صاحبزادہ محمد حسین آزاد الازہری

زلزلے اور اس کی تباہ کاریوں کے حوالے سے خصوصی تحریر

مصروف تھے سب اپنی زندگی کی الجھنوں میں
ذرا سی زمیں کیا ہلی سب کو خدا یاد آگیا

26 اکتوبر 2015ء کو مسجد میں نماز ظہر پڑھنے کے بعد فارغ ہوا اور صحن میں ایک نمازی کے ساتھ محو گفتگو تھا کہ یکدم زمین میں ارتعاش پیدا ہوا تو دیکھتے ہی دیکھتے مسجد میں موجود نمازی حضرات اور مسجد کے مدرسہ کے بچے باہر کی طرف تیزی سے بھاگے، راقم الحروف مدرسہ کے اندر گیا اور بآواز بلند قرآن حکیم کی تلاوت کرنا شروع کردی۔ کچھ دیر بعد جب زلزلے کے جھٹکے ختم ہوئے تو زندگی معمول پر آئی اور لوگوں کی جان میں جان آئی۔ راقم الحروف کو یہ خیال آیا کہ جس طرح زلزلے کے وقت سارے لوگ مسجد سے باہر نکلے اس طرح اذان کے وقت سارے لوگ مسجد کے لئے اپنے گھروں، دوکانوں، دفتروں، گلیوں اور بازاروں سے نکل کر مسجد کی طرف آجائیں تو شاید زلزلے آنا بند ہوجائیں۔

جب الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کو دیکھا، سنا اور پڑھا تو دل خون کے آنسو رویا کیونکہ میڈیا اور TV چینلز نے قوم کو کسی اور ہی راستے پر ڈال دیا اور زلزلے کو سائنس کا شاخسانہ قرار دیا گیا اور سائنسدانوں کو آن لائن لے کر میڈیا اینکرز نے ان کی آراء کو فوقیت دی۔ کسی نے اسے فالٹ لائنز، کسی نے گلوبل وارمنگ اور کسی نے ٹیکٹونک پلیٹس کی بات کی مگر کسی کو یہ توفیق نہیں ہوئی کہ علماء کرام اور دینی سکالرز کو بھی آن لائن لے کر حقیقت حال دریافت کی جائے کہ زلزلے کیوں آتے ہیں؟ کیا اس کائنات کا خالق و مالک ہم سے ناراض تو نہیں ہوگیا؟ کیا ہماری بداعمالیاں، ظلم و بربریت، دھوکہ دہی، کرپشن، لوٹ مار، قتل و غارتگری، بے حیائی، عریانی و فحاشی، سود خوری، چوری ڈاکہ زنی، رشوت ستانی، ذخیرہ اندوزی، زناکاری اور اب قوم لوط کا وہ عمل جس کی وجہ سے اس قوم لوط پر زلزلہ اور پتھروں کی بارش کا عذاب نازل ہوا تھا کہیں ہمارے ہاں زلزلے کے جھٹکے کا سبب یہ تو نہیں ہے مگر میں انتظار ہی کرتا رہا کہ میڈیا پر کوئی یہ بھی کہے کہ اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں پر معافی مانگیں اور توبہ و استغفار کریں۔

ایک ٹاک شو میں تو بڑا افسوسناک جملہ سننے کو ملا جب کسی شخص نے زلزلے اور سیلاب کو انسان کے گناہوں اور نافرمانیوں سے جوڑا تو دوسرے نے کہا کہ مولوی ایسی باتیں کررہے ہیں جبکہ ہمیں سائنس کے تناظر میں دیکھنا چاہئے۔ یہ نام نہاد دانشور اور اینکر پرسنز کیوں بھول گئے کہ یہ کسی مولوی کی بات نہیں بلکہ اس مولا کی بات ہے جس نے زمین و آسماں کو تخلیق فرمایا ہے اور انسان جو بھی نعمت آسائش، آزمائش اور مصیبت پہنچتی ہے وہ اسی کی طرف سے ہوتی ہے۔ قومیں جب اللہ کے فرمودات اور احکامات کی بجآوری کی بجائے حکم عدولی اور نافرمانی میں تمام حدیں پار کرجاتی ہیں تو غضب الہٰی بھڑک اٹھتا ہے اور ذلت و خواری ان قوموں کا مقدر بن جاتی ہے جس کی طرف علامہ اقبال رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اشارہ کیا تھا:

