عوامی چیلنجز اور شیخ الاسلام (قسط دوم)

ڈاکٹر ابوالحسن الازہری

نیو ورلڈ آرڈر کو چیلنج کرنا

جب امریکہ نے سوویت یونین کے خاتمہ پر اپنے توسیع پسندانہ عزائم کے تناظر میں ساری دنیا کو اپنی سپر پاور کے تحت زیر تسلط رکھنے کا منصوبہ کل عالم انسانیت کے سامنے پیش کیا تو سارے عالم اسلام میں آپ پہلی شخصیت تھے جنہوں نے اس نیو ورلڈ آرڈر کو چیلنج کیا اور آپ نے روزنامہ جنگ کے فورم پر عالم اسلام کی طرف سے نیو ورلڈ آرڈر کا جواب دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: ہم اس نیو ورلڈ آرڈر کو مانتے ہیں جو پیغمبر اسلام نے آج سے چودہ سو سال قبل جاری کیا تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اس موقع پر اعلان کرتے ہوئے فرمایا تھا:

ان الزمان قد استداد کهينة يوم خلق الله السموات والارض.

(سيرت ابن هشام،2 :604)

اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان (یعنی نظام عالم) کو جس حالت پر پیدا کیا تھا زمانہ اپنے حالات و واقعات کا دائرہ مکمل کرانے کے بعد پھر اس مقام پر دوبارہ آگیا ہے۔

آپ نے مزید براں یہ کہا فی الحقیقت یہی وہ قیامت تک رسول اللہ کی زبان اقدس سے دیا ہوا نیو ورلڈ آرڈر ہے اب اس کے بعد کسی نیو ورلڈ آرڈر کی قطعاً ضرورت نہیں ہے۔ آپ نے فرمایا رسول اللہ کا دیا ہوا نیو ورلڈ آرڈر انسانیت کے لئے نجات کا باعث ہے جس میں تمام بنیادی انسانی حقوق کی ضمانت دی گئی ہے۔ ہر قسم کے ظلم و ستم، قتل و غارت گردی، فتنہ و دہشت گردی کے خاتمے کا نہ صرف اعلان کیا گیا ہے بلکہ اسلام کی طرف سے اس کا تحفظ دیا گیا ہے۔ آپ نے بڑے واشگاف الفاظ میں واضح کہا کہ انسانیت کی معراج نبی آخرالزماں کے دیئے ہوئے نیو ورلڈ میں ہے جو آپ نے تاریخ ساز خطبہ، خطبہ حجۃ الوداع کے موقع پر جاری کیا تھا۔ عالم اسلام قیامت تک اسی نیو ورلڈ آرڈر کی پیروی کرے گا، دنیا کے کسی حکمران، کسی حکومت اور کسی سپرپاور کے نیو ورلڈ آرڈر کو ہرگز قبول نہیں کرسکتا۔ اس حوالے سے تفصیلی معلومات آپ کی کتاب ’’نیو ورلڈ آرڈر اور عالم اسلام‘‘ میں دیکھی جاسکتی ہیں۔ جبکہ CD کی صورت میں آپ کا خطاب بھی موجود ہے۔

فرقہ واریت کا چیلنج

تحریک منہاج ج القرآن کی بنیاد جب 1980ء میں رکھی گئی اس وقت پاکستان اپنی تاریخ کے بدترین فرقہ وارانہ فسادات میں مبتلا تھا اور اس سے قبل بھی امت مسلمہ کے مختلف مکاتب علمی اختلافات کی بنا پر ایک دوسرے کو کافر اور مشرک قرار دے رہے تھے۔ معمولی معمولی باتوں پر کفر کا فتویٰ دیا جارہا تھا اور اس حوالے ہر مسجد کا امام خودکفیل تھا اور وہ ذات رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم جس کے ذریعے سے مسلمانوں کو مسلمانی کی پہچان ملی تھی اور جس کے تصدق سے ایمان نصیب ہوا تھا جس کے سبب اسلام اور خدا ملا تھا اسی ذات اقدس کو امت مسلمہ کے درمیان وجہ نزاع بنادیا گیا تھا، واعظین اپنی واہ واہ کے لئے اور عوام سے زیادہ سے زیادہ پیسے بٹورنے کے لئے اشتعال انگیز خطابات کررہے تھے۔ جس میں ایک فرقہ کا شخص رسول اللہ کی کسی شان کو ثابت کرتا تو دوسرے مکتب کا فکر اسی شان رسالتمآب صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے حوالے سے تنقیص کرتا۔ کوئی آپ کی شان اقدس کا اقراری ہوتا، کوئی آپ کی اعلیٰ صفات کا انکاری کرتا اور یوں مناظروں کا ماحول گرم ہوتا اور مناظروں سے بھی بات نہ بنتی تو تکفیر سازی کا ہتھیار استعمال کیا جاتا۔

