ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے تفسیری تفردات و امتیازات

علامہ محمد حسین آزاد

قسط نمبر19

منہاج یونیورسٹی کالج آف شریعہ سے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی تفسیری خدمات کے حوالے سے پہلا ایم فل کرنے کا اعزاز جامعہ کے ابتدائی فاضلین میں سے علامہ محمد حسین آزاد نے حاصل کیا ہے جو جامعۃ الازہر سے ’’الدورۃ التدریبیہ‘‘ میں بھی سند یافتہ ہیں اور مرکزی ناظم رابطہ علماء و مشائخ کے علاوہ مجلہ دختران اسلام کے منیجنگ ایڈیٹر ہیں جن کا مقالہ قارئین کے استفادہ کے لئے بالاقساط شائع کیا جا رہا ہے۔

7۔لا اکراہ فی الدین کے تفسیری معارف

دین اسلام کے خلاف متعصب غیر مسلم مفکرین اور مورخین و مستشرقین نے ارادی طور پر غلط فہمی پھیلانے کی کوشش کی ہے کہ اسلام جبر و تشدد کا دین ہے نیز اسلام کے تصور جہاد کو ایک بھیانک تصویر میں ڈھال کر یہ تاثر دینے کی سازش کی جاتی رہی ہے کہ اسلام خون ریزی اور قتل و غارت گری کا دین ہے۔ اشاعت اسلام کے ضمن میں یہ کہ کر کہ اسلام بزور شمشیر پھیلا ہے بالکل غلط اور یکسر خلاف حقیقت نظریہ ابھارنے کی سازش کی گئی۔ اس تصور کے تحت قرون اولیٰ میں مسلمانوں کی حربی زندگی کی تصویر یوں پیش کی گئی کہ وحشی اور جاہل خونخوار بدؤں کے غول نیزوں اور تلواروں کی جھنکار میں سیل بے پناہ کی طرح دنیا میں پھیل گئے۔ مذہبی جنون سے مغلوب ہو کر آستینیں چڑھائے شعلہ فشاں آنکھوں اور خون سے تر بتر داڑھیوں کے ساتھ جس سمت گئے لوگوں کو جبراً کلمہ پڑھاتے گئے اور انکار کی صورت میں خون کی ندیاں بہاتے گئے۔ مال واسباب لوٹ کر جبراً اپنی حکومت قائم کرتے گئے۔ بربریت اور بہیمیت کی شکل میںآگ اور خون کی ہولی کھیلتے اللہ اکبر کے نعروں کی گونج انسانوں کے سال ہا سال کی محنت سے سجے ہوئے تمدن، علم و عمرانیات، عدل و انصاف، عفت و عصمت کے پھولوں کی کیاریوں کو تہس نہس کرتے ہوئے ویرانوں میں تبدیل کرتے گئے۔ نیز انہوں نے اپنی خون آشامیوں سے جگہ جگہ ٹوٹی ہوئی سلیبوں اور زنّاروں کے ڈھیر لگا دیے۔ مندر ویران اور گرجے مسمار کر دیے۔ بچوں، بوڑھوں اور مردوں کو قتل کر کے عفت مآب عورتوں کو لونڈیوں کی صورت میں نشانہ حوس اور جنس پرستی کا ذریعہ بنایا۔ دوسری طرف مسلمانوں کے اس دور زوال کے باعث بعض مفاد پرست اسلام دشمن حلقوں نے یہ تاثر بھی پیدا کر دیا کہ مسلمانوں کے دینی طبقات آپس میں اسقدر متصادم ہیں کہ ایک کا وجو ددوسرے کیلئے ناقابل برداشت ہے اور فی الواقع عصر حاضر میں الا ما شاء اللہ بعض ایسے مذہبی طبقات نے جنم لیا جن میں سے ہر ایک بزعم خویش صرف اپنے آپ کو ہی دین حق کا علمبردار سمجھنے لگا اور اختلاف رائے کا حق سلب کرتے ہوئے دوسروں کو رفیق سفر جاننے کی بجائے انہیں جزبہ رقابت سے دیکھا جانے لگا۔ نتیجۃً یہ جنون کشیدگی کا باعث بنا۔

