شبِ براَت۔ رات اور یاد کا تعلق

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری

شبِ براَت کے اجتماع سے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا خصوصی خطاب

ترتیب و تدوین : محمد حسین آزاد الازہری معاونت : ملکہ صبا

مورخہ 25 دسمبر 1996ء کو مرکزی سیکرٹریٹ تحریک منہاج القرآن ماڈل ٹاؤن میں شب براَت کے عظیم الشان اجتماع سے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے خصوصی خطاب فرمایا جس کی نہایت اہمیت کے پیش نظر ایڈیٹ کرکے نذر قارئین کیا جارہا ہے۔ خطاب کی سی ڈی نمبر788 ہے جو مکمل طور پر سماعت کرنا چاہیں وہ اس سے استفادہ کرسکتے ہیں۔ (منجانب: ادارہ دختران اسلام)

بسم الله الرحمن الرحيم

لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِيْ اَحْسَنِ تَقْوِيْمٍo ثُمَّ رَدَدْنٰهُ اَسْفَلَ سٰـفِلِيْنَo اِلَّا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ فَلَهُمْ اَجْرٌ غَيْرُ مَمْنُوْنٍo

(التين، 95 : 4 تا 6)

’’بے شک ہم نے انسان کو بہترین (اعتدال اور توازن والی) ساخت میں پیدا فرمایا ہے۔ پھر ہم نے اسے پست سے پست تر حالت میں لوٹا دیا۔ سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے تو ان کے لیے ختم نہ ہونے والا (دائمی) اجر ہے‘‘۔ (عرفان القرآن)

معزز خواتین و حضرات اور عزیزان محترم! آج اللہ جل مجدہ کا شکر ہے جس سے ہماری زندگیوں کی اصلاح اور روحانی پاکیزگیوں کا سامان میسر آیا۔ انسان کو اللہ رب العزت نے بہت اونچا پیدا کیا اور اس کو بلند رتبہ بنایا ہے اس کا احسن تقویم ہونا نہ صرف جسمانی توازن، جسمانی حسن و جمال اور جسمانی قدرت و کمال کی طرف اشارہ کرتا ہے بلکہ اس کا ’’احسن تقویم‘‘ ہونا اسکی تشکیل روحانی کی عظمت پر بھی دلالت کرتا ہے اور اس کو ظاہراً و باطناً، جسداً و روحاً ہر دو طرح انسان کی تقویم کو اعلیٰ و ارفع بنایا گیا۔ انسان کو اعلیٰ و ارفع مقام دے کر گھٹیا سے پردیس میں بھیج دیا گیا۔ اونچے دیس کا رہنے والا ایک گھٹیا سے پردیس میں بسایا گیا ہے جیسے علامہ اقبال نے کہا : ’’اے طاہر لاہوتی ‘‘ یعنی جو عالم لاہوت کا پرندہ ہے اس کا دیس لاہوت ہے اسی لئے اللہ رب العزت فرماتا ہے کہ انسان میرا راز ہے اور میں اس کا راز ہوں۔ انسان جو راز خدا ہے اس عظیم انسان کو اسفل سافلین یعنی ایک گھٹیا سے دیس میں لاکر بسادیا گیا۔ حرص بھرا، شہوتوں بھرا، مالی رغبتوں سے بھرا، مادی لالچوں سے بھرا، رذائل سے بھرا، برے طور طریقوں سے بھرا ہوا، بری لذتوں سے بھرا، بری چاہتوں سے بھرا ہوا، برے خیالات سے بھرا ہوا، اس دیس میں اس کو لاکر بسادیا جو قرب خداوندی میں رہتا تھا جو رشک ملائکہ تھا جس کی تشکیل کے پہلے نقش کے سامنے اللہ تعالیٰ کے حکم سے فرشتے سجدہ ریز ہوگئے تھے اس انسان کو اس دیس میں لاکر رکھ دیا۔ انسان کے لئے یہ پردیس ہے مگر برا انسان وہ ہوگا جس نے اس پردیس کو اپنا دیس بنالیا اور اسے پردیس سمجھ بیٹھا۔ جہاں سے کوئی آتا ہے وہی دیس و وطن ہوتا ہے یا جہاں کوئی جاتا ہے وہ دیس و وطن ہوتا ہے۔ لہذا یہ انسان آیا ہے احسن تقویم سے اپنا وطن و دیس چھوڑ کر آیا ہے اور یہ وہ دیس ہے جہاں قربتیں تھیں، صحبتیں تھیں اور جلوے تھے۔ حضرت پیر مہر علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا :

’’کن فیکون تاں کل دی گل اے‘‘ یعنی کن فیکون نے ہمیں اس دیس سے نکال کر اس پردیس تک پہنچایا۔ لہذا انسان کی تاریخ و داستان کن فیکون سے شروع ہوگئی ہے۔ انبیاء علیہم السلام کی آمد کا مقصد ہی یہی ہے جو بھول گئے ہیں انہیں یاد دلایا جائے۔ قرآن حکیم میں فرمایا گیا :

فَذَکِّرْ قف اِنَّمَآ اَنْتَ مُذَکِّرٌ.

(الغاشیه، 88 : 21)

’’پس آپ نصیحت فرماتے رہئے، آپ تو نصیحت ہی فرمانے والے ہیں‘‘۔

یا اس کا مطلب یہ ہے کہ اے میرے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو انہیں یاد دلا بے شک تو یاد کرانے والا ہی تو ہے۔ اب یاد کیا کرایا جاتا ہے کیا جو پہلے سے یاد ہو۔ نہیں جو بھول جاتاہے۔ کوئی وہ بات یاد کرائی جاتی ہے جو بھول جاتی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ محبوب ہم نے ان کو اونچے دیس سے نکال کر گھٹیا پردیس میں بھیج دیا ہے اور اور یہ جو پردیس ہے ہماری نگاہ میں تو گھٹیا ہے مگر بسنے والوں کی نگاہ میں بڑا خوبصورت ہے۔ وہاں بڑی چاہتوں کی چیزیں ہیں لہذا یہ گھٹیا سی چاہتوں میں گم ہوکر پرانی سنگت بھول گئے۔

شاعر کیا خوب کہتا ہے:

نہ تھا کچھ تو خدا تھا
کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا

ڈبویامجھ کو ہونے نے
نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا

اسی طرح اقبال نے کہا جب میں تیرا راز تھا تو:

تو نے یہ کیا غضب کیا
مجھ کو بھی فاش کردی

میں ہی تو اک راز تھا
سینہ کائنات میں

امام بوصیری رحمۃ اللہ علیہ جب عقیدہ بردہ شریف لکھتے تو بات یہاں سے شروع کرتے کہ وہ صحراؤں کی راتیں یاد آتی ہیں جو قبیلہ ذی سلم اور ان کے قافلوں نے جو پڑاؤ کیا تھا اور خیمے لگے ہوئے تھے۔ صحرا کا سماں تھا اندھیری رات تھی۔ قبیلہ ذی سلم کے قافلے اور خیمے تھے اور ان صحراؤں کے خیموں میں محبوب بھی رہتا تھا۔ وہ پڑوس جو تھا خیمے والوں کا جس میں محبوب رہتا تھا وہ پڑوس یاد آتا ہے۔ یہ اشارہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف کیا ہے کہ وہ صحراؤں کا محبوب ہے۔ وہ اونٹ کے کجاوؤں پر سفر کرنے والا محبوب ہے۔ وہ ریتلے میدانوں میں سفر کرنے والا محبوب ہے۔ وہ یاد جب بھول گئی تو انبیاء کو بھیجا اور کہا جاکے انہیں یاد کرادو کہ ’’کبھی ہم بھی تم بھی تھے آشنا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو‘‘۔ انسان یہاں آکر گم ہوگیا ہے۔ اسی یاد کو تازہ کرانے کے لئے یہ راتیں رکھ دی ہیں۔ کبھی 27 ویں کی رات رکھ دی لیلۃ القدر کہہ کر، کبھی 15 شعبان کی رات رکھ دی شب برات کہہ کر، کبھی 27 رجب کی رات رکھ دی شب معراج کہہ کر۔ بھولی باتوں کو یاد کرانے کے لئے یہ راتیں رکھی ہیں۔ اس لئے کہ رات اور یاد کا بڑا گہرا تعلق ہے۔ جو یاد سارے دن میں نہیں آتی وہ رات میں حملہ آور ہوتی ہے۔ رات کا تعلق یاد سے ہوتا ہے، دوست سے ہوتا ہے، محبوب سے ہوتا ہے لہذا جب اس کو بھی یاد آئی اور اس نے ملنا چاہا تو اس نے کہا :

سُبْحٰنَ الَّذِيْ اَسْرٰی بِعَبْدِهِ لَيْلًا.