جبکہ دوسری طرف کچھ لوگ شیعہ اور سنی کی جنگ بپا کئے ہوئے تھے۔ تکفیر سازی کے بعد قتل و غارت گری کا ماحول استوار کئے ہوئے تھے۔ غرضیکہ معاشرہ مذہبی منافرت کی انتہاؤں پر تھا ہر مسجد سے دوسرے کے لئے کفر کے فتوی جاری ہورہے تھے اور کچھ لوگ اس سے آگے بڑھ کر قتل و غارت گری اور ٹارگٹ کلنگ میں مصروف ہوچکے تھے۔

اندریں حالات شیخ الاسلام نے فرقہ واریت کو امت مسلمہ کے لئے ایک ناسور قرار دیتے ہوئے اور اس فتنے کا ہمیشہ کے لئے قلع قمع کرنے کے لئے منہاج القرآن علماء کونسل کے پلیٹ فارم سے علماء کرام و مشائخ عظام کے ساتھ متعدد اجلاس کئے اور اتحاد امت کے لئے 12 نکاتی فارمولا دیا اور یہ تصور دیا کہ اپنا مسلک چھوڑو مت اور دوسرے مسلک کو چھیڑو مت، اور تمام تر اختلافات کو علمی سطح تک محدود رکھنے کا پیغام دیا۔ اس کے باوجود اگر کوئی پھر بھی فرقہ وارانہ سرگرمیوں سے باز نہ آئے تو آپ نے اس کا حل اپنی معروف کتاب ’’فرقہ پرستی کا خاتمہ کیونکر ممکن ہے‘‘ میں دیا ہے۔ اگر حکومت وقت آپ کی ان تجاویز پر عمل پیرا ہوجائے تو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے پاکستان کی سرزمین سے اس فتنہ، فرقہ پرستی کا خاتمہ ہوسکتا ہے۔

البتہ آپ نے اپنے طرز عمل سے، اپنے خطابات سے اور تحریرات کے ذریعے اختلافات کو علمی سطح تک محدود رکھا، علمی اختلافات کی بنا پر کسی کو بھی آج تک اپنے معاصرین میںسے کافر قرار نہیں دیا۔ عصر حاضر کے تناظر میں آپ نے صرف ایک فتوی کفر جاری کیا ہے اور وہ سلمان رشدی ملعون کے بارے میں ہے جس کے لئے گستاخ رسول ہونے پر امت مسلمہ کا اجماع ہے۔ اس کے علاوہ کسی بڑے سے بڑے مخالف کو بھی آپ نے ہمیشہ دعا ہی دی ہے کسی پر کفرکا فتوی نہیں لگایا۔

جدید سائنس کا چیلنج

عصر حاضر میں جدید سائنس کے بظاہر منابع یورپ سے پھوٹتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ جس سے بعض مسلمان مغرب کی اس سائنسی ترقی کی بناء پر مرعوب ہوجاتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں جدید سائنس صرف مغرب ہی کا کارنامہ ہے اور مغرب ہی اس حوالے سے انسانیت کا محسن ہے جبکہ آپ نے اپنے متعدد خطابات کے ذریعے اور اپنی تحریرات کے حوالے سے اس بات کو ثابت کیا ہے کہ جدید سائنس کے متعدد شعبہ جات کے بانی مسلمان سائنس دان ہیں۔ اس تناظر میں آپ کی کتاب مقدمہ سیرۃ الرسول میں بڑی تفصیلات کے ساتھ اس حقیقت کو واضح کیا گیا ہے۔ آپ نے تاریخی تناظر قرطبہ اور اندلس کے تعلیمی اداروں اور وہاں پڑھانے والے مسلمان سائنس دانوں کو ہی جدید سائنس کا پانی ثابت کیا ہے۔