دین اسلام کے روشن چہرے کو تاریک کرنے کی مذکورہ مکروہ سازش کو ڈاکٹرمحمد طاہرالقادری نے اپنے ایک درس قرآن میں نہ صرف بے نقاب کیا بلکہ انہوں نے سورۃ بقرہ کی آیت نمبر 256 کی تشریح و تفسیر کرتے ہوئے اپنے مخصوس علمی و فکری انداز میں لا اکراہ فی الدین کے حوالے سے دلائل کے ایسے انبار لگائے جس سے دین اسلام کے دہشت گرد، تنگ نظر اور پر تشدد ہونے کے تمام تر الزامات و اعتراضات کے بادل چھٹ گئے اور دین اسلام کاحسیں چہرہ روز روشن کی طرح عیاں ہوگیا۔ نیزاسلام کا تصور محبت و رواداری بھی اپنے اصلی روپ میں نکھر کر سامنے آ گیا۔یہی آپ کا تفرد و امتیاز اور خاصہ ہے۔

ڈاکٹر صاحب موصوف اپنی کتاب ’’لا اکراہ فی الدین کا قرآنی فلسفہ ‘‘میں سورۃ البقرہ کی آیت نمبر 256 کا حوالہ دے کر رقم طراز ہیں:

لاَ إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ قَد تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ فَمَنْ يَكْفُرْ بِالطَّاغُوتِ وَيُؤْمِن بِاللّهِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَىَ لاَ انفِصَامَ لَهَا وَاللّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌo

(البقرة، 2: 256)

’’دین کے معاملے میں کوئی زبردستی نہیں۔ بے شک ہدایت کی راہ گمراہی سے صاف جدا ہو چکی ہے اب جو کوئی گمراہ کرنے والوں کو نہ مانے اور اللہ پر ایمان لے آئے تو اس نے ایک ایسا مضبوط حلقہ پکڑ لیا جو ٹوٹنے والا ہی نہیں اور اللہ تعالیٰ تمہارے اقوال سنتا اور (نیتوں کو) خوب جانتا ہے۔‘‘

سب سے پہلے اس آیت کے شانِ نزول کے بارے میں ڈاکٹر محمد طاہرالقادری لکھتے ہیں:

’’حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت کے مطابق حصین انصاری رضی اللہ عنہ جو قبیلہ بنی سالم بن عوف سے تعلق رکھتے تھے جب اسلام لائے تو انکے دو بیٹے نصرانی تھے۔ شفقت پدری کے پیش نظر وہ چاہتے تھے کہ کسی طرح انکے بیٹے بھی دربار رسالتمآب ا کے خوشہ چیں بن جائیں اور اسلام کی برکتوں سے مستفیض ہوں۔ اپنے طور پر کافی کوشش کے بعد ایک دن حضرت حصین انصاری رضی اللہ عنہ بارگاہ رسالت میں حاضر ہو کر عرض کرنے لگے : آقاا !مجھے اجازت ہو تو میں اپنے بیٹوں کو کچھ ڈرا دھمکا کر اسلام قبول کرنے پر مجبور کروں؟ کیونکہ مجھے انکا نصرانی رہنا بہت شاق گزرتا ہے۔ اس پر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی۔ حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے انہیں فرمایا کہ’’ دین اسلام میں کوئی زبردستی نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہدایت و ضلالت دونوں راستے واضح کر دیے ہیں۔ دین کے بارے میں کسی کو زبردستی مجبور نہ کیا جائے، اللہ نے کھلی ہدایت دینے کے بعد لوگوں کو اختیار دے دیا ہے۔ ‘‘

(ابن کثیر، ابولفداء اسماعیل بن عمر، تفسیر القرآن العظیم،بیروت، لبنان،دارالمعرفۃ، ج ا،ص اا3)

ڈاکٹر صاحب نے لااِکْرَاهَ فِی الدِّيْنِ کے بارہ مفہوم اپنی مذکورہ کتاب میں تحریر کیے ہیں۔چوتھے مفہوم میں دینی طبقات کے رویہ پر مثبت تنقید کرتے ہوئے ایک بڑی اہم بات لکھتے ہیں:

