سیدہ کائنات حضرت فاطمۃ الزہراء جانِ رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ والہ وسلم

فریال احمد

فخر رسل تاجدار انبیاء حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی نور نظر، حضرت خدیجہ الکبریٰ کی لخت جگر سیدہ کائنات حضرت سیدہ فاطمۃ الزہراء مکہ معظمہ میں پیدا ہوئیں۔ آپ کا اسم گرامی فاطمہ رکھا گیا جس کے معانی ہیں اولاد اور غلاموں کو جہنم سے چھڑانے والی۔ فاطمہ نام، مبارک سمجھا جاتا تھا اور خیرو برکت کے لئے رکھا جاتا تھا۔

جب سیدہ فاطمہ پیدا ہوئیں تو آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خدمت میں ایک فرشتہ حاضر ہوا اور عرض کہ خداوند عالم نے فرمایا ہے کہ اللہ کی اس کنیز کا نام فاطمہ رکھو کہ اس کو میں نے شرف علم کی بناء پر منفرد بنایا ہے۔ لہذا آپ اپنے علم و عمل، دینداری اور حسب و نسب کے لحاظ سے زنان زمانہ سے منفرد تھیں۔ سیدہ ہر قسم کی برائی سے پاک و منزہ تھیں کیونکہ اسی عارفہ ربانی کے دل میں حب دنیا کا گزر ہوا ہی نہیں تھا۔

آپ کے القاب

آپ سیدہ، زہراء، بتول، زکیہ، راضیہ، مرضیہ، طاہرہ جیسے اوصاف حمیدہ کے لحاظ سے اشرف و افضل تھیں۔ اس لئے آپ کو سیدۃ النساء عالمین اور سیدۃ النساء اہل الجنۃ کہا گیا۔ خاتون جنت نے آغاز اسلام کا زمانہ پایا جبکہ مسلمانوں پر کفار کا ظلم و ستم پورے زوروں پر تھا۔ آپ نے شعب ابی طالب میں سب کے ساتھ مسکینی میں بھوک و پیاس کی تمام تر تکالیف برداشت کیں۔

دس بعثت نبوی صلی اللہ علیہ والہ وسلم میں ام المومنین حضرت خدیجہ کا وصال ہوا تو تدفین کے بعد حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم تشریف لائے تو معصومہ ماں کے لئے تڑپ رہی تھیں مڑ کر اپنے والد محترم سے لپٹی اور پوچھا میری ماں کہاں ہیں؟ سوال ایسا تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم خاموش ہوگئے۔ جبرائیل امین علیہ السلام حاضر ہوئے اور عرض کرنے لگے آقا صلی اللہ علیہ والہ وسلم پروردگار عالم آپ کو سلام پہنچاتا ہے اور فرماتا ہے کہ فاطمہ سے کہئے کہ ان کی ماں جنت کے طلائی محل میں ہے جس کے ستون سرخ یاقوت کے ہیں۔

یہ پیغام ان کے لئے راحت کا سامان بنا۔ آپ بچپن سے ہی خاموش طبع تھیں۔ باطنی کمال میں اپنی ہم عمروں میں گھبراتی تھیں۔ ایک بار کچھ عورتیں غیبت کررہی تھیں کہ آپ بے تاب ہوکر انہیں اور غیبت سننے اور کرنے سے منع فرمایا۔ یہی وجہ ہے کہ آپ اپنی خداداد ذہانت اور غیر معمولی عادات کی بناء پر چھوٹی عمر میں مشہور ہوگئی تھیں۔ اس زمانے میں توریت، زبور اور انجیل کی عالمہ فاطمہ شامیہ تھیں جو حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی نور نظر سے ملنے شام سے مکہ آئیں اور بہت سے تحائف جناب سیدہ کی خدمت میں پیش کئے۔ آپ نے معزز اور معمر مہمان کا شکریہ ادا کیا اور سارے تحائف خدمت اسلام کے لئے وقف کردیئے۔ اس عمر میں ایثار کی یہ شان دیکھ کر فاطمیہ شامیہ حیران رہ گئی۔

حضرت ابوطالب کی وفات کے بعد حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم اور ان کے خاندان کا مکہ میں رہنا مشکل ہوگیا۔ ایک دفعہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم تشریف لے جارہے تھے کہ ایک بدبخت نے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے سرمبارک میں خاک ڈال دی۔ آپ اسی حالت میں تشریف لائے۔ آپ کی صاحبزادی فاطمۃ الزہراہ نے دیکھا تو پانی لے کر آئیں۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا سر دھوتی جاتی تھیں اور فرط محبت سے روتی جاتی تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا جان پدر رو نہیں اللہ تیرے باپ کو بچالے گا۔