وہ معزز تھے زمانے میں مسلماں ہوکر
تم خوار ہوئے تارک قرآن ہوکر

میڈیا میں سارا زور مضبوط بلڈنگز بنانے پر لگایا گیا تاکہ زلزلے سے بچا جاسکے۔ اس پر سوال یہ ہے کہ کیا مضبوط بلڈنگز رکھنے والے جاپان نے اس سونامی کو روک لیا تھا جو گھروں کے گھر اور بستیوں کی بستیاں بہاکر لے گیا اور پھر کیا سپر پاور امریکہ نے تباہی پھیلانے والی ہواؤں پر قابو پالیا تھا جس کی وجہ سے آن واحد میں سینکڑوں لوگ صفحہ ہستی سے ہمیشہ کے لئے مٹ گئے۔ اللہ تعالیٰ کی لاٹھی بڑی بے آواز ہے۔ ظالم لوگ جب اس کے غضب کو دعوت دیتے ہیں تو وہ ان کا نام و نشان مٹادیتا ہے۔ اس لئے حضرت سیدنا علی المرتضیٰ شیر خدا کرم اللہ وجہہ الکریم نے فرمایا کہ کفر کی حکومت قائم رہ سکتی ہے مگر ظالم کی حکومت قائم نہیں رہتی۔ جس ملک سے عدل و انصاف رخصت ہوجائے اور انصاف کا جنازہ نکال دیا جائے سانحہ پشاور، سانحہ صفوراء اور ریاستی دہشت گردی کرتے ہوئے سانحہ ماڈل ٹاؤن ہو۔ نہتے عوام اور پردہ دار خواتین کو سیدھی گولیاں چلاکر دن دیہاڑے قتل عام کیا جائے اور مجرم دندناتے پھریں اور مظلوموں کو انصاف نہ ملے تو پھر اللہ کا غضب زلزلوں، سیلابوں اور مصیبتوں کی صورت میں نمودار نہ ہو تو کیا ہو۔

ایک وہ دور تھا جب سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ جیسا عادل حکمران جسے زمین پر خدا کا سایہ کہا گیا ہے ایک جہاد کے سفر سے واپس پہنچتے ہیں تو آپ کا غلام اونٹ پر سوار ہے اور وہ خود اونٹ کے لگام تھامے پیدل چل رہے ہیں کیونکہ خادم کے اونٹ پر سوار ہونے کی باری تھی۔

زمانے بھرنے دیکھا یہ نظام عدل کا منظر
کہ خادم اونٹ پر ہے اور برزمین فاروق اعظم ہیں

لہذا کاش پاکستان کے دارالحکومت میں حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ جیسا حکمران موجود ہوتا تو جب زلزلہ آتا تو زمین پر پاؤں مار کر کہتا کہ اے زمین! تو ہلتی کیوں ہے کیا عمر تیرے اوپر انصاف نہیں کرتا؟ تو زمین فوراً ٹھہر جاتی۔ اب ہم قرآن و حدیث اور سائنس کی روشنی میں جائزہ لیں گے کہ زلزلے کیوں آتے ہیں؟ اس کے اسباب کیا ہیں؟ تاریخ کیا ہے ؟ اور ہمیں کیا کرنا چاہئے؟

زلزلہ کیا ہے؟

زمین کے اندر تہوں میں چٹانوں کے درمیان عرصے سے جاری حرکات کے باعث پیدا ہونے والی توانائی کے اخراج سے سطح زمین پر پیدا ہونے والی ہلچل کا نام زلزلہ ہے۔ زلزلے قدرتی آفات میں سب سے ہولناک اور تباہ کن تصور کئے جاتے ہیں۔ یہ اچانک آتے ہیں اور پلک جھپکتے ہی بے شمار انسانوں اور بستیوں کو تباہ و برباد کردیتے ہیں۔

زلزلے اور سائنس

سائنسدانوں کی جدید ریسرچ کے مطابق فالٹ کی تین قسمیں ہیں:

  1. نارمل فالٹ
  2. تھرسٹ فالٹ
  3. اسٹرائیک سلپ فالٹ

چونکہ فالٹ کا تعلق چٹانوں سے ہے اس لئے ان چٹانوں پر اسٹریس تینوں طرح سے اثر انداز ہوتا ہے اور یہ تینوں قسمیں الگ الگ قسم کے فالٹ بناتی ہیں۔

