فروغ امن اور انسدادِ دہشت گردی کا اسلامی نصاب، قسط دوم

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری

غیر مسلموں کے ساتھ ہر حکم اور فیصلے میں انصاف

امام ابو یوسف اپنی شہرہ آفاق تصنیف ’کتاب الخراج‘ میں لکھتے ہیں کہ عہدِ نبوی اور خلافتِ راشدہ میں تعزیرات اور دیوانی قانون دونوں میں مسلمان اور غیر مسلم شہری کا درجہ مساوی تھا۔

(ابو يوسف، کتاب الخراج: 187)

حضرت عبد الرحمن بن بیلمانی رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں:

اَنَّ رَجُـلًا مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ قَتَلَ رَجُلًا مِنْ أَهْلِ الْکِتَابِ، فَرُفِعَ إِلَی النَّبِيِّ صلیٰ الله عليه وآله وسلم، فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلیٰ الله عليه وآله وسلم: أَنَا أَحَقُّ مَنْ وَفَی بِذِمَّتِهِ، ثُمَّ أَمَرَ بِهِ فَقُتِلَ

  1. شافعي، المسند: 343
  2. أبو نعيم، مسند أبي حنيفة: 104
  3. شيباني، المبسوط، 4: 488
  4. بيهقي، السنن الکبری، 8: 30، رقم: 15696

ایک مسلمان نے اہل کتاب میں سے ایک آدمی کو قتل کر دیا، وہ مقدمہ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں پیش ہوا تو آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں غیر مسلم شہریوں کے حقوق ادا کرنے کا سب سے زیادہ ذمہ دار ہوں۔ چنانچہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (بطورِ قصاص مسلمان قاتل کو قتل کیے جانے کا) حکم دیا اور اُسے قتل کر دیا گیا۔

اسلامی ریاست میں تعزیرات میں ذمی اور مسلمان کا درجہ مساوی ہے۔ جرائم کی جو سزا مسلمان کو دی جائے گی وہی ذمی کو بھی دی جائے گی۔ ذمی کا مال مسلمان چرائے یا مسلمان کا مال ذمی چرائے دونوں صورتوں میں سزا یکساں ہو گی۔

(ابو يوسف، کتاب الخراج: 108-109)

دیوانی قانون میں بھی ذمی اور مسلمان کے درمیان کامل مساوات ہے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ارشاد ہے:

 اموالهم کاموالنا

(ابن قدامه، المغنی، 9:289)

اس کے معنی ہی یہ ہیں کہ ان کے مال کی ویسی ہی حفاظت ہونی چاہیے جیسی مسلمانوں کے مال کی ہوتی ہے۔

الدر المختار میں ہے:

وَيَضْمَنُ الْمُسْلِمُ قِيْمَةَ خَمْرِهِ وَخِنْزِيْرِهِ إِذَا أَتْلَفَهُ

’’مسلمان اس کی شراب اور اس کے سور کی قیمت ادا کرے گا اگر وہ اسے تلف کر دے‘‘۔

  1. حصکفی، الدرالمختار، 2: 223
  2. ابن عابدين شامی، رد المحتار، 3: 273

ذمی کو زبان یا ہاتھ پاؤں سے تکلیف پہنچانا، اس کو گالی دینا، مارنا پیٹنا یا اس کی غیبت کرنا، اسی طرح ناجائز ہے جس طرح مسلمان کے حق میں ناجائز ہے:

وَيَجِبُ کَفُّ الْاَذَی عَنْهُ وَتَحْرُمُ غِيبَتُهُ کَالْمُسْلِمِ

’’غیر مسلم کو اذیت سے محفوظ رکھنا واجب ہے اور اس کی غیبت کرنا بھی اسی طرح حرام ہے جس طرح مسلمان کی غیبت کرنا‘‘۔

