ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے تفسیری تفردات و امتیازات

علامہ محمد حسین آزاد

قسط نمبر14

منہاج یونیورسٹی کالج آف شریعہ سے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی تفسیری خدمات کے حوالے سے پہلا ایم فل کرنے کا اعزاز جامعہ کے ابتدائی فاضلین میں سے علامہ محمد حسین آزاد نے حاصل کیا ہے جو جامعۃ الازہر سے ’’الدورۃ التدریبیہ‘‘ میں بھی سند یافتہ ہیں اور مرکزی ناظم رابطہ علماء و مشائخ کے علاوہ مجلہ دختران اسلام کے منیجنگ ایڈیٹر ہیں جن کا مقالہ قارئین کے استفادہ کے لئے بالاقساط شائع کیا جارہا ہے۔

اولیاء اللہ کی معیت کس لئے؟

یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ گوشہ تنہائی میں بیٹھ کر اللہ اللہ کرنے کی بجائے اولیاء اللہ کی سنگت اور ہم نشینی اختیار کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ ان کے سلسلے میں آنے، بیعت کرنے اور نسبت قائم کرنے کی شریعت میں کیا اہمیت ہے ؟ چاہئے تو یہ تھا کہ سارا معاملہ براہ راست اللہ سے استوار کر لیا جاتا اور سیدھا اسی سے تعلق اور ناطہ جوڑنے کی کوشش کی جاتی۔ آخر بندوں کو درمیان میں لانے اور انہیں تقرب الیٰ اللہ کے لئے واسطہ بنانے کی کیا ضرورت ہے ؟جبکہ مقصود کل تو اللہ تبارک و تعالیٰ ہی کی ذات ہے۔

یہ سوال آج کے دور میں دو وجوہات کی بناء پر انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ ایک اس لئے کہ جوں جوں زمانہ آگے گزرتا جا رہا ہے روحانیت اور روحانی فکر مٹتا چلا جا رہا ہے۔ مادیت اور مادی فکر دنیوی تعلیم کے ساتھ ساتھ مذہبی تعلیمات پر بھی غالب آتا جا رہا ہے اور اچھے بھلے تعلیم یافتہ لوگ دین اور مذہب کو بھی مادی پیمانوں پر پرکھنے لگے ہیں۔ اس سوال کی پیدائش کا دوسرا بڑا سبب یہ ہے کہ آج کا دور بے عملی کے ساتھ ساتھ بد عقیدگی کا دور بھی ہے۔ مذہبی اور دینی حلقوں میں نام نہاد خالص توحید پرست طبقے اولیاء اللہ کی عظمت کے صاف منکر ہیں اور ان سے منسوب تعلیمات کو شرک و بدعات کا پلندہ قرار دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک اسلام کے روحانی نظام کی نہ تو شرعی اہمیت ہے اور نہ اس کی کوئی تاریخی حیثیت ہی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ لوگ راہ راست سے بھٹک کر اولیائے کرام کی تعلیمات اور ان کے عظیم سلسلوں اور نسبتوں سے دور ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ اس طرح کی باتیں آج کل بڑی شدت سے زور پکڑ رہی ہیں اور یہ سوال ذہنوں کو مسلسل پراگندہ (Confuse) کر رہا ہے کہ اولیاء و صوفیاء کواللہ کے بندے کے مابین واسطہ ماننے کا ازروئے شریعت کیا جوا ز ہے؟ جب ہم اس سوال کا جواب قرآن مجید سے پوچھتے ہیں تو وہ ہمیں صراحتاً بتاتا ہے کہ بندوں اور خدا کے درمیان اولیاء اللہ کو خود اللہ رب العزت نے ہادی و ر ہبر کے طور پر ڈالا ہے۔ کسی انسان کی اتنی مجال کہاں کہ وہ ایسی جسارت کر سکے! اس بارے میں قرآن مجید کے الفاظ : ’’واصبر نفسک ‘‘ اس حکم کی نشاندہی کرتے ہیں کہ اولیاء اللہ کو ہدایت الی اللہ کے لئے درمیانی واسطہ بنائے بغیر اور کوئی چارہ نہیں اور اللہ تعالیٰ تک رسائی کی یہی صورت ہے کہ اس کے دوستوں سے لولگائی جائے۔ جب ان سے یاری ہوجائے گی تو وہ خود اللہ رب العزت کی بارگاہ کا راستہ دکھائیں گے۔ ‘‘

