ڈاکٹر طاہرالقادری اور عوامی انقلاب

آسیہ سیف قادری

انقلاب کا خواب آنکھوں میں سجائے وابستگان تحریک منہاج القرآن اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہیں سفر انقلاب مرحلہ تحریک میں داخل ہوچکا ہے اور اب پیغام انقلاب گھر گھر پہنچ چکا ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر واقعتا قائد انقلاب ڈاکٹر محمد طاہرالقادری اسلامی انقلاب لانے کے لئے مخلص ہیں اور مطلوبہ صلاحیتوں سے بھی لیس ہیں تو پھر ساری قوم ان کی پکار پر لبیک کیوں نہیں کہتی۔ اس سلسلہ میں عرض ہے کہ انتہاء پسندی انسانی فطرت کا خاصہ ہے اور مسلمان آئیڈیل پسند واقع ہوئے ہیں ان کے پرکھنے کا معیار اتنا کڑا ہے کہ کوئی شخصیت بمشکل ہی اس پر پورا اتر سکتی ہے۔ کسی نہ کسی کمزور پہلو کو بنیاد بناکر بات کابتنگڑ بنادیا جاتا ہے شکوک و شبہات کی اڑائی ہوئی گرد میں حقیقت کا چہرہ دکھائی ہی نہیں دیتا ویسے بھی دیکھا جائے تو انسان تو اپنے خالق و مالک کو بھی نہیں مانتے کسی اور کو کیا تسلیم کریں گے بلکہ امت مسلمہ نے معاذاللہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات کو متنازع بنادیا ہے۔ جہاں تک کمزوریوں اور خامیوں کا تعلق ہے کوئی انسان اس سے مبرا نہیں ہوتا تاہم کسی شخصیت کے بارے میں دیکھنے اور سوچنے کے انداز سے بھی بڑا فرق پڑتا ہے بظاہر بعض کمزوریاں حقیقی کمزوریاں نہیں ہوتیں بلکہ جب ایک شخصیت کو دنیا کے مختلف طبقات سے واسطہ رکھنا ہوتا ہے تو ان کی خاطر مصلحتاً کچھ جائز رفعتوں کو اختیار کرنا پڑتا ہے لیکن سطح بین لوگ بدگمانیوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ہم یہ دعویٰ نہیں کرتے کہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کوئی فرشتہ ہیں جن سے غلطی کا صدور ممکن نہیں ان کا کمال ہی ہے کہ تمام تر بشری کمزوریوں کے باوجود انہوں نے قلیل ترین عرصے میں حیرت انگیز ریکارڈ قائم کئے ہیں جس کی نظیر ہماری قریب ترین تاریخ میں نہیں ملتی وہ بندہ جس نے جھنگ کے گلی کوچوں سے ایک سائیکل سے سفر شروع کیا آج جس کی تحریک کا نیٹ ورک ستر ممالک تک پھیل چکا ہے جس نے اپنی خداداد صلاحیتوں اور شبانہ روز محنت کے بل بوتے پر بڑے بڑے میدان سرکئے ہیںجہاں بڑے بڑوں کے قدم ڈگمگا گئے وہاں طاہرالقادری ڈٹے رہے جمے رہے۔

ہوا بھی کم نہ تھی کچھ تیز لیکن
ہوا سے بہتر نکلی لو دیے کی

چونکہ ساری تگ و دو اور بھاگ دوڑ انسانی کاوش ہے اس میں انفرادی اور اجتماعی کمزوریوں کا راہ پا جانا ایک فطری امر ہے اونچ نیچ انسانی زندگی کا حصہ ہیں انسان میدان کارزار میں اترتا ہے تو اونچی پرواز کے لئے آزمائشوں اور مشکلات سے گزارا جاتا ہے۔ عارضی ناکامیاں اس کے صبرو ثبات کا امتحان ہوتی ہیں لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اللہ کی رحمت سے مایوس ہوکر توکل اور استقامت کا دامن چھوڑ کر کام ہی چھوڑ دیا جائے۔ اس وقت ساحل پر بیٹھ کر تماشا دیکھنے کی بجائے دریا میں چھلانگ لگانے کی ضرورت ہے۔ امت مسلمہ انتہائی نازک دور سے گزرتے ہوئے اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے پاکستان تباہی کے دھانے پر کھڑا ہے اور جو لوگ اس پرفتن دور میں احیائے اسلام کا کام کررہے ہیں پاکستان کی بقا اور استحکام کی خاطر قربانیاں دے رہے ہیں وہ سر آنکھوں پر بٹھائے جانے کے لائق ہیں۔

