ایمان، یقین، استقامت اور کارکنان تحریک

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا شہر اعتکاف 2015ء میں خصوصی خطاب

ترتیب و تدوین:محمد حسین آزاد الازہری معاونت: نازیہ عبدالستار

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اِنَّ الَّذِيْنَ تَوَلَّوْا مِنْکُمْ يَوْمَ الْتَقَی الْجَمْعٰنِ لا اِنَّمَا اسْتَزَ لَّهُمُ الشَّيْطٰنُ بِبَعْضِ مَا کَسَبُوْاج وَلَقَدْ عَفَا اﷲُ عَنْهُمْ ط اِنَّ اﷲَ غَفُوْرٌحَلِيْمٌ

’’بے شک جو لوگ تم میں سے اس دن بھاگ کھڑے ہوئے تھے جب دونوں فوجیں آپس میں گتھم گتھا ہوگئی تھیں تو انہیں محض شیطان نے پھسلا دیا تھا، ان کے کسی عمل کے باعث جس کے وہ مرتکب ہوئے، بے شک اللہ نے انہیں معاف فرما دیا، یقینا اللہ بہت بخشنے والا بڑے حلم والا ہے‘‘۔

(آل عمران، 3: 155)

لوگوں کی ضرورت سامنے رکھ کر قرآن مجید میں پلٹ پلٹ کر ایک مضمون کو دہرایا جارہا ہے۔ یہ تکرار قرآنی ہے تاکہ آپ کو تقویت ایمان نصیب ہوجائے۔ ایک ہی پیغام کو مختلف حوالوں سے اللہ تعاليٰ کیوں بیان کرتے ہیں کیونکہ وہ لب لباب اور مغز ہے اور اس لئے بھی کہ اللہ تعاليٰ کو علم ہے کہ بشری خصلت اور انسانی فطرت تو ایک ہی ہے۔ خواہ 14، 15 سو سال انسان پہلے تھا خواہ وہ آج ہے خواہ وہ تین چار ہزار سال پہلے تھا خواہ وہ دو، تین ہزار سال آگے ہوگا۔ انسان اللہ کی خلقت ہے۔ یہ جو مختلف فیکٹریوں کی گاڑیاں ہوتی ہیں جہاں سپیئر پارٹس بنتے ہیں۔ یا کوئی بھی مشین بنتی ہے۔ مشین بنانے والوں کو پتہ ہوتا ہے کہ اس ماڈل میں یہ اچھائیاں ہیں اور یہ یہ نقائص ہیں۔ میں برائیوں کا لفظ استعمال نہیں کیا کرتا۔ (جب لفظ برائی کی باری آئے تو میں اس کو کمزوریاں کہہ دیتا ہوں کیونکہ آپ برائی کے لفظ کو ہی کیوں زبان پر لائیں؟) لہذا دنیا کا سازو سامان بنانے والوں کو جب ان چیزوں کی اچھائیوں اور کمزوریوں کا علم ہے تو اللہ سے بڑا خالق اور صنّاع کون ہے؟

اسی نے انسان کو بنایا ہے اور اسے علم ہے کہ اس میں کیا نقص اور کمزوری ہے کیونکہ اگر وہ انسانوں کو نقص سے پاک پیدا کردے تو وہ انسان ہی نہیں کہلائیں گے وہ تو فرشتے ہوجائیں گے۔ فرشتوں نے تو پہلے دن کہہ دیا تھا جب اللہ پاک نے فرمایا کہ میں بشر کو زمین پر اپنا نائب بنارہا ہوں۔

وَاِذْ قَالَ رَبُّکَ لِلْمَلٰئِکَةِ اِنِّيْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِيْفَةً ط قَالُوا اَتَجْعَلُ فِيْهَا مَنْ يُّفْسِدُ فِيْهَا وَيَسْفِکُ الدِّمَـآءَ

’’اور (وہ وقت یاد کریں) جب آپ کے رب نے فرشتوں سے فرمایا کہ میں زمین میں اپنا نائب بنانے والا ہوں، انہوں نے عرض کیا: کیا تُو زمین میں کسی ایسے شخص کو (نائب) بنائے گا جو اس میں فساد انگیزی کرے گا اور خونریزی کرے گا؟‘‘۔