’’مندرجہ بالاآیت قرآنی سے یہ حقیقت خوب اچھی طرح آشکار ہو گئی کہ مسلمانوں کی ذمہ داری صرف ابلاغ ہے۔حالانکہ ایک کافر کو دائرہ دین میں لانا بہت بڑی سعادت ہے اور مسلمانوں کے حق میں یہ کائنات کی سب سے بڑی نعمت ہے۔ اس نعمت سے اُسے صرف آگاہ کرنے کے لیے اﷲ تعالیٰ نے ہمیں حکمت وتدبر اور دلائل کے ساتھ دعوت دینے کا مکلف بنایا ہے لیکن اتنی بڑی نعمت کے حصول کے لیے اس پر کسی قسم کی سختی کرنے سے منع فرمایا ہے۔ لمحہ فکریہ اور کتنا افسوس ناک امر ہے کہ آج بذات خودمسلمان ایک دوسرے کو اختلاف رائے کی گنجائش نہیں دیتے۔ اسلام کے دائرے میں رہتے ہوئے ہم لوگ اپنی بات منوانے اور اپنی رائے دوسروں پر مسلط کرنے کے لیے کتنی سختیاں کرتے ہیں۔ ایک دوسرے پر عجیب و غریب تہمتیں، الزام تراشیاں حتیٰ کہ بدنامی کا ہر وہ حربہ اپناتے ہیں کہ فریق مخالف بے بس و مجبو ر ہو کر یا تو اپنے موقف سے ہٹ جائے یا پھر ملک چھوڑ کر بھاگ جائے اور بعض اوقات معاملہ موت سے ہمکنار کر دینے کی دھمکیوں پر بھی آ جاتا ہے۔قرآن کریم لااِکْرَاهَ فِی الدِّيْنِ کے ذریعے ہم سب کو اس روش بد سے باز رہنے کی ہدایت کرتا ہے اور ہمیں یہ سبق دے رہا ہے کہ ہم اپنے قلب و نظر کو وسعت دیکر ایک دوسرے کا نقطہِ نظر سنیں۔ دلائل و براہین سے ایک دوسرے کو قائل کریں۔ لیکن یہ کہاں کا انصاف ہے کہ اپنی بات منوانے کیلئے کسی مسلمان بھائی کا جینا حرام کر دیا جائے۔فرائض نبوت سے آگہی کے بعد یہ بات بخوبی سمجھ آ جاتی ہے کہ جب کوئی نبی کسی کو زبردستی اپنی بات منوانے کا مکلّف نہیں او رنہ ہی اسکی ذمہ داری میں یہ شامل ہے کہ کسی کوجبراً ایمان لانے پر مجبور کرے تو عام مسلمانوں کو یہ حق کس نے دیا ہے کہ وہ اپنی مرضی سے جسے جی چاہے کا فر ومشرک اور بے دین قرار دے دیں؟‘‘

(طاہرالقادری، ڈاکٹر محمد طاہرالقادری،لا اکراہ فی الدین کا قرآنی فلسفہ،لاہور، پاکستان،منہاج القرآن پبلیکشنز،ص 26)

لآ اِکْرَاهَ فِی الدِّيْن کا چھٹا اور ساتواں مفہوم بیان کرتے ہوئے ڈاکٹر محمد طاہرالقادری اسکے مثبت اور منفی پہلوؤں کا ذکر کر کے دونوں میں تطبیق کرتے ہوئے مسالک کے درمیان موجود فرقہ واریت اور دہشت گردی کے خاتمے کے حل پر مشتمل نہایت اہم استنباط و استخراج کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’جب کسی مسلمان شخص کے سینے پر گولی رکھ کر اس کو کلمہ کفر پر مجبور کیا گیااور اسے اپنی جان بچانے کیلئے کفریہ کلمات بادل نخواستہ زبان پر لانے پڑے تو اسے کافر نہیں سمجھا جائے گا۔ اسلام کے معیار حسن خلق پر اس سے بڑ ھ کر او رکیا شھادت ہو گی کہ کلمہ کفر زبان سے صادر ہو رہا ہے لیکن اسلام محض اسکے ظاہر پر نظر نہیں رکھتا بلکہ اس کے پس منظر کو ملحوظ رکھتے ہوئے اسکی دلی کیفیت پر انحصار کرتا ہے۔ ‘‘ارشاد فرمایا گیا:

مَن كَفَرَ بِاللّهِ مِن بَعْدِ إيمَانِهِ إِلاَّ مَنْ أُكْرِهَ وَقَلْبُهُ مُطْمَئِنٌّ بِالْإِيمَانِ.

