امّ المؤمنین حضرت حفصہ بنت عمر رضی اللہ عنہ

ملکہ صباء

ام المومنین حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا، خلیفۃ المسلمین امیرالمومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی صاحبزادی تھیں جن کا تعلق قریش کے خاندان عدی سے تھا۔ آپ کا نسب نامہ یوں ہے: حفصہ بنت عمر فاروق بن خطّاب بن نفیل بن عبدالعزّیٰ بن رباح بن عبداللہ بن قرطہ بن زراح بن عدی بن کعب۔۔۔

آپ کی والدہ حضرت زینب بنت مظعون رضی اللہ عنہا تھیں، جو بڑی جلیل القدر صحابیہ تھیں۔ عظیم المرتبت صحابی حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ماموں تھے اور فقیہ اسلام حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ انکے حقیقی بھائی تھے۔ حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا بعثت نبوی سے پانچ سال قبل پیدا ہوئیں۔

پہلا نکاح حضرت خنیس بن حذیفہ رضی اللہ عنہ بن قیس بن عدی سے ہوا جو بنو سہم سے تھے۔ وہ دعوت حق کی ابتداء میں شرف اسلام سے بہرور ہوگئے اور حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا بھی انکے ساتھ ہی سعادت اندوز اسلام ہو گئیں۔ حضرت خنیس رضی اللہ عنہ سنہ 6 بعد بعثت ہجرت کرکے حبشہ چلے گئے۔ ہجرت نبوی صلیٰ اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم سے کچھ عرصہ پہلے مکہ واپس آئے اور پھر حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ ہجرت کرکے مدینہ تشریف لے گئے۔ وہ راہ حق کے جانباز سپاہی تھے۔ سنہ 2 ہجری میں غزوہ بدرپیش آیا تووہ اس میں بڑے جوش وجذبے کے ساتھ شریک ہوئے، پھر انہوں نے سنہ 3 ہجری میں غزوہ اْحد میں اپنی شجاعت کے جوہر دکھائے اور مردانہ وار لڑتے ہوئے شدید زخمی ہوگئے۔ اسی حالت میں انہیں مدینہ لے جایا گیا لیکن جانبر نہ ہوسکے اور حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا بیوہ ہو گئیں۔ جب ان کی عدت کا زمانہ پورا ہو گیا تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو ان کے نکاح ثانی کی فکر ہوئی۔

ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تخلیہ میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے حضرت حفصہ کا ذکر کیا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اس کا علم نہ تھا۔ چنانچہ انہوں نے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے نکاح کر لینے کیلئے کہا وہ خاموش رہے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو ناگوار گزرا۔ پھر وہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس گئے، اسی زمانے میں حضرت رقیّہ رضی اللہ عنہا بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوا تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں اپنی لخت جگر سے نکاح کر لینے کیلئے کہا۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا میں ابھی نکاح نہیں کرنا چاہتا۔ اب حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور تمام حالات بیان کئے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’حفصہ کا نکاح ایسے شخص سے کیوں نہ ہوجائے جو ابوبکر اور عثمان دونوں سے بہتر ہے۔‘‘

ایک روایت میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’حفصہ کی شادی اس شخص سے ہوگی جو عثمان سے بہتر ہے اور عثمان کا نکاح اس سے ہوگا جو حفصہ سے بہتر ہے۔‘‘

اسکے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کرلیا اور اپنی دوسری بیٹی حضرت امّ کلثوم رضی اللہ عنہا کا نکاح حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے کردیا۔ صحیح بخاری میں ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو امّ المؤمنین حضرت زینب بنت جحش کے ہاں معمول سے زیادہ دیر ہوگئی کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم وہاں شہد کھانے میں مصروف رہے جو کسی نے حضرت زینب رضی اللہ عنہا کو ہدیہ میں بھیجا تھا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو بہ تقاضائے فطرت رشک ہوا۔ چنانچہ وہ حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئیں، صورت واقعہ بیان کی اور کہا کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے پاس تشریف لائیں تو ان سے کہنا:’’یا رسول اللہ کیا آپ نے مغافیر کھایا ہے؟‘‘

یہ ایک لطیف اشارہ ہے۔ مغافیر ایک قسم کا پھول ہے جب شہد کی مکھی اسے چوستی ہے اس سے جو شہد بنتا ہے اس میں ذرا ناگوار سی بو ہوتی ہے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہر قسم کی بو ناپسند تھی۔ مقصد یہ کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زینب رضی اللہ عنہا کے ہاں سے جو شہد کھایا اسکی وجہ سے مغافیر کی بو دہن مبارک سے آتی ہے۔ حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ویسا ہی کہا۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے سخت ناپسند فرمایا کہ مغافیر کی بو آپ کے دہن مبارک سے آئے۔ فرمایا:’’ آئندہ میں کبھی شہد نہ کھؤں گا۔ اس بات پر آیت تحریم نازل ہوئی:

يٰـاَ يُّهَاالنَّبِیُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَآ اَحَلَّ اﷲُ لَکَ ج تَبْتَغِیْ مَرْضَاتَ اَزْوَاجِکَ ط وَاﷲُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ.