(البقرة، 2: 30)

اور یہ بات بھی کردی تھی کہ

وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِکَ وَنُقَدِّسُ لَکَ

’’حالانکہ ہم تیری حمد کے ساتھ تسبیح کرتے رہتے ہیں اور (ہمہ وقت) پاکیزگی بیان کرتے ہیں‘‘۔

(البقرة، 2: 30)

یعنی رات دن ثواب، عبادت، تسبیح، تکبیر اور اللہ اللہ کا کام کرتے ہیں لہذا اس کو خلیفہ نہ بنا یہ لڑائی جھگڑا کرے گا۔ خلیفہ ہمیں بنا کیونکہ ہم دن رات تیری عبادت میں رہتے ہیں۔ اللہ تعاليٰ نے نہ فرشتوں کا دل توڑا اور نہ ان کی بات مانی۔ دونوں باتیں نہیں کیں۔ نہ یہ فرمایا کہ تم میری عبادت کا حق ادا نہیں کرتے۔ یہ درست ہے کہ تسبیح و تکبیر اور اللہ اللہ کرنے کا جو حق ہے وہ ادا کرتے ہیں اور یہ بھی نہیں فرمایا کہ انسان دنگا فساد نہیں کرے گا کیونکہ اس نے تو کرنا تھا کیونکہ اللہ پاک نے خود اس کو بنایا ہے۔ پھر کیا فرمایا:

اِنِّی اَعْلَمُ مَا لاَ تَعْلَمُوْنَ

’’میں وہ کچھ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے‘‘۔

(البقرة، 2: 30)

یعنی جو کچھ تم نے دیکھا ہے تم اپنی جگہ سچ بولتے ہو۔ ابھی میں نے اس کے اندر ایسا بہت کچھ رکھا ہے جو تم نے نہیں دیکھا۔ سو جو میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے۔ اس جملے میں کیا ہے یقین۔ اگرکوئی آپ سے کہے ’’انی اعلم مالا تعلمون‘‘ (جو میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے) اور امتحان کس چیز کا کروایا؟ دنگا فساد کرنے یا نہ کرنے کا نہیں کروایا بلکہ Test علم کا کروایا۔ فرمایا:

وَعَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَآءَ کُلَّهَا ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَی الْمَلٰئِکَةِ فَقَالَ اَنْبِؤنِيْ بِاَسْمَآءِ هٰؤُلَآءِ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ

’’اور اللہ نے آدم (علیہ السلام) کو تمام (اشیاء کے) نام سکھا دیے پھر انہیں فرشتوں کے سامنے پیش کیا، اور فرمایا: مجھے ان اشیاء کے نام بتا دو اگر تم (اپنے خیال میں) سچے ہو‘‘۔

(البقرة، 2: 31)

قَالَ يٰـاٰدَمُ اَنْبِئْهُمْ بِاَسْمَآئِهِمْ ج فَـلَمَّآ اَنْبَاَهُمْ بِاَسْمَآئِهِمْ قَالَ اَلَمْ اَقُلْ لَّـکُمْ اِنِّيْ اَعْلَمُ غَيْبَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ لا وَاَعْلَمُ مَا تُبْدُوْنَ وَمَا کُنْتُمْ تَکْتُمُوْنَ

’’اللہ نے فرمایا: اے آدم! (اب تم) انہیں ان اشیاء کے ناموں سے آگاہ کرو، پس جب آدم (علیہ السلام) نے انہیں ان اشیاء کے ناموں سے آگاہ کیا تو (اللہ نے) فرمایا: کیا میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ میں آسمانوں اور زمین کی (سب) مخفی حقیقتوں کو جانتا ہوں، اور وہ بھی جانتا ہوں جو تم ظاہر کرتے ہو اور جو تم چھپاتے ہو‘‘۔

(البقرة، 2: 33)