نارمل فالٹ میں عموماً دو متوازی یا مخالف زیر زمیں تہہ کے سرے ایک دوسرے کا دباؤ نہ برداشت کرتے ہوئے ایسی جگہ سے ملنے کی کوشش کرتے ہیں جہاں دباؤ نسبتاً کم ہوتا ہے اس وجہ سے زلزلہ پیدا ہوتا ہے۔ تھرسٹ فالٹ میں فالٹس سے کچھ دور اس تہہ کے نیچے تبدیلی واقع ہوتی ہے اور جس تہہ کے نیچے تبدیلی نہ ہو وہ اپنے دباؤ سے تہہ کو ایک جھٹکے سے دوسری طرف یا مخالف سمت میں دباتی ہے جس کی وجہ سے وہ جگہ زلزلے کا شکار ہوجاتی ہے۔ ایسی فالٹ میں مرکز کہیں اور زلزلہ کہیں اور واقع ہوتا ہے۔

اسٹرائیک سلپ فالٹ میں زمین کی ایک تہہ دوسری تہہ پر چڑھ دوڑتی ہے جس سے زبردست زلزلہ پیدا ہوتا ہے اور زمین میں دراڑیں پڑ جاتی ہیں۔

زلزلوں کی تاریخ

زلزلوں کے حوالے سے تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ آج سے 20کروڑ سال پہلے سائبیریا کے علاقے میں ہزاروں آتش فشاں بیک وقت پھٹ پڑے جن کی وجہ سے انتہائی ہولناک زلزلوں نے جنم لیا اور اس زمانے میں زمین پر جو بھی مخلوق آباد تھی وہ نیست و نابود ہوگئی پھر تقریباً چھ کروڑ سال پہلے زمین پر ایک اور ہولناک زلزلہ آیا جو ایک شہابیہ کے زمین پر ٹکرانے سے معرض وجود میں آیا جو تقریباً 10 مربع کلومیٹر لمبا تھا۔ اس کی وجہ سے اس وقت کی زمینی مخلوق ڈائینو سارس اس تباہ کن زلزلے کی وجہ سے صفحہ ہستی سے مٹ گئی۔ اس کے بعد دوسر ابڑا زلزلہ آج سے پچاس ہزار سال پہلے آیا جب انسان سے ملتی جلتی دو پاؤں پر چلنے والی مخلوق اس کی وجہ سے نیست و نابود ہوگئی۔ اسی طرح کی تین اور بڑے زلزلے بھی آچکے ہیں جس کی تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ ہر 26 ملین سال بعد زمین پر اس قسم کی تباہی ضرور ہوتی ہے۔

علاوہ ازیں جغرافیہ اور تاریخ کے اعداد و شمار ہمیں بتاتے ہیں کہ دنیا کے بہت سے مقامات پر چھوٹے چھوٹے زلزلے آتے رہے ہیں جن میں لاکھوں افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں اور اربوں کھربوں ڈالر کا مالی نقصان بھی ہوچکا ہے جس کی وجہ سے زمین پر عجیب و غریب اور حیرت انگیز کیمیائی تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں۔

زلزلے کیوں آتے ہیں؟ قرآن کی روشنی میں

اللہ تعالیٰ کی طرف سے عذاب الہٰی مختلف قوموں پر مختلف شکلوں میں ظاہر ہوتا ہے جس میں زلزلے، طوفان، سیلاب، قحط و خشک سالی کے علاوہ دیگر زمینی و آسمانی آفات و بلیات شامل ہیں جس کا بنیادی سبب اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولوں اور نبیوں کی نافرمانی اور ان قوموں کی اپنی بداعمالیوں کو قرار دیا گیا ہے۔ جن کا ذکر قرآن حکیم میں مختلف سورتوں اور آیات میں ملتا ہے جن میں سے چند آیات، عرفان القرآن کے ترجمے کے ساتھ درج کی جارہی ہیں۔

سورہ روم میں ارشاد خداوند ہے:

ظَهَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا کَسَبَتْ اَيْدِی النَّاسِ لِيُذِيْقَهُمْ بَعْضَ الَّذِيْ عَمِلُوْا لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُوْنَo

(الروم، 30: 41)

’’بحر و بر میں فساد ان (گناہوں) کے باعث پھیل گیا ہے جو لوگوں کے ہاتھوں نے کما رکھے ہیں تاکہ (اﷲ) انہیں بعض (برے) اعمال کا مزہ چکھا دے جو انہوں نے کیے ہیں، تاکہ وہ باز آ جائیں‘‘۔

اسی طرح سورہ الشوریٰ میں ارشاد خداوندی ہے:

وَمَآ اَصَابَکُمْ مِّنْ مُّصِيْبَةٍ فَبِمَا کَسَبَتْ يْدِيْکُمْ وَيَعْفُوْا عَنْ کَثِيْرٍ.