(طاہرالقادری، ڈاکٹر محمد طاہر القادری، شان اولیاء، لاہور، پاکستان، منہاج القرآن پبلی کیشنز، ص 26 تا 31)

ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے مذکورہ آیت کریمہ سے استنباط و استخراج کرتے ہوئے جدید سائنسی انکشافات و تحقیقات کو موضوع بحث بناتے ہوئے اولیاء کرام کے روحانی سلسلہ کو جدید اسلوب اور پیرائے میں تحریر کیاہے جو انکا تفرد اور خاصہ ہے اس حوالے سے وہ مذکورہ کتاب کے صفحہ نمبر43 پررقمطراز ہیں:

’’مذہب (اسلام) اور سائنس کے درمیان کسی قسم کی مغایرت نہیں ہے۔ وہ دن دور نہیں جب سائنسی انکشافات و تحقیقات کلی طور پر اسلام کی بنیادی صداقتوں کی آئینہ دار ہوں گی۔ لیکن اس نہج پر مسلمان اہل علم اور ماہرین سائنس کو ابھی بہت سا کام کرنا ہے۔ دور جدید میں اسلام کی حقانیت و صداقت کو علوم جدید اور سائنس کے استدلال سے ثابت کرنا وقت کا اہم تقاضا ہے، جس سے زیادہ دیر تک صرفنظر نہیں کیا جا سکتا۔ آج دینی تعلیمات سے بے بہرہ اور خام ذہن یہ سوال کرتا ہے کہ مدینہ منورہ ہم سے ہزاروں کلومیٹر کی مسافت پر ہے پھروہاں سے فیض رسانی کا سلسلہ کیسے جاری ہے ؟ اور یہ کہ اولیاء کو یہ فیض بارگاہِ رسالت سے کیسے ملتا ہے اور وہ اسے ہم تک پہنچانے کا ذریعہ کیسے بنتے ہیں؟ اس کی توجیہ کیسے کی جا سکتی ہے؟ یہ سلاسل طریقت اور یہ نسل در نسل فیضان ولایت کی ترسیل اور منتقلی کس طرح ممکن ہے ؟ یہ اور اس طرح کے بے شمار دیگر سوالات ذہن انسانی میں کروٹ لیتے رہتے ہیں۔

آج کے ترقی یافتہ انسان کے پاس ’’حقیقت‘‘ کے ادراک کے لئے سائنسی طریق کار ایک ایسا معتبر و مستند ذریعہ ہے جو عقلی استدلال اور مشاہدہ حقائق کی بنیاد پر کوئی نظریہ قائم کرتا اور نتائج اخذ کرتا ہے، جنہیں مسلسل تجربے کی کسوٹی پرپرکھا جاتا ہے۔ سائنس کا مطالعہ معروضی حالات کو سامنے رکھ کر کیا جاتا ہے۔ سائنس اور مذہب کی حدود اور دائرہ کار بالکل جدا جدا ہیں۔ سائنس صرف عالم اسباب کا احاطہ کرنے کا دعویٰ کرتی ہے اور اُسے عالم اسباب کے علاوہ کسی اور شئے سے سروکار نہیں جبکہ مذہب ما بعد الطبیعاتی حقائق او راُخروی زندگی جیسے اُمور کو زیر بحث لاتا ہے۔ چونکہ ان دونوں کا دائرہ کار قطعی مختلف ہے لہٰذا سائنس او رمذہب میں کبھی بھی کسی قسم کا کوئی باہمی ٹکراؤ اور تضاد ممکن نہیں۔ دوسری طرف جدید سائنس کے بارے میں ایک بات نہایت و ثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ سائنس کے میدان میں ہونے والی ہر پیش رفت اس حقیقت کو بے نقاب کرتی نظر آتی ہے کہ اس کائنات کی بنیاد مادی نہیں بلکہ روحانی ہے۔ جدید سائنس ایٹمی توانائی کی دریافت کے بعدایک بہت بڑے سر بستہ راز سے پردہ اٹھا چکی ہے۔ وہ یہ کہ کائنات کے ہر ننھے ذرّے کے اندر توانائی کا ایک بیش بہا خزانہ چھپا ہوا ہے، جس سے کائنات میں محیر العقول کارنامے سر انجام دیئے جا سکتے ہیں۔ آئن سٹائن کے نظریہ اضافیت کی مساواتE=mc2کی گتھیاں سلجھانے کے بعدا س سائنس پر فطرت کا یہ راز بے نقاب ہو چکا ہے کہ مادے کو پوری طرح توانائی میں بدلنا ممکن ہے۔ یوں یہ بات تیقن کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ سائنس او رمذہب میں کوئی تضاد نہیں اور یہ کہنا کہ دونوں میں نباہ نہیں ہو سکتا خودد قیانوسی سوچ اور خام خیالی ہے۔ ایک بات بالکل واضح ہے کہ جہاں سائنس کلی طور پر مادی زندگی کے مظاہر سے متعلق ہے اور اسے روحانی زندگی سے کوئی سروکار نہیں، وہاں مذہب اول تا آخر روحانی زندگی سے بحث کرتا ہے اور اس کا اطلاق مادی زندگی پر کر کے انسان کی دنیوی و اُخروی زندگی کو بہتر بنانے کی کامل صلاحیت رکھتا ہے۔