(النحل، 16: 106)

’’جو کوئی اللہ پر ایمان لانے کے بعد منکر ہو جائے سوائے اس حالت کے اس پر زبردستی کی گئی اور اسکا قلب ایمان کی لذّتوںسے مطمئن ہے۔‘‘

مراد یہ کہ اگر سخت مجبوری کی حالت میں کوئی کلمہ کفر زبان پر لے بھی آئے لیکن اسکا دل نور ایمان سے منور ہو اور قرائن و شواہد بھی بتا رہے ہوں کہ اسکی قلبی کیفیت ایمان کے ساتھ اطمینان بخش ہے تو اسکی اس اضطراری حالت کو مستثنیٰ سمجھا جائے گا۔ اس مفہوم کی تائید امام راغب رحمۃ اللہ علیہ (م502ھ)نے بھی مفرادات میں کی ہے۔

انه لا حکم لمن اکره علی دين باطل فاعترف به ودخل فيه.

(راغب،حسین بن محمد الراغب الاصفہانی،المفردات فی غریب القرآن،کراچی،پاکستان،نور محمد اصح المطابع، ص429)

’’اس آیت کے معنی یہ بھی ہیں کہ اگر مسلمان کو دین باطل کے قبول کرنے پر مجبور کیا جائے اور زبان سے اقرار کر کے اس دین میں داخل ہو جائے تو اس پر کفر کا حکم عائد نہیں ہوتا۔‘‘

بیان کئے گئے اس چھٹے مفہوم کاا طلاق لا اکراہ فی الدین کے مثبت پہلو پر تھا کہ کسی نے بحالت مجبوری کلمہ کفر زبان پر لایا مگر اسکے قرائن و شواہد کی وجہ سے وہ بدستور مسلمان ہی رہے گا۔ بحمداللہ وہ کافر نہیں بنتا بشرطیکہ اس کا دل ایمان پر مطمئن ہو۔

اس آیت کے مفہوم کا ایک دوسرا رخ بھی ہے جس کا اطلاق اسکے منفی پہلو پر ہے وہ یہ کہ اگر مسلمان کسی غیر مسلم قوم پر غالب آ جائیں اور مغلوب کفار میں سے کوئی شخص ایسا ہو جسکے متعلق وثوق ہو کہ یہ کافر ہے اب اگر وہ اسلام کا کلمہ زبان پر لے آئے اور اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرے تو قطع نظر اس کے کہ وہ بظاہر مجبور و مغلوب ہے اور اسے جان کا خطرہ ہے کہ شائد اسی لئے اس نے کلمہ پڑھ لیا ہے۔ لا اکراہ فی الدین کے تحت اسکے متعلق اسلام اتنی وسعت نظری کا مظاہرہ کرتا ہے کہ اس کی پچھلی حالت سے صرفِ نظر کیا جائے گا اور ظاہری موجودہ کیفیت پر قیاس کر کے اس کو مسلمان سمجھا جائے گا۔

حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ نے ایک جنگ کے موقع پر ایسے ہی نو مسلم کو قتل کر دیا جس پر آنحضور ا بہت رنجیدہ ہوئے اور حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کی اس غلطی پر آیہ کریمہ نازل ہوئی:

وَلَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ اَلْقٰی اِلَيْکُمُ السَّلٰمَ لَسْتَ مُؤْمِنًا.

(النساء، 4: 94)

’’اور جو شخص تم کو سلام کرے تو اس سے یہ مت کہو کہ تو مسلمان نہیں ہے (یہ نہ سمجھو کہ وہ کافر ہے اور دھوکہ دے رہا ہے) ‘‘

مذکورہ بالا دونوں مفاہیم سے لا اکراہ فی الدین کے تحت اسلام میں تصور رواداری کے دو پہلو زیر بحث آتے ہیں۔ یہاں غور طلب بات یہ ہے کہ پہلے تو اسلام نے مسلمانوں کے کلمہ کفر زبان پر لانے پر اسکی قلبی کیفیت پر انحصار کیا اور اس کے ظاہر سے صرفِ نظر کرتے ہوئے اسکو بدستور مسلمان سمجھا لیکن دوسرے مقام پر جب کوئی کافر بظاہر غلبہ کی وجہ سے ہی اگر کلمہ پڑھ کر اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرے تو یہاں اس کی ظاہری حالت کا اعتبار کیا جائے گا نہ کہ اس کا دل دیکھا جائے گا۔ اسی لئے فرمایا :

لَا تَقُوْلُوْا لَسْتَ مُؤْمِنًا

 (کسی نو مسلم کو مت کہو کہ تم مومن نہیں ہو) تمہیں کیا خبر اس کے دل کی کیفیت کیا ہے؟ دلوں کا حال اللہ ہی بہتر جانتا ہے تمہیں یہ حق نہیں پہنچتا کہ کسی کو اس کی پہلی حالت کفر پر قیاس کرتے ہوئے اس کے اسلام کو مجبوری سمجھو بلکہ قرآن نے اسی آیت میں تھوڑا آگے جا کر مسلمانوں کو تنبیہ کی:

کَذٰلِکَ کُنْتُمْ مِنْ قَبْلُ.