(الشوریٰ، 42: 30)

’’اور جو مصیبت بھی تم کو پہنچتی ہے تو اُس (بد اعمالی) کے سبب سے ہی (پہنچتی ہے) جو تمہارے ہاتھوں نے کمائی ہوتی ہے حالاں کہ بہت سی(کوتاہیوں) سے تو وہ درگزر بھی فرما دیتا ہے‘‘۔

زلزلے اور قدرتی آفات محض عذاب الہٰی ہی نہیں بلکہ یہ بندوں پر آزمائش کی صورت میں بھی نازل ہوتی ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ سے توبہ و استغفار اور بخشش و مغفرت کے ساتھ رجوع کرنا چاہئے۔ اس آزمائش کا ذکر قرآن پاک کی درج ذیل آیات سے ظاہر ہوتا ہے۔

سورہ یونس میں ارشاد خداوندی ہے:

اَوَلاَ يَرَوْنَ اَنَّهُمْ يُفْتَنُوْنَ فِيْ کُلِّ عَامٍ مَّرَّةً اَوْ مَرَّتَيْنِ ثُمَّ لَا يَتُوْبُوْنَ وَلَهُمْ يَذَّکَّرُوْنَo

(التوبة، 9: 126)

’’کیا وہ نہیں دیکھتے کہ وہ ہر سال میں ایک بار یا دو بار مصیبت میں مبتلا کیے جاتے ہیں پھر (بھی) وہ توبہ نہیں کرتے اور نہ ہی وہ نصیحت پکڑتے ہیں‘‘۔

اسی طرح سورہ نور میں ارشاد خداوندی ہے:

اِنَّ الَّذِيْنَ يُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِيْعَ الْفَاحِشَةُ فِی الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌلا فِی الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَةِ ط وَاﷲُ يَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَo وَلَوْ لَا فَضْلُ اﷲِ عَلَيْکُمْ وَرَحْمَتُهُ وَاَنَّ اﷲَ رَؤُفٌ رَّحِيْمٌo

(النور، 24: 19تا20)

’’بے شک جو لوگ اس بات کو پسند کرتے ہیں کہ مسلمانوں میں بے حیائی پھیلے ان کے لیے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہے، اور اللہ (ایسے لوگوں کے عزائم کو) جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔ اور اگر تم پر (اس رسولِ مکرّم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صدقہ میں) اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو (تم بھی پہلی امتوں کی طرح تباہ کر دیے جاتے) مگر اللہ بڑا شفیق بڑا رحم فرمانے والا ہے‘‘۔

اسی طرح سورہ الانفال میں رحمۃ للعالمین صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صدقے اور طفیل غیرمسلموں اور کافروں پر ان کی نافرمانیوں کے باوجود سابقہ قوموں کی طرح عذاب نازل نہ کرنے کے بارے میں یوں ارشاد فرمایا گیا:

وَاِذْ قَالُوا اللّٰهُمَّ اِنْ کَانَ هٰذَا هُوَ الْحَقَّ مِنْ عِنْدِکَ فَاَمْطِرْ عَلَيْنَا حِجَارَةً مِّنَ السَّمَآءِ اَوِائْتِنَا بِعَذَابٍ اَلِيْمٍo وَمَا کَانَ اﷲُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَاَنْتَ فِيْهِمْ ط وَمَا کَانَ اﷲُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُوْنَo وَمَا لَهُمْ اَلَّا يُعَذِّبَهُمُ اﷲُ وَهُمْ يَصُدُّوْنَ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَمَا کَانُوْا اَوْلِيَآئَهُ ط اِنْ اَوْلِيَآئُهُ اِلَّا الْمُتَّقُوْنَ وَلٰـکِنَّ اَکْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُوْنَo

(الانفال، 8: 32 تا 34)