(بنی اسرائیل، 17 : 1)

’’وہ ذات (ہر نقص اور کمزوری سے) پاک ہے جو رات کے تھوڑے سے حصہ میں اپنے (محبوب اور مقرّب) بندے کو مسجدِ حرام سے (اس) مسجدِ اقصیٰ تک لے گئی ‘‘۔

یعنی اللہ تعالیٰ نے جبرائیل امین علیہ السلام سے فرمایا جا میرے محبوب کو جب سب سوجائیں رات میں اٹھا کر لے۔ بقول شاعر

کئی بار سنایا ہے تجھے کئی بار بلایا ہے تجھے
تو بھی تو کبھی رات کومل چھپ کر ندا دے

خود دیکھ لے میں جاگ رہا ہوں تو سورہا ہے
تو بھی تو کبھی میری وفاؤں کا صلہ دے

حضرت زکریا علیہ السلام نے بھی جب پکارا تو قرآن مجید ان پکاروں کو بہت یاد کرتا ہے۔

کهٰيٰـعصo ذِکْرُ رَحْمَتِ رَبِّکَ عَبْدَهُ زَکَرِيًّاo

(مريم، 19 : 1، 2)

’’یہ آپ کے رب کی رحمت کا ذکر ہے (جو اس نے) اپنے (برگزیدہ) بندے زکریا (علیہ السلام) پر (فرمائی تھی)‘‘۔

اِذْ نَادٰی رَبَّهُ نِدَآءً خَفِيًّا.

(مريم، 19 : 3)

’’جب انہوں نے اپنے رب کو (ادب بھری) دبی آواز سے پکارا‘‘۔

قَالَ رَبِّ اِنِّيْ وَهَنَ الْعَظْمُ مِنِّيْ وَاشْتَعَلَ الرَّاْسُ شَيْبًا وَّلَمْ اَکُنْ م بِدُعَآئِکَ رَبِّ شَقِيًّا.

(مریم، 19 : 4)

’’عرض کیا : اے میرے رب! میرے جسم کی ہڈیاں کمزور ہوگئی ہیں اوربڑھاپے کے باعث سر آگ کے شعلہ کی مانند سفید ہوگیا ہے اور اے میرے رب! میں تجھ سے مانگ کر کبھی محروم نہیں رہا‘‘۔

میں یہ عرض کررہا تھا کہ یاد دلانا یہ انبیاء علیہم السلام کا شیوہ ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمکا منصب ہے اور یہ یاد دلانا یہی ہے کہ انسان بھول گئے ہیں کہ ہم کہاں سے آئے ہیں اور کس کے پاس سے آئے ہیں، کیوں آئے ہیں، کس نے بھیجا ہے، پلٹ کرکدھر جانا ہے، اصل دیس کیا ہے، اصل وطن کیا ہے اور اصل محبوب کون ہے؟ یہ سب کچھ بھول گئے ہیں ان جھوٹی رنگینیوں میں آکر لہذا محبوب جاکر انہیں غفلت کے پردے اٹھاکر یاد تو کرادے پھر جب محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یاد کرایا تو کئی فقط جھنجھوڑے گئے، کئی جگائے گئے، کئی اٹھائے گئے، کئی ملائے گئے، کئی دکھائے گئے، مثلاً کسی کو جھنجھوڑا کہ اٹھ جاؤ، اس نے کہا کہ اچھا پھر کروٹ بدل لی کہ اچھا اٹھ رہا ہوں، کئی جاگتے ہوئے بھی سوتے رہتے ہیں لیکن کئی لوگوں کے لئے حکم تھا کہ جھنجھوڑ کر ہٹ نہ جانا ان کو جگادینا اور جاگ کر ان کو جاگ لگ گئی جن کو جاگ لگ گئی وہ جم گئے جو نہیں جمتے وہ جاگ کے بغیر پھرتے ہیں اگر جاگ لگی ہوتی تو آندھیاں کیا جھکڑ چلتے وہ جمے رہتے اور استقامت سے رہتے۔ کئی کے لئے حکم تھا صرف جگانا نہیں انہیں اٹھانا بھی ہے۔