جب آدم علیہ السلام نے چیزوں کے نام اور خواص بتادیئے اور علم کا اظہار کرادیا تو پھر فرشتوں سے کہا۔ ’’تم بھی بتادو ان چیزوں کے نام‘‘ انہوں نے کہا ہمیں تو نہیں آتے۔ فرمایا باقی ساری بات بھول جاؤ جو علم میں اوپر ہے وہی خلافت کا حقدار ہے (تم اس کی لڑائی جھگڑے کونہ دیکھو۔ اگر لڑائی جھگڑے کے قابل نہ بناؤں تو وہ بزدل ہوجائے گا۔ اللہ اللہ کرتا رہے گا اور جب کوئی لاٹھی اور بندوق آئے گی بھاگ جائے گا اندر تالا لگاکر مصلے پر بیٹھ جائے گا۔ ایسے اللہ اللہ کرنے کو میں نے کیا کرنا ہے) یہ تو خلافت و نیابت ہے جو آگے بھی چلے گی اس لئے آدم علیہ السلام کے نام کے ساتھ ’’ی‘‘ لگادی اور آدمی بن گیا۔ یعنی آدم سے پیدا ہونے والے۔

(اب میں اللہ پاک کے جواب میں مضمر اور بین السطور جملوں کی تشریح کررہا ہوں) کہ ان آدمیوں کو جب اعتکاف میں بلاؤں گا تو فرشتو! یہ تمہارے جیسے بن جائیں گے۔ سارا دن تسبیح کریں گے، اللہ اللہ کریں گے۔ اپنا ایمان پختہ کریں گے، تہجد پڑھیں گے، تراویح پڑھیں گے۔ قرآن سنیں گے۔ اللہ پاک نے فرمایا: کئی باتیں ایسی ہیں جو تم نے دیکھی نہیں تم نہیں جانتے صرف میں جانتا ہوں اتنی بات میں وہ مان گئے اور سجدے میں گر پڑے اسے کیا کہتے ہیں ’’یقین‘‘۔ جو بات نہیں سمجھ آئی کوئی بات نہیں۔ فرمایا: تم نہیں جانتے میں جانتا ہوں بس سجدہ کرو۔ وہ سجدے میں گر گئے۔ ایک نے کہا ایسے بن دیکھے اور بن سمجھے میں بھی نہیں ماننے والا۔ وہ اکڑ گیا۔ باری تعاليٰ یہ تیری بات میرے سمجھ میں نہیں آئی۔ اللہ پاک نے اس سے پوچھا تم نے سجدہ کیوں نہیں کیا اور کیوں نہیں مانا؟ اس نے جواب دیا تیری بات میری سمجھ میں نہیں آئی۔ بلکہ آگے سے دلیل دینے لگا کہ

قَالَ اَنَا خَيْرٌ مِّنْهُ ج خَلَقْتَنِيْ مِنْ نَّارٍ وَّخَلَقْتَهُ مِنْ طِيْنٍ

’’اس نے کہا: میں اس سے بہتر ہوں، تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا ہے اور اس کو تو نے مٹی سے بنایا ہے‘‘۔

(الاعراف، 7: 12)

یعنی میں آگ سے پیدا ہوا ہوں (آگ اوپر جاتی ہے) اور اس کو تو نے مٹی سے بنایا ہے (مٹی نیچے گرتی ہے) میں اس سے اعليٰ ہوں (اور یہ مجھ سے پست ہے چھوٹا ہے) لہذا میں اس کو سجدہ کیوں کروں۔

اللہ تعاليٰ نے فرمایا: ’’جاؤ ہماری بارگاہ سے نکل جاؤ‘‘۔ اس دن سے دو راستے ہوگئے۔ یقین والے اور شک والے جبکہ مومن کی شان یقین والا راستہ ہے۔ اس طرح ایک اور مقام پر اللہ پاک ہمیں بار بار سبق یاد کرانے کے لئے پلٹ پلٹ کر بات فرماتا ہے۔ فرمایا: ’’بے شک جو لوگ تم میں سے احد کے دن بھاگ کھڑے ہوئے تھے‘‘۔ ہمیشہ ہوتا ہے۔ ایک ہمارے ساتھ نہیں ہوا۔ آقا علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے میں بھی ایسا ہوتا تھا۔ جب انقلاب کی آواز بلند ہوتی ہے اور حق و باطل کے معرکہ کی جنگ ہوتی ہے تو عوام کے لئے بڑا مشکل اور صبر آزما مرحلہ ہوتا ہے۔ آقا علیہ السلام کے کارکن کون تھے۔ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اور عوام بھی تھے ان کو قرآن مجید ’’الاعراب‘‘ کہتا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم چلے تو ساتھ عوام بھی چل پڑے۔ اب عوام اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم میں فرق یہ تھا صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کارکن تھے اور انہوں نے جان و مال کے سودے کئے تھے اور عوام دیکھا دیکھی میں چل پڑے تھے۔ وہ دیکھتے تھے کہ جیت ہوجاتی ہے تو مال غنیمت ہاتھ آتا ہے مگر جب دیکھا کہ ماحول وہ نہیں بنا تو پھر بھاگ جاتے تھے۔ اس لئے ایسوں پر ناراض نہیں ہوتے۔

