَرُ جِهَارًا اسْتَحَقُّوا الْعُقُوبَةَ کُلُّهُمْ.

(مالک، الموطا، 2: 991، رقم: 23)

’’بے شک اﷲ تعالیٰ خاص لوگوں کے گناہوں کے سبب عامۃ الناس کو عذاب نہیں دیتا۔ لیکن جب اِعلانیہ برائی کی جانے لگے تو (خاص و عام) سب لوگ بلا امتیاز عذاب کے مستحق بن جاتے ہیں۔‘‘

حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

’’اﷲ عزوجل نے جبریل علیہ السلام کی طرف وحی فرمائی کہ فلاں فلاں شہر کو اس کے باشندگان سمیت پلٹ دو (تباہ و برباد کر کے رکھ دو)۔ حضرت جبریل علیہ السلام نے عرض کیا: اے میرے رب! ان میںتیرا وہ بندہ بھی ہے جس نے آنکھ جھپکنے کے برابر بھی تیری نافرمانی نہیں کی۔ اِس پر رب تعالیٰ نے فرمایا:

اَقْلِبْهَا عَلَيْهِمْ، فَإِنَّ وَجْهَهُ لَمْ يَتَمَغَيَّر فِيَّ سَاعَةً قَطُّ.

  1. بيهقي، شعب الإيمان، 6: 97، رقم: 7595

  2. طبراني، المعجم الاوسط، 7: 336، رقم: 7661

’’اس شہر کو ان پر پلٹ دے کیونکہ اس شخص کا چہرہ کبھی ایک گھڑی بھی میری خاطر (برائی کو دیکھ کر) متغیر نہیں ہوا۔‘‘

اس حدیث مباکہ میں مجرد ذکر و عبادت میں مشغولیت کی وجہ سے مخلوقِ خدا کے اَحوال کی درستگی سے عدم دل چسپی پر وعید بیان کی گئی ہے۔ اور دعوت وتبلیغ کا یہ فریضہ اُسی وقت ممکن ہو سکتا ہے جب انسان انفرادی ذکر و اَذکار کو ہی کل نہ سمجھے بلکہ دعوت و تبلیغ اور اصلاحِ اَحوالِ اُمت کے نبوی فریضہ کو بھی عبادت جانتے ہوئے اپنے معمولات میں سے اسے خصوصی وقت دے۔ اس لئے تعلیم و تعلم، قرآن سیکھنے سکھانے اور اصلاح نفس جیسے دیگر امور جن کا تعلق دیگر افراد سے ہو، اعتکاف میں جائز اور مستحسن ہیں؛ اور یہی راجح قول ہے۔

اِعتکاف میں طویل خاموشی اختیار کرنا

خاموشی حکمت کا پیش خیمہ اور زبان کی حفاظت کا سب سے قوی اور آزمودہ ہتھیار ہے اور قرآن و حدیث میں اس کے بے شمار فضائل بیان ہوئے ہیں مگر خاموشی کو اس طرح افضل جاننا کہ واجب کلام بھی ترک کر دیا جائے، حرام کے دائرے میں چلا جاتا ہے۔

امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے خاموشی سے بہتر ہونے پر آقا علیہ الصلاۃ و السلام کی یہ حدیث دلالت کرتی ہے کہ جس میں ایک عورت نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا کہ میں جمعہ کا روزہ رکھوں اور اس دن کسی سے بھی کلام نہ کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جواباً ارشاد فرمایا:

لا تصم يوم الجمعة إلا في ايام هو احدها او في شهر، واما ان لا تکلم احداً فلعمري! لان تکلم بمعروف وتنهی عن منکر خير من ان تسکت.

  1. احمد بن حنبل، المسند، 5: 224، رقم: 22004

  2. الطبرانی، المعجم الکبير، 2: 44، رقم: 1232

’’صرف جمعہ کا روزہ نہ رکھو بلکہ اس طرح ایام کا انتخاب کرو کہ جمعہ کا دن ان میں آجائے یا پھر یہ کہ مہینے کے روزے ہوں تو جمعہ بھی ان میں آجائے۔ جہاں تک کلام نہ کرنے کی بات ہے تو مجھے میری عمر کی قسم! نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا تمہارے خاموش رہنے سے زیادہ بہتر ہے۔‘‘

