ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے تفسیری تفردات و امتیازات

علامہ محمد حسین آزاد

قسط نمبر 16

منہاج یونیورسٹی کالج آف شریعہ سے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی تفسیری خدمات کے حوالے سے پہلا ایم فل کرنے کا اعزاز جامعہ کے ابتدائی فاضلین میں سے علامہ محمد حسین آزاد نے حاصل کیا ہے جو جامعۃ الازہر سے ’’الدورۃ التدریبیہ‘‘ میں بھی سند یافتہ ہیں اور مرکزی ناظم رابطہ علماء و مشائخ کے علاوہ مجلہ دختران اسلام کے منیجنگ ایڈیٹر ہیں جن کا مقالہ قارئین کے استفادہ کے لئے بالاقساط شائع کیا جا رہا ہے۔

غامدی صاحب امام قرطبی رحمۃ اللہ علیہ نے جن مفسرین کی جماعت کا موقف بیان کیا ہے۔ یہ تمام امام قرطبی رحمۃ اللہ علیہ سمیت بقول آپ کے تعلیم بالغاں کے کسی مدرسے میں عربی کے کسی استاد سے اس زبان کے اصول و قواعد کی دو چار اصطلاحات سن کر قرآن کی تفسیر کرنے نکل پڑے تھے یا یہ لوگ خود عربی قواعد کو مرتب کرنے والے ہیں اور اصول و قواعد میں سند کا درجہ رکھتے ہیں؟ امام قرطبی رحمۃ اللہ علیہ نے تو اس تفسیر کا قائل فراء کو بھی قرار دیا ہے۔اب آپ کے اس ارشاد مبارک کی کیا وقعت رہ جاتی ہے؟’’ لیکن وہ عربی زبان جس کے قواعد سیبویہ، فرائ، زمخشری اور ابن ہشام جیسے علمائے عرب نے ترتیب دیئے ہیں اس کے بارے میں یہ بات پوری ذمہ داری کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ اس میں اس ترجمے کی کوئی گنجائش نہیں۔‘‘

پوری ذمہ داری کے الفاظ غامدی صاحب آپ نے ان تمام ماخذ کا مطالعہ کرنے کے بعد ہی کہے ہوں گے لیکن اب فراء کا قول سامنے آجانے کے بعد کم از کم ادبِ جاہلی کا خمارا ترجانا چاہیے اور یہ بات تسلیم کر لینی چاہیے کہ مطالعہ اور علم وفن میں جو دسترس قادری صاحب کو حاصل ہے میں اس کی گردِ راہ کو بھی نہیں پہنچا۔

3۔ صاحبِ روح البیان امام اسماعیل حقی رحمۃ اللہ علیہ (111ھ)نے بھی یہی معنیٰ بیان کیا ہے۔

ووجدک بين الضالين فهداهم بک فعلی هذا يکون الضلال صفة قومه.

(حقی، امام اسماعیل البروسوی، تفسیر روح البیان، کوئٹہ پاکستان، مکتبہ اسلامیہ، ج: 10، ص457)

’’ اللہ تعالیٰ نے آپ کو گمراہ لوگوں کے درمیان پایا تو اس نے آپ کے ذریعے ان کو ہدایت دی۔ اس تفسیر کے مطابق ضلالت قوم کی صفت قرار پائے گی ‘‘غامدی صاحب ان تراجم کو پڑھتے وقت ضالاً کی تنکیر اور وحدت جس پر آپ نے زور دیا ہے بھی ذہن میں رہے اور خود فیصلہ فرمائیے کہ سب تراجم اور معنی قادری صاحب کی تائید میں ہیں یا نہیں ؟

4۔ امام فخر الدین رازی رحمۃ اللہ علیہ (543۔606ھ/1149۔1210ء)کی تفسیر کا خلاصہ بھی یہی ہے :

وجدک قومک ضالاً فهداهم بک و بشرعک.

