اداریہ: پاکستان، سیاستدان اور عوام

پاکستان جس کا مطلب ہے پاک سرزمین جس میں اسلام کا بول بالا ہو، اسلامی قوانین کی بالادستی ہو، اس خطہ ارضی کو حاصل کرنے کا مقصد پسی ہوئی مخلوق خدا کو غیر کے شکنجہ سے نجات دلانا، اسلام کے اصولوں کے مطابق زندگی بسر کرنا تھا۔ قائداعظم محمد علی جناح اپنی فہم و فراست سے مسلمانوں کو الگ وطن دینے میں کامیاب ہوگئے مگر بدقسمتی سے ملک پاکستان سرمایہ دارانہ، بددیانت اور کرپٹ لوگوں کی نذر ہوگیا تو کبھی آمروں کی بھینٹ چڑھ گیا۔ جنہوں نے اپنی تو تجوریاں بھرلیں مگر اس مقصد کو نظر انداز کردیا۔ سیاستدان جو پیدا بھی امیر ہوتا ہے اس کو غریب کی محرومیوں کا اندازہ نہیں ہوتا۔ بھلا وہ غریب کو حقوق کیوں دے گا؟ اس میں اس کو کوئی فائدہ نظر نہیں آتا۔ وہ تو اپنے ماتحتوں کا وہ حال کرتے ہیں جو بڑی مچھلی چھوٹی مچھلی کا کرتی ہے۔ دنیا اس کے منہ کو لگ گئی ہے۔ اس کے نشے میں دھت ہوگیا ہے کہ اپنے سوا کچھ دکھائی نہیں دیتا جبکہ سلف کے خلفاء ایسی زندگی سے پناہ مانگتے ہیں۔

خدا ہم کو ایسی خدائی نہ دے
کہ اپنے سوا کچھ دکھائی نہ دے

آج کا سیاستدان میدان کارزار میں آتا ہے۔ اپنی سرمایہ کاری کرتا ہے۔ اپنے مسحور کن نعروں سے عوام کو بیوقوف بناتا ہے۔ دگنا منافع کماتا ہے اور رخصت ہوجاتا ہے۔ غریب کا خیال ان کی فلاح و بہبود ان کا مطمح نظر نہیں ہوتا بلکہ تعیشانہ زندگی کو مزید فروغ دینا ان کا ہدف ٹھہرتا ہے۔ ان کا حال صرف اور صرف ھل من مزید جیسا ہے۔ حدیث مبارکہ ہے۔ انسان کو اگر ایک سونے کی وادی مل جائے تو وہ دوسری وادی کی خواہش کرے گا۔ اگر دوسری مل جائے تو وہ تیسری کی خواہش کرے گا۔ اسی طرح مزید تو اس کا منہ مٹی کے سوا کوئی چیز نہیں بھر سکی۔ موجودہ سیاستدان ملک پاکستان کی بنیادوں کو کھوکھلا کررہا ہے۔