یہ حقیقت ہے جو لوگ اس عظیم مشن کے حصول کے لئے سفر انقلاب اختیار کرتے ہیں انہیں چاہنے والے بھی بے شمار ہوتے ہیں تو ناقدین و حاسدین بھی بے حساب ۔ وہ صاحب عقل ہوتا ہے اس لئے حسد کیا جاتا ہے اس کے ہمعصر تو بہت ہوتے ہیں لیکن کوئی ہم سفر نہیں ہوتا۔

وہی ہے تیرے زمانے کا امام برحق
جو تجھے حاضر و موجود سے بیزار کرے

فقر کی سان چڑھا کر جینا اور بھی
تیرے لئے دشوار کرے

نادر روزگار ہستیاں متنازعہ بھی ہوتی ہیں۔ جہاں ان کو کثرت کے ساتھ چاہنے والے ملتے ہیں ان سے نفرت کرنے والوں کی کمی بھی نہیں ہوتی۔ اپنی تاریخ پر نظر ڈالیں تو کوئی عظیم ہستی نہیں ملتی جس کی مخالفت نہ کی گئی ہو البتہ بعد میں آنے والے ادوار میں ان کی عظمت کے ترانے بجائے گئے۔

عمر بھر سنگ زنی کرتے رہے اہل وطن
یہ الگ بات ہے دفنائیں گے اعزاز کے ساتھ

جب کوئی شخصیت غیر معمولی صلاحیتوں کی مالک ہو اور پذیرائی بھی حد سے زیادہ ملے تو ناقدین و حاسدین کا کام بھی تیز ہوجاتا ہے مخالفین چونکہ صرف کیچڑ اچھالتے ہیں اس لئے ان کے اعتراضات بلکہ الزامات پر کان دھرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ شیخ سعدی رحمۃ اللہ علیہ کے بقول موتی ہمیشہ موتی ہی رہتا ہے خواہ کیچڑ میں بھی کیوں نہ گرجائے۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر طاہرالقادری کی شخصیت بلاشبہ ایسا ہی انمول موتی ہے جو پاکستان کی مروجہ گندی سیاست کو پاک کرنے کے لئے اس آلودہ کرپٹ نظام کو بدلنے کے لئے کارزار سیاست میں اترے ہیں اگرچہ گندگی اور آلودگی کو دورکرنے کے لئے انسان کو خود بھی کیچڑ لگ سکتا ہے مگر پاکیزگی اور Purification کا عمل اس کے بغیر ممکن نہیں۔

ڈاکٹر طاہرالقادری کی شخصیت پر اعتراضات کرنے والے افراد کئی قسم کے ہیں جن کو میں نے اپنی ناقص عقل اور کم علمی کے ساتھ پرکھا ہے وہ تین قسم کے ہیں۔

پہلی قسم

  1. مذہبی یا مسلکی بنیادوں پر مخالفت کرنے والے

دوسری قسم

  1. مفاد پرست اور یزیدیت پرست سیاست کے علمبردار

تیسری قسم

  1. جہالت یا کم علمی کی بنا پر مخالف کرنے والے

پہلی قسم کے لوگ انتہائی کٹر مذہبی الذہن ہوتے ہیں اس میں بالخصوص ایسے مسلک کے لوگ سرفہرست ہیں جو اہل سنت کے برعکس دعوت عشق مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ذکر مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فروغ سے بھی معاذ اللہ چڑتے ہیں اور جن کی ساری دعوت نام نہاد توحید پر مبنی ہوتی ہے اور من گھڑت شرک اور بدعت کے نام پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات سے امت کو برگشتہ کرنے کی دعوت میں سرگرم رہتے ہیں یہ وہ فتنہ پرور اور منافق لوگ ہیں جو اپنے نبی کو بھی مان کر نہیں مانتے اور اپنی انتہا پسندی اور فرقہ واریت سے امت مسلمہ کو ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا ہے ایسے عقیدہ رکھنے والے افراد کے منہ سے آپ کو کبھی بھی ڈاکٹر طاہرالقادری کے بارے میں اچھی رائے سننے کو نہیں ملے گی بلکہ جب بھی انہیں موقع ملتا ہے وہ اپنا بغض و کینہ نکالنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے ان لوگوں نے تو پہلے خوابوں اور بشارتوں پر اعتراضات اٹھائے پھر سیاست میں کیوں آئے؟ پھر یہ کہ بیرون ملک جانے پر سوال؟ دھرنا شروع کرنے پر اعتراض؟ دھرنا اٹھانے پر اعتراض؟ الغرض جتنے منہ اتنی باتیں۔