نکاح مبارک

حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے لوگ نکاح کے لئے چار چیزیں پیش نظر رکھتے ہیں۔

  1. مال و دولت
  2. حسن وجمال
  3. حسب و نسب
  4. دینداری

لیکن تم تقویٰ اور پرہیزگاری کی صفت کو تمام صفتوں پر مقدم رکھو۔ جناب فاطمہ جب سن بلوغت کو پہنچیں تو حضرت ابوبکر صدیق نے نکاح کی خواہش کی حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا کہ میں فاطمہ کے بارے میں امر الہٰی کا منتظر ہوں پھر حضرت عمر نے التماس کی تو انہیں بھی یہی جواب ملا۔ ہر مومن حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے شرف انتساب کا آرزو مند تھا۔

صحابہ کرام کی نظریں اب حضرت علی کرم اللہ وجہ پر تھیں

حضرت علی آستانہ نبوت میں مجسمہ سوال بن کر حاضر ہوئے کچھ کہنا چاہا کہہ نہ سکے حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے پوچھا علی کچھ کہنا چاہتے ہو؟ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: فاطمہ کی خواستگاری کے لئے آئے ہو؟ گزارش کی: جی ہاں بے شک اسی لئے حاضر ہوا ہوں۔ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: مرحبا واھلاً پھر سرور کائنات صلی اللہ علیہ والہ وسلم فاطمۃ الزہراء کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا کہ علی آپ کے لئے نکاح کی خواہش لے کر آئے ہیں وہ قرآن پاک کی تلاوت کررہی تھیں۔ خاموش رہیں چند لمحے حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم بیٹی کا چہرہ دیکھتے رہے اور اس خاموشی کو رضا مندی قرار دیا۔ اس کے بعد حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے حضرت علی سے پوچھا تمہارے پاس مہر دینے کے لئے کچھ ہے حضرت علی نے فرمایا میرے پاس ایک تلوار ایک گھوڑا اور ایک زرہ ہے حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے زرہ بیچنے کا حکم دیا پھر حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے حضرت انس سے فرمایا چھ مہاجرین اور چھ انصار بلا لاؤ۔ سب حاضر ہوگئے تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ایک بلیغ خطبہ دیا اور نکاح کردیا اور فرمایا کہ اللہ نے مجھے حکم دیا ہے کہ فاطمہ کا نکاح حضرت علی سے کردوں۔ عقد مبارک کے وقت حضرت فاطمہ کی عمر مبارک مختلف روایات میں مختلف لکھی ہے کہیں اٹھارہ سال کہیں پندرہ سال اسی طرح حضرت علی کی عمر میں بھی اختلاف ہے کہیں چھبیس برس کہیں تئیس کہیں اکیس برس۔ بعض روایات کے مطابق ہجرت کے دو تین سال بعد یکم ذی الحج کو نکاح ہوا اور بروز سہ شنبہ 24 ذی الحج کو رخصتی ہوئی۔

جہیز

ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ کی روایت کے مطابق ہم نے فاطمہ کی شادی سے بہتر کوئی شادی نہیں دیکھی۔ حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اپنی بیٹی کو جو جہیز دیا وہ ایک قمیض، ایک چادر اوڑھنے کے لئے کالے رنگ کا نرم روؤں کا کمبل، کھجو رکے پتوں سے بنا بستر، موٹے ٹاٹ کے دو فرش، چمڑے کے چار تکئے، آٹا پیسنے کی چکی، تانبے کا بڑا برتن، کپڑے دھونے کے لئے ایک مشکیزہ، مٹی کی صراحی مٹی کے دو آب خورے، زمین پر بچھانے کا چمڑا، ایک سفید چادر اور ایک لوٹا۔ سبحان اللہ۔