(طاہرالقادری، ڈاکٹر محمد طاہرالقادری، شانِ الاولیاء، لاہور، پاکستان، منہاج القرآن، پبلی کیشنز، ص 43)

زمین کی مقناطیسیت

ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے روحانی زندگی کو سائنسی زبان میں سمجھایا ہے اور روحانی زندگی کا انکار کرنے والے نوجوان کو اُس کی زبان میں قائل کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے جو درحقیقت اُن کا خاصہ اور امتیاز ہے۔ آپ مقناطیس کی مثال دے کر روحانی نظام کو اس طرح ثابت کرتے ہیں:

’’قرآنی تعلیمات اور جدید سائنس کے تناظر میں سب سے پہلے ہم مقناطیس (Magnet) کے حوالے سے بات کریں گے۔ مادی ترقی کے اس دور میں مقناطیس پر بہت کا م ہو رہا ہے۔ یورپ اور امریکہ میں اس پر سیمینار منعقد کئے جا رہے ہیں۔ اس ضمن میں Super Electro Magnetism کے حوالے سے سائنسی تحقیق آگے بڑھ رہی ہے۔ مقناطیسیت وہ قوت ہے جس سے کوئی مقناطیس اپنے دائرہ اثر کے اندر واقع چیزوں کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔ ہر مقناطیس میں ایک خاص مقناطیسی قوت (Magnetic Force) ہوتی ہے، جس کا اثر ایک خاص فاصلے (Range) تک ہوتا ہے۔ جتنا طاقتورکوئی مقناطیس ہو گا اتنا زیادہ فاصلے تک اس کا دائرہ اثر ہو گا۔ اسے اس مقناطیس کا حلقہ اثر (Magnetic Field) کہتے ہیں۔ ہماری زمین فی نفسہ ایک بڑا مقناطیس ہے، جس کی مقناطیسی قوت کا دائرہ کار 80,000 کلومیٹر تک پھیلا ہوا ہے۔ اس کے مقابلے میں مشتری( Jupiter) جو نظام شمسی کا سب سے بڑا سیارہ ہے اس کی مقناطیسی قوت زمین سے بھی اڑھائی لاکھ گنا زیادہ ہے۔ یہ ایک سائنسی حقیقت ہے کہ جو جرمِ فلکی (ستارہ یا سیارہ) جتنی زیادہ کمیّت پر مشتمل ہو گا، اس کا دائرہ کشش بھی اُسی قدر وسیع ہو گا۔

روحانیت کی حقیقت کو نہ سمجھ پانے والے مادّیت زدہ لوگ اکثر یہ سوال کرتے ہیں کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ اللہ کا ایک ولی ہزاروں میل کی مسافت سے اپنے مرید کو اپنی توجہ سے فیضیاب کر دے ؟ اتنی دور سے ایسے کیونکر ممکن ہے؟ کم علمی کے باعث پیدا ہونے والے ان شکوک و شبہات کا جواب بالکل سادہ ہے کہ وہ قدیر و علیم ذات جس نے زمین اور مشتری جیسے سیارگان فلک کو وہ مقناطیسی قوت عطا کر رکھی ہے۔ جو ہزاروں لاکھوں میلوں کے فاصلے پر خلاء میں اُڑتے ہوئے کسی شہاب (Meteorite) پر اثر انداز ہو کر اسے اپنی طرف کھینچتے ہوئے اپنے اوپر گرنے پر مجبور کر سکتی ہے، کیا وہ قادر مطلق ذات مادی حقیقتوں کوروحانی حقیقتوں سے بدلنے پر قادر نہیں؟ اس حقیقت کا ادراک وہی کر سکتا ہے جس کا دل بصیرت قلبی اور نور باطنی سے بہرہ ور ہو۔