آپ نے دلائل کے ساتھ اس تصور کو بھی کلیتاً رد کیا ہے کہ اسلام جدید سائنس کا مخالف ہے بلکہ آپ نے یہ تصور دیا ہے کہ سائنس جتنی بھی ترقی کرلے وہ قرآن میں بیان کئے گئے علم الہٰی سے آگے نہیں بڑھ سکتی جب آپ نے اسی حقیقت کو واضح کیا کہ عیسائیت سائنس کی ترقی و ارتقاء کے وقت سخت مخالف تھی حتی کہ چرچ کے پادریوں اور سائنس دانوں میں خونی تصادم تک ہوا اور سینکڑوں سائنس دانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ جبکہ اس کے برعکس تاریخ گواہ ہے کہ اسلام میں بڑے بڑے سائنس دان خود دین کے عالم بھی تھے اور اسلام کی پوری تاریخ میں سرے سے کبھی علماء اور سائنس دانوں کا ٹکراؤ ہوا ہی نہیں ہے۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری دامت برکاتہم العالیہ نے پہلی نزول وحی کی آیات سے بھی سائنسی علم کا اثبات کیا ہے اور اسی حوالے سے آپ کی درجہ ذیل تصانیف اسلام اور سائنس میں موافقت کے حوالے سے اس حقیقت کو بڑے واضح انداز میں عیاں کرتی ہیں۔ جن میں سے چند یہ ہیں:

  1. اسلام اور جدید سائنس
  2. تخلیق کائنات (قرآن اور جدید سائنس کا تقابلی مطالعہ)
  3. انسان اور کائنات کی تخلیق و ارتقاء
  4. Creation of Man
  5. Quran on creation and expansion of the universe
  6. Creation and evolution of the universe

اور اسلام اور سائنس میں مطابقت اور موافقت کے حوالے سے آپ کی ان خدمات کا اعتراف عالمی شہرت یافتہ سائنس دان ڈاکٹر کیتھ ایل مور ٹورنٹو یونیورسٹی نے 11 مارچ 1995ء میں آپ سے ملاقات کے وقت اور آپ کی یہ کتاب کائنات کی تخلیق اور نظریہ ارتقاء Quran on creation and evolution of universe کو دیکھ کر اور آپ کی اس تحقیقی کاوش کو سراہتے ہوئے یوں کہا کہ ’’جو کام میں برسوں کی تحقیق کے بعد نہ کرسکا وہ آپ نے صرف 12 دن میں پایہ تکمیل تک پہنچاکر واقعی بہت بڑا کارنامہ سرانجام دیا ہے۔

انقلاب کا مآخذ مغربی علم ہے یا قرآن

دنیا میں جتنے بھی انقلابات بپا ہوئے ہیں ان سب کے روح کیا تھے اور ان میں موجود قوت محرکہ کیا تھی اور کس بنیاد پر اقوام نے ان انقلابات کے لئے اپنا سب کچھ قربان کیا۔ ان تمام چیزوں کا جائزہ اور بغور تجزیہ کرنے کے بعد شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے 1986-88ء میں قرآنی فلسفہ انقلاب کے حوالے منہاج یونیورسٹی میں طلباء اور تحریک رفقاء کے لئے لیکچرز کا سلسلہ شروع کیا۔ ان لیکچرز میں آپ نے یہ بات واضح کی کہ انقلاب کا مدار اور انحصار کس بات پر ہوتا ہے آپ نے بتایا وہ تضاد ہے اس پر تمام انقلابی لیڈر متفق ہیں۔ اب اس کے بعد سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ

  1. کونسا تضاد ابھارا جائے
  2. تضاد کس طرح ابھارا جائے
  3. تضاد کس وقت ابھارا جائے
  4. تضاد کس کے خلاف ابھارا جائے