’’اور جب انہوں نے (طعناً) کہا: اے اللہ! اگر یہی (قرآن) تیری طرف سے حق ہے تو (اس کی نافرمانی کے باعث) ہم پر آسمان سے پتھر برسا دے یا ہم پر کوئی دردناک عذاب بھیج دےo اور (درحقیقت بات یہ ہے کہ) اللہ کی یہ شان نہیں کہ ان پر عذاب فرمائے درآنحالیکہ (اے حبیبِ مکرّم!) آپ بھی ان میں (موجود) ہوں، اور نہ ہی اللہ ایسی حالت میں ان پر عذاب فرمانے والا ہے کہ وہ (اس سے) مغفرت طلب کر رہے ہوںo (آپ کی ہجرتِ مدینہ کے بعد مکہ کے) ان (کافروں) کے لیے اور کیا وجہ ہوسکتی ہے کہ اللہ انہیں (اب) عذاب نہ دے حالاں کہ وہ (لوگوں کو) مسجدِ حرام (یعنی کعبۃ اللہ) سے روکتے ہیں اور وہ اس کے ولی (یا متولّی) ہونے کے اہل بھی نہیں، اس کے اولیاء (یعنی دوست) تو صرف پرہیزگار لوگ ہوتے ہیں مگر ان میں سے اکثر (اس حقیقت کو) جانتے ہی نہیں‘‘۔

زلزلے، قرب قیامت کی نشانی اور سورہ الزلزال

اللہ رب العزت نے قرآن کریم کی سورہ الزلزال کی پہلی چند آیات میں قرب قیامت کی بڑی نشانیوں میں سے ایک ہولناک زلزلے کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:

اِذَا زُلْزِلَتِ الْاَرْضُ زِلْزَالَهَاo وَ اَخْرَجَتِ الْاَرْضُ اَثْقَالَهَاo وَقَالَ الْاِنْسَانُ مَالَهَاo

(الزلزال، 99: 1تا3)

’’جب زمین اپنے سخت بھونچال سے بڑی شدت کے ساتھ تھرتھرائی جائے گی۔ اور زمین اپنے (سب) بوجھ نکال باہر پھینکے گی۔ اور انسان (حیران و ششدر ہو کر) کہے گا: اسے کیا ہوگیا ہے۔ ‘‘

مفسرین کرام نے فرمایا ہے کہ ان آیات مقدسہ میں ایک ایسے زلزلے کا ذکر کیا گیا ہے جو پوری روئے زمین پر آئے گا اور قیامت برپا کردے گا اور اس ہیبت ناک اور خوفناک زلزلے سے زمین کا کوئی حصہ محفوظ نہیں رہے گا جس کے نتیجے میں پوری زمین کو ہموار کردیا جائے گا اور ایسا نفخ ثانی کے بعد ہوگا مگر اس سے قبل چھوٹے زلزلے آئیں گے جو قرب قیامت کی نشانیوں میں سے ہوں گے اور جو کثرت سے رونما ہوں گے۔

زلزلے کیوں آتے ہیں؟ احادیث کی روشنی میں

امام بخاری نے اپنی کتاب الصحیح البخاری کتاب الاستسقاء باب ماقبل فی الزلازل والایات میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ایک روایت نقل کی ہے جس میں رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ قیامت اس وقت تک نہیں آئے گی جب تک علم کو اٹھا نہیں لیا جاتا۔ اس وقت کثرت سے زلزلے آئیں گے۔ ایک زمانہ دوسرے کے قریب تر ہوگا، فتنہ و فساد ظاہر ہوگا، ہرج میں اضافہ ہوگا یہاں تک کہ مال و دولت کی فراوانی اس طر ح ہوگی جیسے ابل پڑے گی۔

جامع ترمذی میں معروف صحابی حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی سے مروی دوسری حدیث مبارکہ میں رسول اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قرب قیامت کی نشانیوں کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ جب مال غنیمت کو گھر کی دولت سمجھا جانے لگے، امانت میں خیانت کی جائے، زکوٰۃ کو بوجھ سمجھا جائے، دینی تعلیم دنیا کے لئے حاصل کی جائے، آدمی بیوی کی اطاعت کرنے لگے، اولاد ماں کو ستانے لگے، دوستوں کو قریب اور والدین کو دور کردیا جائے، انسان سے ڈر کر اس کی عزت کی جانے لگے، گانے بجانے والی عورتیں اور سامان تعیش کی کثرت ہوجائے، شرابیں پی جانے لگیں، امت کے بعد میں آنے والے لوگ پہلے لوگوں پر لعنت ملامت کرنے لگیں تو پھر اس زمانے میں سرخ آندھیوں اور زلزلوں کا انتظار کرو اور زمین میں دھنس جانے اور صورتیں مسخ ہوجانے اور آسمان سے پتھر برسنے کے بھی منتظر رہو اور دیگر آفتاب و بلیات اور نشانیوں کا انتظار کرو جو اس طرح ظاہر ہوں گی جیسے کسی لڑی کا دھاگہ ٹوٹ جائے تو لگاتار اس کے دانیں گرتے رہتے ہیں۔