اللہ نے انسان بنایا ہے اور یہ اس کا ازل سے طریقہ ہے۔ آپ کو بھی نصیحت کررہا ہوں کوئی ایسا نہیں کرسکا کہ ڈٹ کر لڑے۔ اس پر خفا نہیں ہوتے۔ یہ توفیق کی بات ہے کہ آپ کو اللہ نے یہ توفیق دی اور ان کو نہیں دی۔ بات ختم ہوگئی۔ آپ اس پر اللہ تعاليٰ کا شکر ادا کریں۔

اللہ تعاليٰ نے (شروع میں تلاوت کی گئی) آیت مبارکہ میں فرمایا کہ ’’يوم التقی الجمعان‘‘ ’’جس دن دو لشکر آپس میں ٹکرا گئے تھے‘‘ یعنی مومنوں اور کافروں کے گروہ جب آپس میں گتھم گتھا ہوگئے تھے اور جنگ ایسی بن گئی کہ اس میں نظم و ضبط نہ رہا اور اس میں کچھ لوگ بھاگ گئے تھے۔ اب آپ سوچ رہے ہوں گے کہ کیوں بھاگے تھے؟ اللہ تعاليٰ نے اس کا جواب پہلے دے دیا ہے: ’’فاستزلهم الشيطان‘‘. (شیطان نے پھسلادیا تھا۔ )

یعنی ان کے ذہنوں میں وسوسہ ڈال دیا یا ان کے کسی عمل کی وجہ سے، کسی گناہ کی وجہ سے، کسی کوتاہی کی وجہ سے ان کا اللہ تعاليٰ اور رسول اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بات پر یقین نہ رہا۔ لہذا وہ بھاگ گئے۔ اب جبکہ دوسرے لوگ ڈٹ کر لڑے۔ وہ شہید ہوئے۔ زخمی ہوئے۔ ان کے ٹکڑے بھی ہوئے۔ ان کا خون بھی ہوا سب کچھ ہوا اوران کو اجر بھی ملا مگر وہ لوگ جو ڈر کر بھاگ گئے تھے۔ شیطان نے ان کو پھسلادیا تھا۔ ان کے بارے میں فرمایا: ولقد عفا الله عنهم. ’’اللہ نے پھر ان کو بھی معاف کردیا‘‘۔

یہاں ایک بات اپنے حوالے سے کہتا ہوں کہ آج کے دن تک جو ہماری کال پر نہیں آئے یا جنہوں نے بعد میں باتیں کیں مجھے آج تک ان پر غصہ نہیں آیا۔ آپ پر بہت خوش ہوتا ہوں۔ ان پر غصہ نہیں کرتا حالانکہ ساری قوم نے ایسا ہی کیا ہے جن کے لئے ہم نکلے تھے۔ ہم میں سے بہت سے لوگوں کے گھروں میں چولہا جلتا ہوگا۔ مگر ہم تو ان لوگوں کے لئے نکلے جن کے چولہے بجھے ہوئے تھے ہم تو ساری قوم اور ساری امت کے لئے نکلے تھے اور جو لوگ نہ نکلے نہ منہ بند کئے یعنی بعد میں باتیں بھی بنائیں میں نے ان کو بھی معاف کردیا۔ جس طرح اللہ پاک نے بعد میں ان کو بھی معاف کردیا تھا جن کو شیطان نے پھسلا دیا تھا۔ چلو بات ختم ہوگئی۔ اس سے زیادہ کسی سے جھگڑا نہیں کرنا۔ کیونکہ آج وہ آپ کے ساتھ نہیں چلے ممکن ہے کل چل پڑیں۔ جھگڑے سے فاصلے بڑھ جاتے ہیں۔ ایک بات اور بڑی عجیب ہے کہ آپ نکلیں اور جس مقصد کے لئے نکلیں وہ مل جائے تو پھر تنقیدیں نہیں ہوتیں۔