اِجتماعی اِعتکاف کی مثالیں

امت مسلمہ کے موجودہ حالات کے پیش نظر جہاں اجتماعی اعتکاف کے فلسفہ کی بات کی جارہی ہے وہیں اِجتماعی اعتکاف کی کئی مثالیں بھی ہمارے سامنے آتی ہیں۔ وہ لوگ جو کچھ عرصہ قبل تک اسے بدعت قرار دیتے تھے اب خود اِس پر عمل پیرا ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ بندہ مومن کو اﷲ سبحانہ و تعالیٰ کی بارگاہ سے عطا شدہ فراست کے پیش نظر آنے والے حالات کو قبل اَز وقت بھانپ لیتا ہے، جب کہ کچھ لوگوں کو یہ شعور بعد میں نصیب ہوتا ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اصل حقیقت سب پر آشکار ہو جاتی ہے۔

(1) حرمین شریفین میں اِعتکاف

فی زمانہ حرمین شریفین میں دنیا کا سب سے بڑا اجتماعی اعتکاف ہوتا ہے۔ ان مقاماتِ مقدسہ پر ہزارہا اہل اِسلام رمضان المبارک میں اعتکاف کی سعادت حاصل کرتے ہیں۔ اگرچہ اعتکاف کے لئے جگہ مخصوص کی جاتی ہے مگر خیمے وغیرہ نصب نہیں کیے جاتے اور نہ ہی چادریں وغیرہ تانی جاتی ہیں۔ اِس اِجتماعی اِعتکاف میں ہر وقت اِجتماعی درسِ قرآن اور درسِ حدیث بھی ہوتے ہیں، ہمہ وقت پڑھنے پڑھانے کا سلسلہ بھی جاری رہتا ہے اور تجویدِ قرآن کے حلقات بھی منعقد ہوتے ہیں۔ نیز دروسِ فقہ بھی ہوتے ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ حرمِ کعبہ میں معتکفین طواف بھی کرتے ہیں جو کہ بھیڑ کے ماحول میں ہی ہوتا ہے۔ گویا جلوت میں خلوت کا ماحول ہوتا ہے۔

2۔ تحریک منہاج القرآن کے زیر اِہتمام منعقدہ اعتکاف

تحریک منہاج القرآن اُمت مسلمہ کی ایک ایسی تجدیدی و احیائی تحریک ہے جس نے آنے والے مسائل کا قبل اَز وقت اِدراک کرکے اُمت مسلمہ کی رہنمائی کا فریضہ سرانجام دیا ہے۔ اِس کی بانی قیادت شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے اُمت کو روایتی اُصولوں سے ہٹ کر ایک نئی سوچ و فکر اور بیدار مغز دیا ہے۔

تحریک منہاج القرآن کا ایک امتیازی وصف یہ بھی ہے کہ اس نے فرد کے درِ قلب پر دستک دی ہے اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہارگانہ فرائض نبوت - تلاوتِ قرآن؛ تزکیہ نفوس؛ تعلیم کتاب اور تعلیم حکمت کی پیروی کرتے ہوئے ہر محاذ پر جد و جہد کی ہے۔ تحریک منہاج القرآن نے روحوں کا زنگ اتار کر دلوں کا میل بھی دھو دیا ہے۔ اِسی مقصد کے لئے جامع المنہاج میں تحریک منہاج القرآن کے زیر اہتمام اجتماعی اعتکاف کا غیر روایتی تصور بھی ہے۔ رمضان کے آخری عشرے میں مسنون اعتکاف اور اعتکاف برائے تربیت کی سوچ قائد تحریک شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے ذہن رسا میں بہت پہلے سما چکی تھی جس کا عملی اظہار تحریک منہاج القرآن کے مرکزی سیکرٹریٹ پر واقع جامع مسجد میں بھی ہوتا رہا۔ اعتکاف تو وہ ہر سال ہی بیٹھتے تھے، 1990ء میں جب وہ تحریک منہاج القرآن کے مرکزی سیکرٹریٹ پر واقع جامع مسجد میں اعتکاف بیٹھے تو ان کے ساتھ 50 افراد بھی گوشہ نشیں ہوئے۔ اِس سے ان کے ذہن میں موجود اجتماعی اعتکاف کے تصور نے حقیقت کا روپ دھار لیا، 1991ء میں یہ تعداد مزید بڑھی تو اس مسجد کی وسعت تنگ محسوس ہونے لگی، 1992ء میں جب بغداد ٹاؤن میں موجود جامع المنہاج باقاعدہ اجتماعی اعتکاف کے انعقاد کی مستقل جگہ قرار پائی تب معتکفین کی تعداد 500,1 تھی۔ لیکن آج بفضلہ تعالی تحریک منہاج القرآن کے زیر اہتمام منعقد ہونے والے اجتماعی اعتکاف میں ہر سال معتکف ہونے والے فرزندانِ اِسلام کی تعداد پچیس ہزار سے تجاوز کر چکی ہے۔ اور اِس میں مرد و زَن ہر دو ذوق و شوق سے شریک ہوکر اپنی باطنی طہارت اور علمی حلاوت کا سامان کرتے ہیں۔ خواتین کے لیے منہاج کالج برائے خواتین میں اجتماعی اعتکاف کا الگ انتظام کیا جاتا ہے۔