ان کی نظر میں حکومت ایک تجارت ہے جتنی بڑی انوسٹمنٹ ہوگی اتنا ہی زیادہ منافع ملے گا۔ دوسروں کو فائدہ پہنچانا، دوسروں کے دکھ درد کا خیال رکھنا، ان کے ایجنڈے میں نہیں ہے۔ ان کو دوسروں کے درد کا احساس تب ہو جب ان کو تکلیف ہو۔ لہذا دوائی تو وہی شخص لیتا ہے جس کو تکلیف ہو۔ سیاستدانوں کو ایسی کوئی تکلیف نہیں۔ ان کے پاس تو محلات، گاڑیاں اور نوکر ہیں۔ وہ چاہتے ہی یہی ہیں کہ غریب کے بچے میں شعور بیدار ہی نہ ہو اور نہ ہی وہ اپنے حقوق کی بازیابی کی بات کرے۔ پس ایسی سیاست جس میں غریبوں کی بہتری کے لئے کوئی سامان نہ ہو اس کو ختم ہونا چاہئے۔ پاکستان میں موجود فرسودہ نظام کو دریا برد ہونا چاہئے۔ جس میں غریبوں کا استحصال ہورہا ہے۔ یہ دقیانوسی نظام تب ہی اپنی بساط لپیٹے گا جب ملک پاکستان کی عوام بیدار ہوگی۔ وہ اپنے حقوق کی جنگ لڑے گی اور متحد ہوکر سڑکوں پر نکل آئے گی اور آواز اٹھائے گی کہ ہم ایسے نظام اور سیاستدانوں کو نہیں مانتے جو ملک و قوم کی بہتری کے لئے کوئی اقدام نہ اٹھائے۔ عوام میں بیداری آئے گی تو وہ اپنے حقوق سے آشنا ہوگی۔ اس قوم کو غیور قوم بننا ہوگا۔ اپنے حقوق کو آگے بڑھ کر چھیننا ہوگا۔ اللہ بھی اس قوم کی حالت کو نہیں بدلتا۔ جب تک وہ خود اپنے حقوق کے لئے آوازِ حق بلند نہیں کرتے۔

خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا

ایسے لیڈر کو پہچاننا ہوگا جو مسیحائے جمہوریت ہو، عوام کی بھلائی و بہتری کی بات کرے۔ جو اللہ رب العزت سے ڈرنے والا ہو اور جو نہ صرف غریبوں کے حقوق لوٹا دے بلکہ غریب اور امیر کی تقسیم کو مٹادے۔ اس نظام کو رائج کرے اور ان اصولوں کا پرچار کرے جو چودہ سو سال قبل سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوری انسانیت کو دیئے تھے۔ تب ہی یہ ملک ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہوسکتا ہے اور اسلام کا مضبوط قلع بن سکتا ہے۔

اس نظام زر کو اب برباد ہونا چاہئے
خوشبوؤں کا اک نگر آباد ہونا چاہئے

قائد انقلاب ڈاکٹر محمد طاہرالقادری وہ واحد شخصیت ہیں جنہوں نے اس کرپٹ نظام کو للکارا ہے اور ملک میں انقلاب اور حقیقی تبدیلی کا نعرہ بلند کیا ہے۔ اسلام آباد کے انقلابی دھرنے کا اور کوئی فائدہ ہو یا نہ ہو مگر یہ ضرور ہوا ہے کہ انقلاب اور تبدیلی کی سوچ ہر گھر میں پہنچ چکی ہے۔ جعلی جمہوریت اور غیر منصفانہ اور ظالمانہ نظام بے نقاب ہوچکا ہے۔ عوام میں حکمرانوں سے اور اس بوسیدہ، فرسودہ اور کرپٹ نظام سیاست اور نام نہاد جمہوریت سے نفرت کا جذبہ پیدا ہوا ہے۔ یہی انقلابی دھرنے کی سب سے بڑی کامیابی ہے۔

ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا شعور اور ویژن اپنا اثر دکھا چکا ہے۔ دوران دھرنا جتنا TV چینلز کو دیکھا گیا اور صبح و شام قائد انقلاب نے عوام کے دلوں پر انقلاب کی دستک دی جس سے پاکستان کے کروڑوں گھرانوں میں ان کی انقلابی سوچ اور فکر اور عوامی تحریک کا منشور براہ راست پہنچا اتنا پاکستان کی تاریخ میں کسی انقلابی شخصیت کا نہیں پہنچا۔ اس سے جہاں وہ خود شہرت کی بلندیوں کو پہنچے وہاں انہوں نے حکمرانوں کے سیاہ کارناموں کو طشت از بام کیا۔ یہی ان کی سب سے بڑی کامیابی ہے۔ آئندہ الیکشن میں ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا پاکستان کی پسی ہوئی عوام پر کیا ہوا یہ جادو سر چڑھ کر بولے گا اور اگر صاف و شفاف الیکشن ہوتے ہیں تو منافقانہ سیاست کا بوریا بستر ہمیشہ کے لئے لپیٹا جائے گا۔