(رازی، محمد بن عمربن حسن بن حسين بن علی تيمی، التفسير الکبير، تهران، ايران، دارالکتب العلمية، ج 31، ص 217)

’’اللہ تعالیٰ نے آپ کی قوم کو گمرہ پایا پس آپ کی ذات مبارکہ اور آپ کی شریعت کے ذریعے انہیں ہدایت فرمائی‘‘ ّ

5۔ امام ابوحیان اندلسی رحمۃ اللہ علیہ (682۔749ھ)آیت مذکورہ کی تفسیر میں لکھتے ہیں:

لقد رايت فی النوم انی انکرنی هذه الجملة فاقول علی الفورووجدک ای وجد رهطک

ضالاً فهداه بِکَ.

(اندلسی،ابوحيان محمد بن يوسف الشهير بابی حيان الاندلسی الغرناطی، البحرالمحيط، بيروت، لبنان،دارالفکر، ج 8، ص486)

’’میں نے آپ کو خواب میں دیکھا کہ اس آیت کے ترجمے پر غور کررہا ہوں تو اچانک میں اس کا ترجمہ یہ کرتا ہوں "اللہ تعالیٰ نے آپ کی قوم کو گمرہ پایا تو اسے آپکے ذریعے ہدایت عطا فرمائی ‘‘

مذکورہ امام صرف تفسیر کے امام نہیں بلکہ نحوکے بھی امام ہیں شاید غامدی صاحب اسے خوابی تفسیر سمجھ کر ٹھکرا دیں مگر ٹھکراتے ہوئے یہ یاد رکھیں کہ تفسیر لکھتے وقت وہ حالتِ خواب میں نہیں تھے۔ سب کچھ بیداری میں لکھ رہے ہیں اور درست سمجھ کر لکھ رہے ہیں۔ انہیں یہ بھی توجہ کرنی چاہیے کہ ان لوگوں کے دلوں میں احترام رسول ا کتنا تھا چونکہ اس آیت میں بظاہر ضلالت کی نسبت حضور علیہ السلام کی طرف معلوم ہوتی تھی تو ترجمہ کرتے وقت پریشانی لاحق ہوئی اس پر دن رات سوچا تو رؤیائے صالحہ کی صورت میں اللہ تعالیٰ نے راہنمائی فرمادی۔

ایک ہم ہیں کہ اگر کسی نے ایسی تفسیر اور ترجمہ کردیا ہے تو بھاتا ہی نہیں کیونکہ اس میںادب وتعظیمِ رسول ا ملحوظ رکھی گئی ہے۔ اور ہمیں یہ گوارہ نہیں۔کاش اعتراض کرنے سے پہلے ان کتبِ تفاسیر کا مطالعہ کر لیا ہوتا لیکن جو شخص یہ کہے کہ دین کا فہم حضور علیہ السلام کے بعد فقط مجھے ہی مِلا ہے۔ اسلاف کو قابل ِ اعتبار ہی نہ سمجھے تو اس پر تعجب کرنا بھی بے سود ہے۔اللہ تعالیٰ ہدایت اور عقل ِ سلیم سے نوازے۔ (آمین)

آخر میں صحابی ونواسہ رسول ا امام حسن (رضی اللہ عنہ )سے منقول قرات و ترجمہ کا بیان ضروری ہے تاکہ واضح ہوجائے کہ جن کے گھر میں قرآن نازل ہوا وہ آیت کا کیا مفہوم بیان کرتے ہیں۔امام حسن (رضی اللہ عنہ )کی شخصیت ایسی ہے جنہوں نے براہ راست قرآنی علوم اپنے نانا جان نبی اکرم ا سے حاصل کیے ہیں کم از کم غامدی صاحب ان کے بارے میں تو نہیں کہہ سکتے کہ انہوں نے تعلیم بالغاں کے کسی استاد سے دو چار اصطلاحات سیکھ کر تفسیرکر دی ہے، لیکن فقط ادبِ جاہلیت کی بنیاد پر قرآن فہمی کا دعویٰ رکھنے والا شخص شاید اہل بیت نبوی اکی تفسیر پسند نہ کرے لیکن امت مسلمہ کو وہی تفسیر پسند ہے جو اہل بیت نبوی ا نے کی ہے۔ امام حسن المجتبیٰ رضی اللہ عنہ سے اس آیت کی قرات اس طرح منقول ہے:

ووجد ک ضال فھدیاور اس کا معنی امام قرطبی رحمۃ اللہ علیہ (284۔380ھ/897۔990ء)نے یہ بیان کیا ہے۔

وجدک الضال فاهتدٰی بک.

