صدر منہاج القرآن ویمن لیگ UK محترمہ فاطمہ مشہدی کا خصوصی انٹرویو

شیخ الاسلام کی فیملی کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے جو باہر سے ہیں وہی اندر سے ہیں

انٹرویو پینل: صاحبزادہ محمد حسین آزاد، نازیہ عبدالستار، ملکہ صبا

سوال: سب سے پہلے اپنے تعلیمی کیرئیر اور تحریک و قائد تحریک سے وابستگی کے بارے میں قارئین کو آگاہ کریں؟

جواب: الحمدللہ میں نے اسلامک سٹڈی اور پرشین میں ایم اے کیا ہے اور اب ایم فل ان شاءاللہ جلد مکمل ہوجائے گا۔ تحریک سے وابستگی اس طرح ہوئی میں بچپن سے اپنی بہن نفر فاطمہ کے ساتھ تحریک کے پروگراموں میں آیا کرتی تھی۔ شیخ الاسلام مدظلہ کے لیکچرز سننے سے قائد اور مشن کے ساتھ محبت پیدا ہوگئی۔ میں نے 1987ء کے بعد سیالکوٹ میں باقاعدہ ورکنگ کا آغاز کیا پھر مختلف ذمہ داریوں پر فائز رہی۔ 2007ء میں مرکزی ناظمہ کی ذمہ داری پر فائز ہوئی۔ پھر UK چلی گئی تو وہاں UK میں مئی میں قائد محترم نے Oppoint کیا۔ جون کے بعد ورکنگ شروع کی۔ قائد محترم نے ہدایت فرمائی تھی کہ یہاں پر Organizational Setup کو مضبوط کرنا ہے تو پھر ستمبر میں باقاعدہ طور پر مختلف رابطہ جات مثلاً Email ممبر شپ کے Data کو جمع کیا اور Telephonic رابطہ اور لیٹر کے ذریعے اس Setup کو مضبوط کرنے کی کوشش کی گئی۔ دسمبر میں Zonal کیمپس کئے۔ اس وقت لندن کو 4 زونز میں تقسیم کیا گیا ہے۔ مغربی زون میں ایک کیمپ منعقد کیا جس میں تیرہ شہروں نے شرکت کی اور گیارہ شہروں میں تنظیمی Setup قائم ہوا۔ اسی طرح لندن میں بھی کیمپ کیا گیا۔ اسی سلسلے کو جاری رکھا اور مختلف جگہوں پر کیمپس کئے جس سے بہت خاطر خواہ نتائج برآمد ہوئے۔ ہر ناظمہ کو اس کی ذمہ داری کو باقاعدہ گراف کے ذریعے بتاتے ہیں۔ ایک Working Plan دیتے ہیں کہ ا س طریقے سے آپ نے ورکنگ کرنی ہے۔ ٹارگٹ دیتے ہیں اور پھر بتاتے ہیں کہ اس کوAchieve کیسے کرنا ہے، آپ کی حکمت عملی کیا ہوگی؟ اس سے تنظیمات Results دے رہی ہیں۔ تقریباً 800 میلاد کے پروگرام ہوئے جن میں 300 کے قریب بڑے لیول کے پروگرام ہوئے، باقی 600,500 کے قریب City Level اور Town لیول کے پروگرام ہوئے۔ علاوہ ازیں 300 پروگراموں میں میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حوالے سے قائد محترم کے خطابات کی CD چلائی گئی۔ جس کا مقصد قائد محترم کے خطاب کو سنوانا تھا۔

سوال: یورپ کی مشینی زندگی ہے وہاں کی خواتین مشن کے لئے وقت کیسے نکالتی ہیں؟

جواب: جو کام کرنے والا شخص ہے وہ دنیا کے کسی بھی کونے میں چلا جائے اس کی زندگی مشینی ہے۔ کام کرنے والا کوئی بھی ہے وہ Busyہے۔ قائد محترم دنیا کے ہر کونے میں Busy ہیں۔ Depend کرتا ہے کام کرنے والا کون ہے؟ پاکستان میں خواتین کو سہولت مل جاتی ہے۔ کام والی مل جاتی ہے۔ Driver لے کر آتا ہے۔ اس کے ساتھ Joint Family System کی Problems بہت زیادہ ہیں۔ فیملی میں رہ کر ورکنگ کرنا زیادہ دشوار ہے۔ مجھے اپنے سسرال کی طرف سے خاص کر میرے سسر محترم منظور حسین مشہدی کی طرف سے بہت زیادہ Sport حاصل ہے۔ تحریکی زندگی میں انہوں نے میرا بہت ساتھ دیا ہے۔ لیکن UK میں ہر بندہ Independent ہے۔ وہاں جوائنٹ فیملی کا بہت کم تصور ہے۔ اس لئے وہاں زیادہ Problems نہیں ہیں۔ کام آپ کہیں بھی کرنا چاہیں اگر آپ ٹائم کو Manage کرلیتے ہیں تو آپ ہر کام کرلیتے ہیں۔

