تحریکی کارکنوں کی ذمہ داریاں

ڈاکٹر ابوالحسن الازہری

زبان کا اصلاحی اور ممنوعی استعمال

ایک مسلمان کی پہچان اور شناخت یہ ہے کہ اس کی زبان حلال کو اختیار کرے اور حرام سے بچے، امور مجاز کو اپنائے اور امور ممنوعہ کو ترک کرے، اعلیٰ اور ارفع کو استعمال میں لائے ادنیٰ اور ارزل کو ترک کرے، ایک مسلمان کی زبان کا مجموعی استعمال اسلام کی تعلیمات کا آئینہ دار ہو، وہ زبان اسلامی تعلیمات کی حدود کے اندر رہے اُن سے تجاوز نہ کرے، تجاوز ظلم ہوگا اور اسلام کی تعلیمات کی خلاف ورزی ہوگی۔

زبان سے انسان کے کمالات بھی ظاہر ہوتے ہیں اور اسی سے انسان کے نقائص بھی رونما ہوتے ہیں، زبان جہاں خوبیوں کو اظہار میں لاتی ہے وہاں انسان کی خامیوں کو بھی عیاں کرتی ہے۔ زبان سے ہی ہم انسان کے اقرار کو بھی جانتے ہیں اور انسان کے انکار کو بھی، زبان اظہار تسلیم کرتی ہے تو ایمان بنتا ہے اور زبان اظہار انکار کرتی ہے تو کفر بنتا ہے۔ انسانی تعلقات زبان سے ہی مضبوط ہوتے ہیں اور زبان ہی سے کمزور ہوتے ہیں۔ زبان کی حیثیت شہد کی بھی ہے اور زہر کی بھی ہے۔ زبان کی حیثیت ایک عہد کی بھی ہے اور ایک وعدہ اور ایک تحریر کی بھی ہے، زبان اصلاح بھی کرتی ہے اور زبان فساد بھی کرتی ہے۔ زبان سے اتحاد بھی ہے اور زبان سے انتشار بھی ہے، زبان سے وحدت بھی ہے اور فرقت بھی، زبان نرم بھی ہے اور سخت بھی، زبان شیریں بھی ہے اور ترش بھی، زبان جوڑتی بھی ہے اور زبان کاٹتی بھی ہے، زبان اپنا بھی بناتی ہے اور غیر بھی۔ زبان محبت بھی دیتی ہے اور نفرت بھی۔ زبان دوستی کی بھی علامت ہے اور دشمنی کی بھی، زبان میں بے پناہ اثر بھی ہے اور زبان اثر سے محروم بھی ہے، زبان سے انسان کی عزت بھی ہے اور ذلت بھی، زبان میں ترغیب شر بھی ہے اور ترغیب فتنہ بھی، زبان میں ترغیب خیر بھی ہے اور مسلسل آگے بڑھنے کا جذبہ بھی۔

زبان سے دعوت کا قیام بھی ہے اور زبان سے حقائق کا اعتراف بھی، اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جو مسلمان بن گیا ہے اُس کے لئے لازم ہے کہ وہ اپنی زبان کا صحیح استعمال کرے۔ اب یہ زبان اس کو بے اعتدالیوں سے بھی بچائے اور عدم توازن سے بھی اور وہ اس زبان کو اللہ کے ذکر سے رطب اللسان کرے۔

یہ زبان اپنی ہیئت و ماہیت میں تو گوشت کا ایک ٹکڑا ہے، لیکن یہ اپنی تاثیر میں ایک شعلہ بھی ہے جو پُرامن ماحول کو آگ لگادے یہ ایک قینچی بھی ہے جو تعلقات اور دوستیوں کو کاٹ دے، یہ ایک چھری اور چاقو بھی ہے جو جسے چاہے قطع کردے۔ یہ ایک میزائل بھی ہے جو ہنستے بستے لوگوں کو یک لخت تباہ کردے، یہ زبان ایک انگارہ بھی ہے جو طنز کے تیروں سے دلوں کو جلادے۔ عربی کا بڑا مشہور شعر ہے۔

جراحات السنان لها التیام ولا یلتام ماجرح اللسان

’’نیزوں کے زخم مٹ سکتے ہیں اور زبان کا زخم نہیں مٹتا‘‘۔

ہاں ہاں زبان کا اگر منفی کردار ہے تو اس کا مثبت کردار بھی ہے۔ یہی زبان دشمنیوں کو دوستیوں میں تبدیل کرتی ہے۔ یہی زبان غیروں کو اپنا بناتی ہے یہی زبان جب پیار کرتی ہے تو دوسروں کی جان و مال کی مالک بن جاتی ہے۔ یہی زبان جب اپنائیت کا اظہار کرتی ہے تو غیریت اور اجنبیت کے سارے رشتوں کو مات دیتی ہے۔ یہی زبان جب تکریم کرتی ہے تو ایک مثالی کردار بن جاتی ہے۔ یہی زبان جب ایثار کے نغمے الاپتی ہے تو ہر دل میں قرار پکڑ جاتی ہے۔ یہی زبان حق اور سچ کی آئینہ دار بنتی ہے تو لوگوں کے ذہن بدل دیتی ہے۔