قُمْ فَاَنْذِرْo وَ رَبَّکَ فَکَبِّرْo

(المدثر، 74 : 3)

’’اٹھیں اور لوگوں کو اللہ کا ڈر سنائیں اور اپنے رب کی بڑائی بیان کریں‘‘۔

یعنی اٹھئے اور اٹھا دیجئے تو کئی اٹھائے گئے جو اٹھائے گئے وہ ثابت قدم ہوگئے وہ پیکر جہاد ہوگئے وہ پیکر مجاہدہ ہوگئے۔

وَالَّذِيْنَ جَاهَدُوْا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا ط وَاِنَّ اﷲَ لَمَعَ الْمُحْسِنِيْنَ.

(العنکبوت، 29 : 69)

’’اور جو لوگ ہمارے حق میں جہاد (اور مجاہدہ) کرتے ہیں تو ہم یقینا انہیں اپنی (طرف سَیر اور وصول کی) راہیں دکھا دیتے ہیں، اور بے شک اﷲ صاحبانِ احسان کو اپنی معیّت سے نوازتا ہے‘‘۔

ان میں کچھ خوش نصیب ایسے تھے جو اٹھے اور زندگی اٹھنے میں بیت گئی اور بالآخر وہ ملائے گئے۔

الَّذِيْنَ يظُنُّوْنَ اَنَّهُمْ مُّلٰقُوْا رَبِّهِمْ وَاَنَّهُمْ اِلَيْهِ رٰجِعُوْنَ.

(البقرة، 2 : 46)

’’(یہ وہ لوگ ہیں) جو یقین رکھتے ہیں کہ وہ اپنے رب سے ملاقات کرنے والے ہیں اور وہ اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں‘‘۔

پھر اللہ سے ملاقات ہوتی ہے پس پردہ ملائے گئے اور کچھ وہ خوش نصیب تھے جو دکھائے گئے جنہوں نے دیدار کرلیا۔

يُرِيْدُوْنَ وَجْهَهُ.

(الکهف، 18 : 28)

’’وہ اس کی رضا کے طلبگار رہتے ہیں (اس کی دید کے متمنی اور اس کا مکھڑا تکتے رہتے ہیں)‘‘۔

حدیث پاک میں ہے وہ ایسا دیکھیں گے جیسے چودھویں کی رات کے چاند کو دیکھتے ہیں پھر صحابہ کرامرضی اﷲ عنہ نے کہا آقا چاند کی تپش ضرر نہیں دے گی۔ فرمایا : نہیں وہ ٹھنڈی ہوگی۔

مِّنْ قُرَّةِ اَعْيُنٍ.

(السجدة، 32 : 17)

’’جو آنکھوں کی ٹھنڈک ان کے لئے پوشیدہ رکھی گئی ہے‘‘۔

یہ ایک سفر ہے جو واپس وطن کی طرف کامیابی و کامرانی کے ساتھ انسان کو سرخرو کرکے لے جاتا ہے۔ آیئے آج کی رات اس سفر کا سلیقہ سیکھیں۔ سلیقہ اس طور پر سیکھیں کہ جو جگائے گئے، اٹھائے گئے، ملائے گئے اور دکھائے گئے وہ کیسے لوگ ہوتے ہیں اور کہا کرتے ہیں تاکہ ہمیں اللہ پاک اس کی توفیق عطا فرمادے۔ ہمیں ان قافلوں میں شریک کردے جو پہنچ چکے اور پہنچنے والے ہیں۔ وہ اللہ کے بندے ہوتے ہیں۔ سچے طالب ہوتے ہیں ان کے بارے میں قرآن مجید میں یوں ارشاد ہے کہ

وَ عِبَادُ الرَّحْمٰنِ الَّذِيْنَ يَمْشُوْنَ عَلَی الْاَرْضِ هَوْنًا. وَّاِذَا خَاطَبَهُمُ الْجٰهِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًا.

(الفرقان، 25 : 63)

’’اور (خدائے) رحمان کے (مقبول) بندے وہ ہیں جو زمین پر آہستگی سے چلتے ہیں۔ اور جب ان سے جاہل (اکھڑ) لوگ (ناپسندیدہ) بات کرتے ہیں تو وہ سلام کہتے (ہوئے الگ ہو جاتے) ہیں‘‘۔

وَالَّذِيْنَ يَبِيْتُوْنَ لِرَبِّهِمْ سُجَّدًا وَّقِيَامًا.