میرے ساتھ یورپ میں ایسی خواتین بھی ہیں جو Job بھی کرتی ہیں میں ان کو حالات کے مطابق ٹائم Manageکرنے کا مشورہ دیتی ہوں۔ UK کو چار Zone میں تقسیم کیا ہے۔ ہر جگہ پر صدر ہیں، کسی جگہ پر ان کے سیکرٹری بھی ہیں، اس کے ساتھ Local Executive کونسل ہے۔ UK ایگزیکٹو کے رابطہ نمبر، ایڈریس اور ان کی ذمہ داریاں تمام لکھی ہوئی ہیں۔ اس کے ساتھ Official ٹائمنگ بھی لکھی ہوئی ہے۔ اس ٹائمنگ کے اندر وہ اپنے کمپیوٹرز اور اپنے ٹیلی فون کے سامنے ہوتے ہیں۔ ان Official ٹائمز میں تنظیمات انہیں Call کرتی ہے۔ وہ تنظیمات کو Response کرتے ہیں۔ میں بھی ان کے ساتھ Link میں رہتی ہوں۔ Friday کو ہم تجزیہ کرتے ہیں جس سے میں دیکھتی رہتی ہوں کیا کام ہورہا ہے۔ اس وقت UK کا آفس بہت اچھا چل رہا ہے۔ Zone کے آفس بھی Up date رکھتے ہیں۔ لندن اور مغربی افریقہ میں بھی Sendکردیتے ہیں تاکہ ہر ایک کو پتہ ہو کہ یہ کام ہورہا ہے۔ تصاویر جاری ہیں۔ معلومات Share ہورہی ہیں۔ جب بچے سو جاتے ہیں تو سب کی مشاورت کے ساتھ ایک گھنٹہ ہماری Skype پر میٹنگ ہوتی ہے۔

سوال: مشکلات کو حل کرنے کے لئے کیا لائحہ عمل اپناتی ہیں؟ جلد ہمت ہار جاتی ہیں یا امید کا دامن تھامے رکھتی ہیں؟

جواب: کبھی ایسا نہیں ہوا کہ مشکلات نہ آئیں۔ جس کام میں مشکلات نہیں آتیں وہ کام ہی نہیں ہے۔ جب میں مرکز پر آئی تھی تو یہاں پر بہت سے چیلنجز تھے لیکن میں نے کبھی ہمت نہیں ہاری۔ یہ میری زندگی کا اصول ہے بندے کا مایوس ہونا یہ ایک فطرتی بات ہے جبکہ میں یہ سوچتی ہوں کہ یہ Problems ہیں میں نے اس کو کیسے Solve کرنا ہے۔ مرکز پر ہماری ٹیم بہت اچھی تھی۔ محترمہ فرح باجی نے اچھا کام کیا تھا۔ اس کام کے Standered کو برقرار رکھنا میرے لئے بہت بڑا Challenge تھا۔ توقع اتنی زیادہ تھی کہ لوگ ہمیں طعنے دیتے تھے۔ میری کوشش یہ تھی کہ میں کام کو سمجھ کر Ground میں جاکر ورکنگ کروں۔ بعض اوقات فورم پر اتنی زیادہ تنقید ہوتی کہ میں مایوس ہوجاتی لیکن کام کو میں نے کبھی روکا نہیں۔ جو کام ہمارے مشن اور قائد کے لئے بہتر ہوتا وہ کرتی۔ یہی وجہ ہے کہ جب میں چھوڑ کر گئی تو منہاج القرآن ویمن لیگ اپنے Targets حاصل کرنے میں نمبر1 تھی۔

سوال: اپنے قائد کے ساتھ گزارا ہوا کوئی ایسا خوشگوار لمحہ جس کو یاد کرکے آج بھی آپ محظوظ ہوتی ہوں؟