پہلی دو قسم سے تعلق رکھنے والے افرادکو تو آپ کسی صورت مطمئن نہیں کرسکتے کیونکہ ان کی مخالفت کی وجہ حسد اور مفاد ہے انہوں نے تو مخالفت برائے مخالفت بھی کرنا ہے کجا کہ جب وقتی طور پر میدان خالی دیکھ کر تو گیدڑ بھی شیر بن جاتے ہیں اور ستر دن کے طویل ترین اور صبر آزما دھرنے کے دوران ڈاکٹر طاہرالقادری نے جس طرح پوری قوم کو جگایا اور انہیں پاکستان کا آئین سکھایا اور نااہل کرپٹ حکمرانوں کے کارناموں سے قوم کو آگاہ کیا۔ یہ ایک بہت بڑی کامیابی تھی یہ دھرنا بانگ درا تھا اذان انقلاب تھی نوید انقلاب تھا۔ ’’بقول قائد محترم جو لوگ آج تنقید کررہے ہیں یہ لوگ دھرنا شروع کرتے وقت بھی متفق نہ تھے اور اب جب کہ ہم نے اسے ملک گیر دھرنوں اور ملک گیر انقلاب کی تحریک میں بدلا ہے تو آج بھی متفق نہیں وہ اس وقت بھی کہتے تھے کہ ہمیں قادری صاحب کے ایجنڈے اور ان کے منشور سے اتفاق ہے مگر ان کے طریقہ کار سے اختلاف ہے اور یہ اعتراض کل بھی تھا اور آج انتخابات میں حصہ لینے کا جو فیصلہ کیا ہے تو اس سے بھی ختلاف ہے نہ وہ بدلے ہیں نہ ہم بدلے ہیں دونوں اپنی اپنی سمت کو چلے جارہے ہیں۔ یہ اختلاف نئی چیز نہیں پہلے کہتے تھے یہ دھرنا اسٹیبلشمنٹ کے کہنے پر ہوا جب یہ ثابت نہ کرسکے پھر لندن پلان گھڑ لیا، جب لندن پلان میں سے کچھ نہ نکلا تو اب کہنے لگے کہ دھرنا ناکام ہوگیا وہاں سے اٹھ گئے کوئی ڈیل ہوگئی۔ یہ دوسرا پروپیگنڈہ کیاجارہا ہے‘‘۔ اس پر بھی قائد تحریک نے واضح طور پر ایبٹ آباد کے جلسہ میں اعلانیہ فرمایا کہ

’’ڈیل کرنے والا جو پیسے لے اس سے بڑا جہنمی کوئی نہیں ہے۔ اس سے بڑا شیطان ہی کوئی نہیں ہم ایسے عمل پر لعنت بھیجتے ہیں اور تم تو کہتے ہو کہ اربوں روپوں کی ڈیل ہوگئی اور ماڈل ٹائون کا خون معاذ اللہ بیچا گیا ساری دنیا کی حکومتوں اور سلطنتوں کا سرمایہ جمع کر لیں اللہ کے فضل سے میں تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا غلام ہوں وہ میرے جوتے کا سودا بھی نہیں کر سکتے۔ ہم ڈیل کو مسترد کرتے ہیں کروڑ بار لعنت بھیجتے ہیں‘‘۔

لہذا ایسا سوچنا بھی نہایت عجیب اور مضحکہ خیز بات ہے۔ ایسی سوچ صرف ان لوگوں کی ہوسکتی ہے جن کے نزدیک دولت اور پیسہ ہی سب کچھ ہوتا ہے۔ جن کا ایمان کمزور ہے اور دنیا کی دولت ہی ان کی زندگیوں کا مرکز و محور ہوتی ہے مگر جو لوگ ایمان کی دولت سے مالا مال ہوتے ہیں اور عشق مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جن کی زندگی کا سب سے قیمتی سرمایہ ہوتا ہے انہیں نہ دنیا کی کوئی طاقت خرید سکتی ہے اور نہ دنیا کی جاہ و منصب آرائشیں ان کی آنکھوں کو خیرہ کرسکتے ہیں۔