(قرطبی،ابوعبداﷲ محمد بن احمد بن محمد بن يحيیٰ، الجامع لاحکام القرآن، بيروت،لبنان داراحياء التراث العربی، ج 20، ص: 97)

’’جس گمراہ نے آپ کو پالیا وہ آپ ا کے ذریعے ہدایت پا گیا۔ ‘‘

اس قرات شاذہ سے درج ذیل حقائق سامنے آتے ہیں۔

  1. ضال (گمراہ یا جو یائے راہ) کی نسبت حضور ا کی طرف نہیں بلکہ قوم کی طرف ہے۔
  2. وجد کے لیے یہاں ایک ہی مفعول کافی ہے، دوسرے مفعول کی ضرورت نہیں۔
  3. بعض اوقات سیاق وسباق سے ہٹ کر بھی کسی آیتِ کریمہ کی اپنی جگہ مستقل تفسیر کی جاسکتی ہے۔ بشرطیکہ کتاب و سنت سے متضاد نہ ہو کیونکہ باقی آیات میں وجد کا فاعل اللہ ہے لیکن اس میں سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ نے فاعل ’’ضال‘‘ کو قرار دیا ہے جسے کسی حالت میں بھی غلط قرار نہیں دیا جا سکتا۔
  4. یہاں ضالاً کو بطور مفعول نہیں بلکہ ضال کہہ کر فاعل کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔

اگر غامدی صاحب یہ بات کریں کہ یہ قرات شاذہ ہے لہٰذا معتبر نہیں تو یہ عذر بھی قابل توجہ نہیں، کیونکہ قراتِ شاذہ سے آیت کے معنی و تفسیر کا فاعدہ لینا مسلمہ قاعدہ ہے۔اس قرات کے بارے میں علماء اسلام کا اتفاق ہے کہ اسے نصِ قرآن نہیں کہا جاسکتا مگر کیا اس سے استدلال و احتجاج کیا جاسکتا ہے یا نہیں۔اس بارے میں دو آراء ہیں۔

  1. علمائے احناف کی رائے
  2. علمائے شوافع کی رائے

علمائے احناف کا موقف یہ ہے کہ قراتِ شاذہ کے ساتھ احتجاج جائز اور درست ہے۔ یہ بمنزل خبرِ واحد کے ہوتی ہے۔ اس پر عمل کرنا یا اسے اپنے مصحف میں شامل کرنا اس پر شاہد ہے کہ اس نے یہ نبی کریم ا سے ہی سنی ہوگی گویا یہ حضور ا کی ایسی سنت قرار پائے گی جو بطور تفسیر اور تبیین کے وارد ہوئی ہے۔ لہٰذا اس سے احتجاج بہر طور جائز ہے۔موقف احناف پر درج ذیل تصریحات ملاحظہ ہوں۔

1۔ امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ (450۔505ھ)امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ (80۔150ھ) کا موقف بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

وقال ابو حنيفة يجب لانه وان لم يثبت کونه قرانا ً فلا اقل من کونه خبراً والعمل يجب خبرالواحد.

(غزالی، ابو حامد محمد بن محمدالغزالی،المستصفٰی، ج 1، ص152)

’’قراتِ شاذہ کو قرآن کی تفسیر قرار دینا واجب ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر چہ وہ آیت قراتِ شاذہ کی بنیاد پر قرآن قرار نہیں پا سکتی مگر اسے خبرِواحد کے درجے سے ہر گز کم تصور نہیں کیا جا سکتا اور خبرِ واحد پر عمل کرنا واجب ہے‘‘۔

2۔ امام محمد بن علی شو کانی رحمۃ اللہ علیہ (1173۔1250ھ/1760۔1834ئ)اسی مسئلہ پر گفتگو کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ اگر وہ قرات معنی وا عراب کے لحاظ سے درست ہے تو

لها حکم اخبار الاحاد فی الد لا له علی مدلولها سواءٌ کانت من القرأت السبع اومن غيرها.