صحابی رسول حضرت سیدنا انس ابن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک مرتبہ صدیقہ کائنات ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے دریافت کیا کہ زلزلہ کیوں آتا ہے؟ ام المومنین نے فرمایا جب لوگ زنا کو حلال کرلیں، شراب پینے لگیں اور گانے بجانے کے مشغلہ کو اپنالیں تو پھر اللہ کی غیرت جوش میں آتی ہے اور زمین کو حکم ہوتا ہے کہ زلزلہ بپا کردے۔ اگر اس علاقے کے لوگ توبہ و استغفار کرلیں اور اپنی بداعمالیوں سے باز آجائیں تو ان کے حق میں بہتر ہے ورنہ ان کے لئے ہلاکت ہے۔

فقیہ امت حضرت سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں ایک مرتبہ کوفہ میں زلزلہ آیا تو انہوں نے اعلان عام کیا کہ اے لوگو! یقینا تمہارا رب تم سے ناراض ہوگیا ہے اگر اس کی رضا مندی چاہتے ہو تو فوری اس کی طرف رجوع کرو اور اجتماعی توبہ کرو وگرنہ اسے یہ پرواہ ہرگز نہیں ہوگی کہ تم کس وادی میں ہلاک ہوتے ہو۔

عمر ثانی عادل حکمران حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ایک مرتبہ جب زلزلہ آیا تو اپنے تمام گورنروں کو ایک خصوصی پیغام بھیجا جس میں آپ نے فرمایا کہ سنو اور اچھی طرح جان لو کہ زلزلے کے جھٹکے سزاکے طور پر آتے ہیں لہذا تم لوگ صدقہ و خیرات کرتے رہو اور توبہ و استغفار میں لگے رہو اور حضرت آدم علیہ السلام کی یہ دعا مانگتے رہو۔

قَالَا رَبَّنَا ظَلَمْنَـآ اَنْفُسَنَا وَاِنْ لََّمْ تَغْفِرْلَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِيْنَo

(الاعراف، 7: 23)

’’دونوں نے عرض کیا: اے ہمارے رب! ہم نے اپنی جانوں پر زیادتی کی۔ اور اگر تو نے ہم کو نہ بخشا اور ہم پر رحم (نہ) فرمایا تو ہم یقینا نقصان اٹھانے والوں میں سے ہو جائیں گے‘‘۔

پیغام: عبرت و نصیحت اور خدمت انسانیت

مذکورہ بالا دلائل و براہین سے یہ امر روز روشن کی طرح عیاں ہوگیا کہ زلزلے اور دیگر قدرتی آفات محض عذاب الہٰی ہی نہیں بلکہ اللہ کے نیک و پارسا بندوں پر آزمائش بھی ہیں۔ لہذا اس کے مصائب و آلام سے بچنے کے لئے ہم کو بحیثیت قوم سابقہ قوموں کے واقعات سے عبرت حاصل کرنی چاہئے اور ان قرآنی واقعات کا مطالعہ کرنا چاہئے جو ان نافرمان قوموں پر غضب الہٰی کے نزول کا سبب بنے اور جہاں بھی یہ قہر خداوندی بپا ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع اور اجتماعی توبہ و استغفار کے ساتھ ساتھ، آفت زدہ علاقوں میں بلاتفریق مذہب و ملت بحیثیت انسان ہمیں چاہئے کہ ان بے یارو مددگار سسکتے انسانوں پر مصیبت و آزمائش کے ان پرکٹھن لمحات میں اپنی رفاحی و فلاحی خدمات بڑھ چڑھ کر پیش کریں۔ بقول شاعر

یہی ہے عبادت یہی ہے دین و ایماں
کہ کام آئے دنیا میں انساں کے انساں