مزید برآں آپ نے واضح کیا کہ تضاد ایسا ابھارا جائے جس سے انقلابیوں کی اپنے مشن اپنی قیادت اور اپنی جدوجہد کے ساتھ وفاداری یا عدم وفاداری ثابت ہوجائے۔ یہ تضاد دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کردے۔ نیز تضاد ایسا ہو جو انقلابیوں کو ایک لڑی میں پرودے اور وہ جسد واحد کی مثال بنتے ہوئے دکھائی دیں اور وہ تضاد اپنے اندر نتیجہ خیزی کی ضمانت لئے ہوئے ہو۔ تضاد بپا کرتے وقت قبل از وقت تصادم سے بچا جائے اور اپنی قوت میں مسلسل اضافہ کیا جائے تاوقتیکہ آپ کی للکار آپ کو فائدہ دے۔ بسا اوقات قبل از وقت تصادم کی صورت میں انقلابیوں کی قوت اصل مرحلے اور مطلوبہ ٹارگٹ سے پہلے ہی ختم ہوجاتی ہے۔ اس لئے اس بات کا اہتمام کرتا ہے کہ قوت کو قبل از وقت ضائع نہ ہونے دیا جائے اور اس تضاد کے نتیجے میں جو انقلاب بپا ہوگا اس کے لئے تین طرح کے ردعمل آئیں گے۔

1۔ موافق 2۔ مخالفت 3۔ مفاد پرست

ہر ایک کے ساتھ کیسے پیش آنا ہے یہ قیادت کے لئے ایک امتحان ہے۔

لیکن ان ساری چیزوں کے باوجود انقلاب کی تھیوری کے حوالے سے مغربی انقلابی راہنماؤں کو یہ زعم ہے کہ انقلاب کا تصور تضاد ہم نے ہی متعارف کرایا ہے اور ہم نے ہی اسے جانا ہے۔ شیخ الاسلام نے انقلاب کے حوالے مغربی مفکرین اور انقلابی راہنماؤں کے اس دعوی کو مسترد کردیا ہے اور یہ بات ثابت کی کہ تضاد کا تصور سب سے پہلے قرآن ہی نے آج سے چودہ سو سال قبل دیا ہے اور اس بات کی تحقیق آپ نے 1972-73 کے ڈائری میں اور اپنے مجموعہ منتخبات القرآن (قلمی مسودہ) کے نام سے کی ہے۔ جس میں سورہ بقرہ کی آیت نمبر36 سے بعضکم لبعض عدو کا حوالہ دیا ہے۔ یہ آیت کریمہ فلسفہ تضاد کو بڑی صراحت اور وضاحت کے ساتھ بیان کرتی ہے۔ گویا قرآن ہی انقلاب کے فلسفہ تضاد کی بنیاد ہے اسی وجہ سے آپ کے اپنی اس تاریخ ساز تحقیق اور عصر حاضر کے اس نئے علم کا نام ہی قرآنی فلسفہ انقلاب رکھا ہے۔

علاوہ ازیں احیائے اسلام اور غلبہ دین حق کے لئے انقلاب کو اپنا زندگی کا مقصد قرار دیتے ہوئے 1973ء کی ڈائری میں ہی آپ رقمطراز ہیں۔

’’اگر اجتماعی زندگی کے تمام اداروں میں محرک عمل مطالبہ حقوق کی بجائے ایتائے حقوق اور ادائیگی قرار پائے اور قوت نافذہ کے ذریعے اس اصول کو عملاً رائج کیا جائے تو معاشی کشمکش کا نام و نشان بھی باقی نہ رہے‘‘۔

لیکن یہ کام ’’انقلاب‘‘ کے بغیر ممکن نہیں۔

میں چاہتا ہوں کہ سرزمین پاک احیائے اسلام کے لئے عالمی انقلاب کا مرکز بن جائے یہاں زندگی کے ہر شعبے میں انقلاب بپا ہوجائے اور فکرو عمل کے پیمانے بدل جائیں۔ یہاں امن و سلامتی اور خوشحالی کا دور دورہ ہو، تعیش و آرام پرستی کا نام و نشان تک باقی نہ رہے محنت و مشقت ہر فرد کا زیور ہو دیانت و خلوص ہر فرد کی پالیسی ہو پھر پوری دنیائے اسلام متحد ہوکر ’’اسلامک کامن ویلتھ کا قیام عمل میں لائے اور دین حق پھر ماضی کی طرح شان و شوکت کے ساتھ عالم انسانیت کا راہنما و رہبر بن جائے میں غریب، مظلوم بیکس اور افلاس زدہ انسانیت کی فلاح و نجات اور عروج و ترقی صرف اور صرف اسلام کے ذریعے ممکن سمجھتا ہوں اور اسلام کا احیاء ایک زبردست ہمہ گیر انقلاب کے بغیر ممکن نہیں۔ انقلاب پر میرا ایمان ہے اور عظیم عالمی انقلاب میری زندگی کا واحد مقصد ہے‘‘۔