(شوکانی، محمد بن علی بن محمد بن محمد الشوکانی، ارشاد الفحول الی تحقيق الحق من علم الاصول،بيروت، دمشق،دار ابن کثير)

’’ یہ قرات معنی پر دلالت کے لحاظ سے خبرِ واحد کا حکم رکھتی ہے خواہ وہ قرات، قرات سبعہ میں سے ہویا نہ ہو۔‘‘

3۔ شیخ محمد الخضری احناف کا موقف یوں بیان کرتے ہیں۔

قال الحنفية يحتج بالقراة الشاذة فيجب التتابع لانه و ان لم يثبت کونه قراناً فلا اقل من کونه خبراً والعمل يجب خبر الواحد.

(خضری،شيخ محمدالخضری،اصول فقه، مصر، مطبعته الاستقامة،1938، ص 210)

’’علمائے احناف کی رائے کے مطابق قراتِ شاذہ سے استدلال واجب ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے ہاں قرآتِ شاذہ کی بنیاد پر قضاء رمضان میں تتابع شرط ہے (اور ان کی دلیل یہ ہے کہ ) اگرچہ یہ قرات قرآن نہیں کہلا سکتی مگر کم از کم خبرِ واحد کے درجہ پر تو فائز ہی ہے۔ اور خبر واحد پر عمل واجب ہوتا ہے۔‘‘

4۔ شیخ محمد زکریا البردیسی لکھتے ہیں:

انما النزاع فی صحة الاحتجاج بغير التواتر والاعتماد عليه فی استنباط الاحکام فالحنفية يذهبون الیٰ صحة احتجاج لان المنقول بغير التواتر لا بدان يکون مسموعاً من النبی صلی الله عليه وآله وسلم و الا لما ساغ لصحابی العدل کتابته و اثباته فی مصحفه فماله الیٰ ان يکون سنة عن الرسول صلی الله عليه وآله وسلم واردة علیٰ سبيل البيان والتفسير لکتاب اللّٰه والسنة مما يصح الاحتجاج بها والاعتماد عليها فی استنباط الاحکام.

(البرديسی، شيخ محمد زکريا، اصول الفقه، ج: 1، ص: 152)

’’قرات شاذہ کے ساتھ احتجاج اور استنباط احکام میں اس پراعتماد کے بارے میں اختلاف ہے۔ علمائے احناف اس کے ساتھ استدلال جائز تصور کرتے ہیں کیونکہ یہ قرات بھی حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام ہی سے مسموع ہو گی ورنہ صحابی اسے اپنے مصحف میں شامل نہ کرتا لہٰذا یہ ایسی سنت قرار پائے گی جو حضور علیہ السلام سے کتاب اللہ کی تفسیر و بیان کے طور پر منقول ہو گی۔ اور سنت سے استدلال و استنباط احکام میں اس پر اعتماد درست ہے۔ ‘‘

دیگر آئمہ کے نزدیک اگرچہ اس سے سنتِ رسول اسمجھ کر استدلال کرنا درست نہیں۔ مگر ایسی قرات کو وہ بھی صحابی اور تابعی کی تفسیر اور مذہب تسلیم کرتے ہوئے قبول کرتے ہیں۔

امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ (450۔505ھ) فرماتے ہیں:

و ان لم يجعله من القرآن احتمل ان يکون ذالک مذهبا له لدليل قد دل عليه واحتمل ان يکون خبراً وما تردد بين ان يکون خبراً ولا يکون فلا يجوز العمل به.