(الفرقان، 25 : 64)

’’اور (یہ) وہ لوگ ہیں جو اپنے رب کے لیے سجدہ ریزی اور قیامِ (نِیاز) میں راتیں بسر کرتے ہیں‘‘۔

اللہ کے حضور سجدہ ریزیاں کرتے ہیں۔ پھونک پھونک کر قدم رکھتے ہیں۔ کوئی زیادتی نہیں کرتے ہیں اور کوئی زیادتی بھی کرے تو صبر کرتے ہیں اور اس کی سلامتی کی دعا کرتے ہیں۔ عبادت کرتے ہیں اور میری بندگی و اطاعت بجا لاتے ہیں۔ یہ پہلا سامان ہے سفر کا۔ لوگو! اللہ کی بندگی بجا لاؤ اور نوجوان خاص طور پر سنیں جس عمر سے آپ گزر رہے ہیں یہ غنیمت کا دور ہے۔

غنیمت جان لے جتنی ملی ہے کہ میخانہ کھلا ہے کوئی کوئی

اور پتہ نہیں کہ جو کھلا ہے وہ کب تک کھلا رہے۔ نوجوان اس نصیحت کو خاص طور پر پلے سے باندھ لیں کہ عمر کے جس حصے سے وہ گزر رہے ہیں یہ پلٹ کر نہیں آئے گا۔ یہ بڑا قیمتی دور ہے اس سفر میں اگر آپ نے تیاری کرلی تو آپ کا سفر جہازوں اور راکٹ کی طرح طے ہوگا اور اگر ہمارے حال کو پہنچ گئے تو ٹانگوں کی طرح چلتے پھرتے رہو گے لیکن پاکیزہ جوانوں کا سفر راکٹ کی طرح ہے۔ تم نے بھی اگر اپنے چاند تک پہنچنا ہے تو عبادت میں راکٹ بنو۔ عمر بیتی جارہی ہے، زمانہ کسی کا انتظار نہیں کرتا، عمر بھی کسی کا انتظار نہیں کرتی، جو آج کا دن گزر گیا وہ کبھی بھی پلٹ کر نہیں آئے گا، جو گزر گیا سو گزر گیا، وہ خسارہ ہوگیا اور جو بچ گئے معلوم نہیں کیسے ہوں گے لہذا جو دن ہاتھ میں ہے اسی میں جتنی پونجی ہوسکے بنالو۔ اسی میں محنت کرلو وہ محنت کیا ہے؟ اللہ رب العزت کی عبادات و اطاعت و بندگی بجا لاؤ، جو اچھے مسافر ہوتے ہیں وہ اعمال صالحہ کا سامان کرتے ہیں اور اپنی زندگی کے چمن میں اطاعت کے، اعمال کے، عبادت کے اور بندگی کے درخت اگاتے ہیں۔ آیئے ہم اپنی زندگی کو ایک باغ بنائیں۔ اس میں عبادت، اعمال صالحہ اور بندگی و اطاعت کے درخت لگائیں۔ صدق و اخلاص کے ساتھ پھر ان درختوں کو لگاکر سجدے میں پڑ جاتے ہیں۔ کہتے ہیں مولا! ہم جو یہ گناہ کر بیٹھے ہیں معاف کردے۔ اپنی عبادتوں کو گناہ و خطاء سمجھتے ہیں۔