(النساء،4: 94)

’’اسلام لانے سے پہلے تم بھی اسی طرح (کافر )تھے‘‘

مراد یہ ہے کہ ابتدا میں تمہاری بھی زبانی شہادت پر اعتبار کر لیا گیا تھا اور اب تم خود دوسروں کی زبان پر اعتماد نہیں کررہے۔ مندرجہ بالا ہر دو مفاہیم پر اگر تھوڑا سا غور کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ اللہ نے اپنے بندوں کیلئے رحمت وشفقت اور سہولت کا پہلو زیادہ پیش نظر رکھا ہے۔ وہ کتنی رحمتیں کرنے والا رب ہے اور ہم ہیں کہ اسکے بندے کہلانے کے باوجود ہر لمحہ دوسروں کے کمزور پہلو کی جستجو میں مصروف رہتے ہیں۔ ہماری ہر وقت یہی خواہش ہوتی ہے کہ اپنے مد مقابل کے نقائص اور عیوب کی ایک لمبی فہرست تیار کر کے ہزار ہا دیگر ایمانی اوصاف کے باوجود اسکو اسی نقطہِ نظر سے خود بھی دیکھیں اور جہاں تک ہو سکے اس کے نقائص اور بشری کمزوریوں کا چرچا کیا جائے۔ اگر کسی شخصیت کے ننانوے پہلو اسلام کے عین مطابق ہوں اور ایک پہلو بھی کمزور دکھائی دے تو ہم ان ننانوے پہلوؤں کو پس پشت ڈال کر صرف ایک کمزور پہلو کو اچھالتے ہیں۔
آج ہماری ساری کاوشوں کا مدار اس نقطہ پر ہوتا ہے کہ کسی شخص کا کہیں سے کافر ہونا ثابت ہو جائے اور ہم اسکے کفر کا فتویٰ صادر کر کے اپنے’’ تبلیغ دین‘‘ کے فریضے سے عہدہ برآ ہو سکیں۔ ہم اپنی پوری تبلیغی مساعی کا زور اس پر منحصر رکھتے ہیں کہ پوری زندگی کسی ایک شخص بالخصوص کسی عالم دین کو کافر بنا دیں یا کسی نہ کسی طرح اس کا کفر ثابت ہی کر دیں۔

عجب واعظ کی دینداری ہے یارب
عداوت ہے اسے سارے جہاں سے

کتنے افسوس کا مقام ہے اور دین کے ساتھ کتنا ظلم ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے انبیاء و رسل عظام علیہم الصلوٰۃ والسلام، صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین، بزرگان دین اور دیگر صلحاء امت رحم اللہ علیھم اجمعین کی تعلیمات تو یہ بتاتی ہیں کہ حتی المقدور کسی کافر کو مومن بنانے کی کوشش کرنی چاہئے خواہ کمزوری ہی سہی مگر کسی کو بھی دائرہ اسلام میں لے آئے تو عنداللہ فریضہِ دعوت دین ادا ہو گیا مگر آج کا مبلّغ اور دعوت دین حق کا دعویدار اپنی ساری توجہ غیر مسلم کو حلقہ ایمان و اسلام میں داخل کرنے سے زیادہ ایک مسلمان، مومن کو کافر بنانے پر مرکوز کر رہا ہے۔

وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا

ہمیں اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھنا چاہیے اور اپنے رویّوں پر نظر ثانی کر کے یہ سوچنا چاہیے کہ ہم کتنے کامل مسلمان ہیں۔ اگر ہم اپنے ضمیر میں جھانک کر دیکھ لیں اور اپنے آپ کو تول لیں تو کسی کے بارے میں ایسا کہنے کی جرات نہ کریں۔