(غزالی، ابو حامد محمد بن محمدالغزالی،المستصفٰی،ج 1، ص152)

’’اگر چہ یہ قرات قرآن نہ کہلائی تو بھی اس کے صحابی کا مذہب ہونے اور خبر ہونے کے دونوں احتمال موجود ہیں۔ اور جس میں دونوں کا احتمال ہو اس پر عمل (بایں وجہ) جائز نہیں ہوتا‘‘۔

ان علماء کے نزدیک بھی قرات شاذہ بہر طور مذہب صحابی تو قرار پائی۔ اصول تفسیر میں مسلمہ طور پر تفسیر کا تیسرا ماخذ، تفسیرِ صحابہ کو قرار دیا گیا ہے۔آپ خواہ اسے سنت تسلیم کریں جیسا کہ جناب کا موقف ہے یا مذہب صحابی جیسے دیگر آئمہ کا قول، اس کے تفسیر ہونے کا انکار نہیں کیا جا سکتا۔ فرق صرف یہ ہو گا کہ سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ماننے کی صورت میں امت پر لازم ہو گا کہ اسے تسلیم کرے اور اس پر عمل کرے مگر مذہب صحابی کی صورت میں اگرچہ اس معنی پر عمل لازم نہ ہو گا مگر یہ بات تو پا یہ ثبوت کو پہنچ جائے گی کہ یہ تفسیر نہ صرف درست ہے بلکہ صحابہ رضی اللہ عنہم سے منقول ہے۔لہٰذا آیت مذکورہ کی جو تفسیر اور ترجمہ قادری صاحب نے بیان کیا ہے اس کی رو سے ضلالت کی نسبت حضور علیہ السلام کی طرف نہیں بلکہ دیگر افراد اور قوم کی طرف ہے۔

جب دور صحابہ رضی اللہ عنہم سے لے کر آج تک کے تمام مسلمہ مفسرین نے بھی اس ترجمہ اور معنی کو اختیار کیا ہے اور یہ منصب رسالت کے مناسب بھی ہے تو اس کے بعد اس ترجمہ پر اعترض کرنا، غلط کہنا یا اسے گمراہی تصور کرنا سوائے تعصب، عناد، کم علمی یا ضد کے اور کیا ہو سکتا ہے ؟

2۔ غامدی صاحب کا دوسرا اعتراض یہ ہے کہ ضآلاً کو هدی کا مفعول مقدم قطعا نہیں بنا یا جاسکتا چنانچہ وہ لکھتے ہیں:

’’وجد‘‘ اس آیت میں افعال قلوب کے طریقے پر دومفعولوں کی طرف متعدی ہواہے چنانچہ لفظ ضالاً کو اس آیت میں زبان کے کسی قاعدے سے بھی فعل هدیٰ ا مفعول قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ‘‘

اس اعتراض کے جوابات درج ذیل ہیں۔

  1. مذکورہ بالا تفسیر و تراجم کو سامنے رکھتے ہوئے اس اعتراض کی کوئی حقیقت نہیں رہ جاتی مثلا قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ (476۔544ھ/083ا۔49اائ) نے جو تر جمہ کیا ہے اسے سامنے رکھیں۔

الم يجدک فهدی بک ضالًا.

(قاضی عياض،ابوالفضل عياض بن موسیٰ بن عياض بن عمروبن موسیٰ،الشفاء بتعريف حقوق المصطفیٰ، ج 1، ص23)

’’کیا آپ کو نہیں پایا پس ہدایت دی اس نے تیرے ذریعے گمراہ لوگوں کو‘‘

اس میں انھوں نے واضح طور پر ضالاً کو وجد کادوسرا مفعول بنانے کے بجائے اسے ہدی کامفعول مقدم قرار دیا ہے کیونکہ یہاں وجد اس معنی کی صورت میں فقط ایک ہی مفعول کا مقتضی ہے۔

امام خفاجی رحمۃ اللہ علیہ (979۔1069ھ/1571۔1659)نے قاضی صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے اس امر پر ان الفاظ میں اختلاف نقل کیا ہے :

فالا ولی ترکه لمافيه من تقد يم المنصوب علی عامله.