آپ کو اس سے بھی عجیب تر بات بتاؤں۔ صحیح بخاری، صحیح مسلم اور بہت سی کتب احادیث میں ہے کہ غزوہ احد میں جب آقا علیہ الصلوۃ والسلام پر حملہ ہوگیا تھا تو ایک ایک کرکے صحابی لڑتے رہے اور شہید ہوتے رہے۔ ایک ایسا وقت بھی آگیا کہ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حفاظت کے لئے دس بارہ رہ گئے پھر ایسا وقت آگیا کہ پانچ چھ رہ گئے، شہید ہوتے گئے۔ کفار کا گروہ منتشر کردیتا تھا اور لڑائی میں الجھا لیتا تھا۔ پھر ایک ایسا وقت آگیا کہ دو تین رہ گئے پھر ایک ایسا وقت بھی آیا کہ حضرت ام عمارہ ایک صحابیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم ہیں وہ آقا علیہ السلام کی سیکیورٹی کرنے لگیں۔ یہ نوبت بھی آگئی جیسے آج ہماری بیٹیاں دفاعی دستہ کے طور پر ڈیوٹی دیتی ہیں جبکہ لوگ انہیں طعنہ دیتے ہیں کہ تم تو عورتیں ہو، جہاد اور انقلاب میں کیوں حصہ لیتی ہو؟

وہ لوگ غور سے سن لیں! یہ آقا علیہ السلام کی سنت ہے جہاد میں صحابیات بھی جاتی تھیں۔ حتی کہ ایسے وقت بھی آئے جب غزوہ احد میں کچھ لوگ بھاگ گئے تھے اور پہاڑوں پر جاکر بیٹھ گئے تھے۔ حضرت ام ایمن رضی اللہ تعالیٰ عنہم پتھر اٹھا کر ان کے سروں اور ان کے منہ پر مارتی تھیں اور کہتی تھیں کہ شرم سے ڈوب مرو، تم مرد کہلاتے ہو؟ یہاں بیٹھے ہو جاؤ جاکر لڑو کیونکہ مرد لڑائی میں پھنس گئے تھے۔ دس دس کفار کے ساتھ ایک ایک لڑ رہا تھا، جنگ جاری تھی جب دیکھا کہ سب جنگ میں ہیں تو ایسی نوبت بھی آئی کہ حضرت ام عمارہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم آگے بڑھیں تو انہیں سر سے پاؤں تک تلواروں کے اور تیروں کے بارہ زخم لگے اور احادیث پاک میں ہے کہ آقا علیہ الصلوۃ والسلام صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو فرمایا کرتے تھے:

خدا کی قسم! میں دائیں دیکھتا، بائیں دیکھتا، سامنے دیکھتا تو مجھے وہاں بھی ام عمارہ نظر آتی تھیں (میرا دفاع کرتے ہوئے اور کافروں سے جنگ لڑتے ہوئے)۔ وہ تینوں سمتوں میں آقا علیہ السلام کی سیکورٹی کرتیں اور آقا علیہ السلام کی حفاظت کرتیں۔ پھر ان کے شوہر بھی حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیکورٹی میں تھے۔ ان کے بیٹے بھی تھے اور ان کے بھائی بھی تھے۔ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیکورٹی ان کے پورے خاندان نے سنبھال لی۔ ہماری بیٹیاں اور ہماری بہنیں جو مشن میں ہمیشہ مصطفوی انقلاب میں حصہ لیتی ہیں۔ یاد رکھیں وہ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحابیات رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی سنت پر عمل کرتی ہیں۔ بعض لوگ گھبرا کر انہیں اپنے مشن کا کام کرنے سے روکتے ہیں۔ ان کو اس عظیم سعادت سے نہ روکیں۔ یہ آقا علیہ السلام کی سنت ہے۔ اگر خواتین کا انقلاب کی جدوجہد میں حق و باطل کے معرکہ میں جانا جائز نہ ہوتا تو سب سے پہلا عمل امام حسین علیہ السلام کرتے اور وہ سیدہ زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہم، سیدہ سکینہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم اور سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو اور خانوادہ رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ساری شہزادیوں کو ساتھ لے کر کربلا نہ جاتے اور نہ مدینہ چھوڑ کر جاتے۔