’’اے نبئ (مکرّم!) آپ خود کو اس چیز (یعنی شہد کے نوش کرنے) سے کیوں منع فرماتے ہیں جسے اللہ نے آپ کے لیے حلال فرما رکھا ہے۔ آپ اپنی ازواج کی (اس قدر) دلجوئی فرماتے ہیں، اور اللہ بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہے‘‘۔

(التحريم: 1)

مزاج کی فطری تیزی کے باوجود حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا نہایت خدا ترس تھیں اور اپنا بیشتر وقت عبادت الٰہی میں گزارتی تھیں۔ حافظ ابن البر رحمہ اللہ نے ’’الاستیعاب‘‘ میں یہ حدیث ان کی شان میں بیان کی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں یہ الفاظ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کہے:

’’وہ بہت عبادت کرنے والی، بہت روزے رکھنے والی ہیں، (اے محمّد) وہ جنّت میں بھی آپ صلیٰ اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی زوجہ ہیں‘‘۔

سبحان اللہ! ان کی عبادت کی تعریف حضرت جبرائیل علیہ السلام نے بھی کی۔ آپ قرآن کریم کی حافظہ تھیں اور کثرت سے قرآن کریم کی تلاوت کیا کرتی تھیں۔ نیز آپ اکثر روزے سے رہا کرتی تھیں بلکہ یہاں تک کہ حافظ ابنِ حجر نے لکھا ہے کہ

’’حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا روزے کی حالت میں فوت ہوئیں‘‘۔

(الاصابه صفحه، 562)

اور آپ ایسے احسن طریقے سے عبادت کیا کرتی تھیں کہ کثرت صوم و صلوٰۃ کی پابند تھیں۔ ابن سعد نے ان کی عبادت کے متعلق لکھا ہے ’’وہ (یعنی حفصہ رضی اللہ عنہا) صائم النہار اور قائم اللیل تھیں‘‘۔ دوسری روایت میں ہے ’’حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا انتقال کے وقت تک صائمہ تھیں‘‘ام المومنین حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا نہایت عبادت گزار تھیں‘ وہ گوشہ نشین اور پرہیز گار خاتون تھیں اور ان کا یہ حال تھا کہ اشد ضرورت کے بغیر کبھی گھر سے باہر قدم نہیں نکالا۔ آپ رضی اللہ عنہا کا زیادہ وقت عبادت میں گزرتا اگرچہ اس زمانے میں جب آپ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نکاح میں داخل ہوئیں۔ بالکل جوان تھیں مگر آپ رضی اللہ عنہا میں بزرگوں جیسی سنجیدگی اور علماء اسلام جیسا وقار تھا۔ آپ رضی اللہ عنہا کا زیادہ وقت تلاوت قرآن پاک میں صرف ہوتا۔ آپ اس کی باریکیوں کو سمجھتیں‘ ان پر غور فرماتیں اور جو نقطہ سمجھ میں نہ آتا اس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے وضاحت طلب کرتیں۔ حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا سخاوت کی دولت سے بھی مالا مال تھیں جو مال آتا اسے اللہ کی راہ میں خرچ کرکے خوشی محسوس کرتیں یہاں تک کہ اپنی جائیداد بھی وفات کے وقت اللہ عزوجل کی راہ میں صدقہ کردی۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کی تعلیم کا خاص بندوبست فرمایا۔ مسند احمد میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق حضرت شفاء بنت عبداللہ عدویہ نے ان کو لکھنا سکھایا۔ امام احمد نے یہ بھی لکھا ہے کہ حضرت شفاء نے ان کو چیونٹی کے کاٹنے کا دم بھی سکھایا۔ بعض اہل سیر نے لکھا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن حکیم کے تمام کتابت شدہ اجزاء کو یکجا کرکے حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس رکھوا دیا۔ یہ اجزاء حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد تا زندگی ان کے پاس رہے۔ یہ ایک عظیم الشّان شرف تھا جو حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کو حاصل ہوا۔

حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا دجّال کے شر سے بہت ڈرتی تھیں۔ صحیح مسلم میں روایت ہے کہ مدینہ میں ایک شخص ابن صیاد تھا۔اس میں دجّال کی بعض علامات پائی جاتی تھیں۔ ایک دن حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کو راستے میں مل گیا، انہوں نے اسکی بعض حرکتوں پر اظہار نفرت کیا۔ ابن صیاد حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کا راستہ روک کر کھڑا ہو گیا، انہوں نے اسے پیٹنا شروع کردیا۔ حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کو خبر ہوئی تو بھائی سے کہنے لگیں:

’’ تم اس سے کیوں الجھتے ہو،تمہیں معلوم نہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ دجّال کے خروج کا محرّک اس کا غصہ ہوگا۔‘‘

حضرت حفصہ نے سنہ 54 ہجری میں مدینہ منورہ میں وفات پائی۔ مدینہ کے گورنر مروان نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی اور کچھ دور تک جنازہ کو کندھا دیا۔ اسکے بعد حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ میت کو قبر تک لے گئے پھر امّ المؤمنین کے بھائی حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اور بھتیجوں نے قبر میں اتارا۔ وفات سے پہلے حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کو وصیّت کی کہ ان کی غابہ کی جائداد کو صدقہ کرکے وقف کردیں کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کی کوئی اولاد نہیں ہوئی۔

حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا علم و فضل کے لحاظ سے بھی بڑے مرتبے پر فائز تھیں۔ ان سے ساٹھ احادیث مروی ہیں۔ ان میں چار متفق علیہ ہیں۔ چھہ صحیح مسلم میں اور باقی دیگر کتب احادیث میں ہیں۔