ہر صاحب علم پر یہ حقیقت منکشف ہے کہ زمین جو ایک بڑا مقناطیس ہے اس کی مقناطیسی قوت اس کے قطبین (Poles)سے پیدا ہوتی ہے، جو شمالی اور جنوبی پول (North & South Poles) کہلاتے ہیں۔ کشش ثقل کے ان اثرات کو قطب نما (Compass) کی مثال سے بخوبی سمجھا جا سکتا ہے۔ اسے جونہی زمین پر رکھا جاتا ہے، اس کی سوئیوں کا رخ شمالاً جنوباً گھوم جاتا ہے۔ جب( Compass)کے مقابلے میں عام سوئیاں زمین پر رکھیں تو وہ جوں کی توں پڑی رہتی ہیں اور ان کارخ شمالاً جنوباً نہیں پھرتا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ( Compass)کی سوئی کو شمالاً جنوباً کس قوت نے پھیرا؟اس کا جواب یہ ہے کہ وہ مقناطیسی سوئی جس کی نسبت زمینی قطب(Pole) کے ساتھ ہو گئی وہ عام سوئی نہیں رہی بلکہ قطب نما بن گئی۔ اس نسبت کے اثرنے اس کی سمت قطبین کی طرف پھیر دی۔

رُوحانی قطب نمائے اعظم۔۔۔۔ مکین گنبدِ خضراء

مادّیت زدہ لوگوں کوجان لینا چاہیے کہ ان کے دل عام سوئی کی طرح ہیں جو کسی روحانی قطب سے منسلک نہ ہونے کے باعث اس بصیرت افروز نور سے محروم ہیں، جس کے بارے میں قرآن نے لا شرقیة ولا غربیة (النور، 24:35) کہا، کیونکہ اس کے نور کی حدیں شرق و غرب سے ماوراء ہیں۔ روحانی کائنات کا قطب اعظم صرف ایک ہے اور وہ گنبدِ خضرا میں مقیم ہے۔ زمین کے شمالی اور جنوبی دو پول ہیں، جن کی نسبت سے قطب نما کی سوئی شمالاً و جنوباً سمت اختیار کر لیتی ہے، جبکہ فرش سے عرش تک روحانی کائنات کا قطب، گنبد خضرا ء کا مکین ہے۔ جس طرح عام سوئیوں کی نسبت زمین کے قطبین سے ہو جائے تو وہ عام سوئیاں نہیں رہتیں بلکہ خاص ہو جاتی ہیں، جوظاہری واسطہ کے بغیر جہاں بھی ہوں خودبخود اپنی سمتیں شمالاً جنوباً درست کر لیتی ہیں، بالکل اسی طرح ایک مومن کا دل بھی ہر آن مکین گنبد خضراء کی توجہاتِ کرم کی طرف مائل رہتا ہے۔ جن دلوں کی نسبت، گنبدِ خضراء سے ہو جائے وہ عا م نہیں رہتے بلکہ خاص دل بن جاتے ہیں۔ پھر وہ کسی ظاہری واسطے کے بغیر بغداد ہو یا اجمیر، لاہور ہو یا ملتان، جب ان کی نسبت وجود مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہو جاتی ہے تو سمت خود بخود متعین ہو جاتی ہے۔ اگر خدانخواستہ یہ سلسلہ فیض منقطع ہو گیا تواس کا مطلب ہے کہ ہمارے دل کی سوئی خراب ہے اور اس کا رابطہ اپنے روحانی قطب سے کٹ گیا ہے، کیونکہ یہ فیضان تو ہمیشہ جاری رہنے والا ہے۔ اس وسیع و عریض مادی کا ئنات میں اپنے اپنے مداروں میں تیرنے والے تمامتر سیاروں اور ستاروں کے ہمیشہ دو دو پول ہوتے ہیں، جن سے ان کی مقناطیسی لہریں نکل کر ان کی فضا میں بکھرتی اور بیرونی عناصر کے لئے اپنی طرف کشش پیدا کرتی ہیں جبکہ تحت الثریٰ سے اوجِ ثریا تک پھیلی ہوئی اس ساری روحانی کائنات کا پول فقط ایک ہی ہے اور وہ ہماری ہی زمین پر واقع سر زمین مدینہ منورہ میں ہے۔