انہیں معلوم تھا ایک وقت وہ بھی آئے گا جب سب شہید ہوجائیں گے تو قافلہ کربلا کی قیادت بھی سیدہ زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے ہاتھ میں ہوگی اور یزید کے دربار میں آواز بھی انہی کی گونجے گی۔ مدینہ تک قافلہ سلامتی سے وہی لے کر آئیں گی اور لیڈر شپ ان کو منتقل ہوجائے گی۔ غزوہ احد میں اور باقی مواقع پر حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم بھی شریک تھیں۔ حضرت ام سلیم رضی اللہ تعالیٰ عنہم شریک تھیں۔ حضرت ام سلیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم شریک تھیں جو انصار کی خواتین میں سے تھیں اور حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی والدہ تھیں۔ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہم خود بڑی عمر کے تھے۔ ان کی والدہ کا اندازہ کریں کہ کتنی عمر کی ہوں گی؟ وہ بھی میدان جنگ میں تھیں۔

کوئی آقا علیہ السلام کو چھوڑ کر گھر نہیں بیٹھیں پھر حضرت ربیعہ بنت مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہم یہ صحابیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم ہیں۔ یہ بھی آقا علیہ السلام کے ساتھ جہاد میں تھیں۔ کتب سیرت میں ہے کہ خواتین ہر غزوہ میں جاتی تھیں۔ زخمیوں کو پانی بھی پلاتیں، مرہم پٹیاں بھی کرتیں۔ لوگوں کا خیال ہے کہ ان کا کام پانی پلانے اور مرہم پٹیاں تک تھا مگر میں نے بتایا کہ وہ میدان جنگ میں نیزوں سے بھی لڑی ہیں۔ تیروں سے بھی لڑی ہیں اور آقا علیہ السلام کی سیکورٹی بھی کی ہے۔ ہر مجاہد والا کام خواتین نے کیا۔ یہ کلچر تھا جو آقا علیہ السلام نے امت کو دیا۔

منہاج القرآن سے وابستہ ہماری جو مائیں، بہنیں اور بیٹیاں ہیں یہ انہی صحابیات رضی اللہ تعالیٰ عنہم اور ازواج مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہم اور بنات رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اہل بیت اطہار رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی پیرو کار ہیں۔ حضرت ام سلیم رضی اللہ تعالیٰ عنہم مسلح تھیں۔ اس زمانے میں تلوار اور خنجر ہوتا تھا۔ وہ زرہ پہن کر باقاعدہ خنجر اور تلوار لے کر میدان میں جاتی تھیں۔ ان پر بھی حملہ ہوسکتا تھا وہ دفاع کرنا بھی جانتی تھیں۔ آقا علیہ السلام نے تربیت ایسی کی تھی کہ مرد ہو یا عورت، جوان ہوں یا بچے یا بوڑھے سب مجاہد تھے۔ حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی عمر مبارک مختلف روایات کے مطابق 92 سے 96 سال کے درمیان تھی (جب وہ استنبول جاکر جنگ میں حصہ لے رہے ہیں۔ ) اس سنت پر ہمارے بوڑھوں اور بزرگوں نے عمل کیا ہے یا نہیں؟