زبان درحقیقت ایک ہتھیار ہے، یہ دوستی کا بھی ہتھیار ہے اور دشمنی کا بھی ہتھیار ہے۔ یہ محبت کا ذریعہ بھی ہے اور نفرت کا ذریعہ بھی۔ یہ اپنائیت بھی دیتی ہے اور اجنبیت بھی۔ یہ خیر کا بھی باعث ہے اور شر کا بھی سبب، قبولیت کا اعلان بھی یہ کرتی ہے اور انگارے طوفان بھی یہ برپا کرتی ہے۔ حتی کہ ایمان کا اقرار بھی اس سے ہوتا ہے اور کفر کا اظہار بھی اس سے ہوتا ہے۔ یہ بندگی کا اعتراف بھی کرتی ہے اور نافرمانی کا اعلان بھی، ہمارا تعارف اچھا بھی اور برا بھی خود ہماری زبان ہے، زبان کا استعمال اچھائی بھی ہے اور برائی بھی ہے۔ زبان انسان کی شخصیت کی بلندی بھی ہے اور پستی بھی۔ غرضیکہ زبان اور انسان لازم و ملزوم ہیں، زبان سے انسان کا تعارف ہے اور انسان کا تعارف زبان سے ہے۔

کارکن اور زبان

تحریکی کارکن وہ ہے جس کی زبان فکری، نظریاتی، دعوتی اور عملی ہو، کارکن کی زبان مشن کے ابلاغ کے لئے کھلے، زبان تحریک کی دعوت دے، کارکن کی زبان کھلے تو لوگوں کو تحریک کے قریب کرے، لوگوں کے ذہنوں سے غلط فہمیوں کا ازالہ کرے، تحریک کے تصورات اور اہداف کو واضح کرے، تحریک کے مقاصد سے آگاہ کرے اور وہ زبان قائد کا تعارف کرائے اور لوگوں کو قائد سے وابستہ کرے، وہ زبان تحریک کے اندر محبت بانٹے، وہ زبان تحریکی ہمسفروں کے لئے نرم ہو اور چاہت و ایثار سے مملو ہو، ہاں اگر اس میں سختی ہو تو وہ صرف اور صرف اسلام دشمن لوگوں کے لئے ہو، نافرمان لوگوں کے لئے ہو، وہ زبان تحریک کے تعارف میں اس طرح کھلے کہ ہر کسی کو تحریکی کردار دے۔ اس زبان میں سوز ہو اور اس زبان میں جذبوں کی تڑپ ہو۔ اس زبان میں انقلابی ولولے ہوں۔ وہ زبان اعلیٰ خیالات اور تصورات کی ترجمان ہو، وہ زبان قرآنی اور نبوی تعلیمات کی آئینہ دار ہو، وہ زبان سیرت نبوی کی پیروی کرتی دکھائے اور وہ زبان اسلاف و اکابر اور صلحاء و عرفاء کی کامل پیروی میں ڈھلی ہو۔ وہ زبان اپنی ادائیگی میں موثر ہو اور وہ زبان جھگڑالو نہ ہو۔ تحریک کے اندر فساد نہ کرتی ہو، تحریکی لوگوں کے درمیان نفرت نہ پھیلاتی ہو اور دلوں میں اجنبیت و غیریت پیدا نہ کرتی ہو، وہ زبان حریص و لالچی نہ ہو، وہ زبان حق کی ترجمان ہو اور مشن کی شان ہو حتی کہ وہ زبان اپنا تحریکی سفر جاری رکھتے ہوئے اپنے عظیم قائد کی زبان بن جائے تو ایسی زبان کو ہی ہم تحریکی زبان کہہ سکتے ہیں۔ جس زبان میں قائد نظر نہ آئے وہ کچھ بھی ہوسکتی ہے مگر تحریکی زبان نہیں ہوسکتی۔