  1. حصکفی، الدر المختار، 2: 223
  2. ابن عابدين شامی، رد المحتار، 3: 273، 274

عسکری خدمات سے اِستثناء کا حق

اسلامی ریاست میں ذمی فوجی خدمت سے مستثنیٰ ہیں اور دشمن سے ملک کی حفاظت تنہا مسلمانوں کے فرائض میں شامل ہے۔ چونکہ ان سے جزیہ اسی حفاظت کے معاوضہ میں وصول کیا جاتا ہے، اس لیے اسلام نہ تو ان کو فوجی خدمت کی تکلیف دینا جائز سمجھتا ہے اور نہ ان کی حفاظت سے عاجز ہونے کی صورت میں جزیہ وصول کرنا۔ اگر مسلمان ان کی حفاظت نہ کر سکیں توانہیں ذمیوں کے اَموالِ جزیہ سے فائدہ اٹھانے کا کوئی حق حاصل نہیں۔ جنگ یرموک کے موقع پر رومیوں نے مسلمانوں کے مقابلہ پر ایک زبردست فوج جمع کی اور مسلمانوں کو شام کے تمام مفتوح علاقے چھوڑ کر ایک مرکز پر جمع ہونے کی ضرورت پیش آئی تو حضرت ابوعبیدہ رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے امراء کو لکھا:

جو کچھ جزیہ و خراج تم نے ذمیوں سے وصول کیا ہے انہیں واپس کر دو اور ان سے کہو کہ اب ہم تمہاری حفاظت سے عاجز ہیں اس لیے تم اپنے معاملے کے لحاظ سے آزاد ہو۔ اس لیے ہم نے جو مال تمہاری حفاظت کے معاوضہ میں وصول کیا تھا اسے واپس کرتے ہیں۔

اس حکم کے مطابق تمام لشکروںکے اُمراء نے جمع شدہ اموال واپس کردیے۔

  1. ابو يوسف، کتاب الخراج: 150
  2. بلاذری، فتوح البلدان: 1161

جنگی قیدیوں کے حقوق

اسلام نے جنگی قیدیوں سے حسنِ سلوک کی تعلیم دی ہے۔ جنگِ بدر کے ایک قیدی کا بیان ہے: اللہ تعالیٰ مسلمانوں پر رحم کرے، یہ اپنے اہل و عیال سے اچھا کھانا ہمیں کھلاتے تھے اور اپنے گھر کے لوگوں سے کہیں زیادہ ہماری آسائش کا خیال رکھتے تھے۔

مخالفین سے یہ سلوک اس لیے کیا جاتا تھا کہ اسلام دُشمن کو بھی تکریم انسانیت کا مستحق سمجھتا ہے اور کسی کے فکر اور عقیدے میں جبروجور کے ذریعے تبدیلی پسند نہیں کرتا، اس کا واضح ارشاد ہے:

لَا اِکْرَاهَ فِی الدِّيْنِ

’’دین میں کوئی زبردستی نہیں‘‘۔

(البقرة، 2: 256)

جب دین کے معاملے میں جبر روا نہیں تو یہ کیونکر ممکن ہے کہ غیر مسلموں کو انسانی حقوق سے محروم کر دیا جائے؟

غیر مسلموں کے ساتھ اِیفاے عہد اور میثاق

اگر غیر مسلم شہریوں نے اسلامی ریاست سے کوئی معاہدہ کیا ہو تو اسلامی ریاست اسے ہر حال میں پورا کرنے کی پابند ہوگی:

عقد ذمہ مسلمانوں کی جانب ابدی لزوم رکھتا ہے، یعنی وہ میثاق کرنے کے بعد پھر توڑ دینے کے مختار نہیں ہیں۔ لیکن دوسری جانب ذمیوں کو اختیار ہے کہ جب تک چاہیں اس پر قائم رہیں اور جب چاہیں توڑ دیں۔

(کاسانی، بدائع الصنائع، 7: 112)

ذمی خواہ کیسے ہی بڑے جرم کا ارتکاب کرے اس کا ذمہ نہیں ٹوٹتا، حتی کہ جزیہ بند کر دینا، مسلمان کو قتل کرنا، یا کسی مسلمان عورت کی آبرو ریزی کرنا بھی اس کے حق میں ناقض ذمہ نہیں ہے۔ البتہ صرف تین صورتیں ایسی ہیں جن میں عقد ذمہ باقی نہیں رہتا: ایک یہ کہ وہ مسلمان ہو جائے، دوسری یہ کہ وہ دار الاسلام سے نکل کر دشمنوں سے جا ملے، تیسری یہ کہ حکومتِ اسلامیہ کے خلاف اعلانیہ مسلح بغاوت کر دے۔