جواب: یہ میرے دور طالب علمی کا واقعہ ہے کہ ایک تنظیمی نشست ہوئی باجی کے ساتھ میں بھی گئی۔ اس وقت نئی نئی تنظیمات بنی تھیں۔ میں کیونکہ سکول گوئنگ تھی میرے پاس بیگ تھا جس میں پیپر بھی تھا اور پین بھی جو دیگر بہنوں کے پاس نہیں تھا۔ قائد محترم نے پوچھا آپ میٹنگ میں آئی ہیں آپ کے پیپر اور پین کہاں ہیں۔ قائد محترم Left سے شروع ہوئے اور میں Right پر بیٹھی تھی۔ میرا پین بھی مجھ سے گر گیا اور میں پاگلوں کی طرح ڈھونڈ رہی ہوں۔ پھر کسی نے مجھے ڈھونڈ کر دیا جو میرے پاس ہی گرگیا تھا لیکن مجھے مل نہیں رہا تھا۔ قائد محترم نے بہت شفقت فرمائی اور تعریف کی کہ چھوٹی بچی ہے جو میٹنگ میں آئی ہے اس کے پاس پین ہے۔ یہ پہلی شفقت مجھے بہت یاد آتی ہے۔

سوال: قائد محترم کی فیملی کے حوالے سے بتائیں کہ کون سی خوبی آپ نے زیادہ محسوس کی؟

جواب: قائد کی فیملی کی سب سے بڑی خوبی جو میں نے محسوس کی وہ یہ ہے کہ وہ جو باہر سے ہیں وہی اندر سے ہیں۔ جو کہتے ہیں وہی کرتے ہیں۔ قائد محترم نے آج سے بیس سال پہلے جو Objectives دیئے وہ 20 سال کے بعد بھی وہی ہیں۔ ان میں کبھی تبدیلی نہیں آئی۔ صرف حکمت عملی تبدیل ہوتی ہے۔ قائد محترم کے بعد جو شخصیت مجھے زیادہ Attract کرتی ہے وہ امی جان کی ہے جو بہت شفقت اور محبت کرنے والی ہستی ہیں۔ بیس سال سے ہم مل رہے ہیں وہ ویسی ہی ہیں۔ باجیوں کے ساتھ ہم نے حج بھی کیا۔ میرے دل میں باجیوں کے لئے بہت محبت پیدا ہوگئی۔ ان سے مل کر محسوس ہوتا ہے کہ ان کی تربیت کسی قابل مثال شخصیت نے کی ہے۔ فیملی کے ظاہر و باطن میں بالکل تضاد نہیں ہے۔ ہم قائد محترم اور ان کی فیملی کے جتنا قریب جاتے ہیں ہماری محبت اتنی ہی بڑھتی ہے۔ یہ ’’ھل من مزید‘‘ والا حساب ہے۔

سوال: بیرون ملک میں مقیم بالخصوص پاکستانی و بالعموم مسلمان کمیونٹی کو انقلابی جدوجہد میں اپنا اہم کردار ادا کرنے کے لئے آپ کیا Motivation دیتی ہیں؟

جواب: یورپ میں پاکستان کی نسبت پریکٹیکل حالات مختلف ہیں وہاں انقلاب کی ضرورت نہیں۔ انقلاب اس وقت پاکستان کی ضرورت ہے۔ لیکن وہاں ہم خاموش تو نہیں بیٹھتے بلکہ جہاں بھی جاتے ہیں لوگوں کوAwareness دیتے ہیں۔ ہم کہتے ہیں کہ پاکستان میں Change کی ضرورت ہے۔ ہم انہیں یہ بتاتے ہیں کہ ہمارا گھر پاکستان ہے۔ ہماری پہچان پاکستان ہے۔ میں نے جتنا درد اور محبت پاکستان کے لئے وہاں کے لوگوں میں دیکھی ہے وہ شاید یہاں کے لوگوں میں اتنی نہیں ہے۔ ہم وہاں شعور دلاتے ہیں کہ اگر ہم ہمارا گھر محفوظ ہے تو ہماری پہچان اچھی ہے۔ یورپ میں پاکستانیوں کو عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا۔ ہم انہیں آگہی دیتے ہیں کہ شیخ الاسلام جو جدوجہد کررہے ہیں وہ پاکستان کی بہتری کے لئے کررہے ہیں۔ اگر پاکستان میں بہتری لے آتے ہیں تو پاکستان کا نام روشن ہوگا منہاج دعوی، منہاج ایجوکیشن سٹی کو ہر پرگرام میں ہم متعارف کرواتے ہیں۔

سوال: بچوں کے ساتھ کس طرح مشن کو وقت دیتی ہیں اس سے ان کی شخصیت پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں؟