حضرت صفیہ بنت عبدالمطلب آقا علیہ الصلوۃ والسلام کی پھوپھی ہیں، وہ جب لوگ منتشر ہوئے تھے میدان جنگ میں آگے آگے تھیں۔ حضرت ام ایمن رضی اللہ تعالیٰ عنہم جو غزوہ احد میں حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیکورٹی کررہی ہیں یہ وہ خاتون تھیں کہ جب آقا علیہ السلام یتیم رہ گئے تھے اور آپ کی والدہ حضرت آمنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کا بھی ابوہ میں وصال ہوگیا تھا اور آپ کی عمر مبارک اس وقت 5 سال تھی اور چھٹا سال شروع ہورہا تھا اور تنہا رہ گئے تو حضرت ام ایمن رضی اللہ تعالیٰ عنہم جو آپ کی والدہ محترمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی خاتمہ تھیں وہ آقا علیہ الصلوۃ والسلام کی انگلی پکڑ کر آپ کو لائی تھیں۔ وہ ام ایمن غزوہ احد میں آقا علیہ السلام کی سیکورٹی کررہی ہیں۔ اندازہ کریں اس وقت ان کی عمر مبارک کیا ہوگی؟ جبکہ غزوہ احد کے وقت آقا علیہ السلام کی عمر مبارک 55 سال تھی۔ اس طرح اگر ان کی عمر جمع کریں تو وہ 65 سے 70 سال کے درمیان تھی۔ وہ بھی آقا علیہ السلام کی سیکورٹی کررہی ہیں۔ ان کا کام یہ تھا جو بھاگتا تھا (عوام میں سے) کنکریاں اٹھا کر ان کے منہ پر مارتیں اور کہتیں ’’شرم سے ڈوب مرو‘‘۔

اللہ کا شکر ہے ہمارے بزرگوں، جوانوں، بیٹوں اور ہماری ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کو اس پوری سنت پر عمل کرنے کا موقع ملا ہے۔ اللہ نے اس سنت پر گامزن کیا ہے پھر ان میں ایسی بھی تھیں جن کے شوہر شہید ہوگئے باپ شہید ہوگئے۔ بھائی شہید ہوگئے، بیٹے شہید ہوگئے۔ جب وہ واپس پلٹے تو ان کو بتایا کہ آپ کے سارے شہید ہوگئے۔ ان کا جواب یہ ہوتا تھا کہ کوئی بات نہیں سارے چلے گئے۔ مجھے بتاؤ آقا علیہ السلام کا کیا حال ہے؟

حضرت ام سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہم حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی والدہ محترمہ وہ اپنے سارے خاندان سمیت لڑ رہی تھیں۔ حضرت ام عمارہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم آقا علیہ السلام کے دفاعی دستے کی سربراہ تھیں۔ حدیث پاک میں ہے۔ طبقات ابن سعد نے بیان کیا خودام عمارہ نے دو زرہیں پہن رکھی تھیں۔ وہ کہتی ہیں اس وقت جب آقا علیہ السلام کی سیکورٹی پر آدمی کم ہوگئے تھے تو اس وقت فرنٹ پر میں تھی۔ میرے دونوں بیٹے ساتھ تھے اور میں نے ان سے کہا کہ تمہیں قبر تک معاف نہیں کروں گی جب تک تم آقاعلیہ الصلوۃ والسلام کے قدموں میں شہید نہ ہوجاؤ۔ دو جوان بیٹے بھی میرے دائیں بائیں لڑ رہے تھے۔ شوہر میرے آگے تھا۔ سارے حضور علیہ الصلوۃ والسلام پر حملہ کرنے سے بچاتے تھے۔ یہ اس وقت کی بات جب عوام بھاگے جارہے تھے۔ پھر تیروں اور تلواروں کے زخم لگے۔ حضرت نصیبہ بنت کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہم (کتنی صحابیات کو گن رہا ہوں) وہ اس مقام پر لڑ رہی ہیں اور تیروں کے تلواروں کے نیزوں کے تیرہ زخم ان کے ایک جسم پر لگے ہیں۔ آپ اندازہ کرلیں جو کافر آقا علیہ السلام پر حملہ آور ہوا وہ بے ایمان کافر، جس نے آواز بلند کی تھی کہ میں نے (نعوذ باللہ) رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو شہید کردیا ان کے ساتھ لڑ رہی تھیں اور نبرد آزما تھیں (حضرت نصیبہ بنت کعب یہ حضرت ام عمارہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کا اصل نام ہے) وہ فخر کرتی تھیں کہ احد کا دن میر افخر ہے۔ کیونکہ آقا علیہ السلام نے بآواز بلند صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے فرمایا تھا ’’میرے دائیں بائیں جدھر دیکھتا تھا میری حفاظت میں نصیبہ بنت کعب ہی لڑ رہی تھیں‘‘۔ یہ ایک جملہ جو آقا علیہ السلام نے فرمایا عمر بھر وہ اسی وجد میں رہیں۔

(جاری ہے)