معمولاتِ اِعتکاف کے مطابق اِس شہرِ اِعتکاف میں حلقہ ہائے ذکر و درود بھی منعقد ہوتے ہیں؛ درسِ فقہ کی نشستیں بھی ہوتی ہیں اور دروسِ قرآن و حدیث بھی ہوتے ہیں۔ سب سے بڑھ کر مجددِ رواں صدی شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کے علمی و فکری اور روحانی موضوعات پر مشتمل خطبات و دروس حاضرین و سامعین کی ذہنی و باطنی جلا کا سامان فراہم کرتے ہیں اور ان کے تزکیہ قلوب و نفوس کی راہ ہموار کرتے ہیں۔ لہٰذا یہ بات بلامبالغہ کہی جا سکتی کہ تحریک منہاج القرآن ایک تجدیدی تحریک ہونے کے ناطے عصر حاضر کے تقاضوں کے مطابق اِعتکاف کا صحیح تصور عوام کے سامنے پیش کر رہی ہے۔

اجتماعی اعتکاف کے فضائل و ثمرات درج ذیل ہیں:

  1. اجتماعی اعتکاف میں باقاعدہ نظام الاوقات کے تحت نماز پنجگانہ، تہجد، چاشت، اوّابین، اوراد و وظائف، حمد و نعت خوانی، دروس ہائے قرآن و حدیث، حلقہ ہائے فقہ و تصوف، تربیتی لیکچرز، حلقہ ہائے فقہ و تصوف، خوفِ خدا، فکرِ آخرت، اﷲ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کی شمع دلوں میں فروزاں کرنا، جدید ترین علمی و روحانی پیچیدگیوں کا قرآن و سنت اور عقل سلیم کی روشنی میں تسلی بخش حل بتایا جاتا ہے۔ انفرادی اعتکاف میں اِن تمام فوائد کا حصول ممکن نہیں ہوتا۔
  2. علماء، اولیاء، صوفیاء اور ائمہ دین کی سنگت و زیارت، ان سے مسلسل فیوض و برکات کا حصول، قرآن و سنت اور فقہ (قانون) کی بیش بہا معلومات اجتماعی اعتکاف کی منفرد خصوصیات میں سے ہیں۔
  3. اجتماعی اعتکاف میں اوراد و اذکار، درود و سلام، گریہ و زاری، توبہ و استغفار اور عبادت کی زبانی ہی نہیں بلکہ عملی مشق کروائی جاتی ہے۔
  4. اجتماعی اعتکاف میں چند دن کے فیوض و برکات کی رحمت و برکت، تعلیم و تربیت اور ذوق و شوق کے وہ نقوش قلب و ذہن پر منقش ہو جاتے ہیں جن سے قلب و ذہن کے آئینے ہمیشہ چمکتے دمکتے رہیں گے۔ تنہا اعتکاف میں یہ سب کچھ کہاں میسر ہوتا ہے۔

خواتین کا اجتماعی اعتکاف بیٹھنا

اگر ان کے لیے با پردہ اور باحفاظت انتظام ہو اور اعتکاف کے ساتھ ساتھ مزید تعلیم و تربیت اور تزکیہ و تصفیہ کا اہتمام ہو تو خواتین اجتماعی اعتکاف بیٹھ سکتی ہیں۔ بعض بڑی مساجد اور مراکز پر الحمد ﷲ ہزاروں کی تعداد میں مرد و خواتین الگ الگ باپردہ باحفاظت اعتکاف بیٹھتے ہیں۔ شب و روز کے معمولات کے لئے ایک نظام الاوقات مہیا کیا جاتا ہے۔ تعلیم اور تربیت و تزکیہ کا یہ انتظام و اہتمام ہر مسجد میں نہیں ہو سکتا۔

علامہ ابن نجیم حنفی رحمۃ اللہ علیہ عورت کے مسجد میں اعتکاف بیٹھنے کے حوالے سے رقم طراز ہیں:

ان إعتکافها فی مسجد الجماعة جائز.