کارکن اور ید کا تعلق

’’بیدہ‘‘ سے مراد ایک مسلمان کے ہاتھ ہیں، مسلمان وہ ہے جو ہاتھوں کے ذریعے کسی دوسرے کو نقصان نہیں پہنچاتا، اس کے ہاتھ خیر میں استعمال ہوتے ہیں اور شرسے بچتے ہیں، وہ مسلمان ہوتے ہوئے کسی کو اپنے ہاتھوں سے شر نہیں دیتا، کسی کو اپنے ہاتھوں سے ضرر نہیں دیتا، ہاتھ قوت کی علامت ہیں، گویا وہ اپنے ہاتھوں کی قوت سے کسی کو نقصان نہیں پہنچاتا۔ جب ہم ’’بیدہ‘‘ کا استعمال تحریک کے تناظر میں دیکھتے ہیں تو تحریکی کارکن وہ ہے جس کا ’’ید‘‘ تحریک میں استعمال ہوتا رہتا ہے، وہ کیسا کارکن ہے جس کے ہاتھوں سے کبھی تحریک کا کوئی کام نہیں ہوا، جس کے ہاتھوں نے کبھی پوسٹر نہیں لگایا، کبھی اشتہار نہیں لگایا، کبھی چاکنگ نہیں کی، کبھی تحریک کے لئے کرسیاں نہیں اٹھائیں اور کبھی تحریک کے لئے دریاں نہیں بچھائیں، کبھی تحریک کے فارم نہیں اٹھائے کبھی فارم فل نہیں کرائے کبھی تحریکی دعوت کے لئے لٹریچر تقسیم نہیں کیا کبھی تحریکی بینرز نہیں لگائے اور کبھی تحریک کی ہورڈنگ نہیں لگائی، کبھی تحریک کی جلسوں، ریلیوں، کانفرنسوں کو اپنے ہاتھوں کی قوت نہیں پہنچائی، کبھی ہاتھوں سے تحریک کے جھنڈوں کو بلند نہیں کیا، کبھی اپنے ہاتھوں کی قوت سے تحریک کا دفاع نہیں کیا کبھی تحریک کی طرف بڑھتے ہوئے ظالم ہاتھوں کو روکا نہیں۔

تحریک کے لئے ’’ید‘‘ کا ایک دفاعی پہلو بھی ہے اور دوسرا اس کا خیر پر مبنی پہلو بھی ہے اس حوالے ’’تحریکی ید‘‘ وہ ہے جو اپنے ہاتھ سے تحریک کو قوت فراہم کرے، وہ ہاتھ چلے تو اس کے ذریعے قلم چلے، قلم سے تحریکی افکار و نظریات کا اظہارہو، اخبارات و رسائل کو وہ تحریکی افکار سے مزین کرے، اپنے ہاتھ کے ذریعے اپنی قلم کو قوت فراہم کرے، وہ قلم تحریک کے مسائل کا حل دے۔ وہ قلم قائد اور مشن کے تعارف میں رواں دواں ہو۔

غرضیکہ ’’ید‘‘ تحریکی کارکن کے لئے قوت کا استعارہ ہے، ایک تحریکی کارکن کی ذمہ داری ہے وہ اپنی لسانی قوت سے اور اپنی ’’یدوی‘‘ طاقت سے تحریک کو قوت ہی قوت فراہم کرے، اس کی لسانی صلاحیتیں بھی تحریک کو طاقتور اور مضبوط کریں اور اس کی یدوی قابلیتیں بھی تحریک کو مستحکم و مربوط کریں۔ کارکن اپنی حقیقت میں کار اور کن سے ہے، کار، کام ہے اور کن، اسے کرنے والا ہے، بہترین کارکن وہی ہے جواپنی تمام یدوی اور ذہنی صلاحیتوں کے ذریعے تحریک کو اپنے اپنے علاقے میں ایک زندہ قوت بنادے۔ اس کو لسانی اور یدوی قوتوں کے بھرپور استعمال سے تحریک اس علاقے میں ایک ناقابل تسخیر قوت بن جائے۔ کوئی اسے نظر انداز نہ کرسکے اور وہ تحریک لوگوں کے دلوں میں بسے اور ذہنوں میں سمائے اور جذبوں میں تڑپے اور خیالوں میں پھلے اور جسموں اور وجودوں میں بڑھے اور لوگوں کو اپنی طرف کھینچے اور لوگ اس کی طرف کھنچیں، وہ نوجوانوں کے دلوں کی دھڑکن بنے وہ بوڑھوں کا سہارا بنے، وہ بچوں کا مستقبل بنے وہ عورتوں کا تقدس بنے، حتی کہ وہ تحریک اور معاشرے کے ہر فرد کی ضرورت بن جائے، تحریکی باب میں یہی لسان احسن ہے اور یہی ید العلیاء ہے۔ یہی کارکن کی بہترین زبان ہے اور یہی کارکن کا دست خیر ہے۔