تبلیغ کے باب میں اسلامی تعلیمات کا مدّعا تویہ ہے کہ اگر کسی میں ایک فیصد بھی اسلام کے آثار ہوں اوروہ کسی دیگر دین کی طرف شدّت سے مائل ہو تو بھی اس کو اپنے قریب لے آؤ اور آہستہ آہستہ حکمت و موعظمت سے اس کی اصلاح کی کوشش کرو۔ لیکن اب ہمارا حال یہ ہے کہ کسی مسلمان کے ننانوے فیصد ایمانی پہلوؤں کے باوجود یہ نہیں سوچتے کہ اسکے اس گوشے کو بھی شامل ایمان کیا جائے اور اسکی اس معمولی سی خامی کو دور کر دیا جائے بلکہ اس کو اتنا اچھالتے ہیں کہ رہی سہی کسر بھی پوری ہو جائے۔ اور وہ ردِ عمل کے طور پر اس نتیجے پر آ جائے کہ باقی ننانوے گوشوں سے بھی محروم ہو جائے ہم اسے دھکے دے کر جب تک کفر کی سرحد میں داخل نہیں کر دیتے۔ اطمینان حاصل نہیں ہوتا۔

(طاہرالقادری، ڈاکٹر محمد طاہرالقادری،لا اکراہ فی الدین کا قرآنی فلسفہ،لاہور، پاکستان،منہاج القرآن پبلیکشنز، ص 48 تا 53)

ڈاکٹرمحمد طاہرالقادری نے اپنی مذکورہ کتاب کے صفحہ نمبر63پر لا اکراہ فی الدین کا بار ہواں اطلاق بیان کرتے ہوئے مرتد کی سزا کی حکمت کے حوالے سے ایک بڑی اہم گتھی سلجھائی ہے اور اسلام پر ہونے والے بہت بڑے اعتراض کامسکت جواب دیا ہے جو آپ کا خاصہ او ر امتیاز ہے۔ آپ لکھتے ہیں :

’’بعض لوگ لا اکراه فی الدين کے مفہوم کو غلط معنوں میں لیتے ہوئے کسی مرتد کی سزائے موت پر اس سے بچاؤ کی خاطر اس آیت کو دلیل بناتے ہیں کہ! اس آیت کے تحت تو دین میں کسی قسم کی سختی نہیں ہے جس کا جی چاہے اسلام کو چھوڑ دے۔ اگر ہم نے اپنی مرضی سے اپنا مذہب چھوڑ دیا اور دوسرے مذہب کو اپنا لیا تو ہمیں قتل کیوں کیا جاتا ہے؟ ہمیں سزائے موت کیوں دی جاتی ہے ؟ یہ تو سراسر سختی اور زبردستی ہے اور مجبور کر کے مسلمان رکھنے کے مترادف ہے جو کہ اس آیت کے مدعا کے خلاف ہے۔ ‘‘

ان کا یہ اطلاق اور مفہوم مدعاء ِاسلام کے بالکل خلاف ہے اسکی مختصر حکمت آگے چل کر آئے گی۔ پہلے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اس حدیث کو دیکھتے ہیں جس میں فرمایا گیا:

مَنْ بَدَّلَ دِيْنَه فَاقْتُلُوْه.

(بخاری، ابو عبداﷲ محمد بن اسماعيل بن ابراهيم مغيره، صحيح البخاری، دمشق، بيروت، دار ابن کثير، ج 6، ص2537)

’’جودین (اسلام )کو چھوڑ کر کوئی اور دین اختیار کرے اسے قتل کر دو۔‘‘

حدیث مبارکہ کے یہ الفاظ اس حقیقت کی نشاندہی کرتے ہیں کہ مرتد واجب القتل ہے مگر طریقہ یہ ہے کہ اس پر وقتاً فوقتاً اسلام پیش کرو اسکی حرکات و سکنات ملاحظہ کرو حجت تمام کر لینے کے بعد اسے قتل کرو۔

یہاں قابل توجہ بات یہ ہے کہ اس سے قبل سب مفاہیم میں لا اکراہ فی الدینکے تحت کافر کو ہر صورت میں امن ہی دیا جاتا رہا ہے۔ مگر یہاں اکراہ کی ممانعت کا حکم نہیں لگتا یعنی کوئی کافر تھا تو کوئی حرج نہیں اس پر اکراہ کی ممانعت کی۔ اسکو مسلمان بنانے کیلئے مجبور نہ کیا جائے لیکن مسلمان ہو کرجو کافر ہو جائے اس کے لئے عدم اکراہ کی ممانعت ہے اسکی وجہ یہ ہے کہ امت محمدیہ ا کی دو قسمیں ہیں۔

  1. امت دعوت
  2. امت اجابت

امت دعوت میں پوری کائنات انسانی شامل ہے جنہوں نے کلمہ نہیں پڑھا اور ابھی تک کافر ہیں وہ بھی حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی امت دعوت میں شامل ہیں۔