(کاسانی، بدائع الصنائع، 7: 113)

حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں جن غیر مسلم قبائل نے غیر مسلم ہوتے ہوئے جزیرۃ العرب میں اسلامی حکومت کی رعایا کے طور پر رہنا پسند کیا حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُن سے کئی معاہدے کئے اور خلفائے راشدین کے ادوار میں بھی معاملات ہوئے جو اسلامی ریاست میں غیر مسلم شہریوں کے حقوق کی مختلف جہات کا اظہار کرتے ہیں ان میں سے چند معاہدات حسب ذیل ہیں:

  • نجران کے عیسائیوں سے معاہدہ
  • اہلِ عانات سے معاہدہ
  • اہلِ حیرہ سے معاہدہ
  • اہلِ ماہ بہر اذان سے معاہدہ

مسلم ریاست میں غیر مسلم شہریوں کے بنیادی حقوق کا خلاصہ

مسلم ریاست میں غیر مسلم شہریوں کے حقوق سے متعلق قرآن و حدیث کے واضح اَحکامات، عہد رسالت مآب صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اور دورِ صحابہ میں غیر مسلم شہریوں سے حسن سلوک کے نظائر کے ذریعے اس امر کی وضاحت ہو چکی ہے کہ اسلام غیر مسلموں کو نہ صرف مسلمانوں جیسے تمام حقوق عطا کرتا ہے بلکہ انہیں ہر قسم کا تحفظ بھی دیتا ہے۔ کئی صدیوں پر مشتمل اسلامی تاریخ میں اس کی ہزاروں مثالیں موجود ہیں۔ گزشتہ صفحات میں کی گئی بحث سے استنباط کرتے ہوئے اسلامی ریاست میں غیر مسلم شہریوں کے بنیادی حقوق سے متعلق درج ذیل قواعد اور شرعی اصول (legal maxims) اَخذ کیے جا سکتے ہیں:

  1. غیر مسلم شہریوں کی جان و مال اور عزت و آبرو کا تحفظ مسلم ریاست کی ذمہ داری ہے۔
  2. اسلامی ریاست میں مسلم اور غیر مسلم کا قصاص اور دیت برابر ہے۔
  3. اسلامی ریاست میںمسلم اور غیر مسلم کے خون کی حرمت یکساں ہے۔
  4. اسلامی ریاست میں مسلم اور غیر مسلم شہری کے حقوق و فرائض یکساں ہیں۔
  5. غیر مسلموں کو اندرونی و بیرونی جارحیت سے تحفظ دینا مسلم ریاست کی ذمہ داری ہے۔
  6. اسلامی ریاست میں غیر مسلم شہریوں کو اپنے مذہب پر قائم رہنے کی مکمل آزادی ہے۔
  7. غیر مسلموں کو اسلامی ریاست میں عبادات اور مذہبی رسومات کی مکمل آزادی ہے۔
  8. سفارت کاروں کو تحفظ فراہم کرنا مسلم ریاست کی ذمہ داری ہے۔
  9. غیر مسلم عبادت گاہوں اور مذہبی رہنماؤں کو تحفظ فراہم کرنا اسلامی ریاست کی ذمہ داری ہے۔
  10. معذوری، بڑھاپے اور غریبی میں غیر مسلموں کا خیال رکھنا اِسلامی ریاست کی ذمہ داری ہے۔
  11. تمام مذاہب کی حرمت کا تحفظ اسلامی ریاست کی ذمہ داری ہے۔

بین المسالک ہم آہنگی

اسلام میں فرقہ پرستی کا کوئی تصور نہیں ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اﷲِ جَمِيْعًا وَّ لَا تَفَرَّقُوْا

’’اور تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ مت ڈالو‘‘۔

(الانعام، 6: 90)

مندرجہ بالا آیت دو حصوں پر مشتمل ہے: پہلا حصہ امر اور دوسرا نہی پر مبنی ہے۔ تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو، یہ مثبت حکم تھا لیکن اس کے بعد نہی کا حکم ہے کہ خبردار! تم باہمی تفرقہ اور انتشار کا شکار نہ ہونا۔

حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم فرقہ پرستی کی مذمت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

يَدُ اﷲِ مَعَ الجَمَاعَةِ، وَ مَنْ شَذَّ شَذَّ اِلَی النَّارِ

اجتماعی وحدت کو اللہ کی تائید حاصل ہوتی ہے، جو کوئی جماعت سے جدا ہو گا وہ دوزخ میں جا گرے گا۔

(ترمذي، السنن، کتاب الفتن، 4: 39-40، رقم: 2167)

اسلام انسانیت کی بقائ، معاشرے میں امن و سلامتی، اتحاد، اخوت اور بھائی چارے کا ضامن ہے۔ اس میں فرقہ پرستی کی کوئی گنجائش نہیں۔ اﷲ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں ایک مقام پر فرمایا:

اِنَّ الَّذِيْنَ فَرَّقُوْا دِيْنَهُمْ وَ کَانُوْا شِيَعًا لَّسْتَ مِنْهُمْ فِيْ شَيْئٍ

بے شک جن لوگوں نے (جدا جدا راہیں نکال کر) اپنے دین کو پارہ پارہ کر دیا اور وہ (مختلف) فرقوں میں بٹ گئے، آپ کسی چیز میں ان کے (تعلق دار اور ذمہ دار) نہیں ہیں۔

(الانعام، 6: 159)

اس آیتِ کریمہ میں حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو آگاہ کیا جارہا ہے کہ آپ ایسے لوگوں سے کوئی سرو کار اور تعلق نہ رکھیں، جنہوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے اپنی جمعیت کا شیرازہ منتشر کر دیا۔ علاوہ ازیں ملی شیرازہ کو تفرقہ و انتشار کے ذریعے تباہ کرنے والوں کے لیے حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انتہائی سخت احکامات صادر فرمائے۔

انسانی حقوق کا اولین چارٹر - خطبہ حجۃ الوداع

  1. خطبہ حجۃ الوداع - اسلامی عالمی نظام (Islamic World Order)
  2. خطبہ حجۃ الوداع - قیام امن کی طرف اَہم پیش رفت

خطبہ حجۃ الوداع ایک تاریخی دستاویز ہے، انسانیت کے اس منشور اعظم اور انسان کے بنیادی حقوق کے اس اولین چارٹر سے درج ذیل نکات اخذ ہوتے ہیں جن پر عمل پیرا ہو کر ہر دور اور ہر عہد کاانسان عالمی سطح پر قیام امن کی طرف مزید پیش رفت کر سکتا ہے۔

خطبہ حجۃ الوداع میں حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اِنتقام در اِنتقام کے منفی جذبے پر فیصلہ کن ضرب لگائی۔

  • اسلامی معاشرے میں جواب دہی کا احساس پیدا کیا۔
  • عورتوں کی تکریم اور حقوق کا تحفظ اجاگر کیا۔
  • ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا شعور دیا۔
  • معاشرے میں اتحاد، یگانگت، بھائی چارے، اُخوت اور رواداری کی قدروں کا فروغ دیا۔
  • سود کو حرام قرار دیا کیونکہ سود استحصال کی بدترین شکل ہے اور اسلام استحصال کی ہر شکل کا مخالف ہے۔
  • زمانہ جاہلیت کی فرسودہ رسومات پر کاری ضرب لگائی اور ان کا خاتمہ کیا۔
  • اِسلامی معاشرے کے قیام کے لیے رہنما اُصولوں کی نشان دہی فرمائی۔
  • عبادات کی اہمیت اُجاگر فرمائی۔

طاقتور طبقات ہر عہد اور ہر دور میں محکوموں اور زیر دستوں کے بنیادی حقوق کو پامال کرتے رہے ہیں۔ محکوموں اور زیردستوں کو جینے کا حق بھی نہیں دیا جاتا حالانکہ ایک آزاد اور فلاحی معاشرہ میں ’جیو اورجینے دو‘ کے اُصول پر عمل کیا جاتاہے۔ یہی اُصول جمہوریت کی روح ہے۔ خطبہ حجۃ الوداع میں حضور ختمی مرتبت صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسی اصول اور ضابطے کو برقرار رکھنے پر زور دیا تھا کیونکہ بین الاقوامی سطح پر یہی اصول عالمی امن کا ضامن بن سکتا ہے۔