’’بے شک عورت کا جماعت والی مسجد میں اعتکاف جائز ہے۔‘‘

علامہ کاسانی کی بدائع الصنائع کے حوالہ سے آپ مزید لکھتے ہیں:

ان اعتکافها فی مسجد الجماعة صحيح بلا خلاف بين اصحابنا.

(ابن نجيم، البحر الرائق، 2: 324)

’’عورت کا مسجدِ جماعت میں اعتکاف بیٹھنا درست ہے۔ اس میں ہمارے ائمہ احناف کے مابین کوئی اختلاف نہیں۔‘‘

علامہ ابن عابدین شامی رد المحتار میں عورت کا مسجد میں اعتکاف بیٹھنا مکروہ تنزیہی قرار دیتے ہیں ساتھ ہی بدائع الصنائع کے حوالہ سے لکھتے ہیں:

صرح فی البدائع بأنه خلاف الأفضل.

(ابن عابدين شامی، رد المحتار، 2: 441)

’’البدائع و الصنائع میں علامہ کاسانی نے تصریح فرمائی ہے کہ مسجد میں عورت کا اعتکاف بیٹھنا خلافِ افضل ہے۔‘‘

مراد یہ ہے کہ مسجد کی نسبت عورت کا گھر میں اعتکاف بیٹھنا افضل ہے۔

وضاحت

ہر مسجد میں عورتوں کے اعتکاف کا خاطر خواہ انتظام نہیں ہوتا۔ نہ باپردہ الگ تھلگ با عزت طور پر ان کے لئے محفوظ جائے اعتکاف کا اہتمام ہوتا ہے۔ یہی چیزیں مسجد میں عورتوں کے اعتکاف پر ممانعت کا شرعی جواز مہیا کرتی ہیں۔ مگر جس مسجد میں وسعت ہو، مردوں اور عورتوں کے لئے الگ الگ باپردہ محفوظ جائے اعتکاف ہو، تمام حاضرین کو ایک معقول و مفید نظام الاوقات کی پابندی سے تعلیم و تربیت، تزکیہ و طہارت اور فرائض و واجبات کے ساتھ ساتھ نوافل پر بھی عامل بنایا جائے، درود و سلام، ذکر و اذکار، وعظ و نصیحت اور وظائف پڑھنے کی پابندی لگائی جائے تو وہاں اعتکاف بیٹھنے کا فائدہ اور اجر و ثواب انفرادی اعتکاف سے بھی بڑھ جاتا ہے۔

تحریک منہاج القرآن کے زیر اہتمام ہونے والا اجتماعی اعتکاف اسی کی ایک مثال ہے۔ جہاں خواتین دور دراز علاقوں سے اعتکاف کی سعادت حاصل کرتی ہیں۔ وہ اپنے خاوندوں یا محرموں کے ہمراہ مرکزی اعتکاف گاہ میں آجاتی ہیں۔ یہاں مردوں اور عورتوں کے لئے مسجد سے متصل وسیع و عریض رقبہ پر الگ الگ قیام و طعام اور رہائش کا بندوبست کیا جاتا ہے۔ خواتین سے متعلق اندرونی (indoor) معاملات کے اِنتظام و انصرام کے لئے سینکڑوں نوجوان طالبات اور ویمن لیگ کی ممبرز جبکہ بیرونی (outdoor) حفاظت کے لئے مسلح گارڈز چوبیس گھنٹے موجود رہتے ہیں۔ آنے والی خواتین کی باقاعدہ رجسٹریشن ہوتی ہے۔ ان کی صحت و صفائی، قیام و طعام اور بصورت بیماری و حادثہ طبی ماہرین کی ٹیمیں ہر وقت موجود ہوتی ہیں۔ دروسِ قرآن و حدیث، فقہ و تصوف کے حلقہ جات اور دیگر تعلیمی و تربیتی پروگرام باقاعدگی سے ہوتے ہیں۔ یہ سب کچھ ہر جگہ نہ میسر ہے اور نہ ممکن ہے، جبکہ اِن امور کی ضرورت و اہمیت محتاجِ بیان نہیں۔