سیاسی چیلنج: عوامی اتحاد کی سربراہی

18مارچ 1998ء کو پاکستان کی 16 سیاسی جماعتوں پر مشتمل پاکستان عوامی اتحاد کا نام سے ایک سیاسی اتحاد وجود میں آتا ہے۔ آپ اس اتحاد کے پہلے سربراہ و صدر منتخب ہوئے ہیں۔ اس اتحاد میں پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی بھی شامل ہوتی ہے اور اس اتحاد کے بڑے بڑے ناموں میں سے یہ نام قابل ذکر ہیں۔ محترمہ بینظیر بھٹو شہید، نوابزادہ نصراللہ خان، جنرل (ریٹائرڈ) اسلم بیگ، حامد ناصر چٹھہ وغیرہ ان سب کی موجودگی میں پاکستان عوامی اتحاد کی سربراہی آپ کے سپرد کئے جانا اور آپ کو ان سب سیاسی راہنماؤں کی موجودگی میں بطور صدر پاکستان عوامی اتحاد منتخب کرنا درحقیقت آپ کی سیاسی قیادت (Political Leadership) کو تسلیم کرنا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ پاکستان عوامی اتحاد کے ملک کے طول و عرض میں سیاسی جلسوں نے بھی ایک عملی حقیقت کے طور پر آپ کی سیاسی لیڈر شپ پر بھی مہر تصدیق ثبت کی ہے۔ جس کا اعتراف نہ صرف کروڑوں پاکستانیوں نے کیا ہے بلکہ سیاسی جماعتوں کے قائدین اور سربراہوں نے بھی واضح طور پر اس کا اظہار کیا ہے۔

اگر یہ سیاسی اتحاد اسی طرح چلتا رہتا تو آج پاکستان کا اقتصادی اور سیاسی نقشہ ہی کچھ اور ہوتا۔ لیکن ہر جلسے میں اور ہر میٹنگ میں اور صحافیوں کے تندو تیز سوالات کا کامیاب سامنا کرتے اور ہر پلیٹ فارم پر موثر نمائندگی کی بناء پر اور بین الاقوامی سطح پر آپ کی ایک موثر شخصیت کے رعب نے دوسرے سیاسی راہنماؤں کو مرعوب کردیا۔ نتیجہ وہ اپنے سیاسی مفاد کے تحفظ کے لئے خود ہی اس اتحاد سے الگ ہوگئے۔

الاتحاد العالمی الاسلامی کا قیام

یورپ میں اسلام کے حقیقی پیغام، امن و سلامتی، بین المذاہب مکالمہ، بنیادی انسانی حقوق، اسلام کی تعلیمات کے حوالے سے شکوک و شبہات کے خاتمے، دین اسلام کی حقیقی تعلیمات کے فروغ و اشاعت، عالم انسانی اور عالم اسلام کے اتحاد کے لئے اور اس حوالے کی جانے والے کاوشوں کو موثر اور نتیجہ خیز بنانے کے لئے 19 جون 1988ء کو انٹرنیشنل ویمبلے کانفرنس لندن میں منعقد ہوئی۔ جس کی صدارت قدوۃ الاولیاء حضور سیدنا طاہر علاؤالدین القادری الگیلانیؒ نے کی عرب و عجم سے ہزاروں علماء مشائخ اس کانفرنس میں شریک ہوئے۔ یہ عالم اسلام کا ایک نمائندہ اجتماع تھا۔ اس اعتبار سے امت مسلمہ کے اتحاد کے لئے یہ ایک عظیم کانفرنس ثابت ہوئی اور اسی کانفرنس میں عالم اسلام کے اتحاد کے لئے الاتحاد العالمی الاسلامی کا قیام عمل میں آیا۔ کانفرنس کے شرکاء نے اتفاق رائے سے آپ کو اس کا سیکرٹری جنرل اور الشیخ سید محمد یوسف ہاشمی الرفاعی (کویت) کو اس کا صدر منتخب کیا۔