محولہ بالا آیات اور احادیث مبارکہ سے درج ذیل دستوری و آئینی اصول مترشح ہوتے ہیں:

  1. اسلامی ریاست میں اعلی ترین حاکمیت اللہ اور رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم (Supreme Authority of Almighty Allah and Holy Prophet)کی ہوگی۔
  2. قرآن و سنت ملک کا اعلیٰ ترین قانون (Quran and Sunnah Supreme Law of State) ہوگا۔
  3. عدلیہ کی بالادستی (Supremacy of Judiciary) کو ہر حال میں یقینی بنایا جائے گا۔
  4. آئینی نظام کا نفاذ وجوب (Essentaility of Enforcement of Constitution) کے درجے کا حامل ہوگا۔
  5. قانون کی حکمرانی و بالادستی (Rule of Law) ہوگی۔
  6. آئینی وسیاسی عہدے شرائط ِاہلیت (Qualification for Constitutional and Political Office) کے حامل افراد کو ہی دئے جائیں گے۔
  7. سربراہ مملکت (Muslim Head of State)مسلمان ہوگا۔
  8. ریاستی و حکومتی عہدے بطور امانت و نیابت (State Responsibilities as Trust) سونپے جائیں گے۔
  9. ہر شہری آئینی منصب امانت (Constitutional Status of Trustee for every Citizen)کا حامل ہوگا۔
  10. حکومت کا حقِ اِطاعت مشروط (Conditional Superordination of State) ہو گا۔
  11. ہر عاقل و بالغ کو حق رائے دہی (Adult Franchise) حاصل ہوگا۔
  12. حق رائے دہی جنسی امتیاز (No Gender Discrimination in Adult Franchise) سے ماوراء ہوگا۔
  13. اختلاف رائے کوبنیادی حقوق (Difference of Opinion as Fundamental Right) کے طور پر تسلیم کیا جائے گا۔
  14. اکثریت کی رائے کا احترام (Respect of Majority Opinion) کیا جائے گا۔
  15. اسلامی حکومت، منتخب اور نمائندہ حکومت (Elected and Representative Govt) ہوگی۔
  16. نظام حکومت کی ہیت ترکیبی (Structure of Govt System) عوام کی صوابدید پر ہوگی۔
  17. حکومت دو طرفہ معاہدہ (Government—A Bilateral Contract) متصور ہوگا۔
  18. حکومت کا مقصد نظام عدل و فلاح کا قیام(Purpose of Government: Maintenance of Justice and Welfare System) ہوگا نہ کہ شخصی اقتدار کا قیام۔
  19. حکومت اور عوام کو باہم حقوق و فرائض (Duties and Rights of Government and People) حاصل ہوں گے۔
  20. اقتدار کے اختیار کا مقصود خلافت نبوی کا نفاذ(Vice regency of Holy Prophet in Exercise of Govt Powers) ہوگا۔
  21. مذہبی آزادی کی ضمانت (Guarentee of Religious Freedom) دی جائے گی۔
  22. سیاسی آزادی کی ضمانت (Guarentee of Political Freedom) دی جائے گی۔
  23. بنیادی انسانی حقوق کی ضمانت (Guarentee of Equal Human Rights) ہوگی۔
  24. حکومتی اختیارات کی جواب دہی(Accountability in Exercise of Government Powers) ریاست کے آئینی نظام کا حصہ ہوگی۔
  25. ریاستِ مدینہ کے آئین کا دستوری و سیاسی تجزیہ (Analysis of Constitution of Madina)

میثاق مدینہ نہ صرف دنیا کا پہلا تحریری دستور ہونے کے ناطے امتیازی حیثیت کا حامل ہے بلکہ اپنے نفس مضمون کے اعتبار سے بھی اعلیٰ ترین دستوری اور آئینی خصوصیات کا مرقع ہے۔ اگر جدید آئینی و دستوری معیارات اور ضوابط کی روشنی میں میثاق مدینہ کا تجزیہ کیا جائے تو وہ تمام بنیادی خصوصیات جو ایک مثالی آئین میں ہونی چاہئیں، میثاق مدینہ میں موجود نظر آتی ہیں جن میں سے چند ایک کا تذکرہ ذیل میں کیا گیا ہے:

آئینِ ریاستِ مدینہ کے بنیادی اُصول (Fundamental Principles of Constitution of Madina)

  1. اللہ تعالیٰ کی حقیقی حاکمیت کا تصور (Real and Ultimate Soveresiguty of Almighty Allah)
  2. رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نیابتی حاکمیت کا تصور (State Authority of the Holy Prophet)
  3. تحریری دستور (Written Constitution)

تشکیلِ مملکت (Establishment of State)

  1. روح جمہوریت (Spirit of Democracy)
  2. مملکت کی اخلاقی اساس (Moral Foundation of State)
  3. کثیر الثقافتی سوسائٹی کا قیام (Establishment of Multi Cultural Society)
  4. قومی وحدت (National Unity)
  5. ریاستی قومیتوں کا تصور (Recognition of Different Nations of State)

نظامِ مملکت (System of State)

  1. اختیارات کی عدم مرکزیت (Devolution of Authority)
  2. اختیارات کا توازن (Balance of Powers)
  3. علاقائی خود مختاری (Regional Autonomy)
  4. قانون کی حکمرانی اور بالادستی (Rule of Law)
  5. مقامی رسوم و قوانین کا احترام (Recognition of Local Customs and Laws)
  6. معاشی کفالت کا تصور (Economics Self Reliance)
  7. دفاعی معاہدات (Defence Pacts and Alliances)

معاصر امتیازات (Contemporary Distinctions)

  1. بنیادی انسانی حقوق کی ضمانت(Guarantee of Fundamental Human Rights)
  2. مذہبی آزادی کا تحفظ (Protection of Religious Freedom)
  3. غیر مسلم شہریوں کے حقوق کا تحفظ (Protection of Minority Rights)
  4. خواتین کے حقوق کا تحفظ (Protection of Women Rights)

نفاذِ آئین کی ضمانت (Gaurantee of Constitution’s Enforcement)

  1. سازشی اور تخریبی سرگرمیوں کا تدارک (Eradication of Conspiracies)
  2. مدینہ کا دار الامن قرار دیا جانا (Madina was Declared Sanctuary)

اب ہم دستور مدینہ کا درج ذیل عنوانات کے تحت مطالعہ کرتے ہیں:

  1. مبادیات (Preliminaries)
  2. ریاست کا اقتدارِ اَعلیٰ (Supreme Authority of State)
  3. عمومی اُصول (Fundamental Principles)
  4. بنیادی حقوق (Fundamental Rights)
  5. قانون سازی (Legislation)
  6. عدلیہ (Judiciary)
  7. انتظامی معاملات (Executive Matters)
  8. دفاع (State defence)
  9. خارجہ اُمور (Foriegn Affairs)
  10. غیر مسلم شہری (Non-Muslim Citizens)
  11. نظام کا تسلسل (Continuty of System)
  12. آئینِ مدینہ اور دساتیرِ عالم: ارتقاء و نفاذ کا جائزہ (Constitution of Madina and World Constitutions: Development and Execution)

قانون کی حکمرانی (Rule of Law)

  1. جہالت کے قوانین کی ممانعت
  2. غیر جانبدارانہ قوانین جن میں جھگڑا نہ ہو
  3. قانون انسانیت کے مفادات میں ہو اپنی مرضی نہ ہو
  4. آئینی تشخص اور مساوات کا حق
  5. حقوق میں برابری
  6. قانون کی اطاعت و نفاذ میں برابری کا حق
  7. عدل و انصاف پر مبنی قوانین کے تحفظ کاحق
  8. قانون کی پابندی کرنے پر ریاستی تحفظ کا حق
  9. مظلوم کا حصول انصاف کا حق
  10. ناکردہ جرائم سے برات کا حق
  11. غیر منصفانہ حمایت و تائید سے تحفظ کا حق
  12. معاشی کفالت کا حق
  13. خواتین کی عزت و حرمت کے تحفظ کا قانون
  14. مذہبی آزادی کا حق
  15. ریاستی معاملات میں مشورہ کا حق