یہ نظام وحدت کی کارفرمائی ہے کہ جس دل کی سوئی مدینہ کے پول سے مربوط ہو گئی وہ کبھی بھی بے سمت و بے ربط نہ رہے گا۔ آج بھی تاجدار کائنات ا کی مقناطیسی توجہ ہر صاحب ایمان کو اسی طرح سمت Direction دے رہی ہے جیسے زمینی مقناطیس کے دونوں پول کسی قطب نما کو شمال و جنوب کی مخصوص سمت دیتے ہیں۔‘‘

(طاہرالقادری، ڈاکٹر محمد طاہر القادری، شان اولیاء، لاہور، پاکستان، منہاج القرآن پبلی کیشنز، ص45)

مقناطیس بنانے کے طریقے اور شیخ اور مرید کا تعلق

مقناطیس کی بناوٹ کی مثالوں سے ڈاکٹرصاحب نے شیخ اور مرید کے تعلق کو واضح کیا ہے کہ یہ سلسلہ کیسے معرض وجود میں آتا ہے اورکیسے روحانی زندگی میں انسان پرویاجاتا ہے۔ آپ اپنی مذکورہ کتاب میں لکھتے ہیں:

’’مقناطیس بنانے کا پہلا اور دیرپا طریقہ الیکٹرک چارج میتھڈ (Electric Charge Method) کہلاتاہے۔ اس طریقے کی رو سے لوہے کے ایک ٹکڑے میں برقی رو (Electric Current)گزاری جاتی ہے۔ اس کے نتیجے میں جو مقناطیس بنتے ہیں انہیں Electric Charged Magnets یعنی برقی چارج کئے گئے مقناطیس کہتے ہیں۔

یہ مقناطیس اس آیہ کریمہ کا مصداق ہیں جس میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّہُمْ بِالْغَدَاۃِ وَالْعَشِیِّ یُرِیْدُوْنَ وَجْهٗ.

(الکہف، 18 : 28)

’’جو لوگ صبح و شام اپنے رب کو یاد کرتے ہیں اور اس کی رضا کے طلبگار رہتے ہیں ‘‘

اللہ تعالیٰ نے ان بندوں کی یہ کیفیت بیان فرمائی ہے کہ وہ صبح و شام اپنے مولا کی یاد میں مست رہتے ہیں۔ ان میں محنت، مجاہدہ اور تزکیہ کی بجلی گزاری جاتی ہے توروحانی طور پر چارج ہو جاتے ہیں۔ اس پروسیس سے جومقناطیس(Magnet) تیار ہوتے ہیں ان میں سے کسی کو داتاگنج بخش رحمۃ اللہ علیہ بنا کر لاہور میں، کسی کو غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ بنا کر بغداد شریف میں، کسی کو خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ بنا کر اجمیر شریف میں اور کسی کو بہاؤ الدین زکریا رحمۃ اللہ علیہ بنا کر ملتان میں فیض رسانی کو جاری و ساری رکھنے کیلئے مامور کر دیا جاتا ہے۔

مقناطیس بنانے کا دوسرا طریقہ سٹروک میتھڈ (Stroke Method) کہلاتا ہے۔ اس کے مطابق لوہے کے ٹکڑے کو کسی مقناطیس کے ساتھ رگڑا جاتا ہے تو اس میں مقناطیسیت (Magnetism) منتقل ہو جاتی ہے اور لوہے کا وہ ٹکڑ ا بھی اس رگڑ اور معیت سے مقناطیس بن کر لوہے کی عام اشیاء کو اپنی طرف کھینچنے لگ جاتا ہے۔

روحانی مقناطیسیت کی دنیا میں دوسرے طریقے کے ضمن میں وہ لوگ آتے ہیں جو مجاہدہ نفس، محنت اور تزکیہ و تصفیہ کے اعتبار سے کمزور ہوتے ہیں اور وہ اس قدر ریاضت نہیں کرسکتے مگر ان کے اندر یہ تڑپ ضرور ہوتی ہے کہ وہ بھی اپنے قلب و باطن کو کثافت اور رذائل سے پاک و صاف کر کے رضائے الٰہی سے ہمکنار ہوں۔ جس کے بارے میں فرمایا گیا:

وَاصْبِرْ نَفْسَکَ مَعَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّہُمْ بِالْغَدَاۃِ وَالْعَشِیِّ.