تخت سکندری پر وہ تھوکتے نہیں
بستر لگا ہو جن کا آقا (ص) کی گلی میں

لہذا اس جھوٹے پروپیگنڈے کو کارکنان تحریک منہاج القرآن سختی سے رد کر دیں۔ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری جس لیڈر کا نام ہے وہ فقط ایک سیاستدان ہی نہیں ہیں وہ ایک ایسی نابغہ روزگار عظیم اسلامی سکالر ہیں جنہوں نے اپنے علم و کردار کے ساتھ اسلام کی دعوت حق کو بیک وقت مشرق و مغرب میں سربلند کیا۔ پاکستان ہو یا ہندوستان عالم مشرق ہو یا عالم مغرب، عرب ہو یا عجم ہر جگہ، ہر سو اعلائے کلمۃ اللہ اور عشق مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت کو فروغ دیا بلاشبہ آپ ہی علامہ محمد اقبال کے وہ مرد مومن قلندر ہیں جن کے لئے آپ نے فرمایا:

اٹھ کے اب بزم جہاں کا اور ہی انداز ہے
مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے

آپ ہی وہ سچے عاشق ساقی کوثر ہیں کہ جنہوں نے ذات مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جام عشق و معرفت نوش فرما رکھا ہے اور اسی گنبد خضریٰ کے فیضان کو تمام امت مسلمہ تک پہنچایا ہے۔ محمد عربی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس سچے عاشق کی پہچان جن کو نصیب ہوچکی ہے اور جو مقامِ غلام مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے آگاہ ہوتے ہیں وہی جانتے ہیں۔ ڈاکٹر طاہرالقادری کیا ہیں؟ مجھے انتہائی دکھ اور افسوس کے ساتھ لکھنا پڑ رہا ہے کہ آج کے مادیت پرستی کے دور میں روحانی نسبتوں کا احیا اور اسلامی اقدار کا بھرم رکھنا لوگ فراموش کرچکے ہیں۔ سب جانتے ہیں ڈاکٹر طاہرالقادری علم کا سمندر ہیں۔ سب مانتے ہیں آپ کے پائے کا کوئی عالم دین اس وقت پوری دنیا میں نہیں ہے اور سب کو معلوم ہے یہ کس در کا غلام ہے ؟یہ کس کا عاشق ہے؟ ان کی زندگی کا ورق ورق کھلی کتاب کی مانند ہے اور غالباً اتنی خبر بھی ہے کہ سچے کون ہیں جھوٹے کون ہیں؟ حسینی کون ہیں؟ اور یزیدی کون؟ مصطفوی قیادت کون سی ہے اور دنیاوی اور فرعونی قیادت کون سی ہے؟

65 سالوں سے ملک کو لوٹ کر کھانے والے باکردار اور باصلاحیت یا 65 سالوں سے ظلم و جبریت کی چکی میں پسنے والے مظلوم عوام کو بچانے والی قیادت پاکباز و باکردار ہے۔ ایک طرف آزمودہ، تجربہ شدہ اور پرانے کھوٹے سکے ہیں تو دوسری طرف سچی سُچی ملک و ملت کا درد رکھنے والی گنبد خضریٰ کے فیضان سے جھولیاں بھرنے والی غریبوں کا درد رکھنے والی قیادت مگر افسوس صد افسوس کہ

وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا
 کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا

ہماری اسی حالت زار کا نقشہ علامہ اقبال نے مندرجہ بالا شعر میں کھینچا ہے کہ ایسی بے حسی طاری ہے اس پاکستانی قوم پر کہ اسے اپنی منزل کو کھودینے کا غم تو کیا اپنے زوال اور ناکامی کا دکھ بھی نہیں۔ پاکستان کے قیام کا مقصد ایسی فلاحی اسلامی ریاست کا وجود تھا جو اسلام کا مضبوط قلعہ بن جاتا جو معاشی خوشحالی اور امن و امان کا گہوارہ ہوتا مگر آج یہ تمام تر مقاصد جن کا حصول انقلاب کے بغیر ممکن نہیں اور ایک ہمہ گیر، پر امن انقلاب ہی قائداعظم کے پاکستان کی تکمیل کرسکتا ہے مگر انقلاب جس طبقے کی ضرورت ہے انہیں اس کا شعور نہیں ہر کوئی محو فردا ہے۔ مایوسی اور بے یقینی کی فضا میں ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں آسمان سے کوئی فرشتہ اترے گا تبدیلی یا انقلاب کے لئے مگر انہوں نے فرشتے کا بھی ساتھ نہیں دینا فقط دعائوں اور گھر میں بیٹھ کر ٹی وی دیکھنے سے انقلاب نہیں آیا کرتے۔ انقلاب کا خواب شرمندہ تعبیر کرنے کے لئے اپنا تن من دھن قربان کرنا پڑتا ہے۔ یہ کانٹوں کا راستہ ہے پھولوں کی سیج نہیں۔ تاہم تحریک منہاج القرآن کے کارکنوں نے ہر قسم کی قربانی پیش کرکے ایک ایسی عظیم مثال قائم کی ہے کہ جس کی نظیر تاریخ میں نہیں ملتی اگر قائد بے مثال ہے تو کارکنان بھی بے مثال ہیں۔ اگر کارکنوں نے اپنا تن من دھن قائد کے حکم پر قربان کر دکھایا ہے تو قائد بھی تو ستر دن اپنی 63 سالہ عمر کے ساتھ مسلسل شعلہ بیانی کے ساتھ ان کے دل گرماتا رہا ہے اپنی جان کو ہتھیلی پر رکھ کر سر پر کفن باندھے یہ لیڈر باطل کے ایوانوں میں زلزلہ بپا کئے ہوئے تھا۔