اسلام میں نیکی کا تصور

اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے:

وَقُوْلُوْا لِلنَّاسِ حُسْنًا

اور عام لوگوں سے (بھی نرمی اور خوش خُلقی کے ساتھ) نیکی کی بات کہنا۔

(البقرة، 2: 83)

وَوَصَّيْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَيْهِ حُسْنًا

اور ہم نے انسان کو اس کے والدین سے نیک سلوک کا حکم فرمایا۔

(البقرة، 2: 83)

وَيَدْرَئُوْنَ بِالْحَسَنَةِ السَّيِّئَةَ

اور وہ نیکی کے ذریعہ برائی کو دور کرتے رہتے ہیں۔

(الرعد، 13: 22)

اِنَّ الْحَسَنٰتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّاٰتِ

بے شک نیکیاں گناہوں اور برائیوں کو مٹا دیتی ہیں۔

(هود، 11: 114)

بنیادی تعلیم یہ دی گئی ہے کہ: مسلمانو! برائی کا جواب برائی سے نہ دو، بلکہ برائی کا جواب بھی اچھائی سے دو، بری بات کے مقابلے میں بھی اچھی اور خوبصورت بات کہو۔ اس لیے کہ احسن قول اور احسن عمل، دونوں برائی کو رد کرکے اُلفت اور تعاون کا ماحول پیدا کرتے ہیں۔ برائی اِفتراق کی طرف لے جاتی ہے جبکہ اچھائی اتفاق کی طرف، برائی اور زیادتی نفرت پیدا کرتی ہے جب کہ اچھائی اور بھلائی، محبت و یگانگت۔ یہی حقیقتِ احسان ہے۔

اسلام کا تصورِ جہاد

جہاد عربی زبان کا لفظ ہے جس کا مادہ (ج ہ د)ہے اس کا مطلب ہے جد و جہد کرنا اور کوشش کرنا۔ اس کا دوسرا معنی ہے کسی معلوم ہدف کے حصول کے لیے ہرقسم کی مشکلات برداشت کرتے ہوئے حتی الوسع کوشش کرتے رہنا اور یہی مفہوم جہاد کے شرعی مفہوم سے قریب تر ہے۔

جہاد سے مراد کسی نیک کام میں انتہائی طاقت و کوشش صرف کرنا اور ہر قسم کی تکلیف اور مشقت برداشت کرنا ہے۔ امام راغب اصفہانی جہاد کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

اَلْجِهَادُ والْمُجَاهَدَةُ: اِسْتِرَاغُ الْوُسْعِ فِيْ مُدَافَعَةِ العُدُوِّ

دشمن کے مقابلہ و مدافعت میں فوراً اپنی پوری قوت و طاقت صرف کرنا جہاد کہلاتا ہے۔

(راغب الاصفهانی، المفردات : 101)

جدید عصری تقاضوں، معروضی حالات، جہاد کی مختلف جہات، اقسام اور ضروریات کو سامنے رکھتے ہوئے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری جہاد کی مختصر اور جامع تعریف یوں فرماتے ہیں:

دینِ اسلام کی اشاعت و ترویج، سربلندی و اعلاء اور حصولِ رضائے الٰہی کے لیے اپنی تمام تر جانی، مالی، جسمانی، لسانی اور ذہنی صلاحیتوں اور استعدادوں کو وقف کرنا جہاد کہلاتا ہے۔

24۔ جہاد کی مختلف اقسام

جہاد کو مسلسل عمل سے تعبیر کیا گیا ہے۔ شریعتِ اسلامیہ کی رو سے اس کی درجِ ذیل اقسام ہیں:

  1. جہادبالنفس (Struggle against Self [A Spiritual Dimension])
  2. جہاد بالعلم (Striving for Knowledge [Intellectual Dimension])
  3. جہاد بالعمل (Striving for Promotion of Morality and Human Values [The Social Dimension])
  4. جہاد بالمال (Striving to Resolve the Economic Deadlock of the Indigent [Economic Dimension])
  5. جہاد بالقتال (defensive war)

(جاری ہے)