عالم اسلام کے اتحاد کے حوالے سے آپ نے مختلف پلیٹ فارم پر جاکر اس صدائے حق کو نہ صرف بلند کیا بلکہ عالم اسلام کی مقتدر قوتوں کو اس کی عملی اہمیت سے بھی آگاہ کیا۔ یہی وجہ ہے کہ آپ نے الموتمرالعالمی الاسلامی الشعبی کے پلیٹ فارم سے بھی عالم اسلام کے اتحاد پر زور دیا اور آپ نے اس کے مختلف اجلاسوں مین شریک ہو عالم اسلام کی قیادت کو عالم اسلام کے وسائل کو یکجا کرکے امت مسلمہ کی عظمت رفتہ کی بحالی کی کاوشوں کی طرف متوجہ کیا اور عالم اسلام کو سیاسی، اقتصادی اور ثقافتی اور صحافتی سطح پر متحد ہونے کے لئے بھرپور ترغیب دی اور آپ کے ان ہی بلند پایہ خیالات، افکار اور اعلیٰ عزائم سے متاثر ہوکر الموترالعالمی الاسلامی الشعبی کی انتظامیہ نے آپ کو اس تنظیم کی صدارت کا عہدہ قبول کرنے کی درخواست کی۔

قومی اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ

اقتدار اور کرسی کو لوگ اپنی منزل بنالیتے ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان میں گذشتہ چند دہائیوں سے یہ کلچر عام ہوگیا ہے کہ کچھ بھی ہوجائے استعفیٰ نہیں دینا۔ حتی کہ جرم بھی ہوجائے تو پھر بھی استعفیٰ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا چہ جائیکہ اصولوں کی خاطر اور آئین کی پاسداری کے لئے، امہ جمہوری روایات کو پروان چڑھانے کے لئے استعفیٰ دیا جائے تو گویا ہمارا موجودہ کلچر ہے کہ استعفی اصول اور سچ کی خاطر یا جھوٹ، الزام اور جرم کسی بناء پر بھی نہیں دینا ہے۔اس کلچر کو چیلنج کرتے ہوئے جمہوری اور اصولی روایات کو فروغ دینے سچ اور حق کے لئے، اصول اور آئین کے لئے، اخلاق اور ارفع مقاصد کے لئے اجتماعی روش سے ہٹ کر کرسی اقتدار کو آپ نے ٹھکرادیا اور آئین کی خلاف ورزی کی بناء پر اور جنرل پرویز مشرف کے بیک وقت دو عہدے غیر آئینی طور پر اپنے پاس رکھنے پر اور اس حوالے سے بل کی قومی اسمبلی سے منظوری پر احتجاج کرتے ہوئے آپ نے 15 اکتوبر 2004ء میں قومی اسمبلی کی رکنیت سے مستعفی ہونے کا اعلان کردیا اور آپ نے یہ اعلان قومی اسمبلی کے فلور پر بھرپور احتجاج اور اپنے ولولہ انگیز خطاب کے ذریعے قومی اسمبلی کے تمام ممبران کو مخاطب کرتے ہوئے کیا اور اس بل کو مسترد کرتے ہوئے قومی اسمبلی کی سیٹ کو چھوڑنے کا اعلان کردیا۔

اگرچہ بعد ازاں حکومتی اور سیاسی جماعتوں کی سطح پر آپ سے استعفی واپس لینے کے لئے درخواست کی گئی لیکن آپ نے اپنے اعلان اور فیصلے کو واپس لینے سے انکار کردیا۔ آپ کے اس تاریخی فیصلے نے پاکستان کی قومی سیاست پر دیرپا اثرات مرتب کئے اور سیاسی لیڈروں کو اصولوں کی خاطر کرسی اقتدار کو چھوڑنے کی ترغیب دی۔ عوامی سطح پر اس کی بے پناہ پذیرائی ہوئی اور سیاسی لیڈروں نے بھی بعد ازاں اس کو خوب سراہا۔ یوں پاکستانی سیاست میں اصولوں کی خاطر اقتدار کو چھوڑ دینے کی پہلی مرتبہ وہ اعلیٰ قدر جو مفقود ہوگئی تھی آپ کے تاریخی فیصلے کے ذریعے دوبارہ زندہ ہوگئی۔