جواب: میرے بچوں کی Developmentمشن میں ہوئی ہے۔ عام مائوں کی روٹین ہوتی ہے بچوں کو بہت زیادہ ٹائم دیتی ہیں۔ اتنا ٹائم ہم لوگ نہیں دے پاتے۔ لیکن جتنا ٹائم دیتے ہیں وہ کوالٹی ٹائم دیتے ہیں۔ میں اپنا Experience بتارہی ہوں میری بیٹی اس وقت 13 سال کی ہے۔ ساری تقریر اس نے رات کو خود لکھی۔ ہماری ہر Activity مشن کے ساتھ Plan ہے۔ بچے ہر Activity میں ہمارے ساتھ جاتے ہیں۔ بچوں کو ویسے بھی کھانوں میں Outing پر لے کر جاتے ہیں مگر ہم نے اپنے بچوں کے لئے مشن کی Activity کو Outing بنالیا ہے۔ ایک گھنٹہ پہلے نکل جاتے ہیں اس کے بعد وہ مشن کا پروگرام Attend کرتے ہیں۔ ضرورت ہی نہیں پڑتی کسی تربیت کی۔ جب میں لانگ مارچ میں آرہی تھی میرا چھوٹا بیٹا اس وقت 5 سال کا تھا۔ اسے شدید بخار تھا۔ جب میں گھر سے نکل رہی تھی تو اسے کہا کہ ابو جی نے بلایا ہے۔ اس کی Mind Making کی ہوئی تھی کہ ابو جی نے بلایا ہے تو اس نے کہا ابو جی نے بلایا ہے تو آپ چلے جائیں۔ یہ جملہ مجھے بہت پیارا لگا۔ اس میں یہ نہیں ہے کہ اس کی Specially تربیت کی ہے۔ ’’ابو جی نے بلایا ہے‘‘ اس سے آگے کوئی سوال نہیں کوئی جواب نہیں۔ یہی ہمارے قائد کی تربیت ہے کہ مشن کے پروگراموں میں بچوں کو ساتھ رکھیں اس میں جتنا مثبت پہلو مشن کے لئے ہوسکتا ہے شاید والدین کی تربیت کا بھی نہ ہو۔

سوال: ایک کروڑ جانثاروں کی تیاری کے لئے کیا تجویز دینا چاہیں گی؟

جواب: بیداری شعور کے ساتھ ساتھ انہیں حالات کا احساس کروانا ہوگا۔ کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو فکر اور سوچ رکھتے ہیں ان کے ذہن میں سوالات ہوتے ہیں جب ان کو تسلی بخش جوابات مل جاتے ہیں تو وہ ساتھ دینے کے لئے آمادہ ہوجاتے ہیں۔ مثال کے طور پر ڈاکٹرز اور لیکچرار وغیرہ ان کی اپنی Thoughts ہوتی ہے۔ مختلف Issues پر ان کے سامنے اپنی پالیسی کو Clear کرنا ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر پاکستان میں ایجوکیشن کی صورت حال کیا ہے؟ اس میں ہمیں شعور دینا ہوگا اور پھر ان لوگوں کو اپنی پالیسی بتانی پڑے گی کہ This is our Vision کہ ہم یہ ایجوکیشن کے لئے کرنا چاہتے ہیں۔ اسی طرح ڈاکٹرز کو Health پالیسی بتانا ہوگی۔ بزنس مین کو Economy پالیسی بتانا ہوگی اور لوگوں کے پاس اپنا منشور لے کر جانا ہوگا کہ ہم امن عامہ کے لئے کیا کرنا چاہتے ہیں؟ Revolution کے حوالے سے قائد محترم کے لیکچر لوگوں تک پہنچانے ہوں گے۔ جب ہر فرد سے اس کی فیلڈ سے متعلقہ بات کریں گے تو وہ سنیں گے بھی اور Response بھی دیں گے۔

سوال: مجلہ دختران اسلام کے قارئین کو کیا پیغام دینا چاہیں گی؟

جواب: کچھ ایسا ضرور کریں جو دوسروں سے مختلف ہو۔ دین اسلام اورمعاشرے کے لئے اور بامقصد زندگی گزاریں۔ پہلے اپنا Vision Clear کریں کہ ہم نے ایک بامقصد زندگی گزارنی ہے۔ پھر Ground Level تک جاکر اس کی Reality کو سمجھیں کہ کون اس ملک کے ساتھ مخلص ہے۔ پھر منہاج القرآن کے پیغام کو سمجھیں اور شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے وژن کو سمجھیں کہ انہوں نے امت مسلمہ کی فلاح کے لئے کیا کچھ کیا ہے۔ یہی وہ شخصیت ہے جنہوں نے سال پہلے جوکہا تھا وہ کرکے دکھایا ہے۔