اکابر اولیاء اللہ میں سے ایک ولی تھے۔ ان کی ساری زندگی کا معمول تھا کہ رات بھر عبادت میں کھڑے رہتے اور قیام و سجود میں گزارتے تھے اور جب فجر ہونے کا وقت ہوتا تو سجدے میں گر جاتے تھے اور دھاڑیں مار کر روتے اور کہتے یہ جو ساری رات میری گناہوں میں گزر گئی مجھے معاف فرمادے کیونکہ ان کو اللہ کے حضور اپنا کھڑا ہونا بھی بے ادبی لگتا ہے کہ محبوب میرے ہونٹ اور زبان اس لائق نہ تھی کہ تیرا نام لیتا یہ جو ساری رات تیرا نام لیتے گزر گئی اس خطاء کو معاف کردے۔ میرے محبوب میرا ماتھا اس قابل نہ تھا اسے تیری دہلیز پر رکھتا یہ جو تیری دہلیز پر سجدہ آور رہا۔ سجدے میں گرا رہا۔ یہ جو ساری رات بے ادبی اور گستاخی کی مولا! اس گناہ کو معاف فرمادے۔ الغرض ان کو اپنی عبادتیں، نوافل اور سجدے بھی گناہ دکھائی دیتے ہیں۔ یہ ہے ان کا پہلا قدم۔ یاد رہے 15 قدموں میں آپ کو منزل مل سکتی ہے اگر استقامت سے عمل پیرا رہیں۔ منزل دو قدم میں بھی مل سکتی ہے شرط ہے کہ کروانے والا شعیب علیہ السلام ہو اور کرنے والا موسیٰ علیہ السلام ہو۔ اسی لئے شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ

نہ وہ عشق میں رہیں گرمیاں
نہ وہ حسن میں رہیں شوخیاں

نہ وہ غزنوی میں تڑپ رہی
نہ وہ خم ہے زلفِ ایاز میں

لہذا زندگی میں اطاعت و بندگی اور عمل صالح کے درخت اگاؤ اور جو اگاؤ شرط یہ ہے کہ ان کو عبادت نہ سمجھو بلکہ گناہ سمجھو۔ تکبر نہ کرو۔ ان کو شمار نہ کرنے لگو کہ اتنی عبادت و تسبیحات کرلیں۔ اس میں پڑتے ہی مارے جاؤ گے۔ ایسا سایہ دار درخت ہوجائے کہ چمن مہک اٹھے مگر جس درخت کو دیکھو رو پڑو، عرض کرو، مولا یہ کتنا بڑا گناہ ہے جو مجھ سے ہوگیا۔

حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ ساری رات جامع مسجد بغداد میں عبادت کرتے، سجدے میں گر پڑتے ہیں جب پچھلی رات فجر کا وقت آتا (پرانے سے کپڑے پہنے ہوتے) اس وقت اٹھ کر اپنی داڑھی کو پکڑتے تھے (اسی طرح مالک بن دینار کا بھی معمول تھا) کہتے : مولا داڑھی میں سفید بال آگیا، بوڑھا ہوگیا ہوں، اس بڑھاپے کا حیا کرلے اور مجھے دروزخ کی آگ میں نہ پھینکنا۔ یہ کلمہ کب صادر ہوتا ہے؟ جب وہ اپنی ساری عبادات کو خطا سمجھتے ہیں۔ جب یہ حال ہوجاتا ہے تو اندازہ کریں جو عمل عبادت سے کم درجے کے ہوتے ہیں یا صغیرہ گناہ ہوتے ہیں وہ ان کی نظر میں کتنا کھٹکتے ہیں لہذا پھر وہ کثرت کے ساتھ توبہ کرتے ہیں (یہ دوسرا قدم ہے) پھر اس باغ کو توانا کرنے اور پھل دار درخت بنانے کے لئے توبہ کے پانی سے اس باغ کی آبیاری کرتے ہیں اور کثرت سے پڑھتے رہتے ہیں :

استغفرالله العظيم الذی لا اله الا هو الحی القيوم واتوب اليه.

آقا علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں : ’’میں ہر روز سو مرتبہ توبہ کرتا ہوں‘‘۔

(صحیح مسلم، ج : 4، ص : 2075، رقم : 2702)

صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین فرماتے ہیں : بسا اوقات ہم ایک مجلس میں ہی بیٹھے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان مبارک سے 40، 40 یا 70، 70 مرتبہ توبہ سنتے۔(صحیح بخاری، ج : 5، ص2324، رقم : 5948)

اسی طرح آپ بھی مالی بن جائیں۔ آپ سب بھی سنت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر عمل کرتے ہوئے اپنے چمن کے رب کی رحمت دیکھیں کہ الگ ٹیوب ویل لگانے کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ کنواں بھی آپ کے اندر ہی موجود ہے تب توبہ کے پانی سے ان درختوں پر غم و حزن اور ندامت کے پھل اگتے ہیں پھر بندہ اللہ کے حضور آنکھیں نہیں اٹھا سکتا۔ (جاری ہے)