امت اجابت میں وہ لوگ شامل ہیں جنہوں نے کلمہ پڑھا او رمسلمان ہو گئے۔ اسلامی ریاست میں کافر کو بھی تمام شہری حقوق اسی طرح حاصل ہوتے ہیں جس طرح مسلمانوں کو انکی جان، مال، عزت و آبرو کی حفاظت کی ذمہ داری اسلامی حکومت کا فرض ہے۔ انہیں اپنے مذہب پر رہتے ہوئے جو مراعات حاصل ہوں دی جائیں۔ اسلامی ریاست انہیں جبراً مسلمان بننے پر مجبور نہیں کر سکتی۔ اسی طرح اسلامی ریاست پر دیگر حقوق کے تحفظ کے ساتھ مسلمانوں کے مذہب کا تحفظ بھی شامل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کیلئے تمام حرام امور کی ممانعت کی گئی اور ان سے باز رکھنا اسلامی ریاست کا فریضہ قرار دیا۔ مثلاً فسق و فجور، بغاوت و سرکشی، چوری، ڈاکہ، زنا، قتل و غارتگری جیسے جملہ امور جو انسان کی جان و مال اور عزت و آبرو سے متعلق ہیں انکے تحفظ کی حکومت ذمہ دار ہے۔

اسلام نے حکم دیا کہ جو لوگ اسلام میں آ گئے یا پیدائشی مسلمان ہیں انکے لئے اسی دین پر قائم رہنا بہتر ہے اسلئے کہ جو مسلمان ہو کر پھر کفر اختیار کرے اسکا ناقابل تلافی نقصان ہوتا ہے۔ اسکی دنیا و آخرت دونوں تباہ ہو رہے ہوتے ہیں۔

اسلامی ریاست میں مسلمان ہو کر رہنے والے شخص کے ایمان، اسلام او رمذہب و دین کا تحفظ بھی ریاست پر اسکی جان و مال و عزت وآبرو کے تحفظ کی طرح ضروری ہے۔

اسلامی ریاست میں جس طرح کسی کی جان و مال پر کوئی ہاتھ نہیں اٹھا سکتا۔ اگراٹھائے گا تو قانون نے اس کی سزا، جرم کی نوعیت کے حساب سے قتل تک رکھی ہے۔ اسی طرح عزت و آبرو پر کوئی نظر بد سے نہیں دیکھ سکتا ورنہ کوڑے اور رجم کی سزا ہے۔ اس سب کیلئے ریاست نے تحفظ دیا ہے مگر ارتداد وہ جرم ہے کہ دولت ایمان لُٹ جانے کی صورت جسکی تلافی ناممکن ہے یہ سب سے بڑا خسارہ اورنقصان ہے جو انسان خود اپنے ہاتھوں نادانی میں کرتا ہے لہٰذایہاں بھی دین، انسان کو اس نقصان پر اسے روکنے کیلئے قتل کی سزا لگا رہا ہے تاکہ اسکودیکھ کر دوسرے لوگ عبرت پکڑیں اور آئے روز اپنا مذہب تبدیل نہ کرتے پھریں۔

اگر ریاست جان و مال، عزت و آبرو جیسے نقصا ن پر قتل کر سکتی ہے تو ضیاعِ ایمان جیسے عظیم نقصان پر اسکے قوانین حرکت میں نہ آئیں ! یہ ریا ست کی کوتاہی اور بد دیانتی ہے۔جب مرتد اس جرم کو اپنی ذاتی مرضی اور آزادی سے تعبیر کرتا ہے تو اس کو یہ سمجھانا ریاست کے فرائض میں شامل ہے کہ یہ اسکی آزادی کا مسئلہ نہیں نادانی اور کم عقلی اور بد بختی کا نتیجہ ہے وہ نادانی سے خود اپنی ایمان کشی کرتے ہوئے ہلاکت کے گڑھے میں گر رہا ہے۔