آج ایک مسلمان کی بیٹی کی شادی فضول رسومات اور بے جا اخراجات کے باعث بوجھ بن گئی ہے ہمارے لئے لازم ہے کہ سیدہ فاطمۃ الزہرا کی زندگی کو لائحہ عمل بنایا جائے۔ ان کی شادی ہر لحاظ سے بہترین اور مثالی ہے اور اعتدال و میانہ روی کی عکاس ہے۔ ازدواجی زندگی میں جب تک گھریلو کام سلیقہ سے انجام نہ پائیں گھر کا نظام درست نہیں رہتا حضرت علی نے امور خانہ داری یوں طے کئے کہ باہر کے کام اور جانوروں کو پانی پلانا اپنے ذمہ لیا اور فاطمہ الزہراء چکی پیسنے اور آٹا گوندھنے اور دیگر گھریلو امور میں اپنی ساس کی مدد کریں گی۔ حضرت فاطمہ کی چادر میں 12 سے زائد پیوند ہوتے تھے۔ جب بچے سوجاتے تو آپ ان کو پنکھا جھلتی اور قرآن مجید کی تلاوت فرماتی جاتی تھیں۔ چکی پیستی تو بچوں کو گود میں لے لیتی تھیں۔

صبح کے وقت آنحضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم مسجد میں تشریف لاتے تو حضرت فاطمہ کی چکی چلانے کی آواز کانوں میں آتی تھی۔ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم بے اختیار ہوکر دعامانگتے تھے کہ اے باری تعالیٰ! فاطمہ کو اس ریاضت اور قناعت کا اجر دے اور حالت فقر میں ثابت قدم رکھنا۔

تسبیح زہراء

حضرت سیدہ گھر کا کام خود سرانجام دیتی تھیں۔ کوئی خادمہ اور کنیز نہ تھی۔ چکی پیستے پیستے ہاتھوں میں چھالے پڑگئے۔ جھاڑو دیتے برتن مانجھتے چولہا سلگھاتے سلگھاتے کپڑے گرد آلود اور سیاہ ہوجاتے۔ حضرت علی چاہتے تھے کوئی کنیز مل جائے۔ کسی لڑائی سے حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے پاس کچھ غلام آئے حضرت فاطمہ آستانہ رسالت میں حاضر ہوئیں لیکن حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم تشریف فرما نہ تھے۔ حضرت عائشہ سے اظہار مقصد کرکے چلی آئیں جب حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم تشریف لائے تو حضرت عائشہ نے بتایا تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم بیٹی کے گھر تشریف لائے۔ پوچھا بیٹی کیا کام ہے؟ خود خاموش رہیں۔ حضرت علی نے عرض کیا: حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم چکی پیستے پیستے فاطمہ کے ہاتھوں میں آبلے پڑگئے ہیں قیدیوں میں سے ایک ہمیں بھی غلام عطا فرمادیجئے۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: میں تمہیں کیوں نہ ایسی چیز بتادوں جو خادم سے بہتر ہے۔ جب تم سونے لگو تو 33 مرتبہ سبحان اللہ 33 مرتبہ الحمدللہ اور 34 مرتبہ اللہ اکبر پڑھ لیا کرو۔ خداشناس بیٹی خاموشی سے واپس آگئی اور اس ورد کو جاری رکھا۔ اس ذوق سے پڑھتی کہ یہ وظیفہ تسبیح فاطمہ کے نام سے مشہور ہوگیا۔ اس لئے ہر مسلمان بہن بھائی اس تسبیح کا پڑھنا سعادت جانتے ہیں۔

حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا شفقت فرمانا

حضرت عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں کہ حضرت فاطمہ جب حضور پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے پاس تشریف لاتیں تو حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کھڑے ہوجاتے اور ان کی پیشانی چومتے اور اپنی جگہ پر بٹھاتے۔ سفر پر جاتے تو سب سے آخر میں حضرت فاطمہ کے پاس جاتے اور واپسی میں سب سے پہلے حضرت فاطمہ کے پاس تشریف لاتے۔

اظہار تعزیت

گذشتہ ماہ محترمہ ڈاکٹر شاہدہ نعمانی (منہاج القرآن ویمن لیگ کی سابقہ اور اولین صدر) کی والدہ محترمہ بقضائے الہٰی انتقال کرگئیں۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری اور جملہ مرکزی قیادت اور ویمن لیگ اور مجلہ دختران اسلام کے تمام عہدیداران مرحومہ کے غم میں برابر شریک ہیں اور دعا گو ہیں کہ اللہ رب العزت مرحومہ کو غریق رحمت فرمائے۔ رمضان المبارک اور شب قدر کے صدقے ان کی بخشش و مغفرت فرمائے اور مرحومہ کے تمام پسماندگان اور لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ آمین بجاہ سیدالمرسلین صلی اللہ علیہ والہ وسلم