سیرۃ الرسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی تکمیل (ایک عملی حقیقت کے روپ میں)

برصغیر پاک و ہند میں روایات اور واقعاتی انداز میں سیرت عربی، فارسی اور اردو میں لکھی جاتی ہیں۔ 18 صدی میں جدید سیرت نگاری کی ابتداء ہوتی ہے اور اس میں مستشرقین کے اعتراضات اور ان کی طرف سے اٹھائے گئے شبہات کے تناظر میں سیرت کو رقم کیا جانے لگتا ہے۔ جدید سیرت نگاری میں اکثر سیرت نگار مدافعتی ذہن کے ساتھ سیرت کو لکھتے ہیں اور بعض مستشرقین کے اعتراضات کو غیر اعلانیہ طور پر تسلیم کرتے ہوئے ان ہی موضوعات کا جواب دینے کی بجائے از خود تنقید شروع کردیتے ہیں۔

شیخ الاسلام نے سیرت کو مدافعانہ اور معذرت خانہ انداز سے ہٹ کر سیرت کو قرآنی اصول ’’اسوہ حسنہ‘‘ کے تناظر میں قرآنی آیات کی روشنی میں بعثت مصطفی کے مقاصد اور ختم نبوت کے عظیم منصب اور رسالت مصطفی کی دائمیت اور عالمگیریت اور فی زمانہ آپ کے اسوہ حسنہ کی ساری انسانیت کے لئے مشعل راہ ہونا اور قیامت تک ساری انسانیت کے لئے بالعموم اور امت مسلمہ کے لئے بالخصوص ہادی و راہنما کی حقیقت عظمیٰ کے تصور کے ساتھ سیرۃ الرسول کو 10 جلدوں میں رقم کیا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ پڑھنے والا جب پہلی جلد مقدمہ سیرت الرسول کا مطالعہ کرتا ہے تو وہ آپ کے اسلوب سیرت سے اچھی طرح آگاہ ہوجاتا ہے برصغیر پاک و ہند کے جدید سیرت نگاروں میں یہ اسلوب کسی اور کے ہاں نظر نہیں آتا اور نہ ہی ایسا مواد سیرت کی دوسری کتب میں اس انداز اور نہج سے میسر آتا ہے۔

آپ کے اسلوب سیرت میں، سیرت کے واقعاتی رنگ کی بجائے عملی رنگ کا غلبہ نظر آتا ہے اور آپ سیرت الرسول کو ایک زندہ و جاوید حقیقت کے طور پر پیش بھی کرتے ہیں اور اس کو اسی انداز میں تسلیم بھی کرتے ہیں، آپ کا انداز بیان جذبات کو ایک داعیہ دیتے ہوئے اور عمل کو ایک نیا رخ دیتے ہوئے اور سوچ کو ایک نیا زاویہ فکر دیتے ہوئے واضح طور پر محسوس ہوتا ہے اور اس بات کی تائید فقط مقدسہ سیرت الرسول کے ان عنوانات سے ہی ہوجاتی ہے۔

بیان سیرت کا منہاج و اسلوب، قرآنی اسلوب کا جمالیاتی پہلو اور بیان سیرت، اسلوب سیرت اور صحابہ کرام کا طرز عمل، مطالعہ سیرت النبی کی ضرورت و اہمیت، مطالعہ سیرت کی تاریخی ضرورت، مطالعہ سیرت کی علمی و ثقافتی خدمات، مطالعہ سیرت کی عصری اور بین الاقوامی ضرورت، مطالعہ سیرت کی نظریاتی اور انقلابی ضرورت وغیرہ اسی طرح کا منفرد اسلوب دوسری جلدوں میں ہے۔

بہر حال 1995ء میں سیرت الرسول پر کام شروع ہوا اور 2000ء تک پانچ سالوں میں یہ مکمل ہوگیا اور اب یہ سارے کا سارا کتابی صورت میں چھپ چکا ہے اور آئے روز اس کی مانگ میں اضافہ ہورہا ہے۔