اعلیٰ سوچ، اعلیٰ شخصیت

عائشہ پروین

زندگی کے بے شمار رخ ہیں، ہر رخ کو سمجھنا اور اسے سیکھنا غیر معمولی سوچ کا نتیجہ ہے۔ یہ رخ کبھی ہمیں رشتوں میں باندھتا ہے تو کبھی صحرا کا مسافر بنادیتا ہے۔ کبھی درد کی تپش سہنا سکھاتا تو کبھی پرسکون جھیل کی سیر کرواتا ہے۔ بات تو تب بنتی ہے جب ہم ہر رخ کو سنبھال لیں اس کو سمجھتے ہوئے اپنا کردار ادا کریں۔ چاہے یہ کسی ایک فرد کے حوالے سے ہو چاہے ایک معاشرے کی اصلاح کے حوالے سے ہو۔ یہ زندگی کے بے شمار رخ ہیں ہم اپنا حصہ کیسے ڈالتے ہیں کہ کل حساب کے دن ہم یہ کہنے کے قابل ہوسکیں کہ ہاں میں نے اپنا کچھ حصہ ڈالا تھا۔

آج کا دور، جدید سہولیات سے مزین ہے۔ ہر وہ سہولت اور آسائش ہے جو ہماری زندگیوں کو باآسائش بناتی ہے، ہمارے سفر کو آسان کرتی ہے، وقت کو بچاتی ہے اور ہمیں آسمان تک کی سیر کرواتی ہے۔ تو کیا یہ سب کافی ہیں؟ انفرادی اور اجتماعی زندگی میں یہ سب بہت ضروری اور اہم ہیں۔ ان کی اہمیت اور ضرورت کے حوالے سے کوئی دوسری بات نہیں ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ انفرادی اور اجتماعی زندگی کے درمیان جو ایک پل ہے احساس کا، اپنائیت کا، خلوص اور محبت کا، کیا یہ کھلا ہے؟ کہیں ایسا تونہیں کہ راستے بند ہو رہے ہوں اور دونوں کا سفر خدشات اور بیگانگی کا شکار ہو۔ کچھ روز ہوئے ایک طالب علم بہت ہی نالاں نظر آیا۔ اس کو اپنی زندگی بے مقصد نظر آتی تھی۔ اس کا خیال تھا کہ وہ چاہے انفرادی طور پر، کتنی ہی کوشش کرے وہ معاشرے میں کوئی تبدیلی نہیں لاسکتا۔۔۔ آپ کا کیا خیال واقعی ایسا ہے؟؟

یہ سوچ ہمارے معاشرے میں جڑ پکڑتی جارہی ہے۔ ہر دوسرا بچہ اس طرح کی بات کرتا نظر آئے گا کیوں؟ کیا وہ کچھ کرنہیں سکتے یا کرنا نہیں چاہتے؟ آخر کیوں اس دھرتی کی خوبصورت کونپلوں نے ایسا سوچنا شروع کردیا ہے۔۔۔ یا یہ صرف ان کی سوچ ہے۔

کہتے ہیں کہ دنیا میں وہی امیر ہے، بادشاہ ہے جس کا خیال، جس کی سوچ اعلیٰ ہے۔ دنیا میں جتنے بھی نامور لوگ گزرے ہیں اگر آپ ان کی زندگی کی کہانی پڑھیں تو آپ کو اندازہ ہوگا ان کی تمام تر کامیابیاں، ان کی اعلیٰ سوچ کا نتیجہ تھیں۔ انہوں نے سوچا، انہوں نے کچھ کرنے کا سوچا، انہوں نے اعلیٰ سوچا اور آخر کار اعلیٰ کاموں کی صورت میں دنیا کو بتایا کہ آخر انہوں نے اپنی سوچ کو حقیقت میں بدل دیا۔

آپ کی سوچ آپ کا مستقبل ہوتی ہے۔ آپ یہ سوچ لیں کہ میں یہ نہیں کرسکتا یا اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا تو آپ نے اپنی ترقی اور کامیابی کے دروازے کو خود ہی تالہ لگادیا۔ کچھ مقصد حاصل کرنے کے لئے آپ کی سوچ کا بامقصد اور اعلیٰ ہونا بہت ضروری ہے۔ اگر آپ چاہیں تو آپ اپنی سوچ سے اندھیرے کو اجالے میں اور ناامیدی کو امید کی کرنوں سے بھی آگے پہنچا سکتے ہیں۔ زندگی میں ایک بات یاد رکھیں اگر آپ ایک غیر معمولی شخصیت بننا چاہتے ہیں تو آپ کو اپنی سوچ، اپنا خیال بھی غیر معمولی اور بامقصد رکھنا ہوگا۔

آپ اس ملک کے لئے اس معاشرے کے لئے اپنا حصہ ڈالتے رہیں۔ اس خوف کے سمندر سے باہر آجائیں جو آپ کو نیکی کے چھوٹے چھوٹے کام کرنے سے بھی روکتا ہے۔ وقت آپ کو بتائے گا کیسے آپ کا ایک تناور درخت بنا اور دوسروں کو فیض یاب کرنے لگ گیا اور یہ ایک انقلاب ہے جو صرف آپ کی مستقل کی کوششوں اور اعلیٰ سوچ کا نتیجہ ہوگا۔

ضروری نہیں کہ فوری طور پر آپ کو اپنی کوششوں کا ثمر ملے، بیج کو درخت بننے میں وقت لگتا ہے۔ درخت بننے کے عمل تک ہر قدم نیکی ہے۔ ہر پل نعمت ہے وہ ذات جس نے اپنے محبوب کے لئے مکڑی کو محافظ بنایا۔ وہ ذات جس نے آگ کو گلزار بنایا۔ کیا وہ آپ کے حصے کو ضائع کرے گا؟

کسی کی تعریف کردینا، کسی کو نیک نیتی سے نصیحت کرنا، اچھا مشورہ دینا، مسکرا کے بات کرنا، کسی کو امید دیتے رہنا بھی آپ کا حصہ ہے جو جمع ہوتا رہے گا۔ کیا خبر آپ کو اس حصے سے کوئی متاثر ہوکے اپنا حصہ بھی ڈالنا شروع کردے جو کہ درحقیقت آپ کا ہی حصہ ہوگا۔ لہذا آج سے ہم یہ عہد کرتے ہیں کہ ہم لوگوں کی زندگیاں سنوارنے کے لئے اور ملک و قوم کی قسمت سنوارنے کے لئے اپنی زندگی کا کچھ نہ کچھ حصہ ضرور ڈالیں گے تاکہ اخروی زندگی میں آقا علیہ الصلوۃ والسلام کے آگے سرخرو ہوسکیں اور اپنا نامہ اعمال دائیں ہاتھ میں پاسکیں۔