ترکِ دین پر یہ سزا اس لئے عائد کی گئی ہے تا کہ مسلمان ہونے کے بعد وہ شخص اس نعمت عظمٰی سے محروم نہ ہو جائے۔ اس لحاظ سے بظاہر یہ سزا سخت نظر آتی ہے مگر فی الحقیقت اسکے حق میں اتنی مفید ہے کہ اسکا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ اگر سختی یا مجبوری کی بات ہوتی تو کا فر کو مسلمان بنانے پر یہ قانون عمل میں آتا لیکن اسے مسلمان بنانے پر قطعا ً سختی نہیں کی جارہی چونکہ وہ غیر ہے۔ اسکے تحفظ کا اہتمام کیا جا رہا ہے لیکن مسلمان اپنا ہے اس لئے اسکو یہ اجازت نہیں دی جا سکتی کہ وہ دامنِ اسلام سے کھِسک کر ہلاکت و بربادی کے گڑھے میں گر جائے۔ اسلام میں آجانے کے بعد اس پر قائم رہنا اسکا ذاتی مسئلہ نہیں رہے گابلکہ امّت مسلمہ کی اجتماعی ذمّہ داری ہے۔ اس لئے اگر اس پر سختی کی جائے تو یہ لا اکراه فی الديّن کے منافی نہیں۔ دخول فی الدّ ین کے لئے تو اکراہ منع ہے مگر خروج من الدّینِ سے روکنے کیلئے اکراہ، اکراہ نہیں۔ یہ تحفظّ دین ہے۔
اسلامی نظام حکومت کا سیکولر نظام حکومت سے تقابلی مطالعہ کرتے ہوئے ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے ایک اور اہم اور قابل غور نکتہ کی نشاندہی کی ہے جس سے انہوں نے مخالفین کی طرف سے دین اسلام پر کیے گئے بہت بڑے اعتراض کا رد کیا ہے جوبلاشبہ اُن کا امتیازی وصف ہے۔ وہ اپنی مذکورہ کتاب ’’لا اکراہ فی الدین کا قرآنی فلسفہ‘‘ میں لا اکراہ فی الدین کی تفسیر کرتے ہوئے صفحہ نمبر 67 پر رقم طراز ہیں:

’’سیکولر نظام حکومت میںمذہب کونجی زندگی سے متعلق تصور کیا جاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ وہاں حکومت سے بغاوت سب سے بڑا جرم تصور کیا جاتا ہے جبکہ مذہب سے متعلقہ امور کی بغاوت پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی لیکن اسلامی نظام حکومت میں مرکزیت و حاکمیت توہوتی ہی اللہ کی ہے اسلئے یہاں مذہب کوئی نجی معاملہ نہیں بلکہ اسلامی حکومت کا مقصد اوّلین ہوتا ہی یہ ہے کہ وہ اللہ کے قوانین کو انسانوں میں نافذ العمل بنائے اورمذہب کیا ہوتا ہے ؟ یہی قوانین الٰہیہ اور کتاب و سنت سے ماخوذ معاملات۔ لہٰذا ایک اسلامی حکومت کو یہ گوارا نہیں ہو سکتا کہ اس میں کوئی شخص اسلامی قوانین کی خلاف ورزی کرے یا اللہ سے بغاوت اختیارکرے۔ مذہبی امور کی بغاوت میں سب سے زیادہ قابل گرفت جرم ارتداد ہے اور یہ سزا اسے اسلئے بھی دی جاتی ہے کہ وہ مرتد ہو کر اللہ کی حاکمیت میں اسکے اصولوں کے خلاف علم بغاوت بلند کرتا ہے۔

عصر حاضر کے بعض حلقوں میں کچھ لوگ اسلامی نظام تعزیرات پر انگشت اعتراض بلند کیا جاتا ہے۔ ان کے لئے لمحہِ فکریہ ہے کہ حکومت اپنے وضع کردہ قوانین کی خلاف ورزی اور بغاوت پر اگر کسی کو سزا دیتی ہے تو کوئی اعتراض نہیں کرتا مگر قوانین خداوندی کی کھلے بندوں اور سر عام مخالفت پر پہلے نوٹس ہی نہیں لیا جاتا اور اگر ایسا ہو جائے تو یہ سیکولر سوچ کے حامل شور و غوغا کرتے ہیں کہ اسلام میں وحشت و بربریت ہے۔ ان سے کوئی پوچھے کہ مجازی اور دو روزہ حاکم کی بغاوت موجب ِقتل جرم قرار دیا جائے اور حاکم حقیقی و قادر مطلق سے ارتداد نجی مسئلہ سمجھا جائے؟ فاعتبروا یا اولی الابصار۔

(طاہرالقادری، ڈاکٹر محمد طاہرالقادری،لا اکراہ فی الدین کا قرآنی فلسفہ،لاہور، پاکستان،منہاج القرآن پبلیکشنز،ص 63 تا 68)