(الکہف، 18 : 28)

’’تو اپنے آپ کو ان لوگوں کی سنگت میں جمائے رکھ جو لوگ صبح شام اپنے رب کو یاد کرتے ہیں‘‘

اس آیت مبارکہ میں ان طالبان حق کا ذکر کیا گیا ہے جو اللہ والوں کی صحبت او رمعیت اختیار کر کے اپنے اندر للّٰہیت، حق پرستی اور خدا ترسی کا جوہرپیدا کر لیتے ہیں۔ سٹروک میتھڈ والے ’’وَاصْبِرْ نَفْسَکَ ‘‘ کے مصداق ہوتے ہیں۔ مرید دوسرے طریقے (Stroke Method) سے روحانی مقناطیسیت لیتا ہے اور شیخ پہلے طریقے (Electric Charge Method) سے مقناطیس بنتا ہے۔

(طاہرالقادری، ڈاکٹر محمد طاہر القادری، شان اولیاء، لاہور، پاکستان، منہاج القرآن پبلی کیشنز، ص 47)

ڈاکٹر صاحب اس ضمن میں کئی جدید سائنسی مثالوں سے اپنے موقف کو مضبوط و مستحکم کرتے ہوئے ثابت کرتے ہیں کہ اولیاء کرام کا یہ روحانی سلسلہ نقلی و عقلی دونوں اعتبارات سے عین الیقین کی حدوں کو چھوئے ہوئے ہے جس کا انکار حقیقت ثابتہ کا انکار ہے۔ منفرد خصوصیات کی حامل یہ سائنسی مثالیں درج ذیل ہیں۔ جو بلاشبہ آپ کے تفردات و امتیازات کی عکاسی کرتی ہیں۔ آپ اپنی مذکورہ کتاب میں ان مثالوں کا ذکر اس طرح کرتے ہیں:

پہلی مثال

سٹروک میتھڈ کی مثال ایصال مقناطیسیت کے ضمن میں ایصال حرارت کی سی ہے۔ جیسے کسی موصل شے کو آگ میں تپایا جائے تو خود بھی گرم ہوجاتی ہے اور اپنی حرارت کو آگے بھی منتقل کرتی ہے۔ مثال کے طور پر لوہا ایک اچھا موصل ہونے کے ناطے حرارت کے ایصال کی خاصیت رکھتا ہے جبکہ لکڑی غیر موصل ہے جو آگ میں جل کر راکھ تو ہو جاتی ہے مگر ایصال حرارت کی صفت سے محروم ہے۔

جس طرح لوہا موصل ہونے کے ناطے حرارت منتقل کرنے کی خاصیت سے بہرہ ور ہے اور جب تک اسے حرارت ملتی رہے ایصال کا عمل جاری رکھتا ہے بالکل اسی طرح وہ اولیائے کرام جو فیضان نبوت سے بہرہ یاب ہوتے ہیں وہ اس فیضان کو آگے عامۃ الناس تک منتقل کرتے رہتے ہیں۔ فیضان نبوت کے منتقل کرنے والے اس طریق کار کو روحانی دنیا میں سلسلہ کہتے ہیں اوریہ سلسلہ ان اولیائے کرام سے چلتا ہے جو گنبدِ خضراء کے مکیں سے روحانیت کا Magnetism لیتے اور آگے تقسیم کرتے رہتے ہیں اور ان سے جاری ہونے والا چشمہ فیض کبھی خشک نہیں ہوتا۔

دوسری مثال

موجودہ سائنسی دنیا میں بہت سی چیزیں سپر الیکڑو میتھڈ (Super Elecro Method) کے نظام کے تحت چل رہی ہیں جس کے تحت ایک کوائل (Coil) پر اتنی توجہ اور محنت کی جاتی ہے کہ ہر ممکنہ حد تک اس کی ساری برقی مزاحمت (Electrical Resistance) ختم کر دی جاتی ہے۔ صوفیاء کی زبان میں اسے تزکیہ کہتے ہیں۔ جس کے بارے میں قرآن مجید نے فرمایا:

قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَکیّٰ

(الاعلیٰ، 87 : 14)

’’بے شک وہی بامراد ہوا جو(نفس کی آفتوں اور گناہوں کی آلودگیوں سے ) پاک ہو گیا۔ ‘‘

تزکیہ کیا ہے؟ برقیات کی اصطلاح میں یہ بجلی چارج کرنے کے خلاف تمام تر ممکنہ مزاحمت کو ختم کرتا ہے۔ صوفیاء کی اصطلاح میں یہ نفس کی کدورتوں، رذائل اور اس مزاحمت کو دور کرتا ہے جو قرب الٰہی کی راہ میں حائل ہوتی ہے۔ برقیات کے حوالے سے ہونے والی جدید سائنسی پیش رفت میں کسی بھی کوائل( Coil)کو اس قدر ٹھنڈا کیا جاتا ہے کہ اس کا درجہ حرارت 269Oسینٹی گریڈ پر چلا جاتاہے وہ زیادہ سے زیادہ کرنٹ اپنے اندر سما سکتا ہے۔ واضح رہے کہ ہماری زمین کا اوسط درجہ حرارت محض 15Oسینٹی گریڈ جبکہ پوری کائنات کا درجہ حرارت 270O سینٹی گریڈ ہے۔

اسی تمثیل پر صوفیا ئے کرام مجاہدہ و محاسبہ نفس کے ذریعے اپنے اندر سے غصہ، حسد، بغض، غرور، تکبر اور نفس کی دیگر جملہ کثافتوں کو جو حصول فیض کی راہ میں مانع ہوتی ہیں، اپنے نفس کو خوب ٹھنڈا کر کے بالکل نکال دیتے ہیں تآنکہ وہ سراپایوں نظر آنے لگتے ہیں:

وَالْکَاظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَالْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِ وَاﷲُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ

(آل عمران، 3 : 134)

’’اورغصہ ضبط کرنے والے ہیں اور لوگوں سے (ان کی غلطیوں پر) در گزر کرنے والے ہیں اور اللہ احسان کرنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔‘‘

جس طرح Super Electro Magnetمادی کثافتوں کے دور ہونے سے چارج ہوتا ہے اس سے مادی دنیا میں کرامتیں صادر ہونے لگتی ہیں۔ بالکل اسی طرح اولیاء کا نفس کثافتوں او ررزائل و کدورت سے پاک ہو کر فیضان الوہیت اور فیضان رسالت کو اپنے اندر جذب کر لینے کے قابل بن جاتا ہے اور پھر وہ جدھر نگاہ اُٹھاتے ہیں کرامات کا ظہور ہونے لگتا ہے۔ اس قلبِ ماہیت سے اولیاء کے دل و مُوصل مقناطیس (Conducting Magnet) بن جاتے ہیں جب اس الیکٹرو میگنٹ کو ایک خاص پروسیس سے گزارا جاتا ہے تو وہ Super Conducting Magnetبن جاتا ہے اسے۔ این۔ ایم۔ آر یعنی Nuclear Magnetic Resonantکے پروسیس سے گزارتے ہیں۔ مریض کو جب اس کے سامنے رکھ دیا جاتا ہے تو اس کے بدن کے اندر کی تمام چیزوں سے پردے اُٹھ جاتے ہیں۔ گویا جسم کا پردہ تو قائم رہتا ہے مگر مقناطیسیت کی وجہ سے Scanner کے ذریعے وہ چیزیں جو ننگی آنکھ نہیں دیکھ سکتی سب آشکار کر دی جاتی ہیں۔

سو وہ لوگ جنہوں نے تزکیہ و تصفیہ کی راہ اختیار کی، ان پر سے بصورت کشف پردے اُٹھا دیئے جاتے ہیں۔ وہ کشف سے توجہ کرتے ہیں تو ہزارہا میل تک ان کی نگاہ کام کرتی ہے اور وہ چیزیں جو مغیبات میں سے ہیں اور عام طور پر ننگی آنکھ پہ ظاہر نہیں ہوتیں ان پر آشکار کر دی جاتی ہیں۔