ان کے انقلابی خطابات نے کروڑوں لوگوں کے ذہنوں میں انقلاب بپا کردیا ہے ان کے دھرنے نے دنیا بدل دی ہے۔ پاکستان کو بدل دیا ہے۔ سوئی ہوئی قوم کو جگادیا ہے، مظلوم پسی ہوئی عوام کو ظالموں کے خلاف آواز بلند کرنے کی جرات دی ہے۔ پورے ملک کی عوام کو اپنے حقوق سے آشنا کردیا ہے، حکمت عملی تبدیل کرنے پر الزامات اور اعتراضات کرنے والوں پر وقت ثابت کرے گا کہ یہ دھرنا فاسد نظام کی ابدی موت ثابت ہوگا اگر انقلاب آیا نہیں ہے تو دور بھی نہیں ہے۔ اسلام آباد کا دھرنا انقلاب کی تحریک بن چکا ہے۔ انقلاب کا یہ پیغام پاکستان کے طول و عرض میں ہر شہر شہر، قریہ قریہ پہنچایا جائے اور انقلاب کا ایک طوفان پورے ملک میں اٹھادیا جائے اور دو ماہ کے دھرنے نے جو کروڑوں لوگوں کے ذہنوں میں انقلاب پیدا کردیا، انقلاب کی تڑپ پیدا کر دی ہے سوچوں کے رخ بدل دیئے اور گو نواز گو کا نعرہ گو نظام گو کی تحریک میں بدل گیا ہے۔

بقول قائد انقلاب ’’پاکستان عوامی تحریک کا انقلاب اب سورج بن چکا ہے اور سورج رکتا نہیں چلتا رہتا ہے کبھی سورج ادھر دن کرتا ہے کبھی ادھر دن کرتا ہے سورج حقیقت میں ڈوبا نہیں کرتا اور لوگ سمجھتے ہیں رات آگئی وہ سوتے ہیں تب پتہ چلتا ہے کہ پھر چڑھ جاتا ہے عوامی تحریک اور انقلاب ایک ایسا سورج ہے کبھی غروب ہوگا کبھی طلوع ہوگا، مگر یہ ڈوبے گا نہیں یہ ہر جگہ روشنی پھیلاتا رہے گا اور قریہ قریہ روشن کرتا رہے گا۔ جب کوئی سمجھے گا کہ ڈوب گیا وہ اس پر طلوع ہوجائے گا یہ جان لو میں ہار ماننے والا شخص نہیں ہوں ہمارا نصیب فتح ہی فتح ہے‘‘۔

منزل عشق ملا کرتی ہے جانبازوں کو
ایسے ویسے تو یونہی راہوں میں کھو جاتے ہیں

پھر کینیڈین شہرت پر بہت زیادہ تنقید کی جاتی ہے لیکن اس کے لئے بھی اتنا کہہ دینا کافی ہے کہ ان کے نزدیک انہیں انقلاب سے بڑھ کر کچھ اہم نہیں لہذا جب وقت آیا یہ بھی ترک کر دی جا سکتی ہے۔ میں نے آغاز مضمون میں تین قسم کے معترضین کا ذکر کیا تھا اس میں پہلے دو قسم کے افراد کو کبھی مطمئن نہیں کیا جاسکتا تاہم عوام الناس جو زیادہ علم و شعور نہیں رکھتے انہیں جب حقیقت اور اصل صورتحال سے آگاہ کیا جائے تو ان کی فکری آبیاری سے بہت حد تک تبدیلی آسکتی ہے اور مفید نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔

یزیدی دور سیاست لپیٹا جائے گا
صدا حسین کی گونجے گی راہبر بن کر