(خفاجی،ابو عباس احمد بن محمد بن عمر، نسيم الرياض فی شرح شفاء القاضی عياض، بيروت، لبنان، دارالکتب العلمية، ج 1، ص 211)

مگر انہیں ضال اور گمراہ نہیں کہا اور نہ ہی انھیں غامدی صاحب کی طرح تعلیم بالغاں کے مدرسہ کا طالب علم بنایا ہے۔

  1. یہ ضروری نہیں کہ ہر جگہ وجد دو ہی مفعولوں کا تقاضا کرے۔ اگر وہ بمعنی علم ہو تو دو مفعولوں کا مقتضی ہوتا ہے۔ تمام نحاۃ نے اسی اصول کی تصریح کی ہے۔ ہم یہاں صرف ایک حوالے پر اکتفا کرتے ہیں۔

جامع الدروس العربیہ میں ہے:

والخامس: وجد بمعنی علم و اعتقد. فان لم تکن بمعنی العلم الاعتقادی لم تکن من هذا الباب.

(الغلاينيی، الشيخ المصطفیٰ، جامع الدروس العربية، بيروت،لبنان،منشورات المکتبه العصرية بطباعة والنشر، ج 1، ص 39.40)

’’افعال قلوب میں سے پانچواں فعل وجد ہے۔ بشرطیکہ علم کے معنی میں ہو۔ اگر علم کے معنی میں نہ ہو تو پھر یہ افعال قلوب میں سے نہیں یعنی اس وقت یہ دو مفعولوں کا تقاضا نہیں کرے گا۔‘‘

جن مفسرین نے آیت مذکورہ کا یہ ترجمہ کیا ہے انھوں نے وجد کو بمعنی علم نہیں لیا بلکہ بمعنی صارف لیا ہے۔

اس کے بعد غامدی صاحب کا یہ رٹ لگانا کہ اس کے لئے ہمیشہ دو مفعولوں کا ہونا ہی ضروری ہے قواعد سے لاعلمی اور جہالت کے سوا کچھ نہیں۔

  1. امام حسن مجتبیٰ رضی اللہ عنہ کی قرات بھی اس پر دال ہے کہ وجد بمعنی صارف لیا جا سکتا ہے اور وہ ایک ہی مفعول کا تقاضا کرے گا نہ کہ دو مفعولوں کا وجدک ضال فهدیٰ یہاں ’’ک ‘‘ مفعول اور ’’ضال ‘‘ فاعل ہے۔
  1. بعض علماء نے یہ بھی بیان کیا ہے کہ اگر اس آیت میں وجد کو افعال قلوب سے ہی قرار دیا جائے تو پھر بھی ’’ ضالاً ‘‘ کو فھدیٰ کا مفعول مقدم بنایا جا سکتا ہے اور وہ اس طرح کہ وجد کے مفعول ثانی کو مقدر مان لیا جائے گا کیونکہ قرینہ اور دلیل کی وجہ سے اس کے ایک مفعول کا حذف جائز ہوتا ہے اور محذوف مفعول ثانی لفظ ’’مھدیاً‘‘ ہے۔

امام خفاجی رحمۃ اللہ علیہ (979۔1069ھ/1571۔1659ء) نے بعض لوگوں کی اسی رائے کو ان الفاظ میں نقل کیا ہے۔

ولوجعل وجد متعدياً با لا ثنين حذف احدهما ای وجدک رحيماً فاوی بک يتيماً و مهدياً فهدی بک ضالاًلکان اقرب

’’اگر وجد کو ان(آیات میں ) دو مفعولوں کی طرف ہی متعدی رہنے دیا جائے لیکن دوسرا مفعول (بجائے ضالاً کے ) اس طرح محذوف بنا لیا جائے تو یہ تو جیہ اقرب اور بہتر ہوگی۔ ‘‘اب معنی آیات یہ ہو گا۔

وجدک رحيماً فاوی بک يتيما و مهديا فهدی بک ضالاً

’’کہ تمہیں رحیم و مہربان پایا تو تمہارے ذریعے یتیموں کو ٹھکانہ دیا اورتمہیں مہدی (ہدایت یافتہ ) پایا تو تمہارے ذریعے گمراہوں کو ہدایت دی‘‘۔

(خفاجی، ابو عباس احمد بن محمد بن عمر، نسيم الرياض فی شرح شفاء القاضی عياض، بيروت، لبنان، دارالکتب العلمية، ج: 1، ص: 211)